زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
میرے دریا حریف کی صفوں سے گزر کر مجھ تک پہنچے
میں نے ہمیشہ جوٹھا پانی پیا
مجھے ایک موسم بارشوں کے نام پر خالی چھوڑنا پڑا
میرے لیے وصیت نامہ اس نے چھوڑا
جو کبھی بارشوں میں ننگے پاؤں نہیں پھرا
مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے گود میں لیے ایک عورت گھڑسواروں کے آگے گڑگڑا رہی تھی
اور جو گھوڑے کے نتھنوں سے نکلنے والی بھاپ سے
اپنا چہرہ بچانے کی کوشش عمر بھر کرتی رہتی ہے
مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے اس کی ماں نے پالنے میں رسیوں سے باندھ رکھا تھا
میں اپنی ماں کی گود
اور اپنے پالنے سے بار بار گر جاتا تھا
کیونکہ میں ایک کنویں میں پیدا ہوا تھا
جس کو کبھی پانی سے نہیں بھرا گیا
اور ایک مکان میں رہنے لگا
جو ایک کشتی کے ٹوٹے ہوئے تختوں سے بنایا گیا تھا
میں نے سرکنڈوں کی کشتی بنائی
اور اسے پتھر کے چپوؤں سے کھیا
میں نے اس کے شہر کے غیرآباد ساحل پر
ایک فصل بوئی
اور ایک کاٹی
ہاتھی دانت کا چاند
سوسن کے پھولوں کی نگہبانی کرتا ہے
وہ اپنے شہد اور روغن کے مرتبانوں کی نگرانی کرتی ہے
پتا نہیں
میرے آسمان پر ہاتھی دانت کا چاند بھی اسی نے دریافت کیا ہو
جیسا کہ اس نے میرے لیے قطب ستارہ دریافت کیا
اور پرانی نہر کھدوائی
مجھے پتا ہے
کہ اس کا باپ
منہیارے سے سوداگر کس طرح بن جاتا ہے
کس طرح
میں رقص گاہ میں اس تک درخواست لیے جاتے جاتے
نرسنگھا بجا کر خیرات دینے والوں کے سامنے
قطار میں کھڑا ہو جاتا ہوں
حالانکہ
میں تو وہ ہوں
جو گیلی سیڑھیوں پر
سورج کا راستہ روکنے کے لیے ہے
اس دن بھی
جب آگ دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے
اگر بیل سے انگوروں کا انبار ناند میں منتقل ہو جائے
اس کی وادیوں کو دوہا نہ جائے اور
ان کا اون اتار نہ لیا جائے
تو اسے کہنا
کوئی قیدی کسی ناراض دیوتا پر قربان کر دیا گیا
اور
یہ موقع وہ تھا
جب مائیں اپنے پہلوٹی کے بچے
رتھوں کے آگے لٹا دیتیں
میں ایک جلائے ہوئے شہر میں لایا گیا ہوں
شہر وہی اچھے ہیں
جو لڑکیوں کے نام پر بسائے اور دیوتاؤں کے نام پر جلائے جائیں
لڑکیاں وہی خوبصورت ہیں
جو اُدھڑی ہوئی قبروں میں سے نکلے ہوئے ہاتھوں پر
فصل میں پہلی بار توڑے ہوئے پھل رکھتی چلی جائیں
اگر شاعری محبت کی کفایت کرتی
تو میں سمندر کے دونوں کناروں کو اپنی شاعری سے جوڑ دیتا
مگر امان نامہ میرے ہاتھوں میں ہے
اور اس کے خداوند کے اہلکار
میری پناہ گاہ ڈھا رہے ہیں
کیا یہ سمندر میرا پردیس رہ سکے گا
جو مجھے یقین دلاتا تھا کہ میں
جب تک اس کے کناروں پر رہوں گا
آدم زاد جیسا رہوں گا
پتا نہیں کب وہ جہاز آ کے رکے
جس کا ناخدا میرے لیے الاؤ روشن کرتا
پتا نہیں کب
وہ دیوی جو اس شہر کی مالکہ ہے
مجھے اپنی خوشنودی عطا کرے
کہ میں ان کے لشکر کے ساتھ نہیں تھا
جنھوں نے اس کی کارواں سرایوں میں صرف ایک رات گزاری
جب دعا سے پہلے
سیب میں خوشبو
اور بددعا سے پہلے
سانپ میں زہر پیدا ہو جائے
کسی جلے ہوئے شہر کے پتھروں سے
کوئی جلا ہوا شہر بن رہا ہو
میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں —
یہ سمندر پسپا ہو جائے گا
اور بستیوں پر چڑھ آئے گا
جیسا کہ سمندروں کا دستور ہے
اس کے شہر میں صرف ایک عورت بچے گی
جو وہ ہو گی
اور ایک خواجہ سرا بچے گا
جو کوئی بھی ہو سکتا ہے
شاید
اس کے دل میں
کوئی شہتوت کا پیڑ نہیں تھا
مگر میرا دل
ایک ریشم کا کیڑا ہے
میں اس کیڑے کو اپنے شناخت نامے سے نکال چکا ہوں
اور اس کے ساتھ ساتھ
رینگتا ہوں
’’اب جو میرے ساتھ نہیں
وہ میرے خلاف ہے ‘‘—