روحیل گاڑی سے نکل کر عقبی نشست کی طرف آ گیا اور شہناز بیگم والا دروازہ کھولا۔ جبکہ زینہ ہنوز بیٹھی کشمکش میں مبتلا تھی کہ خود سے نکل جائے یا پھر روحیل کا انتظار کرے۔۔۔
دونوں بھائیوں نے شہناز بیگم کو سہارا دے کر بمشکل ویل چیئر پر بٹھایا، اور عاصم انہیں ویل چیئر سمیت لے کر گھر کے اندرونی حصے کی طرف چل پڑا۔۔۔
ہائے ویر نے تو میری طرف دیکھا بھی نہیں اور چل پڑا ہے، کم از کم ایک مرتبہ پلٹ کر دیکھ پوچھ تو لیتا ۔ زینہ کے دل نے دہائی دی ۔۔۔
ویر بھی بدل گیا ہے۔۔
زینہ خاموشی سے بیٹھی یہ سارا منظر شکوہ کنائی کی نظر کرنے میں غلطاں تھی کہ روحیل اسکی نشست کی طرف پلٹا۔۔
زینہ باہر نکلو۔! روحیل نے گاڑی کا دروازہ واہ کر کے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔۔۔
زینہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ روحیل کا ہاتھ تھاما اور باہر نکل آئی۔۔۔ ایک تو طویل سفر کی تھکان اوپر سے روحیل کا خوف اعصاب پر بری طرح سوار تھا۔۔، ناتواں جان کھچے پٹھوں کے ساتھ بنا کچھ بولے روحیل کا ہاتھ تھام کر اس کی ہمراہی میں چلنے لگی۔۔۔صد شکر لمبی ایڑھی والا جوتا سامان میں رکھ چھوڑا وگرنہ اس ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کا حوصلہ زینہ کھو چکی تھی۔۔۔
منتشر دھڑکنیں ، خشک گلا، میک اپ زدہ چہرہ ، جوڑے میں جکڑے بال اور کامدار لباس میں ملبوس زینہ اس وقت مکمل طور پر روحیل کے رحم و کرم پر تھی۔۔۔
روحیل کی خاموشی زینہ کی حالت ابتر کرنے لگی ۔۔ زینہ خاموشی سے اس دھمکی باز کے ساتھ چلتی چلی جا رہی تھی۔۔۔
اینٹوں سے بنی کشادہ روش پار کر کے اندورنی ہال میں داخل ہوتے ہی زینہ کی آنکھیں چندھیا گئیں۔۔ سفید سنگ مرمر کا فرش اور لکڑی سے مزین نصف دیواریں ، دبیز صوفے ، میز کرسیاں اپنی مثال آپ تھے۔۔۔
زینہ ایک نظر میں ہال کے چاروں اطراف میں دروازوں کی تعداد کا تعین نہ کر پائی مگر سارا دھیان امی میں اٹکا ہوا تھا۔۔ پتا نہیں امی کونسے کمرے میں چلی گئی ہیں۔ ویر بھی غائب ہی ہو گیا ہے ۔۔ کون ایسے کرتا ہے بھلا ۔؟
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں مگر روحیل کے خوف سے خود پر قابو پانے کی ناکام کوشش جاری رکھی۔۔۔
کشادہ ہال کے بیچ و بیچ گولائی میں بنی کشادہ سیڑھیاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔۔ مضبوط لکڑی سے بنی ریلنگ اور زینے ناظر کو اہل خانہ کی مالداری کا ثبوت دے رہے تھے۔۔۔
ایک دو بار زینہ نے ہاتھ چھڑانا چاہا مگر ہاتھ تھامنے والا بھی روحیل تھا۔ فورا رک کر آنکھ کے اشارے سے ساتھ ساتھ چلنے کا حکم صادر فرمایا۔۔۔۔
ہائے امی کدھر گئیں ہیں۔؟؟ وہ تو اتنی سیڑھیاں نہیں چڑھ پائیں گی۔۔۔
مجھے تو امی کے ساتھ ٹھہرنا ہے تو پھر یہ شخص مجھے کہاں پر لے جا رہا ہے۔۔۔
آخری زینے کے بعد ایک لمبی گلی اور اسکے دونوں طرف قرینے سے سجے کمرے ، اوپری منزل پر تو گویا کوئی پرندہ پر نہیں مارتا تھا۔۔۔ شدید قسم کی خاموشی۔۔۔ زینہ کا دل گھبرانے لگا۔۔ اپنا پانچ مرلے کا مکان جس کے صحن میں بیٹھ کر وہ کھلے آسمان کو تو دیکھ سکتی تھی۔مگر یہاں پر تو بیش قیمت ساز و سامان سے سجا گھر کم سویا ہوا بند محل زیادہ معلوم ہو رہا تھا۔۔۔
ایک دروازے پر پہنچتے ہی روحیل نے ہاتھ چھوڑا اور اندر جانے کا حکم جاری کیا۔۔۔
زینہ تھوک نگلتی کمرے کے اندر داخل ہوئی تو روحیل نے عقب سے دروازہ کنڈی کر دیا۔۔۔
کلک کی آواز پر زینہ تڑپ کر پلٹی۔۔۔
ییییییییہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔؟؟ میری امی کدھر ہیں۔؟؟
مجھے تو امی کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔۔۔! زینہ نے بھاگ کر دروازہ کھولنا چاہا جسے روحیل نے سرعت سے روک دیا۔۔۔
آپ بولتے کیوں نہیں ہیں ۔؟؟؟
مجھے شدید گھبراہٹ ہو رہی ہے۔پلیز دروازہ کھولیں مجھے امی کے پاس جانا ہے۔۔۔ زینہ نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ ۔جبکہ روحیل سینے پر ہاتھ باندھے خاموشی سے بند دروازے کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا تھا۔۔۔
آپ جواب کیوں نہیں دے رہے ہیں۔؟؟؟ آپ نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔؟؟ آپ نے مجھے اغواء کر لیا ہے۔!! اللہ کا واسطہ ہے مجھے جانے دیں۔ میرا دم گھٹ جائے گا ۔!! زینہ رو رو کر نڈھال ہونے لگی۔۔
روحیل ہنوز خاموش کھڑا اسے ہراساں کر رہا تھا۔۔۔
مجھے پہلے ہی شک تھا آپ نے مجھے استعمال کرنا ہے ، آپ صرف مجھ سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں، وہی باتیں جو میں نے یونیورسٹی میں آپ کے ساتھ کہیں تھیں آپ نے ان باتوں کا بدلہ لینے کے لئے نکاح کا ڈھونگ رچایا ہے ۔۔۔
زینہ روتے روتے فرش پر بیٹھ گئی۔۔۔
روحیل نے آگے بڑھ کر زینہ کا نقاب ہٹایا اور زینہ کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا ۔۔۔
میری آنکھوں میں دیکھو بیوقوف لڑکی۔! کیا میں تمہیں بیوپاری لگتا ہوں۔؟؟ کوٹھے پر بیٹھا کوئی دلال لگتا ہوں جو ایک پاکیزہ نفس کی سودے بازی کرنے چلا ہے۔۔۔ نکاح تو عزت و تکریم کی چادر ہے جو میں تمہیں کتنے گھنٹے قبل گواہوں کی موجودگی میں اوڑھا چکا ہوں۔اور بیوی کے ساتھ تخلیہ کوئی جرم تو نہیں ہے۔۔!!!
تم واقعی میں بیوقوف ہو یا مجھے تنگ کرنے کے لیے بن رہی ہوں۔۔۔؟؟
روحیل کا دھیما لہجہ اور محبت بھری نظروں کی تاب نہ لا کر زینہ نے خود کو چھڑانا چاہا۔۔۔
آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟؟
مجھے اپنی امی کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔!
امی کا خیال رکھنے کے لیے ملازمہ اور عاصم موجود ہیں، تم کیوں گھل رہی ہو ۔؟
مجھے یہاں پر لانے کی کیا تک بنتی ہے بھلا۔؟؟؟
بتاؤں کیا تک بنتی ہے ۔؟؟ روحیل کی نظروں کے ارادے دیکھ کر زینہ نے گھبرا کر انگلیاں مروڑنا شروع کر دیں۔۔
مجھے نہیں پتا مجھے امی کے پاس جانا ہے ابھی اور اسی وقت پلیز۔۔!
زینہ الزام تراشیوں کو بھول کر منت سماجت پر اتر آئی۔۔جبکہ روحیل اطمینان سے بھرپور زینہ کے چہرے کا طواف کر رہا تھا۔۔
حجاب اتارو۔!!
جییییییی۔؟
مجھے نہیں اتارنا میں اپنے کمرے میں جاکر اتار لوں گی۔کورا جواب پاکر روحیل آگے بڑھا۔۔۔
کوئی بات نہیں ہے برقعے کے وسطی بٹن کھولنا کونسا راکٹ سائنس ہے ۔!اور سر سے حجاب اتارنا بھی بہت سہل ہے میری بیوی صاحبہ۔۔!
ظہر عصر تو تم پڑھ ہی چکی ہو تو اب لگے ہاتھوں اپنے شوہر کا دل جیتو ۔۔
مغرب میں ایک گھنٹہ باقی ہے۔۔۔روحیل نے زینہ کو باتوں میں الجھا لیا ۔۔
زینہ روحیل کی باتوں اور نئی نئی حرکتوں پر ششدر رہ گئی۔۔۔
زبان گنگ ہو گئی مگر نشیلی آنکھیں وفاداری نبھانے میں پیش پیش تھیں، آنسوؤں کی لڑیاں بلا روک ٹوک نینوں کا کاجل اپنے ساتھ بہائے چلے جا رہی تھیں۔۔۔
روحیل نے بت بنی زینہ کا حجاب سرکا کر نرم ہاتھوں سے اتارا اور بستر کی پائنتی پر پھینکا۔۔۔حجاب کی بدولت ریشمی بال سر کے ساتھ چپکے ہوئے تھے مگر حجاب کے اترتے ہی ریشمی زلفوں کی چند لٹیں ڈھیلے ڈھالے جوڑے سے بے وفائی کرنے لگیں۔۔
روحیل کے ہاتھ زینہ کے عبایا کی طرف بڑھے تو زینہ نے روتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے پیچھے ہٹایا۔۔۔
پھر ہمت کر کے گویا ہوئی۔
آپ صرف مجھے دیکھنا چاہتے ہیں نا ۔؟ یہ لیں جی بھر کر دیکھ لیں ، زینہ نے غصے میں سارے بٹنوں کو سرعت سے نوچنا شروع کر دیا۔۔۔
(عبایہ)برقعہ وسط سے کھل کر زمین بوس ہو گیا۔ سفید میکسی میں زینہ کے جسمانی خطوط واضح ہونے لگے۔۔ سانولی سلونی دبلی سی زینہ سفید میکسی میں مومی گڑیا لگ رہی تھی۔ سوگوار نشیلی آنکھیں روحیل کا دل مٹھی میں لینے لگیں۔۔
دیکھ لیا ہے نا مجھے ۔؟ حسرت پوری ہو گئی یا ابھی باقی ہے۔؟؟
میرے خیال میں آپ کی خاموشی اس بات کی شاہد ہے کہ حسرت پوری نہیں ہوئی ہے۔۔
زینہ نے جوڑے میں جڑی پنوں کے ساتھ زور آزمائی شروع کر دی۔۔۔
جوڑا کھلتے ہی گھنیری لمبی ریشمی سیاہ زلفیں زینہ کے شانوں پر بکھر گئیں۔۔۔
روحیل ہنوز ہاتھ باندھے خاموشی سے زینہ کی دیدہ دلیری پر خوش ہو رہا تھا ، اسکا ہر تیر مطلوبہ نشانے پر بیٹھ رہا تھا۔۔۔
زینہ روحیل کی طویل خاموشی پر جھلا گئی۔۔
مجھے لگتا ہے آپ کی پیاسی نگاہیں مزید کی منتظر ہیں ۔۔۔
آپ کا وہ شوق بھی پورا کر دیتی ہوں مگر خدارا مجھے میری ماں سے ملوا دیں۔۔مجھ مغوی لڑکی پر رحم فرمائیں۔۔۔
زینہ نے دونوں ہاتھ اپنی پشت کی طرف لے جا کر میکسی میں لگی زپ کو کھولنا شروع کر دیا۔۔۔
ابھی چند انچ تک کھینچ تان کر زپ کی شنوائی ہوئی تو روحیل نے لپک کر زینہ کے ہاتھ روک دیئے۔۔۔
تم پاگل ہو گئی ہو۔۔! بس کر دو اب ۔!
تمہارا یہ دھوپ چھاؤں سا مزاج بھی عجیب ہے ، کبھی تم خوف سے لرزتی ہو تو کبھی تم بپھری شیرنی بن جاتی ہو ۔۔!! کبھی دعوت نظارہ دیتی ہو تو کبھی بے رخی پہ اتر آتی ہو۔! روحیل نے زینہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کا آغاز کیا۔
میں تمہیں اپنے کمرے میں اس لیے لایا تھا کہ تمہیں تمہارے حقیقی مقام سے متعارف کروا سکوں۔
اور شوہر کے سامنے بے حجاب ہونا گناہ تو نہیں ہے زینہ۔۔۔
تم کیوں میرے بارے میں اس قدر بدگمان ہو۔؟؟
میں تو تمہیں صرف اپنے ساتھ مانوس کرنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں تمہارے اندر کا خوف زائل ہو جائے۔۔۔
تم بیوی ہو میری۔! میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو تم زینہ۔! مجھے تمہارے جسم سے زیادہ تمہاری سوچ ، تمہاری روح سے محبت ہوئی ہے ۔ سر راہ کسی روتی بلکتی لڑکی کی ایک جھلک دیکھ لینا محبت کی دلیل نہیں ہے۔۔۔
میری محبت کا آغاز تو ایک خاص لمحے، ایک خاص وقت پر ہوا تھا۔۔ خیر چھوڑو۔! یہ باتیں ابھی تمہارے اس ننھے منے دماغ میں نہیں بیٹھیں گی۔۔
روحیل نے بت بنی زینہ کو کندھوں سے تھام کر جہازی سائز نرم گداز بستر پر بٹھایا ،پھر آگے بڑھ کر زینہ کی پشت پر ادھ کھلی زپ کو بند کیا اور خود کونے میں پڑی الماری میں اپنی شیروانی اتار کر لٹکانے لگا۔۔
زینہ اضطرابی کیفیت سے دوچار اپنے ہونٹ کا کونا چبانے لگی۔۔۔
روحیل زینہ کی طرف پلٹا۔
تم نے غسل خانے جانا ہے تو یہ بس چند قدموں کے فاصلے پر ہے ۔جاوء اپنی یہ رونی صورت پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارو۔! بلکہ اس میکسی کو تبدیل کر لو۔!!!
یکدم زینہ نے گھبرا کر خوبرو روحیل کی طرف دیکھا جو مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔۔۔ زینہ کے دل کے تار چند ثانیوں کے لیے چھڑ گئے۔۔
ہر معمولی بات پر کیوں ڈرتی ہو ۔۔؟ تمہاری ضرورت کا تمام سامان میرے کمرے میں رہے گا ، تم صرف رات کو ماسی امی کے ساتھ سویا کرو گی، جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو جاتیں اور پھر تمہیں رخصت ہو کر اس کمرے میں آنا ہے ۔!! تمہارا اصل مقام یہیں پر ہے ، اس شخص پر اس شخص سے جڑی ہر چیز پر ہے ۔۔میں اپنے وعدے سے نہیں مکروں گا۔۔! روحیل نے مزید وضاحت دی۔۔
مجھے نیند سے اٹھانا تمہاری ذمہ داری ہوگی اور رات دس بجے کوفی یا چائے میرے کمرے میں خود پہنچانی ہو گی کیونکہ میں رات گئے تک کام کرتا ہوں اور فجر کے بعد سوتا ہوں۔۔!
میری بات سمجھ آگئی ہے یا دوبارہ سمجھاؤں۔؟؟ روحیل نے زینہ کو چھیڑتے ہوئے اپنی آنکھیں پھیلائیں۔۔۔
اب بیٹھی مجھے کیا گھور رہی ہو ۔؟ لگتا ہے تمہیں مجھ سے دوران سفر شدید قسم کی محبت ہو گئی ہے ۔؟؟؟ جاؤ الماری میں سے شب خوابی کا لباس میرا مطلب ہے جو تمہیں آرام دہ لباس لگتا ہے نکال کر پہن لو۔۔!!! روحیل لفظ شب خوابی کی ادائیگی پر خود ہی چوکنا ہو گیا اور فورا وضاحت دے دی۔۔
زینہ روبوٹ کی طرح روحیل کے اشارے پر چلتی الماری تک آئی تو الماری میں لٹکے رنگ برنگی لباس دیکھ کر دنگ رہ گئی۔۔
خاموشی سے ایک سوتی شلوار قمیض نکال کر غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔۔
یا اللہ اس بےحس لڑکی کے دل میں میری محبت جاگزیں کر دے۔۔۔ آمین۔۔۔
روحیل نے گھبرائی شرمیلی سی زینہ کو غسل خانے کی طرف بڑھتے دیکھا تو دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی۔۔۔
کالے اور فیروزی رنگ کے امتزاج کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی قمیض اور ساتھ میں ہم رنگ پاجامہ ، میک اپ سے مبرا دھلا نکھرا چہرہ ، ریشمی زلفیں بکھیرے سوگوار نشیلی جھکی آنکھوں کے ساتھ غسل خانے سے نمودار ہوئی۔۔۔
چند لمحوں کے لیے روحیل کا دل مچلا کے اپنی اس قیمتی متاع کو اپنے مضبوط حصار میں جکڑ لے مگر پھر حکمت سے سوچ کر خود کو ڈپٹا۔۔۔
گھبرائی سی زینہ نے ملتجی نظروں سے روحیل کو دیکھا۔۔۔
وہ اس جوڑے کے ساتھ دوپٹہ نہیں ہے کیا۔؟؟ دوپٹہ ہونا تو چاہیئے تھا ، شاید درزی نے ٹسل لگاتے ہوئے ساتھ نہیں دیا ہے۔
روحیل کے منہ سے لفظ ٹسل سن کر زینہ کو جھٹکا لگا۔ اللہ جانے درزی بھی خود ہی نہ ہو۔ گھر میں کوئی عورت موجود نہیں ہے تو پھر باریک بینی سے زنانہ کپڑوں کے بارے میں کیسے اتنی معلومات ہو سکتی ہیں۔؟ زینہ اپنی سوچوں کے گھوڑے دوڑانے لگی۔
روحیل نے آگے بڑھ کر الماری میں لٹکے کپڑے کھنگالنا شروع کر دیئے۔۔۔
چلو کوئی نہیں میں کل درزی کو فون کرکے پوچھ لوں گا۔۔
یہ میکسی کیوں تھامے کھڑی ہو ؟ اسے ادھر ہی لٹکا دو۔!!
خیالوں میں گم زینہ یکدم چونکی۔۔
جججججججی۔
میکسی سے فراغت کے بعد وہی ملتجی نظریں۔
وہ میں اب امی سے مل سکتی ہوں۔؟؟؟ انگلیاں مروڑتے ہوئے زینہ نے پوچھا۔۔۔
اپنی ان مخروطی انگلیوں کو کیوں سزا دیتی ہو۔؟؟؟
ابھی ہم دونوں اکھٹے نیچے جائیں گے تو وہ تمہارا ویر عاصم اور ماسی امی زیادہ خوش ہوں گے ۔۔۔
روحیل نے زینہ کا ہاتھ تھام کر تھپتھپایا۔۔۔
زینہ گردن ہلا کر رہ گئی۔۔۔ وہ میں کوئی اور دوپٹہ لے لوں۔۔!
ہاں لے لو مگر میرے سامنے نہیں باقی اہل خانہ کے سامنے صرف۔!!!
جججججججی۔!
تم ابھی بھی ہکلا رہی ہو۔؟
روحیل نے الماری کے پٹ کھول کر دوپٹے کی تلاش میں محو زینہ کو مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی۔۔۔
میرے خیال میں یہ سادہ سا دوپٹہ اس جوڑے کے ساتھ جچے گا۔۔۔
جی۔۔!!!
زینہ تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں۔! روحیل کی زبان الماری کے پٹ بند کرتے ہوئے دوبارہ پھسلی جبکہ زینہ نے بالوں کو پونی میں جکڑنے کے لیے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔
کچھ ڈھونڈ رہی ہو ۔؟؟
جی بالوں کو باندھنا چاہتی ہوں۔زینہ نے مجرموں کی طرح اپنی نئی فرمائش ظاہر کی۔۔۔
سنگھار میز کے دراز میں کلپ پونیاں سبھی موجود ہیں مگر بالوں کو کھلا رہنے دو۔مجھے بہت اچھا لگے گا۔۔۔
اس شخص کو کلپ پونیاں بھی خریدنی آتی ہیں۔؟
کیا پتا کسی زنانہ دکان میں کام کرتا رہا ہے یا پھر مختلف سہیلیوں نے یہ سب سکھا دیا ہے۔۔۔
***********************
پر تکلف کھانے کے بعد گپ شپ کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ زینہ امی کے بستر پر دبکی بیٹھی تھی ،آدھے سے زیادہ جسم کمبل میں چھپا رکھا تھا۔۔
روحیل کا سارا دھیان زینہ کی ہر چھوٹی موٹی حرکت پر تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ زینہ کی ہر حرکت کو ازبر کر رہا ہے۔۔۔۔
یار ڈیڈ نے آج پھپھو کی وجہ سے اتنی پیاری محفل چھوڑ دی ہے۔۔ تمہیں تو پتا ہے ڈیڈ پھپھو کی کوئی بات نہیں ٹالتے اور آج تو انہوں نے اچانک چھاپہ مارا ہے تو ڈیڈ کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔۔
عاصم نے روحیل کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔
ماسی امی کل دن دو بجے فزیوتھراپیسٹ گھر آئے گا۔۔ اول تو عاصم گھر پر ہو گا ورنہ میں بھی جاگ چکا ہوں گا۔۔۔
آپ کو ہفتے میں دو دن جم لے کر جائیں گے اور باقی پانچ دن فزیو گھر آیا کرے گا۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا ہے جیسے تم لوگوں کو مناسب لگے ، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔میں تو بس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں تاکہ محتاجی سے بچ سکوں۔۔ شہناز بیگم کی آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگیں۔۔۔
ارے ماسی امی۔!!! آپ تو ویسے ہی پریشان ہو رہی ہیں۔ اسلام آباد کا سب سے بہترین فزیو آپ کو ورزش کروائے گا۔۔ دیکھنا دو ہفتوں میں آپ اپنے پاؤں پر چل کر باہر باغیچے میں جائیں گی ان شاءاللہ۔۔
روحیل عاصم دونوں تسلی دینے میں جت گئے جبکہ زینہ کو تو بس رونے کا بہانا چاہئیے ہوتا ہے اسکی آنکھیں تو برساتی نالے بہانے میں ماہر ہیں۔۔ روحیل سوچ کر رہ گیا۔۔۔
ماسی آپ لوگ آرام کریں۔ ہم لوگ بھی چلتے ہیں ابھی۔۔
عاصم نے مشترکہ الوداعی سلام بولا اور کمرے سے نکل گیا۔۔ زینہ حیران و پریشان تھی کہ ویر عاصم اس سے اس قدر فاصلے کیوں بڑھا رہا ہے۔شاید اس عاشق مزاج نے ہی بولا ہو کہ اسے موقع فراہم کیا جائے۔۔ اشکبار زینہ نے گالوں کو رگڑتے ہوئے سوچا ۔۔۔
ماسی رات کو میں جاگ کر کمپیوٹر پر کام کرتا ہوں ، آپ کو کسی قسم کی کوئی ضرورت پیش آئی تو مجھے ضرور مطلع کرنا۔۔
روحیل نے بستر کی پائنتی پر بیٹھتے ہوئے شہناز بیگم کو یاددہانی کروائی جبکہ چند ہاتھ کے فاصلے پر زینہ غم کی تصویر بنی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔
چلیں ماسی میں آپکو لیٹنے میں مدد کرتا ہوں ، یہ بڑے والے تکیے مجھے دیں دے ۔۔۔
روحیل نے آگے بڑھ کر ساس کو سہارا دیا جبکہ نظریں زینہ کے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں۔۔۔
زینہ تم اس طرف آؤ۔! ماسی امی کو دیوار کی طرف لیٹنے دو۔۔
جی۔!! زینہ فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی جگہ سے کھسک کر روحیل کی جانب بڑھی جہاں وہ بستر کے قریب کھڑا ہدایات دے رہا تھا۔۔۔ زینہ کے قریب آتے ہی کان میں سرگوشی کی۔۔۔
مجھے تمہارے بنا چین نہیں آئے گا پلیز رات کو کچھ دیر میرے ساتھ فون پر بات کرلینا۔۔ اور تمہیں پہلے بھی بارہا بول چکا ہوں کہ رونا دھونا چھوڑ دو مجھے تمہارا رونا دھونا اذیت دیتا ہے۔۔روحیل نے ایک ہی سانس میں اپنی بےکلی زینہ کے گوش گزار کر دی۔۔
زینہ کے کان کی لوئیں یکدم لال پڑ گئیں۔۔ دل کی دھڑکنیں بےقابو ہونے لگیں ۔۔
اگر عمل نہ ہوا تو اس کمرے سے اٹھا کر لے جاؤں گا۔
ماسی تو ویسے بھی اکثر دواؤں کے زیر اثر رہتی ہیں۔۔!!!
اس نئی دھمکی پر زینہ کی حالت ابتر ہونے لگی۔گھبرا کر روحیل کی طرف دیکھا جسکی آنکھوں میں چاہ کا سمندر موجزن تھا۔۔۔
زینہ نے دیکھتے ساتھ فورا نظریں چرائیں۔۔۔
وہ ماسی امی میں سوچ رہا تھا کہ زینہ کو گھر دکھا دوں اگر آپ اجازت دیں تو اسے لے جاؤں۔؟ شرافت اور معصومیت کا لبادہ اوڑھے روحیل نے زینہ کی جان سولی پر لٹکا دی۔۔۔
ارے بیٹا تمہیں بھلا اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے ، بیوی ہے تمہاری جہاں جی چاہے گھماؤ پھراوء۔!! اسے باقی گھر سے قبل باورچی خانے کا راستہ ضرور دکھانا۔۔۔کھانا اب زینہ ہی بنائے گی۔۔! امی نے لیٹے لیٹے روحیل کے ہاتھ میں اجازت نامہ تھما دیا۔۔۔
ماسی امی آپ بہت اچھی ہیں ۔! روحیل نے فرحت جذبات میں آگے بڑھ کر ساس کے ہاتھ چوم ڈالے، اور پھر اپنی ایڑیوں پر گھومتے ہوئے
بھنویں اچکا کر زینہ کو اپنی حیثیت باور کروائی۔۔۔
ماسی امی کچھ چائے پانی تو نہیں چاہئیے میں بھجوا دیتا ہوں۔۔
ارے نہیں بیٹا میں ابھی سونے کی کوشش کرتی ہوں صبح فجر بھی ادا کرنی ہے۔۔۔
تم زینہ کو باورچی خانہ ضرور دکھانا۔۔۔ ۔ارے نہیں خالہ زینہ ابھی نئی نئی دلہن ہے ،میرا مطلب ہے کہ ملازمین کی موجودگی میں اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
روحیل نے کن اکھیوں سے زینہ کو چھیڑا۔۔۔
زینہ دل ہی دل میں کھول کر رہ گئی۔۔
امی میں گھر کل دن میں دیکھ لوں گی ،میں نے بھی تو فجر پڑھنی ہے نا ۔؟؟
اے لڑکی تم نیا خون ہو ، جب چاہو سو جاؤ ، جب چاہو جاگو۔۔۔!!
جاؤ تمہیں شوہر کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔۔ خوشی سے اپنا گھر دکھانا چاہتا ہے تو جاؤ دیکھ آؤ تمہارا کونسا بل آنا ہے ۔؟؟
امی نے آخری کیل ٹھونک کر روحیل کی دلی مراد پوری کر دی۔۔
زینہ ہونٹ کاٹتی زبان دانتوں تلے دبائے حزن و ملال کی کیفیت سے دوچار تھی ۔۔۔
جبکہ روحیل تو بغلیں بجانے لگا ۔۔
چلو زینہ آؤ سب سے پہلے تمہیں میں اپنا کمرہ دکھاتا ہوں۔۔
روحیل نے زینہ کو تقریباً کھینچتے ہوئےامی کے کمرے سے باہر نکال کر پیچھے سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔
زینہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں۔۔۔
آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔؟
کیوں کہ تم شرافت کی زبان نہیں سمجھتی ہو۔!
جب فون پر پیغام رسانی کے لیے بولا تھا تو سیدھے سے حامی بھر لیتی مگر تمہیں تو اپنی چلانی ہوتی ہے۔۔!
اب بھگتو۔!!
کیا ؟؟
میری ہمراہی میں چائے یا پھر کوفی۔!!!
چلو باورچی خانے میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلاتا ہوں۔۔!
زینہ خاموشی سے روحیل کے ہمراہ کھچی چلی جا رہی تھی۔۔۔
باورچی خانے میں پہنچ کر درازوں کے کھنگالنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ روحیل نے کبھی باورچی خانے کے اندر جھانک کر بھی نہیں دیکھا مگر آج زینہ کو اپنے ساتھ بٹھانے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارنے لگا جبکہ زینہ خاموش کھڑی اس کی ساری کاروائی پر پریشان ہو کر رہ گئی۔۔۔
روحیل کا ہاتھ لگنے سے چینی کا شیشے کا ڈبہ گرتے گرتے بچا۔۔۔ پتا نہیں یہ پتی کونسے دراز میں پڑی ہے۔۔۔؟ روحیل پھرتی سے مرتب دروازوں کا بیڑا غرق کرنے لگا ۔۔ اسکی یہ حالت دیکھ کر زینہ کو ہنسی آئی مگر پھر ہنسی کو دباتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔۔
پیچھے ہٹیں.!!! یہ آپ کے بس سے باہر ہے۔۔ اگر کبھی باورچی خانے کی شکل نہیں دیکھی ہے تو ابھی ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ آپ کا نکاح بھی ہو چکا ہے اور منکوحہ بھی آپ کے پاس موجود ہے۔۔۔ زینہ نے روحیل کے ہاتھ سے چینی کا ڈبہ لیا اور باقی الٹ پلٹ ڈبوں کو انکی جگہ پر رکھنے لگی۔۔۔
روحیل زینہ کی اس پیش رفت پر دل سے شکر گزار تھا مگر زبان پر نہ لا سکا۔۔۔
مصالحہ جات کے دراز سے فراغت کے بعد پتیلی کی تلاش میں زینہ نے باورچی خانے کے تقریباً تمام دراز کھنگال ڈالے۔۔۔
بالآخر پتیلی کا حصول ممکن ہوا ۔۔۔زینہ اپنے خیالوں میں گم چائے کی تیاری میں اس قدر مگن ہو گئی کہ روحیل کی موجودگی مکمل طور پر نظر انداز کر گئی۔۔۔
روحیل بھی شرافت کا لبادہ اوڑھے اس پاکیزہ نفس کی حرکات و سکنات آنکھوں میں محفوظ کر رہا تھا۔۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سب خواب ہے۔۔ دل کی کیفیت عجیب سی ہونے لگی۔۔۔
زینہ۔!!
جججججججی۔! زینہ فوراً پلٹی۔۔
زینہ تم ابھی بھی مجھ سے ناراض ہو ۔؟؟
کس بات پر ۔؟؟؟
وہی جو میں نے اور منیب نے راستے میں تمہارے ساتھ کیا تھا۔روحیل نے تھکے رنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔
اس بات کو بھول جائیں وہ بات ہمارا ماضی بن چکی ہے۔۔۔ ! زینہ نے پتیلی میں چائے کو پھینٹتے ہوئے رنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
تمہیں وہ تمام باتیں ابھی بھی یاد آتی ہیں۔؟؟؟
پوچھیں کب بھولیں ہیں ؟؟؟
اسکا مطلب ہے تم نے مجھے اور منیب کو معاف نہیں کیا ہے۔؟؟؟
معاف تو کر دیا ہے مگر بعض زخم ایسے ہوتے ہیں جو مندمل ہونے کے باوجود بھی درد رستے ہیں۔۔ ان زخموں کے نشان وقت کی برق رفتاری میں مٹ ضرور جاتے ہیں مگر اپنے حقیقی الم کو برقرار رکھتے ہیں۔۔
زینہ۔!!! میری طرف دیکھو۔!!
زینہ سوگوار شکل لیے پلٹی۔۔۔
اوہ پیچھے چائے دیکھو۔!!
روحیل نے بھاگ کر چولہا بند کیا۔۔۔
شکر ہے نظر پڑ گئی ورنہ تمہاری محنت ضائع چلی جاتی۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔! زینہ کا دھیما لہجہ روحیل کو مزید پوچھ گچھ کرنے کی ہمت بڑھا گیا۔۔
زینہ ہنوز آنکھوں میں اداسی سموئے اس نئے رشتے کو اپنانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔۔۔روحیل میں تقدیر کے لکھے کو قبول کر چکی ہوں۔۔
زینہ تمہیں برا لگا ہے، میرا یوں تمہیں بلانا۔؟؟؟
نہیں۔!!! زینہ مختصر جواب دے کر خاموش ہو گئی۔۔۔
روحیل نے فوراً موضوع بدلتے ہوئے نیا شوشہ چھوڑا۔۔۔
اچھا چائے چائے دانی میں ڈالو ۔!! ہم دونوں اوپر میرے کمرے میں بیٹھ کر پیئیں گے۔۔
کمرے کا نام سن کر زینہ کے پسینے چھوٹے مگر پھر نئی دھمکی سے بچنے کے لیے ہامی بھر لی۔۔
زینہ خاموش بھاری دل کے ساتھ روحیل کے کمرے میں آ گئی مگر گھبراہٹ اپنے عروج پر تھی۔۔
اُدھر بستر پر بیٹھو مجھے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہے۔ روحیل نے کمرے میں پڑی کرسی کھینچی اور زینہ کے سامنے بیٹھ گیا۔۔
دیکھو زینہ۔! میں مانتا ہوں کہ جن حالات میں ہماری ملاقات ہوئی یا پھر ہمارا رشتہ قائم ہوا ہے وہ حالات تمہاری سوچ اور تمہاری منشا کے مطابق قطعاً نہ تھے ۔مگر بقول تمہارے اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لو پلیز۔۔۔
زینہ میں نے ہر مزاج کی لڑکی دیکھی ہے ، مگر ان میں سے اکثریت کو میں نے بہت سستا پایا ہے،چند ٹکوں کی خاطر لڑکیاں مرد کی من چاہی مراد پوری کرنے کے لیے ہر دم تیار ہوتی ہیں ، انہیں صرف بنگلہ کار کوٹھی چاہئے ہے بس ۔۔۔ تم وہ واحد لڑکی ہو جسے میں نے سر راہ بےمول کر دیا تھا ، تمہیں گلی میں پڑے تنکے سے ہلکا سمجھ کر ذلیل کیا مگر اس کے باوجود تم اپنے ایمان ، اپنے تقویٰ سے ایک رتی برابر نہیں ہٹی۔۔۔ تم نے وہ عمل صالح ترک نہیں کیا، تم نے اپنا پردہ اپنا حجاب ترک نہیں کیا ۔۔ پتا ہے تم نے ایسا کیوں نہیں کیا۔؟؟ کیونکہ تم اپنے خالق کے ساتھ مخلص تھی ، تم اس رب کی فرمانبرداری میں اپنی خواہشات نفس کی ماہر قاتلہ تھی۔تم نے اپنے راستے میں آنے والے پتھروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ، تم نے اس حادثے کو اپنی منزل کی ایک رکاوٹ سمجھ کر جھٹک ڈالا۔۔ ہماری وہ شیطانی سوچ تمہیں تمہارے مقصد حیات سے ہٹا نہ پائی۔ جو لڑکی اپنے رب کی اتنی فرمانبردار ہے تو وہ یقیناً شوہر کی اطاعت گزار بھی تو ہوگی نا ۔۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی.” (صحیح بخآری:4802؛صحیح مسلم:1466)
اس حدیث میں کسی بھی حسین ، یا حسب نسب والی یا مالدار خاتون سے نکاح کی ترغیب نہیں ہے۔
بلکہ اس حدیث کا معنی ہےکہ لوگ شادی کیلئے ان چار مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں، کچھ تو حُسن تلاش کرتے ہیں، اور کچھ اچھا خاندان، اور کچھ مال کے بھوکے ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ دینداری کی وجہ سےشادی کرتےہیں، اسی آخری کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہےاور فرمایا: (دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں کہا:
“اس حدیث کا صحیح معنی یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے متعلق بتلایا ہے کہ وہ شادی کرتے وقت کیا کرتے ہیں، تو عام طور انہی چار چیزوں کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے، چنانچہ لوگوں کے ہاں آخری چیز دینداری ہے، راہنمائی کے طالب! تم دیندار کو ہی پسند کرنا، کہ تمہیں اسی کا حکم دیا جا رہا ہے۔۔۔ یہ حدیث ہر چیز میں دیندار لوگوں کی صحبت پر زور دے رہی ہے، کہ انسان انکی صحبت میں رہ کر انکے اخلاق، حسن معاملہ سے مستفید ہوتا ہےاور اُسے اِن کی طرف سے کسی نقصان کا ڈر نہیں ہوتا۔
زینہ مجھے ایسی ہی لڑکی کی تلاش تھی جو مجھے سیاہ کاریوں سے بچائے گی ، جو میری آنے والی نسل یعنی میری اولاد کی احسن طریقے سے تربیت کرے گی۔۔۔میرے بچوں کی بہت اچھی والی ماں بنو گی نا۔؟؟
میرا مطلب ابھی نہیں ہے بلکہ میں مستقبل قریب کی بات کر رہا ہوں۔۔ روحیل نے فوراً صفائی پیش کی۔۔
روحیل کے تمام فرامین سن کر زینہ کا چہرہ شرم سے لال ہونے لگا ، بےقابو دل روحیل کی باتوں پر احتجاجی مظاہرے کرنے لگا ، دھک دھک کرتا دل فریادی قیدی کی طرح صدائیں لگانے لگا۔ زینہ نے فورا پہلو بدل کر نظریں جھکا لیں۔۔
وہ آپ چائے پیئں ٹھنڈی ہو جائے گی۔۔ مجھے ابھی جانا ہے ۔۔۔
نہیں زینہ۔!!! جب تک میں نہ بولوں تم یہاں سے ہل نہیں سکتی ہو۔۔
سنتے ساتھ زینہ حواس باختہ ہونے لگی۔۔
دیکھیں مجھے جانے دیں ، باقی باتیں ہم کل کر لیں گے۔۔زینہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئی۔۔
تم نہایت بیوقوف پاگل لڑکی ہو اور مجھے مجبور نہ کرو کہ میں تمہیں سمجھانے کے لیے تمہارے ساتھ دوسرا طریقہ کار اپناؤں۔
خوف کے مارے زینہ کو واپس بیٹھنا پڑ گیا۔۔۔
چائے ڈالو۔!! نیا حکم نامہ جاری ہو گیا۔۔
زینہ نے کونے میں پڑے چھوٹے میز پر پیالیوں میں چائے انڈیلنا چاہی مگر ہاتھوں کی لرزش کے باعث چائے انڈیل نہیں پا رہی تھی۔۔۔ کرسی پر بیٹھا روحیل بآسانی زینہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دیکھ رہا تھا۔۔۔
زینہ۔!! مجبوراً روحیل کو پاس جانا پڑا۔۔۔
مجھے دو ۔! تم ادھر جا کر بیٹھو۔!!
جججججججی۔ زینہ نے عرق آلود پیشانی کو دوپٹے سے رگڑا۔۔۔
یہ لو اور آرام سے پیو۔! تمہیں یہاں پر کوئی نہیں کھائے گا۔! چھانگا مانگا جنگل میں نہیں بیٹھی ہو۔!!
روحیل اپنی پیالی تھامے چسکیاں لینے لگا جبکہ زینہ کا جی چاہ رہا تھا کہ ایک ہی سانس میں ساری چائے چڑھائے اور اس کمرے سے بھاگ جائے۔۔۔
چائے سے اجازت مانگ رہی ہو کہ تمہیں پیوں یا نہ پیوں.؟؟ روحیل نے زچ ہو کر پوچھا۔۔
ننننہیں ایسی بات نہیں ہے، گہری سوچوں میں گم زینہ یکدم چونکی۔۔۔
ویسے چائے بہت اچھی بنی ہے۔۔۔!
زینہ روحیل سے نظر نہیں ملا پا رہی تھی۔۔۔ نجانے اس شخص کی نظروں میں کونسی ایسی چیز تھی جسے دیکھتے ہی زینہ کی ہمت جواب دے جاتی۔۔
زینہ کی مضطرب حالت دیکھ کر روحیل نے موضوع بدلا۔۔
میں نے زید کو اپنے پہنچنے کی اطلاع دے دی تھی۔۔۔
زینہ نے ہلکی سی گردن جھٹکی اور چائے کی پیالی کو گھورنے لگی۔۔۔
زینہ ۔!!!! میری طرف دیکھو۔!!
جججی۔! نشیلی آنکھیں اوپر اٹھیں پھر پلکوں کی باڑ میں چھپ گئیں۔
زینہ کل پھپھو بھی آ رہی ہیں، ہو سکتا ہے وہ تمہارے ساتھ کچھ تلخ کلامی کر جائیں تو پلیز انکی باتوں کو دل پر نہ لینا۔۔ وہ دراصل پھپھو چاہتی تھیں کہ میں انکے جیٹھ کی بیٹی سے شادی کروں مگر مجھے اس لڑکی کی بےباکی بالکل بھی پسند نہیں تھی ۔۔ ہمارے گھر آکر بنا اجازت وہ میرے کمرے تک پہنچ آئی تھی۔۔۔
زینہ گردن جھکائے خاموشی سے سن رہی تھی۔۔
تم سن رہی ہو نا۔؟؟
جی میں سن رہی ہوں۔ پھنسی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔۔۔
زینہ ہماری پھپھو ہمیں اور ابو کو بہت عزیز ہیں کیونکہ امی کی وفات کے بعد پھپھو نے ہماری دیکھ بھال کی غرض سے پانچ سال تک شادی نہیں کی تھی۔۔ ہمیں سکول سے لانا ، چھوڑنا اور سکول کے سبق کی دہرائی پھپھو کی ذمّہ داری تھی۔۔۔
پرسوں میرے نکاح کی خبر ملتے ہی آج وہ اٹلی سے واپس آ گئیں ہیں۔۔۔
ہو سکتا ہے وہ بہت سارے گلے شکوے بھی کریں مگر تم نے حسن سلوک سے پیش آنا ہے پلیز۔۔۔
بس ایسے سمجھنا جیسے وہ تمہاری ساس ہیں اور تمہیں میری وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔
مجھے پتا ہے یہ سب قربانیاں محبت سے بنے رشتے میں دی جاتی ہیں مگر مجھے پتا ہے تم انسانیت کے رشتے کو ضرور نبھاؤ گی۔۔
مجھے اور کچھ نہیں صرف پھپھو کے ساتھ حسن سلوک کی درخواست کرنا تھی ۔۔۔
بولو میرا ساتھ دو گی نا ۔؟؟؟
جی دوں گی ان شاءاللہ۔!
روحیل نے سینے کا بوجھ ایک لمبی سانس کے ذریعے باہر کھینچ کر نکالا۔۔۔
زینہ بس یہی وجہ تھی جسکی بنا پر تم میرا انتخاب بنی۔۔۔ رشتوں کو نبھانے والی۔۔۔ صرف اپنا نہیں دوسروں کا بھی احساس کرنے والی۔۔
زینہ تمہارا بہت شکریہ۔
اب میں جاؤں۔؟؟ زینہ کا ملتجی لب و لہجہ روحیل کو پگھلا گیا۔۔۔
میرا جی نہیں چاہ رہا مگر وعدے کے مطابق تمہیں جانے کی اجازت دیتا ہوں۔!
بلکہ میں خود چھوڑ کر آؤں گا۔۔۔ ہو سکتا ہے رات کو ایک آدھ بار تمہارے کمرے کا چکر بھی لگاؤں لہٰذا کمرہ کنڈی نہیں کرنا۔!!!!
جی بہتر ۔!!!
*************#Zaynah_Hayyat************
اے شہلا۔!! ہو جاتی ہیں غلطیاں اب تم تو ادھر کی ہو کر بیٹھ گئی ہو۔۔۔
خالہ یہ غلطیاں معمولی نہیں تھی جن کو آپ دبانا چاہتی ہیں۔۔
میرا بچہ فوت ہوگیا اور میرے سسرال کو توفیق تک نہ ہوئی کہ آ کر مجھے یا میری ماں کو دیکھ لیں۔۔۔ خالہ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔۔! آپ لوگ صرف خرچوں سے بچنے کے لیے ہم سے دور بھاگ رہے تھے نا ، اب پتا ہے امی والا کانٹا بھی نکل چکا ہے تو اس لیے آپکو بہو یاد آ گئی ہے۔۔۔
اے زید ۔! تو سمجھا اسے۔!
ذیشان اسے کھو کر پچھتا رہا ہے ۔۔۔
خالہ میری بہن میرے اوپر دو روٹیوں کی وجہ سے بھاری نہیں ہے ، جہاں میں روکھی سوکھی کھاؤں گا وہی پر یہ بھی کھا لے گی۔۔۔ اب یہ آپا کا فیصلہ ہے کہ اس نے ذیشان بھائی کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں ، میں آپا کو کسی معاملے میں مجبور نہیں کرو گا کیونکہ آنکھوں دیکھی مکھی کوئی نہیں نگلتا ہے۔۔۔جس شخص کو اپنی اولاد کی پرواہ نہیں ہے اسے بیوی کی پرواہ خاک ہو گی۔۔۔! زید نے بھی اگلی پچھلی کسر نکالی۔۔۔
میری بہن یہاں پر موجود ہوتی تو تم لوگ مجھے باتیں سنانے کی جراءت نہ کرتے مگر میں بیٹے کا گھر اجڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتی اسی لیے آ گئی ہوں۔ خالہ نے مگرمچھ کے آنسو بہانا شروع کر دیئے۔۔۔
خالہ اس وقت بہن کی یاد نہ آئی جب وہ کتنے دن زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں۔؟؟ شہلا سے رہا نہ گیا۔۔۔
اے شہلا مجھے تیکھی نہ سنا ۔!! میں آئی تھی مگر مجھے اس تیرے بھائی اور نئے داماد صاحب نے بیرونی دروازے سے نکال باہر کیا تھا۔۔۔ ہائے میں کرموں جلی کیوں بھانجی کی ہمدردی میں آ گئی ورنہ ذیشان کے لیے لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے ۔ اے ابھی کل کی بات ہے منڈی میں آڑھتی کی بیٹی کا رشتہ آیا پڑا ہے میرے خوبرو ذیشان کے لیے۔۔ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے ۔؟ ابھی بھی لڑکیاں فریفتہ ہوئے جاتی ہیں۔۔ شہلا میں تجھے بتا رہی ہوں ۔!!
خالہ نے ہوا میں ایک اور تیر پھینکا۔ ۔۔
ٹھیک ہے خالہ آپ ان لڑکیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔۔ جب تک ذیشان خود آ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرے گا ،میں اپنے اس مفلس بھائی کے گھر پر ہوں ۔۔۔ روکھی سوکھی کھا لیتی ہوں مگر آئے روز کے کوسنے سننے کو نہیں ملتے ہیں۔۔۔
اے شہلا سیدھی بول کہ تو زینہ کے سسرالیوں کو دیکھ کر ذیشان سے آنکھیں پھیرتی جا رہی ہے۔!
خالہ آپ کی سوچ کو میں ہزار دلائل دے کر بھی نہیں بدل سکتی ہوں۔ آپ کی مرضی جو جی میں آئے سمجھیں۔۔
شہلا تو اس دن کو سوچ کر پچھتائے گی ۔! ہیرا کھو دے گی ہیرا۔!!!
میں چلتی ہوں تم اپنی اکڑ میں بیٹھی رہو۔۔اپنے سگوں کے خون سفید ہوتے جارہے ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ تو نیکی کرنی ہی نہیں چاہئے ورنہ گلے کی ہڈی بن کر پھنس جاتی ہے جو ابھی میرا حال ہے۔۔ خالہ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر یہ جا اور وہ جا۔۔
**********************#Zaynah_Hayyat
زینہ کمرے میں آؤ تمہیں کچھ دکھانا ہے۔خالہ میری بیوی کو بولیں میرے ساتھ آئے۔ روحیل نے لاڈ سے ساس کو پکارا۔۔ جبکہ زینہ شرم سے لال ہوئے جا رہی تھی۔۔
یہ شخص کب سدھرے گا۔؟ آپ چلیں ۔! میں ویرے کے ساتھ آتی ہوں۔۔
سنتے ساتھ روحیل نے دانت پیس کر آنکھیں دکھائیں۔۔۔
امی اپنے داماد سے بولیں میرے ویر سے خار نہ کھائیں۔۔ زینہ نے جلتی پر تیل ڈالا۔۔۔
شہناز بیگم دونوں کی نوک جھونک پر مسکرا کر رہ گئیں۔۔
کوئی بات نہیں زینہ ۔! روحیل نے جو دکھانا ہے جا کر دیکھ آؤ۔! تمہاری کونسی پاؤں سے مہندی اتر جائے گی۔۔ ویل چیئر پر بیٹھی شہناز بیگم نے ہمیشہ کی طرح روحیل کا ساتھ دیا۔۔۔
ناشتے سے فراغت کے بعد سبھی عقبی باغیچے میں مارچ کی دھوپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ روحیل کو اپنی سوجھی۔۔۔
عاصم اپنا فون پکڑے ہمیشہ کی طرح کمپنی کے کھاتے سیدھے کرنے کے چکروں میں سب سے بے نیاز بیٹھا تھا۔۔۔
سب کے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی نہیں تھا۔۔
امی آپ ہر وقت انکی طرف داری کرتی ہیں۔! زینہ نے منہ بسورا۔
اے پگلی وہ کوئی غلط تو نہیں بول رہا ہے اسے کچھ دکھانا ہے جاؤ جا کر دیکھ آؤ۔ ویسے بھی شام تک بھائی صاحب مہمانوں کے ہمراہ پہنچ آئیں گے۔۔
چار و ناچار زینہ کو اٹھنا پڑا جبکہ روحیل معنی خیز نظروں سے گھورنے سے باز نہ آیا۔۔۔
سہمے دل کے ساتھ زینہ روحیل کی پیروی میں چلنے لگی۔۔ اندرونی مہمان خانے میں پہنچنے پر روحیل نے ہاتھ تھامنے کی درخواست کی جسے زینہ نے بنا چوں چراں کیے فوراً قبول کر لیا جبکہ چہرے پر بارہ بج رہے تھے۔۔
زینہ۔!
جی۔!
تم شروع سے ایسی ہی ہو ۔؟؟
جی ۔؟؟
میرا مطلب ہے کہ ڈرپوک ، سہم جانے والی، دبو اور بزدل وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ ساری خوبیاں میرے میں کم عمری سے بددرجہ کمال موجود تھیں مگر باقی کمی بیشی روحیل ارشاد نے پوری کر دی ۔۔۔
زینہ نے ہمت کرکے سچ اگل دیا۔۔۔
روحیل ارشاد اس باقی ماندہ “کمی بیشی” کے پورا کرنے کا کرب ناک خمیازہ بھگت چکا ہے اور شاید اب مزید بھگتے۔!! روحیل نے بھنویں اچکائیں۔۔۔
ویسے آج شیرنی بنی پھر رہی ہو۔!
جی صبح فجر کے بعد دوگھنٹے والدہ ماجدہ نے آپ کی فرمانبرداری پر درس دیا ہے ۔۔۔ !!! زینہ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔
ہائے میری ساس کتنی ہمدرد غمگسار ہیں۔! روحیل نے دوبارہ معنی خیز نظروں سے زینہ کو گھورا۔۔
آپ مجھے گھورا نہ کریں۔! زینہ نے منہ بسورا۔۔
ویسے میں بنا آپ کا ہاتھ تھامے گھر میں چلنے پھرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔۔! اگر اجازت دیں تو میں خود سے چل سکوں۔۔؟؟
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے زینہ۔۔۔!!!
دیکھیں میں چچا کے سامنے ایسے ہاتھ تھام کر نہیں چلوں گی۔ زینہ نے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے ادنی سی کوشش کر ڈالی۔۔
بھگا کر تو نہیں لایا ہوں جو سب سے چھپتا پھروں۔!!۔روحیل نے رک کر زینہ کو شانوں سے پکڑ کر سامنے کھڑا کر لیا۔۔۔
مگر پھر بھی کچھ اس رشتے کے ادب و اخلاق ہونے چاہئے ۔! مجھے بے باک افعال سے شرمندگی ہوتی ہے وہ بھی گھر کے بڑے بزرگوں کے سامنے۔!! زینہ نے ہمت کرکے بول تو دیا مگر روحیل کے تیور دیکھ کر روح پرواز کرنے لگی۔۔۔
میری طرف دیکھو۔!!
زینہ نے فورا چور نظروں سے روحیل کو دیکھا۔۔
مجھے تنہائی میں بھی اخلاقیات ہی سننے کو ملتے ہیں تو پھر میں کیا کروں.؟؟؟ کم ازکم باقی اہل خانہ کے سامنے تم میری جائز پیش رفت پر پابندی عائد نہیں کر سکتی ہو۔۔۔
میں معذرت چاہتی ہوں مگر اس رشتے کو احسن طریقے سے لے کر چلنے میں مجھے کچھ وقت درکار ہے۔! امید ہے آپ مجھے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔! زینہ نے بمشکل اپنی بات مکمل کی جبکہ روحیل اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
زینہ مجھے صرف ایک بات بتا دو تم میں کس چیز کا خوف ہے۔؟؟کیوں ہر وقت لرزتی کپکپاتی رہتی ہو۔؟؟روحیل نے اپنے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے دوبارہ اصرار کیا۔۔۔
اگر آپ اتنے مصر ہیں تو میں آپ کو بتا دیتی ہوں لیکن مجھے یہ خوف بھی ستا رہا ہے کہیں میرا یہ بولنا ناشکرے پن میں نہ لکھ دیا جائے۔۔مگر اللہ شاہد ہے میں اپنے ماضی پر شکر گزار تھی الحمدللہ۔
زینہ پلیز بولو۔!! میں تمہیں سننا چاہتا ہوں۔روحیل کا ملتجی لہجہ زینہ کو سوچنے پر مجبور کر گیا ۔تم تو میری دن رات کی دعاؤں کا ثمر ہو ، اور میاں بیوی تو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں تو پھر میرے سے کیا چھپانا۔۔؟
زینہ کی آنکھیں شدت جذبات سے بھر آئیں۔!! دل سے دعا نکلی یا اللہ اگر یہ شخص ظاہر کی طرح باطن سے بھی متقی ہے تو تو میرے دل میں اسکی محبت جاگزیں کر دے۔ چند آنسو لڑھک کر گالوں پر پھیل گئے۔۔۔
زینہ پھر سے رونا۔؟ روحیل نے فوراً زینہ کے آنسو اپنی پوروں سے چن لئے۔۔۔
تمہیں بولا ہے میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔!! پھر خود کو اتنا کمزور اور تنہا کیوں محسوس کرتی ہو۔؟؟ بس ماضی کے کچھ ایسے گھاؤ ہیں جو کبھی کبھار افسردہ کر دیتے ہیں، انسان ہوں نا ۔!!! بس میرا بھی دل کبھی کبھی بھر آتا ہے۔۔
زینہ تمہارا دل تو ہر دوسرے گھنٹے بھرا ہوا ہوتا ہے۔۔۔ بےموسم برسات کی ٹھیکیدار ہو تم !!!
اب یہاں پر کھڑے نہیں رہنا بلکہ ادھر بیٹھ کر آرام سے بات کرو۔۔ !! چونکہ مجھے پھپھو کی پسند کے تمام کھانے ازبر ہیں، اس لیے میں نے ملازمہ کو سب بتا دیا ہے ، پھپھو ڈیڈ کی آمد سے قبل کھانا تیار ہوگا۔۔!
اب وقت تمہارے دل کی سننے کا ہوا چاہتا ہے۔۔!!!
روحیل بستر پر آلتی پالتی مارتے ہوئے زینہ کو بھی اطمینان سے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا۔۔۔
جی تو زینہ عرف بیگم روحیل میں ہمہ تن گوش ہوں۔۔۔ روحیل کی جذبے لٹاتی آنکھیں اور سحر انگیز شخصیت زینہ کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے لگی۔۔۔ میں تو اس شخص کے مقابلے میں صفر ہوں پھر یہ شخص میری ذات کی نفی کرنے کے بجاۓ ہمیشہ مثبت کی دوڑ میں کیوں رہتا ہے۔؟؟کیوں یہ مجھے اتنی توجہ دیتا ہے۔؟؟ شاید میں اس شخص کے قابل نہیں ہوں ، شام کو نجانے پھپھو مجھے دیکھ کر کیا تاثر دیں گی۔۔۔؟؟
زینہ مجھے گھورنے سے منع کرتی ہو اور ابھی مجھے گھور گھور کر نظر لگانے کا ارادہ رکھتی ہو۔۔۔!!!
سوچوں میں غلطاں زینہ فوراً ہوش میں آئی۔۔۔
آپ مجھے کچھ دکھانے لائے تھے۔ زینہ نے نظریں چرائیں۔۔
پہلے سنوں گا پھر دکھاؤں گا۔۔!! جلدی سے بولنا شروع کر دو ورنہ نئی سزا کے لئے تیار ہو جاؤ۔۔!!
زینہ نے فوراً پلکوں کی جھالر اٹھائی اور گلا صاف کر کے الفاظ چننے لگی۔۔