زینہ اس اچانک نکاح کے منصوبے پر گھن چکر بن کر رہ گئی تھی ۔۔۔ ضروری کپڑوں جوتوں کی خریداری سے لے کر زیورات کی پسند ناپسند گھر کی بڑی بہو کے ذمے تھی ، آدھا دن عاصم اور پھپھو کے ساتھ بازار کے چکر کاٹتی رہتی۔
روحیل کی بیتابیوں کو چکما دے کر پھپھو کے ساتھ خریداری اور باقی تمام معاملات سنبھال چکی تھی۔۔
آدھی رات نیچے پھپھو کے ساتھ گزار کر بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں اتر جاتی، بیچارہ روحیل دل مسوس کر دیکھتا رہ جاتا۔ دن میں بھی دور دور سے مسکرا کر روحیل کو چڑاتی اور اسکے قریب پہنچنے پر پھپھو کی آڑ میں چھپ جاتی ۔۔
زینہ میں فی الحال یہ سب اس نکاح کی تیاری کی بدولت برداشت کر رہا ہوں ، تمہاری طبیعت تو میں بعد میں درست کروں گا۔۔ روحیل نا چاہتے ہوئے بھی مدہوش زینہ کو دیکھ کر بڑبڑایا۔۔۔
آپ نے خود بولا تھا کہ زینہ تمہارا میرے آس پاس ہونا ہی کافی ہے تو پھر اب کس لئے غمناک ہوئے جا رہے ہیں۔۔؟؟زینہ نے لیٹے لیٹے خمار آلود آواز میں بولا پھر جھٹ سے نیم خوابیدہ آنکھوں کو مسل کر روحیل کو دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔
“خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علم ریاضی کے ——سوالوں کی طرح تھا
الجھا ہوا ایسا کہ ———–کبھی کھل نہ پایا
سلجھا ہوا ایسا کہ —–مثالوں کی طرح تھا”
(ماخوذ)
میرے وجیہہ سے صابر سے شوہر نامدار روحیل ارشاد آج کے لئے اس شعر پر اکتفا کریں۔ آپ کے جذبات و احساسات کی قدر دان آپکو مایوس نہیں کرے گی ان شاءاللہ۔۔۔ آپ کی خواہش کے مطابق نکاح کی تاریخ رکھی گئی ہے۔ بھلا کون تین دن کی مہلت لیتا ہے۔؟ اپنا نکاح بھی ایسے ہی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کیا اور اب ویرے کو بھی اسی چھڑی سے ہانک رہے ہیں۔!
آپ بھی ویر کے مقولے پر عمل کریں۔! اب آپ سے تفصیلی ملاقات اور بات چیت اپنے ولیمہ والے دن ہی ہو گی ، ابھی تو اپنے ولیمے کا جوڑا بھی تیار نہیں ہوا ہے۔ تھکن سے چور جمائیاں لیتی زینہ نے بولا اور روحیل کا جواب سنے بغیر کروٹ بدل کر نیند کی وادیوں میں دوبارہ اتر گئی۔۔جبکہ روحیل کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لے۔۔ اسی روزانہ کی دوڑ بھاگ اور کشمکش میں تین دن پلک جھپکتے گزر گئے۔
ذیشان اپنی عادت سے مجبور اکڑ میں نکاح کی چھوٹی سی تقریب میں شامل ہونے سے انکاری رہا ۔شہلا اپنی بد نصیبی پر بجھے دل کے ساتھ تقریب میں شامل رہی جسے زینہ گاہے بگاہے تسلی تشفی دیتی رہی۔۔
زید کی دلہن میرپور رخصت کروا کر زینہ اپنے سسرال اسلام آباد سدھار آئی اور شہلا ایک دن کے قیام کے لیے زید کے گھر ٹھہر گئی۔۔۔
اس خوشی کے موقع پر ماں کی یاد نے تینوں بھائی بہنوں کو بہت رنجیدہ کیا۔۔
زید نے اپنے نکاح کا خرچہ خود اٹھانے کی ضد کی جسے سب نے خوش دلی سے قبول کیا۔
تمام معاملات نہایت سادگی اور خوش اسلوبی سے انجام پا گئے ، زید اور عاصم نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔۔ زید کی دلہن رخصت ہو کر اسکے گھر میرپور سدھار گئی جبکہ عاصم نے اپنی دلہنیا کی رخصتی اس وقت تک ملتوی کر دی جب تک وہ سویرا کو اپنے ساتھ دبئی نہیں لے جاتا۔۔سب نے اس اتاولے کے اس نئے مطالبے پر شدید حیرت کا اظہار کیا مگر بقول اس کے کہ “صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے” بول کر سب کو قہقے لگانے پر مجبور کر دیا۔۔۔
عاصم اس وقت تمہارا صبر گھاس چرنے گیا ہوا تھا جب دن رات شادی شادی کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔۔؟؟
یار بھیا آپ کیا جانو دل کی گہری باتیں۔؟؟ میں صبح سویرا سے رخصتی سے قبل ہی دوستی گانٹھ لوں گا اور پھر ویزہ ملتے ہی یکدم لے اڑوں گا ان شاءاللہ۔!!
اور ولیمہ کب ہو گا۔؟؟
ولیمہ کا کیا ہے۔؟ رخصتی سے ایک ہفتہ قبل پاکستان آجاؤں گا اور سارے انتظامات سنبھال لوں گا۔۔
ہاں ہاں تمہارے یہ انتظامات سنبھالنا میں اچھی طرح جانتا ہوں ،مجھے پتا ہے میری بیوی کو تو ہلکان کر دے گا۔!!
آپ کی بیوی بعد میں بنی ہے ، پہلے وہ میری بہن ہے ۔!! وقت سے پہلے ہی دل نہ جلائیں بھیا جی۔۔
پھپھو ڈیڈ بھیا میرے منصوبے میں روڑے اٹکا رہے ہیں ، انہیں سمجھا لیں۔!! سب کے قہقہے بلند ہوئے۔۔
تمام اہل خانہ رات کے کھانے سے فراغت کے بعد گوش گپیوں میں مصروف تھے کہ زینہ نے چائے کا پوچھ کر اٹھنا چاہا تو روحیل نے میز کے نیچے سے سب سے آنکھ بچا کر اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیا۔۔۔
کیا کر رہے ہیں؟ کسی نے دیکھ لینا ہے۔؟؟ بھری محفل میں اس طرح کی حرکتیں کون کرتا ہے بھلا۔؟؟
تم محفل کے علاوہ کونسا میرے ہتھے چڑھتی ہو۔!
دیکھیں اس وقت سب باتوں میں مصروف ہیں اگر کسی کا دھیان ہماری طرف آیا تو میں نے آپ کو نہیں چھوڑنا ۔ زینہ دانت پیس کر منمنائی۔
یہی تو میں چاہتا ہوں کہ مجھے بالکل نہ چھوڑو۔!
آپ حقیقتاً ڈھیٹوں کے سردار ہیں۔!
اور تم حقیقتاً اول درجے کی خشک مزاج ہو۔!
یہ خشک مزاجی کا طعنہ تو میں نے ایسا دور کرنا ہے کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔!!
اوئے ہوئے بڑی بڑکیں ماری جا رہی ہیں۔!
میں کہہ رہی ہوں ہاتھ چھوڑیں۔!! زینہ نے اپنے دوسرے ہاتھ سے روحیل کے ورزشی بازو پر چٹکی کاٹی۔
روحیل ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔
زینہ یہ چٹکی میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی، کوئی اور حربہ آزماؤ۔!
روحیل میں بتا رہی ہوں میں رو دوں گی ، چھوڑیں میرا ہاتھ۔!!
رو کر دکھاؤ ذرا۔!
پھپھو۔!! زینہ نے قدرے اونچی آواز میں پھپھو کو پکارا۔۔۔
عاصم کے ساتھ محو گفتگو پھپھو نے فوراً زینہ کی طرف دیکھا۔
کیا بات ہے زینہ۔؟؟
پھپھو آپ ہمارے ولیمہ کے چند دن بعد اٹلی لوٹ جائیں گی ، ولیمہ سے قبل کیا میں آپ کے ساتھ ٹھہر سکتی ہوں۔؟؟ آج مجھے امی بہت یاد آ رہی ہیں۔۔
سنتے ساتھ روحیل کے چھکے چھوٹ گئے۔
ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹی۔! اچھا ہے ولیمے کی تیاری میں آسانی رہے گی ،تمہیں بھی اوپر نیچے کے چکر نہیں کاٹنے پڑیں گے۔۔۔
جی پھپھو۔!! زینہ کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔
ارے میری بچی کیوں روتی ہو۔؟ دیکھو نا تم نے کتنی خوش اسلوبی سے دونوں گھروں کو سنبھالے رکھا ہے۔۔ تم تو بہت بڑے انعام کی حقدار ہو۔۔ اور میں کل خود تمہیں بازار لے کر جاؤں گی اور تمہارے لیے کوئی بہت خوب صورت سا تحفہ خریدوں گی۔۔۔
روحیل نے فوراً تڑپ کر دیکھا وہ بیوقوف لڑکی حقیقتاً اشکبار تھی۔۔
ولیمہ کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے پھر تم ، میں ڈیڈ رہ جائیں گے ، ابھی بھاگ لو جتنا بھاگنا ہے۔۔روحیل نے دھیمے لہجے میں باور کروا دیا۔۔۔
سڑ سڑ کرتی زینہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھپھو میں اوپر سے اپنا ضروری سامان لے آؤں۔!
ہاں ہاں جاؤ میری بچی۔!
پھپھو ڈیڈ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں ،وہ رو رہی ہے تو اسے تسلی کی ضرورت ہے شاید ۔!
جی جی ہم خوب سمجھتے ہیں آپ کی یہ بہانے بازیاں۔! عاصم کی زبان میں کھجلی ہوئی۔۔
روحیل نے پلٹ کر عاصم کو کڑی نظروں سے گھورا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔۔
عاصم تم باز نہیں آؤ گے شرارتی نہ ہو تو۔!
پھپھو اگلے سال جیمی کو بھی لے آئیں اور ادھر ہی بیاہ دیں۔
ہائے میں تو یہی چاہتی ہوں کوئی زینہ جیسی بااخلاق اور باکردار بچی مل جائے تو کتنا اچھا ہو مگر یہ یورپ کی ہوا بعض اوقات انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے۔۔ پھپھو نے دکھ بھرے لہجے میں بولا۔۔۔
پھپھو میرے خیال میں جیمی شاید مان جائے ، آپ اسے سمجھانے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔
شمیم بچوں کی رضا مندی بہت ضروری ہے مگر بعض اوقات انہیں اچھے برے کی تمیز بتانی سمجھانی پڑتی ہے۔۔۔
جی بھائی جان۔! میں اپنی پوری کوشش کروں گی ان شاءاللہ۔۔
بھائی جان میں حقیقتاً روحیل کے لیے بہت خوش ہوں ماشاءاللہ ۔ اللہ کرے میرے عاصم کی دلہن بھی زینہ جیسی ہمدرد غمگسار ہو ۔آمین ۔
پھپھو ایسی ہی ہو گی میری صبح سویرا۔! اگر نا بھی ہوئی تو اسے میری خاطر ہونا پڑے گا ۔!! بولتے ساتھ عاصم نے دانتوں کی نمائش کروائی۔۔۔
ابھی وہ ادھر پہنچی نہیں ہے اور تم نے اس کا خوبصورت نام بگاڑ دیا ہے۔۔
ارے پھپھو یہ تو میں نے اسے پیار سے لقب دے رکھا ہے۔۔!
ابھی اس سے تفصیلی بات چیت کرنا باقی ہے۔!
بھائی جان اسکا حال دیکھ رہے ہیں ، بےشرم ہوا جا رہا ہے۔۔۔
پیاری پھپھو جان بعض اوقات مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ یورپ میں نہیں بلکہ افریقہ میں رہتی ہیں۔؟؟
عاصم تم واقعی کسی دن میرے ہاتھوں پٹ جاؤ گے۔۔
ارے پھپھو غلام حاضر ہے مگر فی الحال منکوحہ محترمہ کو نکاح کی مبارک باد دینا مقصود ہے لہٰذا مجھے محفل سے برخاست ہونے کی اجازت دے دی جائے۔۔۔!
اب میرے جیسا صابر کوئی اور شخص ہو سکتا ہے بھلا ہے جو کتنے گھنٹے بیت چکے ہیں مگر ایک مرتبہ بھی منکوحہ سے رابطہ نہیں کر پایا ہے ۔۔
یہ جو تم نے کتنے گھنٹوں کو لمبا کھینچا ہے نا یہ صرف چار گھنٹے بنتے ہیں ، ڈھائی سفر میں اور ڈیڈھ گھنٹہ گھر میں ۔! بس ۔!!
پھپھو آپ نے تو ایک ایک لمحے کا حساب رکھا ہوا ہے۔ خیر یہ بتائیں میرے والی کیسی لگی ہے ؟؟
عاصم نے پھپھو کو مذید چھیڑا۔۔۔
بہت پیاری بچی ہے مگر مجھے زینہ سے بہت انسیت سی ہو گئی ہے ، وہ سویرا بھی شاید اکھٹے وقت گزارے گی تو ہم میں گھل مل جائے گی مگر زینہ کا کردار ہمیشہ یادگار رہے گا ان شاءاللہ۔ پھپھو نے صاف گوئی سے زینہ کی طرف داری کی ۔۔۔
پھپھو آپ فکر ہی نہ کریں میں بھی اپنی صبح سویرا کو پہلے سے سارے گر سکھا دوں گا۔!
مگر زینہ نے بنا سیکھے ہی سب سنبھال لیا ہے ماشاءاللہ۔۔ پھپھو کے لہجے میں مامتا جھلکنے لگی۔۔
پھپھو آپ کی زینہ کے ساتھ محبت بھی مثالی ہے ویسے۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہ ہو بھئی وہ اس قابل ہے کہ اسے چاہا جائے ، پیار کیا جائے ، عزت دی جائے۔۔۔
بس اب پھر اللہ ہی ہے میری صبح سویرا بھی اس پارٹی کا حصہ بن جائے ، یہ نا ہو وہ اکیلی شیخ رشید بنی بیٹھی رہے ۔!
اور میں پردیسی جہانگیر ترین دبئی میں سڑتا رہوں۔
ارشاد صاحب اور پھپھو عاصم کی گل افشانیوں پر قہقہے لگا کر ہنس پڑے۔۔۔
******************************************
زینہ میری جان کیوں رو رہی ہو یار ۔؟؟
کیا تمہیں میرا تمہارے ہاتھ کو تھامنا برا لگا ہے ۔؟؟
روحیل کے مضبوط حصار میں جکڑی زینہ نے نفی میں گردن جھٹکی۔۔
بس مجھے امی بہت یاد آ رہی ہیں۔
اُدھر میر پور نکاح پر بھی میں نے بمشکل رونا روکے رکھا تھا مگر اب ہزار کوشش کے باوجود بھی قابو نہیں رکھ پائی ۔۔
مجھے معاف کر دیں۔! آپ میری وجہ سے پریشان ہوئے ہیں۔زارو قطار روتی زینہ نے روحیل کا کرتا گیلا کر دیا۔۔
اور یہ پھپھو کے ساتھ سونے والا نیا شوشہ کیوں چھوڑا ہے۔؟؟
پتا نہیں کیوں پر میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کی پھپھو کے ساتھ کچھ وقت گزاروں ، مجھے انکے ساتھ رہ کر اپنی ماں والا احساس جاگتا ہے۔۔۔
آپ پلیز انہیں بولیں وہ ابھی نہ جائیں۔!
زینہ نے روحیل سے الگ ہوتے ہوئے ضدی بچی کی طرح بولا۔۔
یار زینہ تم واحد لڑکی ہو جو ساس نما پھپھو سے اس قدر مانوس ہو چکی ہو مگر جو مسکین شوہر ہے وہ چاہے کھجل ہوتا رہے۔!
ہیں۔؟؟ آپ کب کھجل ہوئے ہیں۔؟؟
زینہ رونا بھول کر روایتی بیوی بن کر کھڑی ہو گئی۔۔
بس بس اِتنا ہی کافی ہے ملکہ عالیہ۔!!
اب رو کر دل کی بھڑاس نکال لی ہے نا تو کافی ہے ، اب پھپھو کے کمرے میں جانے کی کوئی تک نہیں بنتی ہے۔۔۔اگر دوبارہ رونا آیا تو میرا سینہ ، میرے کندھے حاضر ہیں۔!
تم چلی گئی تو جو چند گھنٹوں کی نیند لیتا ہوں وہ بھی اڑ جائے گی۔۔۔
روحیل آپ بھی نا سرکاری سکول کے استاد کی طرح باتیں کرتے ہیں۔!!
ہیں وہ کیسے۔؟؟
جیسے سرکاری سکول کا استاد ڈی-او کی آمد پر چوکنا ہو کر بچوں کو پڑھاتا ہے بالکل آپ کا بھی وہی حساب ہے ۔۔۔
مجھے سرکاری سکول کا استاد بننا ہی منظور ہے مگر تم نہیں جاؤ گی ۔!!
اے لے لو ۔! ہو گئی ہے میرے ارمانوں کے قاتلوں کو خبر ، پہنچ آئے ہیں میری تنہائیوں کے دشمن ۔!
یہ یقیناً عاصم بے صبرا ہو گا۔! بڑبڑاتے ہوئے روحیل نے دروازہ کھولا مگر سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر بولتی بند ہو گئی۔۔۔
اوہ ڈیڈ آپ۔! آئیں کمرے میں تشریف لائیں ڈیڈ۔ روحیل نے مؤدب انداز میں ایک طرف ہو کر ڈیڈ کو اندر بلایا۔
وہ دراصل میں زینہ کو دیکھنے آیا ہوں ، میری بیٹی کافی رنجیدہ تھی۔
ارشادِ صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی پیچھے سے پھپھو بھی داخل ہوئیں اور ٹھیک دس سیکنڈ بعد عاصم بھی معنی خیز نظروں سے روحیل کو گھورتا آن دھمکا۔۔۔
پھپھو ڈیڈ زینہ کی دلجوئی میں لگ گئے جبکہ عاصم روحیل کے سر ہو گیا۔۔
بھیا میں اپنی منکوحہ کو نظر انداز کرکے اپنی بہن کے لئے آیا ہوں اور آپ ہیں کہ بیٹھنے کا بھی نہیں پوچھ رہے ہیں۔۔
عاصم تم کھڑے ہی سجتے ہو۔!
زینہ بھابھی دیکھا ہے میرے بھیا کے میزبانی نبھانے کے انداز میں کس قدر بے اعتنائی پائی جاتی ہے، بھئ اب دیکھو میں اس وقت اصولاً اپنی منکوحہ کے ساتھ محو گفتگو ہونا چاہئے تھا مگر بہن کی محبت آڑے آ گئی۔ عاصم نے آواز قدرے اونچی میں جتایا اور ساتھ ہی بستر کی پائنتی پر ٹک گیا جہاں پر باقی اہل خانہ سامنے بچھے تین نشستوں والے صوفے پر براجمان تھے۔۔ سبھی بے اختیار ہنس پڑے اور چند لمحے قبل چھائی ہوئی افسردگی میں خلوص اور توجہ غالب آ گئی۔۔۔
دس منٹ کے قیام کے بعد ارشاد صاحب نے زینہ کے سر پر دست شفقت رکھا اور سب کو اپنے اپنے کمروں میں جانے کا حکم نامہ جاری کیا۔۔۔
ڈیڈ میرا تو جی چاہ رہا ہے آج میں اپنی بہن کے ساتھ چند گھنٹے گزاروں ، کچھ اس کو اپنے دکھڑے سناؤں اور کچھ اسکے سنوں۔! عاصم بلند آواز میں بول کر روحیل کے تاثرات سے لطف اندوز ہونے لگا۔۔
عاصم تم میری بیوی کی ہمدردی میں نہ گھلو ، جاؤ اور جاکر اپنی منکوحہ کی خبر گیری لو۔!! روحیل نے زچ ہو کر تقریباً دھکا دینے والے انداز میں عاصم کو بستر سے اٹھانا چاہا۔۔
ڈیڈ پھپھو دیکھ رہے ہیں۔؟؟ اسے بولتے ہیں خون کا سفید ہو جانا ۔! جبکہ زینہ سمیت سبھی عاصم کی شکوہ کنائی پر محفوظ ہونے لگے۔۔
اب اٹھ بھی جاؤ ڈھیٹ انسان ۔!
بھیا بھابھی تو پھپھو کے ساتھ جا رہی ہیں۔! آپ نے شاید ٹھیک سے سنا نہیں تھا۔؟ عاصم نے اٹھتے ہوئے ایک اور شگوفہ چھوڑا۔۔!
جی نہیں زینہ کہیں نہیں جا رہی ہے۔! اور تم ابھی اسی وقت میرے کمرے سے غائب ہو جاؤ۔!
پھپھو بچاؤ۔! عاصم نے روحیل کے زور سے دھپ لگانے پر مصنوعی واویلا شروع کر دیا۔۔
ارشاد صاحب مسکراتے کمرے سے نکل گئے جبکہ پھپھو بھی سازگار حالات کو دیکھتے ہوئے نکلنے کےلئے پر تولنے لگیں۔۔۔
زینہ روحیل کی باتوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس نے تمہیں میرے پاس ٹھہرنے نہیں دینا ہے لہٰذا میری بچی جب جی چاہے تم آ سکتی ہو۔!
پھپھو آپ ابھی اٹلی واپس نہ جائیں۔! میں بہت اکیلی ہو جاؤں گی۔!
ارے میری شہزادی۔! واپس جانا میری مجبوری ہے۔!
روحیل ہے نا تمہارا خیال رکھنے کے لئے اور ویسے بھی میں چھ ماہ بعد دوبارہ لوٹ آؤں گی۔!
پھر بھی پھپھو ۔! دو ہفتے اور رک جائیں نا ۔!
اچھا چلو میں دیکھتی ہوں اگر اس مسئلے کا کوئی حل نکل سکتا ہے یا نہیں ۔ خیر یہ عاصم بےصبرا اگر رخصتی کروا لیتا تو تمہارے لیے کتنا اچھا ہو جاتا۔۔۔
پھپھو جان میں بیوی اپنے لیے لے کر آؤں گا یا دوسروں کی تنہائی دور کرنے کے لیے۔؟؟؟
میری بیوی صرف میری تنہائی ہی دور کرے گی۔!! میں جو پردیس میں اکیلی جان کسب حلال کے لئے تن تنہا رہتا ہوں۔۔
زینہ کی تنہائی کو بھیا دور کریں۔!!
کیوں بڑے بھیا۔؟؟؟!!!
عاصم نے زچ روحیل کو مزید چڑایا۔۔!
چھوٹے تو میرے سے کسی دن بری طرح پٹ جائے گا۔!
آپ پیٹ ہی نہیں سکتے کیونکہ میری ہمشیرہ آڑے آ جائے گی، اس گھر میں میرے خاندانی ذرائع بہت مضبوط ہیں۔! اپنی فکر کریں یہ نا ہو زینہ بھابھی پھپھو کی محبت میں اٹلی کے لیے زاد سفر باندھ لے۔!!
ناچاہتے ہوئے بھی روحیل کا قہقہہ بلند ہوا ۔
عاصم آخری مہلت دے رہا ہوں۔!! نو دو گیارہ ہو جا۔!!
جا رہا ہوں اب زیادہ نہ پھیلیں۔! زینہ میری شہزادی سی بھابھی اگر بھیا نے کسی قسم کی کوئی زیادتی کی تو مجھے دور نہیں پاؤ گی، میرا کمرہ دس قدم کے فاصلے پر ہے ۔! ابھی میں تمہاری آنکھ میں ایک آنسو نہیں برداشت کر پاؤں گا۔عاصم کا دست شفقت زینہ کے سر پر اور زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔۔۔
ویرے روحیل ایسے نہیں ہیں۔! وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔۔۔زینہ نے عاصم کی بات پر ہنسی دبا کر یقین دہانی کروائی۔۔۔
جیتی رہو میری بہن۔! خوب پھولو پھلو۔!!!
اب میں ذرا اپنی منکوحہ کی خیر خبر لے لوں ،یہ نا ہو وہ میری بے توجہی پر داغ مفارقت دے جائے۔!
ہاہاہاہا زینہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ویرے اللہ جانے سویرا تم سے کیسے بات کرے گی۔؟
کیوں سویرا گونگی ہے کیا۔؟ دیدار یار کے دن اچھی بھلی تو تھی۔ویسے بھابھی تم فکر نہ کرو صبح سویرا کے تو اچھے اچھے بات کریں گے۔! بلکہ وہ تمہارے ویر کی محبت میں شہر میرپور میں الٹی کلابازیاں لگائے گی۔
پھپھو زینہ کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔
ہاں ہاں کیوں نہیں جاؤ جاؤ شاباش۔!! اپنی منکوحہ کو بولو ابھی کلابازیاں لگانا سیکھ جائے۔۔روحیل نے ہنسی دبا کر زینہ کے بولنے سے قبل عاصم کو ہاتھ کا اشارہ دیا ۔۔۔
اچھا زینہ میری شہزادی بہو۔! میں بھی چلتی ہوں ، اب عاصم والی دعاؤں پر ہم سب آمین بولتے ہیں۔! پھپھو بھی مسکراتی کمرے سے نکل گئیں۔۔۔
سوگوار سی زینہ اس وقت خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین ہستی محسوس کر رہی تھی۔۔
روحیل دروازہ کنڈی کر کے پلٹا تو زینہ کی آنکھیں دوبارہ نم ہونے لگیں۔
زینہ جان روحیل۔!! تم پھر رونے لگی ہو ۔؟
ارے نہیں ۔! ایسے ہی سب کی محبت پاکر خوشی کے آنسو امڈ آئے ہیں ، آپ پریشان نہ ہوں۔
میں پریشان نہیں ہونگا تو اور کون ہو گا۔؟؟
مگر میں آپکو پریشان نہیں کرنا چاہتی ہوں۔!
تو پھر کیوں روتی ہو۔؟ روحیل کا ہمدرد غمگسار دوست والا لب و لہجہ زینہ کو پگھلا گیا۔۔
روحیل نے زینہ کو شانوں سے تھام کر صوفے پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔۔زینہ جو بات بھی تمہیں پریشان کرتی ہے ، وہ تم بلا جھجک میرے ان دو کانوں میں انڈیل دیا کرو۔روحیل نے اپنے دونوں کان کھینچ کر زینہ کو دکھایا۔
زینہ اسکی حرکت پر بے دھڑک کھلکھلائی پھر کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی ۔۔
روحیل پتا ہے۔؟
کیا ۔؟
آج امی اتنی شدت سے یاد آئیں ہیں کہ میں بمشکل خود کو روک پائی ہوں۔میں سب کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی میں قصداً سب کو پریشان کر کے انکی اضافی توجہ کی طلبگار تھی ۔بس بہت سارے دنوں کی روک تھام آج منہ زور ہو گئی اور میں خود پر قابو نہ رکھ پائی۔۔۔
آپ میری وجہ سے پریشان ہوئے ہیں ،میں معافی چاہتی ہوں۔!
زینہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر معافی تلافی کیوں کرتی ہو یار ۔؟؟
روحیل چھوٹے چھوٹے گناہ ہی تو جمع ہو کر پہاڑ بن جاتے ہیں۔! میں نہیں چاہتی میری بدولت کسی کی بھی دل آزاری ہو ، نجانے کب موت کا فرشتہ سر پر آن پہنچے۔
روحیل آپ نے میری ماں کا علاج معالجہ اپنی ماں سمجھ کر کروایا ، میری ماں کے ساتھ بہترین اخلاق سے پیش آتے رہے ہیں ، مجھے ذہنی سکون بخشنے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں اور پھر پورے خلوص اور ہمدردی سے میرے بھائی کا رشتہ کروایا ہے جس کے لئے میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں وگرنہ کوئی بھی خاندان زید کی مفلسی کی بنا پر اسے رشتہ دینے کےلئے تیار نہ تھا۔!
آج میری امی زندہ ہوتیں تو کس قدر خوش ہوتیں اور آپکو لاتعداد دعاوں سے نوازتیں ۔ بات کرتے کرتے زینہ کی نشیلی آنکھیں دوبارہ دغابازی کرنے لگیں ، آواز بھرا گئی۔۔
روحیل پتا ہے جس روز امی کا انتقال ہوا تھا ،اس روز بھی وہ آپ دونوں بھائیوں کو ڈھیروں دعائیں دے کر گئیں ہیں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ روحیل۔! آپ کا میرے ساتھ اور میرے خاندان کے ساتھ حسنِ سلوک پر لفظ “شکریہ” بہت چھوٹا لفظ ہے ، آپ تو بڑے سے “جزاک اللہ خیرا” کے حقدار ہیں ۔۔۔زینہ نے روحیل کے دونوں ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لیے۔۔۔ جبکہ روحیل اس دھوپ چھاؤں سی لڑکی کے ہر لمحے بدلتے روپ کر دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔۔۔۔
شکریہ کے لیے بس اتنا سا بول رہی ہو زینہ ۔؟؟ بھئی الفاظ کا نیا ذخیرہ لے کر آؤ۔! روحیل زینہ کو چھیڑنے سے باز نہ آیا۔۔
اچھا۔! کیا یاد رکھیں گے روحیل صاحب کس سخی لڑکی سے شادی ہوئی ہے ۔؟ آج آپ پر الفاظ کی بوچھاڑ کرنی پڑے گی تاکہ آپ کے تمام شکوے میرے لفظوں کے تاثیر سے دھل جائیں۔۔۔
ارشاد ارشاد۔! بیوی صاحبہ۔! خادم بیقراری سے منتظر ہے۔۔۔!
لاہور والے خادم اعلیٰ بن رہے ہیں یا میرے والے خادم ہی ہیں۔؟؟
ہاہاہاہا ہاہاہاہا روحیل کا فلک گیر قہقہہ بلند ہوا ۔ تم تو اس نالائق عاصم کے زیر اثر ہوتی جا رہی ہو۔!
بھئی اچھی صحبت کا کچھ تو اثر لوں گی نا۔!!
اچھا جی۔! میری صحبت اچھی نہیں ہے کیا ۔؟؟ پھر میری صحبت کا اثر کب لو گی۔؟؟
آپ کی صحبت تو سر آنکھوں پر ہے روحیل۔!
زینہ نے انگلیوں کی پوروں سے گالوں کو رگڑا اور گلا کھنکار کر گویا ہوئی۔۔۔
“وہ اک شخص جو میری زندگی میں آیا ہے
نرالا سا متوالا سا ہے
میری ٹوہ میں جو رہتا تھا چھوڑ کے سارے کام
روک کے راستہ میرا کہنے لگا اک دن
میری ہو جاؤ۔!
میں نے کہا منہ ماری کی عادت ہے
جاؤ۔! کسی اور دوشیزہ پر آزماؤ
شاید وہ ڈھیٹ تھا یا پھر مخلص تھا
میں فیصلہ نہیں کر پائی
میں اس سے بہت تنگ تھی
جی چاہا اک دن سر میں اس کا پھاڑ دوں یا پھر اسکو جیل میں بھجوا دوں
ہزار جتن کے باوجود بھی وہ دیوانہ باز نہ آیا
میرے حالات نے پھر پلٹا کھایا اور وہ دوبارہ میری زندگی میں در آیا
محبت کا پرچار وہ کرتا
جینا میرا محال وہ کرتا
کہنے لگا اک دن کیوں دور تم مجھ سے جاتی ہو۔؟؟
میری سانسوں میں تم بستی ہو
میرے حال کی کہانی ہو
میری روح کی روانی ہو
پھر رفتہ رفتہ قریب وہ میرے ہونے لگا
میری سانسوں میں وہ رچنے لگا
میری دعاؤں کا جو ثمر ہے
وہ میرا شوہر ، میرا روحیل ہے
بات صرف اتنی سی ہے
پر اظہار میرے لیے محال ہے
اب نہ پوچھے وہ مجھ سے
جو سامنے بیٹھا ہمہ تن گوش ہے
میں ہوں صرف اسکی
وہی جو منڈلاتا تھا میرے خواب میں
حقیقت میں وہ میرا ہے
سامنے بیٹھا ہے جو میرے
اب نہ پوچھے وہ مجھ سے
میں ہوں صرف اس کی
وہ میرا ہے اور صرف میرا ہے۔!”
واؤ واؤوووووووووو زینہ ماشاءاللہ۔!!!
تم نے تو میرے مہینوں کی محنت پر محبت کا پانی پھیر دیا ہے ۔۔۔
کیا اظہار ہے یار۔؟! روحیل نے مسکراتے ہوئے زینہ کو شاباشی دی اور ہاتھ تھام کر پوچھنے لگا۔۔۔
اب میں کچھ بولوں۔؟!
جی جناب۔! ارشاد فرمائیں۔
پتا ہے ابھی جو بولوں گا نا اسے بولنے کے لیے مجھے مناسب وقت درکار نہیں تھا گو کہ اب وقت آچکا ہے لہٰذا میں اپنے حافظے کا امتحان بھی لے لوں اور ویسے بھی آج کام سے بھی چھٹی ہے۔!!
اجازت ہے ۔؟
جی۔! بولیں میں ہمہ تن گوش ہوں روحیل۔!
زینہ چہرہ اوپر اٹھا کر روحیل کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔۔
اپنی پیشانی آگے لاؤ۔!
جی۔! یہ لیں۔! پیشانی سمیت سر بھی حاضر ہے ۔
شاباش۔! زینہ میری فرمانبردار سی اچھی سی ، پاکیزہ سی ،معصوم سی بیوی۔!
روحیل نے دائیں ہاتھ سے زینہ کی پیشانی تھام کر مسنون دعا پڑھی تو مسکراہٹوں کے جلترنگ اس کمرے کے در و دیوار میں سرگوشیاں کرنے لگے۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم کسی عورت سے شادی کرو ، یا کوئ غلام خریدو ، (یا کوئی جانور خریدو) تو اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بسم اللہ کہتے ہوئے برکت کی دعا کرو ، اور یہ دعا پڑھو :
” اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ “۔
” اے اللہ ميں اس كى بھلائى طلب كرتا ہوں اور جس پر تو نے اسے پيدا كيا ہے اس كى بھلائى كا سوال كرتا ہوں، اور تيرى پناہ مانگتا ہوں اس كے شر سے، اور اس چيز كے شر سے جس پر تو نے اسے پيدا كيا ہے” .
[ دیکھئے: سنن ابی داؤد :2160 سنن ابن ماجہ:1839 علامہ البانی نے حسن کہا ہے]
اس کے بعد سلف صالحین سے منقول عمل کو اختیار کرتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھے ، اس کا طریقہ یہ ہے : شوہر آگے بڑھ کر امامت کرے جبکہ دلہن دلہے کے پیچھے نماز ادا کرے. اس سے دلہا دلہن کے دل میں اگر کوئی نفرت ، کراہیت یا ناپسندیگی ہو گی تو ان شاء اللہ دور ہوجائے گی.
شقيق رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ: ابو حريز نامى ايک شخص آيا اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو عرض كرنے لگا: ميں نے ايک نوجوان كنوارى لڑكى سے شادى كى ہے، اور مجھے خطرہ ہے كہ كہيں وہ مجھے ناپسند نہ كرنے لگے تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمایا:
” الفت و محبت تو اللہ كى جانب سے ہے، اور ناپسنديدگى شيطان كى جانب سے، وہ يہ چاہتا ہے كہ اللہ نے جو تمہارے ليے حلال كيا ہے اسے تمہارے ليے ناپسند بنا دے، لہذا جب تم اپنى بيوى كے پاس جاؤ تو اسے كہو كے وہ تمہارے پيچھے دو ركعت نماز ادا كرے “۔۔
[ دیکھئے : المصنف لابن ابی شیبة:7/50، آداب الزفاف للالبانی :96 آپ نے اس اثر کو صحیح کہا ہے ]
(قارئین کرام سے گزارش ہے اس دعا کو اپنے پاس محفوظ کر لیں جن بہن بھائیوں کی شادی ابھی ہونی ہے وہ اس سنت کو ضرور تازہ کریں ۔حجلہ عروسی میں موسیقی سننے کے بجائے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوں جس میں ہماری دنیا و آخرت کی برکتیں اور خوشیاں پوشیدہ ہیں۔
ناول میں دعاؤں کی شمولیت ناول کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے نہیں لکھتی ہوں بلکہ آپ سب کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی یاددہانی کروانا مقصود ہے۔)
ایک سال بعد:
مدہوش زینہ گہری نیند میں ننھی کلی کی چوں چوں سننے سے بےخبر تھی۔ ہاتھ پاؤں مارتی چوں چوں کرتی ننھی کلی شاید بھوک سے نڈھال ہو کر گلا پھاڑ کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگی۔
یکدم روحیل کی آنکھ کھل گئی ، فوراً آنکھیں مسل کر بستر کے بیچ میں پڑی اس نئی مہمان کو کمبل میں لپیٹا۔۔
آ آ آ آ آ بابا کی جان کو بھوک لگی ہے اور امی جان گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی ہیں۔۔
ہائے یہ تو اتنی چھوٹی اور نازک سی ہے ، کہیں ہاتھوں سے گر ہی نہ جائے۔
روحیل نے سانس روک کر بمشکل اس معصوم کو اپنی آغوش میں لیا۔۔ اور دھیرے دھیرے اسے لوری دینے لگا۔۔
ننھی کلی بھی اپنے نام کی ایک تھی ، چوں چوں سے چاں چاں پر گلا پھاڑنے لگی۔
زینہ۔!! یار اٹھ جاؤ ۔! معصوم تو بھوک سے چلا رہی ہے۔!
میری بچی کا رونا سن کر دادا دادی نے فورا پہنچ آنا ہے اور اگر رونا اسی رفتار سے جاری رہا تو چاچو عاصم بھی دبئی چھوڑ آئے گا۔۔
روحیل بستر سے اتر کر کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے میں معصوم کلی کو اٹھائے لوریاں دے کر تھک ہار گیا تو زینہ کروٹ بدل کر گہری نیند سے بیدار ہو کر خالی بستر پاکر یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
ہائے میری بچی کہاں پر چلی گئی ہے۔۔؟؟
بیگم صاحبہ آپ کی بچی گزشتہ دس منٹ سے چلا رہی تھی ابھی بمشکل لوریاں دے کر سلایا ہے۔
روحیل آپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں ہے۔؟ زینہ نے نیند سے لال ہوتی آنکھوں کو مسلا۔۔۔
جی اٹھایا تھا مگر تم گہری نیند میں تھی تو تمہارے آرام کا سوچ کر اسے خود ہی اٹھا لیا۔۔
سوری روحیل آپ کی نیند خراب ہوئی ہے ، لائیں اسے مجھے دیں۔!
گل گوتھنی سی ننھی کلی نیند میں بھی رونے والی شکلیں بنا رہی تھی۔۔۔
آ آ آ آ میری گڑیا کو نونا نونا آ رہا ہے۔
بابا گندے ہیں۔! انہیں گڑیا کو سنبھالنا نہیں آتا ہے۔
زینہ نے معصوم کلی کو روحیل کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے اپنے سارے لاڈ ایک سانس میں دہرائے۔۔۔
جی جی جی بابا گندے ہیں اسی لئے پہلی چوں پر آنکھ کھول کر اسے اٹھا لیا ہے اور امی صاحبہ سوتی رہی ہیں۔۔!
میرے عزیز از جان روحیل بڑی بتی جلا دیں ، میں اسکی نیپی دیکھ لوں۔ شاید اسی لیے رو رہی تھی۔۔
جی جو حکم۔ روحیل نیند سے نڈھال دیوار کی طرف بڑھ گیا ، بتی جلائی اور بستر پر نیم دراز ہوتے ہی آنکھیں موند لیں۔۔
روحیل گڑیا پانچ دن کی ہو گئی ہے اور ہم نے ابھی تک نام کا انتخاب نہیں کیا یے۔۔
زینہ نے نہایت دقت سے نیپی بدل کر تھکن سے چور روحیل کو مخاطب کیا اور ہاتھ دھونے غسل خانے میں گھس گئی۔۔
معصوم کلی نے دوبارہ گلا پھاڑنا شروع کر دیا۔
لاچار نیند کے مارے روحیل نے اسے اٹھا کر اپنے سینے پر لٹا کر تھپکنا شروع کر دیا۔۔
زینہ غسل خانے سے لوٹی تو روحیل کی بھاری سانسیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔۔
مجھے ہر وقت یہی بولتے تھے کہ زینہ میری نیند بہت کم ہے اور اب جناب کی آنکھ ہی نہیں کھلتی ہے۔ زینہ شکوہ کناں ہوتی اپنی جگہ پر آگئی اور محتاط انداز میں لیٹنے لگی۔۔
اب میری منزل جو میرے دل کے قریب رہتی ہے تو نیند بھی مہربان ہونے لگی۔
ہیں۔؟ ابھی کچھ دیر قبل خراٹے لیے جا رہے تھے اور ابھی حاضر جوابی تو دیکھیں ذرا۔!!
معصوم کو ادھر سے اٹھا کر بستر پر لٹاؤ ورنہ اسے ایسے سونے کی عادت ہو جائے گی۔۔
جی پھپھو بھی یہی بول رہی تھی کہ اسے زیادہ دیر اٹھائے نہیں رکھنا ورنہ اسکی عادتیں بگڑ جائیں گی۔۔
زینہ نے دھیرے سے معصوم کلی کو روحیل کے سینے سے اٹھا کر بستر پر رکھا تو ننھی کلی پوری آنکھیں کھول کر رونے کے لیے پر تولنے لگی۔۔
آ آ آ آ میری جان کو دوبارہ نونا نونا آنے لگا ہے ، دن میں مصروفیت کی بنا پر رو نہیں پاتی ہو۔۔
ابھی دادو اور دادا نے آپ کا رونا سن کر فوراً پہنچ آنا ہے۔۔
روحیل اگر پھپھو نا آتیں تو سب کتنا کٹھن ہو جاتا ، مجھے تو اسکے کپڑے بدلنا اور اسے نہلانا تک نہیں آتا ہے ، مشکل سے نیپی بدلنا سیکھا ہے۔
آپا کو بھی ذیشان بھائی نے نہیں آنے دیا۔۔ یا اللہ میرے بہنوئی کو ہدایت دے اور میری بہن کو اس کے صبر پر اجر عظیم عطا فرما۔روحیل نے زینہ کے ساتھ ہم آواز ہو کر آمین بولا۔۔
روحیل نام کا تو بتائیں نا۔!
زینہ عقیقہ تک شاید عاصم بھی آجائے پھر نام کا بھی فیصلہ کر لیں گے۔ روحیل نے آنکھیں موندے تھکن زدہ لہجے میں جواب دیا۔۔
روحیل آپ بھول رہے ہیں کہ سویرا کا سفر کرنا شاید مناسب نہ ہو لہٰذا آپ ویرے کو مجبور نہ کریں۔!
ہاں واقعی میں بھول گیا تھا خیر نام کے فیصلے کے بارے میں بھی سوچتے ہیں، فی الحال رات کے تین بج رہے ہیں۔روحیل نے بمشکل جمائی روکی۔۔
روحیل۔!
جی روحیل کی جان۔! بلکہ اب میری جان میری ثمر روحیل بھی ہو گی۔!
ہیں۔؟ زینہ حیرت سے اٹھ بیٹھی۔
آپ نے نام کا انتخاب بھی کر لیا ہے۔؟
یہ میری اور تمہاری دعاؤں کے مرکب کا ثمر ہے ، اس لیے میں نے اسکے نام کا فیصلہ کر لیا ہے۔
روحیل بھی اٹھ بیٹھا۔۔۔
بخاری ومسلم میں مروی ہے کہ :
“اسماءبنت ابوبکر بیان کرتی ہیں کہ جب انھوں نے عبداللہ بن زبیر کو جنم دیا تو وہ انھیں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور منگوائی، اسے چبایا، پھر بچے کے منہ میں لعاب ڈالا، چنانچہ سب سے پہلی چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب تھا، بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کھجور کی گھٹی دی اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی”۔ (بخاری ومسلم)
نومولود کا عقیقہ کرنا:
تمام محدثین، فقہاء امت اور جمہور اہل سنت کے نزدیک عقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، تو اس کی طرف سے خون بہاو (عقیقہ کرو) اور اس سے میل کچیل دور کرو (یعنی سر کے بال مونڈ دو) “۔
سمرہ بن جندب سے مرفوعا روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ہر بچہ اپنے ءعقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے (جانور) ذبح کیا،اس کا ( بچہ کا) سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے”
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لڑکے کی طرف سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے”
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین کی طرف سے ساتویں دن دو بکریاں ذبح کی اور ان دونوں کا نام رکھا، اور ان دونوں کے سر سے میل کچیل دور کرنے (سرمنڈوانے)کا حکم دیا، وہ فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے نام سے ذبح کرو اور کہو :
ذبح کے وقت بسم اللہ واللہ اکبر کے بعد یہ کہنا مسنون ہے
اللَّهُمَّ لك واليك هَذِهِ عَقِيقَةُ فُلَانٍ
“یا اللہ یہ تیری نعمت ہے اور فلاں کے عقیقہ کے طور پر تیری قدمت میں پیش ہے”۔(بیہقی19294 بحوالہ المجموع 8/428)۔
نوٹ:فلاں کی جگہ بچہ کا نام لینا ہے۔
امام نوویؒ نے اسے حسن فرمایا ہے۔
“ثمر روحیل” میں چاہتا ہوں میری ثمر کا کردار زینہ حیات جیسا ہو جیسے نے آوارہ مزاج امیر زادے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا مگر اپنی پارسائی پر آنچ نہیں آنے دی۔۔ میں چاہتا ہوں میری بیٹی کی تربیت زینہ حیات جیسی ہو ، جسے تنہائی میں بھی صرف ایک رب کا خوف ہو ، جو اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرنے میں کوتاہی کرنے والی نہ ہو۔ جو محرم اور نامحرم کے درمیان تمیز رکھنے والی ہو۔میری بیٹی ثمر حیا دار ہو۔
زینہ میری بیٹی کی ایسی ہی تربیت کرو گی نا ۔؟؟
ان شاءاللہ۔! زینہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تو فوراً بات بدلی آپ اور آپ کی بیٹی کی وجہ سے میری ڈگری ادھوری رہ گئی ہے۔
زینہ نے منہ بسورا۔
ڈگری کا کیا ہے۔؟ ثمر کو کھانے پینے کے قابل ہونے دو تو میں اسے خود سنبھال لوں گا اور تم اپنی ڈگری مکمل کر لینا۔
زینہ دیکھو اسکی خمدار پلکیں اور آنکھیں بالکل تمہارے جیسی ہیں۔
جی اور باقی ساری شکل آپ جیسی ہے ۔اور رنگ بھی آپ جیسا ہے ماشاءاللہ۔
کیوں تمہارے رنگ کو کیا ہے۔؟
میرا رنگ تو سانولا ہے۔! زینہ نے حقیقت بیان کی۔
تمہارا یہ رنگ مجھے دنیا کی تمام عورتوں سے زیادہ پیارا ہے۔سمجھی ہو۔! آئندہ ایسا نہ بولنا۔!
جی۔! سمجھ گئی ہوں جناب۔!
روحیل نے پاس لیٹی گول گوتھنی سی ثمر کے پھولے گالوں کو چوما۔
روحیل مشکل سے سلایا ہے آپ نے اسے دوبارہ جگا دینا ہے۔! ثمر بولو زینہ ۔!
جی آپ کی اور میری ثمر روحیل۔!
زینہ مجھے دنیا کا بہترین تحفہ دینے کے لیے بہت شکریہ۔
روحیل آپ اس بات کو روزانہ دہراتے ہیں لہٰذا آپ کا بھی بہت شکریہ۔
اپنے عزیز از جان شوہر کو شکریہ ایسے بولتی ہو۔؟
جی فی الحال نیند کا خمار میری ساری شاعری نگل چکا ہے اور یقیناً آپ بھی نیند کے ترسے ہوئے ہیں۔!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا۔ روحیل کا قہقہہ بلند ہوا جسے زینہ نے آگے بڑھ کر فورا منہ پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔
ثمر جاگ گئے گی۔!
آپ بھول جاتے ہیں۔!
سرگوشیوں میں بات کرنے کی عادت ڈالیں!
چلو جی اب مزاج کے خلاف نئی عادت ڈالو روحیل ارشاد۔!
آپ کا علاج ہے۔!
میرے خیال میں ثمر ہم دونوں کا علاج ٹھیک طریقے سے کرے گی، وہ دیکھو ابھی پھر کروٹیں بدل کر ٹیڑھی میڑھی ہو رہی ہے۔
مجھے بھی نظر آ رہی ہے ، آپ بڑی والی بتی جا کر بجھا دیں ۔
صرف بستر کے قریب والا لیمپ رہنے دیں۔!
یہ بڑی اور چھوٹی بتی والی ذمہ داری روزانہ رات کو کم وبیش دس سے بیس بار سر انجام دیتا ہوں۔
روحیل بابا بننے کی مبارک باد قبول فرمائیں۔! اور بتی کے ساتھ بھی دوستی گانٹھ لیں۔زینہ نے سرگوشی میں بول کر بمشکل ہنسی روکی۔
اب تو خواب میں بھی بتی بند اور جلانے کی صدائیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔روحیل بتی بجھا کر بستر پر نیم دراز ہوا تو ثمر نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔
روحیل دوبارہ بڑی بتی جلا دیں۔! زینہ کے بولنے سے قبل روحیل زینہ کے انداز میں بول کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔
دونوں کی بے ساختہ ہنسی کی کھی کھی معصوم گول گوتھنی سی ثمر کو آنکھیں واہ کرنے پر مجبور کر گئی۔۔
ختم شد۔