(Last Updated On: )
احمد عطاؔاللہ کی بہت سی شاعرانہ خوبیوں میںسے ایک خوبی یہ ہے کہ آپ فکر کو شعر کے پیکر میں ڈھالتے ہوے فنی ملمع کاری سے کام نہیں لیتے۔ عام شاعرانہ روش کے برعکس اُن کے ہاں زخم کو پھول، صر صر کو صبا ،ہوس کو محبت اور بلوائی کو مجاہد کہنے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ احمد عطااللہ معاشرے کو تہذیب،جدت اور روایت کے رنگین عدسوں سے کم اور فطرت کی سادہ آنکھ سے زیادہ دیکھتے ہیں اور یوں بہ غور دیکھتے ہیں کہ اُن کا مشاہدہ کرنے والے کو محض اچٹتی سی نگاہ ہی کا گمان ہوتا ہے۔اُن کے ہاں کوئی دعوا یا نعرہ نہیں ملتا۔اگر کہیں ملتا بھی ہے تو وہ’’محبت فاتح عالم‘‘ کا ملتا ہے۔عطا صاحب بلا کے طناز ہیں لیکن شعروں میں ان کی طنازی خال خال نظر آتی ہے۔ان کی طنازی اس نشتر کے مانند ہے جو صرف فصد کھولنے کے کام آتا ہے اور یوں کہ تکلیف کا شائبہ ہو یا نہ ہو لیکن راحت کا شافی سامان مہیا ہو جاتا ہے۔
آپ کی شعری تراکیب بہ ظاہر سادہ ہوتی ہیں لیکن انھیں عطا ؔصاحب کی شعری ثقافت کے تناظر میں دیکھیں تو پھر ان کی پرکاری کا انکشاف ہوتا ہے اور آدمی گھنٹوں سرشاری کی کیفیت میں رہتا ہے۔احمد عطا ؔاللہ ایک عام سی بات کی نئی جہت ڈھونڈ کر اسے شعر بنا لیتے ہیں۔ان کی شاعری میں امید اور رجائیت کا رنگ نمایاں ہے۔ یہی چیزیں ان کی گفت گومیں بھی نظر آتی ہے۔
ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گویم نہ شبم
نہ شب پرستم کہ حدیثِ خواب گویم
آپ تخلیقی عمل کے دوران میں فطری احساسات میں کہیں کہیں فلسفے کو یوں آمیخت کرتے ہیں کہ معنی دو آتشہ ہو جاتے ہیں۔آپ ایسے موضوعات کو بھی بہت سہولت اور چابک دستی سے شعر کے قالب میں ڈھال لیتے ہیں کہ اگر دوسروں کو ایسا کرنے کا شوق چراے تو فطری جذبے کے ایسے خوب صورت ابلاغ کے لیے درکار حوصلے اور فنی نزاکتوں کی کمی سے قلم پر رعشہ طاری ہو جاے۔احمد عطاؔاللہ کے شعروں کی پرتیں کھولنے کے لیے ایک مبسوط مضمون درکار ہے(اور یہ مضمون ایک مدت سے لکھنے کی خواہش بھی ہے)۔سو اس کو کسی اور وقت پہ اٹھا رکھتے ہیں۔ برادرم فرہاد احمد فگارؔ نے جب مجھے اس حوالے سے کچھ لکھنے کا کہا تو بہ خوشی میں نے یہ بھاری پتھر اٹھانے کی ناکام سعی کر ڈالی۔جناب فرہاد اُردو کے ایک سچے عاشق ہیںاور ہمہ وقت ہر خاص و عام کے لیے مائل بہ اصلاح رہتے ہیں۔طبیعت میں فروتنی کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔آپ اردو کے عشق میں اس درجے پہ فائز ہیں کہ کسی کا خراب چال چلن تو برداشت کر سکتے ہیں مگر خراب تلفظ نہیں۔اردو املا کے حوالے سے رشید حسن خاں کے ٹھیٹھ مقلد ہیں۔مجھے اپنے دوست کی اردو سے محبت اورلسانی وہابیت پر فخر ہے۔اُردو کو چند اور ایسے دیوانے مل جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔آخر میں عطاؔ صاحب کے تین شعر:
اپنے جیسوں سے عطا عشق کیا ہے میں نے
مجھ سے ناراض ہیں یہ عشقِ حقیقی والے
٭٭٭
سرخ ہونٹوں کو مرے سرمئی زخموں پہ سجا
تیز میٹھے کو یہاں ہلکے سے نمکین پہ رکھ
٭٭٭
بارش تھی صبح سے ہی بدن تاپتے رہے
وہ آگ تھی پڑوس میں ہم گھر نہیں گئے
احمد وقار،نیلم
۲۷/نومبر/۲۰۱۹ء