ارمان شام کے وقت گھر سے تھوڑا دور پارک میں چلا جایا کرتا تھا، معمول کے مطابق وہ اس پارک میں بیٹھا ہوا تھا اور آنے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا کچھ بچے اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے وہ انکو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، اسکا دل چاہتا تھا کہ ایسے ہی کسی دن وہ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ آتا یہاں۔۔۔۔ مگر اب تو وقت گزرگیا۔۔۔ بچپن گزرگیا تو اب جوانی میں کہاں سے آئیں گے یہی سوچ کر اسکی آنکھیں نم ہوجاتیں۔۔۔۔ ابھی وہ اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کرہی رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے آکر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔ ارمان نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو اک بائیس تئیس سال کا لڑکا تھا چہرے پہ ہلکی ہلکی داڑھی تھی، گلے میں چین تھی اور ہاتھوں میں بینڈز پہنے ہوئے تھا اس نے ارمان کے کندھے پہ سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ھائے آئی ایم شعیب اینڈ یو؟؟؟؟
آئی ایم ارمان۔۔۔ مگر آپ کون میں نے آپکو پہلی بار دیکھا ہے۔۔۔۔
جی بلکل پہلی بار ہی دیکھا ہوگا مگر میں تمہیں یہاں کئی بار دیکھ چکا ہوں تم کافی تنہا تنہا سے لگتے ہو۔۔۔۔
ارمان جو پہلے ہی اداس تھا اسکے سوال پہ اور اداس ہوگیا
ھاں میں تنہا ہی ہوتا ہوں۔۔۔۔
مگر کیوں اور کوئی نہیں آتا تمہارے ساتھ؟؟
نہیں اور تمہارے ساتھ؟؟ ارمان نےپوچھا۔۔۔
میرے تو کافی دوست ہیں مگر وہ یہاں نہیں آتے یہاں پہ بس میں آتا ہوں کبھی کبھی تمہیں دیکھا تو سوچا کہ تم اکیلے اکیلے سے لگتے ہو اور کافی اداس بھی۔۔۔۔ شعیب نے ہمدردی والے انداز میں کہا۔۔۔
ارمان جو پہلے ہی محبت اور توجہ کو ترسا ہوا تھا شعیب کا ساتھ ملنے اور اسکی ہمدردی نے اس سے سب کہلوادیا وہ جو اپنے دل میں کئی شکایتوں کا انبار لگائے بیٹھا تھا سب شعیب سے کہہ ڈالا اسکو خود پہ کچھ بوجھ ہلکا محسوس ہوا۔۔۔۔
شعیب اسکی ساری بات توجہ سے سنتا رہا پھر اسکے کندھے پہ اپنے ہاتھ رکھے اور کہا یار فکر نا کرو مجھ سے دوستی کرلو خوش رہو گے
ارمان نے اک نظر اٹھا کر اسکو دیکھا تو شعیب نے اسکے ہاتھ پہ اپنے ہاتھ رکھ کر یقین دلایا کہ وہ اسکا اک اچھا دوست ہے اور ارمان نے یقین کرلیا۔۔۔۔
شعیب سے روز ملاقات ہوتی اور ارمان اب کافی خوش بھی نظر آتا اسکے ساتھ۔۔۔۔ اک روز شعیب نے کہا چل یار آجا اک جگہ چلتے ہیں۔۔۔۔ مگر کہاں؟ ارمان نے پوچھا۔۔۔۔
چلو تو پتہ چل جائے گا اور یقینا تمہیں اچھا بھی لگے گا وہاں۔۔۔
اچھا واقعی؟؟چلو پھر چلتے ہیں
ہاں چلو۔۔۔ یہ کہہ کر ارمان شعیب کے ساتھ چل پڑا اور وہاں سے اسکی گاڑی میں بیٹھ کر وہ اس جگہ آگیا جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا وہ ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا شعیب نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا پریشان نہ ہو آؤ میرے ساتھ
ارمان اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا اک گھر تھا وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اوپر کی طرف جاتی سیڑھیوں پہ وہ اسکے پیچھے پیچھے چڑھنے لگا۔۔ دائیں طرف اک دروازہ تھا وہ اسکو کھول کر اندر داخل ہوا وہاں سامنے اک تخت پہ اک میک اپ سے اٹے چہرے کے ساتھ منہ میں پان چباتی ہوئی اک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ شعیب اسکے سامنے گیا اور جھک کے اسکو آداب کیا اسنے بھی ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور ارمان کو دیکھ کر نظروں ہی نظروں میں پوچھنے لگی کہ یہ کون ہے شعیب نے ارمان کا تعارف کروایا اور کہا میں لایا ہوں کہ اسکا دل بہل جائے اس عورت نے مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ جاؤ۔۔۔۔
وہ دونوں آگے بڑھ گئے کافی بڑا سا لاؤنج تھا گاؤ تکیے رکھے تھے اور سامنے اک اسٹیج تھا وہ دونوں اسٹیج سے تھوڑی دور بیٹھ گئے ارمان ادھر ادھر دیکھ رہا تھا شعیب نے کہا ابھی کچھ دیر بعد دیکھنا بس۔۔۔۔ ارمان نے گردن ہلادی۔۔۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں کئی اور مرد آچکے تھے۔۔ تھوڑی دیر اور گزری تو وہاں اسٹیج پہ ڈھول کی تھاپ بجنے لگی اور اک عورت آئی اور اپنا رقص دکھانے لگی ارمان غور سے دیکھنے لگا اس کے بعد دو اور عورتیں آئیں اور اپنا جوہر دکھانے لگیں وہاں بیٹھے مردوں نے ان پہ پیسے نچھاور کیے اور شراب پیتے ہوئے انکے رقص کو دیکھتے دیکھتے جھومنے لگے۔۔۔ چند گھنٹوں بعد وہ محفل ختم ہوگئی وہاں آئے ہوئے سارے مردوں میں سے چند ہی تھے جو چلے گئے اور کافی تعداد میں وہیں رک گئے اور ان میں صرف مرد ہی شامل نہیں تھے وہاں آنے والوں میں جوان لڑکوں کی تعداد بھی تھی جو اپنی جوانی کو ان عیاشیوں میں صرف کرنے میں مصروف تھے۔۔۔۔۔محفل ختم ہونے کے بعد وہ دونوں وہاں سے اٹھ گئے چلتے چلتے شعیب نے پوچھا کہ کیسا لگا یہاں آکر؟؟؟ ارمان نے کہا بس ٹھیک لگا۔۔ شعیب کو حیرانی ہوئی پھر کہنے لگا کہ آتے رہو گے تو اچھا لگنے لگے لگا
اس دن کے بعد شعیب نے اس سے کہا چلنے کا تو اس نے انکار کردیا۔۔۔۔
شعیب جس فیملی سے تعلق رکھتا تھا وہاں یہ سب عام بات تھی مگر ارمان نے نا کبھی یہ سب دیکھا نا وہ ایسی جگہوں پہ جانے کا شوق رکھتا تھا شعیب کے ساتھ جانے کا یہ اسکا پہلا اتفاق تھا۔۔۔ شعیب تو ہفتے میں پانچ دن ضرور جاتا تھا اور ارمان کو بھی زبردستی لے جاتا تھا ارمان نا چاہتے ہوئے بھی اسکے ساتھ جانے پہ مجبور ہوجاتا تھا اسی طرح اک سال گزرگیا اور دوسرے سال وہاں روبی آئی اور اس دن ارمان شعیب کے ساتھ بےدلی سے چلا آیا تھا مگر وہاں آنے کے بعد جب اس نے روبی کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا رقص ختم ہوگیا محفل تھم گئی مگر وہ وہیں کھویا رہ گیا شعیب نے اسکا بازو ہلا کر اسکو چلنے کو کہا تو وہ اسکے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور چلاگیا۔۔۔ مگر اب اس روز کے بعد وہ شعیب سے روز چلنے کا کہتا شعیب نا آتا تو وہ خود چلا جاتا۔۔۔۔۔ دو سالوں سے وہ روز آتا اور روبی کو دیکھتا روبی کی وجہ سے وہاں آنے والوں کی تعداد بھی بڑھ گئی تھی وہ تھی ہی ایسی جو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔۔۔۔۔۔
معمول کے مطابق روشانے اپنا پڑھنے بیٹھی ہوئی تھی سعد کو وہ پہلے ہی پڑھا چکی تھی۔۔۔ پاس ہی اسکا موبائل رکھا ہوا تھا کہ اس پہ میسج کی بپ بجی وہ پڑھتے پڑھتے متوجہ ہوئی پھر خود سے کہنے لگی اک تو یہ موبائل کمپنی والے بھی نا۔۔۔۔ اک اور بپ بجی اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا دو میسجز وہ بھی اک انجان نمبر سے۔۔۔۔ اس نے دونوں میسج کھولے اک تھا
ہائے روشانے۔۔۔
کال ریسیو کرو بات کرنی ہے۔۔۔
روشانے سوچ میں پڑگئی یہ کس کا نمبر ہے؟؟؟؟ اسکے موبائل میں چند ہی لوگوں کے نمبر تھے جن میں اسکی دو تین دوستیں، اسکے بابا اور کزنز بس پھر یہ کس کا نمبر ہے۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کسی دوست کا ہی ہو اور اس نے نمبر چینج کرلیا ہو۔۔۔ ابھی وہ کہ سوچ ہی رہی تھی کہ کال آنے لگی ۔۔ اس نے ریسیو کی تو آگے سے اک انجان اجنبی کی آواز تھی۔۔۔
ھائے روشانے کیسی ہو؟؟
جی آپ کون؟؟
اررے جان لیں گی ہمیں بھی پہلے حال تو بتائیے اپنا۔۔۔۔۔
آپ ہیں کون اور میرا نام اور نمبر کیسے معلوم ہوا؟؟؟؟
جس کی چاہ ہو اسکے بارے میں سب معلوم ہو ہی جاتا ہے محترمہ۔۔۔۔
کک۔۔۔ کیا مطلب؟؟؟
جی جی بلکل۔۔۔
روشانے میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ پلیز انکار نہیں کرنا۔۔۔۔
کک۔۔۔ کیاااا۔۔۔۔ شش۔۔۔ شادی۔۔۔۔
آپ ہیں کون پلیز مجھے تنگ مت کریں۔۔۔بائےے
فون بند کرنے کے بعد روشانے کا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا وہ پریشانی کے عالم میں کھڑی ہوگئی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔۔۔۔
یہ کون ہے؟؟ اور مجھے کیسے جانتا ہے۔۔۔ نام بھی اف۔۔۔ اور شادی کی بات۔۔۔ افف میں کیا کروں۔۔۔؟؟
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ فون دوبارہ بجنے لگا۔۔۔۔
وہ ڈر گئی اس نے کال کاٹ دی فون پھر بجنے لگا۔۔۔ اس نے پھر کاٹ دی۔۔۔ وہ فون سوئچ آف کرنے ہی لگی تھی کہ میسج آیا۔۔۔
فون کاٹ کے اچھا نہیں کیا تمہیں میری بات سننی ہوگی۔۔۔۔
اس نے موبائل آف کردیا مگر خیال آیا کہ بابا دکان سے آنے سے پہلے اسکو کال کرتے ہیں فون بند کرنے پہ وہ پریشان ہوجائیں گے۔۔۔ کیا کہوں گی ان سے۔۔۔ چارج اینڈ ہوگئی تھی۔؟ مگر صبح ہی تو چارج کیا ہے۔۔
نہیں مجھے اس سےبات کرنی چاہیے یہ ہوتا کون ہے مجھے دھمکی دینے والا۔۔ اس نے موبائل آن کرلیا۔۔۔ چند منٹ بعد کال آنے لگی۔۔۔ غالبا وہ مسلسل کوششوں میں لگاہوا ہوگا جبھی موبائل آن کرنے کے چندمنٹ بعد کال آنے لگی۔۔۔۔
اس نے ریسیو کی اور کہا۔۔۔۔
دیکھیے مسٹر آپ جو بھی کوئی ہیں مجھے اس سے کوئی لینادینا نہیں آپ مجھے تنگ مت کریں بس اتنا بتادیں کہ مجھے کیسے جانتے ہیں؟؟؟؟
اہااااا۔۔۔۔۔۔ تم اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت ہو ویسے۔۔۔
روز دیکھتا ہوں تمہیں۔۔۔۔
کیا۔۔؟ کہاں دیکھتے ہیں روز؟
تمہارے کالج کے باہر روز آتا ہوں مگر تم تو نظریں اٹھا کر دیکھتی بھی نہیں ہو بس چلتی جاتی ہو اور ساتھ میرا دل بھی۔۔۔
شٹ اپ!!! جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔!!!!
بہت ہوگئی آپکی بکواس بند کرو یہ سب اور اگر اب مجھے تنگ کیا نا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔
اووووہ اچھا کیا کرلو گی؟ اتنی نازک سی تو ہو تم۔۔۔ اپنے باپ کو بتاؤ گی۔۔؟؟ بتادو کیا کرلے گا وہ میرا؟؟ ہاہا کچھ بھی نہیں۔۔
اوکے کل ملتا ہوں تمہارے کالج کے باہر۔۔۔۔ ویسے میں اپنے پیرنٹس کو بھیجوں گا کل ہمارے رشتے کی بات کرنے چلو اب تم تیاری کرلو کل کی اچھا سا استقبال کرنا ہے تم نے انکا اوکے بائے۔۔۔۔
کال ختم ہوگئی۔۔ روشانے ہاتھ میں موبائل لیے سوچتی رہی یہ کیا کہہ گیا ہے۔۔۔
وہ بہت پریشان ہورہی تھی اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں بابا کو بتاؤں لیکن اگر انہوں نے میرا کالج جانا بند کردیا تو کیا ہوگا میری پڑھائی؟؟ نہیں میں اس،سے خود بات کروں گی اسکو بتاؤں گی کہ میرا رشتہ طے ہوچکا ہے۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے
یہ سوچ کر وہ مطمئن ہوگئی۔۔۔۔
اگلے روز جب وہ کالج پہنچی تو پتہ چلا آج اسکی دونوں دوستیں نہیں آئیں۔۔۔۔ اسکو یہ سوچ کر تھوڑا خوف محسوس ہوا کہ واپسی میں وہ اکیلی ہوگی۔۔۔
کالج سے واپسی کے وقت وہ اکیلی تھی وہ جلدی سے گیٹ سے باہر نکلی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چل پڑی دل تھا کہ تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ تھوڑا آگے گئی تھی کہ اک گاڑی اس کے پاس آکر رک گئی۔۔۔۔ اس میں سے اک لڑکا باہر نکلا۔۔۔ روشانے ڈر کے پیچھے ہوئی۔۔۔۔ اس لڑکے نے روشانے سے کہا
بیٹھو گاڑی میں۔۔۔
مم۔۔۔ مگر تم کون ہو؟؟؟
پیچھے گاڑی میں سے اک اسلح سے لیس آدمی نکلا بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔۔۔روشانے کو اس سے خوف آنے لگا ادھر آس پاس آنے جانے والوں کی تعداد بھی کم تھی۔۔۔
اس لڑکے نے کہا میں شاہ میر ہوں کل تمہیں فون کیا تھا۔۔۔ بیٹھو گاڑی میں۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ باحفاظت تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا۔۔۔
روشانے نے کہا۔۔۔ پلیز مجھے جانے دو
گاڑی میں بیٹھو۔۔۔ اب کے وہ زرا غصے میں بولا۔۔
روشانے ڈر کے بیٹھ گئی اس نے گاڑی کا دروازہ لاک کیا اور دور اک جگہ گاڑی روک دی۔۔۔
تت۔۔۔ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟؟؟
بس تم سے اتنا کہنے کہ آج میرے پیرنٹس آئیں گے تمہارے گھر رشتہ لیکر اور جواب مجھے ہاں میں ہی چاہیے۔۔۔
مگر میں تم سے شادی نہیں کرسکتی۔۔۔میرا رشتہ
شششش۔۔۔ جانتا ہوں تمہارا رشتہ تمہارے کزن سے طے ہوچکا ہے۔۔۔۔
روشانے ہکا بکا اسکو دیکھنے لگی۔۔۔
مگر میں وہاں نہیں ہونے دوں گا سنا تم نے۔۔۔
وہ گاڑی چلانے لگا روشانے نے کہا
پلیز ایسا مت کرو میرے بابا بہت عزت دار انسان ہیں انکی عزت خراب نا کرو پلیز۔۔۔
وہ چپ چاپ گاڑی چلاتا رہا اور روشانے کو اس کے گھر کے پاس اتار دیا۔۔۔۔
وہ گاڑی سے اتری تو وہ کہنے لگا۔۔
یاد رکھنا آج شام۔۔۔۔
اتنا کہہ کر اسنے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور گاڑی بھگا کر لے گیا۔۔۔۔
سب روشانے کی سوچ کے برعکس ہوا تھا
وہ بھاگتی ہوئی گھر پہنچی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی۔۔۔
نفیسہ بیگم جو اسکا انتظار کررہی تھیں جلدی سے دروازہ کھولنے آئیں اور دروزہ کھولتے ہی اس سے پوچھنے ہی والی تھیں کہ وہ روتی ہوئی بھاگ کے اندر چلی گئی نفیسہ بیگم کچھ پریشان سی ہوگئیں اس کو دیکھ کر وہ اس کے پاس آئیں وہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹھی ہوئی تھی نفیسہ بیگم اسکے پاس آئیں اور پوچھنے لگیں کیا ہوا روشانے۔۔۔؟؟ وہ انکے ساتھ لگ کے رونے لگی۔۔۔
روشانے بتاؤ کیا ہوا بیٹا؟؟؟ رو کیوں رہی ہو؟؟؟
بیٹا بتاؤ،میرا دل ہول رہا ہے کیوں رو رہی ہو؟؟
ام۔۔ امی۔۔۔ وہ۔۔ وہ ۔۔۔
کون وہ؟؟ بتاؤ بھی کیا ہوا ہے؟؟
امی وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے؟؟
کووون کس کی بات کررہی ہو؟؟
امی پپ پتہ نہیں۔۔
وہ روئے جارہی تھی۔۔۔
نفیسہ بیگم اسکے لیے پانی لینے جانے لگیں تو اس نے ان کو پکڑلیا
امی پلیز یہیں رہیں مت جائیں۔۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے نہیں جاتی مگر تم مجھے بتاؤ تو کیا ہوا ہے۔۔۔۔
امی وہ کل مجھے فون آیا تھا میں نے اسکو سمجھانے کی بہت کوشش کی پتہ نہیں اسکو میرا نام کیسے معلوم ہوا مگر مجھے اب بہت ڈر لگ رہا ہے امی وہ کہہ رہا تھا مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے آپ بابا کو بلائیں پلیز
اچھا میں سرمد آغا کو فون کرتی ہوں۔۔۔
انہوں نے اسکے موبائل سے سرمد آغا کو کال کی اور ان سےفورا آنے کے لیے کہا
فورا آنے کا سن کر وہ پریشان ہوگئے
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...