(Last Updated On: )
دنیائے اردو ادب کی عالمی شہرت یافتہ ادبی شخصیت زیب النساء عہد ِحاضرکی اعلٰی تعلیم یافتہ سنجیدہ معتبر اور علم وادب میں انفرادی قابل ذکر اہم خدمات کے سبب نمایاں مقام کی حامل شاعرہ و ادیبہ کی حثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ زیب النساء کراچی میں اقبال بیگ اور زہرا خاتون کے ہاں ٣ جولائی ١٩٥٨ء کو پیدا ہوئیں، ان کے دیگر بہن بھائیوں میں ٤ بھائی اور ٣ بہنیں شامل ہیں۔ ایم_اے صحافت، ایم اے سیاسیات کی سند جامعہ کراچی سے حاصل کی۔ زیب النساء کی شادی محمد اقبال شیخ (سابق سرکاری افسر) سے ہوئی، ان کی اولاد میں دو بیٹیاں عنبرین افشاں اور سحرین درخشاں ہیں۔ آپ محکمہ اطلاعات حکومت سندھ میں افسر اطلاعات کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئی ہیں۔
ادب کی مختلف اصناف پہ سب سے زیادہ کتب تخلیق کرنے کا سہرا آپ کے سر ہے۔ آپ نے جن اصناف کتب تحریر کی ہیں اُن میں شاعری، غزل ، افسانہ ، ناول ، کالم ، تحقیق ، تنقید، مقالے تراجم ، تبصرے تذکرے شامل ہیں آپ 85 سے زائد کتب اور پانچ ضخیم کلیات کی خالق ہیں جبکہ آپ نے 25 نصابی کتب بھی تصنیف و تالیف کی ہیں۔
آپ کو یہ بھی اختصاص حاصل ہے کہ آپ نے عالمی سطح پہ نظم کی سب سے زیادہ اصناف پہ نا صرف شاعری کی ہے بلکہ اُنکی تیکنک بھی لکھی ہیں۔ نظم کی ستر اصناف پہ ان کی یہ کلیات “سخن تمام” کے نام سے ٢٠١٣ء میں شائع ہوئی۔ اس اہم، منفرد اور قابل ذکر ادبی کام سے دنیا بھر کے محققین پی ۔ایچ ۔ڈی اور ایم فل کے طلبہ و طلبات تمام یونیورسٹیز میں استفادہ کر رہے ہیں۔
دنیائے ادب میں رباعی گو شاعرہ کی حثیت سے بھی ان کی ایک نمایاں پہچان ہے۔ انہوں نے رباعی کی ٢٤، اوزان بحر ہزج ١٢ شجرہ اخرب اور ١٢ شجرہ اخرم میں رباعیات کہی ہیں۔
زیب النساء زیبی نے اردو ادب میں ایک شعری صنف “سوالنے” بھی ایجاد کی ہے۔
” سوالنے” یہ ایک سہ مصری نظم ہے جو تمام بحور میں لکھی جاتی ہے اور جواب بھی بین السطور مل جاتا ہے۔
آپ نے تخلص کے بے نام نشان جس کو بزرگ شعرا ڈوئی کہتے تھے اسے ایک ادبی نام دیا
یعنی تخلص کو “موخلص” (mookhalaas)کا ادبی نام تفویض کر کے اردو ادب کی ڈکشنری میں ایک نئے لفظ کا اضافہ کیا
زیب النساء زیبی کو عالمی سطح پہ تقربیا ایک ہزار تروینیاں لکھنے کا بھی اعزاز حاصل ہے(یہ صنف انڈیا کے شاعر گلزار کی اختراع ہے)۔
اُن کی ان علمی ادبی و سماجی خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ایک روڈ اُن کے نام سے “زیب النساء زیبی روڈ” منسوب کیا گیا ہے۔
تصنیفات:
انہوں نے نظم کی جن ٧٠ شعری اصناف پہ دنیائے ادب میں پہلی مرتبہ شاعری کی ہے۔ ان کے نام یہ ہیں۔
• حمد و نعت
حرف حرف بندگی (مجموعہ نعت)
بھیگی بھیگی پلکیں (مجموعہ نعت)
• بچوں کا ادب
چاند ستارے آسمان
پھول کلیاں خوشبو
کہکشاں در کہکشاں
• فکاہیہ شاعری
یہ عالم شوق کا
ایسی تیسی
یہ کہانی اور اور ہے
سہ مصرعی نظمیں
تنہا تنہا چاند
• ہائیکو
مجھے کچھ کہنا ہے
کبھی تو ملیں گے
• سوالنے
آتی رت کا پھول(ذاتی اختراع)
• تروینی
تیرا انتظار ہے (اردو میں دوسرا اور کسی شاعرہ کا پہلا مجموعہ تروینی)
• قطعات
سحر درخشاں
عنبر وافشاں
• رباعیات اور دوہے
یاد کے موسق
• مسمط
تم سے دور تو نہیں (مثلث، مربع، مخمس، مسبح، مثمن، متسح، معثر، مسمط، تربیج بند، ترکیب بند میں)
ہتھیلی پر گلاب (چہار بیت، کہہ مکرنی، لوری، کافی، ڈھولا، گیکت، پہلی، ہیر، خماسی، پنجگانہ، سداسی، ملی نغمہ، قوالی، سہرا رخصتی یا مصری تکونی، ترائیلے)
• ناولٹ
خاموش جنازے، جہنم کے فرشتے، دلدل، کالی زبان، شہزادے کا انتظار، سیر عدم کی اروو ہے اور ہم ہیں دوستو اور ناول میں!۔ ۔۔۔ آدھی گواہی
کلیات:
• سخن تمام، کلیات اول
( ستر سے زائد نظمیہ شعری اصناف پر زیب النساء زیبی کی دنیا کی پہلی کلیات “سخن تمام ” اس میں ان کے نظمیہ شاعری کے 23 مجموعے شامل ہیں۔
2013ء، زیبی اینڈ عا ئزاز پبلیکیشنز کراچی
• کارِ دوام، کلیات دوئم غزلیات کے 21 مجوعے شامل ہیں۔
کراچی، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، اشاعت 2014ء
• ” عکسِ زندگی”،(کلیات افسانے ناولٹ اور ناول)
اس میں افسانوں کے سات مجموعے،سات ناولٹ اور ایک ناول شامل ہے۔
• کلیات چہارم ” متاعِ زیست ” اس میں 20 تحقیق و تنقید کالم مقالات کے مجموعے شامل ہیں۔
اشاعت 2019
• کلیات پنجم شاعری “حرف ناتمام ” اس میں 12 شعری مجموعے شامل ہیں۔
اشاعت 2019
اعزازات:
”سخن ور ادبی ایوارڈ“ ٢٠١٣ء میں سخن ور فاؤنڈیشن کی جانب سے دیا گیا۔
”اعتراف فن و شخصیت ایوارڈ“ ٢٠١٧ء میں دیا گیا
”فخر ادب ایوارڈ“ ڈاکٹر محمد شاہد عالم صدیقی نے ١٩٩٨-٩٩ء کے درمیان دیا گیا۔
زیب النساء زیبی کو اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔
نمائندہ اشعار:
زیبی کے نمائندہ اشعار درج ذیل ہیں۔
؎ کون ہے وہ جو میری خوبیاں پہچانے گا
شہر کی گلیوں میں آباد ہیں سب تنگ نظر (١)
؎ میں ہواوں کے مخالف چلی زیبی لیکن
میری قسمت ہے کہ رستہ وہی سیدھا نکلا (٢)
؎ نہیں شرمندہ ِ احساں کسی کی
خود اپنے کام سے ہوں ضوفشاں (٣)
؎ مجھ سے خالی مکان بولے گا
میں جو خاموش ہو گئی تو پھر
بعد میرے جہان بولے گا (٤)