شہزاد بیگ ۔۔۔ جدید غزل کا نمائندہ شاعر
پاکستان کے ممتاز شاعر شہزاد بیگ کی جِیوَن کتھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پوروں میں اتر آئی تعارف کی مہک
روبرو : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
اصل نام تو محمّد شفیق شہزاد ہے مگر سخن کی دنیا میں شھزاد بیگ کے نام سے معروف ہیں ۔انتہائی سادہ طبیعت اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں ۔پہلی نظر میں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے اندر ایک قد آور سخن ور چھپا بیٹھا ہے ۔
وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ، محقق، پبلشر ، پرنٹر ،اینکر ، منتظم اور کالم نگار ہیں۔۔مجھے ایک قد آور تخلیق کار کی شخصیت اور فکر و فن پر لکھتے ہوئے ان کے شعر کے ایک مصرے
“میری پوروں میں اتر آئی تعارف کی مہک”
کے مصداق یوں محسوس ہو رہا ہے ۔
ان کے والد گرامی حاجی مرزا محمد علی (مُتَوَفِّی 1988) ،جو پاکستان میں آئس فیکٹری کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں کچھ عرصہ پاکستان نیوی میں بھی رہے۔۔شہزاد بیگ کی اہلیہ ہاؤس وائف ہیں، ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر محمد عطا بیگ ڈینٹل سرجری میں فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔ ایک بیٹی ویب ڈیویلپر کینیڈااور ایک بیٹی بیکن اسکول سسٹم لاہورمیں معلمہ ہیں۔ اپنے بچوں سے دوستانہ پیار شہزاد بیگ کی اہم خوبی ہے ۔ان کا گھرانہ جنّت کا نمونہ پیش کرتا ہے ۔
شہزاد بیگ ایک ہمہ وقت شاعر ہیں۔ انہوں نے شاعری کو اعتبار و وقار بخشتا ہے۔ان کی شاعری میں ٹھہراؤ ہے اور معنی کا بہاؤ بھی۔ سچائی کا عکس ہے اور حقیقت کا پرتو بھی۔ کہیں غم انگیز واردات کا بیان ہے تو کہیں دنیا و قدرت کی بوقلمونی کا حیرت انگیز اظہار بھی۔وہ دلی جذبات اور جنونی کیفیات کے اظہار سے کسی کو ٹھیس نہیں پہنچاتے بلکہ متاثر کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔
شہزاد بیگ کے بقول “شاعری کی نہیں جاتی ، ہو جاتی ہے ۔شاعری کرنے اور ہونے کے فنی تقاضے بھی مختلف ہیں ، ہونے کی حد تک کہوں تو مجھ سے یہ بچپن سے ہی ہو رہی ہے ۔کرنے کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ مجھ سے شاعری نہیں ہوتی ۔سکول کے زمانہ میں شعر کہا کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ قدرت نے شاعری میں قدم جمانے کے مواقع فراہم کیے یہاں تک اصلاح کا تعلق ہے تو فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی ۔
شاعری آورد ہے یا امد ؟ اس پر یوں گویا ہوئے ”
یہ بات شاعر کے بتانے کی نہیں ، شعر خود اس کا پتہ دیتا ہے کہ میں کس راہ سے آیا ہوں ، شاعری کرنا ایک بہت بڑا کام ہے۔ بظاہر یہ بات آسان لگتی ہے لیکن انتہائی مشکل کام ہے ایک بڑے شاعر کا قول ہے کہ شعر شاعر کے دماغ سے ہتھیار نہیں بلکہ خیال کی ابتدائی ناہمواری سے تنقیح و تہذیب تک بہت بڑے مراحل طے کرنے کا نام ہے ۔جو سامعین کو محسوس نہیں ہوتے مگر شاعر کو درپیش ہوتے ہیں ۔تب کہیں جا کر ایک شعر تخلیق ہوتا ہے “۔
شہزاد بیگ کے مزاج اور افتاد طبع کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ادبی تنظیموں سے ان کی وابستگی اور دلچسپی بہت گہری اور اٹوٹ ہے ۔دراصل وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں وہ ہر وقت شاعری میں منہمک رہنے کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں ۔یہ استغراق انہیں شعر کی تخلیق میں اب اتنا غرق رکھتا ہے کہ اکثر انہیں گرد و پیش کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔جب مقصود نظر شعر کی تخلیق ہو تو پھر دیگر مصروفیات ضمنی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں ۔
شہزاد بیگ کو وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو محبت کرنے والے اور انسان دوست ہوں ۔صحت اچھی ہو تو انہیں ہر موسم اچھا لگتا ہے ۔رنگوں کے استعمال سے روشنی بنتی ہے اس لیے کوئی رنگ غیر پسندیدہ نہیں بلکہ گلابی قدرے زیادہ اچھا لگتا ہے ۔
شہزاد بیگ فیصل آباد کے غزل گو شعرا میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔انہوں نے اوائل عمری میں ہی ادبی انجمنوں سے وابستگی رکھنا شروع کر دی تھی ۔
شہزاد بیگ 7/ جولائی 1967ء کو فیصل آباد کی مردم خیز سرزمین پر حاجی مرزا محمّد علی کے گھر پیدا ہوئے ۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم
ایم سی پرائمری چباں لائل پور سے
1971ءمیں حاصل کی۔ پھر میٹرک کا امتحان ایم سی ماڈل ہائی نگہبان پورہ فیصل آباد سے 1981ء کو پاس کیا ۔اور آگے تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ آخری تعلیم حلقہ ارباب ذوق فیصل آباد میں جاری ہے۔۔
وہ گزشتہ 40 سال سے قلم و قرطاس سے اپنا مضبوط تعلق بنائے ہوئے اردو زبان و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔وہ 1992ء سے ادبی تنظیم اکائی فیصل آباد کے سیکرٹری کے عہدہ پر فائز ہیں ۔اور اس تنظیم کے زیر اہتمام متعدد ادبی تقریبات کا اہتمام کر چکے ہیں ۔
شہزاد بیگ کے کریڈٹ پر دس کے لگ بھگ تصنیف و تالیفات ہیں ۔جن میں “شہر خاشاک”، “میری آنکھیں”، “تہمت”، “نعت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم”، “دیدبان ” ،”پرندے وجود میں” ، “شعور بولتا ہے” اور “سخن ” و دیگر شامل ہیں ۔۔انہوں نے متعدد ایوارڈ حاصل کر رکھے ہیں جن میں این بی ایف ایوارڈ ، کاروان ادب یو کے ایوارڈ ،پاکستان آرٹ کونسل ایوارڈ حبیب جالب ایوارڈ ، کاوش ایوارڈ ، پی اے ایف ایوارڈ و دیگر شامل ہیں ۔ان کے ایوارڈز اور انعامات کی تفصیل اس طرح ہے ۔
’’شہر ِخاشاک‘‘
شعری مجموعہ،۱۹۹۶ء
(سانول سنگت ایوارڈ1995ء)
’’میری آنکھیں‘‘
شعری مجموعہ،۲۰۰۶ء
’’تہمت‘‘
شعری مجموعہ،۲۰۱۵ء
(این بی ایف ایوارڈ پچاس ہزار کیش۲۰۱۸ء)
’’نعت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘نعتیہ مجموعہ۲۰۱۹ء
(کاروان ادب برطانیہ ایوارڈ ۲۰۲۲ء)
’’پرندے وجود میں‘‘
(دبستاب شعر و سخن ایوارڈپلس کیش24)
شعری مجموعہ،۲۰۲۳ء
“اکائی” کلیات
زیرطبع 24
مرتبہ کتب:
’’روپ غزل کے‘‘
انتخاب،مرتبہ۲۰۰۷ء
نصرت صدیقی
ڈاکٹر طاہر تونسوی ’’ایک مطالعہ‘‘،
مرتبہ،۲۰۰۵ء
’’سخن‘‘
(ادبی مجلہ)
(ادارت)۲۰۲۰ء
’’شعورِمدحت‘‘
انتخاب،مرتبہ۲۰۲۱ء
’’عالمی عید ملن مشاعرہ ‘‘
اکادمی ادبیات پاکستان
مرتبہ ، ۲۰۲۳ء
’’عالمی نعتیہ مشاعرہ ‘‘
اکادمی ادبیات پاکستان
مرتبہ ، ۲۰۲۳ء
’’دیدبان‘‘(1)
فیصل آباد کے مرحوم شعراء کرام کا انتخاب،
مرتبہ۲۰۲۳ء
’’شعور بولتا ہے‘‘
(ردیفی مشاعرے)۲۰۳۴ء
’’دیدبان‘‘(2)
مرحوم شعراء کرام کا انتخاب فیصل آباد،
مرتبہ زیر طبع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعزازات:
این بی ایف ’’تہمت‘‘(کیش ایوارڈ)حکومت پاکستان۲۰۱۸ء
عالمی نعت ایوارڈ (کاروان ادب مانچسٹر)۲۰۲۰ء
تخلیق خصوصی ایوارڈ۷مارچ۲۰۲۴ء آفوش کلب لاہور
مانچسٹر فرینڈ شپ ایوارڈ ،فیصل آباد۱۹۹۸ء
بیسٹ آف فیصل آباد6ٹیلنٹ ایوارڈ،چناب کلب،۱۹۹۹ء
فیصل آباد میڈیکل یوینورسٹی ایوارڈ ،فیصل آباد۲۰۲۲ء
جشن آزادی ایوارڈ،ضلعی حکومت فیصل آباد۲۰۱۸ء
اعزازی شیلڈ آرٹس کونسل فیصل آباد۲۰۱۲ء
فرینڈز ایورڈ آرٹس کونسل فیصل آباد۲۰۱۱ء
حبیب جالب ایوارڈ جی سی یوینورسٹی،فیصل آباد۲۰۱۴ء
کاوش ایوارڈ نیشنل ٹیکسٹائل نیویورسٹی،فیصل آباد
پرنٹر ایسوسی ایشن فیصل آباد ،ایوارڈ دو مرتبہ۲۰۰۲ء
گولڈمیڈل( پاکستان ایسوسی ایشن)۱۹۹۷ء
نعت اکیڈمی ایوارڈ،فیصل آباد۲۰۱۸ء
مشرق ایوارڈ جی سی یو،فیصل آباد۲۰۱۹ء
ایوارڈ(سانول سنگت پاکستان)۱۹۹۹۴ء
کاروان نقیبی ایوارڈ دو مرتبہ۲۰۲۲ء
پی بی اےایوارڈ،برطانیہ ۲۰۱۹ء
قائداعظم ایوارڈ ٹی ایم اے فیصل آباد۲۰۱۹ء
فقیر مصطفیٰ نعت ایوارڈفیصل آباد۲۰۱۹ء
مجلس معین ادب ایوارڈ۲۰۱۲ء
مجلس معین ادب ایوارڈ۲۰۲۲ء
خصوصی ایوارڈاین ایف سی،فیصل آباد۲۰۱۲ء
این بی ایف کے کتب میلے ۲۰۱۸ءمیں صدر پاکستان کے اسلامی کے ہمراہ چبوترے پر گارڈ آف آنر لینے کا اعزاز حاصل ہے۲۰۱۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر اقبال اور دال دلیا کالم دنیا لاہور
تہمت اور شہزاد بیگ2017ء
فرمودات ڈاکٹرریاض مجید2019ء
سرخیاں متن اور شہزاد بیگ کی غزل 23اپرپل 2020ء
سرخیاں متن اور شہزاد بیگ کی شاعریکم جون2020ء
سرخیاں متن اور شہزاد بیگ4اپرپل 2021ء
سرخیاں متن اور ’’سخن‘‘ تازہ غزل19 جون 2021ء
سرخیاں متن اور فیصل آباد سے شہزاد بیگ4اپرپل2022ء
سرخیاں ،متن اور شہزاد بیگ 17جنوری 2023ء
سرخیاں متن اور فیصل آباد سے شہزاد بیگ4اپرپل 2023ء
…………………………………
نعت زندگی ہے
اے۔آر ۔وائی پاکستان
ڈاکٹر سرور حسین نقشبندی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن شہزاد بیگ کے ساتھ
سٹی 41 ود ظفر ڈوگر
فیصل آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی وی ورلڈ/ہوم
اے آر وائی
سوہنی دھرتی
سٹی 41 چار مرتبہ مارننگ،رمضان افطار
سبھی پر کئی مشاعرے مہمان شاعر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بک ایمبیسیڈر
این بی ایف پاکستان
اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’شہزاد بیگ بطور شاعر ‘‘
بی ایس مقالہ
اسکالر: مائدہ ظفر
(جی سی وومن لاہور،۲۰۲۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم فل مقالہ شہزاد بیگ کی ادبی خدمات
اسکالر: انیلا ناصر
(جی سی یونیورسٹی فیصل آباد،۲۰۲۳تا۲۰۲۴ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزاد بیگ اشاریہ
مرتبہ(ڈاکٹر شبیر احمد قادری
چیئرمین شعبہ اُردو
(رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی۲۰۲۴ء)
فیصل آباد
کالم نگاری
خبریں
مشرق
جناح
عوام
اعزازات:
این بی ایف ’’تہمت‘‘(کیش ایوارڈ)حکومت پاکستان۲۰۱۸ء
عالمی نعت ایوارڈ (کاروان ادب مانچسٹر)۲۰۲۰ء
تخلیق خصوصی ایوارڈ۷مارچ۲۰۲۴ء آفوش کلب لاہور
مانچسٹر فرینڈ شپ ایوارڈ ،فیصل آباد۱۹۹۸ء
بیسٹ آف فیصل آباد6ٹیلنٹ ایوارڈ،چناب کلب،۱۹۹۹ء
فیصل آباد میڈیکل یوینورسٹی ایوارڈ ،فیصل آباد۲۰۲۲ء
جشن آزادی ایوارڈ،ضلعی حکومت فیصل آباد۲۰۱۸ء
اعزازی شیلڈ آرٹس کونسل فیصل آباد۲۰۱۲ء
فرینڈز ایورڈ آرٹس کونسل فیصل آباد۲۰۱۱ء
حبیب جالب ایوارڈ جی سی یوینورسٹی،فیصل آباد۲۰۱۴ء
کاوش ایوارڈ نیشنل ٹیکسٹائل نیویورسٹی،فیصل آباد
پرنٹر ایسوسی ایشن فیصل آباد ،ایوارڈ دو مرتبہ۲۰۰۲ء
گولڈمیڈل( پاکستان ایسوسی ایشن)۱۹۹۷ء
نعت اکیڈمی ایوارڈ،فیصل آباد۲۰۱۸ء
مشرق ایوارڈ جی سی یو،فیصل آباد۲۰۱۹ء
ایوارڈ(سانول سنگت پاکستان)۱۹۹۹۴ء
کاروان نقیبی ایوارڈ دو مرتبہ۲۰۲۲ء
پی بی اےایوارڈ،برطانیہ ۲۰۱۹ء
قائداعظم ایوارڈ ٹی ایم اے فیصل آباد۲۰۱۹ء
فقیر مصطفیٰ نعت ایوارڈفیصل آباد۲۰۱۹ء
مجلس معین ادب ایوارڈ۲۰۱۲ء
مجلس معین ادب ایوارڈ۲۰۲۲ء
خصوصی ایوارڈاین ایف سی،فیصل آباد۲۰۱۲ء
این بی ایف کے کتب میلے ۲۰۱۸ءمیں صدر پاکستان اسلامی جمہوریہ کے ہمراہ اسلامی کے چبوترے پر گارڈ آف آنر لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔۲۰۱۸ء
ایوان صدر میں تقریب اور عشائیہ میں شمولیت
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ملاقات
وزراءاعلی سے ملاقاتیں
گورنرز ہاؤس ملاقاتیں اور عشائیہ میں شمولیت
برطانوی ہائی کمشنر مارک لائل کی موجودگی میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سرینا فیصل آباد میں ویلکم ماک لائل نظم پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی کانفرنسز میں شراکت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🕳️شہزاد بیگ بارے پاکستان کے ممتاز اہل قلم کے تاثرات:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🕳️احمد ندیم قاسمی
شہر خاشاک ہوئے جاتے ہیں
آدمی خاک ہوئے جاتے ہیں
’’شہرخاشاک‘‘شہزاد بیگ کے عنفوان شباب کی شاعری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس شاعری میں وہ تمام جذبات منعکس ہیں جو اس عمرمیںہر ذہنِ انسانی کا احاطہ کیےرہتےہیں۔شہزاد بیگ نےان جذبات کو غزل کے اشعار میں سچائی سے سمویا ہے اور اس میں بعض بہت عمدہ اشعار بھی نکالے ہیں۔جو کہ شہزاد بیگ کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔
شہزاد بیگ نے غزل کے علاوہ نظم میں بھی طبع آزمائی کی ہےمگر کتاب کے مطالعے سے مجھے محسوس ہوا ہےکہ اس کا فن غزل میں ہی پنپے گاکہ اسےغزل کے ہر شعرکے دو مصرعوں کے توازن و آہنگ کا احساس ہے۔ میںاس کے روشن مستقبل کی دعا کرتا ہوں۔
🕳️مرتضیٰ برلاس
شہزادبیگ کا پہلا شعری مجموعہ’’شہر ِخاشاک‘‘ایسےوقت شایع ہورہا ہے۔جب اس کےنام کا چرچااور شہرت فیصل آباد کے ادبی حلقوں تک محدود ہے۔جب میں نے انہیں ریاضت مزید کا مشورہ دیاتو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر لاجواب کردیا’’میری شاعری کم از کم میری اپنی تو ہےوگرنہ لاہور جیسے ادبی مرکز میں لوگ اِدھر اُدھرسے لکھوا کر کئی کتابوں کے مصنف بن گئے ہیں‘‘یہ حقیقت ہے کہ ادب میں بھی وڈیرہ شاہی ذہن در آیا ہے یعنی جس طرح مزارعہ کی شبانہ روز محنت پر وڈیرہ گلچھڑےاڑاتا ہے۔اسی طرح کئی لوگ اجر ت پر لکھوا کر کئی کئی کتابوںکے مصنف بن گئے ہیںاور ملک کے سرکاری ادبی اداروں میں جینوئن قلمکاروں کے دوش بدوش بیٹھے نظر آتے ہیں۔
بہر حال میں نے فیصل آباد کی اکثر ادبی محفلوں میں شہزاد بیگ کوبڑی جذبیت اور انہماک سے شریک ہوتے دیکھا ہے وہ تخلیق کاروں کے درمیان ’’با ادب‘‘بیٹھ کر’’با خبر‘‘ہونا چاہتا ہے۔’’شہر خاشاک‘‘میں شائع ہونے والی غزلیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے شہزاد بیگ اپنے کئی ہم عصروں سےبہتر غزل کہنے کی صلاحیت رکھتا ہےاور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ
سخت دشوار ہے بے جہد مسلسل شہزادؔ
آبرو مند ترا اہل ہنر میں رہناعبیر ابو ذری
فیصل آباد میں رہنے والاتیس سالہ نوجوان شاعر بنام شہزاد بیگ جو ابھی اتنا مشہور نہیں ہےجتنا اس کو ہونا چاہیے تھا، پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے۔’’سولاں جمدیاں دے منہ تھیکے ہوندے نیں‘‘ یہ مثال شہزاد بیگ پر عین فٹ نظر آتی ہے۔
’’شہر خاشاک‘‘کا مصنف شہزاد بیگ اپنے ہر مصرعے کی طرح جوان ہے۔امید کی جاسکتی ہےکتاب ’’شہر خاشاک‘‘ منظر عام پر آنے کے بعد شہزاد بیگ اپنی شاعری کی وجہ سے پاکستان ہی نہیںبلکہ جہاں جہاں اُردوبولی اور سمجھی جاتی ہے مشہور ہوگی۔کیونکہ یہ تیس سالہ شاعر ساٹھ سالہ ذہن رکھتا ہے۔اللہ کرے میرے خیالات سے زیادہ شہزاد بیگ کی شاعری کو وسعت ملے۔آمیں ثم آمین
🕳️امجد اسلام امجد
’’شہر خاشاک‘‘کی جو غزلیں اور نظمیں میری نظر سے گزری ہیں۔عمومی تاثر کے حوالے سے اتنا ضرور کہا جاسکتا ہےکہ یہ ایک ہونہارذہن،صاحبِ مطالعہ اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شاعر کا کلام ہےجس سےاچھی اور خوش آئند امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
شہزادبیگ،مضامین،زبان،لہجے،اورپیرائے۔۔۔۔تمام بنیادی عناصر شاعری میں اپنے سنئیرسے نہ صرف باقاعدہ استفادہ کرتا ہے بلکہ اسے چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتااور اس کی یہی بات مجھے سب سے اچھی لگی ہےکہ’’سچ‘‘میرے نزدیک تمام ’’فنون لطیفہ‘‘ کی اسا س ہےجس کے بغیر تمام’’فن کاریاں‘‘دھری کی دھری رہ جاتی ہیں،
شہزاد بیگ کی شاعری کے تیور بتاتے ہیںکہ اس میں چھانے اور کھل کر برسنے کےارادے بھی ہیں اور امکانات بھی۔
🕳️ ڈاکٹر ریاض مجید
جناب احمد ندیم قاسمی،مرتضیٰ برلاس،امجداسلام امجد،نذیر قیصر،قائم نقوی،اعجازکنور راجہ،اور عبیر ابوذری نے شہزاد بیگ کی شعری صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےان کے روشن مستقبل کی نشاندہی کی ہے۔شہزاد بیگ شاعری کا شوق فراواں رکھتے ہیں اور ادبی حلقوں میں نمایاں شہرت رکھتے ہیں وہ غزل بھی کہتے ہیں اور نظم بھی،میری دانست میں صنف غزل میں ان کی صلاحیتوں کا بہتر اظہار ہوا ہے۔ مجھے امید ہے آنے والے دور میں ان کی شاعری بھرپور اظہارکے خوبصورت نمونے پیش کرے گی۔
🕳️نذیرقیصر
شہزاد بیگ کے ’’شہرخاشاک‘‘ میں چنگاریاں بھی ہے اور نم بھی،وہ اپنے عہد کا گلہ گزار بھی اورشکرگزار بھی کہ بدھا کہتا ہے زندگی اگر دکھ ہے تو نروان کی کھڑکی بھی اسی میں کھلتی ہےشہزاد بیگ کی شاعری شہر خاشاک کے بکھرنے کا نوحہ ہےوہ اپنے عہد کی اقدار کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھتا ہے جس میں انسان خس وخاشاک کی طرح تیز ہوائوں کے رحم و کرم پر بے سمتی کے ہاتھوں بے دست و پا ہے۔
شہر خاشاک ہوئے جاتے ہیں
آدمی خاک ہوئے جاتے ہیں
ترقی پسند تحریک سے جدید شعری منظر نامے تک اردو شاعری کی تاریخ نے بہت سی کروٹیں بدلی ہیں۔اور اب تو نئی شاعری کی بحث بھی پرانی لگتی ہے۔فیض صاحب سے ناصر کاظمی
اور ظفر اقبال تک ہم نے نظریہ سازی اور جدت پسندی کی رو میں لب و لہجےسے زبان تک بہت سے تبدیلیاں لانے کی کوشش کی ہےمگر یہ المیہ ہے کہ ہماری شاعری کے بنیادی موضوعات احساسات اور نفسیات میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔اصل میں ہم شعر کہتے وقت اپنی زندگی کےسچے تجربات کی بجائے اپنی بنی بنائی ہوئی شعری روایت کی لہر میں بہنے لگتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ کوئی بھی سماجی،ثقافتی اورادبی تحریک اپنی روایت سے چھناکے کے ساتھ یک لخت اپنی زنجیر سے کڑی کی طرح ٹوٹ کر الگ نہیں ہو جاتی۔۔۔۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ کوئی زندہ تحریک روایت کی زنجیر کو نہ ٹوٹتے ہوئے بھی اس میں نئی کڑیوںکا اضافہ ضرور کرتی ہے تاکہ فکر اور خواب کا دائرہ وسعت پذیر ہوتا رہے مگر ہمارے نئے لکھنے والےاور دانشور اپنے حکمرانوںکی طرح پچاس برس سے اپنے ہی نظام فکر میںبنیادی تبدیلیاں لانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔اسی ترقی پسند تحریک سے جدیدیت تک ہماری تمام تحریکیں ایک ہی دائرے میں تھکی تھکی سی گھومتی چلی جارہی ہیںاور کہیں کہیں ہماری تحریریں اس صورتحال کاگلہ بھی کرتی ہیں۔’’شہرخاشاک‘‘ بھی انہی تحریروں میں سے ہے جو اپنے معاشرتی جمود کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔
شاعر بنیادی طور پر خواب دیکھنے والا ہوتا ہے۔اور نئے خواب ہی نئے نظام کو تشکیل دیتے ہیں۔ شہر خاشاک میں انسانوں کی طرح خواب بھی لہر لہر ٹوٹتے بکھرتے ہیں مگر شہزاد بیگ جیسےلکھنے والےان خوابوں کو آنے والوں کے ریزہ ریزہ چنتے اور محفوظ کرتے ہیں۔
اپنے عہد سے کیسے روگردانی کرسکتا ہوں
اب بھی تیرے خوابوں کی نگرانی کرسکتا ہوں
شہزاد بیگ محبت کرنے والا شخص ہے۔اور محبت ہی اس کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔یہی وہ نم ہےجو شہر خاشاک کو باغ بنا سکتا ہے۔محبت کا باغ جس کے پھول پتے اپنے سبز رنگ کی روشنی اور خوشبو سے نئے افق طلوع کرسکتے ہیںجن سے ہمارے شہر کے لوگ متعارف نہیںکہ ان کے بدن ابھی محبت کے لمس سے بیدار نہیں ہوئے۔
میری پوروں میں اتر آئی تعارف کی مہک
ہاتھ کو اس کا ملا کر چومنا اچھا لگا
یہی وہ لمس اور ذائقہ ہے جو انفرادی تجربے سے اجتماعی خواب اور اجتماعی نظام فکر کی سمت سفر کرتا ہےجہاں چاک پر گھومتی ہوئی مٹی نئی نئی شکلیںاختیار کرتی ہےمگر ابھی وہ ہاتھ کہاں ہیں۔۔۔؟جو اس نم مٹی کو دوبارہ گوندھ کرتخلیقی لمس سے آشنا کرسکے۔شہزاد بیگ نے’’ شہر خاشاک‘‘ میں اسی تمنا کو مجسم کرنے کی کوشش کی ہے یہی کونپل جیسی تمنا ایک زندہ لمس سے پھول بن سکتی ہے اور ہمارے ہاتھ شہزاد بیگ کے ہاتھوںمیں شامل ہیں تاکہ لمس کا تعارف چراغ سے چراغ اور خیال سے خیال تک پہنچ سکے۔۔۔ کسی’’لو‘‘ کی طرح جوروشنی کو دائرہ در دائرہ پھیلاتی چلی جاتی ہے۔
🕳️اعجاز کنور راجہ
کوئی بھی ’’بڑا ‘‘پیدا نہیں ہوتا۔فن بھی ناصرف ’’لڑکپن‘‘اور جوانی کے مراحل سے گزرتا ہے۔بلکہ اس پر بڑھاپا بھی آتا ہے۔حرف کی اپنی ایک دنیا ہے اپنی زبان ہے اپنا بیان ہے’’اور پھر لہجہ تو بنتے بنتے بنتا ہے‘‘حرف کی دنیا میں شہزاد بیگ کا آنا ابھی اتنا پرانا نہیں ہوا۔لیکن پائوں پائوں چلنے کی عمر میں دوڑنے والے کے روشن امکانات کی خوش خبری دینانسبتاًراستہ آسان ہو جاتا ہے۔میںنےخصوصاً طور ہر شہرخاشاک میں شامل غزلوں کا مطالعہ کیا ہےزبان و بیان میں پختگی مزید پختگی کی طرف گامزن ہےگردوپیش کا شعوری ادراک موجود ہےٹوٹنے کے عمل سے گزرنے کی خواہش نئے وجود میں ڈھلنےکے یقین کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اہل ہنر میں آرزو مندانہ رہنے کے جہد مسلسل کی حقیقت کا اقرار پس اشعار بھی موجود ہےروشنی جذب کرنے کی اہلیت اور رموز فن کی دھیمی دھیمی آنچ کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا پتہ دیتی ہےاور اس پر شہزاد بیگ کی عملی زندگی میںذوق شوق کی فراوانیاںاس کی پوروں میں نت نئےتعارف کی مہک اس کا ذوق سماعت اور اس کی بے چینیوں میں موجود ایک شدت کی پیاس نئے مستقبل کی طرف پیش رفت کے سامان مہیا کررہی ہے۔
بارہا کہی جاچکی باتوں کو ازسر نو کہہ دیناانہیں نیا رنگ بیان دے دینا یا ان کی استادانہ پختہ کاری کردینا بھی فن کے زمرے میں آتا ہےلیکن اچانک ایک نئی بات کہہ دینا میرے نزدیک میرے ’’شاعری‘‘ ہے۔شہزاد بیگ بعض انتہائی ابتدائی غزلوں میںمعنوی اعتبار کے نئے تجربے دیکھنے کو ملتے ہیں جو بلا شبہ اس کے تابناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیںآج کےشعری دور میںاگرچہ فن شاعری سے زیادہ خودکو معروف کیے رکھنے کے فن پر قادر لوگوں کی اجارہ داری ہے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر شعر میں تازہ پن موجودہوتواسے سچے قاری تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔
🕳️قائم نقوی
شہزاد بیگ ایک محنتی اور انتھک انسان ہے۔یہ خوبی آج کل ناپید ہوچکی ہے۔اس کی شاعری لمحہ موجود کی عکاس ہے ۔اس درد فکر اور سوزوگداز ملتا ہے۔اس کے اشعار کی بے ساختگی اور سادگی قاری کواپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔اس کے ہاں ایک بڑا شاعر بننے کے تمام امکانات موجود ہیں۔
🕳️افتخار عارف
شہزادؔ بیگ بھی ’’شہرِخاشاک‘‘ ،’’میری آنکھیں‘‘ اور’’ تہمت ‘‘جیسے خوش گوار اور دل آویز شعری مجموعوں کے بعد’’ نعت محمد صلِّ علیٰ ‘‘کے عنوان سے نبی آخرت الزماں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺکی بارگاۂ اقدس میں اپنے ثنائیہ کلام کے ساتھ حاضر ہو رہے ہیں اور یہ بات ان کے لیے سعادت و شرف امتیاز اور افتخار کی ہے ۔اُردو ادب کی صدیوں کو محیط شاعری کے سفر میں قیام پاکستان کے بعد شعرائے گرامی نے حمد، نعت و منقبت و سلام کا جو سرمایہ تخلیق کیا ہے۔ پوری تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اپنے وجود کی بنیادی شناختوں میں عقیدہ و عقیدت کا اظہار لفظ کو حرمت و معنویت عطا کرتا ہے۔
شہزادؔ بیگ ایک کی تریسٹھ 63 نعتیں سرکار دو عالم آقا حضور ﷺسے ان کے تعلق خاص کو ظاہر کرتی ہے۔تریسٹھ 63 کا عدد نبی مکرمﷺ کی اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے برسوں سے ماخوذ ہے۔ اسلامی دنیا اپنے طور پر حضورﷺکی نسبتوںاحترام کرتی ہے۔
اللہ کریم شہزاد بیگ کے اخلاص و انہماک میں اضافہ کرے۔ روحانی واردات، ادبی محاسن کے ساتھ پیش کر دی جائیں تو اہلِ فکر و نظر لائق توجہ ٹھہرتی ہیں۔
شہزاد بیگ کے اس مجموعہ خیر و کثیر کی اشاعت سے یقینا ًتخلیق کی مزید بہتر صورتوں کی توفیق میسر آئے گی۔ انشاءاللہ
🕳️ڈاکٹر یوسف خشک
(اسلام آباد)
برادرم شہزاد بیگ!آپ کےاس نعتیہ مجموعہ’’نعتِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہُوا کہ اللہ پاک نے آپ کوعشق بنوی کے اس اعلیٰ منصب سے نوازاً ہے ۔جہاں شعر گوئی،نعت گوئی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔جس میں عشق ،ذوق اور مستی میں یہ نعتیہ اشعار لکھے گئے ہیں وہ شاعر کی علمی حیثیت اور ہمارے نبیؐ آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے والہانہ عشق کو ثابت کرتے ہیں۔یہ کلام جن کی نسبت نبی معظم حضرت محمد ﷺ کی طرف ہے،آپ کی دینی و دنیوی تکریم کا باعث بنے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس عشق میں مزید اضافہ ہو اورہم سب کو اپنے محبوب کی محبت نصیب فرمائے۔آمین
🕳️ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی
سابق وائس چانسلر
نعت نگاری کی صلاحیت ہر شاعر کا مق نہیںکیونکہ یہ صرف عروضی عشق نہیں،بلکہ یہ توفیق ہے جس کے مستحق چند افراد ہی ہوتے ہیںیہ ایک خصوصیت ہے ایک کرم ہےاور ایک جذبات کے پاکیزہ ہونے کی دلیل ہے۔
نعت پاکیزہ خیال اور نیک جذبات ہی کا اظہار ہے بڑے بڑے شاعر اس سے محروم رہےمگر جن میں یہ صلاحیت بیدار ہوئی وہی نعت گو ہونے کا شرف پا سکے۔
شہزادؔ بیگ ایک ایسے ہی توفیق یافتہ انسان ہیںجو نعت سرکارابد قرار ﷺ کے مستحق قرار پائے ہیں شہزادؔ کی عقیدت دیدنی ہےاور اس کا اظہار ایک امتیاز ہے عشق و مستی کے رنگوں میں رنگے ہوئے الفاظ ایک قرینے کے ساتھ لکھے گئے ہیںہر شعر داخلی وارفتگی کا مظہر ہے شہزادؔ کا زیادہ تر موضوع مدینہ کا تذکار ہےوہ ہمہ تن مدینہ منورہ کی طرف کھنچے جاتے ہیںاور مقدس فضا کی کرم فرمائی سے سرشار ہیں،نعت کا پیشِ نظر مجموعہ ’’نعت ِ محمدؐصلِّ علیٰ ‘‘محبت کے ہر رُخ کا پتہ دیتا ہے مگر مرکزی موضوع دیار مدینہ اقدس ہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ نعت گوئی کی صلاحیت کو اور اجاگر کردے اورشہزادؔہر صورت دیار ِمدینہ کا راہی رہے۔ آمین
مدینہ منورہ کے حوالے سے چند اشعار۔۔۔۔۔
میں آپؐ کا ہوں فقط نعت ہے مرا ورثہ
ہے میرے دِل میں تڑپ بے بہا مدینے کی
دِل کو سکوں ملا مری آنکھوں کو روشنی
کس جہ تازگی ہے محمدؐ کے شہر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دِن قیام شہر ِمدینہ میں کیا کیا
جینے کی سب حقیقتیں مجھ پر اتر پڑیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری اب تو تمنا ہے تو اتنی شہزادؔ
جائیں ہم بارِ دگر شہر ِمدینہ کی طرف
اور یہ خواہش ۔
اک عمر سے یہی ہے مرےدل کی آرزو
مجھ کو بھی ہو نصیب زیارت حضورؐ کی
اسی نوعیت کے متعدد اشعار اس مجموعہ میں ہیں یہ شہزادؔکا ذہنی جھکائو ہےجو ثمر بار ہے۔
🕳️محمد افسر ساجدؔ
شہزاد ؔبیگ کا ادبی سفر کم و بیش تین دہائیوں پر محیط ہے لمحہء موجود میں وہ ایک جانے پہچانے شاعر،ادیب ،ناشر،ایونٹ ارینجر،ادبی ریسور س پرسن اور مقرر تسلیم کیے جاتے ہیں۔
’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘ شہزاد ؔبیگ اولین نعتیہ مجموعہ ہے۔نعت ایک انتہائی پاکیزہ اور متبرک صنف ادب ہے جس کا مرکز و محورآنحضورپیغمبراسلام ،نبی آخر الزماںحضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔شہزاد ؔبیگ کا نعتیہ کلام نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عشق و عقیدت کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس کے توسط سے وہ بھی نعت نگاروں کے موقر حلقہ میں شامل ہوگئے ہیں فیصل آباد کو شہر ِ نعت اس کہا جاتا ہے کہ یہاں فی زمانہ صنف نعت کے معتبر و معروف شعراء کرام اور تذکرہ نگاروں کا قیام رہا ہے ان میں خلیق قریشی،منظور احمد منظور،حافظ لدھیانوی،صائم چشتی،ڈاکٹر احسن زیدی،اخترسدیدی،آصف بشیر چشتی،ڈاکٹر ریاض مجید،پروفیسرعارف رضا،ڈاکٹرانورمحمودخالد،ڈاکٹرمحمداسحاق قریشی،امیر نواز امیر،کوثر علی،ڈاکٹر شبیراحمد قای،ڈاکٹر افضال احمد انور ،پروفیسر ریاض احمد قای،ثناءاللہ ظہیر،ڈاکٹر اصغر علی بلوچ،علامہ ضیا حسین ضیا اوردیگر شامل ہیںشہزادؔبیگکامعتبرنام بھی اب اس فہرست کا حصہ بن گیا ہے۔
شہزادؔ بیگ نے عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور فضائے
مدینہ منورہ میں مکمل استغراق سے یہ نعتیں قلمبند کی ہیں مجھے امید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ نعتیہ ادب میں ایک گرا ںق اضافہ شمار ہوگا۔
ان کا نمونہ کلام ملاحظہ کیجئے :
قدسیوں کے جلو میں ہوتا ہوں
نعت کا جب نزول ہوتا ہے
مدینہ مدینہ ، مدینہ مدینہ
ہے جینے کا مقصد ثنائے مدینہ
میرے لکھے کا یوں بھرم رہ جائے
شعر خود ہی کشید ہو جائے
یہ منزلِ عقبیٰ بھی بڑی چیز ہے شہزادؔ
حاصل جسے عقبیٰ ہے یہ جنت کی سند ہے
🕳️ڈاکٹر انعام الحق جاوید
شہزادؔبیگ شفاعت ِرسول پاک کا طلب گار
شہزادؔبیگ ایک ہنر مند اور ثمرمند شاعرہے۔ اردو کے موجودہ دور کی مقبول اصناف سُخن بشمول نعت و منقبت، غزل اورنظم نگاری کے میدان میں شہزادؔبیگنےخوشگوار سلیقے سے شعر کہے ہیں اور لمحۂ موجود کے شعراء میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
شہزادؔبیگکا زیرِ مطالعہ نعتیہ مجموعۂ کلام ’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘ شہزادؔ کے حسنِ بیان اور عقیدت کا عاجزانہ اظہار ہے۔ نعتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سُنتِ الہی اور اتباع ربِ جلیل ہے۔ اس کائنات کا ہر گوشہ اور نُورونکہت کے یہ سب سلسلے محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک ہستی کا فیضان ہیں جنھیں رحمۃ اللعالمین اور محسنِ انسانیت بناکر بھیجا گیا۔
نعت نگاری کی جدید تاریخ نے ذکرِ رسول محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اہلِ قلم کے اظہار سخن کے ذریعۂ نجات بنا دیا۔محبّی شہزادؔبیگبھی قافلۂ نعت نگاراں
میں اپنی عقیدتوں کی کتاب تھامے بارِ الہی میں شفاعتِ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طلب گار دکھائی دیتا ہے۔ شہزادؔبیگ نے اپنی ان نعتوں میں اپنے عجز کا اظہار آنسوئوں کے قلم سے کیا ہے اور اپنے قلب کی باطنی طہارت سمیت اپنے عہد اور اپنے وطن کے احوال و حالات کا مقدمہ بھی پیش کیا ہے۔ اس کی نعتوں میں اس کے دل کا اخلاص جھلکتا ہے اور یہ بات توفیق کے بغیر کسی قلم کار کے حصے میں نہیں آتی۔شہزادؔبیگنےمدحتِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوصاف ،آپؐ کے کمالات، پیغام حقانیت، فلسفۂ تخلیقِ انسانیت،آپؐ کی سیرتِ پاک، آپؐ کی حیاتِ طیبہ اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمودات کو اپنے تخلیقی بیانیے کا حصہ بنایا ہے اور اثر انگیز نعتیں کہی ہیں۔
میرے نبیؐ نے ہر خطے میں دستک دی
عربی ، عجمی ہر لہجے میں دستک دی
سب سے آخری دستک تھی یہ دنیا میں
اس لیے آپؐ نے ہر خطّے میں دستک دی
میں شہزادؔ بیگ کو اس نعتیہ مجموعۂ کلام کی اشاعت پر دل سے مبارک پیش کرتا ہوں اورمزید کامیابیوں کے لیے دعاگو ہوں۔
🕳️جلیل عالیؔ
(تمغۂ امتیاز)
تشکیل ِپاکستان کی تہذیبی برکات میں ایک خاص حوالے سے سب سے اہم پہلو نعت گوئی کا احیا ہے۔ وطن ِعزیز میں جس کثرت سے نعت لکھی گئی اور لکھی جا رہی ہے اس نے بجا طور پر اسے قریہِ نعت ِ محمدؐبنا دیا ہے۔ بے شک روایتی انداز کی نعت کا رجحان زیادہ ہے جسے حصولِ ثواب کی تمنا اور نعت کے طرحی مشاعروں نے بہت بڑھاوا دیا ہے ۔
تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے تخلیقی شعراء کی بھی کمی نہیں،جو نعت کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور انہوں نے ایسی ایسی تخلیقی نعتیں لکھیں کہ اب نعت نگاری کو ایک باقاعدہ شعری ادبی صنف ماننے میں تحفظات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔
بیشتر تخلیقی شعراء کے دامانِ سعادت میں دو دو چار چار نعتیں ہی ہوں گی۔ ان میں ایسے شعراء بہت کم ہیں جو پورے پورے نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کا اعزاز رکھتے ہوں۔
شہزادؔبیگمبارک کے مستحق ہیں کہ وہ بھی اس مختصر فہرست میں شمولیت کا مرحلہ طے کر رہے ہیں۔ اس مرحلے کے تقاضوں میں ایک خاص جے کی فنی پختگی اور نتِ خیال کا اثاثہ نہایت ضروری ہے جس سے اظہار کی ادبی قد ر و قیمت متعین ہوتی ہے۔
🕳️ناصر علی سیدؔ
(تمغۂ امتیاز)
شہزاد ؔبیگ کےعقیدت اور محبت سے شرابور نعتیہ کلام کو پڑھ کربے ساختہ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اس سچے عاشق رسول کے فن اور زندگی میں مولا کریم بہت برکت ڈالے ۔شاعری کے پہلے پہلےذائقےچکھنے کے بعد نعت کی طرف اس طور مائل ہونا کہ پورا ایک مجموعہ ترتیب دیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمت اور سعادت اسے خدا ئے بخشندہ نے بخشی ہے ۔ ورنہ تو نعت کا ایک شعر کہنے میںبھی اعصا ب جواب دے دیتے ہیںکہ ہمہ وقت ‘‘۔۔۔۔۔با محمدؐ ہوشیار ‘‘کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے ذرا سا شاعر چوک جائے تو ساری ریاضت بے معنی ہو جاتی ہے۔خیر مجھےشہزادؔبیگ کےنعتیہ مجموعے’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کے نعتیہ کلام میں ان کے جذبات،احساسات اورمحسوسات کی سطح بہت بلندلگی۔
عشق بہرحال ایک ایسا جذبہ ہے جو ایسےایسے منطقوں کی سیر میں آپ کو شریک کرنے لگتاہےجو آپ کی سوچ کی حد وں سے ماورا ہوتے ہیں۔
اللہ کرے کہ یہ محبت سے بھیگا نعتیہ مجموعہ بارگاہِ رسالت مآب میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے اور آقاﷺکی توجہ پا لے۔
🕳️سیّدزبیب مسعودشاہ بخاری
(تمغۂ امتیاز)
فیصل آباد شعری، فنی، ادبی، ثقافتی، تحقیقی ،تخلیقی، تہذیبی اور تمدنی اعتبار سےبہت زرخیز ہے۔۔۔۔
اس شہر نے فنونِ لطیفہ کےتقریباََ ہر شعبہ میں بہت سےمشاہیر پیدا کیے ہیں۔۔۔۔اسی تسلسل میں شعبہ نعت میں بڑے لوگ پیدا ہوئے جن میں مرحوم حافظ لدھیانوی،عبدالستار نیازی ڈاکٹر ریاض مجید،ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی اور دیگر ایسی کئی نعتیہ شخصیات جن کے سبب فیصل آباد” شہر ِ نعت”کہلایا۔۔۔۔
برادرم شہزادؔبیگ اسی نعتیہ روایت کے پروردہ اور نمائندہ شاعر ہیں ۔۔اُن کی نعت میں جذبے کا وفوراورجذبات کی ایسی کشش ہے جو اپنی طرف متوجہ کرتی ہےاور کیوں نہ کرےکہ بات دِل سےنکلے تودِل پر دستک تو دے گی۔
’’از دل خیزد،بر دل ریزد‘‘اُن کی بعض نعتوں کو پڑھ کر یوں لگتا ہےجیسے کہی نہیں کہلوائی گئی ہیں ۔۔۔اور یہ بہت بڑی عطا ہے ۔۔۔
میری دعا ہے کہ ان کا یہ نعتیہ مجموعہ’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘بارگاہ رسالت میں مقبولیت حاصل کرےاور بروز حشر ان کی شفاعت کا سبب ٹھہرے۔۔آخر میں ان کایہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
ایسی خوشبو آئی شہر مدینے سے
جس نے دِل کے ہر گوشے میں دستک دی
🕳️ حمد ،نعت اور منقبت کوئی بھی شاعر آسانی سے نہیں کہہ سکتا،اس میں بہت باریکیاں ہوتی ہیں ہر لفظ بہت غور وفکر کرکے رکھا جاتا ہے جہاں تک میرا خیال ہےشہزادؔبیگ پاکستان کے نعت کے ممتاز شاعروں میں شمار ہوتےہیںان کےنعتیہ کلام میں ممتاز شعراء کرام کا رنگ ِسخن عیاں ہوتاہےاور کہیں کہیں محترمحفیظ تائب کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔
اس وقت ان کی کتاب ’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘میرے سامنے ہے جس کی ہر نعت لاجواب اور عمدہ ہے کتاب کا ہر صفحہ روشن نظر آرہا ہےان کا یہ شعر مجھے بہت پسند لگاہے ۔
ایسا لگتا ہے مدینہ ہوئی سب کی منزل
چل پڑے سارے بشر شہر ِمدینہ کی طرف
سبحان اللہ کیا لاجواب اور عمدہ خیال ہے اس ایک شعرسے ہی شاعر کی تخیلقی اپج اور علمی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس تخیلات اور عقیدتوں پر مشتمل کلام شامل ِکتاب ہے جب کہ ’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کی تمام نعتیں دل و نظر میں گداز پیدا کرتی نظر آتی ہیں اور روح کو معطر کرتی محسوس ہوتی ہیں۔
پرورد گارشہزادؔ بیگ کےعلمی اور ادبی صلاحیتوں میں اور اضافہ فرمائے اور ان کا نام دنیائے ادب میں جگمگاتا رہے۔ آمین
🕳️کوثر علی
نعت کہنا،نعت پڑھنا، نعت سننا ہمیشہ سے میرے لیے باعث سعادت و افتخار رہا ہے۔اللہ پر ایمان تو جیسا بھی ہے ہرکسی کا ہےلیکن حضورؐ پر ایمان عین منشائے الہی ہے۔لوگ حضورؐکا ذکر سن کر جتنا خوش ہوتے ہیں یہی ان کے ایمان کی برہان بیّن ہے۔ حضورؐ پر ایمان کو فروغ دینے میں آج تک زبان وبیان کے تمام تر ذرائع استعمال کیے گئے ہیں لیکن نعتیہ شاعری نے عوام الناس کے دلوں کو جس طرح گرمایا ہے کسی اور طرزِ اظہار کے حصہ میں نہیں آیا۔
قدماء تو اپنے مجموعہ کا آغاز ہی حمد و نعت سے کرتے تھےلیکن اس دور میںجس ق نعتیہ دواوین منصہ شہودپر آئے ہیںاور آرہے ہیںاس دور کی برکات و حسنات کا طرہ ء امتیاز ہےمیرے خیال میںیوں موجودہ دورحضورؐ کے دور کے زیادہ قریب ہوگیا ہےان حالات میںشہزادؔبیگ کےنعتیہ مجموعہ’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کا اشاعت پذیر ہونا معمولی واقعہ نہیں ۔
نعت نگاری کے بارے میں کچھ لکھنا نعت نگاری ہی شمار کرتا ہوںصد شکر کہشہزادؔبیگ کی نعتیہ کتاب کے بارے میں رائے دیتے ہوئےمیرا دل فرط ِانبساط سے سرشار ہے اور سر فخر سے بلند ہو رہا ہےکہ حضورؐ کی شان اور شان کےبیان میں کہے گئےاشعارکا جائزہ اور ستائش میرے نصیب میں آئی ہےہم نعت غزل کے پیرایہ میںتخلیق کرتے ہیںاس ان میں تغزل کی موجودگی اسےآسما ن ِشاعری پر لا کھڑا کرتی ہے۔
شہزاد ؔبیگ ایک طویل عرصہ سے شاعری کررہے ہیںان کے مداحوں کا ایک و سیع و دقیع حلقہ ہے۔ دیکھنے میں ان کی نعتیہ شاعری کل کی بات لگتی ہےلیکن ایسا ہے نہیں۔یہ ان ہی ان نعت لکھتے رہےاور آج ان کا کلامنصہ شہود پر آگیا ہے۔
میں نے’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کو لفظً لفظً دیکھا ہےاور ان کی نعتیہ شاعری میںایک عجیب انداز پایا ہےیہ روایتی نعت نہیںاسلوب تازہ ہے اور مضامین بھی نو بہ نو ہیں۔عام طورپر ملکِ پاکستان میں ایک ہی طرح کی نعتیں کہی جارہی ہیں لیکن شہزادؔبیگ کی نعتیںچیزے دیگرکے ضمن میں آتی ہیں۔نعتیں تو یہ ہے ہی، لیکن ان میں حضورؐ سے قلبی اور روحانی محبت کا وفور بھی نکتہء عروج پر ہےآپؐ کے پیغام کو پھیلایا گیا ہے آپ سے محبت کو دلوں میں اتارا گیا ہےکیونکہ یہ کلام شاعرکے دل سے پھوٹا ہےاس میں رنگ بھی ہے خوشبو بھی ہے او ر رس بھی یہ معمول کا کلام نہیں ،خاص رحمت سے نوازا ہوا کلام ہے آپ کو کتاب کے ہر صفحہ پر نورو وفور میں ڈبوئے ہوئے اشعار ملیں گے۔شہزادؔبیگ جس کا سوالی ہے وہاں سے اسے’’ نہ‘‘ نہیں ہوئی اور اس نے بھی ہر عطا کو سنوار بنا کر پیش کیا ہے۔نت نئی زمینیں ہیں۔نت نئے انداز ہیں۔۔ نعتیہ شعور پہلی نہیں اس سے اگلی سطحوں کا حامل ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
مانگی ہیں میں نے ساری دعائیں حضورؐسے
اس دل کی خستگی کے دفینے میں بیٹھ کر
روندتے جا رہے ہیں سب مجھ کو
راستے کا غبار ہوں آقاؐ
زمانہ جانتا ہے میرے کملیؐ والے کو
شفاعتِ شہؐ والا بھی انتہا تک ہے
میری فردِ عمل میں تو کچھ بھی نہیں
اپنی بخشش کا در کھول دیں یانبیؐؐؐ
سب سے آخری دستک تھی یہ دنیا میں
اس لیے آپؐ نے ہر گوشے میں دستک دی
کچھ یا د نہیں ر ہتا ہے اس شہر میں جاکر
اک عشقِ حقیقی ہے وہاں شام و سحر میں
میں اور بھی کئی اشعار بطور حوالہ پیش کرسکتا ہوں لیکن آپ خود پڑھیں اور پوری کتاب پڑھیں۔آپ کو ایسے اشعار بکثرت ملیں گےجنہیں فی الواقع شعر قرار دیا جاسکتا ہےاور اگر آپ انہیں نہ پڑھتے تو ایک بہت بڑی سعادت سےمحروم رہتے۔
ّؔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
🕳️زاہد فخری ( لاہور)
نعت رسول مقبول ﷺ کہنےکے جس شوق وذوق اور عشق کی شدت کار ہوتی ہےاس کا اندازہ شہزادؔبیگکی نعتوں سے جھلکتاہے۔
اس کی نعت کا ڈکشن بھی جدیداوربہت خوبصورت ہے۔یوں تو اس کی ساری نعتیں ہی اپنے ان جاذبیت کی خوشبو ہوئے ہیں لیکن جس نعت کی دستک نے میرے دل کا دروازہ کھولا ہے اس کا مطلع اور مقطع آپ کو بھی سناناچاہتا ہوں،
میرےنبی ؐ نے ہرخطے میں دستک دی
عربی ، عجمی ہر لہجے میں دستک دی
ساری دنیا سوئی ہوئی تھی جب شہزادؔ
شاہ ِ اممؐ نے ہر کونے میں دستک دی
غز ل سے نعت تک کا سفر محبوب سے محبوبِ خدا تک کا سفر ہےمیں اس سفر سے لطف اندوز ہوچکا ہوں اس جب بھی کوئی اس سفر پرگامزن ہوتا ہے مجھے بے حد خوشی ملتی ہے میں سچے دل سے دعا گو ہوں کہ شہزادؔبیگ کی تمام نعتیں نہ صرف بار رسالت میں قبول و مقبول ہوں بلکہ عاشقان محمدؐ کے دِلوں میں مستقل گھر بھی کرلیں۔ آمین
🕳️ڈاکٹرسرورحسین ؔ نقشبندی
شہزاد بیگ کی شمع عجز وعقیدت
جناب شہزادؔبیگ کی فکر اس شہر میں پروان چڑھی ہے جو شہر َنعت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کی مٹی نعت کی خوشبو سے مہک رہی ہےنعت کے افق پر طلوع ہونے والی بہت سی نابغہء روزگارشخصیات کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ وہ شہر ِنعت کی ادبی سرگرمیوں کے ایک نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہےاور غزل بھی تواتر سے کہتے ہیں۔
ان کی نعت شعری تجربے اورریاضتِ فن کی آئینہ دار ہےان کے ہاں اظہار کا سلیقہ بھی ہے اور جذبے کا وفور بھی۔نعت کہتے ہوئےوہ شمع عجز و عقیدت کی لو سے ایوان فکر میں چراغاں کرتے چلے جاتے ہیں رواں دواں بحور اور مترنم زمینوں میں کہی گئی ان کی نعتیں براہ راست سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اترتی چلی جاتی ہیں ۔سادگی و پر کاری سے مزین اور نت نئی ردیفوں کا سہولت سے کامیاب استعمال ان کی شعر گوئی پر دسترس کا غماز ہے۔ نعت نگاری کی اس وقت مجموعی تخلیقی فضا اور خصوصاََ شہر ِنعت میںکثرت سے ظہور پذیرہونے والی شاعری میں ان کی نعت اپنی ایک الگ خوشبو اور جداگانہ تشخص رکھتی ہے اور یہی میرے نزدیک ان کی انفرادیت ہے میں ان کےنعتیہ مجموعہ ’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی توفیقات میں مزید اضافے کے لیےدعا گو ہوں۔
🕳️ڈاکٹر شبیر احمد قادری
نعت کہنا، محبّانِ مصطفےٰکے نزدیک ایک اجتبائی عمل ہے، نعتیہ شاعری مومن کےربطِ باطنی کا ظاہری پیرایہ ہے اس میں دیدئہ تخیل سے زیادہ اپنے ان کی آنکھ کو کُھلارکھنا ہوتا ہےکہ یہ حرفوں اور لفظوں کےتوسل سےحُبِ رسول کی روشنی عام کرنے کا عملِ خیر ہے۔
شہزادؔبیگ کی نعت میں مرکزیت ان موضوعات کو حاصل ہے جومشمولات کے باثروت کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔یہ نعتیں اُن کی کیفیاتِ دلی کی ترجمان ہیں،وہ غزل گوئی کے ’’بیاباں ‘‘سے نعت کی وادی ِگُل میں داخل ہوئے ہیں اور اُن گلوں کی مہک سے مشامِ جاں کو معطر پاتے ہیں اس مہک کو اس کتاب میں شامل حرف حرف سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
گلستان مدینہ سے آنے والی بادِعطر فشاں کو صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جن کے مشام ِ جاں،تہذیبِ غیرسے آلودہ نہیں ہوتے،اور وہ اس کار نیک بنیادکو نشیب و انحداد سے اٹھ کر اوج وعروج کے زینے پر قدم رکھنے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔شہزادؔبیگ کی نعتیہ شاعری میں سرزمینِ اقدس سے محبت کے انمٹ نقوش موجود ہیں۔جو بہت قابلِ تحسین عمل ہے۔
شہزادؔبیگ نےاس مجموعہء نعت کی پیشکش اور اشاعت کےذریعےاپنے ذہن کی بالیدگی کا سامان کرنے کی سعی کی ہے۔
🕳️پروفیسر محمد طاہرؔؔ صدیقی
شہزادؔبیگ ادبی دنیا کا وہ نام ہے جس نے آسمانِ ادب پرکتنے ہی ستارے چمکتے دمکتے اور غروب ہوتے دیکھے ہیں۔کتنے ہی شعری جگنو اور نثری تتلیاں جس کی پروردہ ہیں۔جس کا قلم سطحِ قرطاس پر ہمیشہ جوہر ِصناعی کا مظہر رہاہے۔جو نقاشِ ادب بھی ہے اور مخدومِ ادب بھی۔جو نت نئی تخلیقات کے سدا متحرک رہا اور محرک بھی ۔شہر ِنعت کے بانیوں کے پس منظر میں جو ایک خاموش قوت اور تقویت بن کے رہا،آج اسے حلقۂ مدحت نگارانِ رسولﷺ میں نہایت خوش گوار انداز میں شامل ہونے پردلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور خوش آمدید کہتا ہوں۔’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘ شہزادؔبیگکا ایسا نورانی نگار خانہ اور مرقع ہے جسے عاشقانِ رسول ﷺ معطر و مقدّس نگارشی وراثت کا تفاخر قرار دیتے رہیں گے۔
جب کسی شاعر کی فکر کا مرکز اور علم کے حصول کا ذریعہ حسیات،روایت، الہام، تعقّل،ذاتی آراء اور وجدان کی بجائے قرآن مجید،اسوۂ رسولﷺ اور سنت ِاصحاب بن جائے اور اس کے دل پراسمِ محمدﷺ کا مفہوم’’بہت زیادہ تعریف کیا گیا‘‘ اپنی جملہ رعنائیوں کے ساتھ منکشف ہو جائے تو’’ نعتِ محمد صلِّ علیٰ‘‘جیسی تخلیقات بالضرور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ بقول جناب سید مختار گیلانی’’نعت گوئی کے اساسی اور اوّلین نظائر تو کلام ِالٰہی میں ملتے ہیں جبکہ دوسرے نمبرپر ہماری رہنمائی کے سنگ میل کی حیثیت ان نفوس ِمقدّسہ کی نعت گوئی رکھتی ہے جن کا شمار حضور اکرم ﷺ کے عالی مرتبت اقارب، باوفا صحابہ کرام ، مورد ِ تطہیراہل بیت عظام ورشاملانِ ود آلِ اطہار علیم السلام اجمعین میں ہوتا ہے ۔ اصلاً انھی دو منابع کے مضامین و اسالیب کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ، متاخرین نعت نگاران ، بقِ استطاعت خدمت ِنعت کی سعادت حاصل کرتے ہوئے ، نعت گویانِ محمدِ عربی ﷺ کی مبارک فہرست میں تو’’ ( جس میں پہلا بابرکت نام اللہ رب العزّت کا ہے) اپنے اپنے نام کا اناج کرواتے آرہے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ‘‘
شہزادؔبیگ کامجموعۂ نعت میرے زیرِ مطالعہ ہے۔بحرِمحامدِمصطفیٰ
ﷺ میں غواصی کی جو سعادت ’’ نعتِ محمد صلِّ علیٰ‘‘کی صورت میں شاعر نے حاصل کی ہے ، وہ اُسی حقیقت کا مظہر ہے جس کا اظہار جناب سید مختار گیلانی نے کیا ہے۔خوب صورت اور دلنشین اسلوب،قدیم و جدید رنگِ شاعری کی آمیزش ،فکری اور فنی خوبیوں کا امتزاج اور سب سے بڑھ کر عشقِ رسولِ اکرم ﷺ کے پر خلوص جذبوں نے اس نعتیہ مجموعے کے ہر ہر شعر کو یوں مزین کر دیا ہے کہ میرے قلب و نظر پر ایک منفرد اور مسحور کن کیفیت طاری ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے حضور نبیِ کریم ﷺ کے وسیلے سے دعا گو ہوں کہ وہ اس کاوشِ جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور شہزادؔبیگکو اس کے تمام اکابرین سمیت اس کا ڈھیروں اجر عنایت فرمائے، آمین۔
🕳️پروفیسر ریاض احمد قادری
جب شہر ِنبیؐ کی بارشیں دلِ شاعر پر اتر پڑیں تو وہ کس سہولت سے نعتِ نبی ؐلکھ لیتا ہے اس کا انداز’’ نعت ِ محمد صلِّ علیٰ‘‘ پڑھ کر ہوتا ہے جس کی اشاعت سے شہر ِ نعت کے نعتیہ امکانات میں نہ صرف اضافہ ہُوا ہے بلکہ یہ مجموعہ شہر ِ مدینہ سے مدینۃ النعت کی طرف سے آتی خنک بن گیا ہے ۔یوں آبجوئے نعت سے اپنی تشنہ کامی مٹاکر سیراب ہونے والے خو ش بختوں میں مدینۃ النعت کے معروف ، کہنہ مشق اور زیرک شاعرمحترم شہزاد بیگ بھی شامل ہوگئے ہیں ۔
وادی ٔ تغزل سے سمن زارِ مدحت ِخیرالانامﷺ کی طرف ان کی مراجعت اور ہجرت ان کی ان عقیدتوں ، محبتوں ، نجابتوں اور مودتوں کا ثمرِ لازوال اور ان پُر کیف ساعتوں کی دین ہے جو انہوں نے اہلِ نعت کی صحبت و خدمت میں گزاریں۔ تین دہائیوں کی علمی ادبی اور فنی ریاضت کے بعد لالہ زارِ نعت میں آنا ان کے مدینۃ النعت سے مدینۃ الرسولؐ کی طرف مقدس سفر کا حاصل ہے ۔ان کی نعت فنی تازہ کاری ،عقیدت و محبت کی سخن طرازی ، عجز و نیاز اور کیف و سرور کے نشاط انگیز امتزاج اور عقیدت و شعور کے وجد آفرین ادبی تجربات کی غماز ہے۔
ان کے الفاظ محض الفاظ ہی نہیں بلکہ محبت و عقیدت کے جذبات ہیں جن میں تاثیر، لہجے میں خوش بیانی ، بیان میں روانی اور اخلاص کی گل افشانی پائی جاتی ہے ۔ان لے الفاظِ ثنا میں ان کا محبتِ رسولؐسے بھرا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔ان کی تمام تر توضیحات ، ترجیحات اور کیفیات کا مرکزومحور شہر ِ نبیؐ مدینہ ہے۔ مدینہ ان کی نعت کا خاص حوالہ ہے ،مدینہ ،مدینے والا، مدینے کے جلوے ، مدینے کے مراتب بیان کرتے ہوئے ان کے تصور میں شاہِ مدینہﷺ کا سراپا جلوہ فگن رہتا ہے ان کی نعتوں میں زیادہ تر نعتیں انہی ردیفوں میں کہی گئی ہیں جن میں مدینہ آتا ہے ۔ مدینے سے اس وارفتگی اور دلبستگی کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک خاص تاثر اور تاثیر شامل ہوگئی ہے جس کا ااک وہی عشاقِ مصطفیﷺ کرسکتے ہیں جن کی ابدی و ازلی منزل مدینۃ المنور ہ ہے ۔مدینہ جن کے دل و جان میں بستا ہے۔ مدینہ شہرِ نبوت ہے، مقامِ محبت و عطا ہے ، اللہ کی رحمتوں کی تمام تر بارشوں کا مرکز۔وہ کہتے ہیں ۔
محترم شہزاد بیگ اپنی غزل کا تمام تر تغزل ، حسنِ بیاں ، علائم و رموز ،صنائع و بدائع ، فنی اپج اور استاکاری اپنی نعت میں لے آئے ہیں جس سے شہر ِ نعت کے افتخار ، وقار ،معیار اور شعار میں متعد بہ اضافہ ہُوا ہے۔ ان کی نعتوں میں تازہ کاری اور ناہ کاری کے ساتھ سلاست ،سادگی ، سہلِ بیاں اورسہلِ ممتنع کی وافرمقدار موجود ہے۔ان کی طبع زاد ردائف ،اچھوتے قافیوں ،نا تراکیب اور زوردار بندشوں کی بدولت ان کی نعت جدید نعت کی بہترین مثال بن گئی ہے ۔ان کی ردائف میں دستک دی ، اور ہی کچھ ہے ،کی سند ہے ،نے بلند کیا ،نعتِ محمد صلِ علیٰ،مجھ پر اتر پڑیں،لکھوں میں صلِ علیٰ،بہت پاس چلا جائوں گا،سرخرو ہُوا ہوں،بھی انتہا تک ہے ،سے میں لکھ لیتا ہوں،کھو ل دیں یانبیﷺ جیسی نایاب ردیفیں شامل ہیں جو ان کے تخیل کی شاہکار ہیں ۔ان کی بے مثال تراکیب میں دیدار کا زمزم ،عشق کی مہک ،ارضِ طیبہ کی نشانی ،نعت کا سفینہ ،مدحت کا بادل ، شہرِ نعت
🕳️ ڈاکٹر تقی عابدی
(ٹورنٹو،کینیڈا)
ٍ شہزادؔ بیگ کی غزلوں کا مجموعہ ’’پرندے وجود میں‘‘اکیسویں صدی کے گلوبل ویلج میں اُردو تخلیق کی جدید رنگین تصویر تصور کیا جائے گا ۔جس میں سادگی ،سچائی ،شگفتگی اور روانی کے ساتھ نغمگی کی گونج بھی ہے۔
مردف غزلیں چھوٹی بحر میں پرندوں کی سریلی آواز سمیٹے ۔غم ِجاناں اور غمِ دوراں کی نغمہ سرائی کی بانسری معلوم ہوتی ہیں۔ اگرچہ اُردو شاعری میں پرندوں کا وجود ان کی منطق اور تذکرہ قدیم سے موجود ہے۔ لیکن شہزادؔ بیگ نے نہ صرف انسان کی ذات شناسی میں پرندوں کے وجود کی نشان دہی کی ہے بلکہ پرندوں کی طرح انسان کا زمین سے استفادہ اور آسمانوں پر پرواز کے حوصلے کی توثیق بھی کی ہے ۔ پرندہ بلندی سے بہت وسیع علاقہ نظر میں رکھتا ہے اور ہر تصویر کا عکس کا بھی بلندی سے جداگانہ ہوتا ہے،یہ مطالب شہزادؔ بیگ کی غزلوں کے مصرعوں سے ظاہر ہیں جن میں خیالات کی تازگی، بیان کی ندرت اور مضامین کی وسعت قاری کو پرندوں کی مہاجرتی مسائل،پرواز کےوسائل اور پرندوں کی جماعتوں کی طرح انسانوں کے خصائل شعروں میں محاوروں کی چاشنی کے ساتھ نادر ردیفوں میں ظاہر کیے گئے ہیں،اس مجموعہ میں قاری کے لیے عمدہ شاعری کا نمونہ موجود ہے۔ آج انسان کو طائرانہ نظر نہیں آتابلکہ وجدانی نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ورنہ۔۔۔۔
حشرات کی صورت نظر آئیں گے اُسے ہم
گر اُس نے بلندی سے اتر کر نہیں دیکھا
اور جب ’’دیکھا جو آج ذات کے پنجرے کو کھول کر‘‘تو بقول شہزادؔ بیگ عشق کی بدولت
اُتر آئی ہے میری روح میں اک کہکشاں سی
ترے آنے سے ہر شے آسمانی ہو رہی ہے
چنانچہ ہم زمین والوں کو یہ ارمغانِ شعری مبارک ہو۔ جو شہزادؔ بیگ کا تخلیقی تحفہ ہے۔
🕳️ڈاکٹرسعادت سعید
سارتر نے وجود کو جوہر پر مقدم قرار دینے کا جو دھماکہ خیز اعلان کیا تھا اس کے مطابق انسان اپنا جوہر خود تیار کرتا ہے۔سو شاعری میں بھی شاعر اپنے وجود کی بنیادوں پر اپنے آپ کو مجتمع کرتے ہوئے اپنے جوہر کی خود تشکیل کرنے میں منہمک رہتا ہے۔وجود کا لفظ کلاسیکی شعر و ادب میں جن معنوں میں مستعمل رہا ہے عہد حاضر کی شاعری میں ان سے گریز کا رویہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ شاعر اپنی ذات کے جوہر کی آئینہ بندی میں مگن اس لفظ کی نئی جہتوں کی نشاندہی کرنے کے متواتر کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔نشاط تصور کی گرمی سے آشنا بلبل جس نوع کی نغمہ سرائی سے مانوس ہوتا ہے اسے اس کے وجود کی حرارت کا عطیہ کہنا مناسب ہے۔وجود کے طائر کے چند اعمال دیکھنے کے لیےمنطق الطیرکے عطاری فلسفہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی نئے خیالات کے پرندوں کی جدت طرازی کی نشاندہی ممکن ہے۔آسمانوں سے پرواز شروع کرتی شاعری کی پریاںجب شاعر کے دماغ کے ان اپنے پر کھولتی ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ وہ ’’پرندے وجود میں‘‘ کی ردیف میں اپنے مطالب منتقل کرنے کا ماہرانہ کام کر گزرے۔ اس حوالے سے شہزاد ؔبیگ کی یہ غزل اہمیت کی حامل ہے۔ہم صفیروں سے میل ملاقات، وجود کی کشادگی،بسیط و وسیع کائنات کی مسافرت، تہذیب آموزی، عرش سفری، خاموش ذات میں شور انجمن کی تلاش،وجود کی معنوی اڑانیں، یادوں کی گمشدگی،پرواز کی حوصلہ یابی، زہریلی فضائیں، پرندوں کی موت کا احساس ، ان کی جھلملاہٹ کا بیان یہ سب کچھ شاعر کے دل کے آس پاس اڑانیں بھرنے والے جذبات کے پرندوں کی بدولت سامنے آتا ہے۔اس اعتبار سے یہ پرندے شاعر کے وجود کی جوہر سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔
اک دو جو چہچہائے پرندے وجود میں
پھر ہر طرف سے آئے پرندے وجود میں
اتنی نہ تھی کشادہ مری ذات کی فضا
پر بھی نہ کھول پائے پرندے وجود میں
اک دن جو خواہشات کے کاٹے ذرا سے پر
کتنے ہی تِلملائے پرندے وجود میں
آزاد کر گئے مجھے مٹی کے جال سے
آ آ کے بن بلائے پرندے وجود میں
دیتی رہے گی خامشی دستک حواس پر
جب تک نہیں بسائے پرندے وجود میں
اُس کو یقیں نہ آیا جب میری اُڑان پر
میں نے اُسے دکھائے پرندے وجود میں
تھا جس چمن کا تذکرہ، گم ہو گیا کہیں
اب کیا ہے ماسوائے پرندے وجود میں
پر مارنے کی مل گئی ہر اُس کو پھر مجال
جس جس نے آزمائے پرندے وجود میں
سانسوں میں ایسا زہر کوئی آکے بھر گیا
مرنے سے بچ نہ پائے پرندے وجود میں
بھرتے ہیں اب اُڑان مرے دل کے آس پاس
جذبات کے بجائے پرندے وجود میں
شہزادؔ کھو کے رہ گئی اُن میں مری نظر
اِس طور جھلملائے پرندے وجود میں
یہ پرندے صورتی شکلی محبت سے پہلو بچا کر نکلتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں وہ کسی وجود کے مجرد روحانی حوالوں کے متلاشی ہو جاتے ہیں۔انہیں کسی دل میں سمانے کا شوق ہے مگر اس شوق میں وہ توہین محبوب کے کاروبار سے سروکار نہیں رکھتے۔ شریفانہ محبت ان کا مطمح نظر رہتی ہے۔چنانچہ جسمانیت کی ہوس کاری انہیں کب مرغوب ہو سکتی ہے۔ جب کوئی انہیں مستقیم راہ سے ہٹانے کا جتن کرتا ہے تو وہ اس کے سامنے ڈٹ جانے میں عافیت جانتے ہیں۔
شہزادؔ بیگ کے وجود میں موجود پرندے بینا بھی ہیں اور نابینا بھی۔یہ بلبل، چڑیا، طوطا، کبوتر، کوئل، مینا، ہما، سیمرغ، شارک، کوا ، چیل، گدھ، عقاب اور نہ جانے کیسے کیسے دوسرے پرندوں کے تیور رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنے شعری مجموعے ’’پرندے وجود میں‘‘ میں پرندوں کے انفرادی اوصاف کے حوالے سے تو اظہار خیال نہیں کیا تاہم ان کی پرواز، آشیاں بندی، قناعت، توکل، صبر، میل جول اور کئی دوسرے معاملات کو گرفت میں لانے کا جتن کیا ہے۔غالب نے کہا تھا کہ طوطی کو شش جہت میں مقابل ہے آئینہ۔شاعر کے وجود میں موجود پرندے اپنی گونا گوں خصلتوں کے سبب اسے نوع بنوع کے مناظر میں لے جانے کا کام کرتے ہیں۔انہیں شاعر کے تخیل کی علامتوں کے بطور بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
شہزادؔ بیگ کے دماغی پرندے خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈنے کے پے بھی ہیں۔اور اپنے نیک اعمال کے عوض تہمتیں لگانے والوں سے نبرد آزما بھی ہوتے ہیں۔
شاعر کے تخیلی پرندے اسے بتاتے ہیں کہ وہ وقت کی مسلسل لہروں کی زد میں اپنے من پسند راستوں کو فراموش کرنے سے باز رہے۔’’وجود میں پرندے‘‘ کا انوکھا خیال شہزادؔ بیگ کی طبع رسا کی عطا ہے۔اس طبع رسا میں گمان اور یقیں کے مابین جدل کی صورت حال بھی سامنے آتی ہے۔تاہم اسے گمان مرغوب ہے کہ وہی اسے اس کے تصور کی سرخوشی عطا کرتا ہے۔شہزاد ؔبیگ کا شعری مجموعہ ’’پرندے وجود میں‘‘ خیالات کے ان چراغوں سے روشن ہے کہ جو قارئین کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ وہ آگ ، پانی ہوا، مٹی کے عذابوں کا حوصلہ مندی سے مقابلہ کرنے کی دعوتیں دیتے ہیں۔اس شعری مجموعے کا واحد متکلم متعدد متضاد و دشوار کیفیات کا قیدی ہونے پر قانع نہیں ۔اسی اسے اپنے لمحہ لمحہ زنجیرہونے سے ڈر محسوس نہیں ہوتا۔ اسیری میں آتش زیر پا ہونے کا تصور اسے کلاسیکی شاعری سے ملا ہے۔
’’پرندے وجود میں ‘‘ موجود ایک غزل ملاحظہ ہو:
ایک ہنگام، مسلسل ہے جو برپا مجھ میں
کرتا رہتا ہے اُداسی کا اضافہ مجھ میں
شام ہوتے ہی میں ہو جاتا ہوں آئنہ سا
دیکھ سکتے ہو سرِ شام سراپا مجھ میں
گرد بادل کی طرح اڑتی چلی جاتی ہے
ایک لشکر ہے کسی سمت روانہ مجھ میں
جذب ہے ایک کہ جو عالم سرشاری میں
ایک ارژنگ سا، چھو کر ہے بناتا مجھ میں
توڑ دیتی ہے مری یاس تہیہ میرا
باندھ دیتا ہے کوئی پھر سے ارادہ مجھ میں
ایک پاتال تھی، تخلیق پہ آخر یہ کُھلا
میں یہ سمجھا تھا کہ ہے اوجِ ثریا مجھ میں
بعد مدت جِسے پائے بنا لوٹ آیا تھا
اُس محبت کا ملا مجھ کو خزینہ مجھ میں
دُکھ تو یہ ہے، یہی ساکت کیے دیتا ہے مجھے
یہ جو آتا ہے نظر خون سا چلتا مجھ میں
اب زمانے میں ہوں میں گویا عدم کی صورت
ہاں کسی دور میں ہوتا تھا زمانہ مجھ میں
ہوگئی ختم کہانی مری، ہوتے ہوتے
ہوگیا دفن مری ذات کا قصہ مجھ میں
حبس بڑھتا ہی چلا جاتاہے باطن میں مرے
کاش ہوتا کوئی شہزادؔ دریچہ مجھ میں
اس غزل کی روشنی میں ذیل میں ایک قے طویل اقتباس قارئین کی رہنمائی کر سکتا ہے۔اس میں شاعری کے پراسس کے بارے میں وضاحت سے اظہار خیال ہوا ہے۔
شاعری کی تفہیم کے صلاح الدین محمود نے اپنی ایک تحریر ’’ایمان‘‘ میں مندرجہ ذیل امور کی نشاندہی کی ہے:
’’شاعری قت کا بیان نہیں کرتی بلکہ خود قت ہوتی ہے۔ شاعری، ہوا، پانی ،آگ یا خاک نہیں ہے بلکہ ہوا کا چلن ، پانی کا بدن، آگ کا لحن اور خاک سے خود بخود اگتا ہوا چمن ہے ۔
شاعری وہ اندھی چڑیا ہے کہ جو کائنات کے ایک گم نام گوشے سے بیساختہ ہم اندھوں تک آتی ہے اور ہمارے کاندھے پر ایک توکل کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔کبھی وہ ہم سے سوتے میں بولتی ہے تو کبھی جاگتے میں، کبھی اس کی آواز میں سورج کو دیکھنے کی طلب ہوتی ہے تو کبھی چاند کو نہ دیکھ سکنے کا ملال۔ اب کبھی وہ یا ہوتی ہے تو کبھی یا پر برستی ہوئی بارش ،کبھی وہ رات کا بھیا نک جنگل ہوتی ہے تو کبھی وہ دوپہر میں سربلندمگر اپنی سمتوں کا اسیر شجر۔کبھی وہ اکہری ہوتی ہے تو کبھی دوہری، کبھی وہ آئینہ ہوتی ہے تو کبھی اسی آئینے میں جھانک کرموت کو تلاش کرتا ہوا بالک ،کبھی نر ہوتی ہے تو کبھی ناری، کبھی ہونٹ ہوتی ہے تو کبھی بدن، کبھی آواز ہوتی ہے تو کبھی اس ہی آواز سے بالکل انجان ۔ اور اگرکبھی موت ہوتی ہے تو پھر خود ہی ہمیشہ جان بھی ہوتی ہے تمام جان پھر ایک دن وہ چڑیا اڑجاتی ہے۔ جب ایک دن ہم خواب سے پرے کی نامانوس سرزمین سے واپس آتے ہیں تو وہ اندھی چڑیا اڑ چکی ہوتی ہے ۔آپ سے آپ آئی ہوتی ہے اور اب آپ سے آپ جا چکی ہوتی ہے۔ کہاں؟ کیامعلوم!بس اب اس اندھی چڑیا کادکھ ہمارادکھ ہوتاہے اور اس کیفیت کا بیان ہمارا ہر ممکن امکان ۔ یہ دکھ کیوں ہے؟ اور اس دکھ کی ماہیت کیا ہے؟ شائد یہ وہ رشتہ ہے کو جو بینا اور نابینا کے میان بہر کیف قائم ہوتاہے یا شاید یہ دکھ ہمارے ہر لمحہ کند ہوتے اور مٹتے حواس کا وہ شعور کہ جو اس مٹتی کیفیت کو جانتا ہے مگر مجبور ہے یا پھر یہ دکھ ان سے آب ہوتے حواس کی اس مسلسل قید سے سیاہ اور سپید کے اس متواتر جنگل سے فرار نہ ہوسکنے کا انجام ہے کیا معلوم ؟ بہر کیف ایک شاعراسی دکھ کا محض محافظ ہوتا ہی نہیں بلکہ ہمسفر بھی ہوتا ہے۔
شہزادؔ بیگ کی شاعری میں ایمانی عقیدتیں بھی نظر آتی ہیں اور فشار خون میں مبتلا کرنے والے قلبی جذبات کی پذیرائی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔اپنے تصور شعر کے بارے میں وہ کھل کر یوں اظہار کرتے ہیں:
سخنوری کا جو لہجہ مجھے عطا ہوا تھا
شعور میں یہ ازل سے مرے لکھا ہوا تھا
ـ
شعر در شعر تشنگی سی ہے
بات ہو کے بھی ان کہی سی ہے
ـروتا رہا ہوں شام و سحر میں پسِ غبار
لکھتا رہا ہوں شعر مگر میں پسِ غبار
ـکر کے آنکھ افسانوں کو
دیکھو نئے جہانوں کو
شہزادؔ بیگ نے اپنے شعور کے ہزاروں اجلے پرندوں کو اپنی بولی میں بولنا سکھایا ہے۔ان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ شاعری عطیہ خداوندی ہے۔اس کی تقسیم ازلی ہے۔شاعری اپنی دستگاہ سے شاعرانہ وسائل اظہار کو بخوبی استعمال میں لاتا ہے۔غالب نے کہا تھا:
آتش کدہ ہے سینہ مرا سوز نہاں سے
اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے
اسی بات کو شہزاد ؔبیگ نے شعر شعر تشنگی کے تصور سے ظاہر کیا ہے۔مزید برآںشاعر کو احساس ہے کہ وہ جو کچھ کہنے کا تمنائی تھا اسے پورے طور پر کہنے سے قاصر رہا ہے۔یہی پیاس شاعر پر کلام کے مزید وازے کھول سکتی ہے۔ذیل کی غزل میں شہزادؔ بیگ کی ایمجری جدت کا بھرپور احساس دلانے والی ہے:
لمحہ لمحہ یہ جو زنجیر ہوا جاتا ہوں
اپنے ہی آپ میں تسخیر ہوا جاتا ہوں
کوئی کس طرح چرائے گا خد و خال مرے
میں تو دیوار کی تحریر ہوا جاتا ہوں
جسم پر شوقِ سفر اوڑھ لیا ہے میں نے
اور تری راہ میں رہگیر ہوا جاتا ہوں
یہ الگ بات کہ تو نے مجھے دیکھا بھی نہیں
کیوں ترے خواب کی تعبیر ہوا جاتا ہوں
میں کہیں رک سا گیا ہوں نئے موسم کی طرح
اپنی آمد میں ہی تاخیر ہوا جاتا ہوں
میرا احوال بتا دیتا ہے اوصاف اس کے
آج کل اس کی میں تفسیر ہوا جاتا ہوں
تری دستک سے ہی پہچان لیا ہے تجھ کو
روشنی سے تری تنویر ہوا جاتا ہوں
برف سی اوڑھ لی شہزادؔ بدن پر اپنے
اور اسی دھیان میں تصویر ہوا جاتا ہوں
صلاح الدین محمود نے شاعری کی کیفیات کے حوالے سے اپنے محولہ بالا اقتباس میں جو باتیں رقم کی ہیں شہزادؔ بیگ کی غزل میں ان کی گونج موجود ہے۔ زنجیرشکنی، تسخیر ذات، نقش گری ، تمثال سازی، نوشتہ دیوار، سفر کا شوق، مسافر راہ عشق، کشائی،روشن بینائی، خواب بینی، تعبیر سازی، مایوسی، پریشانی،حقیقت یابی میں تاخیر، حقیقت نمائی کی شعری تفسیر،انجماد کا احساس ، تصویر سا ساکت ہونا۔
پس غبار اشک فشانی ہو یا شعر گوئی اس سے وہ کیفیت سامنے رہتی ہے کہ جسے حسن ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔موثر شاعری کے جس نوع کے دیدہ ہائے دل وا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ شاعر کے طریق کار میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کے بغیر نئے جہانوں کی دید ممکن نہیں رہتی۔ شہزادؔ بیگ نے نظمیں بھی لکھی ہیں ۔اس مجموعے میں بھی ان کی ایک نظم شامل ہے۔اس نظم کا بنیادی رنگ ڈھنگ ان کی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔
🕳️ شعیب ؔبن عزیز
شہزادؔبیگ کی شاعری میں حرف و بیاں کے وہ بیشتر امکانات موجود ہیں ، جو کسی بھی شاعر کو اپنے ہمعصروں میں الگ پہچان بنانے کے کار ہو سکتے ہیں۔
میرے نزدیک شاعری کے نقاد کواپنی جانب متوجہ کرنے کی اولین ترغیب ایسی توقعات ہی ہوتی ہیں،جوشعری عمل کو کلیشے سے بے نیاز کرتے ہوئے اُسے آئندہ وقتوں کے بامعنی بناتی ہیںاور اس حوالہ سے دیکھا جائے تو ’’پرندے وجود میں‘‘ کی شاعری امکانی سطح پرثروت مند دکھائی دیتی ہے امید کی جانی چاہیے کہ یہ شاعری حالیہ شعری منظر نامے پر اپنے نقوش ثبت کرنے میں بامراد ٹھہرے گی۔
🕳️اعجاز کنورؔ راجہ
میں نے شہزادؔ کی پہلی کتاب ’’شہر خاشاک‘‘ پر۹۴ءمیں رائے دیتے ہوئے تحریر کیا تھا‘‘زبان و بیان میں پختگی مزید پختگی کی طرف گامزن ہے گرد و پیش کا اک موجود ہے، ٹوٹنےکےعمل سے گزرنے کی خواہش نئے وجود میں ڈھلنے کے یقین کی طرف اشارہ کرتی ہے ‘‘۔اور آج اس کی زیرِ نظر کتاب ’’پرندے وجود میں ‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے وجود میں ایک سرشاری کا عالم ہے کہ شہزادؔ بیگ نے میرے کہے ہوئے الفاظ کا جی جان سے بھرم رکھا اور میری ادنی رائے کے ایک ایک حرف کو سچ ثابت کرتے ہوئے معتبر بنا دیا ۔میں آج فخر و انبساط کے عالم میں ہوں کہ ہمارے ہم عصروں میں شہزؔاد بیگ کا نام اور کلام پوری تابندگی کے ساتھ موجود ہے ۔شہزادؔ بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے اور اس صنفِ سخن کے جملہ رموز سے آشنائی اس کا بنیادی ہتھیار ہے اور’’پرندے وجود میں‘‘ کی بیشتر غزلیں میرے اس دعوے کی سچائی کی گواہی دیتی ہیں۔اس کی نظمیں خال خال ہی پڑھنے کو ملی ہیں لیکن اس کتاب کی زینت ہمارے عہد کے معتبر ترین نظم گو شاعر وحید احمد کے اس کی نظم’’سبھی موسم تمہارے ہیں‘‘ پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے اسے ایک معتبر نظم گو شاعر کی سند بھی دی جا سکتی ہے ۔آخر میں صرف اتنا کہوں گا ۔شہزاد ؔبیگ! تمہاری ذات میں اتنی کشادگی یقیناً ہے کہ جہاں پرندے کھل کر اڑانیں بھر سکتے ہیں ۔