“حیا پھر کیا سوچا تم نے”رانیہ نے حیا کا میک اپ کرتے ہوۓ کہا
“کس بارے میں”
” شہریار کے بارے میں، میرا مطلب انکل آنٹی کو کب بتاؤ گی شہریار کے بارے میں”
” پہلے شہریار رشتہ تو لے کر آجاۓ، پھر ماما بابا کو بتاؤ گی”
ہممم، پھر تم اس کو بولو نہ کہ وہ جلدی اپنی مام ڈیڈ سے تمھارے بارے میں بات کرے”
” نہیں مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، کیونکہ اس نے خود ہی بول دیا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے والدین کو میرے گھر بھیجے گا”
یہ تو بہت اچھی بات ہے، اچھا یہ بتاؤ کہ تم اسے جواب کب دے رہی ہو”
” یار ابھی فلحال تو میں اسے اس بارے میں کچھ نہیں کہنے والی، اب اچھا تھوڑا ہی لگتا ہے ایک دم جواب دیتے ہوۓ”
” چلو اچھا ہے ، میں نے تمھیں تیار کر لیا ہے ، اب میں تیار ہوتی ہوں، اور جب تک میں تیار ہوتی ہوں تم میرا ویٹ کرنا، خبردار جو میرے بغیر کوئی بھی سلیفی لی”رانیہ نے حیا کو انگلی دیکھاتے ہوۓ کہا
” جو حکم ملکہ عالیہ کا”
حیا گھٹنوں تک آتی گہرے بلیو رنگ کی فراک اور گولڈن کلر کے چوڑی دار پاجامے میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ڈوپٹہ اس نے گولڈن کلر کا رکھا ہوا تھا جس کی دونوں سائیڈوں کے کونے پر بلیو رنگ کے موتی لگے ہوۓ تھے۔جبکہ فراک میں گولڈن کلر کے موتی لگ ہوۓ تھے۔گولڈن کلر کی کڑائی نے بلیو رنگ کی فراک کو کافی نفیس بنا دیا تھا۔اس نے بال سٹریٹنر کی مد سے سٹریٹ کیے ہوۓ تھے۔بالوں کو اس نے آبشار کی مانند کھلا چھوڑا ہوا تھا۔میک آپ کے نام پر آج اس نے معمول کے خلاف ریڈ کلر کی لپسٹک لگائی ہوئی تھی اور ہلکا سا کاجل اور مسکارا لگایا ہوا تھا۔بھیس کے نام پر اس نے ہلکی سی کریم لگائی ہوئی تھی کیونکہ ایک تو اسے بھیس لگانا پسند نہیں تھا اور اوپر سے اسے لگانی کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
دس منٹ بعد ، رانیہ بھی تیار ہوچکی تھی۔اس نے کمر تک آتی ریڈ کلر کی شرٹ پہن رکھی ہوئی تھی۔جس پر ریڈ کلر کی کڑائی کی ہوئی تھی۔اور ساتھ میں اس نے ریڈ کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن کلر کی کڑائی کی ہوئی تھی۔ڈوپٹہ اس کا بھی گولڈن کلر کا تھا۔
” یار میں اچھی تو لگ رہی ہوں نہ، مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ میرا میک اپ بہت ہیوی لگ رہا ہے”
” کیوں نہ لگے میڈم، آپ نے تھوپا ہی اتنا ہے، حلانکہ میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا ، تھوڑا کم لگاؤ، ہمارے چاچو کی شادی نہیں، مگر آپ اس وقت تھوپنے میں مصروف تھی”
” یار سچ بتاؤ، اچھی نہیں لگ رہی ، میں ابھی جاکر منہ دھو کر آتی ہوں” رانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
” او ، نہیں یار، میں تو بس تمھیں چھیڑ رہی تھی ، بہت اچھی لگ رہی ہو تم” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” کیا سچ میں ، یہ تو بہت اچھی بات ہے ، ہم ڈھیر ساری پیکچرز بنائیں گے”
” ہمممم اوکے، میں موبائل چارج کر لوں پھر چلتے ہیں ہم”
” کیا مطلب چلتے پیں، کیا فاطمہ اور سالار ہمیں لینے نہیں آئینگے”
” نہیں، یار ہم خود جائیں گے، اب اچھا تھوڑے ہی لگتا ہے ، کسی کو روز روز تھوڑے تکلیف دینا”
” ہمممم ، اچھا پھر میری گاڑی میں جائیں گے، میں واپسی پر تمھیں ، تمھارے گھر ڈراپ کر دوں گی”
” ہاں ٹھیک ہے”
_____________________
” گڑیا ، آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئی، کیا حیا اور رانیہ کو لینے نہیں جانا”
“نہیں بھائی، وہ آج اپنی گاڑی میں آئیں گے”
“تمھیں کس نے کہا ہے”
” بھائی مجھے حیا نے کال کی تھی تھوڑی دیر پہلے کہ وہ آج اپنی گاڑی میں آئیں گے”
“اس ٹائم وہ اکیلی آئیں گے، اچھا تو نہیں لگتا، تمھیں انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ہم انہیں خود لینے آئیں گے”
” بھائی میں نے کہا تھا مگر وہ نہیں مانی”
“یار رات کو بارہ بجے تک فنکشن ختم ہوگا، پھر وہ اکیلے کیسے جائیں گی، آپ انہیں میسچ کر کے بولو کہ ہم انہیں لینے آرہے ہیں”
” اوکے بھائی میں کہتی ہوں”
اس کے میسچ کرنے کی دیر تھی کہ حیا کا فورن ہی جواب آگیا
” بھائی حیا کا میسچ آیا ہے کہ وہ گھر سے نکل چکے ہیں”
” او اچھا، چلو واپسی پر میں خود انہیں چھوڑ دوں گا”
_____________________
جیسے ہی رانیہ اور حیا کمرے سے باہر نکلے ، انہیں لاؤنچ میں آسیہ بیگم اکیلی بیٹھی ہوئی نظر آئیں۔شاید سیلم صاحب کہی گے ہوئے تھے۔رانیہ اور حیا سیڑھیاں اترتے ہوۓ ان کے پاس چلے گے۔رانیہ اور حیا کو اپنی طرف آتا دیکھ کر آسیہ بیگم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تصویریں چھپا لی۔
” ہیلو ، مائی سویٹ آنٹی ، کیا سوچ رہی ہیں آپ ، سلیم انکل کہا ہے نظر نہیں آرہے”
” وہ اپنے دوست سے ملنے گے ہیں، ویسے آج تو میری بچیاں ماشااللہ سے بہت پیاری لگ رہی ہیں” آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” شکریہ آنٹی، ویسے آپ بھی ہمارے ساتھ چلتی تو زیادہ مزا آتا”
” نہیں بیٹا، نیکسٹ ٹائم جاؤں گی کبھی آپ کے ساتھ باہر ، آج بزی ہوں تھوڑا سا”
” ہممم ضرور، ہمیں بہت مزا آۓ گا آپ کے ساتھ”
” اوکے ماما ہم اب چلتے ہیں”
” اوکے بیٹا، اللہ حافظ، خیر سے آنا، خیر سے جانا”
حیا اور رانیہ ان سے ملنے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر اپنے منزل کی طرف روانہ ہوگے۔جبکہ آسیہ بیگم ایک بار پھر ان تصویروں میں کھو گئی
____________________
” فاطمہ تم کال کرو حیا کو ، ایک گھنٹہ ہوگیا ہے ان کو گھر سے نکلے ہوۓ،مگر ابھی تک نہیں پہنچی”
” بھائی وہ راستے میں ہونگے، آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں”
” کیوں پریشان نہ ہو میں، حیا تمہاری ہونے والی بھابی ہے ، اس کی فکر کرنا میرا فرض ہے”
” ہاں یہ تو ہے” فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
کون بھابی” کمرے میں آتی عالیہ بیگ نے کہا
” ککک۔۔کچھھھ۔نہیں امی وہ بس ہم مذاق کر رہے تھے”
“اچھا تو تم لوگ اتنے بڑے ہوگے ہو کہ مجھ سے باتیں چھپانے لگ گے ہو، جو بھی ہے سچ سچ بتاؤ”
” وہ امی بھائی کو حیا پسند ہے”
نہیں امی ایسا کچھ نہیں ہے ، یہ جھوٹ بول رہی ہے” سالار نے غصے سے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ سالار تم حیا کو پسند کرتے ہو ، ورنہ وہ ماں ہی کیا جو اپنے بچوں کی آنکھیں نہ پڑھ سکے، ویسے ایک بات ہے، حیا مجھے بھی بہت پسند ہے، میں نے اسے دیکھتے ساتھ ہی یہ سوچ لیا تھا کہ سالار کی بیوی یہی بنیں گی، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم بھی اسے پسند کرتے ہو، کیا وہ بھی تمھیں پسند کرتی ہے”
” نہیں امی میرے ایسے نصیب کہاں”
” چلو کچھ نہیں ہوتا، شادی کے بعد محبت ہو ہی جاتی ہے اور ویسے بھی میرا بیٹا ہے ہی اتنا پیارا کہ کسی کو بھی پسند آجاۓ”
ابھی وہ بات ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ انھیں کھڑکی سے حیا اور رانیہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہوۓ دیکھائی دیتی ہیں۔
_____________________
” تم رو رہی ہو رضیہ، کیا مجھ سے کوئی حق تلفی ہوئی ہے” سلیم صاحب نے بیڈ پر بیٹھی آسیہ بیگم سے کہا جو تصویروں کو دیکھتے ہوۓ رو رہی تھی۔
آج کافی عرصے بعد سلیم صاحب نے انھیں ان کے اصلی نام سے پکارا تھا۔
” نہیں ،سلیم ایسی کوئی بات نہیں ،آپ کا ساتھ میرے لیے فخر ہے، وہ آج سٹور کی صفائی کرتے ہوے میرے گھروالوں کی تصوریں ملی۔ان کو دیکھ کر مجھے ان لوگوں کی یاد آ گئی۔ آپ کو پتا ہے جب سالار پیدا ہوا تھا تب میں نے عالیہ بھابی کو کہ دیا تھا کہ اگر مجھے شادی کے بعد بیٹی ہوئی تو میں اس کی شادی سالار سے کرواؤں گی۔پر مجھے کیا پتا تھا کہ قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا”
” تم پریشان ہو ، ہم ایک بار پھر ان سے معافی مانگنے جائیں گے”
” پر ہم کیسے جائیں گے ، وہ لوگ تو لاہور چھوڑ کر جا چکے ہیں”
” تم فکر نہ کرو ، میں کسی سے کہ کر ان کے گھر کا پتا لگاتا ہوں”
” سچ میں آپ بہت اچھے ہیں، اس خوشی میں، میں آپ کو چائے پلاتی ہوں”
” جی ضرور”
آسیہ بیگم کمرے سے جا چکی تھی جبکہ سلیم صاحب ان کو جاتا دیکھ کر گہری سوچ میں پڑ گے
_____________________
حیا اور رانیہ کو گھر کے اندر داخل ہوتا دیکھ کر وہ لوگ کمرے سے باہر جانے لگے- مگر سالار کو وہی بیٹھا دیکھ کر فاطمہ اور عالیہ بیگم حیران ہوگے-
” کیا ہوا سالار، ان کے استقبال کے لیے جانا نہیں ہے”
” نہیں، امی آپ جائیں، میں بعد مل لوں گا، ابھی مجھے تیار ہونا ہے”
” اچھا چلوں جیسی تمہاری مرضی”
_________________________________
حیا اور رانیہ جونہی لان میں انٹر ہوئی، انہیں عالیہ بیگم اور فاطمہ اپنی طرف آتے ہوۓ دیکھائی دیے.حیا نے فاطمہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا. اس نے سر کے بالوں کو پنک کلر کے حجاب سے ڈھانپا ہوا تھا-فاطمہ نے پاؤں تک آتا ہوا پنک کلر کا لمبا سا فراک پہنا ہوا تھا جس پر سفید رنگ کے موتی لگے ہوئے تھے، اور سفید رنگ کا ٹراؤزر پہنا ہوا تھا. بلاشبہ اس نے سادہ سی ڈریسنگ کی ہوئی تھی پر پھر بھی اس کے چہرے پر ایک الگ سی ہی کشش تھی جو کہ اُس کو باقی لوگوں سے ممتاز بنا رہی تھی-
” یار یہ دیکھو، اس نے آج بھی اپنا حجاب نہیں اتارا، مجھے تو لگتا ہے کہ اپنی شادی پر بھی نہیں اتارے گی” حیا نے فاطمہ کو دیکھتے ہوۓ کہا
” مجھے بھی یہی لگتا ہے، اس کی اپنی فرسٹ کزن کی شادی ہے، اور دیکھو زرا پردہ کیسے کیا ہوا ہے، اس سے زیادہ تو ہم تیار ہوکر آۓ ہوئے ہیں” رانیہ نے بھی حیا کی ہاں میں ہاں ملائی
” اچھا خیر چھوڑو، ہمیں کیا جو مرضی کرۓ”
ابھی رانیہ حیا کو کچھ کہنے ہی والی ہوتی ہے کہ عالیہ بیگم اور فاطمہ ان کے پاس آجاتے ہیں-
” السلام علیکم” حیا اور رانیہ نے ایک ساتھ کہا
” وعلیکم السلام”
” ماشااللہ ماشااللہ ، میری بیٹیاں کتنی پیاری لگ رہی ہے”عالیہ بیگم نے ان دونوں کو گلے لگاتے ہوئے کہا
شکریہ آنٹی، پر آپ بھی کترینہ کیف سے کم نہیں لگ رہی” رانیہ نے عالیہ بیگم کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا
” وہ کون ہے بیٹا ”
” میری کزن ہے ” رانیہ نے ہنستے ہوۓ کہا
” تو بیٹا اسے بھی ساتھ لے کر آتی نہ ،اسی بہانے اس سے بھی ملاقات ہو جاتی”
حیا اور رانیہ عالیہ بیگم کی معصومیت پر حیران رہ گے- ضبط کرنے کے باوجود بھی جب ان کی ہنسی کنٹرول نہ ہوئی تو وہ ہنسے لگ گے-ایک طرف رانیہ اور حیا کی ماما تھیں جن کو ایکٹر، ایکٹریس کے نام کیا، ان کے بائیو ڈیٹا سب معلوم تھا- اور ایک یہ تھی جن کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ کترینہ کیف کون ہے.
” ہاہاہاہا سچ میں آنٹی، آپ بہت مزاحیہ ہے” رانیہ نے قہقہہ لگاتے ہوۓ کہا
اس کی بات سن کر سب ہنسنے لگے-
” سالار بھائی نظر نہیں آرہے، وہ کہاں ہیں”
” وہ تیار ہو رہا ہے، دن بھر کاموں میں مصروف رہا ہے میرا بچہ، ابھی وقت ملا ہے تیار ہونے کا”
” او اچھا”
” اچھا تم لوگ باتیں کروں، میں مہمانوں کو دیکھ لوں”
” جی آنٹی” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
ان کے جانے بعد ہی حیا سٹارٹ ہوگئی
” یار فاطمہ آج تو اپنا حجاب اتار لو، تمہاری اپنی کزن کی شادی ہے، ابھی ہم نے پیکچرز بھی بنانی ہے اور حجاب کے ساتھ اچھی پیکچرز نہیں آتی”
” یار میں نہیں اتار سکتی، میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے حجاب کرتی ہوں، اگر اپنی لیے کر رہی ہوتی تو اتار دیتی”
” لیکن آج شادی ہے نہ ، آج اتار تو دوں، ویسے بھی تمھارے اپنے گھر شادی ہے”
” حیا یہ سب لوگ میرے لیے نامحرم ہے، اور اللہ نے نامحرم سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہوا ہے”
” یار حیا چھوڑو اس پینڈو کو، ہم اپنی پیکچرز بناتے ہیں” رانیہ نے کیمرہ آن کرتے ہوۓ کہا
” ہاں چلو ”
اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسری کی پیکچرز بنانے لگی- ایک دو پیکچرز ان نے فاطمہ کے ساتھ بھی بنا لی- ابھی رانیہ حیا اور فاطمہ کی پیکچرز ہی بنا رہی ہوتی ہے کہ سالار آجاتا ہے-سالار نے وائٹ کلر کی قیمض شلوار پہنی ہوتی ہے- اور ساتھ میں ریڈ کلر کی واسکٹ پہنی ہوتی ہے. بال اس نے جل کی مدد سے سیٹ کیے ہوتے ہیں-وہ ان سب کو ہاتھ ہلا کر اشارہ کرتا ہے-
” السلام علیکم”
” وعلیکم السلام” سلام کا جواب صرف رانیہ اور فاطمہ نے دیا
” کیا کر رہے تھے آپ لوگ” سالار نےحیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” پیکچرز بنا رہے تھے”
” اچھا پھر میری بھی بناؤ”
” ہممم کھڑے ہو جائیں آپ سب”
پھر کافی دیر تک وہ لوگ پیکچرز بناتے رہیں-پھر وہ تھک کر بیٹھ گے اور باتیں کرنے لگے-
” چلو، ایک گیم کھیلتے ہیں ” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” کونسی گیم” فاطمہ نے سوالیہ نظروں سے رانیہ کو دیکھا-
“ludo”
” ہاں چلو کھیلتے ہیں، یہ میری فیورٹ گیم ہے، مزا آئیگا” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” کھیلنا آتا ہی نہیں تمھیں، ہر بار چیٹنگ کرتی ہو تم” رانیہ نے فخریہ انداز میں حیا کی تعریف بیان کی
” تم تو جیسے چیمپئن ہو نہ لڈو کھیلنے میں” حیا نے غصے سے کہا
” ابھی پتا چلتا ہے،. کون کتنے پانی میں ہے، آپ کے گھر ہے لڈو ہے” رانیہ نے فاطمہ سے پوچھا
” ہاں ہے، اندر پڑی ہوئی ہے، میں لے کر آتی ہوں، تب تک آپ لوگ انتظار کرو” فاطمہ نے اٹھتے ہوۓ کہا
حیا فاطمہ کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی کہ اچانک اسے شہریار کا میسچ آیا-
” کیا کر رہی ہو”
” کچھ خاص نہیں، بس شادی میں آئی ہوئی ہوں”
” بور تو نہیں ہورہی”
” ہاں کچھ کچھ ”
” اچھا چلو ہم پھر بات کر لیتے ہیں”
” ہممم کیوں نہیں ”
ابھی حیا شہریار کے ہی میسچ کا ویٹ کر رہی ہوتی ہے کہ فاطمہ لڈو لے کر آجاتی ہے”
” چلو اب سب مل کر کھیلتے ہیں”
” ہاں چلو” رانیہ نے انتہائی اونچی آواز میں بولا کہ ساتھ بیٹھی موبائل میں کھوئی ہوئی حیا بھی ایک جھٹکے سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی-
کھیل کے دوران سب نے نوٹ کیا کہ حیا کھیل کم رہی ہے اور موبائل زیادہ استعمال کر رہی ہے-
” تم پہلے موبائل استعمال کر لو، ہم بعد میں کھیل لیں گے” رانیہ نے غصے سے کہا
” اچھا اب نہیں کرتی استعمال” حیا نے موبائل بیگ میں ڈالتے ہوۓ کہا
“حیا تم چیٹنگ کر رہی ہو” رانیہ نے غصے سے کہا
” میں نے کب کی ہے چیٹنگ” حیا نے بھی اسی لہجے میں کہا
” یہ چیٹنگ نہیں ہے تو کیا ہے” رانیہ نے اسے غصے سے دیکھا
” مجھے نہیں کھیلنا، تم لوگ ہی کھیلو”
” حیا آپ ناراض کیوں ہو رہی ہے، آپ چیٹنگ کر رہی تھی اور رانیہ نے آپ کو ٹوکا، اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے” فاطمہ نے کہا
” یار بس مجھے نہیں کھیلنا”
” ہاں تمہیں تو موبائل استعمال کرنا ہے” رانیہ نے غصے سے کہا
” تم سے مطلب” حیا نے کرسی سے اٹھتے ہوۓ کہا
حیا کو اٹھتا دیکھ کر فاطمہ بوکھلا گئی-
” آپ کدھر جار رہی ہیں، ادھر بیٹھے، اچھا ہم بھی نہیں کھیلتے ” فاطمہ نے حیا کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا
” آپ لوگ سکون سے لڑیں، مجھے کھانے کا انتظام دیکھنا ہے” سالار نے اٹھتے ہوئے کہا
” تو کس نے کہا ہے آپ کو ادھر بیٹھنے کا، جاکر اپنا کام کریں” حیا نے سالار کی طرف دیکھ بغیر کہا
حیا کی بات سن کر فاطمہ اور رانیہ حیران رہ گے- جبکہ سالار اداس ہو گیا-اسے غصہ تو بہت آیا-مگر اس نے حیا کو کچھ نہ کہا اور چپ کر کے وہاں سے چلا گیا
” یار تمھیں سالار سے بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی” رانیہ نے کہا
” تمھاری ہی وجہ سے کی ہے”
” کککک کیا میں نے کیا کیا ہے؟” رانیہ نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا
” تم نے کیا کیا – – – – – تم نے مجھے چیٹر کہا جس کی وجہ سے مجھے غصہ آیا اور میں نے سالار سے بدتمیزی کی”
وہ حیا ہی کیا جو اپنی غلطی مان لے
” اچھا چھوڑیں نہ، آپ دونوں کیوں لڑ رہے ہیں، آئیں چل کر کھانا کھاتے ہیں، کھانا لگ گیا ہے”فاطمہ نے اٹھتے ہوئے کہا
” ہمممم چلو” رانیہ ہے کہا
آج کھانے میں چکن کا سالن، پلاؤ، اور گوشت کی یخنی تھی- چونکہ رانیہ اور حیا کو گوشت نہیں پسند تھا تو ان دونوں نے اپنے لیے صرف چکن کا سالن اور پلاؤ ڈالا- حیا کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ اِدھر اُدھر بھی دیکھ رہی تھی- اس نے دیکھا کہ کچھ آنٹیاں ایک دوسروں کو دھکے دے کر کھانا ڈالنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی- آنٹیاں تو آنٹیاں بچے بھی کھانے میں کسی سے کم نہیں تھے. بچوں نے تو جیسے کھانے میں ریس لگائی ہوئی تھی کہ کون زیادہ کھاۓ گا- ان بچوں کو دیکھ کر حیا کو اپنا بچپن یاد آگیا کہ وہ ان کی عمر میں کھانے میں کتنی چوزی تھی اور ایک یہ بچے- وہ یہ سوچ کر ہنسنے لگ گئی-
پندرہ منٹ بعد وہ کھانا کھا چکے تھے-
” اب ہم چلتے ہیں، ہم لیٹ ہو گے ہیں” رانیہ نے گھڑی دیکھتے ہوۓ کہا جس میں اس وقت گیارہ بج جکے تھے-
” ایک منٹ رکوں، بیٹا میں سالار کو کہتی ہوں کہ وہ آپ کو چھوڑ کر آئیگا”
” نہیں آنٹی ہماری پاس گاڑی ہے، ہم خود چلیں جائیں گے”
” اس ٹائم اکیلے جانا مناسب نہیں ہے، آپ اپنی گاڑی یہی چھوڑ دوں، صبح سالار آپ کے گھر چھوڑ دے گا، ابھی آپ سالار کی گاڑی میں چلے جاؤ”
” نہیں شکریہ آنٹی، ہم چلے جائیں گے” حیا نے جلدی سے کہا
” اوکے پھر بچوں، جیسی آپ کی مرضی”
” اوکے آنٹی، اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ، آپ دونوں پھر آئیں گا”
” جی ضرور” رانیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا
حیا اور رانیہ فاطمہ اور عالیہ بیگم سے مل کر گھر سے باہر آگے اور گاڑی میں بیٹھ گے- کچھ ہی دیر بعد گاڑی ہواؤں سے باتیں کرنے لگ گئی- بیس منٹ بعد گاڑی حیا کے گھر کے سامنے تھی-
” اوکے یار اللہ حافظ” حیا نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوۓ کہا
” تم ناراض ہو”
“او، نہیں یار، پاگل میں تم سے ناراض ہو سکتی ہوں” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہونا بھی نہ کبھی ناراض، اگر ہوئی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں” رانیہ نے حیا کو انگلی دیکھاتے ہوئے کہا
” اور کچھ کہنا ہے،. یا میں جاؤں”
” دفعہ ہو جاؤ” رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
” بغیرت”
حیا اس کو بغیرت کہ کر فوراً ہی گھر کے اندر چلی گئی- کیونکہ اسے پتا تھا کہ اگر وا ایک منٹ بھی یہاں رکی تو اسے بھی” کچھ اچھا ” سننے کو ملتا-
” آگئی ہماری بیٹی” سلیم صاحب نے حیا کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر کہا
” جی بابا جانی”
” ماما سو گئی ہیں”
” ہاں بیٹا، آپ کی ماما تو دس بجے ہی سوگئی تھی”
” اوکے بابا میں بھی چلتی ہوں”
” اوکے اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
یہ کہنے کے بعد حیا کمرے سے باہر چلی گئی اور سلیم صاحب نے بھی لیپ آف کر دیا- اور لیٹ گے- اور لیٹتے ساتھ ہی بیس سال پہلے کا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے آنے لگ گیا- بیس سال سے ان کو سکون کی نیند نہیں آئی تھی- ایک بہن کو اسکے بھائیوں سے الگ کرکے ان کا دل بےچین ہوگیا تھا- انھیں پتا ہے کہ آسیہ بیگم کو ان سے کوئی شکایت نہیں مگر پھر بھی وہ جانتے تھے کہ آج بھی آسیہ بیگم اپنے گھر والوں کو یاد کرتی ہیں-
بیس سال پہلے:
” اٹھو جاؤ رضی، کیا یونیورسٹی نہیں جانا”
” بس بھابی تھوڑی دیر اور” رضیہ نے کمبل منہ پر رکھتے ہوۓ کہا
” گڑیا آٹھ بھی جاؤ اب، نیچے سعدیہ بھابی نے بھی تمھارے لیے تمھارا فیورٹ ناشتہ بنایا ہے”
” کیا سچ میں، اچھا پھر میں جلدی تیار ہو کر آتی ہوں، مگر یونی آج نہیں جاؤ گی” رضیہ نے کمبل منہ سے ہٹاتے ہوۓ کہا
” کیوں نہیں جاؤ گی، گڑیا دیکھو اچھے بچے ضد نہیں کرتے”
” اففف بھابی میں کوئی بچی تھوڑی ہی ہوں، آپ سے کوئی تین چار سال ہی چھوٹی ہوں بس” رضیہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا
” میرے لیے تم ہمیشہ بچی ہی رہوں گی، اب اٹھو چلو چندا پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے”
” اچھا آپ جائیں، میں آتی ہوں”
” اچھا جارہی ہوں میں، پھر سو نہ جانا”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...