(Last Updated On: )
سبزہ زاروں، لالہ زاروں اور زعفران زاروں کی سر زمین کشمیر کہلاتی ہے۔ آکاش کو چُھوتی چوٹیاں، رومان پرور وادیاں، ہوش ربا آبشاریں، جادوئی جھرنے، راج دریااورخوش نوا پرندے بلا شبہ کشمیر جنت نظیر ہے لیکن قدرتی حسن کشمیر کا واحد حوالہ نہیں ہے۔ یہ وادی اساطیری دور سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے۔ ادب کو اساطیر سے نکالنے کا سہرا بھی اہلِ کشمیر کے سر ہے۔ کشمیر ایرانِ صغیر بنا تو یہاں غزل آئی۔ مغلوں نے اسے نگین، نشاط اور نسیم ایسے باغوں، خوش نظر پھولوں اور سر کشید چناروں کے ساتھ ساتھ مشاعرے سے آشنا کیا۔آزاد کشمیر کے حصے میں جنت کا جو ٹکڑا آیا ہے اسے نیلم کہتے ہیں۔ جہاں صدیاں گیانیوں کو نروان اور پنڈتوں کو عرفان ملتا رہا ہے۔ چین اور وسط ایشیا تک سے لوگ ودیا، شانتی اور شکتی کے لیے براستہ مظفر آباد شاردا آتے رہے ہیں۔ آج بھی یہ عمودی پٹی تخلیق کاروں سے اٹی ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ فرہاد احمد فگارؔ سے احمد عطاؔاللہ تک پھیلا ہوا ہے۔
فگارؔ کا تعلُق مظفرآباد سے ہے۔ ویسے تو ان کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ہیں لیکن بنیادی طور پر آپ محقق ہیں۔ ادبی اور لسانی تحقیق کی بازی لگی ہو تو بے خطر کود پڑتے ہیں۔ اگر تلفُظ غلط ہو تو درستی ان پر فرض ہو جاتی ہے، شعر کسی اور سے منسوب کر دیا جائے تو فوراً آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ اگر پرائے مال پر کوئی ہاتھ صاف کر دے تو مالِ مسروقہ کی برآمدگی اور اسے اصل مالکان تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتے۔ بدقسمتی سے تحقیق کا دشت جنوں خیزوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ تحقیق کے دریا کو گوگل کی ٹنل سے کراس کر لیا جاتا ہے’’ ٹرن اٹ ان‘‘ کی ٹلی بجتی ہے نہ’’ ایچ ای سی‘‘ کی آنکھ کھلتی ہے۔ اس ماحول میں فگارؔ ایسے تیشۂ بے ستوں کا دم غنیمت ہے۔ جو اب ”اردو املا اور تلفظ کے بنیادی مباحث” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ سندی تحقیق کے لیے اس کوہِ بے ستوں کا انتخاب ان کی فرہاد حوصلگی کا مظہر ہے۔
فرہاد کی خوش نصیبی ہے کہ انھیںبہترین اَساتذہ ملے۔ زیرِ مطالعہ مقالے کا داخلی اور خارجی حسن ڈاکٹر نعیم مظہر کا رہینِ منت ہے۔ جن کی چشمِ نگراں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے درجنوں فگاروں کو فرہاد بنا چکی ہے۔
فرہاد سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب وہ نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز(نمل)اسلام آباد سے ایم اے کر چکے تھے۔ بعد ازاں اسی ادارے سے ایم فل اوراب یہیں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ فگار جس کا روزانہ مظفر آباد پڑھا کر اسلام آباد پڑھنے جانا جُرأتِ رِندانہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالرز اپنے ایم اے کے مقالوں میں گنجائشیں خود ہی بھانپ لیتے ہیں اور انھیں چھُپاتے پھرتے ہیں۔ لیکن فرہاداحمد فگارؔ اسے ہو بہو چھَاپنے پر تلے بیٹھے ہیں۔اگر تحقیق ”حسن” کی تلاش کا نام ہے تو مقالہ نگار کو گلشن ِکشمیر کے خوش رنگ پھول احمد عطا ؔاللہ کے انتخاب پر داد دینی چاہیے۔ غزل اور عطاؔ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ دونوں حسن میں ڈھلے ہیں۔ بلاشبہ احمد عطا ؔاللہ ایک کھلی کتِاب ہیں لیکن ان کی فکر کے کچھ ریشے ریشم سے زیادہ لطیف ہیں۔۔۔ انھوں نے جس طرح مجاز کو منکشف اور گاؤں کو گلوریفائی کیا ہے اس پر مستقل مقالے لکھے جانے چاہیے۔ اس جمال دوست نے غزل کے لیے دل کا در اس طرح کھولا ہے کہ انھیں بھول جانا کسی کے بس میں نہیں۔ وہ ہمیشہ عکسِ خوش بو کی طرح رہیں گے۔ ان کا والہانہ پن فگار جانوں اور فشار جسموں سے خراجِ عقیدت وصول کرتا رہے گا۔
تحقیق فرہاد کی شیریں ہے۔ اس تک پہنچے کے لیے اس نے اپنے فگار جسم سے مسائل کا کوہِ چناس ہی نہیں کاٹا، نیلم جہلم بھی پاٹا ہے۔ ”دومیل” سے سفر آغاز کرنے والا اب ایکسپریس پر رواں دواں ہے۔ ایک دن ’’فرہاد احمد فگارؔ‘‘ گوگل Google) (کیا تو گویا اردو باغ کا دریچہ کھل گیا۔ اب ان کا مرتّبہ افتخارمغل کا ایم فل اردو کا مقالہ ’’آزاد کشمیر میں اردو شاعری‘‘ شائع ہوا ہے۔ ان کے کام کی رفتار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت جلد ان کا شیلف ان کی اپنی کتابوں سے سجنے والا ہے۔ ان کتابوں میں رکھا ان کے عشق کا یہ نقشِ اوّلین انھیں آغازِ سفر کی یاد دِلاتا اور گرماتا رہے گا۔
پروفیسرحبیب گوہرؔ، کہوٹہ
۳۰/نومبر/۲۰۱۹ء