شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دینے کے لیے حالیؔ تخیل کے بعد مطالعۂ کائنات کو انتہائی ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اگرچہ قوت متخیلہ اُس حالت میں بھی جب کہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو اُسی معمولی ذخیرے سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے ، لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخۂ کائنات اور اُس میں خاص کر نسخۂ فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ انسان کی مختلف حالتیں جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں اُن کو تعمق کی نگاہ سے دیکھنا، جو امور مشاہدے میں آئیں اُن کے ترتیب دینے کی عادت ڈالنی، کائنات میں گہری نظر سے وہ خواص اور کیفیات مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکر میں مشق و مہارت سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کر سکے ، اور اس سرمائے کو اپنی یاد کے خزانے میں محفوظ رکھے۔ ‘‘
’’… غرض کہ یہ تمام باتیں جو اُوپر ذکر کی گئیں ایسی ضروری ہیں کہ کوئی شاعر اُن سے استغنا کا دعوا نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ ان کے بغیر قوت متخیلہ کو اپنی اصلی غذا جس سے وہ نشوونما پاتی ہے نہیں پہنچتی۔ بلکہ اس کی طاقت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ ‘‘
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں اور ایک بنیادی اصولی اور فلسفیانہ بات لکھتے ہیں :
’’قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادّے کے پیدا نہیں کر سکتی، بلکہ جو مسالا اُس کو خارج سے ملتا ہے اُس میں وہ اپنا تصرف کر کے ، ایک نئی شکل تراش لیتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے نامور شاعر گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرت انسانی کے مطالعے میں ضرور مستغرق رہے ہیں۔ جب رفتہ رفتہ اس مطالعے کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے ، اور مشاہدوں کے خزانے گنجینۂ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔ ‘‘
اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ سر والٹراسکاٹ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہے تھے تو اپنی نوٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خود رو پھول پودوں اور میووں کی تفصیلات نوٹ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے اُن سے اس کی وجہ پوچھی تو اُن کا جواب تھا کہ دنیا میں کوئی دو چیز ایک طرح کی نہیں ہے۔ حالیؔ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تخیل کی وسعت کا تعلق مطالعہ کی وسعت سے ہے۔ جس شخص کا مطالعہ جتنا وسیع ہو گا، اُس کا تخیل بھی اتنا ہی وسیع ہو گا۔