مرثیہ حالیؔ کی نظر میں ایک اخلاقی صنف ہے اس لیے وہ اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس خاص طرز کے مرثیہ کو اگر اخلاق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی ہمارے نزدیک اردو شاعری میں اخلاقی نظم کہلانے کا مستحق صرف انھیں لوگوں کا کلام ٹھیر سکتا ہے۔ بلکہ جس اعلیٰ درجہ کے اخلاق ان لوگوں نے مرثیہ میں بیان کیے ہیں اُن کی نظیر فارسی بلکہ عربی شاعری میں بھی ذرا مشکل سے ملے گی۔ ‘‘
وہ میرانیسؔ کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر یہ لکھتے ہیں کہ:
’’میرانیس کا کلام جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا بلاشبہ مبالغہ اور اغراق سے خالی نہیں مگر اس کے ساتھ ہی جہاں کہیں وہ واقعات کا نقشہ اُتارتے ہیں یا نیچرل کیفیات کی تصویر کھینچتے ہیں یا بیان میں تاثیر کا رنگ بھرتے ہیں وہاں اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ مقتضائے وقت کے موافق جہاں تک کہ امکان تھا میرانیس نے اردو شاعری کو اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ ‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں :
’’انھوں نے بیان کرنے کے نئے نئے اسلوب اردو شاعری میں کثرت سے پیدا کر دیے۔ ایک واقعہ کو سو سو طرح سے بیان کر کے قوتِ متخیلہ کی جولانیوں کے لیے ایک نیا میدان صاف کر دیا اور زبان کا ایک معتدبہ حصہ جس کو ہمارے شاعروں کی قلم نے مَس تک نہیں کیا تھا اور جو محض اہلِ زبانوں کی بول چال میں محدود تھا اُس کو شعرا سے روشناس کرا دیا۔ ‘‘
اس سلسلہ میں انھیں یہ اعتراض ضرور ہے کہ:
’’رزم بزم اور فخر و خود ستائی اور سراپا وغیرہ کو داخل کرنا، لمبی لمبی تمہیدیں اور توتیے باندھنے ، گھوڑے اور تلوار وغیرہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرنی اور شاعرانہ ہنر دکھانے مرثیہ کے موضوع کے بالکل خلاف ہیں۔ ‘‘
ایسے اخلاقی مضامین جو مرثیہ میں بیان ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے اُن کے نزدیک مرثیہ کی صنف خاص طورسے قابلِ قدر ہے وہ صبر، شکر، راضی بہ رضا الٰہی رہنا، استقامت، غیرت و حمیت، وفاداری وغیرہ ہیں۔