1893 میں انھوں نے اپنا مجموعۂ کلام ’دیوانِ حالی‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس میں اُن کی کچھ غزلیں ابتدائی زمانہ کی تھیں اور کچھ بعد کے زمانے کی تھیں۔ ابتدائی زمانے کی غزلوں کے آگے ’ق‘ لکھا ہوا تھا جب کہ بعد کے زمانے کی غزلوں کے آگے ’ج‘ لکھا ہوا تھا۔ ’ق‘ قدیم رنگ کو ظاہر کرتا تھا اور ’ج‘ جدید رنگ کو ظاہر کرتا تھا۔ جدید اور قدیم کے اس فرق کو ظاہر کرنے اور شعر گوئی کے اپنے تصور کی وضاحت کے لیے انھوں نے اپنے دیوان کا ایک طویل مقدمہ لکھا۔ بعد میں یہی مقدمہ الگ سے کتابی شکل میں دیوان کے بغیر شائع ہوا، اور اس کا نام مقدمۂ شعر و شاعری رکھا گیا۔ آج تک یہ اسی نام سے شائع ہو رہا ہے۔
مقدمۂ شعر و شاعری کو موٹے طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ شاعری کے نظریاتی مباحث سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ عملی تنقید کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
پہلے حصہ میں جن مسائل سے بحث کی گئی ہے وہ شاعری کی تاثیر سے متعلق ہیں۔ پھر شاعری کو اخلاق کے ساتھ جو ربط و تعلق ہے اس سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں حالیؔ کا یہ جملہ خاص طورسے قابلِ ذکر ہے کہ:
’’شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف، اس کو علم اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘
اس کے بعد حالیؔ نے ایک بہت اہم عنوان قائم کیا ہے یعنی ’شاعری سوسائٹی کے تابع ہے۔ ‘‘ یہ جملہ دراصل حالیؔ کی تنقید کے لیے کلیدی جملہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے دو مزید عنوانات قائم کیے ہیں :
۱۔ بُری شاعری سے سوسائٹی کو کیا نقصان پہنچتے ہیں۔
۲۔ بُری شاعری سے لٹریچر اور زبان کو کیا صدمہ پہنچتا ہے۔
ان دونوں موضوعات کے تحت بھی شاعری اور سماج کے رشتہ سے ہی بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ:
’’شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ جب جھوٹی شاعری کا رواج تمام قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغے سے سب کے کان مانوس ہو جاتے ہیں۔ جس شعر میں زیادہ جھوٹ یا نہایت مبالغہ ہوتا ہے اس کی شاعر کو زیادہ داد ملتی ہے۔ وہ مبالغے میں اور غلو کرتا ہے تا کہ اور زیادہ داد ملے۔ اُدھر اس کی طبیعت راستی سے دور ہوتی جاتی ہے اور ادھر جھوٹی اور بے سروپا باتیں وزن و قافیہ کے دل کش پیرایہ میں سنتے سنتے سوسائٹی کے مذاق میں زہر گھلتا جاتا ہے … چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق ذمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑتے جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے ساتھ ہزل و مسخریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔ ‘‘
آپ نے دیکھ ا کہ حالیؔ کو جھوٹ اور مبالغہ، مسخریت اور ہزل گوئی سے بالکل نفرت ہے۔ وہ کوئی ایسی چیز برداشت نہیں کر سکتے ہیں جو سماج کو خراب کرنے والی ہو۔ وہ سماج کو اپنی تنقید میں بنیادی اہمیت دیتے ہیں ، اور سماج کی اصلاح اور فلاح کے نقطۂ نظر سے ہی شعر و ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ شاعری کے لیے وزن کو ضروری قرار نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں :
’’جس طرح راگ فی حد ذاتہٖ الفاظ کا محتاج نہیں اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔ ‘‘
وہ لکھتے ہیں کہ وزن سے شعر کی خوبی اور تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن وزن پر شعر کا انحصار نہیں ہے۔ اسی طرح حالیؔ قافیہ کو بھی شعر کے لیے غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’جس طرح صنائع لفظی کی پابندی معنی کا خون کر دیتی ہے اُسی طرح بلکہ اُس سے بہت زیادہ قافیے کی قید ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔ شاعر کو بجائے اس کے کہ اوّل اپنے ذہن میں ایک خیال کو ترتیب دے کر اُس کے لیے الفاظ مہیا کرے ، سب سے پہلے قافیہ تجویز کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے مناسب کوئی خیال ترتیب دے کر اس کے ادا کرنے کے لیے الفاظ مہیا کیے جاتے ہیں جن کا سب سے اخیر جز قافیۂ مجوزہ قرار پا سکے … پس درحقیقت شاعر خود کوئی خیال نہیں باندھتا بلکہ قافیہ جس خیال کے باندھنے کی اُسے اجازت دیتا ہے ، اُس کو باندھ دیتا ہے۔ ‘‘
ظاہر ہے حالیؔ کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں ہے ، اس لیے وہ وزن کی طرح قافیہ کے بھی مخالف ہیں۔