(Last Updated On: )
احمد عطاءؔ اللہ کی غزل کا دوسرا مجموعہ ’’ہمیشہ ‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۱ء جب کہ دوسرا یڈیشن ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں شامل غزلیات کی تعداد ۶۷ ہے۔ مجموعے کے شروع میں ایک نعت ہے۔ اس کے علاوہ ایک حضرت امام حسین کی منقبت ہے۔ ’’ہمیشہ‘‘ کا موازنہ اگر احمد عطاؔکے پہلے مجموعے ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ سے کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس مجموعے میںپہلے کی نسبت مذہبی شاعری بھی نظر آتی ہے اور اس میں غزلیات کی تعداد بھی پہلے مجموعے سے زیادہ ہیں۔ ’’ہمیشہ‘‘ کو احمد عطاءؔ اللہ نے ’’دوسری محبت کے لیے‘‘ انتساب کیا ہے۔ آپ کے خیال میں :
ہر کسی کا ہے خود سے پہلا عشق
دوسرا ، دوسری محبت ہے
’’ہمیشہ ‘‘ کو چھاپنے کا اہتمام لاہور ہی کے ایک ادارے العصر پبلی کیشنز نے کیا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے اس مجموعے کے آغاز میں یہ درج ہے۔
ع ہے ہمیشہ، تو میں ، ہمیشہ ہوں
کتاب کا دیباچہ دور حاضر کے بڑے غزل گوشاعر ظفر اقبال نے ’’شہسوارِ سخن‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ ظفر اقبال نے جو احمد عطاءؔ اللہ کے لیے کہا وہ بلاشبہ ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ ادبی حلقوں میں یہ بات ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ ظفر اقبال جیسے بڑے شاعر کا کسی شاعر کے بارے میں اظہارِ خیال کرنا واقعی اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔ ظفر اقبال لکھتے ہیں:
’’ جو لوگ میری ’’ نحوست طبع‘‘ سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرا یہ اعتراف کیامعنی رکھتا ہے اور اپنی تمام تر بد لحاظی کے باوجود میرا اسے عمدہ ، بلکہ قابل رشک قرار دینے کا مطلب کیا ہے۔ مجھے اس شاعر نے خوش کیا ہے، اور واقعتا یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ‘‘(۱)
جب احمد عطاءؔ اللہ کا مجموعہ ’’ہمیشہ ‘‘شائع ہواتو شائع ہوتے ہی ادبی حلقوں میں ہلچل مچادی۔ ’’ہمیشہ‘‘ کا کلام ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اور اسی بنا پر احمد عطاءؔ اللہ کو ہمیشہ کا شاعر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ۳نومبر ۲۰۱۱ء کو ’’ ہمیشہ ‘‘ کی تقریب تحسین مظفر آباد میں ہوئی۔ اس تقریب میں قمر رضا شہزاد، افضل گوہر، رانا سعید دوشی، محمدحنیف، واحدؔ سراج اور دیگر کئی ادیبوں نے شرکت کر کے احمد عطاءؔ اللہ کو ’’ ہمیشہ ‘‘ کی زبردست پذیرائی پر مبارک باد پیش کی۔
احمد عطاءؔ اللہ دراصل جدید لفظیات کے شاعر ہیں۔ آپ کے امکانات بالکل تازہ اور اسلوب جداگانہ اور منفرد ہے۔ عطاءؔ چوں کہ ایک فطرت شناس اور زندگی کا گہرا مشاہدہ رکھنے والی شخصیت کے حامل ہیں۔ اس لیے آپ کے ہاں یہ چیز اشعار میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ شعر دراصل ہوتا ہی کسی چیز یا واقعہ کا فطری تاثر ہے۔ جو اپنی صفائی کی بدولت جذبات اور تخیل میں ایک غیر ارادی تحریک برپا کر دیتا ہے۔ شعر ہی کسی انسان کی فطرت کا اور جذبات کا عکس بھی کہلاتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں یہ تمام تر وارداتیں یکجا ملتی ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ کی پہلی کاوش ’’ بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ کے تقریباً تیرہ ’’۱۳‘‘سال بعد ’’ہمیشہ‘‘ منظر عام آئی۔ لیکن اس تمام عرصے میں آپ کے موضوعات میں بڑی تبدیلی نظرنہیں آئی۔ یاد رہے ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں ‘‘ میں موجود شاعری وہ ہے جو آپ نے زمانہ طالب علمی میں لاہور کے قیام کے دوران کی جبکہ ’’ہمیشہ‘‘ اس وقت شائع ہوئی جب آپ نے مظفر آباد کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا لیکن دونوں مجموعوں میں دیہات ، شہر اور گائوں کا خمار آپ کے ذہن سے اترا نہیں ۔
آپ کا اسلوب دونوں مجموعوں میں برقرار رہا ہے اور کہیں بھی اس چیز کا شائبہ نہیں ہوتا کہ کسی شعر میں احمد عطاءؔ اللہ کا رنگ نہیں۔ آپ کا ہر شعر چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ احمد عطاءؔ اللہ کا تخیل اور فکر ہے۔ آپ کی شاعری میں روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ کئی نئے موضوعات بھی نظر آتے ہیں۔
گائوں:
’’ہمیشہ‘‘ کے موضوعات میں بھی گائوں احمد عطااللہ کا محبوب موضوع نظر آتا ہے۔ یہ موضوع دراصل آپ کے رگِ خوں میں کچھ یوں شامل ہے کہ اس کے باہرنکلنا آپ کے لیے محال ہے۔ آپ کی شاعری میں گائوں کا موضوع شاید اس لیے بھی شامل ہو گیا کہ آپ کی صحبت احمد ندیم قاسمی جیسے لوگوں کے ساتھ رہی اور احمد ندیم قاسمی کا تعلق بھی چوں کہ گائوں سے تھااور ان کے ہاں گائوں کی وجہ بھی نظر آتی ہے۔ احمد عطااللہ کے مطابق:
’’گائوں سے محبت مجھے قدرت کی طرف سے ملی ہے۔ کیوں کہ مجھے گائوں کی زندگی میں سچائی نظر آتی ہے۔ گائوں میں شہروں کی طرح بناوٹ نہیں نظر نہیں آتی وہاں محبت کی صداقت شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ ‘‘(۲)
٭٭٭
دھوپ اور دھول سے پژمردہ ہیں ان شہروں کے پھول
گائوں سے تتلی آکے انہیں تا بندہ رکھے گی
یہی چیز احمد عطاءؔ اللہ کا خاصا ہے کہ آپ کے یہاں گائوں میں زندگی کی تازگی اور شفاف ماحول شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ شہر میں ہر چیز پر گرد جمی ہوئی ہے۔ جبکہ دیہات میں ہر چیز اجلی اجلی دکھتی ہے اور فطرت کھل کر مسکراتی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں گائوں میں محبتوں کے موسم شہروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ جبکہ فطری حسن بھی گائوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ حسن کہ شہر والے جس کے بارے میں کبھی سوچ نہیں سکتے۔ یہ شعر دیکھیے۔
گائوں کے کچے اسکولوں کی پڑھی لڑکی ، سُن
شہر والوں کو ترا خواب نہیں آ سکتا
احمد عطاءؔ اللہ گائوں کے ماحول سے نکلنا نہیں چاہتے اور گائوں چھوڑ کر آپ رنجیدہ ہیں۔ آپ کے خیال میں آپ کے گائوں چھوڑنے پر آپ کے ساتھ ساتھ ہوا بھی افسردہ تھی۔
گائوں چھوڑا تو مرے ساتھ سسکتی تھی ہوا
جس میں شکوہ تھا کسی یاد دہانی جیسا
عطاءؔ گائوں کے عیش و آرام کی نسبت گائوں کی مشکلات بھری زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ آپ غربت کو پسند کرتے ہیں اور اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ کم زمین اور چھوٹے گھر والے امیروں سے اور بڑے گھر والے جاگیرداروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ شعر اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے گو کہ اس شعر میں سب سے بہترین قواعد کے اعتبار سے درست نہیں مانا جا سکتا کہ بہترین سب سے اچھا ہوتا ہے۔
کچے گھر میں ہیں کم زمین ہیں ہم
گاؤں میںسب سے بہترین ہیں ہم
احمد عطاءؔ اللہ شہر کے ماحول میں بھی گائوں کو یاد کرتے ہیں ۔ گائوں کے پس منظر میں آپ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
شہر میں بھی تاثیر گئی کب گائوں کی
خوش ہوتا ہوں دال میں کنکر ہونے سے
٭٭٭
گائوں کا چاند سر شام جو آیا ہوتا
دِل نے بچوں کی طرح شور مچایا ہوتا
٭٭٭
اس چہرے پہ روشن ہے کسی گائوں کا منظر
اچھا ہے اگر اور سنوارا نہ گیا تو
رجائیت:
رجائیت کے حوالے سے بھی احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں اشعار ملتے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ ایک بہادر شخص ہیں اور آپ ہر مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ آپ کے ہاں امید ہے اور کسی کام کا ممکن نہ ہونا آپ نہیں سمجھتے۔ رجائیت اگرچہ لکھنویت کی اہم خصوصیت ہے لیکن اکثر شعرا کے ہاں رجائیت کے اشعار نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی جن کو میرؔ کے بعد رنج و الم کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے اُن کے ہاں بھی رجائیت کے اشعار نظر آہی جاتے ہیں مثلاً؛
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اسی طرح احمد عطاءؔ اللہ بھی غم و فکر سے آزاد نظر آتے ہیں آپ کے خیال میں :
میں اپنے بعد بھی زندہ رہوں گا لوگوں میں
کئی برس تو مرا روپ دھارا جائے گا
امید ہی کے لیے احمد عطاءؔ اللہ ایک جگہ کچھ یوں کہتے ہیں:
نا اُمیدی کو کل پر ٹالتے ہیں
آج کچھ راستہ نکالتے ہیں
عشق و محبت:
عشق و محبت کے موضوعات کے بغیر اردو شاعری نامکمل تصور کی جاتی ہے احمد عطاءؔ اللہ تک آتے آتے اردو غزل کے جتنے بھی شعرا گزرے سب کے سب عشق ومحبت کو اپنی شاعری میں اہم موضوع بنا گئے۔ احمد عطاءؔ اللہ بھی محبت کی چکا چوند میں اس طرح کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے آپ کو کسی اور شے کی خبر نہیں رہتی ۔ آپ کے احساس و شعور پر جو چیز حاوی ملتی ہے وہ فقط محبت ہی محبت ہوتی ہے۔ آپ محبوب کے چشموں سے پیاسِ محبت بجھاتے ہیں اور اپنے من مندر میں عشق کا صنم تراش کر اس کی پرستش میں محو ہوجاتے ہیں۔
احمد عطاءؔ اللہ کی شخصیت کی طرح آپ کی محبت بھی شہرو دیہات میں بٹی ہوتی ہے اور دونوں پائوں پر بستی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم قابل قدر اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ احمد عطاءؔ اللہ نے اپنی شخصیت پر پاکبازی اور روحانیت کا مصنوعی خول چڑھاکر اپنے جذبات کو چھپانے کی ہر گز کوشش نہیں کی۔ ’’ہمیشہ‘‘میں احمد عطاءؔ اللہ کی محبت آپ کے پہلے مجموعے کی نسبت مضبوط نظر آتی ہے۔ آپ کی نظر میں گلی کا ایک عام سا چہرہ بھی آپ کو اپنی جان سے عزیز تر ہو جاتا ہے اور محبت ایسی سے ہے جس میں نہایت معمولی چیز بھی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر:
گلی کا عام سا چہرہ بھی پیارا ہونے لگتا ہے
محبت میں تو ذرہ بھی ستارہ ہونے لگتا ہے
احمد عطاءؔ اللہ محبت کے سفیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ کے رگ رگ میں محبت دوڑتی ہے اور یہی محبت آپ کی شاعری کا جزو بن جاتی ہے۔
مجھ سے برتن بنا محبت کے
دیکھ مٹی ہے کیسی لَس میری
٭٭٭
ہم محبت ہیں اور یاد رہے
آنے والی صدی کا دین ہیں ہم
٭٭٭
یہ لوگ تھکتے نہیں مجھ سے پیار کرتے ہوئے
میں اتنا پیارا ہوا تم سے پیار کرتے ہوئے
گلی:
گلی کو بھی اردو غزل میں خاطر خواہ استعمال کیا گیا ہے۔ محبوب کی گلی کی اگر بات کی جائے تو ہر بڑے شاعر کا محبوب موضوع رہا ہے۔ میر تقی میرؔ، ناصرؔ کاظمی ، غالبؔ وغیرہ جیسے شعرا کے ہاں یہ موضوع نظر آتا ہے:
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
(میر تقی میرؔ)
تیری گلی میں سارا دِن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں
(ناصرؔ)
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
(ناصرؔکاظمی)
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے احمد عطااللہ نے بھی اس موضوع کو بڑے اہتمام سے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔ آپ کے ہاں اس حوالے سے کئی خوب صورت اشعار نظر آتے ہیں:
گلی کا عام سا چہرہ بھی پیارا ہونے لگتا ہے
محبت میں تو ذرہ بھی ستارا ہونے لگتا ہے
٭٭٭
دِل تو کیا ان گلیوں سے بھی مجھے نکال
پاگل شخص ہوں سب کو پاگل کر دوں گا
گلی کے دونوں طرف کھڑکیوں کی آنکھیں تھیں
جھجکتا رہتا تھا میں درمیان سے جاتے
٭٭٭
گلی میں پھول نہ ہوں میز پر کتاب نہ ہو
وہاں میں رہ نہیں سکتا جہاں یہ خواب نہ ہو
مذہبی موضوعات:
احمد عطاءؔ اللہ کا تعلق اگرچہ ایک خالصتاً مذہبی گھرانے سے ہے۔ آپ کے آبائو اجداد مذہبی عالم تھے۔ لیکن ان سب کے باوجود احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں مذہبی شاعری بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے۔ آپ کے اول مجموعے میں تو کسی قسم کا کوئی شعر ایسا نہیں ملتا جس کو مذہب سے منسوب کیا جاسکے۔ تاہم آپ کے دوسرے مجموعے ’’ہمیشہ‘‘ میں ایک نعت اور منقبت حضرت امام حسینؓ موجود ہے۔ آپ کی شاعری میں گو کہ مذہبی اثرات کم ہیں لیکن اس کے باوجود ایک سچے عاشق رسولؐ ہیں۔ آپ کے ایک شعر کے بارے میں سید ہ آمنہؔ بہارونا بتاتی ہیں۔جب احمد عطاءؔ اللہ نے مجھے یہ شعر سنایا؛
میں جو ہوتا وہاں حسینؓ کے ساتھ
ذکر ہوتا یہاں حسینؓ کے ساتھ
’’تو اس شعر پر میں نے نہ صرف داد دی بلکہ یہ بھی کِہ دیا کہ اگر آپ کی تمام شاعری آپ کو جہنم کی طرف لے جائے تو بھی یہ شعر آپ کو جنت میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘(۳)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عطاؔ کے ہاں مذہب بالکل ہی معدوم بھی نہیں اور اس طرح بڑے اشعار بھی آپ کے ہاں موجود ہیں ۔ کسی ناقد کے مطابق اگر کسی کا ایک جملہ بھی امر ہو جاتا ہے تو یہ اس کے زندہ رہنے کے لیے کافی ہو گا۔ یہاں عطاؔ کے کئی اشعار اگر مذہب کے تناظر میں دیکھیں تو بے مثال اشعار نظر آتے ہیں۔
تیری رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں
مکہ والے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
٭٭٭
مرنے والے تریؐ رحمت پہ نظر رکھتے ہیں
جینے والے ترےؐ جینے کی طرف دیکھتے ہیں
نعتیہ اشعار کے ساتھ ساتھ احمد عطاءؔ اللہ نے جو کربلا کے تناظر میں حب امام حسین ؓ میں جو اشعار لکھے وہ بھی بے مثال ہیں۔ سانحہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس کو اردو شاعری میں اور اردو غزل میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ تمام چھوٹے بڑے شعرا نے اس حوالے سے لکھا ہے کیوں کہ اردو شاعری میں ابتداہی کربلا سے ہوتی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ نے اس روایت کو بڑے برقرار رکھا ہے۔ آپ کے اشعار میں جو حسن و آہنگ ہے وہ آپ کے خاص اسلوب ہی کا حصہ ہے۔ مثلاً آپ کے اشعار دیکھیے:
ہم کو محسوس نہیں ہوتی یہ رمضان کی پیاس
ہم محرّم کے مہینے کی طرف دیکھتے ہیں
٭٭٭
میری ہوتی زباں حسینؓ کے ساتھ
اور اٹھتی کماں حسینؓ کے ساتھ
٭٭٭
میں جو ہوتا وہاں حسینؓ کے ساتھ
ذکر ہوتا یہاں حسینؓ کے ساتھ
جدت:
احمد عطاءؔ اللہ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے ہاں جدت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے تو یہ قطعاً غلط نہ ہو گا۔ آپ کے کلام میں کئی ایسے الفاظ بھی نظر آتے ہیں جوکہ غیر شعری نظر آتے ہیں۔ لیکن عطاءؔ نے ان الفاظ کو اس خوب صورتی سے استعمال کیا ہے کہ وہ کسی مالا میں پروئے ہوئے موتی معلوم ہوتے ہیں۔ جدید غزل میں احمد عطاءؔ اللہ کا مقام و مرتبہ نہایت ہی معتبرہے۔ عصر حاضر کے تمام شعرا میں آپ کے ہاں جد ت بالکل واضح نظر آتی ہے۔ فرزانہ ؔفرحؔ اس ضمن میں لکھتی ہیں۔
’’احمد عطاءؔ اللہ کے شعروں میں جہاں بے ساختگی ، لہجہ کی تازگی اور روانی موجود ہے وہاں ہی عطاؔ کے ہاں جدت نمایاں خصوصیت کے طور پر نظر آتی ہے۔‘‘(۴)
احمد عطاءؔ اللہ جہاں اپنی شاعری میں دیگرکئی خصوصیات کے ساتھ منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ وہاں آپ جدت میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔ سوزوگداز، شیرینی و سلاست، منظر نگاری آپ کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ آپ نہ صرف اسلوب و ہیئت بلکہ خصوصیت و افادیت کے لحاظ سے بھی ایک منفرد غزل گو شاعر ہیں۔ آپ کے ہاں ایسے مضامین کے اشعار کی بھی کوئی کمی نہیں جن میں جذباتی اور عاشقانہ پہلو کے جوہر پائے جاتے ہیں۔
اژدہام بھرے شہر میں دشوار تھا ملنا
اور ہم نے تو منت کوئی مانی بھی نہیں تھی
اسی طرح ایک اور شعر دیکھیے جس میں عطاءؔ ’’پچھل پیریاں‘‘ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لفظ اردو شاعری میں بالکل غیر مانوس ہے۔ لیکن عطاؔ نے اس کو جس حسن و اہتمام سے استعمال کیا ہے وہ خود اپنی مثال ہے۔ اور یہ عطاءؔ ہی کا خاصا معلوم ہوتا ہے
موڑ کی نیلی حویلی میں پچھل پیریاں ہیں
جان لے کر بھی پریشان نہیں ہوتی ہیں
اسی طرح عطاءؔ کا یہ شعر بھی آپ کی جدت کی گواہی دیتا معلوم ہوتا ہے۔
گلیوں گلیوں سوندھی خوشبو پھیل گئی
پہلے پہلے پھول کھِلے خوبانی میں
کچھ اور شعر ملاحظہ ہوں۔
برامدے میں پڑوسی کے دل کو بھائوں گا
ہمیشہ کی طرح پھر سے سنبھال دے مجھ کو
٭٭٭
مماثلت ہے بہت مجھ میں اور پانی میں
سو ڈرتا رہتا ہوں دریا کو پار کرتے ہوئے
قنوطیت:
عطاؔ ایک با ہمت انسان ہیں۔ آپ کے ہاں امید دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ ایک شاعر ہیں اور شاعر چوں کہ حساس ہوتا ہے اور اسے غم سے بھی واسطہ رہتا ہے۔ عطاءؔ کے ہاں بھی جہاں عشق و محبت اور امید ہے وہاں آپ کے ہاں ناامیدی اور رنج و الم کے اشعار بھی کثرت سے ملتے ہیں۔محبت اور غم ایک دوسرے کے ساتھ روزِ اول سے موجود ہے۔ جب انسان کسی سے کوئی امید وابستہ کر لیتا ہے تو پھر غم بھی اس کے لیے سرمایہ حیات بن جاتا ہے۔ عطاءؔ کے ہاں بھی واردات قلبی نظر آتی ہے۔ آپ کو بھی محبت کے دکھ ہیں لیکن ان دکھوں کو آپ بڑے اہتمام سے سپر د قلم کر تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن آپ اپنے دکھوں کے ساتھ زندہ ہیں اور کہیں بھی آپ لڑکھڑاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ مثال کے لیے کچھ اشعار دیکھیے:
آدھی بات سے جِس نے ہم کو آدھا مار دیا
آدھی بات یہ کب تک ہم کو زندہ رکھے گی
جب عطاؔ ٹوٹ کر برستا ہوں
بات کرتے ہیں خار و خس میری
٭٭٭
یہ پہلا غم عطاءؔ پہلی محبت کی نشانی ہے
اسے آنکھوں سے چھلکے خون کا غازہ لگائیں گے
٭٭٭
میرؔ کے جیسا اگر رنج کماتے نہ عطاؔ
ہم نے غالبؔ کی طرح نام کمایا ہوتا
صنعتوں کا استعمال:
ہر بڑے شاعر کے ہاں صنعتوں کا استعمال جس خوب صورتی سے ملتا ہے وہ اس شاعر کی حسن خوبی سمجھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے شعرا نے صنعتوں کا استعمال جس خوب صورتی سے کیا ہے۔ اسی قدر ان کے کلام میں بھی نکھار آیا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں پہلے مجموعے ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘میں بھی صنائع و بدائع کا استعمال کِسی حد تک نظر آتا ہے۔ جبکہ دوسرا مجموعہ ’’ہمیشہ‘‘ بھی آپ کے اس فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرچہ آپ نے صنعتوں کا زیادہ استعمال نہیں کیا لیکن جو بھی کیا، نہایت خوب صورتی سے کیا۔
تضاد
احمد عطاءؔ اللہ کے کلام میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی صنعت ’’تضاد‘‘ ہے۔ ’’تضاد‘‘ ایک ایسی صنعت ہے جو نہ صرف آسان ہے بل کہ یہ تقریباً سبھی شعرا کے ہاں باآسانی مل جاتی ہے۔ ’’صنعت تضاد‘‘ اردو غزل کی ایک اہم صنعت ہے جس میں ایک لفظ کی ضد میں دوسرا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے کلام میں سے ’’تضاد‘‘ کی کچھ مثالیں دیکھیں۔
شہر سے ہم چل پڑے پہچان کرنے کے لیے
گائوں میں اک شکل تھی حیران کرنے کے لیے
اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ’’شہر‘‘ کا استعمال ہوتا ہے جب کہ اس کا الٹ ’’گائوں‘‘ دوسرے مصرعے میں نہایت نفاست سے استعمال کرکے عطاؔ نے تضاد کی ایک خوب صورت مثال پیش کی ہے۔ اسی طرح مزید مثالیں ملاحظہ ہوں۔
آسماں سے ہے دور کا رشتہ
اے زمیں والو! ہم زمیں ہیں ہم
٭٭٭
مجھے تو اپنے ہی دِن رات کی کچھ ایسی عادت تھی
تمھارے دِن ، تمھاری رات میں باہر نکل آیا
٭٭٭
ہماری آخرت ہو کیسے بہتر
ہمیں دنیا پہ وارا جا چکا ہے
تلمیح:
تلمیح کی اصطلاح بھی علم بدیع کے حصے میں آتی ہے۔ اردو شاعری میں تلمیح ایسا خاص لفظ یا ترکیب ہے جس کو پڑھ کر اس کے پیچھے پوشیدہ ایک پورا منظر اور واقعہ آنکھوں کے سامنے آجائے۔ پروفیسر انور جمال کے مطابق:
’’کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جوکسی تاریخی، مذہبی، معاشرتی واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیح ہے۔ ‘‘(۵)
تلمیح دراصل وہ الفاظ ہوتے ہیں جو کسی واقعے کے ساتھ خاص ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر مستقل طور پر اس وقوع کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً نارِ نمرود کی ترکیب سامنے آتے ہی حضرت ابراہیم ؑ کو جلانے کے لیے بھڑکایا گیا آگ کا الائو ذہن میں آ جاتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال ؔ اور غالبؔ کے ساتھ ساتھ دیگر تمام شعرا نے تلمیحات کا استعمال کیا ہے لیکن اقبالؔ تلمیحات کے حوالے سے اہم ترین شاعر ہیں جن کے ہاں تلمیحات بہت بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ نے بھی ’’ہمیشہ‘‘ میں اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ تلمیحات کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً:
اہل دنیا کو تو دنیا کی سہولت دی جائے
میں ہوں مجنوں مجھے صحرا کی سہولت دی جائے
مراعات النظیر:
یہ صنعت بھی بڑے شعرا کے کلام میں ایک اہم خصوصیت کا درجہ رکھتی ہے ۔ احمد عطاءؔ اللہ نے اس صنعت کو اپنے کلام میں نہایت اہتمام سے جگہ دی ہے۔ مراعات النظیر اس صنعت کاری کا نام ہے جس کے ذریعے کلام میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں جن کے معنوں میں ایک خاص مناسبت اور تعلق ہوتا ہے۔ لیکن یہ تعلق اور مناسبت، تقابل و تضاد کے نہیں ہوتے۔ دنیا کا کوئی شاعر بھی اس صنعت سے گریز نہیں کرسکتا ۔ اس کے بغیر شعر کا حسن ماند پڑ جاتا ہے اور اس کا نکھار نہیں رہتا۔ مراعات النظیر مشرقی شعریات کا ایک اہم اسلوب ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے کلام سے کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں۔
اک زرد پیڑ نے کئی لوگوں سے یہ کہا
کیا موسم بہار گزر تو نہیں گیا
٭٭٭
تمھیں تو دیکھتے رہنے سے نشہ ہوتا ہے
صراحی جیسے بدن میں کہیں شراب نہ ہو
اس پہ کھلتا ہی نہیں آنکھ میں پھیلا ہوا پیار
دِل تجھے بھی لبِ گویا کی سہولت دی جائے
اجتماعیت:
کوئی بھی تخلیق کار اپنی ذات سے ہٹ کر جب اجتماعی مسائل کو دیکھتا اور ان پر غم اور رنج کا اظہار کرتا ہے تو ایسی اصطلاح اجتماعیت کہلاتی ہے ۔ ادبی اصطلاح کو طورپر انفرادی جذبات و احساسات کی بجائے پورے انسانی معاشرے کے دکھ ، سکھ، اخلاقیات اور محبت کو موضوع بنانا اجتماعیت ہے۔ ایسا ادب پورے معاشرے کی سماجی زندگی کو اہمیت دیتا ہے۔
احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ ایک درد مند دِل کی حامل شخصیت ہیں۔ آپ ایک ایسے معاشرے کے فرد ہیں جس میں قدم قدم پر کرب و مسائل نظر آتے ہیں۔ آپ معاشرے کے ان مسائل کو دیکھ کر ان پر نہ صرف کڑھتے ہیں بلکہ اس پر نہایت خوب صورت الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور طنز کا ہتھیار ابھی استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں آپ کے مجموعہ ’’ہمیشہ‘‘ میں کئی اشعار ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
لوگوں میں تھی رائج ابھی تحفوں کی روایت
شہروں میں ابھی اتنی گرانی بھی نہیں تھی
٭٭٭
عطاؔ بے صبر لوگوں کے کبھی برتن نہیں بھرتے
گزارا کرنے والوں کا گزارا ہونے لگتا ہے
٭٭٭
مِل گئی تنخواہ تو اب دور تک کوئی غریب
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں احسان کرنے کے لیے
تمھیں میں دوست سمجھ کر تمھارے کام آیا
خدا کرے کہ اب اس کا مجھے ثواب نہ ہو
روز مرہ اور محاورات کا استعمال:
کوئی بھی لفظ جب اپنے لغوی یا حقیقی معنوں کی بہ جائے مجازی اور غیر حقیقی معنوں میں استعمال ہوگا تو استعارہ، مجاز مرسل یا پھر محاورہ کہلائے گا۔ محاورے کے حقیقی اور غیر حقیقی معنوں کے درمیان کوئی چیز رابطے کا کام نہیں دیتی۔ محاورے کی تعریف پروفیسر انور جمال یوں کرتے ہیں:
’’محاورہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اہلِ زبان کی گفت گو کے مطابق ہوتا ہے۔ ‘‘(۶)
روز مرہ بھی اہل ادب اور اہل زبان کی خاص گفتگو ہے۔ محاورات کا استعمال بھی اردو ادب کا ایک خاص اسلوب سمجھا جاتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ نے بھی اپنے خاص اسلوب میں رہتے ہوئے محاورات کو نہایت نفاست سے استعمال کیا ہے۔ آپ کے کلام سے مثالیں ملاحظہ ہوں:
اپنی اپنی پڑی ہے سب کو یہاں
اور ہمیں آپ کی پڑی ہوئی ہے
٭٭٭
جب عطاؔ ٹوٹ کر برستا ہوں
بات کرتے ہیں خار و خس میری
٭٭٭
تم کو قتل کریں گے اور پھر یاد میں تیری
تیرے نام کا سکہ جاری کریں دیں گے
تشبیہات و استعارات کا استعمال:
پروفیسر انور جمال تشبیہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’تشبیہ انسانی کلام کی ایسی خصوصیت ہے جو کائنات کے مشابہتی رشتوں کی تلاش کرتی ہے۔ اس کا مدعا اس دنیا کے تفرقوں میں وسیع تر ہم آہنگی ا ثبات ہے۔ ‘‘(۷)
تشبیہ میں ایک چیز کو ایک یا ایک سے زیادہ مشترک خصوصیات کی بنا پر دوسری کی مانند قرار دیا جاتا ہے اور یوں پہلی چیز کی اہمیت یا شدت کو واضح کیا جاتا ہے۔ تشبیہ معنی آفرینی کی جان ہے۔ تمام دنیا کے شعری سرمائے میں تشبیہ ایک اہم اصطلاح کی طور پر شامل ہے۔ میرؔ کے ہاں یہ فن زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بعد کے شعرا نے بھی تشبیہات پر خاطر خواہ توجہ دی۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں روایت کی یہی پیروی ملتی ہے۔ آپ کے ہاں بھی نہایت اہم تشبہیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً
جھیل سی آنکھ کے مالک کوئی تعبیر بتا
آج کل خود کو تہِ آب بہت دیکھتے ہیں
٭٭٭
تمھیں تو دیکھتے رہنے سے نشہ ہوتا ہے
صراحی جیسے بدن میں کہیں شراب نہ ہو
استعارہ:
استعارہ کا لفظی معنی ’’ادھار لینا‘‘ کے ہیں۔ علم بیان کی اصطلاح میں :
’’کسی شے کے لوازمات اور خصوصیات کو کسی دوسری شے سے منسوب کرنا استعارہ ہے۔ لفظ کو مجازی معنوں میں اس طرح استعمال کرنا کہ حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق ہو استعارہ کہلاتا ہے۔ ‘‘(۸)
استعارہ کا استعمال بھی کلام کے حسن میں اضافے کے باعث بنتا ہے۔ شعرا حضرات نے اپنے ہاں استعارہ کے استعمال کا خصوصاً استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نکھار کی فضا قائم کرتے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ نے بھی استعارات کو بڑے بہترین انداز میں اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔ مثال کے طور پر:
بیٹھ جاتا ہوں میں سیڑھی پہ ہتھیلی رکھ کر
چھت کا وہ چاند بھی آنگن میں اتر سکتا ہے
٭٭٭
ابھی تارے گرا کر آیا ہوں اپنی آنکھوں سے
ابھی پھر چاند ہے چہرے پہ اک تازہ محبت کا
ظرافت:
احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری کو اگر دیکھا جائے تو آپ کی زندگی میں جو ایک ظریفانہ پہلو نظر آتا ہے وہ آپ کے کلام کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ ایک وقت میں باقاعدہ مزاحیہ مضامین لکھتے رہے ہیں۔ گو کہ آپ نے مزاح لکھنا چھوڑ دیا لیکن آپ کے کلام میں کہیں کہیں ظریفانہ طنز نظر آتا ہے۔ جسے پڑھ کر قاری عجب سی فرحت محسوس کرتا ہے اور بے اختیار سننے والے اور پڑھنے والے کے لبوں پر تبسم بکھیرتا ہے۔احمد عطاءؔ اللہ کے مجموعے ’’ہمیشہ‘‘ سے اس موضوع کے چند اشعار بطور مثال دیکھیے۔
جان کہنے سے کبھی جان نہیں ہوتی ہیں
لڑکیاں اتنی بھی نادان نہیں ہوتی ہیں
٭٭٭
یہ آنگنوں میں جو بچوں کے ساتھ خوش خوش ہیں
یہ عشق کرتے تو پھر خاندان سے جاتے
تب ملاوٹ نہیں تھے کھانے میں
زہر ملتا تھا ایک آنے میں
سہل ممتنع:
سہل ممتنع سے مراد ایسا شعر ہے جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جائے کہ اس سے آگے مزید سلاست کی گنجائش باقی نہ رہے۔ سہل ممتنع کی خاصیت رکھنے والی شاعری تاثیر کی قوت اور تادیر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ سہل ممتنع شعری اظہار کا سادہ ترین پیرایہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اردو غزل میں سید معراج جامیؔ کا ایک شعر اس حوالے کی بڑی مثال سمجھا جاتا ہے۔
ہم غریبوں کی کون سنتا ہے
آپ کی بات معتبر ہو گی
اسی طرح انور ؔشعور کا یہ شعر سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے۔
بازاروں میں پھرتے پھرتے دن بھر بیت گیا
کاش اپنا بھی گھر ہوتا، گھر جاتے ہم بھی
احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں بھی سہل ممتنع کے اشعار ملتے ہیں۔ آپ نے اپنے جذبات کو اس قدر سلاست سے بیان کیا ہے کہ عام قاری کے لیے بھی سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یوں تو احمد عطاءؔ اللہ کی تمام شاعری سلاست کا بہترین نمونہ ہے لیکن چند اشعار بطور مثال پیش خدمت ہیں۔
پہلے دِل کی پڑی ہوئی تھی ہمیں
اور اب جان کی پڑی ہوئی ہے
٭٭٭
پیارے بچو! کوئی تھی شہزادی
سب سے اچھی وہی تھی شہزادی
زبان زد عام اشعار:
ہر شاعر کے ہاں کچھ نہ کچھ اشعار ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اس شاعر کی پہچان بن جاتے ہیں۔ وہ اشعار ہر خاص و عام نے سنے ہوتے ہیں۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی شاعر کو نہ بھی جانتا ہو لیکن اس کے اشعار سے ضرور واقف ہو گا ۔ مثال کے طور پر جناب افتخارؔ عارف کا ایک شعر بہت مشہور ہوا۔
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکاں میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
اسی طرح عطاءؔ الحق قاسمی کا یہ شعر بھی زبان زدعام ہے۔
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
احمد عطاءؔ اللہ کے کلام کو اگر دیکھا جائے تو آپ کے بھی کئی اشعار بہت مشہور ہوئے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ یہ اشعار عام لوگوں کو بھی یاد ہوگئے۔ اس طرح احمد عطاءؔ اللہ کے نمائندہ شعر بن گئے۔ اس حوالے سے ظفر اقبال دو شعروں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آس وہ روز بندھا جاتا ہے ٹوٹے دِل کی
یوں وہ حالات کو بہتر نہیں ہونے دیتا
٭٭٭
جیسے لمحات کے وہ خواب دکھاتا ہے مجھے
ایسے لمحات میسر نہیں ہونے دیتا
’’احمد عطاءؔ اللہ کے یہ اشعار میں کم و بیش آدھی دنیا کو سنا چکا ہوں‘‘(۹)
ان اشعار کے علاوہ آپ کے یہ اشعار دیکھیے جن سے شعر و شاعری سے شغف رکھنے والا ہر شخص واقف ہو گا۔
روز کے مانوس بستر کی طرف جاتے ہوئے
موت آتی ہے میسّر کی طرف جاتے ہوئے
٭٭٭
انہی میلے کچیلے سے انہی ناکام لوگوں میں
عطاؔ سچی خوشی دیکھی ہے میں نے عام لوگوں میں
٭٭٭
عطاؔ بے صبر لوگوں کے کبھی برتن نہیں بھرتے
گزارا کرنے والوں کا گزارا ہونے لگتا ہے
کہتے ہیں اس دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی مگر طرزاظہار اوراسلوب بیان بات کو نئی بنا دیتا ہے بہ قول سیف الدین سیفؔ:
سیفؔ انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
محبت اور اس کے لوازمات کا بیان شعر کا بنیادی اور مرکزی لازمہ ہے۔ صدیوں سے شاعری اسی بنیادی مرکزے یا مدار کے گرد محو گردش ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ نہ صرف مضمون پامال ہوجائے بلکہ لفظ بھی اپنی تاثیر کھو کر پھیکے پڑجائیں۔ مگر کس قدر عجیب بات ہے کہ نہ صرف شعر کا سفر جارہی ہے بلکہ اسی کا مدار بھی وہی ہے۔ بلا مبالغہ آج اردو میں ہر روز سینکڑوں نہ سہی تو درجنوں شعری مجموعے منصہ شہود پر آرہے ہیں مگر ان میں سے کم کم ایسے ہیں جو قلب و نظر میں گھر کر سکیں سوائے چند خوش قسمت اہل سخن کے جو اپنے طرز اظہار اور اسلوب بیاں کو کوئی نیا رنگ یا آہنگ عطا کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ وہی سخن شناسوں کو اپنے شعری سفر کے ساتھ شامل کرلیتے ہیں۔ اور شعر شناس اُن کے کلام کو پوری آنکھ سے پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ عطاءؔ اللہ عطاءؔ کی تخلیق ’’ہمیشہ‘‘ نے سنجیدہ قاری کو اور کہیں مسکرانے ، کہیں ٹھٹکنے اور کہیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ عطاءؔ نے زندگی کی سادگی، مگر ناقابل بیان حقیقتوں کو اتنی سادگی اور بے ساختگی سے بیان کیا ہے کہ یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ایسی بات کِہ دی گئی ہے اور اس کا بالکل وہی مطلب ہے جو سمجھ میں آرہا ہے۔
روز کے مانوس بستر کی طرف جاتے ہوئے
موت آتی ہے میسر کی طرف جاتے ہوئے
احمد عطاءؔ اللہ کی یہی سادگی اور بے ساختگی ہے جو ’’ہمیشہ‘‘ کو دل کی آنکھ سے پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بے ساختہ پن اور سلاست روی احمد عطاءؔ اللہ کے شعر کو اس قدر جازب نظر قبول عام بنا دیتی ہے کہ قاری اس سلاست روی کے بہائو میں بہنے کی بجائے ٹھٹھک جاتا ہے اور وہ شعر کے دروں و بروں معانی کی کھوج لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اب دیکھوں تو کھو جائوں حیرانی میں
کتنا خوش تھا میں تصویر پرانی میں
شاعر اس کیفیت اور اس مضمون کے بیان میں خود تو حیرانی میں گم ہو جاتا ہے مگر اپنے ساتھ ساتھ قاری کو بھی حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ یہی وصف ہے کہ جس کی وجہ سے عصر حاضر کے ممتاز و منفرد غزل گو ظفر اقبال نے احمد عطاءؔ اللہ کے بارے میں کہا ہے’’ یہ شعر کو شعر بنا دینے کا فن جانتا ہے‘‘ اور مضامین کے قحط میں بھی ثابت کرتا ہے کہ نئے مضمون کی چنگاری چھوڑی جاسکتی ہے۔ چنانچہ احمد عطاءؔ اللہ نے اپنے شعر میں صرف نئے مضمون کی چنگاری سلگائی ہے بلکہ بعض نئے مضامین کو بھی بزم شعر میں لا بٹھایا ہے۔
اک آسمان سے ہیں دوسرے کی سمت رواں
ہمیں زمین کے رستے گزارا جائے گا
٭٭٭
میں اپنے بعد بھی زندہ رہوں گا لوگوں میں
کئی برس تو میرا روپ دھارا جائے گا
٭٭٭
وہم تھا دو دلوں کے بیچ عطاؔ
ہم سمجھتے رہے کہ تین ہیں ہم
احمد عطاءؔ اللہ ’’گائوں‘‘ سے نہیں نکلا:
پوچھا ’’شعر میں گائوں کا بار بار تذکرہ اور ہر بار نئے معنی اور نئے مفاہیم کے ساتھ ؟ بتایا گیا ’’گائوں آج بھی اپنے حقیقی رنگ و روپ ، بے تکلفی، باہمی محبت و اپنائیت اور سادگی کے ساتھ موجود ہے۔ گائوں میں قدرت اپنے حقیقی حسن و رعنائی کے ساتھ خود کو آشکار کرتی ہے اور ہر بدلتا موسم انسان پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ شاعری حقیقی جذبوں کا بیان ہے اور ذرہ برابر بھی مصنوعی پن برداشت نہیں کرتی۔
شاعر کی اس وضاحت کو اگر ’’ہمیشہ ‘‘ کے شعری آئینے میں دیکھا اور پرکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ بیان برائے بیان نہین بلکہ شاعر نے اپنے انہی محسوسات کو شعروں میں سمویا ہے اور گائوں جیسا غیرشاعرانہ لفظ بھی جگما اُٹھا ہے چنانچہ یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ احمد عطاءؔ اللہ نے گائوں کو شعری کائنات مں ایک زندہ کردار بنا دیا ہے۔
گائوں کے رستے کتنے سیدھے سادے تھے
شہر میں آکر آیا موڑ کہانی میں
٭٭٭
گائوں کا چاند سرِ شام جو آیا ہوتا
دل نے بچوں کی طرح شور مچایا ہوتا
اس چہرے پر روشن ہے کسی گائوں کا منظر
اچھا ہے اگر اور سنوارا نہ گیا تو!
٭٭٭
پہلے ہی یقیں شہر پر گائوں نہیں کرتا
کیا سوچے گا واپس میں دوبارہ نہ گیا تو!
٭٭٭
شہر گائوں کی نیندیں چرا لیں جس کی خوشبو نے
وہ کیسا پھول تھا کب بات سے باہر نکل آیا
٭٭٭
شہر کی آنکھ میں مہتاب نہیں آسکتا
گائوں سے اڑ کے تالاب نہیں آسکتا
عطاءؔ نے شہر بسیرا کیا تو گائوں کو خود سے جدا کرنے کی بجائے اسے بھی دل میں بسا لیا ہے۔ چنانچہ شاعر کے دل کا یہ مکیں کبھی اپنے رنگوں میں ، کبھی اپنے توہمات میں، کبھی اپنی لفظیات میں تو کبھی اپنی بے ساختگی میں اپنی چھب دکھاتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ عطاءؔ نے گائوں کواپنا ہمزاد بنا لیا ہے اور یہ ہمزاد نہ صرف اس سخن میں اس سے ہمکلامی کرتا ہے بلکہ کبھی کبھار کھل کے اس کے اس کے مقابل آجاتا ہے۔
اژدہام بھرے شہر میں دشوار تھا ملنا
اور ہم نے تو منت کوئی مانی بھی نہیں تھی
٭٭٭
جادو ٹونے سے لوٹ آتے تھے
لوگ اچھے تھے اس زمانے میں
٭٭٭
اس بستی نے پیار کے جادو ٹونے سے
روک لیا ہے شہر کا مجھ کو ہونے سے
٭٭٭
مجھ سے برتن بنا محبت کے
دیکھ مٹی ہے کیسی لس میری
٭٭٭
تب ملاوٹ نہیں تھی کھانے میں
زہر ملتا تھا ایک آنے میں
٭٭٭
دل تک کالا کرتی ہے شہروں کی دھوپ
یہیں کہیں اس چھائوں میں رہ جاتے ہیں
٭٭٭
کھیت میں ناچنے والی تتلی مُڑکے دیکھ
تیری سرسوں اور بھی پیلی ہو جائے
نشاطیہ آہنگ:
ایساکم کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ شاعری کا ذاتی مزاج اس کے کلام سے ہم آہنگ ہو۔ مگر احمد عطاءؔ اللہ کو جو لوگ جانتے ہیں اس بات کی تصدیق کریں گے کہ شاعر اور اس کی تخلیق ہم رنگ و ہم مزاج بلکہ ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ ’’ہمیشہ‘‘ کا تخلیق کار اپنی شخصیت میں ہمیشہ زیر لب تبسم کا امین ہے تو اس کے شعر بھی اسی تبسم کے عکاس ہیں اور پڑھنے والوں کے لبوں کو وہی زیر لب تبسم عطا کرتے ہیں۔ جو احمد عطاءؔ اللہ کی شخصیت کا حصہ ہے۔ ’’ہمیشہ‘‘ کی کم وبیش ہر غزل کے متعدد اشعار نیم وا کلیوں کی مسکراہٹ اور خوشبو قاری کو مسحور کر لیتی ہے۔ اولاًتو احمد عطاءؔ اللہ نے اپنی شاعری میں ثقیل مضامین کے بیان سے اجتنات کیا ہے توثانیاً ان مضامین کو انتہائی سادگی اور ہلکے پھلکے انداز میں بیان کر دیا ہے کہ اکثر اشعار سہل ممتنع کی بہترین مثالیں بن گئے ہیں۔ احمد عطاءؔ کی شاعری کا یک وصف سہل پسندی بھی ہے اور کہیں بھی مضمون میں تصنع یا آورد کا احساس نہیں ہوتا۔
تیری رونی صورت کو پھلجھڑی بنا دوں گا
زندگی تو مل مجھ سے، زندگی بنا دوں گا
٭٭٭
وہ پہلی محبت تھی عطاؔ پہلی محبت
اور راس ہمیں دوسری آنی بھی نہیں تھی
٭٭٭
پہلے دل کی پڑی ہوئی تھی ہمیں
اور اب جان کی پڑی ہوئی ہے
٭٭٭
یہاں گم سم سے لوگوں پر کبھی پلکیں نہیں اٹھتیں
اشارا کرنے والوں کو اشارا ہونے لگتا ہے
٭٭٭
عطاؔ بے صبر لوگوں کے کبھی برتن نہیں بھرتے
گزارا کرنے والوں کا گزارا ہونے لگتا ہے
٭٭٭
کئی پرہیز گاروں کے تعاقب سے عطاؔ بچ کر
بڑی مشکل سے پہنچا ہوں میں ان بدنام لوگوں میں
٭٭٭
سب کو کیسے دیکھ پاتا تم پہ مرتے ہوئے
اس لیے میں احتیاطً مر گیا تھا
٭٭٭
جان کہنے سے کبھی جان نہیں ہوتی ہیں
لڑکیاں اتنی بھی نادان نہیں ہوتی ہیں
٭٭٭
دل! تجھ میں ہر اچھی صورت بھر دوں گا
اک دن ساری دنیا خالی کردوں گا
٭٭٭
بیچ رستے کے روک دوں گا تجھے
زندگی! میں بھی دیکھ لوں گا تجھے
٭٭٭
اب اجاوت پہ تل گیا ہوں
جتنی چاہے مشکیں کس میری
٭٭٭
تم کو قتل کریں گے اور پھر یاد میں تیری
تیرے نام کا سکہ جاری کر دیں گے
سازشی دل! تجھے ہمت نہیں ہونے دوں گا
دوسری بار محبت نہیں ہونے دوں گا
٭٭٭
عطاؔ اس زندگی پر حق ہے بس خانہ بدوشوں کا
ہمیں دنیا کے موجود و میر مار دیتے ہیں
٭٭٭
بیٹھ کر کرتے ہیں جادو ٹونے
عین ممکن ہے ہمارا ہو جائے
٭٭٭
نا امیدی کا کل پر ٹالتے ہیں
آج کچھ راستہ نکالتے ہیں
٭٭٭
دل پہ دوہری گرہ لگائوں گا
ورنہ یہ بات بھول جائے گی
٭٭٭
مرا نعم البدل ملنے سے پہلے
مجھے جلدی مارا جا چکا ہے
ایسے ہی اور بہت اشعار ہیں جن میں جہاں سادگی، بے تکلفی اور بے ریائی کا عنصر نمایاں ہے تو دوسری طرف نشاطیہ آہنگ اپنی پوری توانائی سے موجود ہیں۔ ’’ہمیشہ‘‘ میں جہاں بہت سے نئے استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ وہیں بہت سے ذومعنی الفاظ بھی اپنا طلسم پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان ذومعنی الفاظ کے ہر دو پہلو خوش کن اور جاذب توجہ ہیں:
دھوپ اور دھول سے پژمردہ ہیں ان شہروں کے پھول
گائوں سے تتلی آکے انہیں تابندہ رکھے گی
٭٭٭
اک پھول کھلنے والا تھا چشمے کے آس پاس
خواہش کی آندھیوں میں بکھر تو نہیں گیا
٭٭٭
پہلے دل کی پڑی ہوئی تھی ہمیں
اور اب جان کی پڑی ہوئی ہے
٭٭٭
واپسی کے ہیں راستے دھندلے
آنکھ میں دوستی پڑی ہوئی ہے
٭٭٭
موڑ کی نیلی حویلی میں پچھل پیریاں ہیں
جان لے کر بھی پریشان نہیں ہوتی ہیں
٭٭٭
روز ٹکراتا ہوں سر اور عطاؔ جانتا ہوں
یہ چٹانیں کبھی انسان نہیں ہوتی ہیں
٭٭٭
شہر کی آنکھ میں مہتاب نہیں آسکتا
گائوں سے اڑ کے تو تالاب نہیں آسکتا
اُسلوب:
اردو غزل کے نہ صرف سانچے، آہنگ ، ترتیب اور مصرعوں کی بنت اولیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے بلکہ فنی وفکری اور نظریاتی اعتبار سے بھی اسلوب کے سانچے متعین ہیں۔ تو پھر منفرد اسلوب یا نیا اسلوب کی بحث کے کیا معنی ہیں۔ صاحبان نقد و نظر نے اس کے کئی جواب دیے ہیں۔ تاہم ذاتی رائے میں اسلوب وہ انفرادی انداز ہے جس میں کسی دوسرے گا رنگ ، فکر یا لفظی اثر موجود نہ ہو۔ یہاں تک کہ بار بار کے استعمال شدہ مضامین کو اس نئے اور منفرد انداز میں بیان کرنا کہ پامال مضمون بھی پوری آب و تاب اور پورے ذائقے کے ساتھ پڑھنے والے کو متاثر کرے۔ یا پھر یہ کہیں کہ استعمال شدہ شعری زمینوں میں ایک ایسی نئی شعری فصل تیار کی جائے جس کا ذائقہ منفرد ہو۔ چناں چہ اگر احمد عطاءؔ اللہ کی شعر ی فصل کو درج بالا بحث کے آئینے میں پرکھا جائے تو اس جواب اور نتیجہ اثباتی ہو گا۔ احمد عطاءؔ اللہ نے نہ صرف اپنے طرز تکلم میں بے ساختہ پن میں مبتلا ہیں بلکہ ان کے شعر بھی اسی بے ساختگی کا نمونہ ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ احمد عطاءؔ اللہ کے شعر پر کسی دوسرے کے رنگ کی اثر پذیری نہیں۔ البتہ ممکن ہے آئندہ کسی گہر ی نظر کے حامل صاحب علم کو عطاءؔ کے مضامین میں میرؔ کی جھلک یا غالبؔ کی ندرت خیالی نظر رکھی جائے تب بھی یہ محض ایک جھلک ہی ہوگی نہ کہ غلبہ اور یہی انفرادیت عطاءؔ اللہ کی شاعری کو قابل لحاظ اور قابل توجہ بناتی ہے۔ چناں چہ’ہمیشہ‘‘ کے انتسابی جملے اور کتاب کی شروعات میں یہ انفرادی شعر اس بات کی بین ثبوت ہے۔
ہر کسی کا خود سے پہلا عشق
دوسرا، دوسری محبت ہے
اس خاک کے ذرے مری پلکوں پہ جڑے تھے
وہ خاک جو میں نے ابھی چھانی بھی نہیں تھی
٭٭٭
کچھ تو یہ صبح لائی ہے امید
اور کچھ رات کی پڑی ہوئی ہے
٭٭٭
ہماری زندگی پر ہے ہمارے عشق کا سایہ
کہ ہم جو کام کرتے ہیں خسارا ہونے لگتا ہے
٭٭٭
زمین و آسماں کے سارے صحرا رقص کرتے ہیں
کسی پر عشق جب بھی آشکارا ہونے لگتا ہے
٭٭٭
اس لیے میں سوچتا تھا خودکشی کا
مجھ سے پہلے میرا دشمن مر گیا تھا
٭٭٭
وقت سے پہلے بوڑھی ہونے لگتی ہیں
بچوں کے دکھ مائوں میں رہ جاتے ہیں
٭٭٭
کاٹے نہیں کٹتی ہے یہ جنت کی اداسی
مر جائیں گے دنیا میں اتارا نہ گیا تو
بڑے شہروں میں دیکھے ہیں بہت سے گہرے نیلے لوگ
زباں سے زخم دیتے اور چھو کر مار دیتے ہیں
٭٭٭
ہماری آخرت ہو کیسے بہتر
ہمیں دنیا پر وارا جا چکا ہے
٭٭٭