اور آخر ایک دن وہ مجھے
اپنے گھر کے اس بند کمرے میں لے گیا
جو آج تک بند تھا۔۔۔اور بولا!
یہ جو چاروں جانب بے شمار اشیا۔۔۔جابجا بکھری پڑی ہیں نا
یہ ساری اشیا میں نے۔۔۔بہت چاہت اور لگاؤ سے لی تھیں
لیکن اب آؤٹ ڈیٹڈ ہوگئی ہیں
یہ ریڈیو، کتابیں، گھڑیاں، شو پیس
کفلنک،سوٹ، فون سیل، ٹی وی
ان کے کئی بار استعمال سے میں بور ہوگیا ہوں
میں نے بے خیالی میں پوچھا۔۔۔تو یہ ڈھیر کیوں جمع کررکھا ہے
کسی ضرورت مند کو دے دو۔۔۔یا کباڑ میں دے دو
وہ بولا،نہیں۔۔۔کبھی کبھی ان اشیا میں سے بھی
کسی کسی کی ضرورت پڑجاتی ہے
تب میں اس کمرے کا رخ کرتا ہوں
یہ کمرہ ان ہی چیزوں کے لیے بنوایا ہوا ہے
آج میں بھی ایک “آوٹ ڈیٹڈ شے”کی طرح
اس کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی سوچ رہی ہوں
جانے کب اس کو میری ضرورت پڑجائے
میں اپنی اس خوش فہمی کے سہارے زندہ ہوں
وہ اب کسی اور سے فیس بک پہ محوِ گفتگو ہے
اس کی خوشی بتارہی ہے۔۔۔نئے ماڈل کی کوئی اور شے
اس گھر کی زینت ہونے آرہی ہے
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...