“بہت جلد ہم شادی کر لیں گے رافی میں بس مناسب وقت کے انتظار میں ہوں اور وہ مناسب وقت بہت قریب ہے” پروفیسر آزاد نے چائے کا سپ لیتے ہوئے رافیعہ سے کہا۔ وہ پیار سے رافیعہ کو رافی بلاتا تھا اور رافیعہ اسے اکیلے میں ہمیشہ آزاد کہہ کر بات کرتی تھی۔
آزاد آپ جانتے ہیں کہ آپ کے بارے میں لڑکیاں کیا کیا باتیں کرتی رہتی ہیں، رافیعہ چائے کا کپ ختم کرتے ہوئے بولی۔
تو مطلب میری رافی اب ان سب سے جیلس ہونے لگی ہے۔ پروفیسر آزاد رافیعہ کو چھیڑنے والے انداز میں مسکراتے ہوئے بولے۔
” آزاد میرے لئے اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی کہ یونیورسٹی کی ساری لڑکیاں جس شخص سے بات کرنے کے لئے تڑپتی ہیں وہ میرے لئے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر لاتا ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اس سے بے انتہا محبت کرتی ہوں۔میرے لئے یہ مقام حسد کا نہیں شکر کا ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے آپ جیسے اچھے انسان کا ساتھ ملا ہے۔ جتنے آپ شکل وصورت کے لحاظ سے خوبصورت ہیں اتنے ہی آپ دل کے بھی خوبصورت ہیں”۔ رافیعہ نے تفصیلی جواب دیا اور کچن کی طرف چل دی اور چائے کے دو اور کپ بھر کر لے آئی۔
” تو اس کا مطلب اگر میں ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے خوبصورت نہ بھی ہوتا جیسا کہ لوگ مجھے خوبصورت سمجھتے ہیں تو پھر بھی تمہیں مجھ سے اتنی ہی محبت ہوتی ” پروفیسر آزاد نے رافیعہ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔
اس سے زیادہ ہوتی اس سے کم نہ ہوتی ، رافیعہ اُسی روانی کے ساتھ بولی۔
تو پھر باراک اوباما کے بارے میں آپ کا کیا خیال تھا مس رافی صاحبہ۔
اوہو۔۔۔ بھئی اب تو وہ صاحب شادی شدہ بچوں والے ہیں اور صدر بھی نہ رہے، ہاں البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا اگر اُس میں تھوڑی سی بھی عقل ہوتی۔
رافیعہ کے جواب پر دونوں کھلکھلا کر ہنس دیئے۔
موجودہ دن
“رافیعہ یہ بات بار بار سامنے آ رہی ہے کہ پروفیسر آزاد اور آپ کے درمیان کوئی افیئر چل رہا تھا” اینکر نے پروگرام شروع ہوتے ہی رافیعہ سے سب سے پہلا سوال پوچھا۔ یہ تیسرا پروگرام تھا جس میں یہ سوال رافیعہ سے پوچھا جا رہا تھا جسے وہ ہر بار انکار کر دیتی یا کوئی اور بات کر کے بات ٹال دیتی لیکن صحافی بال کی کھال نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں۔
” ایسی کوئی بات نہیں ہے، وہ فقط میرے استاد ہیں اور کسی کی ذاتی زندگی کو دنیا کے سامنے بحث کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اور ویسے بھی ابھی آزاد کو۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب سر آزاد کو ہم سب کی دعاؤں اور مدد کی ضرورت ہے نہ کہ ان کے کردار کو موضوع بنانے کی”۔ رافیعہ نے سخت لہجے میں جواب دیا۔
پورے پروگرام میں صحافی نے زیادہ تر باتیں پروفیسر آزاد کی ذاتی زندگی کے متعلق ہی کیں اور بہت جگہوں پر رافیعہ کے جوابات نے اُس کے اور پروفیسر کے درمیان تعلق کے حوالے سے لوگوں کے اندر شکوک وشبہات پیدا کر دیئے اور پروگرام کے آخر میں صحافی نے طنزاً کہا ” ہم سب کو آزاد کے۔۔۔۔۔سوری میرا مطلب سر آزاد کے لئے دعا کرنی چاہیے کہ وہ خیر خیریت سے واپس آئیں” ۔
اب میڈیا پر پروفیسر آزاد کے ساتھ ساتھ رافیعہ بھی بحث ہونا شروع ہو گئی۔
“سر میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ پیچیدہ کیس نہیں دیکھا، ملزموں کا سوائے ایک دھندلے سے CCTV فوٹیج کے علاؤہ تو پتہ تک نہیں کہ کون ہیں کیا چاہتے ہیں۔ اور پروفیسر بیچارہ، وہ اتنا شریف انسان، اس نے آج تک کوئی مچھر نہیں مارا ہوگا اور آج وہ اتنے بڑے مسئلے میں پھنس گیا” حامد علی خان کی ٹیم کا ایک افسر بولا۔
” سر آپ سن رہے ہیں”
حامد جو کہ مسلسل ڈسک پر پڑے پتھر کو گھورے جا رہا تھا۔
سر
ہاں
“پیچیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان جتنا پیچیدہ ہوتا ہے اُتنا ہی خطرناک ہوتا ہے اور جتنا خطرناک ہوتا ہے اتنا ہی بےوقوف ہوتا ہے اور بے وقوف لوگ غلطیاں ضرور کرتے ہیں۔ اِنہوں نے بھی ضرور کی ہوں گی بس ان کی وہی غلطیاں ہمیں ان کے ٹھکانے تک لے جائیں گی” حامد نے پتھر کو ہی گھورتے ہوئے جواب دیا ۔
“ناظرین ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز ملی ہے کہ بیس دن پہلے ملک کے دارالحکومت کے سینٹرل جیل سے دو قیدی فرار ہوئے ہیں جو کوئی عام قیدی نہیں ہیں بلکہ قتل کے مختلف مقدمات میں انہیں عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا کا حکم تھا۔ اور اس سے بھی بڑی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ پروفیسر آزاد کے اغواء میں بھی انہیں لوگوں کا ہاتھ ملوث ہونے کی خبریں ہو رہی ہیں جسے انٹیلیجنس حکام نے باقاعدہ طور پر تصدیق بھی کیا ہے اور اُن دونوں قیدیوں کی تصاویر بھی جاری کر دی گئی ہیں جن کی اطلاع دینے والے کو تیس لاکھ روپے کا انعام بھی دیا جائے گا”
اب ٹی وی پر دونوں قیدیوں کی تصویر دکھائی جا رہی تھی ۔ تصویر سے ہرگز نہیں لگ رہا تھا کہ اتنے معصوم نظر آتے یہ دونوں شخص تین لوگوں کا خون کر چکے ہیں۔
اغواء سے ایک دن پہلے
“بیٹا گو کہ یہ بات بڑے کرتے ہیں لیکن تمہارے چونکہ والدین حیات نہیں ہیں اور ان کے علاؤہ تمہارا کوئی ہے نہیں تو ہمیں بہت دکھ بھی ہو رہا ہے کہ کاش تمہارے والدین بھی اس خوشی میں شریک ہوتے ” رافیعہ کی ماں نے پروفیسر آزاد کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے کہا۔
پروفیسر آزاد آج اپنے اور رافیعہ کے رشتے کی بات کرنے رافیعہ کے گھر آیا ہوا تھا ۔رافیعہ کے گھر والوں کو آزاد بہت پسند آیا۔
کیسے نہ پسند آتا، پروفیسر آزاد جیسا اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش اخلاق، خوش شکل، اچھی نوکری کا حامل جس سے پچاسوں لڑکیاں شادی کرنے کے خواب دیکھ رہی تھیں وہ خود رافیعہ کا رشتہ مانگنے اس کے گھر آیا ہوا تھا۔
“آپ دونوں بھی میرے لئے میرے والدین کے جیسے ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہو رہا جیسے میں اپنے گھر اپنوں کے ساتھ بیٹھا ہوں” آزاد نے رافیعہ کے والدین سے کہا۔ رافیعہ کے والدین نے خوشی خوشی رشتے کے لئے ہاں کر دی اور شادی کی تاریخ دس دن بعد مقرر کی گئی۔
کھانے کے بعد سب لوگ شاپنگ پہ چلے گئے۔
رافیعہ اور آزاد ایک دوسرے کے ساتھ اتنے اچھے لگ رہے تھے کہ وہ جہاں بھی جاتے لوگ انہیں مڑ مڑ کر دیکھتے۔ رافیعہ بہت خوش تھی کیونکہ جتنی محبت وہ آزاد سے کرتی تھی اسے لگا جیسے اسے ساری دنیا مل گئی۔
شاپنگ مال سے سارا دن شاپنگ کرنے کے بعد سب لوگوں نے کھانا باہر ہی کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانے کا فیصلہ کیا ۔
کھانا آرڈر کرنے کے لئے سب نے مینیو کارڈ آزاد کو تھما دیا اور آزاد نے وہ مینیو کارڈ رافیعہ کو دیتے ہوئے کہا کہ ” رافی سب جانتی ہے کہ میں کیا کھاتا ہوں”۔
اور میرے خیال میں آپ بھی جانتے ہیں کہ رافی کیا کھاتی ہے، رافیعہ نے دوسرا کارڈ آزاد کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
دونوں نے ایک دوسری کی پسند کا کھانا آرڈر کیا اور سب نے وہی کھانا کھایا۔ کیونکہ آج اُن کا دن تھا۔
“بہت دیر ہو گئی ہے مجھے اجازت دیں کل میری کلاس بھی ہے” رافیعہ اور اس کے والدین کے اصرار کے باوجود بھی کہ وہ رات وہیں ان کے گھر رہ جائے آزاد نہ مانا۔
خیال سے جانا اور اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا، رافیعہ آزاد کو دروازے تک چھوڑنے آئی۔
تم جانتی ہو نا کہ مجھ سے اپنا خیال نہیں رکھا جاتا اسی لئے تو تم سے شادی کر رہا ہوں تاکہ تم میرا خیال رکھو آزاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“اچھا آپ کا خیال میں رکھوں تو پھر میرا خیال کون رکھے گا” رافیعہ بولی۔
“آپ ہی کا خیال رکھنے کے لئے تو اِس آزاد نے خود کو آپ کی اسیری میں دیا ہے شہزادی صاحبہ” ۔
میرے خیال میں یہاں کوئی رومیو جولیٹ کی شوٹنگ نہیں چل رہی سر آزاد صاحب ، رافیعہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اب جائیں ویسے ہی اتنی سردی ہے باہر ، اور کیب تو منگوا لی تھی نا آپ نے۔
چلیں اپنا ڈھیر سارا خیال رکھیئے گا، شب بخیر، کل یونیورسٹی ملتے ہیں۔ آزاد نے جانے کے لئے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ پیچھے سے رافیعہ نے آواز دی،
آزاد
آزاد نے پیچھے مڑ کر دیکھا
کچھ نہیں، رافیعہ شرماتے ہوئے بولی
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، آزاد مسکراتے ہوئے بولا
ارے بابا کچھ نہیں ہے ویسے ہی آخری دفعہ دیکھنا چاہتی تھی آپکو ۔
آخری دفعہ!
کہیں قید تو نہیں کرانے لگی ہو مجھے، آزاد مسکراتے ہوئے بولا۔
قید ان کو کیا جاتا ہے جو آزاد ہوتے ہیں اور آپ آزاد ہونے کے باوجود بھی قید ہیں وہ بھی تاحیات، تو ایک قیدی کو بار بار قید نہیں کیا جاتا جناب ، رافیعہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“میں آپ سے، آپ سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں رافی” آزاد نے آخری بات کی اور چل دیا ۔
” اور میں آپ سے خود سے بھی زیادہ محبت کرتی ہوں آزاد” رافیعہ بولی۔
آزاد نے ایک نظر مڑ کر رافیعہ کو دیکھا ، مسکرایا اور چل دیا۔
موجودہ دن
” سر اگر ابھی دوبارہ اغواء کاروں کی جانب سے کوئی کال یا میسج موصول ہوتا ہے تو میں سو فیصد آپ کو اس کی exact لوکیشن ٹریس کر کے بتاؤں گا ” اغواء کاروں کی لوکیشن کو ٹریس کرنے کے لئے ایک نوجوان ہیکر کو بلوایا گیا جو ہیکنگ کے شعبے میں مہارت رکھتا تھا، اور پہلے بھی ایسے بہت کیسز میں وہ حامد علی خان کی مدد کر چکا تھا ۔
چائے پینے کے لئے حامد خان اپنے آفیس میں آئے۔ چائے پینے کے لئے جیسے ہی کپ اٹھا کر منہ کے پاس لائے تو ایک شخص ہانپتاا
ہوا آفس میں داخل ہوا
” سر اُس رپورٹر کو اغواء کاروں کی جانب سے کال آ رہی ہے”
حامد خان آفس سے تیسرے کمرے میں بنے کنٹرول روم کی طرف بھاگتے ہوئے گئے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کال ختم ہو چکی تھی۔ سر صحافی کو دوبارہ اسی جگہ پر بلوایا گیا ہے جہاں سے پہلے USB ملی تھی۔
حامد نے اس ہیکر کی طرف دیکھ تو وہ بولا سر صرف دو منٹ میں آپ کو لوکیشن مل جائے گا۔
دو منٹ کے بعد جب لوکیشن ٹریس ہوا تو ہیکر مارے حیرت کے اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا کیونکہ وہ لوکیشن ہیڈ کوارٹر سے فقط پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر واقع ایک بلڈنگ میں تھا ۔
حامد نے سادہ کپڑوں میں ملبوس اپنے ٹیم کے چار لوگوں اور اس ہیکر کو ساتھ لیا اور اس بلڈنگ کی طرف چل دیا۔
ہم اس بلڈنگ میں بالکل آرام سے داخل ہوں گے تاکہ کسی کو کوئی شک نہ ہو اور ملزمان کو ہماری آمد کی بھنک تک نہ پڑے ، حامد نے بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی سب کو سمجھایا۔ سب نے اپنی اپنی گنز نکال لیں ۔
تیسرے فلور پر پہچنے کے بعد ہیکر نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اغواء کار اسی کمرے میں موجود ہیں۔
حامد علی خان نے ایک شخص کو باہر رہنے کا اشارہ کیا اور باقی دونوں کو اپنے ساتھ اندر جانے کا۔
تین کی گنتی پر جیسے ہی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔