قصیدہ کے سلسلہ میں بھی حالیؔ اصلیت اور واقعیت پر ہی اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ بار بار اس بات پر اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:
’’زمانے کا اقتضا یہ ہے کہ جھوٹ، مبالغہ، بہتان، افترا، صریح خوشامد، ادعائے بے معنی، تعلی بے جا، الزام لایعنی، شکوۂ بے محل اور اور اسی قسم کی باتیں جو صدق و راستی کے منافی ہیں اور جو ہماری شاعری کے قوام میں داخل ہو گئی ہیں اُن سے جہاں تک ممکن ہوقاطبۃ احتراز کیا جائے۔ ‘‘
وہ قصیدہ گوئی کے فرائض کا ذکر کرتے ہوئے قرآن اور حدیث کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
’’شاعر کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ اچھوں کی خوبیوں کو چمکائے۔ ان کے ہنر اور فضائل عالم میں روشن کرے اور ان کے اخلاق کی خوشبو سے موجودہ اور آئندہ دونوں نسلوں کے دماغ معطر کرنے کا سامان مہیا کر جائے۔ اور نیز برائیوں اور عیبوں پر جہاں تک ممکن ہو گرفت کرے تا کہ حال اور استقبال دونوں زمانوں کے لوگ برائی کی سزا اور اس کے نتائج سے ہوشیار اور چوکنّے رہیں۔ یہ وتیرہ بالکل سنتِ الٰہی کے مطابق ہو گا کیوں کہ کلامِ الٰہی میں بھی ہمیشہ بروں کو برائی کے ساتھ اور بھلوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ‘‘
اردو قصائد کی تشبیب کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ان تشبیبوں میں بھی کسی حقیقی واقعہ کا ذکر نہیں ہوتا۔ اکثر ایک فرضی موسم بہار کا ذکر ہوتا ہے جس کا اس دنیا کی بہار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر زمانہ کی شکایت ہوتی ہے تو اپنے اصلی مصائب بیان نہیں کیے جاتے بلکہ جیسے مصائب پرانے شعرا نے بیان کیے ہیں انہی کی نقل کی جاتی ہے اور بس۔
جہاں تک قصیدہ کے مدحیہ حصے کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی حالیؔ کا خیال ہے کہ اس میں ممدوح کی اصلی خوبیاں بیان نہیں کی جاتیں ، بلکہ اکثر وہ باتیں بیان کی جاتی ہیں جو اس کے اندر موجود نہیں ہوتی ہیں۔ حالیؔ کے الفاظ میں :
’’ممدوح کی طرف اکثر وہ خوبیاں منسوب کی جاتی ہیں جن کی اضداد اس کی ذات میں موجود ہیں مثلاً ایک جاہل کو علم و فضل کے ساتھ، ایک ظالم کو عدل و انصاف کے ساتھ، ایک احمق اور غافل کو دانش مندی اور بیدار مغزی کے ساتھ، ایک عاجز بے دست و پا کو قدرت و مکنت کے ساتھ، ایک ایسے شخص کو جس کی ران نے کبھی گھوڑے کی پیٹھ کو مَس نہیں کیا شہ سواری اور فروسیت کے ساتھ۔ غرض کوئی بات ایسی نہیں بیان کی جاتی جس پر ممدوح فخر کر سکے یا جس سے لوگوں کے دل میں اس کی عظمت اور محبت پیدا ہو اور اس کے محاسن و مآثر زمانہ میں یادگار رہیں۔‘‘