(Last Updated On: )
احمد عطاءؔ اللہ عصر حاضر کے ان کے غزل گو شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ جنھوں نے بہت کم وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ عطاءؔ دراصل ایک ایسے شاعر ہیں جن کے ہاں شاعری زندگی سے عبارت ہے۔ آپ اپنی شاعری کو زندگی کہتے ہیں۔ آپ کے مطابق شعرآپ کی اولاد ہیں اور اپنی اولاد کیسی بھی ہو عزیز ہوتی ہے۔
احمد عطاءؔ اللہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے نزدیک سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے ۔ آپ ذات پات اور مذہب میں سب سے زیادہ انسانیت کے قائل ہیں ۔ آپ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
’’اگر ایک انسان بھی کہیں سسک کر دم توڑ دیتا ہے۔ تو میرے نزدیک تمام نظریات زندگی باطل ہیں۔ ہمارے اردگرد کتنے لوگ ہیں۔ جو زندہ ہیں، مکمل طور پر ،جسمانی طور پر اور روحانی طور پر تو کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔۔۔ شاید ہم میں سے کوئی اچھی گفتگو سے مسکراہٹ سے حال پوچھ کر کسی اچھے شعر سے اسے بچا سکتا ہے۔ ‘‘(۱)
احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری میں بھی جا بہ جا یہ چیز نظر آتی ہے کہ آپ عام آدمی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے اس پررنجیدہ ہوتے ہیں۔ آپ رنگ، نسل نظریے اور سرحدوں سے بالا ترسوچ رکھنے والے شاعر ہیں۔ آپ کے نزدیک کوئی بھی قوت ایسی نہیں جو انسانیت کو ایک مرکز پر جمع کر سکے لیکن ادب وہ واحدؔ طاقت ہے۔ جس کا محور و مرکز فقط انسانیت ہے۔ ادبی دنیا میں کوئی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، شیعہ یا سنی نہیں۔ ادب میں سب کا مقام یکساں ہے اور سب کا دین محبت اور مذہب ادب ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ اپنے اس سفر میں سب ادب شناسوں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔
’’آیے، رنگ، نسل ، نظریے اور سرحدوں سے بالا ہو کر ادب کی بات کریں۔ اس اندھیرے میں اگر آپ کی ذات کے چاند کی روشنی نفرت کے صحرا میں بھٹکتے کسی کے شخص کو راستہ دکھا سکی ، اسے زندگی کی طرف لٹا سکی تو یہی آتے وقتوں کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ ‘‘(۲)
احمد عطاءؔ اللہ معاشرے کو ایک ایسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جس میں درد ہے اور جس میں لوگوں کے لیے ہمدردیاں اور حوصلہ ہے۔ احمد حسین مجاہدؔ کے مطابق:
’’احمد عطاءؔ اللہ کے مسائل ہم سے مختلف نہیں لیکن وہ انھیںمختلف انداز میں سوچتا اور بیان ضرور کرتا ہے۔ ‘‘(۳)
عطاءؔ ؔ کی غزل جدید لب و لہجے کی حامل ہے ۔ آپ نے اپنی غزل میں عام اور پاما ل روش سے ہٹ کر ایک نئے ڈھنگ سے بات کہنے کی سعی کی ہے۔ لیکن آپ کی بات عام اور پامال انسان کی ہی بات ہے۔ آپ نے معاملات کو نہ صر ف اپنی نظر سے دیکھا بلکہ ان کو عام آدمی کی نظر سے بھی پرکھا ہے۔ غزل میں احمد عطاءؔ اللہ کی انفرادیت بھر پور انداز میں سامنے آئی ہے۔ آپ کا اسلوب عصر حاضر کا ایک جداگانہ اسلوب مانا جاتا ہے۔ جس میں آپ کی شناخت ایک منفر د غزل گو کے طور پر سامنے آئی ہے۔ آج کل جب ہر طرف شعرا کا جمِ غفیر نظر آتا ہے اور روز بہ روز نئے نئے مجموعے منظر عام پر آتے ہیں ایسے میں اپنی الگ پہچان بنانا نا ممکن نہیں توکٹھن ضرور ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ ہر کام کو چیلنج سمجھ کر کرنے والے انسان ہیں اس لیے آپ نے اس کام کو بھی اپنے لیے ایک معرکہ سمجھتے ہوئے تگ و دو کی اور وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ خود کو کبھی بھی معاشرے اور عام لوگوں سے الگ نہیں سمجھتے آپ ہمیشہ خود کو ایک عام شہری تصور کرتے ہیں۔ جس کا اٹھنا بیٹھنا بھی عام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس بات کا اظہار عطاءؔ ؔ بڑے خوب صورت اندازمیں یوں کرتے ہیں۔
خدا کے برگزیدہ ہیں ہمارا مرتبہ یہ ہے
ہماری صبح لوگوں میں، ہماری شام لوگوں میں
احمد عطاءؔ اللہ اپنی شاعر ی میں ہمیشہ وہ موضوع لاتے ہیں۔ جو عام آدمی کا مسئلہ ہے۔ آپ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود کبھی بھی اُس کے اثر میں نظر نہیں آتے۔ عطاؔ کی زندگی میں عام آدمی کے ساتھ وابستگی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں گائوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ عطاؔ کے نزدیک گائوں میں لوگ زندہ دل اور انسانی اقدار کی قدر کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر جو تاثر ہوتا ہے وہ ہی ان کے دل کی کیفیت ہوتی ہے کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے ساتھ بد نیتی کریں۔ عطاؔ نے گائوں کو ایک نئے انداز میں دریافت کیا ہے اور جہاں گائوں کے لوگوں کے صادق جذبے عطاءؔ کو بھاتے ہیں وہاں گائوں کے مناظر بھی آپ کے دل ودماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ نے گائوں کو خلوص ، وفا اور محبت کی علامت بنا کر قاری کے سامنے رکھا ہے۔ آپ بڑے خوب صورت انداز میں گائوں والوں کی مہمان نوازی کا تذکرہ کرتے ہیںکہ ان لوگو ں کے پاس جو کچھ میسر ہوتا ہے وہ سامنے رکھ دیتے ہیں اور ان کے ہاں کوئی دکھاوا یا بناوٹ نظر نہیں آتی ۔ مثال کے طور پر شعر دیکھیے۔
کچھ ہنسی اور ٹھنڈے پانی کا گلاس
گھر میں تھا جو کچھ میسر رکھ دیا
عطاءؔ ؔ نے گائوں کے منظر کو جس خوب صورتی سے اجاگر کیا ہے وہ ایک نیا اور انوکھا تجربہ ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد بھی ہے۔ مخلص وجدانیؔؔ احمد عطاءؔ اللہ کے اس انداز پر کہتے ہیں:
’’ہر شعر پڑھ کر نیا پن محسوس ہوتا ہے۔ کہیں بھی پہلی بات دہرائی ہوئی نہیں ملتی۔ عطاؔ کا ہر شعر قاری کو اپنا لگتا ہے اور وہ پڑھنے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ اس طرح شعر تو وہ بھی کِہ سکتا تھا لیکن یہ احمد عطاءؔ اللہ کا ہی فن ہے۔ ‘‘(۴)
آج کے دور میں چوں کہ خلوص و وفا کے قصے پرانے ہو چکے ہیں اس لیے عطاءؔ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ لوگوں میں محبت کی روایت پھر سے زندہ ہو جائے۔ آپ نے کبھی بھی اس سے روگردانی نہیں کی اور ایک فرض سمجھ کر اپنا پیغام محبت عام کرنے لگے ہوئے ہیں۔ عطاءؔ اپنے اس فرض کو جہاں تک آپ کا بس چلتا ہے خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:
جہاں آواز جاتی ہے وہاں تک فرض ہے میرا
اب اس سے آگے لے جائے ہوا، پیغام لوگوں میں
عطاءؔ کے ہاں گائوں کا موضوع ایسا جان دار ہے کہ عطاءؔ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ آپ نے اپنی شاعری میں گائوں اور گائوں سے جڑی یادیں کمال مہارت سے بیان کی ہیں ۔ فرزانہ ؔفرحؔ کے خیال میں :
’’عطاء کے شعر پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ خواب میں گائوں کی کسی بستی میں ایک گھر تلاش کر رہا ہے جہاں عطاءؔ کی والدہ کچے اور مٹی کی لپائی سے سنوارے ہوئے گھر کے کچے صحن میں بنے ہوئے تندور پر روٹیا ں لگا رہی ہیں ساتھ ہی سرسوں کا ساگ ، لسی ، پودینے کی خوشبو اور بھوک بڑھاتی ہوئی چٹنی، دھریک کی گھنی چھائوں میں چارپائی پر بیٹھے والد صاحب اور عطاءؔ ہے کہ چشمے کے ٹھنڈے پانیوں سے ٹھنڈی میٹھی یادیں دوپہرکی گرمی میں اپنی مٹھی میں لایا ہے۔ وہ چشمے پر گاگریں کھنکاتی ہوئی دو شیزائوں کے معصوم سادہ خوابوں کی کھنک سن کر آیا ہے۔ خوابوں کے سرمائے کے سارے رنگ عطاءؔ آنکھوں میں بھر لایا ہے ۔ وہ خوش ہے اپنے تخیل کی آسودگی پر ، اپنے جذبوں پر اور احساسات کی مہک سے اور سادہ ماں اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش ، جواز کیا ہے ؟ماں کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔۔۔!‘‘(۵)
عطاؔ اپنے ماں سے بھی بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مائیں اپنی اولاد سے کس قدر محبت کرتی ہیں ۔ ماں ہی کی ہستی ایسی ہستی ہے جو ہر حال میں اپنی اولاد کی خوشی چاہتی ہے۔ ماں اپنی اولاد کی خوشی کے لیے زمانے بھر کی تکالیف ہنس کر برداشت کر لیتی ہے کیوں کہ اُس کے لیے اولاد ہی سرمایہ حیات ہوتی ہے۔ اولاد کا غم والدہ کو ہر وقت پریشان رکھتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ شعور کی رو میں بہنے والے انسان ہیں آپ کا ماں کے حوالے سے یہ شعر دیکھیے:
وقت سے پہلے بوڑھی ہونے لگتی ہیں
بچوں کے دکھ مائوں میں رہ جاتے ہیں
عطاؔ کی شاعری میں شعری چاشنی ، تغزل، بے ساختگی کی فضا ، نوید بہار کی حیثیت رکھتی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں ایسی گل رنگ خوش بو ہے کہ سخن کے خیابانوں کے ساتھ ساتھ انھیں دِلوں کے ایوانوں میں بھی معتبر مانا جاتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے کلام میں انتہائی مہذب جذبے اور خیال کا بنیادی تاثر نظر آتا ہے۔ عطاءؔ ؔ خود سے آشنا ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے جذبات کو پہچانتے ہوئے اسے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ آپ کے کلام کا خاصا ہے کہ اس میں ہر بات کا اظہار عطاءؔ نے کھل کرکر دیا ہے۔ آپ کے ہاں کوئی انتہائی پیچیدہ بات بھی بڑی سلاست سے بیان کی گئی ہے۔ احمد عطااللہ معاملاتِ حسن و عشق کی صحیح ترجمانی، لطیف طنزیہ انداز کی بدولت اپنے تمام ہم عصر شعرا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ آپ کی شاعری جدید غزل کی دنیا میں ایک گلدستہ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں ہر طرح کا پھول نظر آتا ہے۔ عطاءؔ نے اپنی غزل میں تقریباً تمام موضوعات کو بیان کیا ہے۔ آپ نے اردو غزل میں اپنا ایک خاص اسلوب پیدا کر لیا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں اظہار بیان کے نئے نئے زاویے اور تازگی و فرحت کی فضا واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ کے کلام میں شیرینی و حلاوت، صفائی و روانی بندش اور صحیح غزلیہ جذبات کی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں:
چاندنی رات کا تو ذکر ہی کیا
جلتے سورج میں اس سے جا ملنا
٭٭٭
تھا مختصر پڑائو سرابوں بھرا عطاؔ
وہ آندھیاں چلیں مرے خیمے بکھر گئے
احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ ایک بڑے ادبی مرکز لاہور میں رہے اور وہاں ہی آپ کی تعلیم بھی مکمل ہوئی اور بڑے شعرا کی صحبت بھی میسر آئی۔ یہی وجہ تھی کہ احمد عطاءؔ اللہ کے کلام میں فنی پختگی اور پُرگوئی وغیرہ جیسی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ نے جو زندگی کا بڑا حصہ پنجاب میں گزارا وہ بھی آپ کی شاعری کا ہم وصف بن گیا بہ قول سعید دوشی:
’’اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ پنجاب اس کے دِل میں بستا ہے اور وہ اسی کے شعری مزاح میں رچا بسا شاعر ہے۔‘‘(۶)
احمد عطاءؔ اللہ کے کلام میں گائوں کے قصے اسی کا پیش خیمہ ہے۔ آپ نے اپنے جو ایام لاہور میں گزارے وہاں احمد ندیم ؔقاسمی جیسے ادیب کی مجلس بھی میسر رہی اور یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ آپ نے گائوں کو اپنا موضوع مسلسل بنا ڈالا۔
روز اک پیڑ سے کرتا ہوں تمھاری باتیں
جو تمھیں دیکھنے پنجاب نہیں آ سکتا
٭٭٭
گائوں کے کچے اسکولوں میں پڑھی لڑکی، سن!
شہر والوں کو ترا خواب نہیں آ سکتا
احمد عطاءؔ اللہ کے لہجے کا نیا پن اور محبت کا غیر روایتی اظہار ایک انوکھا انداز ہے۔ آپ کے کلام میں جگہ جگہ ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں جدت کا عنصر کار فرما ملتا ہے آپ کے ہاں جنسیت بھی موجود ہے لیکن آپ نے اس سے بھی غزل جیسے نازک آبگینے کو داغ دار نہیں ہونے دیا۔ احمد عطاءؔ اللہ کا خاص اسلوب جہاں بڑی سے بڑی غیر معمولی بات کو سادہ الفاظ کی لڑی میں پرو سکتا ہے وہاں آپ کی یہ بھی خوبی ہے کہ آپ بات کو عام قاری کی ذہنی سطح کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ آپ خارجیت سے زیادہ داخلیت پر محنت کرتے ہیں۔
آج کی شب تو ضرورت ہی نہیں اس آگ کی
جب پگھلتے جا رہے ذات کی حدت سے ہم
احمد عطاءؔ اللہ کی اسی خوبی کے حوالے سے ڈاکٹر افتخارؔ مغل لکھتے ہیں:
’’عطاء غزل کے خارج کے بجائے اس کے داخل پر زیادہ محنت کرتے ہیں ۔ چاہے اس کی خارجی ہیئت قدرے کھردری ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس بنا پر ان کی غزل میں بعض اوقات عروض اور اکثر اوقات ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ عطا ؔغزل میں فضا اور کیفیت کی تعمیر کو غزل کی سب سے بڑی خصوصیت سمجھتے ہیں اور اس لیے بعض عامیانہ اشعار کو ان کی (face value)کی بنا پر قبول کر لیتے ہیں۔ ‘‘(۷)
افتخارؔ مغل کیاا س رائے کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں اس طرح کے بے شمار اشعار نظر آئیں گے جن پر یہ رائے مصدقہ نظر آتی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ نے جہاں اپنے کلام میں ہجر ووصال ، یاد، عشق و محبت کے علاوہ جنس نگاری اور فطرت نگاری کے علاوہ مضامین بیان کیے وہاں ہی آپ نے دیگر کئی نئے موضوعات کو بھی جگہ دی۔
اچھی دکان کے مالک ہو مگر دھیان رہے
ضد کا آغاز خریدار بھی کر سکتا ہے
٭٭٭
رہ نہ جائے کہیں تعلیم ادھوری تیری
کم سِنی میں نہ کہیں سینا پرونا پڑ جائے
احمد عطاءؔ اللہ نے غزل کے میدان میں نئے مضامین لانے کی کوشش کی ہے اور آپ اپنی اسی کوشش میں خاصی حد تک کام یاب نظر آتے ہیں۔ عطاؔ نے گائوں سے شہر کی طرف منتقل ہونے پر جس رنج والم کا اظہار کیا ہے اور گائوں کی یاد سے باہر نکلنے پر بے بسی ظاہر کی ہے وہ آپ کی اپنی مٹی سے محبت کی واضح دلیل ہے۔
گائوں کے رستے کیسے سیدھے سادے تھے
شہر میں آکر آیا موڑ کہانی میں
احمد عطاءؔ اللہ کی تمام خوشیاں آپ کی محبت اور یاد ہی سے وابستہ ہیں آپ کے لیے شہر میں آنا ایک سانحہ سے کم نہیں۔ دیہات آپ کی زندگی میں جہاں خارجی و محبت کی علامت کے طور پر ظاہر ہو اہے وہاں دیہات میں آپ کی کئی یادیں بھی ہیں جو کہ آپ کو کبھی نہیں بھولتیں۔ دیہات سے جڑا ہر منظر آپ کے دِل و دماغ پر نقش کہن کی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔
گائوں کے ہم، اور عطاءؔ جی لوگوں پر
کھل جاتے ہیں ہنسنے سے اور رونے سے
احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری کا اگر بہ غور جائزہ لیں تو آپ کے کلام پر کئی دیگر شعرا کے رنگ کا اثر بھی نظر آتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے دور کے جدید غزل گو شعرا کے علاوہ روایت سے بھی تعلق قائم رکھا ہے۔
سلیمؔ احمد کی زمین میں یہ شعر دیکھیے:
تکیے کی جگہ رکھتا ہوں میں ماں کی دعائوں کو
اندھیری رات میں اپنے لیے بستر بناتا ہوں
’’میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں‘‘
اسی طرح سیف الدین سیفؔ کا رنگ دیکھیے:
دل کی تسکیں کا پوچھتے ہیں آپ
ہاں مری جان ہو گئی ہو گی
(سیفؔ)
پیار ہونے پہ کیسی حیرانی
عین ممکن ہے ہو گیا ہو گا
(احمدعطااللہؔ)
احمد عطاءؔ اللہ کی غزل میں وہ تمام خصو صیا ت موجود ہیں جن کی بنا پرہم کِہ سکتے کہ احمد عطاءؔ اللہ دورِ حاضر میں جدید اردو غزل کے ایک اہم شاعر ہیں جن کی شاعری سے اردو غزل کے خزانے میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔آپ کا کلام آنے وا لوں کے لیے ایسا راستہ ہے جس پر چل کر وہ اپنی منزل تک پہنچ سکیں گے۔