(Last Updated On: )
احمدعطاؔ اللہ جدید غزل گو شعرا کی فہرست میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔احمد عطاؔ اللہ کی غزل مظفر آباد کے شعری منظر نامے میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کی غزل میں موضوعات روایت کے ساتھ ساتھ جدید شعری تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔ کشمیر کے دیگر شعرا کے برعکس عطاءؔ ؔ کی شاعری کا موضوع گائوں اور گائوں کی زندگی ہے۔ یہ تحقیقی کام میں نے ایم اے اردو کی تکمیل کے لیے بہ طور سندی تحقیق کیا۔اس تحقیق کے لیے میرے انتہائی شفیق دوست شوکت اقبال مصورؔ نے میری رہنمائی فرمائی جب کہ میرے محترم استاد ڈاکٹر عابد ؔسیال نے موضوع کے حوالے سے بھر پور حوصلہ افزائی کی۔اس موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ احمد عطاؔ اللہ ایک انسان دوست شخصیت کے حامل ہیں۔ میری اُن کے ساتھ ادبی شناسائی چند سال قبل ہوئی۔ اُن کے بارے میں میرا یہ خیال غلط تھا کہ اس تحقیقی کام کے حوالے سے مجھے اُن سے بھرپور مدد حاصل ہو گی۔ میرا پہلا امتحان تو اس وقت ہی شروع کیا جب ان کا پہلا مجموعہ ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ مجھے تلاش کرنا پڑا۔یہ مجموعہ نہ تو صاحبِ کتاب کے پاس تھا اورنہ ہی اُن کے کسی دوست سے مجھے یہ مجموعہ دستیاب ہوا کئی کتب خانوں تک بھی رسائی کی مگر ناکامی ہوئی۔ میری یہ کوششیں شائد کبھی بار آورثابت نہ ہوتیں اگر اویس بُزدار نہ ملتے۔ میرے اس ادب پرور دوست نے جب میری پریشانی کو دیکھا ناقابل ِ یقین طور پرتونسہ شریف سے یہ مجموعہ مجھے ڈھونڈ کر دیا۔ جس کے لیے میں اویس بزدار کا ممنون ہوں۔ مجموعے کے علاوہ بھی احمد عطاءؔ اللہ کے پاس کوئی معاون مواد دستیاب نہ ہو سکا جس کی وجہ سے مجھے خاصی دقت کا سامنا رہا تاہم کچھ دوستوں کی محبت اور حوصلے نے میرے ارادوں کو ٹوٹنے نہ دیا اور یہ جاں گسل کام بالآخر میں نے مکمل کر ہی لیا۔
اس کام کی تکمیل پر اللہ رب العزت کا جس قدر شکر کروں کم ہے۔جس نے مجھے ہمت اور طاقت بخشی بہ قول میردردؔ:
ہووے نہ حَول وقُوت اگر تیری درمیاں
جو ہم سے ہو سکے ہے،سو ہم سے کبھو نہ ہو
اس کے بعد میں ان ہستیوں کا شکریہ اد ا کرتا ہوں جنھوں نے دامے،درمے،سخنے ہر طرح سے میری اعانت کی،میری مراد میرے والدین ہیں جنھوںنے میرے اس تعلیمی سفر میں میری بھر پور مدد کی اور مجھے کسی بھی مرحلہ پر معاشی تنگی کا سامنا نہ ہونے دیا۔میں اپنے استادِ محترم ڈاکٹر نعیم مظہر کا ممنون ہوں جو میرے اس تحقیقی کام کے نگران بھی تھے کہ انھوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی ۔ میں شکر گزار ہوں اپنے اَساتذہ ٔکرام ڈاکٹر شفیق انجمؔ، ڈاکٹر صائمہ نذیر، ڈاکٹر عابدؔ سیال، ،ڈاکٹر ظفر احمد،ڈاکٹر نازیہ ملک، ڈاکٹر بشریٰ پروین،ڈاکٹر فوزیہ اسلم اور اپنی صدر شعبۂ اردو ہر دل عزیز استاد اور ایک ماں کی شفقت کی حامل پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شہناز کا۔ نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ،اسلام آباد کے تمام اَساتذہ کا حوصلہ بھی میرے لیے مشعل راہ بنا۔ اس کے علاوہ میرے بہن بھائیوں کی دعائیں بھی میرے ساتھ رہیں۔ میں اپنے محسن شوکت اقبال مصورؔ کا تہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نہ صرف مواد کی فراہمی میں مدد فراہم کی بل کہ میرے حوصلے کو کبھی کم زور نہ ہونے دیا۔ میرے نہایت عزیز دوست حسنؔ ظہیر راجا کی محبتوں نے اس کام کی تکمیل میں مجھے جو حوصلہ دیا میں اُس کا بدلہ چکانے سے قاصر ہوں۔ اس کے علاوہ میرے عزیزدوست محمد جاوید( کوٹ پھپھرہ) کا بھی شکریہ۔ایک ہستی نے مجھے انگلی پکڑ کر چلایا اور اگر اس ہستی کی محبت نہ ہوتی تو یہ کام کرنا تو کجا اس سطح پر پہنچنا بھی ناممکن تھا،میری مراد میرے محسن ، میرے استاد، میرے دوست نذیرحسین اعوان ہیں۔نذیر بھائی نے جو کچھ میرے لیے کیا وہ اتنا ہے کہ اس کے لیے شکریے کا لفظ ہیچ ہے، انھوں نے اس حال میں مجھے تھاما جب میں خود سے بھی نا آشنا تھا۔نذیر بھائی کے لیے فقط دعا کہ جن کی محبت میرے لیے سرما یۂ حیات ہے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر اپنے تمام احباب اور اَساتذہ کرام کا شکر گزار ہوں کہ جن کی شفقت اور محبت قدم قدم پر میرے ساتھ ہے۔
فرہاد احمدفگارؔ
ستمبر،۲۰۱۴
مکان نمبر ۱۔محلہ مسجدِ سلیمانی،لوئر چھتر ،مظفرآباد
رابطہ نمبر:۰۳۳۳۴۹۴۹۲۲۷