(Last Updated On: )
جرنیل بطور چیف ایگزیکٹو
جنرل ضیاء کی ہلاکت کے ساتھ ہی پاکستان میں فوجی اقتدار کا دوسرا عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس کے بعد جو سویلین دور آیا اسے مشرف حکومت کی طویل تمہید قرار دیا جا سکتا ہے جو ملک کی مختصر سی تاریخ میں بے نظیر دور تھا۔دس سال تک ملک کی دو سیاسی خاندان شاہیوں کے افرادباری باری ملکی معاملات چلاتے رہے۔ یہ دس سالہ عہد پاکستان کی تاریخ کا اہم دور تھا۔ المیئے کی بات ہے کہ نہ تو بھٹو کی بیٹی
بے نظیر اور نہ جنرل ضیاء کے شاگردِ خاص ،نواز شریف ملکی معاملات موثر انداز میں چلا سکے اور دونوں کے پیشِ نظر ذاتی مفادات ہی رہے۔ اقرباء پروری، لوٹ مار اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی ان کی کمزور حکومتوں کا طُرہ امتیاز رہا۔
دسمبر 1988ء میں پینتیس سالہ بے نظیر نے جنرل ضیاء کی موت کے فوری بعد ہونے والے انتخابات جیت لئے جس پر فوج کو خاصا طیش آیا۔ ملّاوںکی شدید مخالفت کے باوجود وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ ان کے والد کی پھانسی کے خلاف غصے کے اظہار کا لوگوں کو یہ پہلا موقع ملا تھا۔ بے نظیر کے منشور میںغریبوں کی خاطر چند اصلاحات کا وعدہ کیا گیا تھا مگر یہ ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ کے نعرے سے کہیں دُور تھا۔بے نظیر کے پاس انتخاب کی راہیں محدود تھیں۔ ان کے مخالفین ریاستی ڈھانچے میں قدم جمائے بیٹھے تھے جبکہ وہ خود سیاسی لحاظ سے کمزور تھیں۔ جب میں انکی کامیابی کے کچھ عرصہ بعد ان سے ملا تو وہ لطیف حد تک راست باز تھیں: ’’میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ ایک طرف فوج ہے اور دوسری طرف صدر (اسحق خان ،سابق بیوروکریٹ جس نے بھٹو کے خلاف ضیاء کا ساتھ دیا)‘‘۔ یہ بلا شبہ مشکل صورتحال تھی۔ میرا مشورہ تھا کہ ٹی وی پر آ کر لوگوں کو بتائو کہ آپ اس قدر بے اختیار کیوں ہیں۔شہریوں کو شعور دینے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ میرا دوسرا مشورہ تھا کہ ایسی اصلاحات تو کر دی جائیں جن کے لئے اربوں درکار نہیں ہوتے۔ وہ کم از کم ملک بھر میں لڑکیوں کے لئے سکول تو کھول دیں یا جنر ل ضیاء کے اس حدود آرڈیننس کا خاتمہ تو کر دیں جس نے عورت کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا تھا اور جو جنسی زیادتی کو بھی زنا کا ارتکاب قرار دیتا تھا۔انہو ںنے اثبات میں سر ہلایا مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔بطور وزیر اعظم تو ضیاء کے بھوت سے بھی بدلہ نہیں لے سکتی تھیں کجا یہ کہ کوئی با معنی آئینی ترمیم متعارف کروا دی جاتی۔ ضیاء نے جو نظام متعارف کروایا ،اسے کبھی بدلنے کی جرات ہی نہیں کی گئی۔بے نظیر کے اکثر حامی اقتدار میں واپسی پر اس قدر خوش تھے کہ انہیں اپنے سوا کسی کی فکر ہی نہیں تھی۔ مدت پوری ہونے سے پہلے ہی بے نظیر کی حکومت کو ابھی بیس ماہ ہی ہوئے تھے کہ صدر اسحق خان نے وہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے ، جو 1973 ء کے آئین میں جنرل ضیاء نے متعارف کروائے تھے،اگست 1990 ء میں بدعنوانی کے الزام اور اپنے آبائی صوبے سندھ میں لسانی فسادات کو قابو کرنے میں ناکامی پر بر طرف کر دیا۔کوئی بڑا عوامی ردِ عمل نہیں ہوا۔ اس کے بعد جو انتخابات ہوئے وہ نواز شریف نے جیتے اور وہ نئے وزیر اعظم بن گئے۔ نواز شریف کی بھی صدر سے نہیں بنی اور انہیں 1993 ء میں بر طرف کر دیا گیا۔اکتوبر 1993 ء میں ہونے والے انتخابات تک عالمی بنک کے ایک سابق ملازم معین قریشی کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا ۔ انتخابات میں بے نظیر کامیاب قرار پائیں۔
دریں اثناء ، سویت دستوں کی 1989 ء میںیک طرفہ واپسی کے باوجود افغانسان میں بحران جاری رہا۔دونوں ملک ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو گئے تھے۔افغانستان میں استحکام لانے کے لئے سویت تجویز یہ تھی کہ ماسکو وقت کے ساتھ ساتھ پرانے افغان رہنمائوں اور کیڈرز کو ملک سے باہر لے جائے گا اور آئندہ حکومت کے لئے ایک ڈھانچہ چھوڑ جائے گا۔ پاکستان نے اس معقول تجویز کو رد کر دیا۔ واشنگٹن کے پرانے دوست، پاکستانی وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب کسی قسم کا سمجھوتہ نہیںچاہتے تھے۔ان کے آقا بھی نہیں چاہتے تھے۔ لہو کی باس ان کے نتھنوں میں تھی لہٰذا انہوں نے مختلف مجاہد دھڑوںکو جنگ جاری رکھنے کے لئے کہا۔ سویت نواز افغان فوج جو شکست خوردہ بھی تھی اور پست حوصلہ بھی،جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو گئی جبکہ افغان قیادت کا بڑا حصہ بیرونِ ملک فرار ہو گیا۔ صدر نجیب اللہ نے اقوامِ متحدہ کے دفتر میں پناہ لی۔ کابل کے ایک بڑے حصے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جس کے بعد افغان مجاہدین کے گروہ، اپنے غیر ملکی حامیوں کے لئے باعثِ پشیمانی بنتے ہوئے، باہم دست و گریبان ہونے لگے۔ سیاسی اختلافات توپوں کے ذریعے نپٹائے جانے لگے۔ مختلف صدور اور وزراء کی آمیزش پر مبنی حکومتیں بھی امن وامان بحال کرنے میں ناکام رہیں۔ کوئی موثر مرکزی حکومت نہ تھی۔ بندوق بردار ’’ٹیکس وصول کرنے والے‘‘ بن گئے اور تجارت ختم ہو کر رہ گئی۔ اگر کچھ مقدس تھا تو وہ تھی پوست۔
بے نظیر کے دوسرے دورِ حکومت (1993-96) میں ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ طالبان کو سیاسی و فوجی طاقت بنا کر افغانسان پر قبضہ کر لیا جائے ۔ اس اقدام کو امریکی سفارت خانے نے نیم دلی سے آشیر باد دی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک بار جو سویت دستے واپس چلے گئے تو امریکہ کی افغانستان میں دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی۔
اس بابت بے نظیر کی تردیدیں کبھی بھی قائل نہ کر سکیں کہ انکی حکومت طالبان کی پشت پر اصل طاقت تھی۔1994 ء میں جب میں آخری بار ان سے ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انکی حکومت صرف افغان مہاجرین کو واپس بھیج رہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کر رہی ۔ مہاجرین کی واپسی کے پردے میں آئی ایس آئی کو بھیجا جا رہا تھا۔ طالبان ( جس کے معنی طالب علم کے ہیں ) افغان مہاجرین اور غریب پشتون خاندانوں کے بچے تھے جنہوں نے اسّی کی دہائی میں مدرسوں سے تعلیم حاصل کی۔ یہ طالبان پیادہ سپاہ تھے، ملاّ عمرجیسے چند تجربہ کار مجاہدین انکی کمان کر رہے تھے۔ پاکستانی مدد کے بغیر طالبان کبھی بھی کابل پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے یہ الگ بات ہے کہ ملاّ عمر خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے اور وہ یہ حقیقت اسی طرح فراموش کر دیتے تھے جس طرح شیخ اسامہ بن لادن اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ سویت شکست جہادی کارنامہ تھا اور انہیں یاد نہیں رہتا تھا کہ کافروں نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور انکی مدد کے بغیر فتح نا ممکن تھی۔ ملاّ عمر کا دھڑا حاوی تھا مگر آئی ایس آئی کا اثر و رسوخ بھی اس تنظیم پر ہمیشہ موجود رہا۔ اسلام آباد نے تحمل کا دامن نہ اس وقت چھوڑا جب 1999 ء میں ملاّ عمر کے متعصب حامیوں نے پاکستانی سفارت خانے کو آگ لگا کر اپنی آزادی کا اظہار کیا نہ ہی اسوقت جب ملاّ عمر کی مذہبی پولیس نے پاک افغان دوستانہ فٹ بال میچ روک دیا کیونکہ پاکستانی کھلاڑیوں نے ایک تو نیکریں پہن رکھیں تھیں ،دوسرا لمبے لمبے بال رکھے ہوئے تھے۔حیرت زدہ تماشائیوں کے سامنے پولیس نے پاکستانی کھلاڑیوں کو دُرے لگائے، انکے سر مونڈھ دئیے اور انہیں واپس بھیج دیا۔پاکستان میں ہونے والا جوابی میچ منسوخ کر دیا گیا۔
بے نظیر کے پہلے دورِ حکومت میں جہاد نواز، جنرل گل حسن آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔انہوں نے بے نظیر کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش بھی کی تھی ۔ 2007 ء میںبے نظیر کی ہلاکت پر انہوں نے بے نظیر کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا:
’’انہیں جہادیوں نے ہلاک نہیں کیا۔ انہوں نے تو ماضی میں جہادیوں کی کسی حد تک حفاظت کی۔ میں آپ کو بتائوں کہ بے نظیر نے کبھی بھی کشمیر پر نرمی نہیں دکھائی۔ میں ان کے دور میں آئی ایس آئی کا سربراہ تھا۔ طالبان ان کے دوسرے دورِ حکومت میں سامنے آئے اور انہوں نے جب کابل پر قبضہ کیا تو بے نظیر ہنوز وزیر اعظم تھیں۔ ان کے وزیر داخلہ سرِ عام طالبان کی سرپرستی کرتے تھے‘‘۔1
بے نظیر کی دوسری حکومت اس وقت مشکلات کا شکار ہو گئی جب اپنے ہی منتخب کئے ہوئے صدر فاروق لغاری، جو پی پی پی کے پرانے جیالے تھے، انکی حکومت سے غیر مطمئن ہو گئے۔ 1996ء کے اوائل میں جب میں اسلام آباد گیا تو بظاہر نظر آنے والا سکون کسی طوفان کاپیش خیمہ تھا۔ میں اپنی والدہ کے ہمراہ اسلام آباد میں ان کے پسندیدہ ریستوران میں دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ ساتھ والی میز سے ایک خوش مزاج،مونچھ بردار شخص حال احوال پوچھنے پہنچ گیا۔ انکی اہلیہ بے نظیر بھٹو سرکاری دورے پر بیرونِ ملک تھیں ۔ اس دوران بچوں کی دیکھ بھال وزیر سرمایہ کاری آصف علی زرداری کی ذمہ داری تھی اور وہ بچوں کو سپیشل ٹریٹ دینے ریستوران لائے تھے۔ حال احوال پوچھا گیا۔ میں نے ان سے ملکی حالات بارے دریافت کیا تو ایک مسحور کن مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے جواب دیا ’’فائن‘‘۔ ’’سب ٹھیک ہے‘‘۔ زرداری کو زیادہ باخبر ہونا چاہئے تھا۔ اسلام آباد میں محلاتی بغاوت کی سازش ہو رہی تھی۔ بینظیر کو شاندار دھوکا دیا جانے والا تھا۔ فوج اور حزبِ اختلاف کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کے بعد فاروق لغاری بے نظیر کی حکومت بر طرف کرنے والے تھے۔ اسی ہفتے کھانے کی ایک دعوت میں ایک اعلیٰ سرکاری اہل کار سے ملاقات ہو گئی جو بے نظیر کے زبردست مداح تھے مگر مایوسی کا شکار تھے۔ا نہوں نے بتایا کہ صدر نے بحران کا حل تلاش کرنے کے لئے بے نظیر کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ بے نظیر حسبِ معمول اپنے شوہر کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔ فاروق لغاری خاصے برہم ہوئے کہ جن موضوعات پروہ بے نظیر کے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے ان میں سے ایک موضوع تھا زرداری کی مبالغہ آمیز لوٹ مار۔ اس کے باوجودلغاری نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور شاہی جوڑے کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ صرف ان کے سیاسی مخالفین ہی اقدام اٹھانے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ بدعنوانی کا پیمانہ اور اس کے نتیجے میں انتظامی امور کے اندر آنے والے زوال نے قومی سکینڈل کی شکل اختیار کر لی ہے۔ فاروق لغاری پر فوج اور دیگر حلقوں کا دبائو ہے کہ وہ کوئی اقدام اٹھائیں۔اس دبائو کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں بے نظیر کی مدد درکار تھی۔ انہوں نے بے نظیر سے استدعاکی کہ وہ زرداری اور بعض دیگر بے قابووزراء کو کسی ضابطے کا پابند بنائیں۔ اپنے مادی مفادات کا ہٹ دھرمی اور مستقل مزاجی سے دفاع کرنے والے آصف زرداری نے اس موقع پر صدر کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان کے اندر بشمول صدر لغاری کسی کا دامن صاف نہیں۔ یہ سیدھی سادی دھمکی تھی: تم ہمیں ہاتھ لگائو گے تو ہم تمہیں ننگا کریں گے۔
لغاری کو لگا کہ ان کے منصب کی توہین ہوئی ہے۔ ان کا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ غصے سے کانپنے لگے۔ انہوں نے وزیر سرمایہ کاری کوکمرے سے نکل جانے کے لئے کہا۔ بے نظیر کے سر کے اشارے پر زرداری نے کمرہ خالی کر دیا۔ لغاری نے ایک مرتبہ پھر بے نظیر کو اپنے بے لگام شوہر کو قابو میں رکھنے کی ترغییب دی۔ بے نظیر نے مسکراتے ہوئے اپنے صدر کو اس بات پر چھوٹا سا لیکچر دیا کہ وہ وفاداری کو کس قدر اہمیت دیتی ہیں۔ شکایت کرنے والوں بارے بے نظیر نے کہا کہ وہ سب تو زرداری کی کاروباری صلاحیتوں سے جلتے ہیں۔ ان سب کا تو پیشہ ہی شکایتیں لگانا ہے اور غصہ ا ن بدمعاشوں کو اس بات کا ہے کہ انہیں پوچھا نہیں جاتا۔ بے نظیر نے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھیں کہ فوج بغاوت کی تیاری کر رہی ہے۔یہ درست ہے کہ ہر جرنیل اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ جنرل آصف نواز (1991-93 فوج کے سربراہ)نے مشورے کے باوجود ایسا نہیں کیا اور اِنکی اچانک، بے وقت موت سے افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ انکی بیوہ اور دیگر بہت سے لوگوں نے اس شک کا اظہار کیا کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔1
ان کے جانشین جنرل عبدالوحیدکاکڑ (1993-96) اپنے دوستوں سے کہتے ہوئے سنے گئے کہ امریکی سفارت خانے کے مطابق بحران کے پیشِ نظر کوئی سخت اقدام ہوا توواشنگٹن کے لئے قابلِ فہم ہو گا۔ کاکڑ بھی سیاست سے باہر ہی رہے گو وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی پر وہ غصے میں تھے اور ایک مشہور واقعہ کے مطابق کہا جاتا ہے انہوں نے بے نظیر کے روبرو ان کے خاوند کے لالچ بارے شکایت کی۔’’ آپ اسے طلاق کیوں نہیںدے دیتیں یا اسے مروا کیوں نہیں دیتیں ؟ ‘‘ جنرل نے بے نظیر سے پوچھا۔
’’جنرل صاحب ! آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو برائے مہربانی مجھے بھیج دیجئے‘‘، بے نظیر نے نرمی سے جواب دیا۔
کاکڑ پُر امن طریقے سے ریٹائر ہو گئے اور انکی جگہ جنرل جہانگیر کرامت آ گئے جو ایک اور پیشہ ور فوجی تھے اور فوجی بغاوت سے باز رہے۔ بے نظیر کو برطرف کرنے کے چند ماہ بعد صدر لغاری نے مجھے بتایا کہ بے نظیر کے ساتھ مندرجہ بالا ملاقات، ایسی کئی ملاقاتوں کی آخری کڑی، فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ وہ بے نظیر کی زیادتیاں مزید برداشت نہیں کر سکتے تھے۔اگر بے نظیر کی حکومت جاری رہتی تو فوج ملکی تاریخ کی چوتھی مداخلت کر دیتی۔انہوں نے کہا کہ کچھ پس و پیش کے بعد انہوں نے آٹھویں ترمیم ۔۔۔۔قوم کو ضیاء کا تحفہ،جس کے تحت صدر منتخب حکومت بر طرف کر سکتا ہے۔۔۔۔استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ نئے انتخابات نوے دن کے اندر کرانا لازمی تھا۔ بے نظیر اور ان کے شوہر کے خلاف سب سے بڑا الزام بد عنوانی کا تھا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وزیراعظم کے طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ان دونوں نے بے شمار دولت جمع کی اور اپنے اثاثوں کو بیرونِ ملک منتقل کر دیا جن کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر کے پیٹے میں تھی۔ زرداری کو گرفتار کر لیا گیا مگر ان کے کاروباری حصہ داروں نے خوب نبھائی۔ ان میں سے ایک، پاکستان اسٹیل ملز کے سابق چئیرمین ، نے اپنے سابق مربی کے خلاف ثبوت پیش کرنے کی بجائے خود کشی کر لی۔ بے نظیر کے قریبی ساتھیوں کا کہنا تھا کہ بے نظیر کی سیاسی شہرت کو ان کے شوہر نے خراب کر کے رکھ دیا ،جسے وہ نو سر باز،، جعل ساز، نکما، دل پھینک اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتے۔مارچ 1999ء میں اسلام آباد میںایک سیمینار میں انہوںنے حمایتیوں کے سامنے اپنے شوہر کی صفائی پیش کرنا چاہی۔بے نظیر نے اتنا ہی کہا تھا کہ آصف زرداری بارے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ مجمعے نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے ’’نہیں، نہیں‘‘ کی آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ بے نظیر نے تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر آہ بھرتے ہوئے کہا ’’معلوم نہیں کیوں جب بھی میں زرداری کا ذکر کرتی ہوں تو لوگوں کا ردِ عمل ہمیشہ یہی ہوتا ہے؟‘‘
زرداری بے نظیر کی عدم مقبولیت کی واحد وجہ نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی نے ان غریبوں کے لئے کچھ نہیں کیا جو اس کا فطری حلقہ ء انتخاب تھے۔ بے نظیر کے اکثر وفاقی اور صوبائی وزیراپنی جیبیں بھرنے میں لگے تھے۔ جی حضوری کرنے والے اورخوشامدی ٹولے میں مستقل گھری ہوئی بے نظیر اپنے حلقہء انتخاب اور حقیقت، دونوں سے دور ہو چکی تھیں۔ملک مسلسل دیمک کا شکار بن رہا تھا۔ وہ ریاست جس نے کبھی بھی مفت تعلیم یا صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کیں اب وہ چاول، گندم اور چینی پر سبسڈی دینے حتیٰ کہ اپنے سب سے بڑے شہر میںآئے روز ضائع ہونے والی معصوم جانوں کے تحفظ میں بھی ناکام ہو چکی تھی ۔ یوں عوامی سطح پر مایوسی جنم لے رہی تھی۔ جنوری1999 ء کا ذکر ہے، حیدر آباد ، سندھ میں ایک ٹرانسپورٹ ورکر نے دو سال تک تنخواہ نہ ملنے پر پریس کلب کے باہر تیل چھڑک کر خود سوزی کر لی۔ اس نے اپنے پیچھے ایک خط چھوڑا جو اپٹن سنکلئیر کے ناول کا کوئی اقتباس معلوم ہوتا ہے:
’’میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ میں اور میرے ساتھی مزدورر ایک عرصے سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی نہیں سنتا۔ میری بیوی اور میری ماں سخت بیمار ہیں اور میرے پاس ان کے علاج کے لئے پیسے نہیں۔ میرا خاندان فاقے کر رہا ہے اور میں جھگڑوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ مجھے یقین ہے میرے جسم کے شعلے امیروں کے گھروں تک ضرور پہنچیں گے‘‘
بے نظیر کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شرمناک شکست ہوئی۔پاکستانی رائے دہندگان ہو سکتا ہے نیم خواندہ ہوں مگر انکی سیاسی نفاست شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ بے نظیر کے مایوس، نا امید اور شل ہو چکے حامیوں نے بے نظیر کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا مگر اس کے باوجودمخالف کو انہوں نے پھر بھی ووٹ نہیں دیا۔مسلم لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ قومی اسمبلی میں اسے دو تہائی نشستیں حاصل ہو گئیں البتہ ستر فیصد لوگ ووٹ دینے گھر سے نہیں نکلے۔
شریف برادران اقتدار میں واپس آ چکے تھے۔ ایک مرتبہ پھر چھوٹے بھائی شہباز شریف نے ، جو زیادہ چالاک تھے ، خاندانی نظم وضبط کی پابندی کی اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ 1998 ء میں نواز شریف نے پرویز مشرف کو سینئر جرنیل، جنرل علی قلی پر ترجیح دیتے ہوئے فوج کا سربراہ بنا دیا۔ نواز شریف کی شائد منطق یہ تھی کہ متوسط طبقے کا پس منظر رکھنے والے، اور انکی طرح ہی مہاجر،پرویز مشرف سے کام نکلوانا آسان ہو گا۔اس کے بر عکس علی قلی خان سرحد کے ایک پٹھان زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور صدر لغاری کے ہم جماعت رہ چکے تھے جو اپنے سابقہ پی پی پی تعلق کی وجہ سے نواز شریف کو نا پسند تھے۔ وجہ کچھ بھی ہو، نواز شریف کا انتخاب بھی اتنی ہی بڑی غلطی ثابت ہوا جتنی بڑی غلطی کا ارتکاب بھٹو نے کیا جب انہوں نے پانچ سینئر جرنیلوں پر فوقیت دیتے ہوئے ضیاء کو فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں تکریم کی نگاہ سے دیکھے جانے والے علی قلی خان کے کوئی سیاسی مقاصد نہ تھے اور وہ اپنے سے فوری قبل آنے والے فوجی سربراہوں کی طرح سیاست میں نہ آتے۔
بل کلنٹن کے کہنے پر نواز شریف نے بھارت کے ساتھ صلح کا عمل شروع کیا۔ انکی کاروباری جبلت کا بھی یہی تقاضا تھا۔ سفری و تجارتی معاہدوں پر بات چیت ہوئی، سرحدیں کھولی گئیں، فضائی راستے بحال کئے گئے لیکن اگلے مرحلے۔۔۔۔سفری آسانیاں اور سرحد پار ریل سفر کی سہولت۔۔۔۔ابھی آنا تھے کہ پاکستانی فوج نے ہمالیہ کے دامن میں پڑائو ڈالنا شروع کر دیا۔
اگر اعتدال پسندی سے کام لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کارگل اور اس کے پڑوس میں موجود علاقہ انتہائی دشوار گزار اور سال میں چھ ماہ خارج از دسترس رہتا ہے۔ پتھریلی چوٹیاں انیس ہزار فٹ تک بلند ہیں جبکہ سردیوں میں اوسط درجہ حرارت منفی ساٹھ ڈگری تک ہوتا ہے۔ جب برف پگھلتی ہے تو بھیانک چٹانیں نقل و حرکت کو بہت مشکل بنا دیتی ہیں۔ افسر اور سپاہی اس علاقے میں تعیناتی کو سائبیریا میں جلا وطنی سے تعبیر کرتے ہیں۔1977 ء سے پاکستان اور بھارت کے بیچ ایک غیر تحریری معاہدہ چلا آ رہا تھا کہ ہر سال پندرہ ستمبر سے پندرہ اپریل تک طرفین اس علاقے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ 1999 ء میں پاکستانی فوج نے کشمیر میں بھارت کو مشکل میں ڈالنے کے لئے اس معاہدے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے محدود جنگ شروع کر دی جس نے ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا کر دیا۔
بھارتی یقینا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پاکستانی فوجی اور لشکری بھارت کے زیر انتظام علاقے میں پہاڑی چوٹیوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ تنازعے کے ابتدائی چند ہفتوں میں تو اسے ہزیمت اٹھانا پڑی لیکن پھر بھارت نے مزید فوجی دستے ،گن شپ ہیلی کاپٹر اور لڑاکا طیارے بھیجے یوں پاکستانی سپاہی مارے جانے لگے اور بھارت کچھ علاقے واگزار کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ مئی تا جولائی 1999 ء ، تین ماہ کی لڑائی میں دونوں میں سے کوئی بھی فتح کا دعوٰی نہیں کر سکتا تھا مگر جانی نقصان دونوں جانب بہت ہو اتھا (دونوں نے ہزاروں سپاہی کھو دئے)۔ اپنی خود نوشت میں مشرف نے حیرت انگیز طور پر’’ جیت‘‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے فتح کا دعوٰی کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر اعلیٰ کمان کا ایک احمقانہ اقدام الٹا پڑ گیا تھا۔ جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق دونوں ملکوںکی فوجیں کشمیر کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول سے اپنی اپنی جانب پیچھے آ گئیں۔
ضیاء دور میں پاکستانی فوج کی صفوں میں جو نظریاتی تعصب متعارف کروایا گیا تھا اس کی کچھ تلخ یادیں ہنوز باقی تھیں۔ لازمی نمازاور یونٹوں کے ساتھ اماموں کی تعیناتی نے فوجیوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ دسمبر 2000 ء میں ایک سابق فوجی افسر نے مجھے کارگل فائر بندی کے بعد پیش آنے والا ایک پریشان کن واقعہ سنایا۔بھارتی فوجیوں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو بتایا کہ کارگل کے علاقے میں ہنوز ایک چوٹی پر پاکستانیوں کا قبضہ ہے اور یہ معاہدہ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے۔ ایک سینئر فوجی افسر تحقیق کے لئے وہاں گیااور اس نے چوٹی پر قابض فوجی کپتان کو حکم دیا کہ وہ قبضہ چھوڑکر لائن آف کنٹرول کے اس پار پاکستانی حصے میں واپس آ جائے۔ کپتان نے سینئر فوجی افسر اور اعلیٰ فوجی قیادت کو اسلام سے غداری کا الزام دیتے ہوئے افسر کو گولی سے اڑا دیا۔ اسلام پرست افسر کو آخر کار غیرمسلح کیا گیا۔ ایک خفیہ عدالت میں مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دیدی گئی۔
یہ جنگ شروع کیوں ہوئی؟ نجی طور پر شریف برادران ساتھیوں کو بتاتے پھر رہے تھے کہ فوج بھارت کے ساتھ انکی دوستی کے خلاف ہے اور اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے : فوج نے یہ کارروائی حکومتی اجازت کے بغیر کی ہے۔ اپنی خود نوشت میں مشرف نے اس بات پراصرار کیا ہے کہ جنوری اور فروری 1999ء میں دی گئی بریفنگز کے دوران وزیر اعظم کو مطلع کیا گیا تھا۔ یہ بات میرے مخبر (ایک سابق سرکاری افسر) جو اس بریفنگ میںموجود تھا ،کی دی گئی اطلاع سے میل کھاتی ہے۔جی ایچ کیو نے جو متاثر کن ویڈیو پیش کی، نوازشریف اس سے متاثر ہوئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس ویڈیو میں اپنے لوگ با آسانی فتح مند ہوتے دکھائی دئیے۔ نواز شریف نے آخر میں فقط اتنا پوچھا’’کیا آپ اسے جلدی نپٹا سکتے ہیں؟‘‘
جنگ کی اصل وجہ ڈھاکہ میں شکست تھی۔ اگر امریکی ویت نام کا بدلہ افغانستان میں لے سکتے تھے تو پاکستانی یہ کام کشمیر میں کیوں نہیں کر سکتے تھے؟ 1990ء میں کابل کے اندر حاصل ہونے والی فتح کے بعد سے آئی ایس آئی جہادیوں کو لائن آف کنٹرول کے پار بھیج رہی تھی ۔ وہ افغان آپریشن کو دہرانا چاہتی تھی مگر اب کی بار وہ یہ کام خود سے کر نا چاہ رہی تھی۔وہ اس صوبے کوغیر مستحکم کرنے میں تو کامیاب رہے مگر ہوا یہ کہ بھارت نے مزید دستے کشمیر بھیج دیئے اور اس بدنما کش مکش کا شکار عام کشمیری بنا۔ بھارتی دستے بلا شبہ بے رحم تھے مگر وہابیت کی مالا جپتے ہوئے جہادیوں نے بھی آبادی کے ایک اہم حصے کو اپنا دشمن بنا لیا۔ کشمیر میں اسلام کی نرم ،صوفی شکل ہمیشہ مقبول رہی ہے۔
کارگل جنگ اِبتکار کی ازسرنو تسخیر کی کوشش تھی۔ آج مڑ کر دیکھیں تو اس بات پر انسان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کہ پاکستان کے عسکری فلسفہ دان بھارت کو فوجی شکست دینے بارے سوچ رہے تھے۔ ایک بار جو بھارت کو اندازہ ہو گیا کہ پاکستان نے کھلم کھلا حملہ کر دیا ہے تو وہ جلد ہی سنبھل گیا اور اس نے اپنی آرٹلری اور فضائی قوت کو متحرک کیا۔ بحری ناکہ بندی کی غرض سے بھارت اپنی بحریہ کو بھی حرکت میں لے آیا۔ جب چھ دن کا ایندھن باقی رہ گیا تو پاکستانی ج ایچ کیو میں بیٹھے نپولین حضرات کے پاس جنگ بندی کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔ نواز شریف نے واشنگٹن سے کہا کہ انہیں ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا گیا جس کے وہ متمنی نہیں تھے مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد شریف خاندان نے مشرف سے گلو خلاصی کا منصوبہ بنایا آئینی طور پر بلا شبہ وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ فوجی سربراہ کو برطرف کر کے نیا سربراہ مقرر کر دیں جس طرح ستر کی دہائی میں بھٹو نے کیا جب انہوں نے ضیاء کوتعینات کیا۔ ان دنوں مگر فوج کمزور، منقسم اور ایک بڑی جنگ میں شکست کھائے ہوئے تھی۔ 1999 ء میں یہ صورتحال نہ تھی۔ اب یہ ایک احمقانہ اور مہنگی مہم جوئی تھی جو الٹی پڑی۔
مشرف کی جگہ نواز شریف کا انتخاب آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ تھے جو عموماََکمزور اور نا اہل تصور کئے جاتے تھے۔
انہیں جانچ پڑتال کے لئے وا شنگٹن بھیجا گیا اور وہاں انہوں نے بن لادن کا سر تھالی میں لا کر پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ اگر تو نواز شریف نے محض مشرف کو برطرف کیا ہوتا تو شائد کامیاب رہتے لیکن نواز شریف ذہانت کے زمرے میں جس چیز سے محروم تھے، انکے ضرورت سے زیادہ چالاک بھائی اپنی عیاری سے اس کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔ کیا شریف برادران واقعی اس قدر احمق تھے کہ انکے خیال میں فوج انکی سازشوں سے لا علم تھی یا انہیں امریکہ کے قادر المطلق ہونے پر بہت بھروسہ تھا؟ کلنٹن نے باقاعدہ تنبیہہ کی کہ امریکہ پاکستان میں فوجی بغاوت برداشت نہیں کرے گا۔ مجھے یاد ہے میں یہ بیان سن کر خوب ہنسا کہ پاک امریکہ تعلقات میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔نواز شریف کلنٹن کے بیان پر زیادہ ہی انحصار کر بیٹھے۔ انہیں پینٹا گون کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی سے بھی رابطہ کر لینا چائے تھا۔
اس صورتحال نے جس الم ناک طربیہ کھیل کو جنم دیا اس کی تفصیلات مشرف نے اپنی کتاب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ، جو لکھی ہی مغرب کے قارئین کو ذہن میں رکھ کرگئی تھی، میں صحت کے ساتھ بیان کی ہیں۔1
مشرف نے بتایا ہے کہ کس طرح وہ سری لنکا سے معمول کی ایک مسافر پرواز سے واپس آ رہے تھے کہ پائلٹ کو ہوائی اڈے پر نہ اترنے کی ہدایات ملیں۔ مسافر طیارہ ہنوز کراچی کی فضائوں میں چکر کاٹ رہا تھا کہ نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین کوبلا کر ٹی وی کیمروں کے سامنے فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔ دریں اثناء مشرف کے طیارے میں خوف و ہراس پھیل رہا تھا کہ اس میں ایندھن کم رہ گیا تھا۔ انہوں نے کراچی گیریژن کے کمانڈر سے رابطہ کیا ،فوج نے ہوائی اڈہ اپنے قبضے میں لے لیا اور جہاز حفاظت سے اتر گیا۔اسی اثناء میں فوجی دستوں نے اسلام آباد میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے کر نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل ضیاء ایک فوجی طیاے میں مارے گئے۔ جنرل مشرف ایک مسافر طیارے میں بیٹھے بیٹھے اقتدار پر قابض ہو گئے۔
یوں پاکستان میں فوجی حکومت کا تیسرا طویل دور شروع ہوا جسے نواز شریف کے سبھی سیاسی مخالفین نے خوش آ مدید کہا اور ان میں بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں(ہنوز انہیں مادرِ جمہوریت کا لقب نہیں ملا تھا)اور نواز شریف کے کچھ سابق ساتھی بھی۔ابتداء میں مشرف کو پاکستان میں مقبولیت حاصل تھی۔ اگر تو وہ کچھ اصلاحات متعارف کرواتے جن کے تحت بچوں کے لئے لازمی تعلیم اور ملائشیا کی طرح انگریزی کو دوسری زبان کے طور پر نصاب میں شامل کیا جاتا تاکہ بیرونِ ملک میں تعلیم پر اشرافیہ کی اجارہ داری ختم ہوتی، زرعی اصلاحات کی جاتیں جن سے دیہی علاقوں کے بڑے حصے اشرافیہ کی گرفت سے نکل پاتے، فوج سمیت دیگر سب اداروں میں بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا،کشمیر میں جہادی بھیجنے کا سلسہ بند کرکے بھارت کے ساتھ دیرپا تعلقات کا آغاز کیاجاتا تو وہ ایک مثبت اثاثہ چھوڑ کر جاتے۔ وائے افسوس! حسبِ توقع انہوں نے ایسی کوئی کوشش تک نہیں کی۔ ایک کام بہرحال مشرف نے کیا جو ایک تبدیلی تھی۔ انہوں نے آزاد ٹی وی چینلز کی اجازت دی جس سے سرکاری ٹی وی کی گھٹن آمیز گرفت سے نجات مل سکی۔ اس سے ملک میں ذرائع ابلاغ کی آزادی میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے نیٹ ورکس ایسے تھے جو چیلنج کر رہے تھے، تنقیدی تھے اور اس بات کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے کہ اقتدار میں موجود افراد ناراض ہو سکتے ہیں۔ مشرف اپنی اس رعایت پر بعد ازا ں پچھتایا کئے۔
سیاسی میدان میں انہوں نے اپنے پیشرو فوجی حکمرانوں کی نقل کی۔ انہی کی طرح انہوں نے وردی اتاری، سندھ میں جاگیرداروں کے منظم کئے ہوئے جلسے میں گئے اور سیاست میں شمولیت کا اعلان کردیا۔انکی جماعت؟ جنم جنم سے خاکی رنگ میں رنگی، جنم جنم کی درباری جماعت جسے ملک میں مسلم لیگ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔مشرف کے حامی؟ وہی پرانا گروہ جسے اقتدار سنبھالنے پر انہوں نے سخت سست کہا اور جن کے خلاف سنگین بد عنوانی کے الزام میں مقدمات چلائے۔جو ہونا تھا ہو کر رہا۔ گجرات کے چوہدری نواز شریف سے علیحدہ ہو کر جنرل کے ساتھ سودا کر چکے تھے۔ نواز حکومت میں داخلہ اور انسدادِ منشیات کے وزیر، چوہدی شجاعت حسین نے سوچا کہ حزبِ اختلاف میں رہنے سے کہیں سودمند ہے کہ فوج کے ساتھ معاملہ کر لیا جائے۔حیرت ہے کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
پہلا سنجیدہ بحران مشرف کو جس کا سامنا کرنا پڑا ، 11 ستمبر2001 ء کو سامنے آیا۔ محض اتفاق کہ اس ہفتے آئی ایس آئی کے با ریش سربراہ جنرل محمود احمد پینٹاگون کے مہمان کے طور پر واشنگٹن میں تھے۔جب حملے ہو رہے تھے ، جنرل محمود کیپیٹل ہِل پر سینٹ اینڈ ہاوس انٹیلی جنس کمیٹیز کے صدور، سینیٹر باب گراہم (ڈیموکریٹ) اور ایوانِ نمائندگان کے رکن پورٹر گوس کے ہمراہ سکون سے ناشتہ کر رہے تھے۔ گوس دس سال تک سی آئی اے کی خفیہ سرگرمیوں میں حصہ لے چکے تھے۔ دہشت گردی بارے بحث کے دوران اسامہ بن لادن کے افغانستان میں اڈے کا حوالہ دیا گیا۔دو حملوں کے درمیانی وقفے میں جنرل محمود نے اپنے میزبانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ملّا عمر پر مکمل بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور ملّا عمر کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کو نکال باہر کریں۔ ملاقات اسی انداز میں چل رہی تھی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دوسرا حملہ ہو گیااور سب وہاں سے روانہ ہو گئے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا آیا گراہم نے جنرل محمود سے ان معلومات بارے دریافت کیا جو ان کے عملے کو اس سال اگست میں آئی ایس آئی کے ایک اہل کار نے دیں تھیں کہ جڑواں میناروں پر جلد ہی حملہ ہونے والا ہے۔
اگلے روز جنرل محمود کو امریکہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی سمیت دفترِ خارجہ بلایا گیا جہاں رچرڈ آرمیٹیج نے انہیں وہ رسوائے زمانہ الٹی میٹم دیا جس کا انکشاف بعد ازاں اپنی کتاب کی مشہوری کے لئے مشرف نے واشنگٹن میں کیا: اگر تم ہمارے ساتھ نہیں تو پھر تم ہمارے دشمن کے ساتھ ہو اوراگر ہماری بات نہ مانی گئی تو ’’ہم بم مار مار کر تمہیں پتھر کے عہد میں پہنچا دیں گے‘‘۔مشرف کا اصرار تھا کہ یہ دھمکی دی گئی ہے۔ بش کو یقین تھا کہ ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے گئے ہوں گے۔ جنرل محمود اور آرمیٹیج نے تردید کی کہ ایسے الفاظ استعمال ہوئے تھے جس پرمشرف نے کہا کہ ان کے پاس دیگر ذرائع سے یہ خبر پہنچی۔ یقیناََ کچھ تو کہا گیا تھا لیکن کیا مشرف نے اپنے جرنیلوں کو ڈرانے کے لئے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ وہ سمجھ جائیں کہ امریکہ کی مانے بغیر چارہ نہیں یایہ فقط کتاب کی فروخت میں اضافے کا منصوبہ تھا؟ملیحہ لودھی نے اُس ملاقات کا ذکر اپنے منصب کے تقاضوں کے عین مطابق کیا: ملیحہ لودھی نے آرمیٹیج اور جنرل محمود کی بابت کہا کہ ’’ دونوں شدید تنائو کا شکار تھے‘‘۔آرمیٹیج نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا’’ یہ بہت مشکل لمحہ ہے۔ امریکہ کے لئے آج تاریخ کا آغازہو رہا ہے۔ ہم اپنے تمام دوستوں سے ۔۔۔۔صرف آپ کے ملک سے ہی نہیں۔۔۔۔یہ پوچھ رہے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف‘‘۔
اگلے روز دونوں کو پھر بلایا گیا۔ آرمیٹیج نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ان سات مطالبات پر مشتمل فہرست دی جو افغانستان میں جنگ کے حوالے سے امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان پورے کرے۔ فہرست پر نظر دوڑائے بغیر جنرل محمود نے اسے جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا کہ انہیں سب شرائط منظور ہیں۔ کچھ مطالبات چونکہ پاکستانی سا لمیت کی نفی تھیں لہٰذا رچرڈ آرمیٹیج کو خاصی حیرت ہوئی ۔انہوں نے جنرل محمود سے پوچھا کہ کیا وہ کسی قسم کا وعدہ کرنے سے پہلے جنرل مشرف سے مشورہ نہیں کریں گے۔ ’’ ضروری نہیں‘‘، جنرل محمود نے کہا۔ ’’ وہ مجھ سے اتفاق کریں گے‘‘۔ جنرل محمود کی امریکہ سے نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ انہیں یقیناََ یہ جلد ی تھی کہ وہ ملک واپس پہنچ کر اپنے ساتھیوں کو قائل کر سکیں کہ ان مطالبات کو سرے سے ہی نہ مانا جائے۔یہ مطالبات بعد ازاں گیارہ ستمبر کی سرکاری رپورٹ میں شائع ہوئے:
۱۔ القاعدہ کے عاملوں (آپریٹوز)کو سرحد پار نہ کرنے دی جائے اور بن لادن کو نقل و حرکت کے سلسلے میںکسی طرح کی مدد فراہم نہ کی جائے
۲۔ تمام ضروری فوجی اور انٹیلی جنس کارروائیوں کے لئے امریکی طیاروں کو پاکستانی حدود سے گزرنے اورپاکستان میں اترنے کی مکمل اجازت
۳۔ملک کے اندرامریکہ اور ا سکے اتحادی خفیہ اداروں کو القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے لئے مکمل اجازت
۴۔ امریکہ کو انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی
۵۔دہشت گرد حملوں کی کھلے عام مسلسل مذمت
۶۔طالبان کو ایندھن کی فراہمی پرمکمل روک اور افغانستان جنگ کی غرض سے جانے والوں پر روک
۷۔ بن لادن اور القاعدہ کے خلاف ثبوت مل جانے پر بھی اگر طالبان انہیں پناہ دیتے ہیں تو اس صورت میں طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کا خاتمہ
یہ مطالبات پاکستانی خودمختاری پر سیدھا سیدھا حملہ تھا، ان کے نتیجے میں پاکستان کی حیثیت برطانیہ والی بن کر رہ جاتی۔ مشرف نے بعد ازاں کہا کہ وہ دوسرے اور تیسرے مطالبے کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے تھے مگر واشنگٹن میں بلا شبہ یہ رائے نہیں پائی جاتی تھی۔کولن پاول نے نیشنل سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ پاکستان نے سارے مطالبات مان لئے ہیں۔ ایک مطالبہ جس کا ذکر اس فہرست میں نہیں تھا مگر خفیہ بات چیت میں کیا گیا ، وہ تھا ایٹمی تنصیبات تک امریکی رسائی۔ مشرف یہ مطالبہ مان سکتے تھے نہ انہوں نے مانا لہٰذا یورپی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ مہم چلائی گئی کہ ان ہتھیاروں کو جہادیوں سے ’’خطرہ‘‘ ہے۔
گیارہ ستمبر کے بعد پاکستانی جرنیلوں کو شدید مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ اگر وہ امریکی مطالبات نہ مانتے تو اسرائیل کی طرح امریکہ اسوقت بھارت میں حکمران مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ مسلم دشمن معاہدہ کر لیتے۔اگر وہ مطالبات مان جاتے تو اس حقیقت کے پیشِ نظر تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے تھے کہ آئی ایس آئی ضیاء دور (1977-88)سے بنیاد پرست گروہو ںکو پیسے دے رہی تھی۔ جرنیلوں کی اکثریت کی حمایت سے مشرف نے یہ فیصلہ کیا کہ کابل سے پسپائی ضروری ہے، طالبان میں موجود حامیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ امریکی قبضے کی مزاحمت نہ کریں اور پاکستان کے فوجی و فضائی اڈے امریکہ کے لئے کھول دئے جائیں۔ ان اڈوں سے اکتوبر 2001 ء میں افغانستان پر امریکی قیادت میں حملہ شروع ہوا۔
سچ تو یہ ہے کہ مشرف نے ہمیشہ تعاون نہیں کیا نہ ہی ہر مطالبہ تسلیم کیا۔انہوں نے حسِ مزاح کا مظاہرہ بھی کیا ورنہ انہوں نے ہوانا میں ہونے والی غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیوںکیا جو 11 ستمبر2006ء کو ہونے والی تھی؟وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے یہ مشورہ دیا:’’ آپ امریکیوں کے ساتھ بہت سختی کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ وہ کریں جو میں کرتا ہوں۔ وہ جو کہتے ہیں، مان جائیں مگر وہ کریں جو جی میں آئے۔‘‘
دریں اثناء آئی ایس آئی کے تلخ سربراہ کو ایک ساتھی سمیت کابل بھیجا گیا تا کہ وہ طالبان کو بتا سکیں کہ اگر انہوں نے القاعدہ کی قیادت کو پاکستان کے حوالے نہ کیا تو جنگ شروع ہو جائے گی۔ کچھ بھی ہو،طالبان قبضے کی مزاحمت نہیں کریں گے بلکہ بوریا بستر باندھ کر رفو چکر ہو جائیں گے۔ افغانستان میں موجود بری اور فضائی افواج کے اہل کاروں کو واپس بلا لیا گیا۔شتاب کار جنرل محمود نے پیغام تو پہنچا دیا مگر ساتھ اپنی طرف سے ایک اضافہ کر دیا۔ انہوں نے ملّا عمر سے کہا کہ وہ اپنی اعلیٰ کمان سے متفق نہیں اور طالبان کو مزاحمت کرنی چاہئے۔ اسلام آباد پہنچتے ہی جنرل محمود کو برطرف کر دیا گیا اور زیادہ تابعدار افسر طالبان کو یہ سمجھانے کے لئے بھیجے گئے کہ وہ امریکی فوجی قوت سے ٹکرانے کی مجنونانہ کوشش مت کریں۔ قیادت کے بڑے حصے نے یہی کیا اوراپنا وقت گزارا کئے۔ ملّا عمر نے اپنی قسمت القاعدہ سے تعلق رکھنے والے اپنے معزز مہمان کے ساتھ وابستہ کر لی۔ سویت مخالف جہاد میں حصہ لینے والے،ایک ٹانگ اور ایک آنکھ سے محروم ملّا عمر آخری بار ایک موٹر سائیکل پر سوار پہاڑوں کی جانب فرار ہوتے دیکھے گئے۔ فلم میں پیش کئے گئے اسٹیو میک کوئین کے بر عکس ملّا عمر تا حال مفرور ہیں۔ تمام تر جدید آلاتِ جاسوسی کے باوجود اُن کا سراغ نہیں مل سکا۔
گیارہ ستمبر کے بعد مشرف کی امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کے باعث انہیں پاکستان میں بُششرف کہا جانے لگا ۔ مارچ 2005 ء میں کونڈا لیزا رائس نے پاک امریکہ تعلقات کو ’’وسیع اور گہرے ‘‘ قرار دیا۔آخر واشنگٹن کو خوش کرنے کے لئے مشرف نے ایک فوجی کامیابی سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ جنرل مشرف ہمیشہ کہتے رہے کہ انہوں نے اگر واشنگٹن کی اطاعت قبول کی تو اس کی وجہ محکمہ خارجہ سے تعلق رکھنے والے سردار رچرڈ آرمیٹیج کی پتھر کے دور والی دھمکی تھی۔ پاکستان کو جس بات کا اصل خطرہ تھا، اس کا ذکر مشرف نہیں کرتے: اگر پاکستان انکار کر دیتا تو امریکہ بھارتی اڈے استعمال کرتا جن کی پیش کش موجود تھی۔
اس فیصلے کے باعث مشرف اپنی جان سے ہاتھ دھوتے دھوتے بچے۔ فوج کے رجعتی حلقے میں افغانستان کے انددر امریکی کامیابی پر بہت برا منایا گیا۔مشرقی بنگال میں جنگ کے بعد سے پاکستانی فوجیوں میں ہندو مخالف نظریات کی زبردست ترویج کی گئی تھی۔ ہندو دشمن تھے۔ وہ موقع ملتے ہی پاکستان کو تباہ کر دینا چاہتے تھے۔ اس پر مستزاد فوج کے اندر اسلامائزیشن کا وہ عمل جو ضیاء نے شروع کیا بالخصوص جب پڑوس میں سویت فوج کے خلاف جہاد جاری تھا۔ کچھ افسر یہ بات ہضم کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ ایک ایسی مسلم ریاست جسے بنانے میں انہوں نے مدد کی ہو، اس پر اب امریکہ قبضہ کر لے۔ کچھ سپاہیوں کے لئے بھی یہ شرمناک شکست تھی۔ جی ایچ کیو کے زیرِ اہتمام ’’فال آف طالبان‘‘ (طالبان کا زوال)کے عنوان سے ہونے والے ایک سیمینار،جس میں شرکت محدود نہ تھی،آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈئیر محمد یوسف بھی مدعو تھے۔وہ آئے اور انہوں نے سیمینار کے عنوان میں ’’اینڈ گورنمنٹ آفٹر طالبان ‘‘(طالبان اور طالبان کے بعد آنے والی حکومت کا زوال)کے الفاظ کااضافہ کر دیا۔وہ یہ ماننے پر تیار نہ تھے کہ کھیل ختم ہوچکا ہے۔وہ ایسے غلط بھی نہ تھے۔ فوجی صفوں سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر جہادیوں نے مشرف کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ انہیں لگا کہ ان سے دھوکا ہوا ہے۔ ان کی منطق سیدھی سی تھی: اگر سویت کافروں کے خلاف جہاد جائز تھا تو امریکی کافروں کے خلاف کیوں نہیں؟ نیبراسکا یونیورسٹی سے تیار ہو کر آنے والے قاعدوں نے اپنا اثر ضرور چھوڑا تھا۔
جب 1999 ء میں مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تووہ راولپنڈ ی میں موجود انگریز عہد کاآ رام دہ بنگلہ چھوڑ کر اسلام آباد کے بھدے طرزِ تعمیر والے ایوانِ صدر میں منتقل نہیں ہوئے جس کی آرائش اورطلائی فرنیچر دولتمند مشرقِ وسطیٰ کی نقالی ہے نہ کہ مقامی روایات کے آئینہ دار۔ دونوں شہر ہیں تو قریب ہی مگر ایک دوسرے سے قطعی مختلف۔ ہمالیہ کے قدموں میں ترتیب سے پھیلا اسلام آباد ،ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان نے بسایا تھا۔ وہ ایک ایسا دارالحکومت چاہتے تھے جہاں خطرناک عوامی ہجوم جمع نہ ہو سکیں اور جو انگریزوں کے بسائے ہوئے فوجی شہر راولپنڈی میں موجود جی ایچ کیو سے قریب ہو ۔تقسیم کے بعد جی ایچ کیو قائم کرنے کے لئے راولپنڈی ایک واضح انتخاب تھا۔
افغانستان کو فتح کرنے کے لئے انیسویں صدی میں ایک برطانوی نوآبادیاتی مہم (ایسی ہر مہم ناکامی سے ہی دوچار ہوئی) کی منصوبہ بندی راولپنڈی میں ہوئی۔ یہیں سے ڈیڑھ صدی بعد افغانستان کے اشتراکیوں کے خلاف جہاد شروع ہوا۔ یہیں پر امریکہ کے اس مطالبے پر ستمبر 2001 ء میںبحث ہوئی کہ وہ افغانستان پر حملے کے لئے پاکستانی اڈے استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس مطالبے کو تسلیم کیا گیا۔
کابل پر امریکی قبضے کے بعد کچھ دیر کے لئے تو سکون کی کیفیت نظر آئی جو خاصی گمراہ کن تھی۔ میں نے طالبان حکومت کی برق رفتار شکست کی پیش گوئی کی تھی کہ جی ایچ کیو اب ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا اور کہا کہ جہادی گروہ پاکستان میں ازسرِ نو مجتمع ہو کر، جلد یا بدیر، مشرف حکومت کو سزا دیں گے۔ اس کا آغاز 2002ء میں ہوا۔ مشرف پر خبر نہ بننے والے حملے کے بعد تین مشہور وَار ہوئے: وال اسٹریٹ جرنل کے نامہ نگار ڈینیل پرل کا اغوا اور بہیمانہ قتل، وزیرداخلہ کے بھائی کا قتل اور اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو ،جس کی زبردست حفاظت کی جاتی ہے، میں کلیسا پر حملہ۔ علاوہ ازیں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کا کراچی میں منصوبہ بند ی کے تحت قتل۔شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے درجن بھر ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا۔ یہ اقدامات پاکستان کے فوجی حکمران کو تنبیہہ کرنے کے لئے اٹھائے گئے تھے: اگر تم نے واشنگٹن کی زیادہ غلامی کی تو تمہارا انجام بھی یہی ہو گا۔
کیادہشت گردی کے ایسے تمام اقدام در حقیقت جیشِ محمد اور حرکتہ الانصار ایسی تنظیموں نے کئے جوعموماََ ایسے اقدامات کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں؟شائد مگر یہ کوئی مربوط دعوٰی نہیں۔ ان تنظیموں کو آخر کار ابھی کارگل جنگ کے زمانے تک ریاست پیسے بھی دے رہی تھی اور مسلح بھی کر رہی تھی۔ان کو غور سے دیکھئے اور آپ نقاب کے پیچھے موجود چہرے کو پہچان جائیںگے۔ یہ آئی ایس آئی ہے جو ان گروہوں کو استعمال کر رہی ہے اور پاکستان میں یہ راز سب کو ایک عرصے سے معلوم ہے۔ آئی ایس آئی کے وہ حلقے جو ان تنظیموں کی سرپرستی کرتے رہے ’’طالبان کی غداری‘‘ پر طیش میں تھے۔
جب تک اس بات کو نہیں سمجھا جاتا،طالبان کی رخصتی کے بعدملک کو دہلا دینے والی چنندہ دہشت گردی کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ مشرف کو بے نظیر اور نواز شریف کی طرح ضیاء الحق کی آئی ایس آئی وراثت میں ملی جس کا بجٹ اور حجم پہلی افغان جنگ کے دوران کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ 3 مارچ2003ء کو جاری ہونے والا وزیر خارجہ کولن پاول کا بیان جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کو ڈینیل پرل کے قتل سے بری الذمہ قرار دیا ،بہت سے پاکستانیوں کے لئے باعثِ حیرت تھا۔ ان دنوں میں نے پاکستان میںجس سے بھی بات کی اس نے اس بیان کے الٹ بات کی۔ مشرف یقینا اس میں ملوث نہیں تھے مگر صورتحال کی بابت انہیں بتایا تو گیا ہو گا ۔انہوں نے ڈینیل پرل کو ’’مداخلتِ بے جا کرنے والا صحافی‘‘ قرار دیا جو ’’خفیہ اداروں کے کھیل‘‘ کا شکار بن گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرف کواس بارے کچھ نہ کچھ اندازہ تو تھا۔کیا انہوں نے واشنگٹن میں اپنے افسرانِ بالا کو اس بارے میں کچھ بتایا؟اگر بتایا تو کولن پاول نے آئی ایس آئی کو بری الذمہ کیوں قرار دیدیا؟پرل کو کراچی کے ایک مہنگے ریستوران میں مدعو کیا گیا وہاں سے اسے اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ پرل کا گلا کٹنے کی ویڈیو مغربی ذرائع ابلاغ کو پہنچائی گئی جبکہ سی بی ایس نیوز نے یہ وحشتناک ویڈیو چلا بھی دی۔
پرل کے المیئے نے خفیہ اداروں کی بھیانک کارروائیوں پر روشنی ڈالی۔ پرل تحقیق ( نہ کہ روایتی ہتھکنڈے)پر انحصار کرنے والا ،قوی دماغ والا صحافی تھا جس کے نزدیک سچ مقدم تھا۔ اسے سیاسی یا سماجی نظریات میں تو اتنی دلچسپی نہ تھی مگر وہ ان نظریات کے اطلاق سے انسانیت کو پہنچنے والے نفع نقصان میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بات کوسوو کے اندر ’’انسانیت کے نام پر ہونے والی مداخلت‘‘ کے حوالے سے بھی درست ہے اور ایران کے اندر ملّاوں کی بد انتظامی بارے بھی۔ ہاں مگر ایران سے بھیجے گئے پرل کے مراسلوں میں واشنگٹن کی سرکاری حکمتِ عملی کا عکس نظر نہیں آتا تھا۔وال اسٹریٹ جرنل میں پرل کے چند بہترین مراسلے وہ تھے جن میںیوگوسلاویہ پربمباری کے لئے کوسوو سے متعلق پراپیگنڈے، بشمول امریکی پراپیگنڈے کو،منطقی اور خوبصورت انداز میں رد کیا گیا تھا۔ لیونسکی سکینڈل سے توجہ ہٹانے کے لئے بل کلنٹن کے کہنے پر جب سوڈان کی دوا ساز فیکٹری پر حملہ کیا گیا تو پرل نے ثابت کیا کہ وہ فیکٹری واقعی دوا ساز فیکٹری تھی نہ کہ کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی کوئی جگہ جیسا کہ وائٹ ہاوس الزام لگا رہا تھا۔
جب پرل کی موت کا اعلان ہوا تو مجھے یاد ہے میں سوچ رہا تھا کہ امریکی ردِ عمل اتنا شدید نہ تھا۔ اگرپرل کی جگہ نیو یارک ٹائمز کے تھامس فرائیڈمین کو نشانہ بنایا گیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا پرویز مشرف وائٹ ہاوس میں ہونے والی پریس کانفرنس میںفرائیڈمین کو بھی پرل کی طرح ’’مداخلتِ بے جا کرنے والا صحافی‘‘ قرار دے سکتے تھے؟ یہ تو گویا وہ بات تھی کہ پرل اپنے قتل میں خود ہی معاون تھا۔ پرل سے کچھ پہلے وزیر داخلہ کے بھائی کو قتل کیا گیا۔ ایک نجی محفل میں وزیر موصوف پرل کی بابت کچھ بڑبڑائے کہ پرل نے خود اپنے لئے موت کا سامان پیدا کیا۔ پرل کی بیوہ کے ساتھ آئے ایک دوست نے وزیر سے پوچھا:’’وزیر صاحب!معاف کیجئے گا، کیا آپ اپنے بھائی کے قتل کی ذمہ داری بھی انہی پر ڈالیں گے محض اس لئے کہ وہ کراچی کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے ؟ ‘‘
جنگ ِعراق کے آغاز سے قبل پرل کی صحافت کی کمی بری طرح محسوس کی گئی کہ ان دنوں ٹی وی نیٹ ورکس پر پراپیگنڈے کی بھر مار تھی اور ’’پیپر آف ریکارڈ‘‘ ویسا ہی غیر انتقادی ہو چکا تھا جیسا ضیاء دور میں پاکستانی ذرائع ابلاغ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پرل کا پاکستان آنا کوئی راز کی بات نہیں تھی۔ وہ یقینا کسی بڑی خبر کی تلاش میں تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا پاکستان کے خفیہ اداروں اور جہادیوں کے مابین کوئی سمبندھ موجود ہے کہ نہیں۔ پرل کا اخبار۔۔۔۔اور بالخصوص محکمہ خارجہ۔۔۔۔اس بارے میں خجالت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ پرل جس خبر کی تلاش میں تھاا سے افشا نہیں کیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں پھیلائی گئی کہانیوںکے بر عکس پرل ایک محتاط صحافی تھا۔ پرل کی بیوی ماریان نے پرل کی ان یاداشتوں کو شائع کیا جو اس نے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں اور ماریان کی دلیل تھی کہ اخبارات کو خطرناک علاقوں سے رپورٹنگ کرنے والے نامہ نگاروں کی تربیت اور حفاظت کا انتظام کرنا چاہئے۔1 بعد ازاںاس پر ہالی وُڈ میں فلم بنائی گئی۔
پرل نے افغانستان جانے سے انکار کر دیا کہ وہاں حفاظت کے نقطہ نظر سے صورتحال بہت خراب تھی مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل خبر پاکستان میں ہے۔ پرل جوتے میں بارود لے جانے والے رچرڈ رِیڈ ، جس کے شکر ہے کہ عین وقت پر اوسان خطا ہو گئے،اور پاکستان کے اسلامی گروہوں کے درمیان تعلق کی تحقیق کرنا چاہتا تھا۔ شائد اسی کو مشرف نے ’’بے جا مداخلت‘‘ قرار دیا پاکستانی اہل کاروں نے کئی مرتبہ پرل کی بیوہ ماریان سے کہا کہ اگر پرل نے دیگر غیر ملکی نامہ نگاروں ایسے طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہوتا تو یہ المیہ رونمانہ ہوتا۔ نہ تو ماریان نہ ہی امریکہ سے بھیجے ہوئے ایف بی آئی کے ماہرین پرل کے لکھے ان نوٹس کا بھید جان سکے جو پرل نے کوڈ الفاظ استعمال کرتے ہوئے تیار کئے تھے۔ انسان یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کوڈ الفاظ میں اس نے وہ سب لکھا ہوا تھا جو اسے پتہ چلا۔
کوئی بھی مغربی صحافی، وہ کتنا ہی پاکستان دوست کیوں نہ ہو معمول کے مطابق اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور اس پر نظر رکھی جاتی ہے۔ خفیہ والوں کی یہ ایک پرانی عادت ہے، ان کا جزو ایمان ہے۔ یہ عادت قیامِ پاکستان (اور اس سے پہلے) سے پائی جاتی ہے ۔ جمہوری حکومتوں میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ افغان جنگ کے دوران خفیہ اداروں میں سستی لیبر کی بھر مار ہو گئی۔ اس رائے سے اتفاق نہیںکیا جا سکتا کہ پرل ان نا پسندیدہ گروہوں کے ساتھ رابطے کرتا پھر رہا تھا اور خفیہ ادارے اس کا پیچھا نہیں کر رہے تھے۔ پاکستان میں اس وقت کسی نے اس بات پر اعتبار کیا نہ ہی کوئی اب کرتا ہے۔
حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ پرل کے قتل میں خفیہ والے ملوث تھے۔ کوئی سیدھا سیدھا ثبوت تو موجود نہیں مگر اغواء کی منصوبہ بندی کرنے والے ذہنی مریض ،عمر سعید شیخ کے خفیہ والوں کیساتھ تعلقات تھے۔ 1994 ء میں آئی ایس آئی کی سرپرستی میں کام کرنے والے اسلام پرست گروہوں نے اسے کشمیر بھیجا۔ غیر ملکیوں کو اغواء کرنے اور انہیں یرغمال بنا کر رکھنے میں ماہر عمر سعید شیخ نے اسی قسم کا ایک منصوبہ دہلی میں بنایا جس کا مقصد تہاڑ جیل سے ایک اسلام پرست رہنما ،مسعود اظہر کی رہائی تھا۔ اغواء کی منصوبہ بندی کامیاب رہی مگر بھارتی مخبرات کو بھی ناکامی نہیں ہوئی۔ فائرنگ کے تبادلے کے بعد عمر سعید کو گرفتار کر لیا گیا۔ پانچ سال بعد، دسمبر 1999 ء میں اس کے ساتھیوں نے ایک بھارتی مسافر طیارہ اغوا کیا اور اسے قندھار لے گئے۔ طیارہ اغواء کرنے والوں نے دھمکی دی کہ اگر عمر سعید اور دیگر ’’مجاہدینِ آزادی‘‘ کو رہا نہ کیا گیا تو تمام مسافروں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ وہ رہا کر دیئے گئے۔
1973ء کے سال لندن میں پیدا ہونے والے، سلویسٹر سٹالون کے مداح کو مذہبی جنونی کس چیز نے بنا دیا؟ اس کے والدین 1968ء میں برطانیہ منتقل ہوئے اور ان کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ انہوں نے ملبوسات کا چھوٹا سا کاروبار جما لیا۔ پرفیکٹ فیشنز اتنا کامیاب ضرور رہا کہ عمر کو پریپ سکول بھیجا جا سکے۔ عمر کی شراب نوشی اور بدمعاشی کا علاج اس کے والدین نے یہ سوچا کہ اسے واپس ارضِ پاک بھیج دیا جائے۔ اس نے معروف نجی تعلیمی ادارے ایچی سن کالج میں زیادہ وقت گزارا۔ چند ہی سالوں بعد اسے ’’مار کٹائی‘‘ کے الزام میں کالج سے نکال دیا گیا۔ ایچی سن کالج میں اس کے ایک ہم عصر نے مجھے بتایا کہ ’’ ان دنوں بھی وہ کسی ذہنی مریض کی طرح تھا ‘‘ اور دوسرے لڑکوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتا۔ وہ لندن واپس آ گیا اور اسے سنیرز بروک کے ایک سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ اس سکول میں وہ ناصر حسین کا ہم عصر تھاجو بعد ازاں برطانیہ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے۔ عمر شطربج کا زبر دست کھلاڑی تھا اور اسے پنجہ لڑانے کا شوق تھا۔ اس فن کا مظاہرہ وہ اکثر مقامی شراب خانوں میں کرتا۔ سنیرز بروک میں اس نے اچھی کارکردگی دکھائی اور لندن سکول آف اکنامکس میں شماریات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا۔یہاں بے شمار اسلام پرست گروہ متحرک تھے اور بوسنیا ان کا سیاسی مسئلہ بنا ہوا تھا۔ بوسنیا میں مغربی دانشوروں کا کردار ایک جانی پہچانی حقیقت ہے جس کا پرچار ان لوگوں نے عموماََ خود ہی کیا۔اس بارے البتہ دستاویزات کم ہی ملتی ہیں کہ افغان مجاہدین کی باقیات، جن میں بعض اسامہ بن لادن کے لوگ بھی شامل تھے، امریکی ٹرانسپورٹ طیاروں میں بوسنیا پہنچائے گئے۔ 1993 ء میں عمر متاثرینِ خانہ جنگی کے لئے دوائیاں اور امداد ی سامان لیکر جانے والے ایل ایس ای کے مسلمان طلباء کے ایک جتھے کے ہمراہ بوسنیا گیا۔ یہاں اس کی ملاقات مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے اسلام پرست گروہوں سے ہوئی جنہوں نے اسے اپنے جہادی نظریات کا قائل کر لیا۔ جنرل مشرف نے بعد ازاں دعوٰی کیا کہ عمر ایم آئی سکس کا بھرتی کیا ہوا ڈبل ایجنٹ تھا جسے بوسنیا بھیجا گیا۔ جنوری 2002ء میں عمر اسلام آباد میں تھا جہاں اس نے پرل سے وعدہ کیا کہ وہ اُس مولوی سے انٹرویو کا بندوبست کر دے گا جو رچرڈ رِیڈ کا ان داتاتھا۔
پرل کی موت سے متعلق بہت سے سوال ابھی جواب طلب ہیں۔ پرل کو اغواء اور قتل کرنے والے گروہ اپنے آپ کو ’’تحریک برائے بحالی خودمختاری پاکستان‘‘ قرار دے رہا تھا۔ اس کا ایک مطالبہ ۔۔۔۔گوانتانامو میں قید لوگوں کی رہائی۔۔۔۔تو واضح ہے لیکن دوسرا مطالبہ غیر معمولی تھا: ایف سولہ طیاروں کی فراہمی جن کی قیمت پاکستان ادا کر چکا تھا مگر امریکہ نے ابھی تک مہیا نہیں کئے تھا۔ ایک ایسا جہادی گروہ جو مشرف کو طالبان کا ساتھ چھوڑ دینے پر غدار سمجھتا ہے، وہ گروہ فوج اور ریاستی نوکر شاہی کا بیس سالہ پرانا مطالبہ دہرائے ،ناممکن۔
عمر شیخ 5فروری 2003ء کو لاہور میں صوبائی ہوم سیکرٹری (جو آئی ایس آئی کے سابق افسر تھے) کے سامنے پیش ہو گئے ۔ عمر کی سرکاری گرفتاری ایک ہفتے بعد ڈالی گئی۔ جولائی 2002ء میں حیدرآباد کی بند عدالت میں جو مقدمہ عمر شیخ پر چلایا گیا اس میں یہ نکات نہیں اٹھائے گئے۔ اسے پھانسی اور اسکے ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ طرفین نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ عمر شیخ نے موت کی سزا کے خلاف اور ریاست نے دیگر تین کو موت کی سزا نہ دینے کے خلاف۔عمر شیخ نے تحریری بیان دیا جو اس کے وکیل نے پڑھ کر سنایا:’’دیکھتے ہیں پہلے کون مرتا ہے، میں یا میری پھانسی کا بندوبست کرنے والے ۔مشرف کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور اس کی سزا دے گا‘‘۔ مشرف پر ہونے والے تین حملے ،جس میں سے دو تو پندرہ دن کے اندر اندر ہوئے اور ایک تو کامیابی سے ہمکنار ہونے ہی والا تھا، اس بات کا ثبوت ہیں کہ عمر شیخ کی دھمکی خالی خولی بڑ نہ تھی۔
اسلام آبادسے راولپنڈی تک دس میل کا سفرٹریفک کے ہاتھوں عذاب بن جاتا ہے ہاں اگر آپ صدر ہوں تو سیکورٹی کے نام پر سڑک عام ٹریفک کے لئے بند کر دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود منصوبہ بندی کے ساتھ کئے گئے قاتلانہ حملے معمولات میں گڑ بڑ پیدا کر سکتے ہیں۔ پہلا حملہ تو 14 دسمبر2003ء کو ہوا ۔جنرل کا قافلہ پُل سے گزرا ہی تھا کہ زبردست بم دھماکے نے پُل کا بڑا حصہ اڑا دیا مگر کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ ریڈار اور بم کو جام کر دینے والے آلات سے مزین مشرف کی لیمو زین گاڑی، بشکریہ پینٹاگون، مشرف کی جان بچانے کا سبب بنی۔ مشرف کے طرزِ عمل نے دیکھنے والوں کو حیران کر دیا۔ کہا جاتا ہے وہ پُرسکون اور اچھے موڈ میں تھے۔ خطرناک حالات میں زندگی گزارنے بارے چوٹ کرتے رہے۔ حسبِ توقع زبردست حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔۔۔ڈِیکائے، روٹ کی عین وقت پر تبدیلی وغیرہ۔۔۔مگر اس کے باوجود ہفتے بھر بعد کرسمس کے موقع پر دوسرا حملہ ہو گیا۔ اب کی بار بارودسے بھری دو گاڑیوں میں سوار دو لوگ کامیابی کے کافی قریب پہنچ گئے۔ مشرف کی گاڑی کو نقصان پہنچا، محافظ ہلاک ہو گئے مگر مشرف کی جان بچ گئی۔ مشرف کا اسلام آباد سے راولپنڈی کا روٹ اور روانگی کے اوقات ایک راز تھے اور دہشت گرد اندر خانے کسی کی مدد کے بغیر یہ راز نہیں جان سکتے تھے۔ اگر آپ کے محافظ دستوں میں ہی ایسے اسلام پرست موجود ہوں جو آپ کو غدار سمجھ کر بم سے اڑا دینا چاہتے ہوں تو پھر، جیسا کہ جنرل نے اپنی خود نوشت میں کہا ہے،آپ کو اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اللہ بلا شبہ مشرف پر مہربان رہا ہے۔
مجرم پکڑے گئے، تشدد ہوا اور انہوں نے سازش کی تفصیلات بیان کر دیں۔ کچھ جونئیر فوجی افسر بھی ملوث تھے۔ کلیدی سازشیوں پر خفیہ مقدمہ چلا اور انہیں پھانسی دیدی گئی۔ اس منصوبے کا مفروضہ ماسٹر مائنڈ اور جہادی انتہا پسند امجد فاروقی مقابلے میں مارا گیا۔ دو سوال مشرف کے ساتھیوں اور واشنگٹن کو ستا رہے تھے: پکڑے جانے والوں کے کتنے ساتھی نہیں پکڑے گئے اور اگر اگلا حملہ کامیاب ہو گیاتو کیا فوج کا کمانڈ سٹرکچر وہ وار سہہ پائے گا۔مشرف بظاہر ہشاش بشاش اور شیخی بھگارتے نظر آئے۔ گیارہ ستمبر سے قبل وہ بیرونِ ملک اچھوت سمجھے جاتے اور اندرونِ ملک انہیں بے شمار مسائل کا سامنا تھا۔ پارسائی اور بد عنوانی کی ماری اعلیٰ کمان کے ارادوں کو مضبوط کیسے بنایا جائے؟ اس بدعنوانی اور غبن سے کیسے نپٹا جائے جو بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کی خاصیت تھی۔ بے نظیر تو پہلے ہی دبئی میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہی تھیں جبکہ شریف برادران کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔ نواز شریف پر طیارہ اغوا کرنے اور اقدامِ قتل کا الزام تھا البتہ اس سے پہلے کہ انہیں سزا دی جاتی واشنگٹن نے بندوبست کر دیا کہ سعودی عرب ،جہاں حکمران خاندان نے پبلک فنڈز کی چوری کو ادارے کی شکل دے رکھی ہے، شریف برادران کو پناہ کی پیش کش کر دے۔ ایک بار جو چیف ایگزیکٹو آف پاکستان، عہدہ جو مشرف نے روایتی چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کے بجائے اپنے لئے منتخب کیا، نے اپنے پائوں جمالئے اور شاہانہ زندگی کی عادت ڈال لی تو سارے مسائل بھول کر انہوں نے صدر بننے کی تیاری شروع کر دی۔
جہاں تک تعلق ہے عمر شیخ کا تو وہ ایک پاکستانی جیل میں موت کی کوٹھڑی میں ہے جہاں وہ اپنے محافظوں سے گپ لڑاتا ہے اور پاکستانی اخبارات کو ای میل کے ذریعے پیغام بھیجتا رہتا ہے کہ اگر اسے پھانسی دی گئی تو اس کی یاداشتیں شائع کر دی جائیں گی جس سے وہ لوگ بھی بے نقاب ہو جائیں گے جو اس کے ساتھ ملوث تھے۔ شائد یہ کوئی صرف چال ہو یا شائد وہ ٹرپل ایجنٹ ہے جو آئی ایس آئی کے لئے بھی کام کر رہا تھا۔
پرل کے قتل نے ثابت یہ کیا کہ مشرف خفیہ اداروں پر اپنی مکمل گرفت قائم نہیں کر سکے تھے۔ امریکہ سے تربیت یافتہ ایک اور افسر کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے فوج کے اندر مشرف کے ممکنہ قاتلوں کی معلومات اکٹھی کرنے کے کام کی نگرانی کی۔ نومبر 2007 ء میں کیانی کو ترقی دے کر مشرف کی جگہ فوج کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ کارلوٹا گال سے7 جنوری 2007ء کو ارسال کئے گئے مراسلے میں نیو یارک ٹائمز خوشی کی اس لہر کا احوال بیان کرتا ہے جو واشنگٹن میں دوڑ گئی:
’’پاکستانی امور کے ماہر،سی آئی اے اوروائٹ ہاوس کے سابق اہلکار برُس رِیڈل نے کہا ’اس شخص کی مشرف سے وفاداری اس وقت ختم ہو جائے گی جب پاکستانی فوج کے کارپوریٹ ادارے کے لئے مشرف بطور ایک اثاثہ اپنی اہمیت کھو دیں گے اور ایک بوجھ بن جائیں گے‘۔ ’وہ کہیں گے ’’سکیورٹی معاملات میں آپ کی دلچسپی کا بہت شکریہ۔ یہ رہا بیرونِ ملک جانے کے لئے آپ کا ہوائی ٹکٹ‘‘‘۔
فوج میں جنرل کیانی نے اپنی ترقی سے امریکی فوج اور انٹیلی جنس اہل کاروں کو متاثر کیا ہے، وہ مغرب نواز اعتدال پسند شخص ہیں جن کے سیاسی عزائم زیادہ نہیں۔‘‘
دس سال قبل مشرف بارے بھی یہی کہا گیا تھا مگر اب انکے اتحادی ان سے خوش نہیں تھے۔ خارجہ پالیسی والا نصف تو اب متزلزل تھا، باقی نصف بارے کیا خبر ہے؟ چوہدری اقتدار سے مستقل مستفید ہو رہے تھے۔ مشرف کے پسندیدہ وزیر اعظم ،شوکت’’شارٹ کٹ ‘‘ عزیز جو سٹی بنک کے سابق سینئر ایگزیکٹو اور دنیا کے آٹھویں امیر ترین فرد سعودی شہزادے الولید بن طلال سے قریبی تعلقات رکھتے تھے، بے شمار حماقتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ مستقل فوجی حکومت کا وہ ماڈل جس میں وزارتِ خزانہ کسی ٹیکنو کریٹ کے پاس ہو،اس ماڈل کو بعض مغربی تجزیہ نگار ترجیح دیتے ہیں ، بالکل ناکام ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کہلانے والے ایوان میں شوکت عزیز کا چوہدریوں کی ذہانت کے قصیدے خوشامد کی غرض سے پڑھنا کسی ’’غیر جانبدار ٹیکنو کریٹ‘‘ سے زیادہ بھاڑے کے گوئیے والی بات تھی۔ انسان سوچتا ہے کہ شوکت عزیز کو آخر اس عہدے کے لئے منتخب کیوں کیا گیا۔ چنا کس نے تھا؟ جب یہ نظر آنے لگا کہ کوئی تبدیلی نہیں آ رہی تو ملک ترش روئی کی لپیٹ میں آ گیا۔
مخالفین کے خلاف چونکہ خام طریقے سے انتقامی کارروائیاں کی گئیں لہٰذا مشرف کی کتاب ’’ ان دی لائن آف فائر‘‘ کا مذاق اڑایا گیا، کہا گیا کم از کم کتاب کا عنوان تو درست ہے۔ ذرائع ابلاغ میں زبردست تنازع چلا جو گذشتہ فوجی ادوار میں نا ممکن ہوتا۔ سابق جرنیلوں ( علی قلی خان کا تو تفصیلی جواب اخبارات میں شائع ہوا)، حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور ہر نوع کے دانشوروں نے اس پر زبردست تنقید کی۔ 2007 ء کے اواخر میں نافذ ہونے والی لاچار ایمرجنسی سے قبل مشرف دور میں ریاست نے میڈیا کے اندر اتنی مداخلت نہیں کی جتنی نواز دور میں دیکھنے میں آئی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بحث کا معیار پڑوسی ملک بھارت سے کہیں بہتر ہے گو ایک دور تھا جب بھارتی پریس اپنے جاندار اور تنقیدی روئے کے باعث مشہور تھا مگر اب بھانت بھانت کے ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات سب شاپنگ اور سلیبریٹی کے مڈل کلاس خبط میں مبتلا ہیں۔
مشرف ضیاء اور ایوب سے کئی طرح بہتر تھے مگر جوں جوں ان کی مقبولیت میں کمی آتی گئی توں توں وہ آمروں کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے دیکھا کہ ’’غائب ہو جانے والے ‘‘سیاسی کارکنوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے: صرف 2007ء میں چار سو افراد غائب ہوئے جن میں سندھی قومیت پرست بھی شامل تھے جبکہ بلوچستان، جہاں فوج ایک مرتبہ پھر گل کھلا رہی تھی، سے کل بارہ سو افراد غائب تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے کئی رہنمائوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اندرونِ ملک اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ دو دو ہاتھ کریں مگر اس سے صوتحال میں بہتری نہیں آئی۔
ادھر وہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم ہے جو افغانستان میں جاری ہے جہاں اگر کسی چیز کو دوام ہے تو وہ یا تشدد ہے یا ہیرؤین کی تجارت۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں پیش کی جانے والی جعلی رجائیت کے باوجود یہ ایک کھلا راز ہے کہ صورتحال بہت گڑ بڑ ہے۔ قبضے کی مخالفت سے ازسرِ نو منظم ہونے والے طالبان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ناٹو ہیلی کاپٹر اور سپاہی ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر کے انہیں ’’طالبان جنگجو‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ نفیس چپن اوڑھے ہوئے حامد کرزئی کو ایک کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے جس کا سارا انحصار ناٹو دستوں پر ہے۔ کرزئی نے پشتونوں کو بھی دشمن بنا لیا ہے، جن کی بڑی تعداد پھر طالبان کی طرف جا رہی ہے اور شمالی اتحاد کے جنگی سالار بھی کھلے عام کرزئی پر تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کرزئی کو واپس امریکہ بھیج دیا جائے۔مغربی افغانستان میں یہ فقط ایرانی اثر و رسوخ ہے جس نے کسی حد تک استحکام قائم کر رکھا ہے۔اگر احمدی نژاد کو اشتعال دلا یا جائے اور وہ اپنی حمایت واپس لے لیں تو کرزئی کے لئے ایک ہفتہ بھی مزید گزارنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسلام آباد دیکھو اور انتظار کرو والی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ فوجی مدبر اس بات کے قائل ہیں کہ امریکہ کی دلچسپی ختم ہو چکی ہے اور ناٹو افواج جلد ہی واپس چلی جائیں گی۔اگر ایسا ہوا تو یہ امکان کم ہی ہے کہ پاکستان شمالی اتحاد کو کابل پر قبضہ کرنے دے۔ پاکستانی فوج فوراََ پہنچ جائے گی ۔ افغان جنگوں میں حصہ لینے والے ایک سابق سرباز نے از راہ مذاق مجھے کہا’’ پچھلی بار ہم نے با ریش لوگ بھیجے تھے۔ وقت بدل گیا ہے۔ اب کی بار انشااللہ ہم ان میں سے کچھ لوگوں کو اَرمانی سوٹ پہنا کر بھیجیں گے تا کہ امریکی ٹی وی سکرینوں پر وہ خوبصورت لگیں‘‘۔
یہ خطہ ہنوز دھند میں لپٹا ہے۔ پاکستان کا پہلا فوجی حکمران عوامی سرکشی کے نتیجے میں رخصت ہوا۔ دوسرا مارا گیا۔ مشرف کا کیا بنے گا؟ ایک بار جو مشرف نے وردی اتار دی اور فوج کی کمان جنرل اشفاق کیانی کے حوالے کر دی تو پھر ان کی جان اب جنرل کیانی اور واشنگٹن کی نیک نیتی پر منحصر تھی۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل سول اداروں سے فوجیوں کو واپس بلانے (فوجی افسر بہت سے غیر فوجی اور پبلک ادارے چلا رہے تھے) کا فیصلہ کر کے جنرل کیانی نے مشرف کو کوئی اشارہ دیا یا نہیں دیا البتہ ٰ اسکانتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایس آئی کے ’’انتخابی سیل‘‘ کو انتخابات میں ’’مداخلت ‘‘ سے روک دیا گیا۔ ’’تاریخی انتخابی فتح‘‘ جس کی پیش گوئی مشرف نے کی تھی، اسی صورت حاصل کی جا سکتی تھی اگر فوج کی انٹیلی جنس اپنا کردار ادا کرتی۔ گذشتہ سالوں میں یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی اگر کپتان یامیجر مقامی یا قومی سطح کے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو یہ بتاتے دکھائی دیتے کہ کس طرح کے نتائج مطلوب ہیں۔ ان لوگوں کی عدم موجودگی کا مطلب تھا کہ گجرات کے چوہدریوں کو سخت دھچکا لگا ہے اور مشرف کابینہ کے اہم وزراء کو پنجاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے کسی نے جذبات سے لبریز ای میل بھیجی:’’ لوگوں کو معلوم ہے کہ فوجی آمروں کا منہ جھوٹ سے بھرا ہوتا ہے۔‘‘
فروری 2008 ء کے انتخابات کو مشرف دور پر ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا۔ ووٹوں کی کم شرح کے باوجود مشرف کو زبردست شکست ہوی۔87 نشستوں کے ساتھ پی پی پی سب سے بڑی جبکہ 66نشستوں کے ساتھ شریف برادران کی مسلم لیگ دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ دو پرانے حریف باہمی طور پر اکثریت حاصل کر چکے تھے۔ گجرات کے چوہدریوں کو قومی اسمبلی میں 38 نشستیں مل سکیں جبکہ ان پر الزام لگا کہ دس نشستیں دھاندلی سے جیتی گئیں۔ سرحد اسلام پرستوں کے ہاتھ سے نکل کر سیکولر پی پی پی اور اے این پی کے پاس چلا گیا۔ مشرف کو چاہئے تو یہ تھا کہ نئی پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوتے ہی استعفیٰ دے دیتے اور یوںنئی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پاس نئے صدر کو منتخب کرنے کا موقع ہوتا ۔
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن انہیں ایوان صدر میں براجمان دیکھنا چاہتا تھا جبکہ امریکی سفیر این پیٹر سن نے رنڈوے بھٹو کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے بلا بھیجا اور بے نظیر کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی یاد دلائی جس میں طے پایا تھا کہ بے نظیر مشرف کی جونئیر پارٹنر ہوں گی اور شریف برادران کے ساتھ معاملہ طے نہیں کیا جائیگا جو اسلام پرستوں کے ساتھ ہمدردی کے باعث مشکوک سمجھے جا رہے تھے۔۔ جرنیل کو ہونے والی شکست اتنی بڑی تھی کہ اس قسم کا سمجھوتہ خودکشی کے مترادف ہوتا۔تسلسل کے ساتھ انٹرنیٹ کی فضاوں کو بلاگ کے ذریعے آلودہ کرنے والے ، بش کے غلام پاک ایمز (پاکستانی امریکی) کے سوا ہر کسی نے زرداری کو سنجیدگی سے یہ مشورہ دیا کہ ری پبلکن وادیوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ان حالات میں بہتر ہے کہ مشرف کی رضاکارانہ طور پر پرائیویٹ شہری بننے میں مدد کی جائے قبل اس کے کہ ڈیموکریٹ آ کر اِن سے نجات حاصل کریں۔
…٭…