روحیل نے پورے جذب کے ساتھ بولتے ہوئے زینہ کی نشیلی آنکھوں میں جھانکا۔۔
زینہ۔!! تمہیں پتا ہے تم کتنی خوبصورت ہو۔؟؟ روحیل نے زینہ کے ہاتھ دوبارہ تھامتے ہوئے محبت پاش نظروں سے پوچھا۔۔
نہیں مجھے نہیں پتا ہے۔! میں صرف اس بات پر شاکر ہوں کہ اللہ نے مجھے صحیح سالم جسم سے نوازا ہے، میری سماعتیں خیر کو سننے، میری بصارتیں خیر کو پڑھنے اور میرا بدن مجھے اللہ کے سامنے سجدہ ریز کرنے کے لیے کافی ہے۔۔میرے لیے یہ تمام نعمتیں بہت معنی رکھتی ہیں۔ میں اپنے رب کا جتنا شکر ادا کروں ، اتنا ہی کم ہے ۔۔ اب آپ میرے ہاتھ چھوڑیں ،میں نے برتن دھونے ہیں۔!!
زینہ کو گھنٹہ بھر پہلے والا کام یاد آ گیا۔۔
چاہے برتن ہوں یا فرنیچر تم یہاں سے نہیں ہل سکتی جب تک میں نا چاہوں۔!!
روحیل نے زینہ کی نشیلی آنکھوں میں جھانک کر دھمکایا۔۔
زینہ تمہاری آنکھیں بہت روشن ہیں اور تمہارے چہرے کا نور بنا کسی بناوٹی پن سے میرے دل میں گھر کر گیا ہے۔۔
کون کونسی دعائیں مانگتی رہی ہو۔؟؟ روحیل نے زینہ کو چھیڑا۔۔
ایک دعا تو شدت سے مانگتی تھی۔!
کونسی ؟؟
یہی کہ مجھے ایسا شخص ملے جو مجھے میرے کردار سے پہچانے ، وہ ظاہری خوبصورتی نہیں بلکہ میری باطنی خوبصورتی کا دیوانہ ہو۔۔۔
دعا قبول ہوئی۔؟؟ روحیل نے زینہ کے مخروطی ہاتھوں کو نرمی سے دبایا۔۔
جی۔!! قبول ہوئی ہے اور بہت دھڑلے سے ہوئی ہے۔!! زینہ کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا۔ !!
سوگوار فضا میں دوستی کے جلترنگ بجنے لگے۔۔۔
آج سے دوستی پکی پھر۔؟؟؟
سوچا جا سکتا ہے۔؟؟ زینہ نے پرسوچ انداز میں جواب دیا۔۔ میرے خیال میں پکی والی دوستی کو آپ کی واپسی تک التوا میں رہنے دیتے ہیں۔!!
تم مجھے تنگ کرنے کے لیے بول رہی ہونا ؟؟
نہیں ۔!! سوچ سمجھ کر کیے جانے والے فیصلے دیرپا ہوتے ہیں اور بقول آپ کے عورتیں جذباتی ہوتی ہیں لہٰذا میں جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی ہوں۔۔ زینہ نے نشیلی آنکھیں گھماتے ہوئے روحیل کا مقولہ دہرایا۔۔۔
شرارتی ہوتی جا رہی ہو۔؟؟
نہیں ۔! حقیقت پسند بولیں۔! زینہ نے جان بوجھ کر روحیل کو چھیڑا ۔۔
زینہ تمہیں پتا ہے جب میں کل چلا جاؤں گا نا تو تم نے مجھے بہت یاد کرنا ہے ۔!
آپ کو کیسے پتا ؟؟ میں تمہیں لکھ کر دے سکتا ہوں۔!
آپ کیسے لکھ کر دے سکتا ہوں۔؟؟ آج میرا جی چاہ رہا ہے تمہیں محبت بھرا خط لکھوں۔!!
زینہ کا بلند وبالا نقرئی قہقہہ روحیل کے نفیس کمرے میں جلترنگ بجانے لگا۔۔۔
تمہیں پتا ہے تمہاری آواز اور ہنسی کتنی دلفریب ہے۔؟؟
نہیں کبھی غور نہیں کیا ہے پر سامعہ کہا کرتی تھی۔!
اور آپ کا وہ مدفون ماموں زاد بھی شاید آواز کا دیوانہ بنا تھا حالانکہ میں نے کبھی اسے مخاطب ہی نہیں تھا کیا مگر یونیورسٹی کے عقبی میدان میں جب اس سے ٹکرائی تھی تو مجبوراً اسکی باتوں کے جواب میں بولنا پڑا تھا وگرنہ میں تو کبھی بھی کسی غیر مرد کو لوچ دار آواز میں مخاطب نہیں کرتی تھی الا یہ کہ کسی کے دل میں مرض ہو تو الگ بات ہے ۔ واللہ اعلم۔۔
ابھی میں جاؤں۔؟؟
نہیں ۔!!
پتا ہے آپ بہت ڈھیٹ ہیں۔!!
بعض باتوں اور کاموں میں ڈھیٹ ہونا اچھی بات ہے۔ اب یہ قیمتی لمحات اگر میں ٹی وی دیکھنے میں یا کسی اور سوشل میڈیا پر ضائع کرتا تو سوائے گناہوں کے کچھ حاصل نہ تھا۔۔
ابھی میں یہ لمحات اپنی بہت پیاری بیوی کے ساتھ گزار کر انکو یادگار بنا رہا ہوں۔۔ پتا ہے جب بچے ہونگے تو ہمیں کہاں اس طرح بیٹھنے کی فرصت ملے گی ؟ انکی چییں چییں اور بھاں بھاں لگی رہے گی۔۔ روحیل نے پورے جذب سے بولا۔۔ جبکہ مخاطب کا چہرہ شرم سے لال انگارا ہوئے جا رہا تھا۔۔
زینہ نے فوراً ہاتھ چھڑا کر بھاگ جانے کی ٹھانی۔۔
زینہ روحیل سے بھاگے گی ۔؟؟ناممکن ہے میری جان۔!! روحیل نے جھپٹ کر زینہ کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔۔
چلو اب شرمانا بند کر کے اچھی بچی بن کر بیٹھو ، جہاں پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
مجھے شرم آتی ہے۔!! زینہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے روحیل کے صبر کو آزمانے لگی۔۔
زینہ اس میں شرمانے والی کونسی بات ہے جب شادی کی ہے تو بچے بھی تو ہونگے ان شاءاللہ۔
آپ پھر وہی باتیں کر رہے ہیں۔!
میں تو حلال اور ثواب کمانے والی باتیں بہت پسند کرتا ہوں چہ جائیکہ مخاطب اناڑی ہی ہے۔!!
“بس دیر آئے درست آئے”۔!!
آپ بہت وہ ہیں ۔؟؟
کون۔؟؟؟
بےشرم ۔!!
چلو بیوی کے ساتھ ایسی بےشرمی منظور ہے۔!
اب آگے بولو۔!! میں ہمہ تن گوش ہوں۔!!
آپ ڈھیٹ بھی ہیں۔!!
یہ بھی منظور ہے ۔!!
زینہ ہنوز چہرہ چھپائے روحیل کو مسکرانے پر مجبور کر رہی تھی۔۔
آپ کو سب کچھ منظور ہے تو مجھے بھی برتن دھونا منظور ہے، اور میں جا رہی ہوں۔!! “سوہنے رب کے حوالے”۔ زینہ چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دوبارہ دروازے کی طرف بھاگی مگر پشواز کا گیرا فتے سمیت پاؤں میں آن پھنسا ، دھڑام سے زمین بوس ہوتے ہوتے بچی۔۔ روحیل کی بروقت پھرتی زینہ کو بچا گئی۔۔۔
بیوقوف لڑکی کس لیے بھاگتی ہو۔؟؟ میری نازک اندام سی ، شرمیلی سی بیوی جو چھوٹی چھوٹی معمولی باتوں پر شرما کر اپنے مریخ کے پڑاؤ کی یقین دہانی کرواتی رہتی ہے۔۔
زینہ صاحبہ تمہارا بسیرا زمین پر ہے لہذٰا حرکتیں بھی زمین پر رہنے والوں جیسی کیا کرو۔!!
روحیل نے زینہ کو دونوں شانوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا۔۔۔
بات اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔!! روحیل نے زینہ کی نشیلی آنکھوں میں معنی خیز نظروں سے جھانکا۔۔۔
مجھے آپ سے ایسی باتیں نہیں کرنی ہیں ، مجھے بہت شرم آتی ہے۔!! زینہ نے شرمانے کی ساری حدیں پار کر دیں۔۔
کوئی بات نہیں ہے ، دبئی سے واپسی پر خوب جی بھر کر ایسی باتیں کر لیں گے۔۔!!
کیا خیال ہے۔؟؟ روحیل نے ہنسی کو دباتے ہوئے زینہ کو چھیڑا۔۔۔
آپ کی سوئی ہمیشہ ایسی باتوں پر کیوں اٹکتی ہے۔؟؟
روحیل ارشاد تیری شادی زینہ حیات سے ہوئی ہے لہذا صبر کے بڑے بڑے گھونٹ پی اور دعاؤں کا ذخیرہ کر۔۔!! روحیل نے معنی خیزی سے بولا۔۔۔
زینہ حیات روحیل ارشاد کو اپنے اس قیمتی خیال پر ڈھیر ساری مبارکباد پیش کرتی ہے ۔۔۔۔
برائے مہربانی اپنے اور میرے بیچ کچھ فاصلہ قائم فرمائیں تاکہ میں آپ کی پھپھو کے درشن کر سکوں۔
کنیز شریفانہ اجازت کی طلبگار ہے ، اسے خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے۔!
ہاہاہاہا روحیل کے قہقہے بلند ہوئے۔۔
تمہاری یہ معصوم ، سادہ سی گفتگو مجھے بہت عزیز ہے ، تم بناوٹی پن سے کتنی دور ہو ، تمہارا چہرہ تمہارے دل کا ترجمان ہے ، ہنستی ہوتو آسودگی بخشتی ہو ، روتی ہوتو دل چاک کرتی ہو اور جب روٹھتی ہوتو گویا میرا سکھ چین روٹھ جاتا ہے ۔۔تمہارے نام کا اثر تمہاری شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔!! زینہ مجھے تم سے بہت محبت ہے۔!!!
جی آپ کی نوازش ہے !! میں یہ کلمات دن میں کئی بار سماعت کر چکی ہوں۔ اللہ آپکو ان عظیم خیالات پر اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔۔ زینہ نے مسکراتے ہوئے آمین پر زور دیا۔۔۔
“ثم آمین” روحیل نے مزید لمبا اور اونچا بولا۔۔
ٹھک ٹھک دستک نے دونوں کی توجہ دروازے کی طرف مبذول کرائی۔۔۔
اوہ اب کون ظالم سماج کباب میں ہڈی بننے آ گیا ہے۔؟؟
مشکل سے تو زوجہ محترمہ کے ساتھ چند قیمتی لمحات گزارنے کا موقع میسر ہوا تھا۔۔ روحیل بڑبڑاتا ہوا زینہ کو ایک طرف کر کے بند دروازے کو کھولنے لگا جبکہ زینہ کی کھی کھی ہنسی اس سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔۔
تمہیں تو میں دیکھ لوں گا زینہ۔! روحیل نے زینہ کو دھمکاتے ہوئے کنڈی پر ہاتھ رکھا۔۔
ارے پھپھو آپ۔؟! آئیے تشریف لایئے۔!!
روحیل نے سنجیدگی اور احترام سے پھپھو کا استقبال کیا۔۔
اے کدھر گئی ہے تمہاری بیوی۔؟؟
کیوں خیریت ہے پھپھو۔؟؟ روحیل سینک برتنوں سے اٹا پڑا ہے اور یہ لڑکی اپنی من مانیاں کرتی پھر رہی ہے، سارا گھر چھان مارا ہے ، مجبوراً تمہارے دروازے پر آنا پڑا ہے۔ پھپھو نے ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے بولا۔۔
ہائے ہمارے وقتوں میں نئے شادی شدہ جوڑے اہل خانہ کے سامنے اکھٹے بیٹھتے ہوئے شرماتے تھے مگر اب تو دن دھاڑے سب کی آنکھوں میں دھول جھونکتے پھرتے ہیں۔!
روحیل سر کھجاتے ہوئے سٹپٹایا تبھی دروازے کے عقب میں چھپی زینہ دیوار کے ساتھ لگی مسکرانے پر مجبور ہو گئی۔۔۔
پھپھو میرے خیال میں اٹلی میں بھی یہی حالات ہوں گے۔؟؟!
اے بھتیجے چھوڑ اٹلی کو ۔!! ہم تو پاکستان کے باسی ہیں ذرا اپنی تہذیب کو دیکھنا چاہیئے۔!!
جی پھپھو آپ اندر تشریف لے آئیں۔! روحیل نے سعادت مندی سے بولا۔۔
اے روحیل ۔! میں کس لیے تم دونوں کی تنہائی میں مخل ہوں ، میں جا رہی ہوں ، اپنی بیوی کو نیچے بھیجو تاکہ میں اسے اس مختصر عرصے میں سب کچھ سکھا جاؤں۔۔
جی پھپھو ۔! بہتر ہے ، میں ابھی اسے اٹھا کر لاتا ہوں۔!
اے کیا بولے جا رہا ہے روحیل۔؟؟؟ باؤلا ہو گیا ہے کیا۔؟
پھپھو اٹھانے کی بات کی ہے۔؟ روحیل نے جان بوجھ کر پھپھو کو چھیڑا۔۔
اے بیوقوف لڑکے ابھی سے بیوی کا غلام بن گیا ہے؟
نہیں پھپھو غلام تو نہیں البتہ۔۔۔۔۔
روحیل نے لفظ پھپھو کو لمبا کیا۔۔
ابھی آگے بھی بول ۔!! تمہاری تو میں خوب خبر لوں گی۔
جی ضرور پھپھو دبئی سے واپسی کے بعد ان شاءاللہ۔۔
ابھی دو منٹ کے اندر تیری بیوی باورچی خانے میں موجود ہونی چاہیئے۔!
جی پھپھو بس ابھی بھیج رہا ہوں۔۔ روحیل نے فوراً پلٹ کر دروازہ ایک جھٹکے سے بند کر کے سانس بحال کی۔۔
وہ سنیں۔!
جی سنائیں۔!
مجھے جانے دیں پھپھو کو اچھا نہیں لگے گا، وہ سمجھیں گی میں بد اخلاق ہوں ، بڑوں کی باتوں کا اثر نہیں لیتی ہوں اور نافرمان بھی ہوں۔۔!!
یہ ساری خوبیاں تو تم میں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں ویسے۔!!
ہائے اللہ۔!!
وہ کیسے۔؟؟زینہ کی آنکھیں غم سے پھیل گئیں۔۔
اب دیکھو میں بھی تم سے پورے دو سال بڑا ہوں مگر تم میری بات تو نہیں مانتی ہو۔۔!! روحیل نے ہنسی دباتے ہوئے زینہ کو ڈرایا۔۔
میں تو آپ کی ہر بات مان رہی ہوں جو بھی بولتے ہیں ، گزشتہ ڈیڑھ گھنٹے سے آپ کی بات مان کر بیٹھی ہوں ، ادھر پھپھو ناراض ہیں اور یہاں آپ ناراض ہیں ! زینہ کی آنکھیں فکرمندی سے جھلملانے لگی۔
زینہ تم نے رونے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا ؟؟
ننننہیں تو ۔!! میں رو تو نہیں رہی ہوں۔ زینہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے صفائی دینے کی ناکام کوشش کی ۔۔ دیوار کے ساتھ لگی زینہ راہ فرار کا ایک ایک لمحہ گن رہی تھی۔۔
تم کچھ پریشان لگ رہی ہو۔! روحیل نے زینہ کا دھیان بٹانے کے لیے بات لمبی کی۔۔۔
مجھے جانے دیں۔! ایک آنسو لڑھک کر نازک گال پر آوارگی کرنے لگا۔۔۔
زینہ تمہارا دل اتنا کمزور کیوں ہے یار ؟؟ معمولی بات پر بن موسم برسات شروع ہو جاتی ہے۔!
وہ پھپھو ناراض ہو جائیں گی ، آپ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں۔؟؟ زینہ نے لاچارگی سے دہائی دی۔۔
میری ناراضگی کی سمجھ تمہیں کیوں نہیں آتی ہے؟؟
روحیل نے زینہ کےکان کے قریب جا کر سرگوشی کی۔۔ زینہ کے دل کی دھڑکنوں کا شور بڑھنے لگا۔۔
آ آآآآآپ مجھے جانے دیں بس۔!
زینہ نے سہمے لہجے میں دہائی دی۔۔
ڈرتی ہو مجھ سے ؟؟؟
جی ۔!! زینہ نے جھکی گردن کے ساتھ کورا جواب دیا۔۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا پاگل لڑکی۔روحیل کا جاندار قہقہہ اور پھر زینہ کی بچی کھچی ہمت بھی جواب دینے لگی۔۔
تم نے آج ادھر ہی کھڑے کھڑے فوت ہو جانا ہے کیا ؟؟
روحیل نے زینہ کو شانوں سے تھام کر پوچھا۔۔
چہرہ اوپر اٹھاؤ۔!!!
زینہ نے جھکا سوگوار چہرہ اوپر اٹھایا تو روحیل کو اسکی حالت پر ترس آنے لگا۔۔۔ زینہ حقیقتاً تم اول درجے کی بیوقوف اور ڈرپوک لڑکی ہو یار۔۔۔
تم اپنے شوہر کے پاس ہو ۔ باقیوں کی فکریں ترک کر دو یار۔!!
زینہ کا ضبط جواب دینے لگا تو نشیلی آنکھیں دغابازی کرنے پہ اتر آئیں۔
یا اللہ۔! یہ لڑکی تو کسی دن میرے سے پٹ جائے گی۔ روحیل نے زچ ہو کر زینہ کو گرکا۔۔۔
بند کرو رونا ورنہ پھر میں نے وہ کرنا ہے جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔۔۔
کککککیا کریں گے۔؟؟ زینہ رونا بھول کر فکرمندی سے پوچھنے لگی۔۔۔
تمہیں کمرے کی کھڑکی سے دھکا دینے کو جی چاہتا ہے زینہ۔۔روحیل نے نفی میں گردن دائیں بائیں جھٹکتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔۔
ایک تو پھپھو اور اوپر سے تم اتنی خشک مزاج ہو ۔۔
چلو رونا دھونا بند کرو اور نیچے جاؤ۔! سارے موڈ کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔
روحیل نے مصنوعی خفگی سے بولا جس پر مخاطب زینہ فکرمندی سے چونکی۔۔
آپ پھر ناراض ہو گئے ہیں؟؟؟
تو اور کیا کروں ۔؟ تمہیں میرے جذبات احساسات کی قدر ہی نہیں ہے۔! روحیل جان بوجھ کر زینہ کو پریشان کرنے لگا۔۔۔
میں اور کیا کروں۔؟؟ جو باتیں نکاح سے پہلے طے کیں تھیں ان میں سے کتنی باتوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟؟ زینہ نے رنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
کونسی باتیں۔؟؟ روحیل نے جان بوجھ کر لاعلمی ظاہر کی ۔۔
میرے پاس فون نہیں ہے وگرنہ آپ کو دکھاتی بلکہ آپ میرے فون کو رہنے دیں ، اپنا فون دیکھیں۔۔
مجھے تو صرف ایک رخصتی والی بات یاد ہے جب تک ماسی امی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو جاتیں تب تک رخصتی نہیں ہو گی اور تم ان کے ساتھ انکے کمرے میں قیام پذیر رہو گی۔!!
تو اب بتائیں میں آپ کے کمرے میں کتنا قیام کر رہی ہوں۔؟؟ ہوئی نا وعدہ خلافی۔؟؟ زینہ رونا بھول کر روحیل کے ساتھ مقابلے بازی پر اتر آئی۔۔۔
اچھا تو تمہیں یہ غم ستا رہا ہے۔؟؟؟ روحیل نے منہ سکیڑا۔ یہ تو واقعی بہت افسوس ناک بات ہے۔۔!!
ہاں تو ہے نا ۔!! زینہ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔
روحیل نے قہقہہ لگاتے ساتھ زینہ کو اپنے مضبوط حصار میں جکڑ لیا۔۔۔
تم اس صدی کی بیوقوف ترین لڑکی کا ایوارڈ جیت سکتی ہو۔!
زینہ مچل کر آپے سے باہر ہونے لگی۔۔
میں آپ سے ناراض ہوں، آپ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔۔۔زینہ کی شکوہ کنائی بڑھنے لگی۔۔۔
ہائے زینہ۔! تم تو واقعی بہت مظلوم لڑکی ہو یار۔!!
روحیل نے زینہ کی پیشانی پر مہر محبت ثبت کی اور اسے اپنے حصار سے آزاد کر دیا۔۔۔ جبکہ زینہ کی آنکھیں اس اچانک حملے پر پھیل گئیں۔۔
بس ۔!! اب ہوش کی دنیا میں آ جاؤ زینہ۔!! ہنسی دبا کر روحیل نے زینہ کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرا کر چڑایا۔۔۔
آپ بہت بےشرم ہیں۔! زینہ چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا کر لپک کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔۔ روحیل کے قہقہے رہی سہی کسر بھی نکالنے لگے۔۔۔
زینہ تم میرے لئے مشکل ترین ہدف ہو۔!!! جی چاہ رہا ہے تمہیں اپنی باہوں میں اٹھا کر نیچے لے جاؤں۔!
جی نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں اللہ کے فضل سے چلنے پھرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔۔!
ویسے لڑائی میں تو اچھا مقابلہ کر سکتی ہو.! زینہ عرف خشک مزاج۔!!! روحیل نے دروازے کو دھیرے سے کھولتے ہوئے دل کے پھپھولے نکالے۔۔۔
آپ کا علاج ہے۔!! زینہ نے بولتے ساتھ پشواز کے گیرے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر دوڑ لگا دی۔۔
روحیل اس دھوپ چھاؤں سی لڑکی کے انوکھے انداز بیان پر ششدر رہ گیا۔ زینہ مجھے پتا ہے تم جان بوجھ کر میرے سے دور بھاگتی ہو۔! میرا نام بھی روحیل ارشاد ہے ،تمہیں اپنا بنا کر رہوں گا ان شاءاللہ۔۔
******************************
ہانپتی کانپتی زینہ باورچی خانے میں پہنچی تو صد شکر پھپھو موجود نہ تھیں۔۔ شریفاں خالہ برتن دھو کر خشک کرنے میں مصروف ملیں۔۔۔۔
ارے بی بی جی کیا ہو گیا ہے۔؟کیوں اتنی گھبرا رہی ہیں۔؟؟
کچھ نہیں خالہ بس سیڑھیاں پھلانگ کر آئی ہوں تو سانس پھول گئی ہے۔!
باقی باتیں چھوڑیں ، مجھے یہ بتائیں
پھپھو غصے میں تو نہیں تھیں۔؟؟
کچھ دیر قبل آئیں تھیں اور مجھے برتن دھوتا دیکھ کر بنا بولے باورچی خانے سے نکل گئیں۔۔۔
دوپہر کے کھانے کا کچھ بتا کر گئیں ہیں کیا ؟؟
سبزیاں تو منگوا لیں ہیں مگر ابھی تک کچھ بتایا نہیں ہے۔۔!
اچھا چلیں میں ان سے پوچھتی ہوں وہ شاید باغیچے میں ہوں گی۔۔زینہ باورچی خانے سے نکل کر باہر باغیچے کا رُخ کرنے لگی تو عقب سے عاصم کی آواز کانوں میں پڑی۔۔
زینہ جلدی آؤ۔! کہاں ویرے۔؟؟؟
ادھر ماسی امی کے کمرے میں آؤ۔! دیکھو ماسی ابھی اپنا بایاں پاؤں ہلا سکتی ہیں ، فزیو نے جدید طریقے سے ورزش کروائی ہے تو اسکے ثمرات بہت اچھے نکلے ہیں ۔عاصم خوشی سے نہال ہو رہا تھا۔۔۔
ویرے میں بہت خوش ہوں ۔ زینہ خوشی سے بھاگ کر عاصم کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔
اچھا زینہ اب جلدی جلدی آ جاؤ ، ماسی کی خوشی بھی دیدنی ہے ۔۔عاصم نے زینہ کے ساتھ بات جاری رکھتے ہوئے تیز تیز قدموں سے اسے مہمان خانے سے کھینچا۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے۔؟؟ روحیل نے زینے اترتے ہوئے پکارا۔۔
بھیا آپ بھی آئیں نا ۔! ماسی کا بایاں پاؤں حرکت کرنے لگا ہے ،ابھی کچھ دیر قبل ہی فزیو ورزش کروا کر گھر سے نکلا ہے ۔۔
اوہ یہ تو بڑی اچھی خبر ہے یار۔۔ روحیل متوازن چال چلتا عاصم زینہ کے قریب آن پہنچا۔۔ چلو بھئی اب اندر چلو۔! روحیل نے پاس پہنچتے ہی زینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں زبردستی تھام لیا۔ روحیل پر زینہ کی مذاحمت کا رتی بھر اثر نہ پڑا ۔۔
ماسی بہت بہت مبارک ہو ۔! آپ تو ہمارے گھر سے نکلنے کی منتظر تھیں کہ ہم لوگ گھر سے نکلیں اور آپ باغیچے میں دوڑیں لگائیں۔۔! زینہ کے بولنے سے قبل ہی روحیل پرجوش انداز میں بول پڑا۔۔
روحیل بیٹا اللہ تمہاری زبان مبارک کرے اور میں دوڑیں لگا کر تم لوگوں کی واپسی پر استقبال کروں ۔۔۔روحیل زینہ کا ہاتھ تھامے ہوئے ماسی کے بستر کی پائنتی پر جا بیٹھا۔۔
زینہ تم بھی ادھر بیٹھ جاؤ۔کتنا بڑا بستر ہے۔
نہیں میں ادھر کھڑی ہی ٹھیک ہوں۔۔! زینہ نے دھیمے مگر زچ لہجے میں بولا۔۔۔
ہاتھ چھوڑیں میرا۔! ویر اور امی پاس ہیں۔ زینہ منت طلب سرگوشی والے انداز میں امی سے آنکھ چرا کر روحیل سے ہمکلام ہوئی۔۔ تمہارا دماغ ٹھکانے پر نہیں رہتا اس لیے تم نے دیکھا نہیں ہے کہ عاصم ہمارے ساتھ کمرے میں داخل ہی نہیں ہوا ہے ۔ وہ باہر دروازے سے پلٹ گیا تھا کیونکہ وہ اس رشتے کی نزاکت کو سمجھ کر ہمیں ساتھ وقت گزارنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔
آپ میرا ہاتھ چھوڑ رہے ہیں یا نہیں۔؟؟
نہیں ۔!! کر لو جو کرنا ہے۔!! روحیل نے ڈھیٹ پنے کی حد پار کی۔۔
امی آپ کے کھانے کے لیے پھل کاٹ دوں؟؟زینہ کو روحیل سے رہائی کا ایک اور بہانہ مل گیا۔۔
ارے نہیں بیٹی۔ ! تم روحیل کے ساتھ جا کر اس کا سامان وغیرہ تیار کرو ، عاصم سے پوچھو اسے شاید کسی مدد کی ضرورت ہو۔زینہ تم سب کا دھیان رکھا کرو بیٹی، آخر کو گھر کی بڑی بہو ہو ۔! بستر پر نیم دراز ماں نے ہمیشہ کی طرح دوبارہ یاددہانی کروائی۔۔۔
جی امی۔! مگر میں جب بھی آپ کے پاس آتی ہوں ، آپ ہمیشہ یہی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔۔ زینہ نے لاڈ سے منہ بسورا۔۔پاس بیٹھے روحیل نے مسکراہٹ دبا کر زینہ کا مخروطی ہاتھ دبایا۔۔
زینہ ماں کا کام ہوتا ہے اپنی اولاد کی تربیت کرنا اور انہیں اچھے برے کی تمیز سکھانا۔۔ بیٹی میں نہ رہی تو تمہیں ایسی باتیں کون سمجھائے گا۔؟؟؟ ابھی جتنا عرصہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوں ،فائدہ اٹھا لو۔!
ماسی امی آپ کیسی باتیں کرتی ہیں۔؟؟ اللہ آپکو صحت مند لمبی زندگی دے۔۔آمین ۔ دیکھنا آپ ہماری واپسی تک بالکل ٹھیک ہو چکی ہوں گی ان شاءاللہ، فزیو بہت پر امید ہے کہ آپ بہت جلد فریم اور چھڑی کے سہارے چل پھر لیں گی۔۔
بس بیٹا اللہ مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دے ، میں نے کونسا اس عمر میں کبڈی کھیلنی ہے۔۔
ہاہاہاہا ماسی یہ بزرگ لوگ بہت مزے کی باتیں کرتے ہیں ویسے۔ میری پھپھو بھی کچھ اس طرح کی گفتگو اکثر کر جاتی ہوتی ہیں۔۔
ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش میں زینہ کو بھی روحیل کے پہلو میں بیٹھنا پڑ گیا۔۔۔
امی مجھے تھوڑا سا دیکھنے تو دیں آپ کے پاؤں میں کیا تبدیلی آئی ہے ۔؟؟
زینہ ظاہری تبدیلی کا تو پتا نہیں ہے مگر اب بائیں حصے میں ہلکی پھلکی حرکت شروع ہو چکی ہے۔
زینہ نے ماں کے پاؤں کو ایک ہاتھ سے ہلکا پھلکا ملنا شروع کر دیا جبکہ دوسرا ہاتھ ابھی بھی روحیل کے ہاتھ میں تھا۔۔
امی میں آپ کی ٹانگ کو مالش کروں۔؟؟
ارے نہیں زینہ۔! میں تو فزیوتھراپیسٹ کے ساتھ اس ایک گھنٹے کی ورزش سے تھک چکی ہوں اب کچھ دیر آرام کروں گی۔۔
تم روحیل کے ساتھ جاؤ اور اسکی ضرورت کی ہر چیز تیار کرو، دوپہر کے کھانے کی تیاری کرو بیٹی ۔
تمہیں بولا ہے دن میں میری فکر نہ کیا کرو ،مجھے عاصم روحیل دن میں بارہا آکر دیکھتے پوچھتے رہتے ہیں تم صرف اپنے گھر کی طرف توجہ دو میری پیاری سی بچی۔۔۔ !
جی امی۔!
ساتھ بیٹھے روحیل نے زینہ کی کمر پر ہلکی سی چٹکی کاٹ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔۔
بدلے میں زینہ نے پلٹے بنا اسکی ران پر ناخن گاڑھ دیئے۔۔۔
یا اللہ۔! ماسی امی آپ لڑاکا قسم کی لڑکیوں کو قابو کرنے کا کوئی نسخہ بتا دیں ۔!!
کس قسم کی لڑاکا لڑکیاں بیٹا۔؟؟
ماسی یہی میسنی سی ، ضدی اور بیوقوف قسم کی لڑکیاں۔!!
اس زینہ نے تو نہیں اس قسم کی کوئی حرکت کی ہے بیٹا ؟؟
ارے نہیں ماسی۔! زینہ تو اس قدر فرمانبردار ہے کہ اگر میں اسے بولوں کہ ایک ٹانگ پر کھڑی ہو جاؤ تو کھڑی رہے گی۔۔ میں تو بس اضافی معلومات کے لیے پوچھ رہا تھا۔۔۔
زینہ روحیل کے اس انوکھے سوال پر کھول کر رہ گئی اور دوبارہ سے کھسے میں قید نازک پاؤں کو روحیل کے دودھیا پاؤں جو کہ کالی چپل میں قید تھے اپنا پاؤں رکھ کر زور سے دبایا۔۔
وقتی شیرنی بن لو پھر تم نے کچھ دیر بعد بھیگی بلی بن جانا ہے۔! روحیل نے سرگوشی کی۔۔
زینہ مجھے کبھی بھی تمہاری طرف سے شکایت کا موقع نہ ملے۔! روحیل کی ہر بات سر آنکھوں پر رکھنی ہے۔! اب جاؤ اور اسکے کل کے سفر کی تمام تیاری مکمل کرو۔۔۔! ماسی امی اپنی دھن میں مگن بولے جا رہی تھیں جبکہ یہ دونوں اپنی تمام تر قوت ایک دوسرے کو چڑانے میں ضائع کر رہے تھے۔۔
زینہ میری باتیں سن رہی ہو نا۔؟؟
جی امی۔!! زینہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پائی۔۔
روحیل بیٹا اسے لے جاؤ اور جو ضرورت کا سامان ساتھ لے جانا ہے زینہ سے بولو تیار کرے ۔! آخر کو بیوی ہے تمہاری ۔!!
جی ماسی امی آپ آرام کریں ۔! میں اسے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں اور اگر آپ کو کوئی ضرورت پیش آئی تو میں شریفاں خالہ کو بول جاتا ہوں تاکہ وہ آپ کا دھیان رکھ سکے ، ویسے عاصم بھی تو گھر پر ہی ہے۔۔
روحیل اللہ تمہارا دامن خوشیوں سے بھر دے ، تم دونوں پھولو پھلو بیٹا آمین۔۔
روحیل کی آمین ماسی کی آمین سے بلند نکلی۔۔جبکہ زینہ کو آنے والے لمحات کا سوچ کر جھر جھری آنے لگی۔۔
اچھا ماسی میں زینہ کو ساتھ لے جا رہا ہوں۔! روحیل نے کھڑے ہوتے ہوئے زینہ کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
جاؤ بیٹا۔! زینہ بیٹھی کیوں ہو بیٹی جاؤ تمہارے شوہر کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔!
چار و ناچار زینہ کو اٹھنا پڑ گیا۔۔۔
روحیل نے ماسی کے کمرے کا دروازہ آرام سے بند کرتے ہوئے زینہ کو معنی خیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔ زینہ میرے ساتھ اور لو پنگے ۔!
“تم سیر ہو تو میں سوا سیر ہوں”۔!
زینہ بنا جواب دینے گردن جھٹک کر رہ گئی۔
چلیں چھوڑیں میرا ہاتھ۔! میں خود چل کر جاؤں گی اور کمرے میں بھی آپ آرام سے فاصلے پر بیٹھ کر مجھ سے بات کریں گے۔!
منظور ہے تو ٹھیک ورنہ میں باورچی خانے میں جا رہی ہوں۔ زینہ کا روٹھا لہجہ روحیل کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔
میری نخریلی سی بیوی صاحبہ اس وقت کمرے میں نہیں بلکہ باغیچے میں میرے ساتھ چلو ۔!
روحیل نے زینہ کو کلائی سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور شانوں سے تھام کر عقبی باغیچے کی طرف چل دیا۔۔
میں نے آپ کو بارہا بولا ہے اس طرح کی چھچھوری حرکتیں سب کے سامنے نہ کیا کریں ۔!!!
آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتی۔؟؟ زینہ رو دینے کو تھی۔۔۔ تنہائی میں بھی نہیں کرنے دیتی ہو تو پھر میں کیا کروں۔؟؟؟
ویسے بھی میری حرکتیں ، میری مرضی۔!! تم کیوں خون جلاتی ہو۔؟؟ روحیل کے ڈھیٹ پنے کی انتہا پر زینہ کھول کر رہ گئی۔۔۔
ٹھیک ہے پھر دس سال بعد بھی ایسے ہی کریں گے کیا ۔؟؟؟
فی الحال دس دن نہیں گزرے ہیں اور تم دس سال کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔؟
تم خشک مزاج کو رنگین مزاج بنانے کے لیے دس سال کا عرصہ درکار ہے کیا ؟؟
جی نہیں ۔! میں نے اس لیے نہیں پوچھا۔۔۔! دونوں باتیں کرتے کرتے باغیچے میں جا پہنچے۔۔
السلام علیکم ڈیڈ اور پیاری پھپھو جان۔!!!
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔!
روحیل تم اپنی بیوی کو کبھی اکیلا بھی چھوڑ دیا کرو۔، ہر وقت اسکے اردگرد منڈلاتے رہتے ہو۔!!!
پھپھو روحیل زینہ کو دیکھ کر سیخ پا ہو گئیں۔
پھپھو میں بیچارہ کل دو ہفتوں کےلئے جا رہا ہوں تو صرف آج کا دن باقی بچا ہے ، مجھ پروانے کو اپنی شمع کے آگے پیچھے منڈلانے دیں۔۔۔
توبہ توبہ ۔! یہ لڑکا تو بہت واہیات ہوتا جا رہا ہے بھائی جان۔!!
ارشاد صاحب بھی مسکرائے بنا نہ رہ پائے۔۔
روحیل پھپھو کو کیوں تنگ کرتے ہو یار۔!
ارے ڈیڈ میں کب تنگ کرتا ہوں وہ تو بس پھپھو باتیں ہی ایسی کرتی ہیں کہ میرے اس شریف منہ سے ایسے جوابات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
روحیل نے زینہ کو کرسی پر بٹھایا اور خود پاس پڑی کرسی پر جا بیٹھا۔۔
پھپھو پتا ہے ابھی میں آپکی خدمت میں کیوں حاضر ہوا ہوں۔؟؟
نہیں مجھے نہیں معلوم ہے ۔! پھپھو نے زینہ کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔۔
پھپھو میں آپ سے گناہ صغیرہ سرزد کرنے کی اجازت لینے آیا ہوں۔؟؟؟
پھپھو اچھل کر رہ گئیں۔ زینہ اور ارشاد صاحب بھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے لگے۔۔
بھائی جان دیکھا ہے اس لڑکے کا حال۔؟!
جو منہ میں آتا ہے بولتا چلا جاتا ہے۔ پھپھو نے شکوہ کناں نظروں سے روحیل کو گھورا۔۔۔
پھپھو آپ کی ڈکشنری میں بات ہی کچھ ایسی ہے کہ مجھے اسے گناہ صغیرہ کا نام دینا پڑ گیا ہے۔۔
اے لڑکے بتاتا کیوں نہیں ہے ۔؟؟مجھے کیوں پریشان کئے جا رہا ہے۔؟؟
پھپھو میں زینہ کو اپنے ساتھ باہر لے جانا چاہتا ہوں، اگر آپ کی اجازت ہوتو کیا یہ گناہ میں اپنے سر لے سکتا ہوں۔؟روحیل نے اپنے وجیہہ چہرے کو لٹکاتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔۔۔
آئے ہائے باؤلا ہو گیا ہے کیا ۔؟؟
آدھا آدھا دن تو یہ لڑکی کمرے میں گھسی رہتی ہے، گھر داری اس گھر کے قواعد و ضوابط کب سیکھے گی۔۔ ؟؟
پھپھو جان میں دو ہفتوں کے لئے جا رہا ہوں ،میری غیر موجودگی میں جی بھر کر گھرداری سکھایئے گا ، میری طرف سے پوری اجازت ہے ! روحیل کا ملتجی لہجہ اور پھپھو کی گھوریاں اپنے عروج پر تھیں۔۔۔
پھپھو گھوریں نہیں مجھے جواب دیں پلیز بلکہ ایسا کرنا آپ زینہ کو دیگوں کی پکوائی کا کام بھی سکھا دینا۔۔!!
روحیل نے جوش میں نیا مشورہ دے ڈالا۔۔۔
بھتیجے میرے ہاتھوں میں پلے بڑھے ہو ،مجھے طور طریقے سکھاؤ گے کیا ۔؟؟
ڈیڈ ۔!!! اب پھپھو کیدو اور کھیڑوں والا کردار انجام دے رہی ہیں۔۔!
ارشاد صاحب نے مسکراتے ہوئے اخبار سامنے پڑی میز پر رکھا اور بولے۔۔
شمیم جانے دو ۔! ایک دن ہی رہ گیا ہے پھر دو ہفتے بعد لوٹے گا۔
بھائی جان آپ کے انہیں لاڈوں نے بگاڑ رکھا ہے۔۔۔۔
پھپھو جیمی کی بیوی دنیا کی بدنصیب ترین بہو ہو گی۔!!!
روحیل نے جان بوجھ کر پھپھو کو چھیڑا۔۔
روحیل تم صرف باہر جانے کےلئے کتنے پاپڑ بیل رہے ہو۔ ایسا کرو تم عاصم کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔۔!!
پھپھو میرا نکاح عاصم سے نہیں زینہ سے ہوا ہے۔!! آپ غالباً بھول چکی ہیں۔۔ روحیل نے دہائی دی جبکہ زینہ پھپھو بھتیجے کی نوک جھونک پر محفوظ ہو رہی تھی۔۔ زینہ کا جی چاہ رہا تھا کہ روحیل کو پھپھو سے کبھی بھی اجازت نہ ملے ۔۔۔
اسی دوران عاصم آن ٹپکا۔۔
او شکر ہے میرا چھوٹا ہمدرد بھائی آ گیا ہے ورنہ پھپھو کی پابندیاں میری جان لے لیں گی۔۔
روحیل جو منہ میں آتا ہے بولتے چلے جاتے ہو۔! پھپھو تڑپ اٹھیں۔۔
کیا ہو گیا ہے بھیا۔؟؟
یار عاصم تم ہی ان تھانیدار مزاجوں کو سمجھاؤ مجھے اپنی نئی نویلی منکوحہ کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دے دیں۔۔
بھیا اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔؟؟ یہ لیں گاڑی کی چابی اور عیش کریں۔!
عاصم نے جیب سے چابی نکال کر روحیل کے سامنے رکھی۔۔۔
یہ دیکھو نا بھیا کا چمچہ۔! دونوں کو سیدھا کر دوں گی۔! پھپھو میں سیدھا ہونے کےلئے حاضر ہوں لیکن اس نوبیاہتا کو کچھ نہ بولیں۔۔
زینہ عاصم کی باتوں پر شرم سے لال ہونے لگی اور گردن جھکا گئی۔۔
روحیل میں صبر کیوں نہیں ہے ۔؟؟ سب کیا سوچیں گے۔؟؟ زینہ سوچ کر ہی گھبرا گئی۔۔۔
روحیل میں تمہاری بیوی سے پوچھتی ہوں وہ جانا بھی چاہتی ہے یا نہیں ۔؟
ہاں بھئی زینہ۔! روحیل کے ساتھ باہر جانا چاہتی ہو یا پھر باورچی خانے میں جا کر شوہر کے لئے اپنے ہاتھ سے کھانا بنانا پسند کرو گی۔۔؟؟؟
زینہ نے فوراً چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔
روحیل کو دیکھے بنا بولی۔۔
پھپھو میں ان کے لئے کھانا بنانا زیادہ پسند کروں گی۔! آپ بتائیں کیا بناؤں۔؟؟
زینہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
یہ ہوئی نا مشرقی لڑکیوں والی بات۔!
آج میرے بھتیجوں کی پسند کے تمام کھانے بنیں گے۔!
روحیل بل کھا کر رہ گیا۔ عاصم نے آنکھیں ٹیڑھی کر کے غمگین روحیل کے اترے چہرے کو دیکھا۔۔
زینہ اس سے پہلے کہ تم کھانا بنانا شروع کرو ،میرے ساتھ آؤ پلیز۔!
روحیل پھولے چہرے کے ساتھ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔۔
زینہ نے سب کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔۔
زینہ جاؤ۔!! پندرہ منٹ ہیں تمہارے پاس ،پھر آکر کھانے کی تیاری شروع کرو۔پھپھو نے وقت کی پابندی بھی عائد کر دی۔۔
جی پھپھو۔! دھیمے لہجے میں جواب دے کر زینہ روحیل کے ہمراہ چلنے لگی۔۔۔
روحیل کا تنا چہرہ زینہ کو خوفزدہ کرنے لگا ۔ بنا ہاتھ تھامے روحیل نے خاموشی سے باغیچے سے داخلی مہمان خانے سے گزر کر اوپر اپنے کمرے میں پہنچ کر پہلی فرصت میں دروازہ کنڈی کیا ۔۔۔ کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی زینہ کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔۔
روحیل نے سر سے پاؤں تک زینہ کو گھورا جو خاموشی سے سر جھکائے کپکپا رہی تھی۔۔
تمہیں کھانا پکانے کا کتنا شوق ہے نا۔!!
شوہر کی بات جوتے کی نوک پر۔! روحیل نے خفگی دکھائی۔
ابھی یہاں پر مجسمہ بنی کھڑی نہ رہو جاکر میرے کپڑے نکالو۔!
یہ سب تیاری میں خود بھی کر سکتا ہوں مگر ماسی امی کی محبت میں تم سے کروا رہا ہوں۔!! پندرہ سال سے مجھے اپنے سارے کام کرنے کی عادت ہے۔
نوکر چاکر ہونے کے باوجود بھی ڈیڈ نے ہمیں سب کچھ خود سے کرنا بھی سکھایا ہوا ہے۔۔ !
سمجھ آ گئی ہے۔؟؟
جججی۔!
ابھی الماری کھولو۔!
زینہ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جھکے سر کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔۔
ہوش کے ناخن لو زینہ۔! الماری اس طرف ہے اور تم باہر کی طرف چل رہی ہو۔!
زینہ نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں پر بند باندھے۔۔
یہ جو سامنے لال رنگ کا ڈبہ پڑا ہے اسے میرے پاس لے کر آؤ۔! روحیل نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے نیا حکم نامہ جاری کیا۔۔
آپ نے تو کپڑوں کا بولا تھا ۔؟ زینہ نے پلٹ کر دہائی دی۔۔
جو بولا ہے وہ کرو ۔! سوال جواب میں وقت کا ضیاع مجھے پسند نہیں ہے۔۔۔!!
اللہ جانے اب اس ڈبے میں کونسا قارون کا خزانہ پڑا ہے ۔؟ زینہ نے بھاری دل کے ساتھ لالی مخملی ڈبہ روحیل کے سامنے پیش کیا۔۔۔
اسے میز پر رکھو اور الماری کے دوسرے پٹ کھولو وہاں پر ایک کالے رنگ کا بٹوہ پڑا ہے وہ لے کر آؤ۔!
جی ۔!!
عجیب شخص ہے۔!
زینہ حکم بجا لاتے ہوئے بنا چوں چراں کیے بٹوہ بھی لے آئی۔۔
اب میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔!
زینہ فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ہاتھ کے فاصلے پر روحیل کے ساتھ ٹک گئی۔۔۔
بال ہٹاؤ۔!
جی۔؟؟زینہ کو جھٹکا لگا۔
بولا ہے بال ہٹاؤ۔!
بالوں کو کہاں پر لے کر جاؤں۔؟ کبھی کہتے ہیں کھلا چھوڑ دو تو کبھی کہتے ہیں بال ہٹاؤ۔ زینہ دل ہی دل میں شکوہ کنائی کرنے لگی۔۔
زینہ اُردو سمجھتی ہو یا پھر پہاڑی میں مخاطب کروں۔؟؟
“اپنڑے سوہنڑے جے بال پراں کر سو”۔؟؟ ( اپنے خوبصورت سے بال پیچھے ہٹاؤ گی)؟..
زینہ نے فوراً اپنے ریشمی بالوں کو سمیٹ کر پشست سے آگے سینے کی طرف ڈال دیا۔۔
اب میرے قریب آؤ۔!
اس بار زینہ کی ہمت جواب دے گئی۔دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں، جی چاہا کمرے سے بھاگ جائے۔۔
اور کتنے قریب آؤں۔؟؟ زینہ نے لاچارگی سے پوچھا۔
ڈبہ کھولو۔!
زینہ نے ڈبہ کھولا تو اس کے اندر سونے کی زنجیر “روحیل” کے نام سے جھلملا رہی تھی۔۔
اسے نکال کر مجھے دو ۔!
جججی۔! زینہ نے لرزتے ہاتھوں سے زنجیر روحیل کی طرف بڑھا دی۔
بولا ہے قریب آؤ۔!
زینہ چار و ناچار کھسک کر روحیل کے مزید قریب ہوئی۔۔
یہ ہوئی نا مشرقی منکوحہ والی بات۔! روحیل زینہ کو چھیڑنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔۔
یہ زنجیر تمہارے جسم سے الگ نہیں ہونی چاہیئے۔! دن رات مجھے یہ زنجیر تمہاری اس صراحی گردن میں نظر آنی چاہیے۔۔۔
روحیل نے زنجیر پہناتے ہوئے بولنا واجب سمجھا۔۔
ابھی چہرہ میری طرف گھماؤ۔!
میرا مطلب ہے پلٹو۔!!
زینہ چہرہ پلٹنے کے بجائے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اسے پلٹنا بولتے ہیں۔؟ روحیل کا
غصہ ہنوز برقرار تھا۔۔
ننننہیں ۔! زینہ فوراً بیٹھ گئی۔۔
میری آنکھوں میں دیکھو بنا پلکیں جھپکائے۔
عجیب شخص ہے۔؟ زینہ کی شرم آڑے آنے لگی۔۔
پلکوں کی جھالر کبھی اٹھتی اور کبھی لرزتی، نشیلی روشن آنکھیں ناظر کی آنکھوں میں دیکھنے سے قاصر تھیں۔۔ناظر کی گہری جھیل سی آنکھوں میں زینہ خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔
میں نہیں یہ کر سکتی ہوں۔ زینہ نے جھلا کر بولا اور منہ بسور کر روحیل سے ہٹ کر بیٹھ گئی۔۔
تمہیں کرنا کیا آتا ہے۔؟؟ شکریہ بولنا بھی نہیں آتا کیا۔؟؟
آپ کا شکریہ۔!
شکریہ تو ایسے بول رہی ہو جیسے دوڑ میں حصہ لینے جا رہی ہو۔۔!!
بھئی محبت سے بولو۔! روحیل نے زینہ کو چھیڑا۔۔
آپ کا بہت بہت شکریہ ۔!! زینہ نے فوراً جواب دیا۔۔
بھئی آواز میں شیرینی لاؤ۔!
روحیل آپ کا بہت بہت شکریہ ، آپ نے مجھے اس خوبصورت تحفے سے نوازا ہے۔
زینہ نے بولتے ساتھ نظریں جھکا لیں۔۔
ابھی میرے پاس آکر بیٹھو۔!!
روحیل پھپھو نے پندرہ منٹ کا وقت دیا تھا اور اب دس منٹ گزر چکے ہیں۔ زینہ نے ڈرتے ڈرتے یاددہانی کروائی۔۔
ایک تو تم اور تمہاری پھپھو دونوں میری جان کو آ گئی ہیں ۔!
__
روحیل وہ آپ غصہ نہ کھائیں۔! میں دو تین گھنٹوں میں کھانا بنا لوں گی ، پھر واپس آ کر آپ کا مطلوبہ سامان اکٹھا کر لوں گی۔
ابھی جانے دیں پلیز۔!!
زینہ کی لاچارگی اپنے عروج پر تھی جبکہ
روحیل زینہ کو کڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھا۔
تم پتا ہے کیا کرو۔؟؟ روحیل نے خونخوار نظروں سے زینہ کو گھورتے ہوئے بولا۔
ککککیا کروں۔؟؟؟
محلے والوں سے بھی پتا کروا لو شاید کسی نے تم سے کریلے اور چونگیں پکوانی ہوں یا پھر ہو سکتا ہے کسی کے گھر کپڑوں کی دھلائی نہ ہوئی ہو تو تم جا کر انکا بھی ہاتھ بٹا آؤ۔۔!!!
جی۔؟؟؟ زینہ روحیل کے سنجیدہ انداز بیان پر ششدر رہ گئی۔۔
ہاں نا۔!! روحیل نے ہنسی دبائی۔
بھئ اب تمہیں خدمت خلق کا اس قدر شوق ہے تو کیوں نہ اہلِ محلہ بھی تمہاری صلاحیتوں سے فیض یاب ہوں۔!!!
آپ مذاق کر رہے ہیں نا ۔؟ زینہ مجبوراً پوچھ بیٹھی۔۔
تمہارا کیا خیال ہے۔؟؟
مجھے تو لگتا ہے آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔۔! زینہ نے معصومیت سے بولا۔
چلو جیسے تمہیں سمجھ آئے ویسا ہی سمجھ لو۔!!
اب جاؤں۔؟؟؟ زینہ کا ملتجی لہجہ اور سوالیہ نظریں دیکھ کر روحیل کو ترس آنے لگا۔۔
ہاں جاؤ۔!!! روحیل نے دھیمے لہجے میں شرافت سے بولا۔۔۔
اور سنو ۔!
جی ۔!!
کیا پکاؤ گی۔؟؟ پتا نہیں جو پھپھو بولیں گی۔!
آپ کیا کھائیں گے۔؟؟ وہی بنا لیتی ہوں۔! زینہ نے دروازے کے قریب پہنچتے ہوئے پوچھا۔۔۔
تم کیا کیا بنا لیتی ہو۔؟؟؟
میں سارے سادہ دیسی کھانے بنا لیتی ہوں مثلاً دال سبزی، پلاؤ اور بریانی وغیرہ۔
مکئی کی روٹی بنا لیتی ہو۔؟؟؟
ننننہیں میں نے کبھی بنائی نہیں ہے۔زینہ یکدم گھبرا گئی۔۔
مجھے تو مکئی کی روٹی کھانی ہے۔!!!
مگر پتا نہیں مکئی کا آٹا گھر میں ہو گا بھی یا نہیں۔!
آپ نے پہلے کبھی کھائی ہے مکئی کی روٹی۔؟؟
نہیں ۔!!
تو پھر آج کیوں کھانا چاہتے ہیں۔؟؟
کیوں کہ آج تم بنا کر دو گی نا !! روحیل چلتا ہوا زینہ کے قریب آن کھڑا ہوا۔۔ روحیل کی لو دیتی نگاہیں زینہ کو جز بز کرنے لگیں۔
چلیں ٹھیک ہے میں پھپھو سے پوچھ کر آپ کو بنا دوں گی۔۔
زینہ خود کو سنبھالتے ہوئے فوراً دروازے کی طرف لپکی۔۔
سنو جلدی کھانا بنا لینا ،میں تمہارا منتظر ہوں۔!!!
جی اچھا۔۔!
زینہ چند لمحوں میں برق رفتاری سے کمرے سے نکل کر زینے اترنے لگی ۔۔۔
روحیل اسکی پھرتیوں پر مسکرا کر رہ گیا۔۔
انتہا درجے کی بیوقوف اور معصوم سی لڑکی ہے۔
اسے کیسے بتاؤں ؟ کیسے سمجھاؤں کہ ہر چھوٹی بات پر گھبرایا نہ کرے۔۔
چھوئی موئی کے جیسے لڑکی ہے۔۔
روحیل نے زینہ کو سوچتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا اور کام سے منسلک ای میلز کھنگالنے لگا۔ اب زینہ کے انتظار میں وقت پاس کرنے کا ایک ہی حل بچا تھا ۔جی میں آیا باورچی خانے میں چلا جائے مگر پھپھو کو سوچ کر اپنا کام جاری رکھا۔۔
******************************************
السلام علیکم پھپھو۔!!
اچھا تم آ گئی ہو ، میں ابھی شریفاں کو بھیجنے والی تھی ، سلام کے جواب کے بجائے پھپھو نے کڑی نظر سے زینہ کو گھورا۔
پھپھو میں نے دیر کر دی ہے کیا ۔؟؟ ہاں پانچ منٹ اوپر لگا کر ہی آئی ہو۔
معذرت خواہ ہوں پھپھو۔ زینہ نے شرمندگی سے بولا۔۔
پھپھو ابھی کیا کیا بنانا ہے۔؟؟؟
میں سوچ رہی ہوں گوشت کا قورمہ اور روغنی نان بنا لیتے ہیں۔ وہ پھپھو مجھے نان بنانے نہیں آتے ہیں مگر میں روٹی بہت گول اور اچھی بنا لیتی ہوں۔۔ زینہ نے پرجوش ہو کر تفصیلات دیں۔۔
ہممم۔! سب سیکھ جاؤں گی اگر کمرے کے بجائے وقت باورچی کو دو گی تو۔!!
اس وقت نان رہنے دو ایسا کرو مرغی والی بریانی کے ساتھ رائتہ بنا لو۔
شامی کباب بنا لیتی ہو۔؟؟
ججججی ایک آدھ بار بنائے ہیں۔زینہ نے گھبراہٹ کو چھپاتے ہوئے بولا۔۔۔
اچھا ابھی پودینے کی چٹنی اور رائتہ تیار کر لو اور باقی شریفاں ساتھ ساتھ مصالحہ جات تیار کرتی جائے گی۔!
جی بہتر۔!!
وہ پھپھو وہ روحیل کہہ رہے تھے کہ انہیں مکئی کی روٹی کھانی ہے۔! زینہ نے ڈرتے ڈرتے بولا۔۔۔
اس روحیل کو تو میں ابھی سیدھا کرتی ہوں ،کب اس نے مکئی کی روٹی کھائی ہے پہلے جو ابھی عجیب و غریب فرمائشیں کر رہا ہے۔۔؟؟
پھر میں بنا لوں مکئی کی روٹی۔؟؟؟
ارے کوئی ضرورت نہیں ہے۔! ایسے ہی خواہ مخواہ تمہیں تنگ کر رہا ہے۔!
پھپھو نے میز پر پڑی دھنیے کی گٹھی کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے بولا۔۔
مجھے ڈر ہے وہ کہیں ناراض ہی نا ہو جائیں ، ابھی مجھے خاص طور پر بولا ہے ۔۔!
میرے ہوتے ہوئےنہیں ہوتا ناراض۔!!
جی ۔۔! زینہ خاموشی سے پھپھو کی مطالبات پر عملدرآمد کرنے لگی جبکہ اندر ہی اندر روحیل کی فرمائش کی فکر کھائے جا رہی تھی۔۔۔
اور تم میکے میں ایسے کھلے بالوں سے باورچی خانے میں جاتی رہی ہو۔؟؟
ننننہیں پھپھو میں کبھی بھی بال
کھول کر باورچی خانے میں نہیں گئی ہوں۔زینہ نے تھوک نگلا۔
وہ پھپھو روحیل نے بولا تھا کہ بالوں کو کھلا رہنے دو۔! زینہ نے جھٹ سے صفائی پیش کی۔۔
زینہ اپنے بالوں کو فوراً باندھو۔! پھپھو کی کڑک دار آواز زینہ کو حواس باختہ کرنے لگی۔۔
جی بہتر۔!! زینہ نے خاموشی سے آنسوؤں کو پیا ۔۔
وہ پھپھو میرے تمام کلپ اور پونیاں اوپر روحیل کے کمرے میں پڑے ہیں۔زینہ نے ڈرتے ڈرتے پھپھو کو آگاہ کیا۔۔
تم اپنی امی کے ساتھ نیچے قیام پذیر ہو تو تمہارا سامان بھی نیچے ہی ہونا چاہئے۔!