(Last Updated On: )
مجاہدِ سلام
1972ء کے سال بنگلہ دیش کا قیام اخباری شہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا لیکن جو اثر مغربی پاکستان پر پڑا وہ کسی بھی طور معمولی نہ تھا۔ تینوں چھوٹے صوبے۔۔۔۔بلوچستان، سندھ اور سرحد۔۔۔۔خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے اور مرکز سے رنجیدہ رہنے لگے۔پاکستان میں بنگال کی موجودگی سے ان تینوں صوبوں کوایک طرح سے تحفظ کا احساس ہوتا تھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ بنگال کے ساتھ مل کر پنجاب کو مات دے سکتے تھے۔ اب وہ تنہا رہ گئے تھے۔ یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہو گا کہ جو ہوا اس پر پنجاب میں سب خوش تھے۔ستر کے انتخابات میں بھٹو کے لئے جس جوش وخروش کا اظہار کیا گیا وہ ختم تو کبھی بھی نہیں ہو سکا مگر اس میں اب کمی آنے لگی تھی۔وہ پُرجوش سیاسی و سماجی ماحول، میں نے جس کا نظارہ 1969 ء میں آمریت کے خاتمے کے موقع پر دیکھا تھا اب وہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے مظالم کی خبریں پھیلنے سے آلودہ ہو رہا تھا۔ کالے رنگ والے بنگالیوں کے خلاف نسل پرستی انگریزی میڈیم اشرافیہ میں زیادہ تھی۔عام آدمی کو دکھ پہنچا تھا۔ان کے حالاتِ زندگی ان کے سابق ہم وطن بنگالیوں سے کچھ مختلف نہ تھے۔
جنگ نے طلباء، مزدوروں اور شہرنشین غریبوں کے انقلابی جوش کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔ انہیں ثابت ہوا کہ فوجی آمریت اور عوامی دبائو کا مقابلے کرنے کی آمرانہ صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے جانوں کی قربانی دے کر آمریت کے شکنجے سے اقتدار چھینا تھا مگر اب جبکہ ان کے رہنما مشرقی پاکستان میں عوامی سرکشی کچلنے کے لئے جرنیلوں کے ساتھ ساز باز کر رہے تھے ،اس کے بھیانک نتائج نکلے۔ اسکا دوہرا اثر ہوا۔ ایک تواس سے زبردست سیاسی الجھن پیدا ہوئی اور وہ خود رُوعوامی ردِ عمل جو 1968-69ء کے دوران دیکھنے میں آیا ، غائب ہو گیا۔
پی پی پی کی سیاست پر بھی بنگالی خون کے دھبے تھے۔ اس کے حامیوں کی نظر میں یہ سیاست درست سہی مگر یہ بہرحال مناسب سیاست نہ تھی۔خیر موڈ کی تبدیلی کے باوجود پی پی پی کے حامیوں کو اس جماعت سے مثبت توقعات تھیں۔ سماجی تبدیلی کی خواہش، دانشوارانہ اور سیاسی آزادی کی تمنا، کھل کر سانس لینے کی امیدہمیشہ موجود رہی۔1972 ء میں بھٹو تقسیم شدہ پاکستان کے ایک ا یسے رہنما تھے جن کا کوئی رقیب نہ تھا۔ بھٹو کو معلوم تھا کہ تحریک کو ازسرنو ہوا دینے کے لئے اور اپنے حامیوں کوجوش دلانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو پوراکیا جائے۔ یہ وعدے ،جماعتِ اسلامی کے نعرے کے جواب میں ، ایک مقبول عوامی نعرہ بن چکے تھے۔جماعت کا نعرہ تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘۔ اس کے جواب میں جماعت کے کارکن کہتے’’لا الہ الا اللہ‘‘۔پی پی پی کے کارکنوں کا نعرہ کسی بھی قسم کی تجریدیت سے پاک ہوتا:’’مانگ رہا ہے ہر انسان،روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘۔یہ نعرہ پی پی پی کا طبل ِجنگ بن گیا اور اس نعرے سے بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کر لی ۔گو اس نعرے پر اسلام پرست بہت سٹپٹائے مگر اس کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھٹو نے وعدہ کیا’’عزیز ہم وطنو، ساتھیو، مزدورو ،کسانو۔۔۔۔۔ اس ملک کے لئے لڑنے والے سب لوگو۔۔۔۔ہم اپنے ملک کی تاریخ کے بد ترین بحران ، ایک جان لیوا بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ہمیں ریزہ ریزہ جمع کر کے ایک نیا پاکستان تعمیر کرنا ہو گا،ایک خوشحال اور ترقی پسندانہ پاکستان۔ ‘‘
اس جان لیوا بحران کو حل کیسے کیا جائے ؟ہر چیز پی پی پی اور بھٹو کے حق میں جا رہی تھی۔ فوجی قیادت کی ساکھ تباہ ہو کر رہ گئی تھی، دائیں بازو کی جماعتیں عوام سے کٹ چکی تھیں۔ دو صوبے۔۔۔۔بلوچستان اور سرحد۔۔۔۔جہاں پی پی پی کی حکومت نہیں تھی وہاں عوامی نیشنل پارٹی (اب عوامی نیشنل پارٹی یا اے ین پی) کی قیادت میں قوم پرستوں نے جے یو آئی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور یہ دونوں جماعتیں سماجی اصلاحات کے ساتھ ساتھ آزاد خارجہ حکمتِ عملی چاہتی تھیں۔ ان دنوں جے یو آئی کسی بھی مطالبے کو شریعت کے نفاذ سے نہیں جوڑتی تھی۔
وعدوں کی تکمیل کے لئے موافق حالا ت کے باوجود شہریوں کی اکثریت کے لئے در حقیقت بہت کم اقدامات کئے جا سکے۔پورا ملک بھٹو کے گرد شخصیت پرستی، گھسے پٹے نعروں اور پی پی پی کے پراپیگنڈے کا شکار بنا دیا گیا۔ تبدیلی بالکل سطحی تھی جس کا ایک علامتی اظہار بھٹو کا یہ فیصلہ تھا کہ پارٹی کے رہنما اور حکومتی اہل کار سرکاری ضیافتوں کے موقع پر فوجی طرز کی ایک وردی پہنیں گے۔ کچھ فربہ وزیر ایسے تھے کہ اس وردی میں سما نہیں پاتے تھے اور بہت مضحکہ خیز دکھائی دیتے تھے۔ بہت کم کو علم ہو گا کہ اس وردی کی تحریک بینڈ باجا بجانے والوں سے نہیں ، بلکہ مسولینی سے لی گئی تھی۔ مسئلہ بھٹو کی عدم اصول پسندی تھا۔ ان کی رائے کبھی مستحکم اور محکم نہیں ہوتی تھی۔ بھٹوکی اس خامی کا ازالہ ان کی زبردست حسِ مزاح اور ذہانت سے ہو جاتا مگر یہ خوبیاں ہمیشہ کام نہ آتی تھیں۔
بھٹو کے پانچ سالہ اقتدار کا اعمال نامہ ایسا قابلِ فخر نہیں ہے۔ جنوری تا اپریل 1972 ء انہوں نے بطور صدر اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر ملک پر حکومت کی ۔ اسی حیثیت میں انہوں نے 3 جنوری 1972 ء کو اکنامک ریفارم آرڈر جاری کیا جس کے تحت بنک ،انشورنس کمپنیاں اور چھوٹے بڑے دیگر صنعتی ادارے قومی ملکیت میں لے لئے گئے۔قومی ملکیت میں لئے گئے صنعتی اداروں میں لاہور کی ایک درمیانے درجے کی فو نڈری بھی شامل تھی جو شریف خاندان کی ملکیت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شریف خاندان عمر بھرکے لئے بھٹو کا دشمن بن گیا۔ساتھ ہی ساتھ ٹریڈ یونین کو وہ حقوق دئے گئے جو اسے کبھی بھی میسر نہیں رہے تھے اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ صنعت پر نظر رکھے۔ یہ سب یقیناََ ترقی پسندانہ تھا اور اس نے ان بائیس خاندانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی جو ملکی معیشت پر حاوی تھے لیکن کیا زندگی کے باقی شعبوں میں اصلاحات کئے بغیر یہ سب موثر ثابت ہو سکتا تھا؟
ملکی سیاست میں اندرونی محاذ پر عوام کے لئے ان دنوں دو مسئلے انتہائی اہم تھے۔ ملکی آبادی کا بڑا حصہ دیہات میں رہتا تھا اور جاگیردارانہ گرفت کے نتیجے میں زراعت دب کر رہ گئی تھی۔ زمین کی حدِ ملکیت کم کی گئی مگر اس طرح سے کہ یہ بے اثر ہو کر رہ گئی ۔ پھریہ بھی ہوا کہ باغات، مویشی فارم، شکار گاہیں اور مویشی ان اصلاحات کی ضد میں نہیں آئے۔ پریس میں موجودپی پی پی کے زبردست حامیوں نے بھی اس پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ان کا خیال تھا کہ اور کچھ نہیں تو بھٹو (بھارت میں نہرو کی طرح)کم از کم پاکستان کو جاگیرداری کے چنگل سے تو نجات دلا دیں گے جو ملک کو جدت کی راہ اختیار کرنے سے روک رہی تھی۔
بھٹو نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ان کی اپنی زمینیں اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھیں۔بھٹو کے چچا زاد خاندان میں بڑے جاگیردار تھے۔ وہ ان دنوں پارٹی کے رہنما تھے اور زبردست اصلاحات کے حق میں تھے۔بھٹو کو جس چیز نے اصلاحات سے باز رکھا وہ سیاسی موقع پرستی تھی۔ انہوں نے پنجابی جاگیرداروں کو انتخابی شکست دی تھی۔ اس سماجی پرت کی وفاداری اپنے آ پ سے تھی یا اپنی جائیداد سے۔ان میں سے اکثر اپنی بیڑی چھوڑ کر بھٹو کی چمکیلی بھڑکیلی نائو میں سوار ہو گئے۔چھ ماہ کے اندر اندر ملک کے بڑے بڑے جاگیردار بھٹو کی جماعت میں شامل ہو چکے تھے۔ ان کو قابو میں رکھنے کے لئے بھٹو زرعی اصلاحات کو ایک دھمکی کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ یہ بھٹو کی ایک بڑی غلطی تھی۔ یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ نئی حکومت میں تعلیم، صحت اور زچہ بچہ کی دیکھ بھال سے متعلق سہولیات بہتر ہو جائیں گی۔ اعداد و شمار اس کی نفی کرتے ہیں۔ 1972 ء میں دورانِ زچگی بچوں کی شرح اموات ایشیاء میں سب سے زیادہ تھی۔ہزار میں سے ایک سو بیس بچے ہلاک ہو جاتے تھے۔ 1977 ء میں بھی اعداد و شمار عین یہی تھے۔شرح خواندگی میں ہلکی سی بہتری آئی مگر طبقاتی نظامِ تعلیم کا ڈھانچہ جوں کا توں موجود رہا۔ تبدیلی کے بغیر بلا امتیاز نیشنلائزیشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے بڑے سرمایہ دار سب بھٹو حکومت کے خلاف ہو گئے جبکہ شہری باسیوں کی زندگی میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔صنعتوں کو قومیانے سے ریاستی نوکر شاہی کا حجم بڑھ گیا ، اقرباء پروری اور بد عنوانی کو فروغ حاصل ہوا، صنعت کار بدک گئے اور وہ اپنا سرمایہ لیکر مشرقِ وسطیٰ، مشرقی افریقہ، لندن یا نیو یارک چلے گئے۔ کچھ تو کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قسطوں میں کی گئی اصلاحات کامیاب ثابت نہیں ہوتیں۔عوامی بہبود کے منتخب اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کے ساتھ ساتھ سختی کے ساتھ ٹیکس کی وصولی اور آ ہنی ریگولیشن سے شائد مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے۔
دوسرا مسئلہ تھا فوج۔ فوج کا کردار ایک ایسی لابی کا نہیں جوحکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہو، مثلاً جس طرح امریکہ میں فوج کرتی ہے۔ یہاں تو وہ مستقل اس سازش میں مصروف رہتی ہے کہ کس طرح وہ خود اقتدار میں آ سکتی ہے۔بھٹو کو دوسرروں کی نسبت یہ بات زیادہ بہتر معلوم تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اس کا ڈھانچہ از سرِ نو تشکیل دینے کی بجائے اپنے لئے فیڈرل سکیورٹی فورس(ایف ایس ایف) ایسی پیرا ملٹری گارڈ تشکیل دی جس کی قیادت خوابوں کی دنیا میں رہنے والے سابق جرنیل ،اکبر خان، کو سونپی جو پچاس کی دہائی میں اشتراکی دانشوروں کے ہمراہ فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میںجیل کاٹ چکے تھے۔ فوجی قیادت،جسے جوں کا توں چھوڑ دیا گیا تھا، ایف ایس ایف کے قیام پر سخت ناراض ہوئی۔فوج میں چھانٹی کی گئی تھی۔ ایک ہزار کے قریب فوجی افسر قبل از وقت ریٹائر کر دئے گئے تھے جبکہ چند سو بیوروکریٹ’’ بد عنوانی‘‘ کے الزام میں بر طرف کئے گئے ۔یہ ادراک کافی نہیں تھا کہ ان دو اداروں کی اصلاح ضروری ہے۔سول نوکر شاہی کو انتظامی طاقت کے ماتحت کر دینے کے نتیجے میں صورتحال بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بھی بری ہو گئی۔
نیا آئین ملک کے معروف وکیل میاں محمود علی قصوری نے تحریر کیا تھا جو بطور وزیرِ قانون ان چند لوگوں میں سے تھے جو بھٹو سے اختلاف کر سکتے تھے۔ قصوری نے صدارتی نظام کی شدید مخا لفت کرتے ہوئے ایک ایسے وفاقی پارلیمانی نظام کی وکالت کی جس میں انتظامیہ پارلیمان کو جوابدہ ہو۔ بھٹو نے آخر کار یہ بات مان لی مگر اس بات پر اصرار کیا کہ وزیرِ اعظم کو ہٹانے کا اختیار پارلیمان کے پاس نہیں ہو گا ۔بعد ازاں یہ اختیار خوشی خوشی فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔نیا آئین اگست 1973 ء میں نافذ ہوا۔ بنگال کھو دینے کے حالیہ تجربے کے باوجود پیپلز پارٹی نے اس وقت بھٹو کا ساتھ دیا جب انہوں نے سرحد اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کو برطرف کرتے ہوئے نیپ رہنمائوں کو ’’غداری‘‘ کے الزام میں گرفتار کر کے، لغو الزامات میں ان پر مقدمہ چلایا۔ ان پر الزام تھا کہ ان رہنمائوں نے سویت روس اور عراق کے ساتھ مل کر پاکستان اور ایران کو توڑنے کی سازش بنائی ہے۔اگر کوئی سازش موجود تھی تو وہ ایران اور پاکستان کے خفیہ اداروں نے مل کر بنائی تھی جس کا مقصد سرحد اور بلوچستان کی آزاد حکومتوں کا خاتمہ تھا کہ شاہ ایران کی نظر میں یہ حکومتیں ’’تخریبی‘‘ تھیں۔
بھٹو کی مہلک غلطی یہ تھی کہ وہ نہ تو اپنی جماعت کو اقتدار میں شامل کرنے پر تیار تھے نہ ہی کسی دوسری جماعت کو۔اگر وہ شیخ مجیب کیساتھ اشتراکِ اقتدار کر لیتے تو فوج کے لئے بنگال پر فوج کشی اور سابق ریاست کی تباہی ناممکن نہیں تو خاصی مشکل ضرور ہو جاتی۔اگر وہ بالغ نظر ہوتے تو نیپ کے صوبائی رہنمائوں کو مرکزی حکومت میں شامل کرتے۔اقتدار پر اپنی اجارہ داری بنا کر انہوں نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری۔ اس کے فوری اثرات انتہائی مہلک ثابت ہوئے۔
بلوچستان کے دو منتخب رہنما، غوث بخش بزنجو اور عطااللہ مینگل، بالترتیب صوبے کے گورنر اور وزیرِ اعلیٰ،قید میں تھے۔ میری دونوں کے ساتھ شناسائی تھی ۔ 1981 ء میں ایک طویل گفتگو کے دوران عطااللہ مینگل نے انہیں درپیش مسائل بارے مجھے بتایا:
’’جب میں بلوچستان کی مچھ جیل میں تھا تو مجھے ہمارے حالات بخوبی سمجھ آئے۔ جیل کا وارڈنر وہ سرکاری ملازم ہوتا ہے جس کی تنخواہ سب سے کم ہوتی ہے۔ اس جیل میں ایک سو بیس ایسے ملازم تھے جبکہ صرف گیارہ بلوچ تھے۔ اگر کوئی اس جانب نشاندہی کرتا تو اسے غدار قرار دیا جاتا۔ جب 1972 ء میں ہم نے حکومت سنبھالی تو بائیسویں گریڈ میں کل بارہ ہزار ملازم تھے۔ صرف تین ہزار بلوچ تھے۔ پوری پاکستانی فوج میں چند سو بلوچ ہیں۔ بلوچ رجمنٹ میں کوئی بلوچ نہیں! ایوب دور میں قلات اسکاوٹس کے نام سے پیرا ملٹری فورس بنائی گئی۔ اس میں قلات سے صرف دو لوگ بھرتی کئے گئے۔۔۔۔اگر آپ کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر اتریں اور شہر کی سیر کریں، آپ کو اندازہ ہو گا کہ پچانوے فیصد پولیس کانسٹیبل باہرسے لائے گئے ہیں۔ جب ہم نے اس توازن کو درست کرنے کی کوشش کی تو بھٹو اور ان کے پنجابی نائب مصطفیٰ کھر نے ہماری حکومت کے خلاف پولیس کی ہڑتال کروا دی۔ یہ قوم پرستی کی جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف تھا۔طالب علم ،بالخصوص، آخری حد تک جانا چاہتے تھے۔ میں نے اور بزنجو نے انہیں بتایا’’ یہ وقتی معاملہ ہے۔ ہمارے پاس کوئی اور متبادل نہیں‘‘۔ حکومتیں، فوجی آمریتیں ،آئیں اور چلی گئیں مگر ان سب میں ایک بات مشترک تھی، سب نے بلوچ کے ساتھ جبر اور زیادتی کی۔‘‘
بلوچوں نے 1973 ء میںاپنی حکومت کی برطرفی پر سخت برا منایا اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں بلوچ طلباء اور کارکن پہاڑوں کا رخ کر چکے تھے۔ جو زیادہ ترقی پسند رجحان رکھتے تھے انہوں نے مری قبیلے کے مارکس وادی، لینن وادی، گویرا اسٹ رہنمائوں کی قیادت میں بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ (بی پی ایل ایف) تشکیل دیا اور مزاحمت شروع کر دی جو چار سال جاری رہی۔ بھٹو نے پنجابی اکثریت والی فوج روانہ کی اور یوں اپنے ہی پیدا کردہ سیاسی بحران کوحل کرنے میں اپنی نا اہلی کا ثبوت دیا۔ایک اور غلطی یہ کی کہ اس طرح فوج کو، جس کی ساکھ تباہ ہو چکی تھی، اپنی ساکھ بحال کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ کامیابی کے لئے فوج کو مدد کی ضرورت تھی جو کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کی صورت، ایرانی پائلٹوں سمیت، شاہ ایران نے بھیجی ۔انیسویں صدی میں انگریز نے قومی سرحدیں مسلط کیں جس کے نتیجے میں بلوچستان ایران، افغانستان اور برطانوی ہند میں تقسیم ہو گیا اور اس خطے کی سیدھی سادی سیلانی بود و باش بری طرح متاثر ہوئی ۔ شاہ ایران کو ڈر تھا کہ یہ بغاوت سرحد پار کرتی ہوئی ان کی بادشاہت کے لئے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔ مغرب نے بھٹو کی پشت پناہی اس خوف کے مارے کی کہ آزاد بلوچستان سویت حلقہ اثر میں جا سکتاہے اور یوں سویت بحریہ گوادر کی بندر گاہ سے اپنے عالمی مقاصد کو آگے بڑھا سکتی ہے۔فوج نے سرکشی پر قابو تو پا لیا مگر اس کی قیمت چکانی پڑی۔ فوجی مہم کی سفاکی نے بلوچستان کے سینے میں آگ بھڑکا دی۔1
بلوچستان میں بحران نے ملک میں بھٹو کے قدوقامت کو نقصان پہنچایا۔ نئے پاکستان کے حقیقی مسائل سے نپٹنے میں ناکامی سے پیپلز پارٹی نے اپنے نا کار ہ ہونے کا ثبوت دیا۔بہت سوں کا خیال تھا کہ بنگال کے المیئے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ وہی ڈھاک کے تین پات تھے ۔
اب کی بار البتہ ایک سویلین مطلق العنان کرسی پر براجمان تھا۔ سرکاری ٹی وی بھٹو کو اسی طرح نمایاں کرتا جیسے کسی دور میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو کیا جاتاتھا۔ پریس کی کڑی نگرانی کی جاتی جبکہ پیپلز پارٹی کے اندربحث و مباحثے کی سخت حوصلہ شکنی کی جاتی۔ پارٹی لیڈر کا ایک لفظ ہی کافی تھا۔ اس کے نتیجے میں کچھ نے تو استعفیٰ دے دیئے اور، بعد ازاں، بعض منحرف پی پی پی رہنمائوں کو پولیس کاجبر سہنا پڑا۔ یہ سیاسی دیوالیہ پن کا اعتراف تھا۔ اگر پارٹی کے اندر جمہوریت موجود رہتی تو بھٹو کے ساتھ ساتھ انکی جماعت اور ملک کو بھی بہت فائدہ ہوتا۔الٹا یہ ہوا کہ خفیہ ادارے مضبوط بنائے گئے۔ انہیں کھلی چھٹی دی گئی کہ مخالف سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کریں اور انکی خبریں پہنچائیں۔
بھٹو نے یہ سارے خوف اور خدشے ایوب کابینہ میں بطور وزیراپنے تجربے کے باعث پال رکھے تھے۔بھٹو کو معلوم تھا کہ خفیہ ادارے کس طرح سیاسی مخالفوں کو تشدد کا نشانہ بناتے تھے اور بعض اوقات سیاسی کارکن ہلاک بھی کر دیئے جاتے تھے۔انہیں براہِ راست تجربہ تھا کہ سخت گیر جاگیردار اور کالا باغ کا پس ماندہ نواب،مغربی پاکستان میں ایوب کا گورنر ،کس طرح صوبے کو اپنی جاگیر کے طور پر چلا رہا تھا۔ کالا باغ نے اپنے علاقے میں سکول نہیں کھلنے دیئے مبادا لوگوں میں شعور آ جائے۔ بھٹو کالا باغ کے مطلق العنان طرز ِحکومت سے خائف بھی تھے اور اس کے مداح بھی۔
اپنے ماضی سے دامن چھڑانے کی بجائے بھٹو نے اسے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ اایسا انہوں نے ایوب یا کالا باغ بننے کی کسی شعوری کوشش کے پیشِ نظر نہیں کیا بلکہ اس خوف کے مارے کیا کہ کہیں کوئی نئی حزبِ اختلاف نہ جنم لے لے۔ نفسیاتی لحاظ سے شدید عدم تحفظ کا شکار، بھٹو کو ہر طرف خیالی دشمن دکھائی دیتے تھے۔ خود نفسی، ذاتی دفاع ، ذاتی بقاء اور خوشامد ان کی انتظامیہ کی نمایاں خصوصیات بن گئیں۔ ان میں سے کسی بھی خصوصیت کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے مخالف بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ملکی تاریخ میں ایسا قابل رہنما پیدا نہیںہوا۔ سیاستِ عالم پر انکی گرفت تاریخ کے گہرے مطالعے کا نتیجہ تھی۔ انہوں نے برکلے میں ہانس کیلسن کی زیرِ نگرانی عالمی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ کیلی فورنیا اور آکسفورڈ میں ان کے اساتذہ ان کے گہرے ادراک سے متاثر ہوئے تھے۔ المیہ انکی یہ سوچ تھی کہ اپنی دانشورانہ برتری کے باعث وہ ناقابلِ شکست ہیں اور یوں اپنے بدترین دشمن وہ خود تھے۔ انکے حامیوں کی بڑی تعداد غریبوں پر مشتمل تھی۔ وہ ،سب سے بڑھ کر، اپنے بچوں کے لئے برابر کے مواقع چاہتے تھے۔ اگر یہ مطالبہ فوری طور پر پورا کرنامشکل بھی تھا تو کم از کم اس جانب پہلا قدم اور ملک کو جدید بنانے کے سفر کا آغاز تو کیا جا سکتا تھا۔کسی چیز کا آغاز ہی نہیں ہو سکا لہٰذا جب اختتام کا وقت آیا تو لوگو ں کو صرف ایک ایسا فرد یاد رہ گیا جو بہادری کے ساتھ انکی طرف سے ان پر ہمیشہ جبر کرنے والوں کی مخالفت میں بولتا تھا۔ ایک بار ان کے آبائی شہر لاڑکانہ،سندھ، میں کسان رہنما اور کارکن ان سے بات چیت کے لئے آئے۔ گھنٹہ بھر یہ لوگ اس بات پر غصہ نکالتے رہے کہ بھٹو نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے جبکہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے جاگیردار زرعی اصلاحات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بھٹو نے یہ سب سنا اور کہا’’پوری ایمانداری سے بتائو کیا تم کسی ایسے وزیراعظم بارے سوچ سکتے ہو جو اس طرح تم لوگوں سے ملاقات کرتا اور خاموش بیٹھا تمہاری شکایتیں سنتا رہتا۔‘‘ کسان رہنمامسکرادئیے،خوش ہو کر نعرے لگانے لگے اور ملاقات ختم ہو گئی۔ ان لوگوں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک ہونا چاہئے تھا۔ جس نسل نے بھٹو کو اقتدار کی مسند تک پہنچایا تھا، اس میں زبردست جوہر موجود تھا: اس میں سیاسی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، یہ نسل فراخدل تھی، آدرش وادی تھی اور اسی وجہ سے ہر کسی کے اچھے مستقبل کا خواب دیکھتی تھی۔بنگال کے واقعات سے مضمحل ،اپنے وسوسوں پر قابو پاتے ہوئے، اوپر سے پھیلائی گئی شائونزم کی لہروں پر سوار، غریبوں کوتوقع تھی کہ بچے کھچے ملک میں ان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ انہیں مایوس ہونا پڑا۔پاکستان کی مصیبت یہ نہیں کہ اس کے روشن خیال رہنما جاہلوں میں گھرے ہوئے تھے۔ معاملہ اس کے بالکل الٹ رہا ہے۔
شکست خوردہ فوج کا کیا بنا؟ ان دنوں میں یہ بات عام لوگ اکثر کہتے ہوئے سنے جاتے کہ اگر بھٹو نے چھ سات جرنیلوں کو لٹکا دیا ہوتا تو سب ٹھیک ہو جاتا۔ اگر یہ خوش آئند بھی ہوتا تو بھٹو ایسا کوئی اقدام کس طرح اٹھا سکتے تھے؟بھئی انہوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی حمایت کی تھی۔اگر وہ ستر کے انتخابات کے بعدقومی اسمبلی کے اجلاس میں حصہ لے لیتے اور اگر وہ شیخ مجیب کو ملک کا وزیر اعظم مان لیتے تو فوج کی مشرقی پاکستان میں مداخلت مشکل ہوتی۔اگر فوج پھر بھی ایسا کر تی تو مغربی پاکستان میں بھی مسلح سرکشی شروع ہو جاتی اور یوں ایک بالکل مختلف صورتحال جنم لیتی۔ جن سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ بنگالی عورتوں کی آبرو ریزی کریں اور بنگالی شہریوں کو تہ تیغ کر ڈالیں، پنجاب میں ان سپاہیوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہوتا جہاں کے وہ خود بھی رہنے والے تھے۔
پنجاب میں عمومی تاثر یہ تھا کہ شرابی جرنیل اور بھارتی مداخلت کے باعث پاکستان ٹوٹ گیا۔جیسا کہ میں یہ دلیل دیتا رہا ہوں یہ سادہ لوح اور شائونسٹ نقطہٗ نظر تھا جس میں مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستانی اشرافیہ کے ہاتھوں منظم استحصال کی بات موجود نہیں تھی۔ اس تنازعے بارے بھٹو کاجو اپنا نقطہٗ نظر تھا، اس کے پیشِ نظر بھٹو جرنیلوں پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلا سکتے تھے نہ انہیں پھانسی دے سکتے تھے مگر وہ یہ ضرور کر سکتے تھے کہ فوج کا حجم کافی حد تک کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا جمہوری کمانڈ سٹرکچر تشکیل دے دیتے اوریوں فوج کا بنیادی نوآبادیاتی کردار ختم کر دیتے۔ 1972-73ء میں ایسے کسی اقدام کو زبردست حمایت حاصل ہو سکتی تھی۔
اسکے بجائے،بھٹو نے اپنے کردار کے عین مطابق، فوج سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کی، کچھ سینئیر جرنیل ریٹائر کر دیئے، کچھ کو نواز دیا۔بنگال میں جنگ کے ’’ہیرو‘‘ جنرل ٹکا خان کو نیا فوجی سربراہ مقرر کیا ا ور 1976 ء میں انکی ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ جرنیلوں پر فوقیت دیتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔بھٹو کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء سادہ لوح اور وفادار ہیں۔ اول تو ایسا تھا نہیں اور اگر ایسا ہوتا بھی تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنا تھا۔ ادارے کی اصلاح کرنے کی بجائے افراد پر توجہ دینا ایک مہلک غلطی تھی۔ اس غلطی کا خمیاز ہ بھٹو نے اپنی زندگی کی صورت بھگتا۔ ملک آج بھی بھگت رہا ہے۔ایک کارآمد احمق کی بجائے جنرل ضیاء کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ چارلز ڈکنز کے ناول ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ کا کردار ، عیار کلرک، اُرہیا ہیپ یاد آیا۔ایک ایسا منافق جس کی حرکات وسکنات سے انتہائی عاجزی جھلکتی جو اس کے اصل منصوبوں پر پردہ ڈال دیتی۔ضیاء کے جرنیل ساتھی کے ایم عارف نے بغیر کسی طنز کے جنرل ضیاء بارے کہا’’وہ دیندار مسلمان تھے ،عاجزی کا نمونہ تھے‘‘۔ ایک اور قریبی ساتھی جنرل سعید قادر کے نزدیک ’’عاجزی‘‘ ان کے باس کی خوبی جبکہ ’’منافقت‘‘ ایک کمزوری تھی ۔جنرل سعید قادر دونوں کو باہم منسلک کرنے سے قاصر رہے۔ اپنے بہت سے پیشرو جرنیلوں کی طرح ضیاء برٹش انڈین آرمی میں سنِ بلوغت کو پہنچے۔ 1924 ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے، دہلی میں تعلیم حاصل کی اور تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے۔ اشرافیہ کے بر عکس اپنے ’’معمولی خاندانی پس منظر‘‘ پر زور دیتے۔ فوج کی کمان انہیں سونپنے والے رہنما کی تعریف بھی دل کھول کر کرتے۔
فورٹ لیون ورتھ، کنساس، میں تربیت کے بعد بریگیڈئیر ضیاء الحق کو 1968 ء کے اختتام میں اردن بھیج دیا گیا جہاں ا ن کی ذمہ داری تھی اہلِ اردن کو عوامی سرکشی کچلنے کی تربیت دینا ۔اس تربیت کا مقصد فلسطینیوں کا سر کچلنا تھا جو اردن میں اکثریت رکھتے تھے۔ 1968 ء کی چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگِ قاموس آ سا، جس کے نتیجے میں مصری و شامی فوج کا دھڑن تختہ ہو گیا، غزہ اور فلسطین کے بڑے حصے اسرائیلی قبضے میں چلے گئے اور عر ب قوم پرستی کو ایسا زبردست دھچکا لگا جس سے وہ کبھی سنبھل نہ سکی، فلسطینی اس جنگ کے بعد غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔فلسطینیوں کو اندازہ ہو گیا کہ ان کو اپنی لڑائی خود لڑناہو گی اور اردن ان کے خیال میں نازک حلقہٗ زنجیر تھا۔ اسرائیلی فتح کے بعد اردنی بادشاہ انتہائی غیر مقبول ہو چکا تھااور بادشاہ کا تختہ الٹ کر فلسطینی ایک ریاست حاصل کر سکتے تھے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ ستمبر 1970 ء میں بریگیڈئیر ضیاء نے ان اردنی دستو ںکی قیادت کی جنہوں نے فلسطینی سرکشی کا قلع قمع کیا۔ جنرل موشے دایان نے برجستہ کہا کہ شاہ حسین نے ’ ’گیارہ دن میں اتنے فلسطینی ہلاک کر ڈالے کہ اسرائیل نے بیس سال میں نہیں کئے‘‘۔اس مہینے کو سیاہ ستمبر کا نام دیا گیا۔ ضیاء کو اردن کا سب سے بڑا تمغہ دیا گیا اور وہ ایک فاتح کی طرح اپنے ملک لوٹے۔ جلد ہی ان کی ترقی ہو گئی اور وہ پنجاب کے شہر کھاریاں میں کراپس کمانڈر تعینات کر دئے گئے۔ دوستوں کا کہنا ہے کہ سیاہ ستمبر ان کے ماضی کا وہ گوشہ تھا جس کے ذکر سے وہ ہمیشہ احتراز برتتے مگر یہ بات واضح ہے کہ سیاہ ستمبر کو اور تو اور بھٹو نے بھی معمول کی کارروائی سمجھا جو تنظیمِ آزادیء فلسطین کی سرِ عام حمایت کرتے تھے۔
غریبوںنے شائد جبلی طور پر بھٹو کی حمایت کی (اشرافیہ نے اس سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے پر بھٹو کو کبھی معاف نہیں کیا) مگر ایسے اقدامات کم ہی کئے گئے جن سے ان کے اس اعتماد کا جواز ملتا ہو۔بھٹو کا اندازِ حکومت استبدادی تھا جبکہ بھٹو کی انتقام جوئی انتہائی فاسد۔ بھٹو کی زیر نگرانی آئی ایس آئی نے ’’الیکشن سیل‘‘ تشکیل دیا جس کا مقصد ، مخالفوں کو دھمکا کر اور مقامی افسروں سے حکومت کے حق میں دھاندلی کو یقینی بنا کر، حکومت کو’’ جیتنے‘‘ میں مدد دینا تھا۔ بلا کی اس موقع پرستی کا نتیجہ ان واقعات کی صورت نکلا جو بعد میں پیش آئے۔ مذہبی حزبِ اختلاف کا مقابلہ بھٹو نے اس طرح کیا کہ انہی کے کپڑے پہننے کی کوشش کی ۔شراب پر پابندی لگائی گئی، جمعے کو سرکاری ہفتہ وار تعطیل قرار دیا گیا، احمدیوں کو کافر قرار دیا گیا (جو جماعتِ اسلامی کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اکثر سیاستدان اس مطالبے کو حقارت سے ٹھکراتے رہے)۔ایک ایسے میدانِ جنگ میں اترنے سے، جس کا فیصلہ غنیم نے کیا تھا، بھٹو نے جنگ ہار دی۔ ان اقدامات نے بھٹو کو کوئی فائدہ نہ پہنچایا البتہ ملک کا نقصان ہوا کہ اس طرح دھرم وادی سیاست کے جائز ہونے کا جواز مہیا ہو گیا۔
یہ 1972 ء سے کس قدر مختلف تھا جب بھٹو نے لاہور میں ایک بڑے جلسہ ء عام سے خطاب کیا۔ انہوں نے حسبِ معمول وہ گلاس تھام رکھا تھا جس میں وہ وہسکی پانی کے ساتھ ملا کر جلسوں میں پیتے تھے ۔ اس موقع پر اسلام پرست کارکنوں کا ایک گروہ جو ہشیاری سے جگہ منتخب کر کے اسٹیج کے پاس ہی کھڑا تھا، یک آواز چلایا’’یہ کیا پی رہے ہو؟‘‘بھٹو نے گلاس اٹھایا اور کہا’شربت‘‘۔ سارا مجمع ہنسنے لگا۔گڑبڑ کرنے والا گروہ غصے سے لال پیلا ہو کر رہ گیا۔ ’’لوگو دیکھو! تمہارا لیڈر شربت نہیں شراب پی رہا ہے‘‘،وہ چلائے۔ غصے سے بپھرے ہوئے بھٹو نے جواب دیا:’’ ٹھیک ہے۔ شراب پی رہا ہوں۔ تم بہن ۔۔۔۔کی طرح عوام کا خون نہیں پیتا۔‘‘لوگ کھڑے ہو کر نعرے لگانے لگے’’جیوے جیوے جیوے بھٹو،پیوے پیوے پیوے بھٹو ‘‘۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کم ہی پاکستانی سیاستدان تھے جو عالمی سیاست میں اس قدر دلچسپی رکھتے تھے جس قدر بھٹو کو تھی۔ ٹوٹے ہوئے ، شکست خوردہ پاکستان میں برسرِ اقتدار آتے ہی ان کے اس علم کا امتحان شروع ہو گیا۔بھٹو نے مسز اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ میں کامیاب معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں نوے ہزار پاکستانی سپاہی رہا ہو سکے جو 1971ء میں بھارتی فوج کے سامنے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کے بعد سے بھارتی قید میں تھے۔ اس کے فوری بعد انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی جس کا مقصد فوج کے لئے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا عمل خوشگوار بناناتھا۔ خود تشکیکی کو اس عمل سے بھی سکون نہ ملا کیونکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جو خلاء پیدا کیا تھا اسے پُر کرنا آسان نہ تھا۔ بھٹو نے اب فیصلہ کیا کہ بطور قوم پاکستان کی بقاء بھارت کے ساتھ ایٹمی توازن قائم کئے بنا ممکن نہیں۔
بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو راولپنڈی میں بھٹو نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہزار سال گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو کو اچھی طرح معلوم تھا کہ کون سا طبقہ ہزار سال گھاس کھائے گا مگر بھٹو کا خیال تھا کہ نئے پاکستان کو ایک احساسِ فخر، ایک کامیابی کی ضرورت ہے۔روٹی ،کپڑا،مکان، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی کے بعد بھٹو نے قوم کو ایٹم بم دینے کے لئے زبردست جستجو شروع کردی۔ یہ نئی پاکستانی قوم پرستی کا سنگِ بنیاد بن گیا جو بنگال کی علیحدگی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ یہ ایک مہلک فیصلہ تھا۔
ایٹمی صلاحیت کا حصول خفیہ طور پر ہی ممکن تھا، معلومات کا مکمل بلیک آوٹ کر دیا گیااور اس منصوبے کا سرپرست نابغہ روزگار بھٹوقرار پائے۔بھٹو کے نزدیک یہ مقتدر ترین ، آزادی بخش کام تھا۔ یہ منصوبہ خفیہ رہنا چاہئے تھا لیکن ملک کے ممتاز طبیعات دانوں کے ساتھ ہونے والی ابتدائی ملاقات جس مقام پر ہوئی اس سے زیادہ غیر موزوں کوئی اور مقام نہیں ہو سکتا تھا ، بھٹو خفیہ ملاقاتوں کے لئے ایسی ہی جگہوں کا انتخاب کرتے تھے۔ اس ملاقات کا مقام ملتان کے ایک بڑے جاگیردار، نواب صادق حسین قریشی کی حویلی تھی۔ملتان کی شہرت کا سبب تھا اس کے میٹھے اور نفیس آم، گرمیوں میں چلنے والی لو،صوفیوں کے مزار، مغل عہد سے چلی آ رہی دیدہ زیب، منقش اینٹ سازی کی حرفت۔ نواب قریشی بھٹو کے نئے ساتھیوں میں سے (اور میرے سیکنڈ کزن ) تھے اور رازداری نبھانے کے لئے ان پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا۔
ملاقات کے لئے جمع نصف درجن کے قریب ملک کے مقتدر سائنس دانوں کو یقین نہیں آ رہا تھا جب انہیں ملاقات کا مقصد بتایا گیا۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ سب خالی خولی بڑھک بازی ہے، دیوانے کی بڑ ہے۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چئیرمین ڈاکٹر آئی ۔ ایچ۔ عثمانی تو برملا اپنے شکوک کا اظہار کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ بھارت پاکستان سے بیس سال آگے تھا اور پاکستان کے پاس ’’ اس قسم کے منصوبے کے لئے انفرا سٹرکچر ہی موجود نہیں تھا۔ میں دس کلو پلاٹونیم حاصل کرنے کی بات نہیں کر رہا۔ میں حقیقی انفرا سٹرکچر کی بات کر رہا ہوں۔ پاکستان میں میٹلرجی کی صنعت موجود ہی نہیں لیکن اگر آپ سیاسی پُوکر کھیل رہے ہیں اور آپ کے پاس پتے نہیں بچے، تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ جواء کھیلتے چلے جائیں‘‘۔
بھٹو کو یاد دہانی کرائی گئی کہ ملک میں موجود سائنس گریجویٹس کا معیار انتہائی پس ماندہ ہے۔ بھٹو کو بتایا گیاکہ یہ نا ممکن ہے لہٰذا وہ اس ارادے کو ترک کر دیں۔ بھٹو نے ان کی بات پر کان دھرنے کی بجائے نوجوان اور مشتاق طبیعات دانوں کے گروہ سے رابطہ کیا۔ منیر احمد خان، ثمر مبارک مند اور سلطان بشیر الدین جیسے لوگ کامیابی اور ریاستی سر پرستی کے بھوکے تھے۔ یہ لوگ ایک ایسے سیاسی رہنما کے سرئیل منصوبے میں کل پرزہ بننے پر خوش تھے جو پاکستان کی فضائوں میں ایٹمی دھوئیں کے بادل دیکھنے کے لئے بے چین تھا۔ جلدہی ایک مسلم قوم پرست بھی اس گروہ میں آن شامل ہوا: اے کیو خان جو تقسیم کے کچھ سال بعد بھارت سے مہاجر ہو کر پاکستان آئے اور بھارت کی نفرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کا ایٹم بم بنایا ۔دور دراز کہوٹہ وہ مقام تھا جہاں بھٹو کی ایٹمی ریاست نے جنم لیا۔ایٹمی تنصیبات آج بھی و ہیں ہیں۔
سائنس دان خوش خوش اپنے کام میں مصروف تھے کہ ادھر پڑوس ہی میں واقع اسلام آباد کے اندر بھٹو کی زور زبردستی نے تمام سیاسی مخالفوں کو قومی اتحاد کی چھتری تلے متحد کر دیا۔انتخابات کا بے چینی سے انتظار ہو رہا تھا۔ اپنی تمام تر غلطیوں کے باوجود بھٹو غالباََ 1977 ء کا انتخاب ریاستی مداخلت کے بغیر بھی جیت گئے ہوتے گو اکثریت اتنی نہ ملتی۔ اس بات پر سب متفق ہیں۔ آئی ایس آئی اوریاستی مشینری میں موجود ان کے زیادہ بڑے خوشامدی پیروکارکوئی خطرہ مول لینے پر تیار نہ تھے۔ مداخلت اس قدرخام اور بھرپور تھی کہ حزبِ اختلاف سڑکوں پر نکل آئی اور اپنی حسِ مزاح اور رگِ ظرافت کے با وصف بھٹو بحران سے نپٹنے میں ناکام رہے۔ امریکہ سے نپٹنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ واشنگٹن کی نظر میں بھٹو ہمیشہ ناقابلِ اعتبار ہی رہے۔ واشنگٹن نہ تو کبھی ان کی جماعت کے دکھاوے سے متاثر ہوا نہ ہی ان ہجوموں سے جو بھٹو کو سننے جمع ہوتے۔ اب امریکہ کو یہ فکر بھی لاحق ہو گئی کہ بھٹو بم بھی بنا سکتا ہے۔ امریکہ بھٹو سے نجات اور جلد نجات کا خواہش مند تھا۔
جون1977 ء میں، فوج کے ہاتھوں برطرفی سے کچھ ہی قبل، بھٹو نے پارلیمنٹ کو بتایا ’’ مجھے معلوم ہے خونی کتے میرے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں‘‘ اور امریکی وزیرِ خارجہ سائرس وینس پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ موت کی کوٹھڑی میں لکھی گئی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں بھٹو نے الزام لگایا کہ اگست 1976 ء میں ہنری کسنجر نے اپنے دورہء پاکستان کے دوران انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ ایٹمی قوت کے حصول سے باز نہ آئے تو انہیں ’’ عبرتناک مثال بنا دیا جائے گا‘‘۔ سچ کی بابت بھٹو اور کسنجر دونوں ہی کفایت شعاری سے کام لیتے تھے مگر بھٹو کے اس بیان بارے حال ہی میں ایک صحافی نے بھی تصدیق کی ہے۔ پاکستان میںمالیاتی شعبے کے ایک اخبار ’’بزنس ریکارڈر‘‘ میں ایک صحافی نے اس موقع پر موجود پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر (جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی)کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:
’’۔۔۔۔کسنجر نے کچھ دیر توقف کیا ا ور پھر مہذب انداز میں کہا ’’ میں بنیادی طور پر مشورہ دینے نہیں ، تنبیہہ کرنے آیا ہوں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے امریکہ کے بہت سارے تحفظات ہیں لہٰذا آپ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ آپ میری بات مان جائیں‘‘۔ بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا ’’فرض کریں میں نہیں مانتا تو؟‘‘ہنری کسنجر انتہائی سنجیدہ ہو گئے۔
انہوں نے بھٹو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے ارادتََا کہا’’توپھر ہم آپ کو عبرتناک مثال بنا دیں گے‘‘۔ بھٹو کاچہرا غصے سے سرخ ہو گیا۔وہ کھڑے ہو گئے، اپنا ہاتھ کسنجر کی طرف بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا’’پاکستان امریکی صدر کے بغیر بھی گزارہ کر سکتا ہے۔ اب آپ لوگوں کو اس خطے میں کوئی اور اتحادی تلاش کرنا ہو گا‘‘۔1
اگر یہ درست ہے تو پھر ہمیں پوچھنا ہو گا کہ فروری اور اگست 1976ء کے دوران کیا ہوا؟اس سال 26 فروری کو بھٹو، اقوامِ متحدہ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک میں تھے ۔ امریکی وزیرِ خارجہ سے انکی ایک ملاقات کا بندوبست کیا گیا۔ ڈی کلاسیفائی کی گئی دستاویزات سے اس ملاقات بارے کچھ دلچسپ باتوں کا سراغ ملتا ہے ۔بھٹو نے انتہائی خلوص کے ساتھ مشورہ دیا کہ انگولا میں امریکہ کو کس طرح نپٹنا چاہئے تھا (بھرپور جوابی فوجی کارروائی کرنی چاہئے تھی)اور متعلقہ معاملات پر بات کی جس پر کسنجر کافی چڑچڑائے اور انہوں نے بھٹو سے پوچھا کہ کیاانہوں نے زبگنیو بر ژنسکی سے بات کی ہے۔ اس کے بعد سیاستِ عالم اور امریکی حکمتِ عملی پر ایک زبردست بحث ہوتی ہے جس میں صوبیدارنے اس بابت اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ دشمن سلطنتِ امریکہ کی حکمتِ عملی کو اسکی کمزوری سمجھ رہے ہیںجو سلطنت کے دوستوں کے لئے باعثِ پشیمانی ہے۔ بھٹو کے خیال میں سویت روس کے ساتھ امریکی روئیے میں ضرورت سے زیادہ لچک آ چکی تھی جبکہ ’’کیوبا ایسی ننھی منی ریاستیں‘‘ دس ہزار کی نفری کے ساتھ انگولا میں جیت گئیں۔ ’’وہاں بارہ ہزار کیوبن تھے‘‘ ہنری نے تصحیح کی اور ہنرمندی کے ساتھ ہر اعتراض کا توڑ کرنے میں مصروف رہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسنجر کے نزدیک ملاقات کا مقصد بھٹو کو خوش کرنے کے علاوہ ایٹمی مسئلے پر بات چیت تھا۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ طرفین کو ایک دوسرے کی نیت معلوم تھی مگر گفتگو کا لہجہ دوستانہ ( بھٹو کے معاملے میں گاہے بگاہے غلامانہ) تھا اور کسی دھمکی کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں:
’’ بھٹو: مسٹر سیکرٹری مجھے یقین ہے مشرقِ وسطیٰ بارے بحث میں ہمارے کردار کو آپ نے پسند کیا ہو گا۔
سیکرٹری (کسنجر): جی۔ ہمیں اس کا احساس ہے۔ اگر میں نے سویت روس سے تعلقات میں لچک، انگولا اور مرکزی اتھارٹی میں کمی بارے بات کی تو اس کہ وجہ یہ تھی کہ آپ ان چند عالمی رہنمائوں میں سے ہیں جو ہمیں سمجھتے ہیں۔
بھٹو: آپ کے اس جملے کے بعد میں آپ کو ایٹمی ری ایکٹروں کا ذکر کر کے اشتعال نہیں دلانا چاہتا۔
سیکرٹری:۔۔۔۔ہمیں اس بات سے غرض ہے کہ کس خاص موقع پر ری پراسیسنگ تنصیبات کا کیا استعمال ہو رہاہے۔ میں نے گذشتہ سال بھی آپ کو بتایا تھا ،ہم اس بات کی قدر کرتے ہیں کہ آپ اپنی ایٹمی صلاحیت ترک کر رہے ہیں۔ اس طرح ہم ایک اچھی صورتحال میں آ گئے ہیں اور دیگر طریقوں سے آپ کی مدد کر سکتے ہیں‘‘۔
بحث جار ی رہی ۔ کسنجر اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اگر ایک بار نیوکلئیر ری پراسیسنگ پلانٹ لگ گیا تو یہ با آسانی ایک اور رُخ اختیار کر سکتا ہے جبکہ بھٹو زمانہ ساز انداز میں دلیل دیتے ہیں کہ ایسی صورت میں مغرب دبائو ڈال کر اسے رکوا سکتا ہے۔ جب بھٹو نے یہ وضاحت کی کہ پاکستان نے عہد کر رکھا ہے ایٹمی صلاحیت کا کبھی غلط استعمال نہیں ہو گا تو ان کے مخاطب نے جواب دیاکہ انہیں ’’الفاظ نہیں حقائق میںدلچسپی ہے‘‘۔ اس صلاحیت کا حامل ملک کسی بھی موقع پر چاہے تو باہمی معاہدہ توڑ سکتا ہے۔
قبل ازاں بھٹو کو بتایا گیا کہ ا مریکہ ایران کو ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ دینے میں دلچسپی رکھتا ہے اور پاکستان سمیت خطے کی دیگر ریاستیں بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ یہ نادر خیال فورڈ انتطامیہ کے دو اعلیٰ اہل کاروں کے ذہن میں آیا تھا جو بعد ازاں ایک اور ری پبلکن انتطامیہ کے دور میں پھر سے منظر عام پر نمودار ہوئے:ڈِک چینی جو اُن دنوں وائٹ ہاوس کے چیف آف سٹاف تھے اور ڈونلڈ رمز فیلڈ ، سیکرٹری دفاع۔چینی آج کل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے پُرجوش حامی ہیں مگرپینٹاگون نے اس تجویز کو ابھی تک ویٹو کیا ہوا ہے۔چینی اور رمز فیلڈ کا پرانا منصوبہ شائد امریکہ کے اسٹریٹیجک مفادات کے پیشِ نظر تیار نہیں ہوا تھا جیسا کہ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق ’’ایران کے لئے ایٹمی سہولت کی پہلی امریکی پیشکش جنرل الیکٹرک اور ویسٹنگ ہاؤس ایسی امریکی کارپوریشنوں کے لئے انتہائی منافع بخش ثابت ہوتی ،انہیں اس منصوبے سے 6.4ارب ڈالر کا فائدہ ہوتا‘‘۔1چینی اور رمزفیلڈ اپنی غلطی پر توبہ کے کبھی بھی زیادہ قائل نہیں رہے۔ دونوں کے لئے کاروباری معاملات کو اسٹریٹیجک معاملات سے الگ رکھنا مشکل ہے۔
بھٹو ایران کے در پر کھڑا نہیں رہنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے اس تجویز کو رد کر دیا مگر وہ سنجیدگی کے ساتھ ری پراسیسنگ پلانٹ میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ انہیں بم میں دلچسپی تھی۔ انہوں نے پاکستانی سائنسدانوں کو یہی ہدایت دی تھی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان دو ملاقاتوں کے درمیانی وقفے میں امریکی خفیہ اداروں نے کسنجر کو بتادیا کہ کیاکھچڑی پک رہی ہے۔کسنجر کو جب احساس ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا جا رہا ہے تووہ ان داتا کی طرح بات کرنے لگے۔ان کا غصہ سامراجی ہی نہیں ذاتی نوعیت کا بھی تھا۔ 1973ء سے ہنری کسنجر نے یہ مہم چلا رکھی تھی کہ پاکستان کو اسلحے کی فراہمی پر عائد امریکی پابندی اٹھا لی جائے اور اس سلسلے میں انہوں نے ہنری بائیروڈ کو امریکی سفیر پاکستان کے ایٹمی قوت بننے بارے یہ اب تک لکھی گئی سب سے اچھی کتاب ہے۔
بنا کر بھیجا تا کہ وہ اس عمل کو تیز کر سکیں اور ایٹمی منصوبے کو قابو کر سکیں۔ اس بات کا اعتراف بعد ازاں بائیروڈ نے ایک انٹرویو میں کیا:
’’جانسن: ۔۔۔چنانچہ آپ 73 ء میں پاکستان چلے گئے
بائیروڈ:درست۔ میں ریٹائر ہونا چاہتا تھا مگر ہنری کسنجر نے مجھ سے بات کی اور مجھے پاکستان جانے کے لئے قائل کر لیا۔ میرا وہاں جانے کا ایک خاص مقصد تھا ا ور میں وہاں ڈیڑھ سال کے لئے گیا تھا۔ پاک بھارت جنگ کے بعد امریکی پابندیاں دس سال جاری رہنا تھیں۔ میرے نزدیک ،طویل المدت بنیاد پر یہ پاکستان سے نا انصافی تھی کیونکہ بھارت نہ صرف سویت روس بلکہ بہت سے دیگرممالک سے بھی اسلحہ لے سکتا تھا۔۔۔۔کسنجر نے کہا’’یہ نامناسب ہے ،ہمیں پابندیاں ہٹانا ہوں گی مگر انڈین لابی وغیرہ کے ہوتے ہوئے یہ آسان نہیں ہے‘‘۔ کسنجر کا کہناتھا’’آپ وہاں جائیں، اتنا عرصہ وہاں رہیں کہ آپ کی ساکھ بن جائے پھر واپس آ کر کیپیٹل ہل پر موجود لوگوںسے بات کریں ،پھر دیکھتے ہیں کہ ہم پابندیاں ہٹوا پاتے ہیں یا نہیں‘‘۔ دیکھیں انہیں لگانا تو بہت آسان ہے۔ پاک بھارت جنگ ہوئی، ہمارا اسلحہ استعمال ہوا، سو ’’فوراً پابندیاں‘‘۔ یہ پابندیاں تو قاعدے کے مطابق لگ گئیں مگر انہیں اٹھانے کی باری آئی تو اتنا آسان نہیں رہا مگر بھٹو کے دورے کے دوران ہم نے کچھ تو کیا ، کیپیٹل ہل نے کچھ نرمی دکھائی مگر زیادہ نہیں چنانچہ ہم نے یہ ہٹا لیں اور پہلی بار اس قابل ہوئے کہ ان کے سازوسامان کی مرمت کر سکیں۔ میں واپس آنے ہی والا تھا کہ پاکستان ایٹمی معاملے میں پڑ گیا جس پر مجھے شدید الجھن ہوئی۔میں وہاں رک گیا اور دو سال تک اس کوشش میں لگا رہا کہ یہ ہم دونوں کے درمیان مسئلہ نہ بنے۔ میں چار سال وہاں رہا۔
جانسن: چار سال، اور بھٹو اس دوران اقتدار میں تھے؟
بائیروڈ: جب میں واپس آیا تو بھٹو ہنوز اقتدار میں تھے مگر مشکلات ،شدید مشکلات کا شکار تھے ۔
جانسن:جنرل ضیاء، کیا وہ تھے جنہوں۔۔۔۔
بائیروڈ:جب میں واپس آ رہا تھا تو وہ فوج کے سربراہ تھے اور میرے خیال سے ا س موقع پر اقتدار پر قبضہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔1
1976ء میں بھٹو ضیاء کو فوج کا سربراہ مقرر کر چکے تھے۔ یہ ممکن تو ہے مگر بعید از قیاس ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دنوں سے امریکی فوج سے رابطے میں رہنے والے بائیروڈ کو ڈی ا ٓئی اے اور پینٹاگون کے ضیاء کے ساتھ روابط کا علم نہ ہوکہ لیون ورتھ میں تربیت کے وقت سے یہ روابط موجود تھے جنہیں اردن میں تعیناتی سے جلا ملی۔ پاکستان میں اگر کبھی فوجی بغاوت ہوتی ہے تو کم ہی ایسا ہوا ہو گا کہ اسے امریکی سفارت خانے کی خاموش اور دوٹوک حمایت حاصل نہ ہو۔
یہ ایٹمی مسئلے پر بھٹو کی ’’غداری‘‘ تھی جس کے باعث امریکہ نے بھٹو کو ہٹانے کی منظوری دی۔
4-5 جولائی1977ء کی رات بھٹو اورحزبِ اختلاف کے مابین معاہدہ ،جس کے تحت نئے سرے سے عام انتخابات طے پا گئے تھے، ناکام بنانے کے لئے جنرل ضیاء نے ہلہ بول دیا۔ امریکہ کے ساتھ اس اتفاقِ رائے کے بعد کہ بھٹو کا کردار ناقابلِ برداشت ہے، ضیاء متحارب سیاسی قوتوں کے مابین صلح ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مارشل لاء لگا دیا، خود چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بن گئے، نوے روز کے اندرنئے انتخابات کا وعدہ کیا اور بھٹو کو ’’حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا‘‘۔ بھٹو ششدر رہ گئے۔جنوری 1977 ء میں میں پاکستان میں تھا اور واپس آ کر میں نے ’’گارڈین‘‘ کے لئے تین چھوٹے چھوٹے مضامین پر مبنی سلسلہ وار مضمون لکھا جس میں فوجی بغاوت کی پیشگوئی کی۔میری پیشگوئی کو دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا اور مضامین شائع نہیں کئے گئے۔ میں نے آکسفورڈ میں بے نظیر بھٹو سے یہی بات کہی مگر ان کا جواب تھا کہ ان کے والد کو ہلاک تو کیا جا سکتا ہے مگر فوجی بغاوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ’’ضیاء ہماری مٹھی میں ہے‘‘۔ میں نے بے نظیر سے کہا اپنے والد کو بتائیں کہ پاکستان میں کبھی کوئی جرنیل کسی سول سیاستدان کی مٹھی میں نہیں رہا۔
فوج کو خطرہ تھا کہ بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج ہو گا اور وہ اس سے نپٹنے کی تیاری بھی کر چکی تھی مگر عوام کی خاموشی سے اس کو شہ ملی۔ نتیجے کے طور پر بھٹو 28 جولائی1977 ء کو رہا کر دئے گئے۔ بھٹو فوراً ملک کے سیاسی دورے پر نکل کھڑے ہوئے اور ہر جگہ عوام کے بڑے ہجوم نے ان کو خوش آمدید کہا۔ لاہور میںپانچ لاکھ لوگ بھٹو کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع تھے اور یوں فوج کی یہ غلط فہمی دورہو گئی کہ بھٹو کی ساکھ اور جادو ختم ہو چکا۔ حواریوں نے ضیاء سے کہا ’’دوکفن ،ایک لاش ‘‘والی صورتحال ہے۔ ضیاء کو احساس ہو گیا کہ بغیر کسی بڑی دھاندلی کے بھٹو کو ہرانا ممکن نہیں۔ اگر بھٹو جیت جاتے تو ضیاء کا اپنا مستقبل مخدوش تھا۔اب کی بار ضیاء نے ایسا بندوبست سوچا کہ بھٹو کو دوبارہ رہائی نہ مل سکے۔
3ستمبر1977ء کو بھٹو لاہور میں گرفتار کر لئے گئے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ حزبِ اختلاف سے مل جانے والے پی پی پی کے سابق رکن ’’احمد رضا قصوری کے قتل کی سازش‘‘ میں ملوث ہیں۔ نومبر 1974ء میں ایک مسلح گروہ نے اس کار پر گولی چلا دی جس میں قصوری اپنے والد کے ساتھ جا رہے تھے۔ والد اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔ قصوری نے الزام لگایا کہ یہ قتل بھٹو نے کرایا ہے لیکن ایک خصوصی تحقیقاتی ٹربیونل نے اس واقعے کی تحقیق کی اور اس الزام کو رد کر دیا۔ قصوری پھر پی پی پی میں شامل ہو گئے اور اپریل 1976ء تا اپریل 1977ء اس جماعت کے رکن رہے مگر انہیں مارچ 1977ء میں ہونے والے انتخابات کے لئے پی پی پی کا ٹکٹ نہیں ملا۔ انہیں اس کاشدید دکھ تھا۔ ضیاء کی بغاوت کے بعد قصوری نے نجی طور پر بھٹو کے خلاف مقدمہ بازی شروع کر دی جسے فوج نے استعمال کرتے ہوئے بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھنسا دیا۔ 13 ستمبر1977ء کو ہائی کور ٹ کے دو سینئر جج حضرات، کے صمدانی اور مظہر الحق ،نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ چار دن بعد انہیں کراچی سے مارشل لاء ریگولیشنز کے تحت فوجی کمانڈوز نے پھر گرفتار کر لیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ستمبر 1977 ء میں مقدمہء قتل کی سماعت شروع کی ۔ضمانت منظور کرنے والے دونوں ججوں کو پینل سے دور رکھا گیا۔ قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق ضیاء الحق کے قریبی اورذاتی دوست تھے اور دورانِ سماعت ان کا برتائو شرمناک تھا۔ ایسے صحافی بھی مولوی مشتاق کے انتقامی روئیے سے نالاں دکھائی دیئے جو بھٹو کو پسند نہیں کرتے تھے۔ مولوی مشتاق کو حکم تھا کہ بھٹو کی تذلیل کی جائے۔مولوی مشتاق نے سماعت ، جو مارچ 1978ء تک جاری رہی، مسلسل ایسا ہی کیا ۔ سنی سنائی باتوں پر بھٹو کو سزا سنا دی گئی۔ ایک وعدہ معاف گواہ ایف ایس ایف کے سابق سربراہ مسعود محمود تھے۔ مسعود محمود کو معافی کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اضافی فائدہ ایک نئی شناخت، پیسے اور کیلی فورنیا میں پُر تعیش گھر کی صورت میںبھی دیا گیا جہاں نوے کی دہائی کے آخر میں ان کا انتقال ہوا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران موجود غیر ملکی آبزرورز میں جان میتھیو، کیو سی اور امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک بھی شامل تھے۔ دونوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایسا کوئی مقدمہ برطانیہ یا امریکہ میں زیرِ سماعت ہی نہیں آ سکتا تھا کیونکہ مقدمہ وعدہ معاف گواہوں کے ایسے بیانات پر مبنی تھا جنہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔1 18 مارچ1978ء کو بھٹو اور چار دیگر افراد کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ 20 مئی 1978ء کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی جو کئی ماہ جاری رہی۔ عدالت میں بھٹو کی جسمانی حالت دیکھ کر سب ششدر رہ گئے۔ ان کا وزن بہت کم ہو چکا تھا اور وہ انتہائی لاغر دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے تین گھنٹے تقریر کی۔ انہوں نے قتل کے الزام کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اپنی سیاسی غیرت کا دفاع کرتے ہوئے ضیاء اور انکے جرنیلوں پر انگلی اٹھائی کہ وہ انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تقریر ختم کرتے ہوئے حقارت سے ججوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ اب آپ لوگ مجھے پھانسی لگا سکتے ہیں‘‘۔سپریم کورٹ نے بھٹو کی اپیل تین کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے رد کر دی۔ ایک جج جس پر فوج کو بھروسہ نہیں تھا ،دورانِ سماعت ریٹائر کر دیا گیا۔ ایک اور جج کی بیماری کی درخواست اور سماعت میں التوا ء کی درخواست کو قبول نہیں کیا گیا۔اس جج کو بنچ سے نکلناپڑا۔ چیف جسٹس انوار الحق کی روزانہ فوج سے بات ہوتی تھی۔ دو سو صفحات پر مشتمل جسٹس صفدر شاہ کا اختلافی نوٹ ریاست کی طرف سے بنائے گئے اس مقدمے کی زبردست نفی تھا۔ جسٹس صفدر شاہ کے ساتھ لندن میں میری کئی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی جس میںا نہوں نے انکشاف کیا کہ سماعت شروع ہونے سے پہلے اور دورانِ سماعت انہیں دھمکی دی گئی اور کہا گیا کہ اگر تعاون نہ کیا گیاتو فوج میں ان کے رشتہ داروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انہوں نے مجھ سے کہا’’میں ایسی سپریم کورٹ سے تعلق پر شرمندہ تھا جو فوج کے اشاروںپر چل رہی تھی‘‘۔
چار اپریل کی صبح، دو بجے، راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل میں بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔ایک روز قبل ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے ان سے آخری ملاقات کی۔ دونوں عورتیں جرأتمندی کے ساتھ آمریت کے خلاف مہم چلا رہی تھیں اور خود بھی باربار جیل بھیجی جا چکی تھیں۔بھٹو نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے خاندان پر نازاں ہیں۔ ان میں سے کسی بھی عورت کو بھٹو کی آخری رسومات میں شرکت کا موقع نہیں دیا گیا۔ کچھ سال بعد جس جیل میں بھٹو کو پھانسی دی گئی، ضیاء کے حکم پر اسے گرا دیا گیا۔ ضیاء کو اعلیٰ عسکری قیادت (ماسوائے ایک جرنیل کے)اور بلا شبہ امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔1یہ رائے کہ جنرل ضیاء نے امریکی آشیر باد کے بغیر بھی بھٹو کو پھانسی دیدی ہوتی،مضحکہ خیز ہے۔
خطے میں موجود امریکی عامل (بشمول ’’انتھراپالوجسٹ‘‘ اور افغان امور کے ماہر لوئس ڈُپری) کئی اعلیٰ پاکستانی اہل کاروں کو کہہ چکے تھے کہ بھٹو کو جلد ہی راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔
پاکستانی رہنما کے عدالتی قتل نے انہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیا اور اس بات کو یقینی بنا دیا کہ ان کی وراثت ہمیشہ موجود رہے گی۔ واشنگٹن کا خیال تھا کہ بھٹو کو راستے سے ہٹا دینے سے پاکستانی فوج ایٹمی شناخت کے حصول سے باز آ جائے گی۔ یہ امریکہ کی زبردست بھول تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جرنیلوں کو محفوظ فاصلے پر رکھتے ہوئے بھٹو نے اپنے پاس ایٹمی پروگرام کا فقط سیاسی اختیار رکھا ہوا تھا۔ ضیاء نے جو ابتدائی احکامات جاری کئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ کہوٹہ کو مکمل فوجی تصرف میں لے لیا جائے۔ 1971 ء سے فوج بدلے کی آگ میں جل رہی تھی۔ بنگلہ دیش کا بدلہ وہ کشمیر، جو بھارت اور پاکستان کے بیچ عرصے سے متنازعہ چلا آ رہا علاقہ ہے اور جس کا ذکر ایک آئندہ باب میں آئے گا،کو غیر مستحکم کرنے اور اس پر قبضہ کرکے لینا چاہتی ہے۔یوں لگتا تھا کہ فوجی اپنے اس پراپیگنڈے میں خود ہی یقین کرنے لگے تھے کہ بنگال کی علیحدگی ’’ہندو وں اور غداروں ‘‘ کی وجہ سے عمل میں آئی۔بنگال میں شکست نے اکثر فوجی افسروں کی ، جو اپنے دماغ سے کام کے عادی نہیں تھے،نفسیات پرگہرا اثر چھوڑا تھا۔ایک مضمحل فوجی ڈھانچہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کے دوبارہ حصول کی کوشش کر رہاتھا۔
بھارتی ایٹمی تجربے کے جواب میں بھٹو کی طرف سے ’’مسلم بم‘‘ بنانے کا اعلان فوج کو بھی پسند آیا تھا اور انہیں بھی جن کی مدد یہ بم بنانے کے لئے ضروری تھی۔ ان میں ایک کج رو اور غیر قابلِ پیشگوئی ،لیبیا کے معمر قذافی تھے جو گاہے بگاہے بغیر پیشگی اطلاع دئے اپنے عزیز دوست بھٹو کے ساتھ ناشتے اور بم بارے ہونے والی پیش رفت سے آگاہی کے لئے اسلام آباد آ پہنچتے جس سے اسلام آباد میں چیف آف پروٹوکول کے لئے مصیبت کھڑی ہو جاتی۔ عرب رہنمائوں میں سے اگر کسی نے بھٹو کی جان بچانے کی کوشش کی تو وہ معمر قذافی تھے۔ ضیاء نے قذافی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھٹو کی سزا معاف کر دیں گے مگر بعد ازاں ضیاء نے کہا کہ انکے ساتھیوں نے انکی بات نہیں مانی۔
بھٹو کے راستے سے ہٹ جانے سے اب فوج کے پاس موقع تھا کہ وہ سارے ایٹمی منصوبے کو کامیابی کے حصول تک اپنے اختیار میں لے لے۔ اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ اگر اس خطے میں ایک اور تبدیلی واقع نہ ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ فوج مسلسل امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہتی؟دسمبر 1979 ء میں افغانستان پر سویت قبضے کی صورت آنے والے جغرافیائی وسیاسی زلزلے نے پاکستانی سائنس دانوں کو وہ پردہ مہیا کر دیا جس کی اوٹ میں وہ اپنے بھارتی ہم منصبوں کی نقل میں ایٹم کو توڑسکیں۔ خود ضیاء کومغرب نے دھو کر پاک کر ڈالا۔ وہ اب کوئی وقتی ضرورت نہیں تھے۔ حقیر اور بے رحم فوجی آمر کی بجائے اب وہ ایک ایسے حواری تھے جو لا دین سویت روس کے خلاف فری ورلڈ کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے تھے۔
مذہبی وابستگی افغان رہنمائوں کی اپنے مشرقی ہمسائے سے عداوت کم کرنے میں زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہو سکی۔اصل وجہ ڈیورنڈ لائن تھی جو 1893 ء میں سلطنتِ برطانیہ نے ، افغانستان پر قبضے میں ناکامی کے بعد، برطانوی ہند اور افغانستان میں سرحد کے طور پر افغانوں پر مسلط کی تھی۔ پہاڑوں کا دامن کاٹتی ہوئی اس من مانی سرحد نے ارادتاً اس خطے کے پشتونوں کو تقسیم کیا تھا۔ ہانگ کانگ کے ماڈل پر اس وقت یہ طے پایا کہ برطانوی ہند کا شمال مغربی سرحدی صوبہ بن جانے والا خطہ سو سال بعد افغانستان کو لوٹا دیا جائے گا۔کابل میں موجود کسی بھی حکومت نے جس طرح کبھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا، اسی طرح اس خطے پر برطانوی اور بعد میں پاکستانی اختیار کو تسلیم نہیں کیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جولائی 1977 ء میں جب ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پڑوسی ملک افغانستان میں نوے فیصد مرد اور اٹھانوے فیصد عورتیں ان پڑھ تھیں۔ پانچ فیصد جاگیردار (جن کی اکثریت قبائلی سردار تھی) 45 فیصد قابلِ کاشت رقبے کے مالک تھے۔ ایشیاء میں سب سے کم فی کس آمدن افغانستان میں تھی۔د یہی آبادی کا بڑا حصہ شدید غربت میں رہ رہا تھا۔ دوسرے ممالک سے موازنہ اس لئے لایعنی ہے کہ جب درجہ بندی دو وقت کی روٹی کھانے والوں، ایک وقت کی روٹی کھانے والوں اور بھوکوں کے درمیان کرنی ہو۔ ان حالات میں حیرت کیسی اگر قسمت اور مذہب میں گہرا اعتقاد پایا جاتا ہو۔ چھوٹی سی دانشور اشرافیہ۔۔۔۔بادشاہ پرست، آزاد خیال، جمہوری خواہ، اشتراکی۔۔۔۔جو کابل کی سیاست پر حاوی تھی، کازبردست انحصار مقامی تاجروں، سیٹھوں اور قبائلی سرداروں پر تھا۔ افغان بادشاہوں نے اپنی خود مختاری برقرار رکھی تھی اور انگریزوں کو فاصلے پر ہی رکھا۔ بیسویں صدی میں موجود جغرافیائی حالات نے سرد جنگ کے دوران غیرجانبداری قائم رکھنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔افغان حکمران ماسکو اور بھارت سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔ کچھ پشتون ہندو تقسیم کے وقت بھارت جانے کی بجائے کابل چلے گئے۔ افغان رہنما مذہب کے معاملے میں اپنے پڑوسیوں کی نسبت کہیں زیادہ بردبار تھے۔
اسے تاریخ کا انوکھا کھیل ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ جس سال جنرل ضیاء نے اقتدارپر قبضہ کیا ، اس سال افغان اشتراکیوں کے دھڑے پرچم نے، جس نے 1973 ء کی فوجی بغاوت میں داود کا ساتھ دیا تھا اور جس کے نتیجے میں افغانستان کو جمہوریہ قرار دیدیا گیا، حکومت سے علیحدہ ہو کر دیگر اشتراکی گروہوں کے ساتھ مل کر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان تشکیل دی۔ اپنے نئے نام کے باوجود یہ نئی جماعت نہ تو عوامی تھی نہ ہی جمہوری۔ اس کے موثر کارکن بَری فوج ا ور فضائیہ میں اہم عہدوں پر تعینات تھے۔
پرچم کی علیحدگی کے بعدداود کو جس بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، پڑوسی ملک بھی اس میں ملوث ہو گئے۔ شاہ ایران کو افغانستان میں اشتراکی انقلاب کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ انہوں نے واشنگٹن کے مہرے کے طور پر داود کو سخت اقدامات ۔۔۔۔بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، پھانسیاں، تشدد۔۔۔۔کی تجویز دی اور اس سلسلے میں تشدد کے لئے اپنی آزمودہ کارایجنسی ساواک کی خدمات داود کو پیش کیں۔ ڈیورنڈ لائن کو پاک افغان سرحد تسلیم کرنے کی صورت میں ایران نے افغانستان کو تین ارب ڈالر کی امداد دینے کے ساتھ ساتھ یہ ضمانت دینے کی بھی پیش کش کی کہ پاکستان قبائلی علاقوں میں معاندانہ اقدامات سے باز آ جائے گا۔
پاکستان کے خفیہ ادارے (بھٹو دور میں بھی) افغان پناہ گزینوں کو مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی بحالی کے لئے پرانی طرز کی قبائلی بغاوتوںکو ہوا دے رہے تھے ۔داود کو شاہ ایران کی پیش کش دلکش لگی مگر فوج میں موجود کمیونسٹوں نے اس خطرے کے پیشِ نظر کہ ایران بلوچستان ایسا جبر شروع کر سکتا ہے، پیشگی حملہ کر دیااور اپریل 1978 ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
واشنگٹن کے ہاتھ پائوں پھول گے۔ امریکہ کی مشکلات میں مزید دس گنا اضافہ ہو گیا جب یہ واضح ہوا کہ خطے میں اس کا پرانا حواری، ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ، شاہ ایران کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے۔
یوں خطے کے لئے امریکی حکمتِ عملی میں ضیاء آمریت کو اہم پرزے کی حیثیت حاصل ہوگئی چنانچہ واشنگٹن نے بھٹو کی پھانسی کے لئے آشیر باد دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی منصوبے کے حوالے سے بھی آنکھیں موندے رکھیں۔ واشنگٹن کسی بھی قیمت پر ایک مستحکم پاکستان چاہتا تھا۔
جنرل ضیاء کو اپنے متعینہ کرداربارے اچھی طرح معلوم تھا لہٰذا انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈ ائریکٹر جنرل اختر عبدالرحمن سے کہا’’ افغانستان میں پانی مناسب درجہ حرارت پر ابلتا رہنا چاہئے‘‘ ۔ مستعد، متعصب اور سفاک افسر ،اختر عبدالرحمن نے آئی ایس آئی میں افغان بیورو تشکیل دیا جو امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا اور اسے اسلحے اور پیسے سے مالا مال کر دیاگیا۔ افغان بیورو کا مقصد سیدھا سادہ تھا: امریکہ کے مشیر برائے امورِ قومی سلامتی ،زبگنیو برژنسکی کے بقول ایسا’’جال‘‘بننا جس کے نتیجے میں افغان حکومت کمزور ہو جائے اور سویت روس اسے بچانے کے لئے اس تنازعے میں ملوث ہونے پر مجبور ہو جائے۔
اس طرح کے منصوبے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں (جیسا کہ کیوبا میں پچاس سال تک ہوتے رہے)مگر افغانستان میں یہ کامیاب رہے جس کی بڑی وجہ افغان کمیونسٹوں کی ناکامی تھی: وہ ایک ایسی فوجی بغاوت کے نتیجے میں بر سرِ اقتدار آئے تھے جسے کابل سے باہر کوئی حمایت حاصل نہیں تھی اس کے باوجودوہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے گویا یہ قومی سطح کی بغاوت ہو ۔ ان کی سٹالنسٹ سیاسی بُنت کا نتیجہ تھا کہ وہ کسی قسم کے احتساب کے قائل نہ تھے۔ جمہوری حقوق کا منشور یا آئین ساز اسمبلی کے لئے آزادانہ انتخابات ایسے خیالات تو کبھی ان کے دماغ میں آئے ہی نہیں۔ ستمبر 1979 ء میں مہلک دھڑے بندی کا اظہار کابل کے شاہی محل میں مافیا طرز کے قتل و خون سے ہوا جس میں وزیراعظم حفیظ اللہ امین نے صدر ترہ کئی کو ہلاک کر دیا۔ امین کا دعوٰی تھا کہ اٹھانوے فیصد لوگ ان کی اصلاحات کے حامی تھے اور جو دو فیصد ان اصلاحات کے مخالف تھے ان کا خاتمہ مقصود تھا۔ سرکاری اخبارات میں نشانہ بننے والوں کی تصاویر فخرکے ساتھ شائع کی جاتیں۔ اس پیمانے پر اور اس نوعیت کا جبر ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ فوج اور بے شمار شہروں میںایسی بغاوتوں نے جنم لیا جن کا جنرل ضیاء یاواشنگٹن سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ حکومت سے نفرت کا اظہار تھیں۔ اسلام آباد نے بلا شبہ مذہبی حزبِ اختلاف کو مسلح کیا اور اسے شہ دی۔ایک نظریاتی ہتھیار جو استعمال کیا گیا وہ تھا پی ڈی پی اے حکومت کے تمام افغان عورتوں کے لئے لازمی تعلیم کے فیصلے کے خلاف مہم۔ اس فیصلے کو اسلام اور افغان روایات پر زبردست حملہ قرار دیا گیا۔
مداخلت کے خلاف پولٹ بیورو کے دو متفقہ فیصلوں کے بعد آخر کار سویت یونین نے یہ کہتے ہوئے اپنا ذہن تبدیل کر لیا کہ کچھ ’’نئی دستاویزات ‘‘ ہاتھ لگی ہیں۔ اس فیصلے بارے دستاویزات ہنوز کلاسیفائیڈہیں مگر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر ثبوت ایسی جعل سازی پر مبنی دستاویزات پر مبنی ہو جس میں حفیظ اللہ امین ( جو امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے) کوسی آئی اے ایجنٹ قرار دیا گیا ہو۔ ثبوت جو بھی تھا ،ہوا یہ کہ ان دنوں آندریپوف کے جی بی کے سربراہ تھے اور پولٹ بیورو نے دو مرتبہ افغانستان میں مداخلت کے خلاف فیصلہ دینے کے بعد آخر سویت دستے بھیجنے کی تجویز قبول کر لی۔ مداخلت کا مقصد (2001 ء کی امریکی مداخلت کی طرح )ناپسندیدہ حکومت کو گرا کر اسکی جگہ نسبتاََ کم قابلِ نفرت حکومت کا قیام۔جال نے شکار کو پھانس لیا تھا۔ 1979 ء میں کرسمس کے موقع پر ایک لاکھ سویت دستے آموپار کرتے ہوئے کابل آن دھمکے۔ صدر جمی کارٹر نے اس مداخلت کو ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار ‘‘ دیتے ہوئے سویت رہنما لیونڈ برژنیف کو تنبیہہ کی کہ وہ ’’یا تو فوجیںواپس بلا لیں یا سنگین نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں‘‘۔اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ افغانستان اب تہذیب کے لئے اہم ہو چکا تھا، بشکریہ سویت روس، ضروری تھا کہ افغاانستان کی شاندار سیاسی تاریخ بھی ایجاد کی جائے۔ اس کے لئے کئی سطحوں پر غیر ملکی مدد کی ضرورت تھی۔اسلحے سے مزین ،زرق برق ملبوسات میں ملبوس نواب اس خطے میں ارسال کئے گئے۔ مختلف تھنک ٹینکس اور اداروں کے محققین کو خبردار کیا گیا۔ رانڈ کارپو ریشن نے فوری ردِ عمل کا مظاہرہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اپنے ایک اہم اہل کار، اٹھائیس سالہ جاپانی نژاد امریکی کو فوری طور پر جاسوسی مشن کے لئے پاکستان پہنچایا جائے۔ 25مئی تا 5 جون 1980ء،فرانسس فوکویاما نے دس د ن، ملٹری ا نٹیلی جنس کے مہمان کی حیثیت سے پاکستان میں گزار ے جہاں انہیں یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ مقتدر جرنیلوں اور سول بیوروکریٹوں سے مل سکیں۔ قبل ازیں برژنسکی کی جانب سے 400 ملین ڈالر کی امریکی پیش کش پاکستان ’’ اٹ واز پی نٹس‘‘ کہہ کر ٹھکرا چکا تھا۔ اسلام آباد نے واشنگٹن سے کہا کہ وہ ایسی امداد کی توقع رکھتا تھا جو مقدار میں ترکی یا مصر کے برابر تو ہو۔ پاکستان اس سے کم پر تیار کیوں ہو؟ اب وہ ایک فرنٹ لائن ریاست تھا اور اس مرتبے سے وابستہ اچھے مستقبل کی امید میں بہت سے اعلیٰ افسروں نے ایسے دور دراز ممالک میں بنک کھاتے کھلوا لئے تھے جہاں ان کا سرمایہ محفوظ رہ سکے۔
اعلیٰ عسکری قیادت نے اپنے دل میں موجود و سوسے فوکویاما کو بتائے۔ سویت روس ڈیورنڈ لائن پار کر سکتا تھااور صوبہ سرحد کا ایک حصہ ہڑپ کر سکتاتھا۔ ایک منظم افغان ہند سویت مہم جس کا مقصد پاکستان کی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو، ایسی کسی مہم کا خطرہ ہر وقت موجود تھا۔بلوچستان میں کئے گئے فوجی ایکشن کے کچوکے اعلیٰ قیادت کے ضمیرمیں چبھ رہے تھے۔
جو باتیں بتائی گئیں، فوکویاما نے ان میں سے اکثر مان لیں کہ وہ امریکی مفادات سے میل کھاتی تھیں۔ بہرحال؛ اسے یہ تو معلوم تھا کہ تاریخ مخصوص مصنف ہی رقم نہیں کرتے بلکہ عموماََکوئی مضافات سے نکل کر مرکز کو حیران کر دیتا ہے۔1975 ء میں ہونے والی ویت نام کی فتح ہنوز امریکی پالیسی سازوں کے ذہن پر چھائی تھی۔ ہندوکش کے وحشتناک ماحول میں تشکیل پانے والی تازہ تاریخ کو گاہے بگاہے مدد کی ضرور ت تھی تا کہ یہ بھی ویتنامی خطوط پر استوار ہو سکے۔ تیرتُکے کی گنجائش موجود نہ تھی۔گرم جوش پاک امریکی معانقے سے وابستہ نفع نقصان کا نچوڑ فوکویاما نے پیش کر دیا۔ نفع زیادہ تھا:
۱۔ سویت یونین کو پاکستانی علاقوںسے دور رکھنا
۲۔یہ امکان کہ افغان باغیوں کو فوجی امداداس طرح دی جائے کہ سویت مداخلت کے اخراجات بہت بڑھ جائیں اور یوں اس کی توجہ مشرقِ وسطیٰ سے ہٹ جائے
۳۔ ریپڈ ڈپلائمنٹ فورس، جس کی تیاری کی جا چکی ہے، کی تعیناتی کے ضمن میں پاکستانی تنصیبات کا ا ستعمال
۴۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ امریکہ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے،بالخصوص عوامی جمہوریہ چین کو یہ باور کرانا
جو خامیاں بالکل نمایاں تھیں ، ان پر قابو پانا مشکل نہ تھا:’’۱۔ پاک بھارت تعلقات پر منفی اثرات؛۲۔ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی امریکی حکمتِ عملی کی ساکھ پر برے اثرات؛۳۔ بیش بہا معاشی اخراجات؛۴۔ ایک ایسی غیر قانونی حکومت کی حمایت جس کے اقتدار میں رہنے پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں‘‘۔
چالاکی کے ساتھ فوکویاما نے یہ نقطہ اٹھایا کہ پاک چین تعلقات توازن کا ایک قابلِ تقلید نمونہ ہیں:
’’چین نے پاکستان میں فوجی اور سول حکومتوں کی غیر جانبداری کے ساتھ حمایت کی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ کبھی کسی حکومت کی ناکامی کا الزام چین کے سر نہیں منڈھا گیا۔۔۔جب تک امریکہ اس نوع کا طریقِ کار نہیں اپناتا، احتمال کا پلڑا فوائد کی نسبت بھاری ہو سکتا ہے‘‘۔1
اس مشورے کو کم و بیش تسلیم کر لیا گیا اور برژنسکی کی ’’حقیقت پسندی‘‘ نے اس مشورے کو مزید استحکام بخشا۔ جنرل ضیاء الحق ، پاکستانی تاریخ کے بد ترین آمر،کو پاک کرنے کیلئے غسل دیا ہی جانے والا تھا جس کے بعد وہ برائی کی سلطنت کے خلاف دلیر مجاہدِ آزادی بن کر ابھرنے والے تھے۔ اخبارات اور ٹیلی وژن نیٹ ورکس نے اس ضمن میں اپنا فرض نبھایا۔
1980ء تا1989ء افغانستان سرد جنگ کا مرکزی نقطہ بن گیا۔لاکھوں لوگ ڈیورنڈ لائن پار کر تے ہوئے صوبہ سرحد کے شہروں اوریہاں موجود مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہو ئے۔ مہاجروں کی سب سے بڑی تعداد۔۔۔۔ساڑھے تین ملین مہاجر۔۔۔۔ سویت قبضے کا براہ راست نتیجہ تھے۔دونوں ملکوں کے لئے اس کے خطر ناک نتائج نکلے۔ اس جنگ کا فائدہ کسی کو نہیں ہوا، اگر ہوا تو ہیرویٔن کے سمگلروں کو، سویلین دلالوں کو، فوج کی اعلیٰ قیادت کو یا ان سیاستدانوں کو جو ان تینوں سے وابستہ تھے۔اس خطے میں اسلحے، ہیرویٔن، منشیات سے حاصل ہونے والے سرمائے، مہاجرین کی ’’مدد‘‘ کے لئے آئی ہوئی این جی اوز کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، مصر اور الجزائر سے آئے ممکنہ جہادیوں کی ریل پیل ہو گئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور ساحلی شہر ہیرویٔن کی تجارت کا مرکز بن گیا۔ پوست شمال میں کاشت کی جاتی، اس کا پاوڈر بنا کر کراچی بھیج دیا جاتا، وہاں سے یہ یورپ اور امریکہ سمگل کر دی جاتی۔ اس جدیدشہر اور اس کی اشرافیہ کو کاملہ شمسی نے اپنے ناول ’’کارٹوگرافی‘‘ میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
مغرب سے تعلق رکھنے والے تمام اہم خفیہ ادارے (بشمول اسرائیلی) افغان سرحد کے قریب ،پشاور میں موجود تھے۔پشاور اس شہر کی مانند بن گیا تھا جہاں سب سونے کی تلاش میں پہنچ رہے ہوں۔ اس خطے کا حلیہ ہمیشہ کے لئے بدل کر رہ گیا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ڈالر کا نرخ بلیک مارکیٹ میںبھی بالکل وہی تھا جو اس کا سرکاری نرخ تھا۔راتوں رات امیر بننے کے چکر میں پاکستانی افسر اسلحہ، بشمول اسٹنگر میزائل، مجاہدین اور اسلحے کے غیر قانونی ڈیلروں کو بیچ رہے تھے۔ 1986 ء میں لندن کے ایک ریستوران میں بے نظیر بھٹو نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ہمارا فراغ دل میزبان ،جو ایک سندھی شریف زادہ تھااور ثقافتی مسائل پر خوب گفتگو کرتاتھا، اسٹنگر اور کلاشنکوف کا تاجر ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں میزائل خریدنا چاہوں تو خرید سکتا ہوں اور مجھے ایک میزائل کتنے میں پڑے گا۔اسے اس بات میں کوئی دلچسپی نہ تھی کہ میں میزائل خریدنا کیوں چاہتا ہوں۔
’’کوئی مسئلہ نہیں‘‘، اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’کراچی تشریف لائیں۔ میں آپ کو ہوائی اڈے پر ملوں گا۔ ہم شہر سے باہر نکل جائیں گے جہاں آپ میزائل چلا کر آزما سکتے ہیں۔ اس کے بعد قیمت پر بات کر لیں گے‘‘۔میرے بر عکس وہ خاصا سنجیدہ تھا۔
ہیروئین کی تجارت نے پاکستان کی بلیک اکانومی میں اضافہ کیا۔ صوبہ سرحد میں جنرل ضیاء کے گورنر ، جنرل فضل حق نے سر عام اپنی بے اعتنائی کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ ہیرویٔن ملک سے باہر چلی جاتی ہے اس لئے پاکستانیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ 1977 ء میں ملک کے اندر ہیرویٔن کے چند ہی مریض تھے جبکہ 1989 ء میں اسکے عادیوں کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔1کراچی اگر گروہی لڑائی کا مرکز بنا تو اس کا براہِ راست تعلق اس بات سے بھی تھا کہ کراچی ہیرویٔن کی تجارت کا مرکز بن گیا تھا۔
جہاں تک تعلق ہے پاکستان اور اس کے عوام کا تو ووہ بے حال تھے۔ضیاء ماضی سے مکمل رشتہ توڑ کر مذہب سے رجوع کر رہے تھے جو عموماََ دھوکے بازوں کی پہلی پناہ گاہ ہوتا ہے۔2دسمبر1978ء کو مجاہدِ اسلام، جیسا کہ وہ اکثر خود کو کہتے، نے سیاستدانوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسلام کے نام پر ’’جو جی میں آیا سو کیا‘‘ مگر اب وہ ملک میں حقیقی اسلامی قوانین نافذ کریں گے۔انہوں نے شریعت کورٹ تخلیق کئے جن کے پاس اختیارات تو اگرچہ محدود تھے مگر وہ یہ فیصلہ کر سکتے تھے کہ کوئی قانون ’’اسلامی ہے یا غیر اسلامی‘‘۔اس پر مذہبی عالموں کے مابین جھگڑے شروع ہو گئے اور بہت سی عدالتیں از سرِ نو تشکیل دینا پڑیں۔ دو ماہ بعد ضیاء نے بہت سے نئے آرڈیننس اور صدارتی احکامات جاری کئے۔
ان کے مطابق شراب نوشی، زنا، چوری سے متعلق تعزیرات کی جگہ قرآنی سزائیں تجویز کی گئیں جن کا ذکر ابتدائی اسلامی فقہ میں ملتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان شراب پیتا ہوا پکڑا گیا تو سزا اسی کوڑے، غیر شادی شدہ جوڑے کو زنا کرنے پر اسی کوڑے مگر شادی شدہ جوڑے کی سزا سنگساری۔ کسی کی جائیداد چرانے کی سزا دائیں ہاتھ کا کلائی سے کاٹنا جبکہ ڈاکے کی صورت میں ہاتھ اور پائوں دونوں کاٹ دینے کی سزا۔ یہ سزائیں سنی مذہب کے مطابق تھیں۔ شیعہ عالموں کو ان سے اختلاف تھا ،مثلاََ وہ چوری کے جرم میں ہاتھ کو کلائی سے کاٹنے کے خلاف تھے۔ وہ اس بات پر خوش تھے اگر دائیں ہاتھ کی صرف انگلیاں اور انگوٹھا کاٹ دیا جائے۔جہاں تک تعلق تھا پی پی پی کے پسندیدہ مطالبے، روٹی کپڑا اور مکان کا، جنرل ضیاء کے مطابق یہ ریاست یا نجی کاروبار کے بس کی بات نہ تھی ،اس کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے:’’آپ کے رزق میں کمی بیشی اس کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ پر ایمان رکھیں اور وہ زندگی میں آپکو بہت سی نعمتوں سے نوازے گا‘‘۔
تمام سرکاری ملازمین کو ہدایت کی گئی کہ باقاعدگی سے نماز ادا کریں جبکہ متعلقہ افسران کو ہدایت کی گئی کہ وہ سرکاری عمارتوں، ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں اور بس سٹاپوں پر ادائیگی نماز کے انتظامات کو یقینی بنائیں ۔ ایک خصوصی آرڈی ننس جاری کیا گیا جس میں مکمل احترامِ رمضان کا حکم دیا گیا جس کے تحت نمازِ مغرب کے تین گھنٹے بعد تک سینما گھر بند رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ پاکستان میں اس طرح کے اقدامات کبھی بھی نہیں ہوئے تھے اور اس کے مخلوط اثرات مرتب ہوئے۔ سرکاری سطح پر مذہب پرستی کی حوصلہ افزائی ایک معمول بن گیا مگر شراب نوشی میں زبردست اضافہ ہو گیا اور ہر شرابی کا دعوٰی تھا کہ وہ آمریت کی مزاحمت کر رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار اکٹھے نہیں کئے جا سکتے کہ زانی کتنے تھے اور روزہ داروں کی تعداد کیا تھی۔طالبان نے ہنوز جنم نہیں لیا تھا مگر ان کی آمد کے لئے سٹیج تیار کی جا رہی تھی۔ڈاکٹر برادری اس بات پر تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے اعضاء کی ’’اسلامی ‘‘قطع سے انکار کر دیا اور یہ مخصوص سزائیں کبھی بھی نہ دی جا سکیں۔جیل میں اور سرِ عام کوڑے لگانے کا کام البتہ باقاعدگی سے کیا گیا جس نے ملک کے کمزور سیاسی کلچر کو مزید حیوان صفت بنا دیا۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جماعتِ اسلامی، جس نے ملک کے کسی بھی حصے سے کبھی بھی پانچ فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کئے تھے، ضیاء دور میں حکومتی سرپرستی میں آ گئی۔اس کے کیڈر کو لڑائی کے لئے افغانستاان بھیجا گیا، اس کے مسلح طلباء ونگ کو اسلام کے نام پر درسگاہوں میں دہشت پھیلانے کی چھٹی دی گئی، اس کے نظریہ دان ہر وقت ٹی وی اور اخبارات میں موجود ہوتے۔ آئی ایس آئی کو اب فوجی آمریت کی جانب سے یہ فریضہ سونپا گیا کہ وہ مزید ،زیادہ انتہا پسند ،ایسے جہادی گروہ تشکیل دینے میں مدد فراہم کرے جو اندرونِ و بیرونِ ملک دہشت گرد کارروائیاں کر سکیں۔ دیہی علاقوں بالخصوص صوبہ سرحد میں مدرسوں کا جال بچھا دیا گیا۔ جلد ہی ضیاء کو اپنی سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ نوکر شاہی نے ضیاء کے شاگردانِ خاص ،شریف برادران اور گجرات کے چوہدریوں پرمشتمل مسلم لیگ بنا دی۔ آج کل یہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں مگر ان دنوں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کیا ۔ انکی ایک صلاحیت یہ تھی کہ سیاسی طاقت کو کس طرح سرمائے کا بدوی مگر تیز تر ارتکاز کرنا ہے۔
شریف خاندان ضیاء کا پسندیدہ بن چکا تھا ۔اسکی وجہ یہ تھی کہ اس نے بھٹود ور میں نقصان اٹھایاتھا اور بھٹو سے بہت متنفر تھا۔ پیشے کے اعتبار سے لوہار، شریف خاندان نے بھارت سے ہجرت کر کے نئے مسلم مادرِ وطن میں پناہ لی تھی۔خاندان نے جلد ہی ترقی کی، ان کی سٹیل فونڈریز نے اچھے نتائج دکھائے اور سیاست میں اس خاندان کو بالکل کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لاہور میں بھٹو کے ایک ٹھگ باز حامی کو بھتہ نہ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1972 ء میں ان کا کاروبار نشانہ بنایا گیا اور اسے قومی ملکیت میںلے لیا گیا۔یہ فیصلہ اقتصادی لحاظ سے احمقانہ اور سیاسی لحاظ سے غیر پیداواری ثابت ہوا۔ چھوٹے سے سیٹھ کا غیر جانبدار خاندان عمر بھر کے لئے بھٹو خاندان کا دشمن بن گیا۔ جس روز ضیاء نے بھٹو کو پھانسی دی،میاں شریف اور ان کے بیٹوں نے شکرانے کے نفل ا دا کئے کہ اللہ نے اتنی جلدی انکی سن لی۔ سب سے بڑا بیٹانواز شریف جنرل کا منظورِ نظر بن گیا اور اسے خاکی مسلم لیگ کی قیادت سونپ دی گئی۔ فوج کے ہاتھوں تخلیق ہونے والا شریف خاندان ہمیشہ جنرل ضیاء کا شکر گزار رہا۔ ان کی بنیادی وفاداری بہر حال ان کا کاروبار رہا۔ ان کی فونڈریز ان کو لوٹا دی گئیں مگر اب یہ ناکافی تھیں۔ سیاسی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے ،بالخصوص بنکوں سے قرضے لیکر جو کبھی واپس نہیں کئے گئے، خوب منافع کمایا گیا۔ یہ عمل کافی پہلے شروع ہو گیا تھا مگر جنرل ضیاء کی اچانک موت کے بعد اس میں تیزی آئی۔
فوجی آمریتوں سے فائدہ اٹھانے والا دوسرا خاندان گجرات سے تعلق رکھنے والے چوہدری تھے۔چناب کے کنارے آباد، گجرات پنجاب کاقدیم شہر ہے جسے مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا اور یہاں گجر قبیلہ آبادتھا ۔ نیم سیلانی گجر بھیڑ بکریاں اور گائے بھینسیں پالتے تھے (گجرات کا نام انہی کے نام پر پڑا) ۔یہ شہربسانے کا ابتدائی مقصد تو خطے میں موجود مغل فوج کے لئے خوراک اور دیگر ضروریات بہم پہنچانا تھا ۔ جٹ جو مہاجر قبیلوں کی اولاد تھے، کسان تھے جنہیں جنگ کی چاٹ لگ گئی اور وہ مغل فوج کو سپاہیوں کی فراہمی، بعد ازاں بڑی تعداد میں انگریز فوج اور اس کے بعد آنے والی فوج کو سپاہیوں کی فراہمی کا وسیلہ بن گئے۔ ان میں سے کچھ گجرات میں بس گئے اور تب سے جٹوں اور گجروں کے درمیان دشمنی چلی آ رہی ہے۔ مغل دور میں گجرات نے دست کاری ۔۔۔۔بالخصوص ظروف سازی۔۔۔۔کے حوالے سے شہرت حاصل کی۔ اس فن کی باقیات اب کرنسی اور پاسپورٹ کی دست کاری کی شکل میں موجود رہ گئی ہیں۔ برقی آلات کی ایجاد سے پہلے گجرات کا ایک مخصوص دستکار ایسے ایسے پاسپورٹ اور امریکی ویزے تیار کرتا تھا کہ اس کے گاہک کم ہی قابو آتے۔موصوف اس قدر ماہر تھے کہ حکومتی وزراء بھی اپنی برادری کے لوگوں کو دوست ممالک میں پہنچانے کے لئے مدد حاصل کرتے جو اعترافِ جرم کی دلچسپ مثال ہے۔
چوہدری جٹ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ برطانوی دور میں جب معیارِ زندگی گر گیا ،ان میں سے اکثر کی حالت پتلی تھی اور یہ مسلسل نوکری کی تلاش میں رہتے تھے۔ خاندان کے سربراہ چوہدری ظہور الٰہی تھے۔ ان کے اکثر دوستوں کا خیال تھا کہ چوہدری ظہور الٰہی فراغ دل اور خوش مزاج ٹھگ تھے۔ وہ گجرات کے قریب واقع گائوں نت سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں موجود مجرموں کے درمیان پائی جانے والی دوستی یاری نے چوہدری ظہور الٰہی پر زبردست اثر ڈالا۔ انکے والد علاقے میں دریا ئی ڈاکو کے طور پر مشہور تھے جس کا ذریعہ آمدن چوری کے مال کی ترسیل تھا۔ ظہور الٰہی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز انگریز دور میں پولیس کانسٹیبل کے طور پرکیا۔ ان کا یہ پس منظر ان جرنیلوں کے پس منظر سے زیادہ مختلف نہ تھا جن کے ساتھ انہوں نے بعد میں کام کیا۔
1943 ء میں چوہدری ظہور الٰہی سکھوں کے مقدس شہر امرتسر میں تعینات تھے۔ ان کے بھائی منظور الٰہی بھی نوکری کی تلاش میں وہاں آپہنچے۔ظہور الٰہی محنتی اور مودب تھے مگر ہمیشہ چوکنے بھی رہتے مبادا قسمت کی دیوی کبھی مہربانی پر تیار مل جائے۔ایک روز وہ تھانے میں تھے کہ پتہ چلا کوئی ہندو تاجر جرم کا مرتکب ہوا تھا اور اس پر چھاپہ پڑنے والا تھا۔ یہ سوچ کر کہ موقع مل سکتا ہے، چوہدری ظہور الٰہی نے اس تاجر سے اسی روز ملاقات کی اور اسے چھاپے بارے خبردار کر دیا۔ پولیس نے چھاپہ ماراتو اسے کچھ نہ ملا۔ تفتیش ہوئی،مجرم پکڑا گیا اور ظہور الٰہی کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
وہ تاجر البتہ شکر گزار تھا اور اس نے دونوں بھائیوں کو معاوضہ دیا۔ منظور الٰہی کی مدد کی گئی کہ وہ ایک کھڈی لگا لیں۔ پھر تقسیم کا وقت آ گیا۔ دونوں بھائی گائوں واپس آ گئے۔ ایک روز ظہور الٰہی بحالی و تلافی مرکز گئے اور مطالبہ کیا کہ ان کے ہونے والے نقصان (جو زیادہ نہیں تھا)کی تلافی کی جائے۔ان ہنگامہ خیز دنوں میں دیگر بہت سے لوگوںکی طرح انہوں نے بھی بڑا کلیم داخل کیا۔ ان دنوں یہ سوچ عا م تھی کہ تمام غیر قانونی دولت کوسونے اور زیورات میں بدل دیا جائے کہ اسے لے جانا آسان تھا۔ ظہورالٰہی نے زرعی زمین اور رئیل اسٹیٹ حاصل کرنے میں جنون کی حد تک سرگرمی دکھائی۔ یہ جراثیم ان کی اولاد میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے امرتسر میں رہ جانے والے مبینہ گھر کے بدلے گجرات کے نواح میں ایک حویلی حاصل کی۔ پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی قدرتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر رفتہ رفتہ اچھی خاصی جائیداد بنا لی۔وہ اس بات پر آفرین کے مستحق ہیں کہ یہ سب کچھ حاصل کر لینے کے بعد بھی انہوں نے اپنا ماضی فراموش نہیں کیا ۔ مقامی پولیس اور رسہ گیروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھتے۔ اکثر وہ دونوں کو ایک جگہ جمع کرتے اور سمجھاتے کہ مختلف پیشے کے باوجود ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔
لوٹ مار کرنے والے وہ واحد پاکستانی سیاستدان نہیں تھے مگر وہ زیرک ترین سیاستدانوں میں سے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ روز مرہ زندگی کی طرح سیاست میں بھی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں اس کا ماضی سب کی نظروں سے اوجھل ہو سکتا ہے۔اخلاقیات غیر ضروری تھی۔ جیسا کہ چھوٹے شہر کے عمائدین کے لئے مناسب تھا، انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اس جماعت میں ان کا رتبہ بڑھتا گیا۔دولت میں رشک انگیز اضافے کے ساتھ ساتھ ان کا حج کے لئے ہر دورہ ڈیوٹی فری خریداری کا بھی موقع ثابت ہوتا۔ وہ واپسی پر اپنے اعلیٰ و ادنیٰ دوستوں کے لئے ڈھیروں تحفے لاتے۔
انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی،جو پہلی خاکی مسلم لیگ تھی (خاکی کی اصطلاح فوجی وردی کی مناسبت سے استعمال کی گئی ہے) جو فوجی آمریت کا ننھا منا سا مگر اہم ستون بن کر ابھری۔ ظہور الٰہی اس جماعت کے کارکن بن گئے۔پارٹی کوچندے دیتے اور ایوب خان کے جلسوں میں بسیںبھر کر لاتے تا کہ فیلڈ مارشل کو اپنی مقبولیت کا احساس ہو۔ کسی سیلف میڈ انسان کے لئے ان دنوں پاکستان میں اتنا اوپر پہنچ جانا غیر معمولی بات تھی۔ ان جیسے اور بھی لوگ تھے جو غربت سے تنگ تھے مگر ان کے پاس ظہور الٰہی ایسی پیش قدمی کی صلاحیت اور تعلقات بنانے کی مہارت موجود نہ تھی۔ یہ عمل چند دہایوں بعد کافی عام ہو گیا جب ہیرویٔن سے آنے والی دولت کی ریل پیل ہوئی جب چوہدری اور شریف خاندان والے جذبے کا مظاہرہ شہر شہر ہونے لگا۔ وزیر اعظم بننے کے لئے بہت سا پیسہ چاہئے۔
جب تک بھٹو ایوب کابینہ میں وزیر تھے ،ظہو الٰہی اسی خوشامد سے کام لیتے رہے جس کی تربیت انہوں نے بطور نوجوان پولیس کانسٹیبل حاصل کی تھی۔جب بھٹو کو ایوب نے فارغ کر دیا اور بھٹو اپنے خیمے میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ نئی سیاسی جماعت بنائیں یا نہ بنائیں، تو ظہور الٰہی نے ہارے ہوئے وزیر سے کنارہ کشی کر لی۔ اسی پر بس نہیں کی۔ وہ مسلم لیگ میں ایوب کا دفاع کرنے لگے اور ایسے لوگ جو بھٹوکی جماعت میں جانے کا سوچ رہے تھے، انہیں منت سماجت یا روپے پیسے کے ذریعے باز رکھنے کی کوشش کی۔ وہ بہت سوں کو روکنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ بھٹو کسی کی فرضی یا حقیقی خطا معاف کرنے والے نہیں تھے۔ 1972 ء میں اقتدار سنبھالتے ہی بھٹو نے واضح کر دیا کہ وہ گجرات کے چوہدریوں کو چور اور دلال سمجھتے ہیں اور انکے ساتھ چوروں اور دلالوں والا سلوک ہی کیا جائے گا۔چوہدریوں نے بعض لوگوں کو بیچ میں ڈال کر بھٹو کے ساتھ صلح کی کوشش کی مگر بے سود۔ ایک بار جو بھٹو کو کسی سے نفرت ہو گئی تو پھر اس نفرت کی آگ کو بجھانا ممکن نہیں تھا۔ بھٹو کا حافظہ بلا کا تھا ۔ بھٹو جب زیرِ عتاب تھے تو ان سے کنی کترانے والے بہت سے سول افسروں کو بھٹو کی زبردست یاداشت کا اس وقت اندازہ ہوا جب بھٹو بر سر اقتدار آئے۔ظہور الٰہی نے جیسے تیسے وقت کاٹا۔ نجات کی گھڑی توقع سے پہلے ہی آن پہنچی۔انہوں نے 1977 ء میں ضیاء کی فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہا، آمر کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے ، بھٹوکو پھانسی دینے کی حمایت کی اورطمطراق کے ساتھ ضیاء سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جس ’’مقدس قلم‘‘ سے انہوں نے بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کئے، وہ قلم انہیں دیدیا جائے۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق جنہوں نے بھٹو کے مقدمے کی سماعت کے دوران شرمناک طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا تھا، وہ ظہور الٰہی کے قریبی دوست بن چکے تھے۔ 1978 ء میں وہ لاہور میں تھے اور جج صاحب کو اپنی میزبانی سے محظوظ کر رہے تھے۔ دونوں ایک گاڑی میں تھے جو مولوی مشتاق کو ماڈل ٹاون میں انکی رہائش گاہ پر چھوڑنے جا رہی تھی۔ الذوالفقار کے ایک گروہ نے ان پر فائر کھول دیا۔ نشانہ تو جج صاحب تھے مگر وہ بچ گئے اور چوہدری صاحب ہلاک ہو گئے جو نشانہ نہیں تھے لیکن الذوالفقار نے خفت سے بچنے کے لئے کہہ دیا کہ وہ بھی اسکی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو۔
سچ کچھ بھی ہو، ظہور الٰہی فوری طور پر شہید بن گئے۔ ان کی برسی ہر سال اہتمام کے ساتھ گجرات میں منائی جاتی ہے جس میں ان کے خاندان کے افراد ( جو اکثر وزیر ہوتے ہیں) اور انکے نام سے سڑکیں بھی منسوب کی گئی ہیں۔ ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے چوہدری شجاعت حسین نے انکی مسند سنبھال لی اور ضیاء الحق کی خاکی مسلم لیگ میں ایک اہم سیاسی مہرے کے طور پر ابھرے۔ مکمل اقتدار تو چوہدری خاندان سے آنکھ مچولی ہی کھیلتا رہا کہ مسلم لیگ کا ٹھیکہ شریف خاندان کو مل چکا تھا مگر چوہدری خاندان نے خاندانی روایت کے مطابق اپنے غصے کو چھپائے رکھا۔ انہوں نے صبر کے ساتھ انتظار جاری رکھا۔ انکی باری آنی تھی جب ایک دہائی بعد ایک اور جرنیل، پرویز مشرف، نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
ہاں مگر چوہدریوں نے شریف خاندان کی طرح ضیاء دور میں مالی لحاظ سے خوب ترقی کی۔ اس دور میں فوج نے بھی خوب مالی ترقی کی کہ افغان جنگ سے خاصا بڑھاوا ملا تھا۔ فوج لادین اشتراکیوں کے خلاف امریکہ کی فرنٹ لائن اتحادی تھی۔ ضیاء اور ان کے جرنیل ساتھیوں کو اچھی طرح علم تھا کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ چین، سعودی عرب، مصر اور اسرائیل کی مالی و عسکری حمایت کے بغیر کامیابی ملنا محال تھا۔ جب روسی ٹیکنیشنز یا ان کے خاندان کو ہلاک کر کے، ان کا پیٹ چاک کیا جاتا اور ان کے کٹے ہوئے سروں کی نمائش کی جاتی تو یہ مناظردیکھ کر آئی ایس آئی اور سی آئی اے خوشی سے تالیاں بجاتے۔ یہ ویت نام کا مزیدار بدلہ تھا۔ دریں اثناء، سعودی سردار، شہزادہ ترکی الفیصل نے شیخ اسامہ بن لادن کو افغانستان بھیجا تاکہ وہ جدوجہد کو آگے بڑھا کر اہلِ ایمان پر یہ ثابت کرسکیں کہ سعودی ان کے ساتھ ہیں ،وہ امریکہ کی پروا نہ کریں۔یہ کہانی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کئی بار دہرائی جا چکی ہے ۔اگرکسی بات پر زور نہیں دیا گیاتو وہ یہ ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقو ںپر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے نتائج آج بھی بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
آئی ایس آئی کے خام مگر موثررہنمانامے جو سویت فوج سے لڑنے کے لئے تیار کئے گئے تھے، آج افغانستان میں امریکی فوجوں کے خلاف بر سرِ پیکار قوتوں کے کام آ رہے ہیں۔ ایک سویت مخالف سالا ر عبدالحق نے مغربی صحافیوں کو بتایا کہ مجاہدین سویلین کو نشانہ نہیں بناتے ’’لیکن اگر وہ میرا نشانہ بن جائیں تو مجھے اس کی پروا نہیں۔۔۔۔اگر میرا خاندان سویت سفارت خانے کے پاس ر ہائش پزیر ہوتا ،میں اسے بھی اڑا دیتا۔ میں اپنے خاندان کی پروا نہ کرتا۔ میں جس مقصد کے لئے جان قربان کرنے پر تیار ہوں ،اس کے لئے پہلے میرے بیٹے ، میری بیوی کو جان دینا ہو گی‘‘۔ان ’’خصوصیات ‘‘ کی اُن دنوں مغربی ذرائع ابلاغ میں تعریف کی جاتی تھی۔ رابرٹ فسک جو اس جنگ کو لندن سے شائع ہونے والے ٹائمز کے لئے رپورٹ کر رہے تھے، بتاتے ہیں کہ کس قدر سخت ہدایات تھیں کہ مجاہدین کو ’’فریڈم فائٹرز‘‘ لکھنا ہے چاہے انکی کارروائیاں کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔
بریگیڈئیر محمد یوسف جو مجاہدین کی تربیت اور سرحد پار جا کر لڑنے کے لئے پاکستانی کمانڈوز کے انتخاب کے ذمہ دار تھے، نے 2003ء میں ان چیزوں کا دفاع کرتے ہوئے لکھا:
’’اگلا کام تھا اندرونی تخریب اور قتل۔۔۔۔۔۔اس میں یہ کام شامل تھا کہ کابل یونیورسٹی میں کھانے کی میز کے نیچے بم نصب کرنا۔یہ 1983ء کے اواخر کی بات ہے۔کھانے کے عین دوران دھماکے سے نو سویت اور ایک خاتون پروفیسر ہلاک ہوئے۔تعلیمی ادارے ایک اچھا کھیل تھے کیونکہ یہاں سارا سٹاف اشتراکیوں پر مبنی تھا جو طلباء کو مارکسی عقیدہ سکھا تے تھے۔۔۔۔اس سے نئی نسل خراب ہو رہی تھی ، نئی نسل اسلام سے دور ہو رہی تھی‘‘۔1
یہی حربے اور یہی جواز اب جبکہ امریکہ اور ناٹو کے خلاف استعمال ہوتے ہیں تو اسے اسلام کے ’’بیمار پن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے یا براہ راست اسلام اور دیگر اسلامی تعلیمات سے جوڑا جاتا ہے۔اس ضمن میں ذرا پوچھئے کہ کیونکر ایسا تھا کہ جہادی رہنمانامے جو مہاجر کیمپوں اورمجاہدین حلقوں میں گردش کر رہے تھے، وہ اوماہا کی نیبراسکا یونیورسٹی میں تیار ہوئے تھے:
افغانستان میں موجود تمام ناٹو اہل کاروں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے ۔ ان کے خلاف بھی عین یہی حربے استعمال ہو رہے ہیں۔
’’بندوق، گولی، سپاہیوں اور بارودی سرنگوں کی تصاویر کے ساتھ ساتھ جہاد کے ذکر سے بھرپور قاعدے افغان سکولوں میں تب سے بنیادی نصاب کا کام دے رہے ہیں۔اور تو اور طالبان بھی امریکہ میں شائع کی گئی کتب استعمال کرتے رہے گو اس ریڈیکل تحریک نے اپنے عقیدے کے مطابق انسانی تصاویر کے چہرے مسخ کر دیئے‘‘۔2
دریں اثناء سویت روس میں تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ مارچ 1985ء میں میخائل گوربا چوف کے پولٹ بیورو کا سیکرٹری بن جانے کے بعد جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ سویت روس افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کرنے اور اپنے دستے واپس بلانے پر تیار ہے۔اس ضمن میں مجھے حیرت انگیز ذاتی تجربہ ہوا۔اُس سال موسمِ بہار میں اقوامِ متحدہ کی ایک کانفرنس تاشقند میں ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں افغانستان کے اندر سویت مداخلت اور اس کے نتائج پر کڑی تنقید کی۔ میری حیرت کی کوئی حد نہ تھی جب میری تقریر کے بعد سویت وفد ،جس کی سربراہی یوگنی پریماکوف کر رہے تھے (جو بعد ازاں کے جی بی کے سربراہ اور یلسن کے دور میں تھوڑا عرصہ وزیر اعظم بھی رہے)،کے ایک نوجوان رکن نے یہ کہتے ہوئے مجھ سے معانقہ کیا کہ اسے مجھ سے اتفاق ہے اور ان کے نئے جنرل سیکرٹری بھی ان باتوں سے متفق ہیں۔ جب یہ بات میں نے مختلف پاکستانی دوستوں کو بتائی تو وہ پشیمان ہو گئے۔ کچھ کو تو یقین ہی نہیں آیا۔ ان میں سے کچھ آجکل افغانسان پر امریکی قبضے کے زبردست حامی ہیں اور وہ مغرب سے مزید دستے بھیجنے کی التجا کرتے ہیں۔1
سویت یونین نے شکست تسلیم کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر اپنے دستے واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ جنرل گرومو بہرحال اپنے افغان ساتھیوں کے لئے ضمانت کے طلبگار تھے۔ امریکہ۔۔۔۔جس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔۔تیار تھا۔ ضیاء الحق اس کے لئے تیار نہ تھے۔ افغان جنگ ان کے سر کو چڑھ گئی تھی (جیسا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو اس کا خمار ہو گیا تھا)اور ضیاء الحق چاہتے تھے کہ انکے اپنے بندے کابل میں باگ ڈور سنبھال لیں۔ضیاء سبز ہلالی پرچم وسطی ایشیاء کے دارلحکومتوں میں لہرانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ضیاء دور میں پاکستان نے ایٹمی قوت حاصل کر لی اس پر مستزاد یہ کہ سویت روس کو شکست ہو گئی یوں جنرل ضیاء اور ان کے حواریوں میں ایک طرح سے نیا اعتماد پیدا ہوا اور انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ جنرل ضیا دھوئیںمیں تحلیل ہو گئے۔ 17اگست 1988ء کو جنرل ضیاء پانچ جرنیلوں کے ہمراہ امریکی ٹینک ابرام ایم ون، اے ون کی مشق دیکھنے بہاولپور کے قریب واقع فوجی ٹسٹ رینج گئے۔ ایک امریکی جرنیل اور امریکی سفیر آرنلڈ رافیل بھی موجود تھے۔یہ مظاہرہ اتنا کامیاب ثابت نہ ہوا اور ہر کوئی برے موڈ میں تھا۔ضیاء نے امریکیوں کو بھی اپنے سی ون تھرٹی میں سفر کی دعوت دی۔ یہ طیارہ خاص طور پر تیار کیا گیاتھا ۔ اس میں جنرل ضیاء کیلئے ایک مخصوص کیبن تھا تا کہ وہ قاتلوں سے محفوظ رہ سکیں۔ طیارہ بہاولپور سے روانہ ہوا تو فضا میں پہنچ کر چند ہی لمحوں بعد پائلٹ کے قابو سے باہر ہوا اور گر کر تباہ ہو گیا۔تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔ ضیاء کا صرف جبڑا بچا جسے اہتمام کے ساتھ اسلام آباد میں سپردِ خاک کردیا گیا (اسی مناسبت سے قبر کے قریبی چوک کا نام جبڑا چوک پڑ گیا)۔طیارے کی تباہی کا سبب ہنوز ایک راز ہے۔اس حادثے سے متعلق یو ایس نیشنل آرکائیوز میں دوسو پچاس صفحات پر مشتمل ایک دستاویز موجود ہے مگر یہ دستاویز ابھی تک کلاسیفائیڈ ہے۔غیر رسمی طور پر پاکستان کے انٹیلی جنس ماہرین نے مجھے بتایا کہ یہ روسیوں کی کارروائی تھی جو افغانستان کا بدلہ لینا چاہتے تھے یا ایک اور تاویل کے مطابق یہ بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کا کیا دھرا تھا جو اپنی والدہ کے قتل کا بدلہ لینا چاہتے تھے جنہیں ہلاک کرنے والے ان کے سکھ محافظ، بظاہر سکھوں کے لئے، پاکستان میں موجود تربیتی کیمپوں سے تربیت لیکر گئے تھے۔بھارت میں تعینات امریکی سفیر گنتھر ڈین نے ،جو پرانے سفارت کار تھے، ایک شاندا ر تاویل پیش کی۔ نیو یارک ٹائمز کی ساوتھ ا یشیاء بیورو چیف باربرا کروسیٹ کے مطابق:
’’اگست 1988ء میں ڈین کے ذہن میں بہت سے تاریخی واقعات گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ ضیاء کے قاتل بارے ان کا فوری شک جس پر تھا ، اس کا نام تو مشکوک قاتلوں کی اس فہرست میں تھا ہی نہیں جو ان دنوں گردش کر رہی تھی۔ ڈین کا خیال تھا کہ دنیا کو ضیاء سے نجات دلانے کے لئے جو طریقِ کار استعمال ہوا ہے وہ اسرائیلی بلکہ مزید تیقن سے کہا جائے تو موساد کی خاصیت ہے۔
ڈین خبر لِیک کرنے کے بجائے ’’اختلاف کے اظہار کے لئے مناسب طریقِ کار‘‘ کے قائل تھے۔ اس قسم کا الزام جس قسم کے تنازعے کو جنم دے سکتا تھا، اس کے اثرات نہ صرف امریکہ اور جنوبی ایشیاء میں بلکہ ساری اسلامی دنیا میں ہوتے ۔اس بات کا سفیر کو بخوبی علم تھا لہٰذا وہ واشنگٹن گئے تاکہ محکمہ خارجہ میں اپنے افسرانِ بالا کو اپنی تھیوری سے آگاہ کر سکیں۔ اس حرکت کے نتیجے میں ان کا سفارتی کیرئیر ختم ہو گیا‘‘۔1
کیا ڈین یہ کہنا چاہتے تھے کہ موساد نے بم بنانے کی پاداش میں ضیاء کو اڑا دیا؟ڈین نے دوبارہ اس بابت کبھی بات نہیں کی لہٰذا ہم کچھ کہہ نہیں سکتے مگر ڈین کی تاویل قائل کرنے والی نہیں۔ اسرائیلی تو فلسطینیوں کو شکست دینے میں ضیاء نے جو کردار ادا کیا تھا، اس کے معترف تھے۔افغان جنگ کے دوران ضیاء نے موساد کو پشاور میں موجود رہنے کی اجازت دی۔ مزید یہ کہ وہ اکثر پاکستان کو اسرائیل کا اسلامی مترادف سمجھتے تھے:
’’پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے ۔یہودیت کے بغیر اسرائیل ریت کے گھروندے کی طرح ڈیہہ جائے گا۔ پاکستان سے اسلام علیحدہ کر کے اسے سیکولر بنا دیں، یہ ختم ہو جائے گا۔ پچھلے چار سال سے ہم اس ملک میں اسلامی اقدار لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔2
اکثر پاکستانیوں نے حسبِ معمول سی آئی اے کو ذمہ دار قرار دیا۔ ضیاء کے بیٹے کو یقین تھا کہ یہ مرتضٰے بھٹو کی الذوالفقار نے کیا تھا۔ ضیاء کی بیوہ کہا کرتی تھیں کہ ’’یہ ہمارے اپنے لوگوں نے کیاہے‘‘ یعنی فوج نے کیا ہے۔ بے نظیر کے نزدیک یہ ’’خدا کی طرف سے ہوا‘‘۔ایک بات جس پر سب متفق تھے ،وہ یہ تھی کہ ضیاء اب زندہ نہیں۔ یہ راز ہنوز کھلا نہیں۔ جب غیر ملکی رہنما ضیاء سے بھٹو کے لئے رحم کی اپیل کر رہے تھے تو ضیاء نے کہا تھا کہ کوئی بھی انسان نا گزیر نہیں اور میری رائے میں ’’آپ جتنا اونچا اڑتے ہیں ،اتنا زور سے گرتے ہیں‘‘۔ ’’مجاہدِ اسلام ‘‘ اپنا کتبہ خودتحریر کر گیاتھا۔
…٭…