شمروز نے جب رومانہ کو گھر میں کام کرتے دیکھا تو اس نے امیراں بائی کو کال ملائی اور کہا اک ہیرا ملا ہے مجھے میں اسکو آپ تک پہنچادوں گا مگر قیمت مجھے میری مرضی کی چاہیے ہوگی امیراں بائی نے کہا ٹھیک ہے لے آؤ قیمت تمہیں مل جائے گی۔۔۔۔
پھر جب سکھی اور رومانہ راضی ہوگئیں تو اس نے گھر سے باہر جاکر امیراں بائی کو کال کرکے پکی اطلاع دے دی کہ ہیرا تم تک پہنچ جائے گا کل اور یوں رومانہ امیراں بائی کے کوٹھے کی زینت بننے جارہی تھی
سکھی کا دونوں گھروں کاکام ختم ہوچکا تھا اور وہ رومانہ کو لینے جارہی تھی جب وہ تھکی ہاری اپنے کام سے رومانہ کو لینے پہنچی تو اس بنگلے کے باہر دروازے پہ لگے تالے کو دیکھ کر دھک سے رہ گئی وہ تالے کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ یہ اسکا وہم تو نہیں۔۔۔؟؟؟؟ وہاں چوکیدار بھی نہیں تھا وہ پریشان نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر اسکو وہاں کوئی نظر نہ آیا اسکی جان سولی پہ اٹکی ہوئی تھی کہ رومانہ کہاں چلی گئی جبکہ صبح وہ خود اسکو چھوڑ کر گئی ہے پھر وہ ایسے کہاں جاسکتی ہے مگر یہاں تو تالا ہے اسکا مطلب وہ مالکن ہی نہیں ہے وہ کہاں لے گئی میری بچی کو۔۔۔؟؟؟؟ وہ پریشان ہوتے ہوئے سب سوچنے لگی پھر واپس اپنی اسی مالکن کے گھر گئی کہ اس سے کہے کہ وہ شمروز صاحب سے پوچھیں انہوں نے ہی لگوایا تھا ادھر میری بیٹی کو۔۔۔۔ وہ فورا ادھر گئی مالکن نے گیٹ کھولا تو سکھی کو دیکھکر حیران ہوگئی اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی سکھی نے سب کہہ سنایا
وہ مالکن بھی پریشان ہوگئی اور فورا شمروز کو کال ملائی شمروز رومانہ کو امیراں بائی کے کوٹھے پہ پہنچا چکا تھا اور بائی سے معاوضہ لیکر واپس آرہا تھا اس نے وہیں کے وہیں کال اٹھائی اسکی بیوی نے پریشانی کے عالم میں اس سے سب کہا تو شمروز کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی مگر وہ انجان بنتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔
“ایسے کیسے چلی گئی۔۔؟؟؟ اور میں کیا کہوں میں نے تو بس گھر دکھایا ہے باقی کی ذمہ داری تو نہیں لی۔۔۔!!
دیکھیں آپ اپنے دوست کو فون کریں یا کسی بھی طرح معلوم کریں کہ رومانہ کہاں گئی سکھی بہت پریشان ہے وہ رورہی ہے پلیز کچھ کریں۔۔۔۔ اسکی بیوی نے پریشان لہجے میں کہا۔۔۔۔!
اچھا میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ شمروز نے اسکو تسلی دیتے ہوئے کہا اور فون بند کردیا۔۔۔۔
دس منٹ بعد اسکی بیوی کافون پھر آیا شمروز نے کال ریسیو کی اور کہا کہ کوئی رابطہ نہیں ہورہا میں گھر آتا ہوں تھوڑی دیر تک تم سکھی سے کہو ہم پولیس اسٹیشن چلیں گے وہاں اسکی گمشدگی کی رپورٹ لکھوادیں گے وہ مل جائے گی۔۔۔۔ اسکی بیوی نے اس بات کی تائید کی اور سکھی کو کہہ دیا وہ بہت پریشان ہورہی تھی رومانہ کے لیے۔۔۔۔۔
ادھر شمروز کے ہاتھ رقم آگئی تو وہ بہت خوش تھا اس نے سوچا کہ چلو یہ پیسے گھر رکھ آتا ہوں اور زرا سکھی کو سچائی بھی بتادوں کہ اسکی بیٹی کہاں ہے اور پھر اسکا کام تمام کردوں گا۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر وہ گھر کے لیے روانہ ہوگیا سکھی اور اسکی بیوی پریشان نظروں سے اسکا ہی انتظار کررہے تھے شمروز نے گھر آکر کہا ابھی تو کچھ پتہ نہیں چلا لیکن سکھی چلو پولیس اسٹیشن۔۔۔ تم گاڑی میں بیٹھو میں آتا ہوں سکھی فورا جاکر گاڑی میں بیٹھ گئی کچھ دیر بعد شمروز آکر گاڑی میں بیٹھ گیا اور اسٹارٹ کرکے چلانے لگا۔۔۔۔ تھوڑی دور جاکر اس نے سکھی سے پوچھا۔۔۔۔
“سکھی تم خود چھوڑ کر آئی تھی نا اسکو وہاں۔۔۔۔۔؟؟
جی۔۔۔۔ صاحب۔۔۔۔ سکھی نے کہا۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ پھر کہاں چلی گئی۔۔۔؟؟؟؟ ویسے میں بتاؤں وہ کہاں گئی ہے۔۔۔؟؟؟؟ شمروزنے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔۔۔؟؟؟
کک۔۔ کیا۔۔۔ صاحب آپکو پتہ ہے رومانہ کہاں گئی ہے۔۔۔؟؟؟؟ سکھی کو جیسے امید سی بندھی۔۔۔۔۔
ہاں مجھے پتہ ہے۔۔۔ شمروز نے کہا
تو بتائیں نا صاحب بلکہ ادھر لے چلیں جہاں وہ گئی ہے۔۔۔۔۔!! سکھی نے کچھ حیران اور جذباتی انداز میں کہا۔۔۔
ہاہا تمہاری بیٹی ہاہا اسکو میں نے بیچ دیا ہے اور وہ کہاں ہے جانتی ہو وہ اس وقت امیراں بائی کے کوٹھے پہ ہے وہاں کی زینت بنے گی ہاہاہا۔۔۔۔۔
سکھی کو ایسا لگا جیسے اسکے حواس سلب ہوگئے ہوں غریب کے پاس اک عزت ہی تو ہوتی ہے جس کے سہارے وہ جیتا ہے اور وہی نا رہے تو اسکے پاس جینے کی وجہ بھی نہیں رہتی۔۔۔۔ سکھی جیسے اک دم ہوش میں آئی اور چیخ کر کہنے لگی ننن۔۔۔۔نہیںںںںںںںں۔۔۔۔ نہیںںںںں۔۔۔۔ صاحب یہ جھ۔۔۔جھوٹ۔۔۔۔ ہے ککک ۔۔۔ککہہ دووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی بات مکمل نہ کرپائی اور اسکا دل بند ہوگیا۔۔۔۔۔ اتنا بڑا صدمہ۔۔۔۔ وہ برداشت ہی نا کر سکی۔۔۔۔ اسکی عزت خاک میں مل گئی۔۔۔۔ اسکی بیٹی اسکی عزت پامال ہوگئی وہ کیسے زندہ رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔ شمروز نے جب پیچھے مڑ کر سکھی کو دیکھا تو اسکو مردہ حالت میں پایا اسکی گردن اک طرف کو ڈھلکی ہوئی تھی شمروز نے اک زور دار قہقہہ لگایا اور گاڑی اسکے گھر کی پچھلی گلی کی طرف روکی سکھی کو گاڑی سے اتارا اور وہاں اک کونے میں ڈال دیا اس وقت گلی میں سناٹا تھا کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا وہ واپس گاڑی میں بیٹھا اور بھگا کر لے گیا
*******
اصغر نوکری کی تلاش میں رہتا تھا اس نے کئی لوگوں سے کہا ہوا تھا تو اک جگہ سے اسکو فون آگیا وہ وہاں گیا تو اسکو پتہ چلا کہ اسکی نوکری پکی ہوگئی اور تنخواہ بھی اچھی تھی وہ بہت خوش تھا کہ اب اسکی بیٹی کو گھروں میں کام نہیں کرنا پڑے گا وہ آگے پڑھے گی اپنا شوق پورا کرے گی وہ خوش خوش گھر آیا کہ ان دونوں کو خوشخبری سنائے گا وہ گھر پہنچ گیا اور انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وقت گزر ہی نہیں رہا پھر ان دونوں کے آنے کا وقت ہوگیا وہ اور بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ مگر وقت تھا کہ رک ہی نہیں رہا تھا دس منٹ پندرہ منٹ بیس منٹ آدھا گھنٹہ۔۔۔۔ وہ حیران پریشان کہ اس سے پہلے تو کبھی اتنی دیر نہیں ہوئی ناجانے آج کیوں اتنی دیر ہوگئی۔۔۔۔۔ وہ ٹہلتے ہوئے سوچنے لگا۔۔۔۔ کیا کروں مجھے تو بس پرانی مالکن کا گھر پتہ ہے اور سکھی تو وہاں صبح میں جاتی ہے دوسرے گھر تو وہ بعد میں جاتی ہے اور رومانہ جس گھر میں کام کرتی ہے اسکا بھی نہیں پتہ مجھے۔۔۔۔ کیا کروں۔۔۔کیا کروں۔۔۔۔؟؟؟؟ چلو میں پہلی مالکن کی طرف ہی جاتا ہوں وہی جاکر پوچھ لوں گا شاید انکو معلوم ہو دوسرے گھر کا۔۔۔۔ وہ یہی سوچتا ہوا گھر سے نکلا اور سکھی کی پہلی مالکن کے گھر چلا گیا وہاں پوچھنے پہ پتہ چلا کہ دوسرے گھر کا تو انکو نہیں معلوم۔۔۔۔ وہ ناامید سا واپس گھر کی طرف لوٹ آیا۔۔۔۔ اور باہر دروازے کے پاس ہی کھڑا ہوگیا اسکو عجیب عجیب وہم آرہے تھے اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں ڈھونڈے ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھاکہ پچھلی گلی سے شور کی آواز آئی وہ سوچنے لگا کہ یہ شور کیسا ہے جاکر دیکھتا ہوں۔۔۔۔ وہ پچھلی گلی میں چلا گیا وہاں کافی رش لگا ہوا تھا اس نے اک بچے سے پوچھا کہ کیا ہواہے یہاں۔۔۔۔؟؟؟؟
بچے نے کہا آگے اک عورت کی لاش پڑی ہے۔۔۔۔!!
اصغر کے دل کو کچھ ہوا وہ ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا
اصغر نے جب وہاں سکھی کو بےجان وجود کے ساتھ دیکھا تو اسکو اپنی آنکھوں پہ یقین نا آیا وہ اسکے پاس بیٹھ کر اسکو آوازیں دینے لگا اسکو ہلانے لگا مگر کوئی حرکت نا ہوئی اس نے جلدی سے اسکو اٹھایا لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے اس نے کہا اررے کوئی رکشہ لادو مجھے وہ اسکو اٹھائے کہہ رہا تھا اتنے میں اسکے محلے کا اک آدمی جو رکشہ چلاتا تھا وہ اپنا رکشہ لے آیا اور اصغر اسکو اٹھا کر رکشہ میں ڈاکٹر کی طرف لے جانے لگا رستے میں بھی وہ اسکو آوازیں دے رہا تھا مسلسل اٹھا رہا تھا مگر بے سود وہ رکشہ ڈرائیور سے کہہ رہا تھا بھائی جلدی چلاؤ۔۔۔ رکشہ والے نے کہا اصغر بھائی میرے رکشہ کا جو مالک ہے اس کا اپنا اک ہسپتال ہے میں وہاں لے جاتا ہوں آپکو۔۔۔۔۔ اصغر نے کہا کہیں بھی لے چلو مگر مجھے جلدی لے چلو۔۔۔۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا۔۔۔۔؟؟ اصغر نے کہا بھائی مجھے نہیں پتہ میں تو گھر آیا تھا تو میری بیوی اور بیٹی گھر نہیں آئی۔۔۔ بیٹی کی بات کرتے ہوئے اسکو اک دم یاد آیا کہ رومانہ۔۔۔۔ رومانہ کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ اففف میرے خدا میری بچی۔۔۔۔۔۔ رکشہ والے نے پوچھا کیا ہوا اصغر بھائی۔۔۔۔۔؟؟؟ اصغر نے کہا میری بچی پتہ نہیں کہاں ہے یہ دونوں ساتھ کام پہ جاتی تھیں اور میں سکھی کو دیکھ کے اپنی بیٹی کو بھول گیا۔۔۔۔ تم جلدی ہسپتال لے چلو پھر میں اسکو دیکھوں۔۔۔۔۔ رکشہ والا تیز چلاتا ہوا ہسپتال تک پہنچ گیا اصغر نے سکھی کو اتارا اور ہسپتال کے اندر لے کر گیا اندر اسکو روک لیا اور پوچھا کیا بات ہے؟؟؟؟ رکشہ والے نے کہا بھائی ڈاکٹر سمیع کو بلاؤ وہ مجھے جانتے ہیں، ڈاکٹر سمیع اس وقت راؤنڈ پہ تھے وارڈ بوائے انکو بلا لایا انہوں نے رکشہ والے کو اور اسکے ساتھ اصغر کو دیکھا تو پوچھنے لگے کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟ اصغر نے کہا ڈاکٹر صاحب میری بیوی کو دیکھ لیں انہوں نے مزید وقت ضائع کیے بغیر اسکا معائنہ کیا اور کہا آپ نے بہت دیر کردی آنے میں یہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔۔۔۔۔!!! اصغر تو جیسے اک دم شوکڈ ہوگیا اور کہنے لگا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ڈاکٹر نے کہا انکو بہت گہرا صدمہ پہنچا ہے جسکی وجہ سے انکو دل کا دورہ پڑا اور وہ بہت شدیدتھا اور یہ اسکو سہہ نہیں سکیں۔۔۔۔۔ اصغر کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے یہ کیسے ہوسکتا ہے اور ایسا کیا صدمہ پہنچا ہے سکھی کو۔۔۔؟؟؟؟ وہ وہیں بیٹھ گیا اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ اپنے ہاتھوں کو سر پہ رکھے رو رہا تھا اتنی اچانک موت افف میرے خدا۔۔۔۔ ایسا کیا ہوگیا۔۔۔۔ !!! رکشہ والا بھی وہیں کھڑا تھا وہ اسکو تسلی دے رہا تھا اسکو بھی بہت افسوس تھا اس نے کہا بھائی تمہاری بیٹی کہاں ہے۔؟؟؟ اصغر کو جیسے کچھ یاد آیا وہ اٹھا اور کہنے لگا پتہ نہیں بھائی میری تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہی میں کیا کروں میری دنیا ہی لٹ گئی
اس نے کہا چلو بھائی اپنی بیوی کو لیکر۔۔۔۔۔۔ اصغر بوجھل قدموں سے اٹھا اور اسکو واپس لیکر جانے لگا۔۔۔۔۔۔ اسکی نماز جنازہ پڑھوائی پھر کفن دفن کا انتظام کیا۔۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ کس کے لیے جیے اسکی بیٹی کہاں ہوگی۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کی تلاش میں نکل پڑا مگر کہاں ڈھونڈتا اسکو۔۔۔؟؟؟
*****
رومانہ کو دو گھنٹے بعد ہوش آیا تھا اور جب وہ اٹھنے لگی تو اسکو اپنا سر کچھ بھاری محسوس ہوا اس نے ہلکے ہلکے آنکھیں کھول دیں اسکو اپنے گرد کچھ شور محسوس ہورہا تھا اس نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا تو اسکو اپنے بائیں طرف کچھ لڑکیاں بیٹھی ہوئی نظر آئیں جو باتیں کررہی تھیں وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیران نظروں سے دیکھنے لگی وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کہاں ہے یہ کون سی جگہ ہے۔۔؟؟ اور وہ بےہوش کیسے ہوگئی تھی۔۔۔؟؟؟ اک لڑکی نے اسکو اٹھا ہوا دیکھا تو اسکے پاس آگئی اور کہنے لگی اری او ہوش میں آگئی۔۔۔۔؟؟ رومانہ اسکو دیکھنے لگی۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔!!! اس لڑکی نے پوچھا۔۔۔ رومانہ نام ہے میرا۔۔۔ مگر تم کون ہو اور میں یہ کہاں ہوں۔۔۔؟؟؟؟ رومانہ نے پوچھا۔۔۔ میرا نام بانو ہے اور تم اس وقت امیراں بائی کے کوٹھے پہ ہو۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی اٹھلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
کک۔۔۔۔کککیاااااا۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔ وہ جیسے کچھ سوچنے لگی اسکو یاد آیا کہ وہ تو کام پہ گئی تھی اپنا کام کرکے اس نے مالکن کے بام لگانی تھی مگر وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ وہ اک دم چیختے ہوئے بولی میں یہاں کیسے آگئی میں تو کام پہ گئی تھی پھر یہاں کیسے۔۔۔؟؟؟ اتنے میں اسکے چیخنے کی آواز سن کر اک عورت اندر آگئی جس نے چہرے پہ بےتحاشہ میک اپ تھوپا ہوا تھا اور چنگھاڑتے ہوئے رنگ کی اک ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور بالوں کا اک جوڑا بنایا ہوا تھا وہ اندر آکر زور دار آواز میں کہنے لگی۔۔۔۔۔” کیا شور ڈالا ہوا ہے یہاں۔۔۔؟؟؟ رومانہ نے اسکی جانب دیکھا اور اسکو ایسا لگا جیسے اس نے اس عورت کو پہلے کہیں دیکھا ہے پھر اک دم وہ کسی خیال کے تحت چونکی یہ تو وہی مالکن ہے کیونکہ جس وقت وہ کام کرنے گئی تھی اس وقت وہ سادہ حلیہ میں تھی اسلیے رومانہ کو پہچاننے میں تھوڑی مشکل ہوئی اس نے حیران ہوتے ہوئے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا وہ عورت مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور بہت پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکے چہرے تک لائی اور کہنے لگی۔۔۔۔” بہت خوبصورت ہو تم اس کوٹھے پہ تو تمہاری خوبصورتی چار چاند لگادے گی۔۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔ بانو اس کو سب سمجھادو۔۔۔۔۔” یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے جانے لگی تو رومانہ چیخ کر کہنے لگی” نہیں میں ایسا ہر گز نہیں کروں گی میں یہاں نہیں رہنا چاہتی میں چلی جاؤں گی یہاں سے سنا تم نے۔۔۔۔۔” وہ عورت واپس پلٹی اور اسکی چوٹی کو اپنے ہاتھ میں جکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔ لڑکی یہاں پہ آنے والیاں یا تو اپنی مرضی سے آتی ہیں یا ہماری مرضی سے اور جاتی کسی اور کی مرضی سے ہیں سنا تو نے۔۔۔۔ اسلیے یہاں سے جانے کا خیال تو تُو دل اور دماغ دونوں سے نکال دے اور اگر یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو ٹانگیِں توڑ دوں گی سنا تو نے۔۔۔۔۔۔بس اب رقص سیکھنے کی تیاری کر کل سے رقص سیکھنا ہے تو نے۔۔۔۔ رومانہ تکلیف سے رونے لگی اس نے اک جھٹکے سے اسکے بال چھوڑ دیے اور کہا کہ نام تیرا جو بھی ہو مگر آج سے تیرا نام روبی ہے سنا روبی ہے تیرا نام۔۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی رومانہ وہاں گری رورہی تھی۔۔۔۔ بانو آگے آئی اسکو اٹھایا اور کہا ۔۔۔۔” یہاں سے خود جانے کا مت سوچنا ورنہ پچھتانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔۔ رومانہ نے روتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں ہوا میرے ساتھ میں ایسی زندگی نہیں گزار سکتی میں یہاں نہیں رہنا چاہتی پلیز میری مدد کرو میرے حال پہ رحم کرو۔۔۔۔ میرے ماں باپ انکا کیا ہوگا۔۔۔۔ انکی عزت۔۔۔وہ غریب ہیں مگر عزت دار ہیں۔۔۔۔ پتہ نہیں میری ماں کا کیا حال ہوا ہوگا وہ جب مجھے لینے گئی ہوگی۔۔۔۔۔ اوہ میرے اللّٰہ میری مدد کر۔۔۔۔۔ وہ روتے روتے اک دم اللّٰہ سے دعا مانگنے لگی۔۔۔۔ بانو نے کہا رولو جتنا رونا ہے رولو مگر جو بائی نے کہا ہے وہی کرنا ہوگا تمہیں یہاں پہ کچھ بھی رحم نہیں کیا جاتا بس جیسا کہا جائے وہ کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ رومانہ سوچنےلگی تو کیا اب مجھے اپنے جسم کا سودا کرنا پڑے گا۔۔۔؟؟؟ کیا میرا دامن اب داغدار ہوجائے گا۔۔۔۔؟؟؟؟ وہ رونے بلکنے لگی اور دعا کرنے لگی نہیں میرے اللّٰہ میں ایسا نہیں چاہتی میں اپنی عزت بیچنا نہیں چاہتی میں اپنے وجود کو گندی نظروں کے حصار میں نہیں لانا چاہتی پلیز میری مدد کر میرے مالک۔۔۔۔۔
مگر رومانہ کے لیے ابھی آگے مشکلات تھیں اور انکو اسکا سامنا کرنا تھا۔۔۔۔۔۔
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...