(Last Updated On: )
مایوسیوں کی شعلہ زنی
بیسویں صدی پاکستان کے لئے مہربان ثابت نہیں ہوئی۔آخری تین دہائیوں میں بالخصوص یہ ملک ایک ایسی خام اور رُو بہ زوال ریاست کے طور پر سامنے آیا جو متعفن اور خطر ناک دلدل بنتا جا رہا تھا۔ سرکاری و غیر سرکاری کاروبار میں جابجا اضافہ تو ہوا مگراس کاروبار میں تعلیم، ٹیکنالوجی اور سائنس کا عمل دخل ناپید رہا۔ایک چھوٹی سی اقلیت نے دولت کے ڈھیر اکٹھے کر لئے۔ 2005 ء میں جب اسلام آباد میں پورش(Porsche) گاڑیوں کا شو روم کھلا تو خوب ہائو ہو مچی اور اس بات کوایک ایسے عدد نما کے طور پر پیش کیا گیاجس سے لگتا ہو گویا پاکستان آخر کار جدیدیت کے عہد میں داخل ہو گیا ہے۔ اس موقع پر غذا کی کمی کے ہونے والے حیران کن اثرات بارے تازہ ترین اعداد و شمار کوقابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا: شہریوں کا اوسط قد کم ہو رہا ہے۔ اقوام ِمتحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوںمیں 60 فیصد درمیانے یا شدید نوعیت کے لاغر پن کا شکار ہیں۔
امیروں میں کم کم ہی کسی کو محروموں کی فکردامن گیر ہوگی۔غریب لوگوں کی ضروریات ہوں یا درد کے پیوند لگی انکی زندگیاں،مذہب میں لوگ پناہ تلاش کریں یابلیک مارکیٹ کا مسئلہ ہو، مختلف مسلمان فرقوں میں جھڑپیں اور مغربی سرحدوں پر جنگ ہو یا سیاسی رہنمائوں کے قتل، امیرکسی چیزسے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ اشرفیوں کی کھنک میں ہر طرح کا شور ڈوب جاتا ہے۔مغرب کی سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور اب نظریات کے بجائے اقرباء پروری، موکل نوازی اور بے روح پیروکاروں پر انحصار کرتے ہیں۔ تنظیم کا محور و مقصد ایک فرد کی ذات بن چکی ہے۔ اجارہ، پیسہ،اقتدار اور پارٹی قائد کی، بعض صورتوں میں فوج کی بطورمشترکہ قائد، اندھی فرمانبرداری۔ ہر سیاسی جماعت میں با رسوخ افراد باصلاحیت لوگوں سے پرخاش رکھتے ہیں۔ سیاسی عہدے ہوں یا پارلیمانی نشستیں، معیار کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔ اچھا کردار اور ذہانت و فطانت تو گویا کسی خامی کے مترادف ہیں۔
جب انسان ساٹھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو آئینہ دیکھتے ہوئے خوش ہوتا ہے یا نراش۔ افسوس کہ ایک ملک یوں اپناعکس نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ذمہ داری کوئی فنکار، کوئی شاعر، فلمساز یا کوئی لکھاری اپنے ذمے لیتا ہے کہ آئینے کا کردار ادا کرے۔
سال2007 ء میں، پاکستان کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر جب اقتدار پر وقت کے آمر کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی تو اس ملک کا ایک براہ راست جائزہ ایک مناسب موقع تھا۔ میدانی علاقوں کے شہروں سے اگست کے مہینے میں پرہیز ہی بہتر ہے کہ ان دنوں بارشیں ان شہروں کو تالاب بنا دیتی ہیں۔ جب میں وہاں رہتا تھا ، اس موسم میں ہم لوگ پہاڑوں کا رخ کرتے تھے جہاں ہمالیہ کی ہوائیں ماحول کو ہمیشہ خوشگوار بنائے رکھتی ہیں۔ 2007ء میں میں نے ایسا نہیں کیا۔ مون سون کا موسم سر پھرا سہی لیکن گاہے بگاہے محض یادوں کو تازہ کرنے کی نیت سے اس کاتجربہ کرنا بھی ضروری ہے۔ جان کی اصل دشمن تو موذی نمی ہوتی ہے۔نجات کی گھڑی وقفوں وقفوں سے آتی ہے : ہوا یک دم ساکن ہو جاتی ہے اور پھر آسمان کا رنگ گہرا ہو جاتا ہے، بادل یوں گرجتے ہیں گویا کہیں دور بم پھٹ رہے ہوں اور پھر موسلا دھار بارش۔ دریا اور ندی نالے اپنے کناروں کے حصار سے باہر نکل آتے ہیں۔ سیلابی صورتحال کے باعث شہروں میں کہیں سے گزرنا محال ہو جاتا ہے۔ امیروں کے محلے ہوں کہ کچی آبادیاں،سب ابلتے ہوئے گٹروں کے پانی کی ضد میں ہوتے ہیں۔بدبو ہر قسم کی طبقاتی تقسیم سے ماورا ثابت ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ لوگ جو ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر ائیر کنڈیشنڈ کاروں میں جا بیٹھتے ہیں، وہ بھی اس بدبو سے پوری طرح نہیں بچ پاتے۔
اس ماحول اور سرکاری سیاست کی بے رحم دنیا میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ ثانی الذکر بالکل کسی صحرا کی طرح ہے۔ پوری طرح بے آب و گیاہ۔کوئی فرضی نخلستان بھی دکھائی نہیں دیتا۔عوام میں مایوسی اور غصے کے شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے لئے جا بجا آویزاں قائدبزُرگ (جنرل مشرف)، قائد کوچک (ذاتی صفات سے محروم ،جنرل مشرف کے صوبائی عکس) کی قدِ آدم تصاویر انتہائی مکروہ اور بھدی صورت میں ابھرتی ہیں۔جائز قرار پانے کے لئے ہندو دشمن، بھارت دشمن جذبات کا استحصال بھی اب کوئی کارگر حربہ نہیں رہا۔14 اگست ،یومِ آزادی کے موقع پر سرکای تعطیل پہلے سے بھی زیادہ مصنوعی اور کوفت سے بھر پور ہوتی ہے۔ بے معنی نعروں کا شور کسی کو بھی متاثر نہیںکرتا۔ اخبارات میں خود تعریفی پر مبنی شا ونسٹ مفروضوںکے ساتھ ساتھ بانی
پاکستان ،محمد علی جناح، اور لافانی شاعر علامہ اقبال کی ان جامد تصاویر کی بھر مار ہوتی ہے جو سینکڑوں بار ایسے موقعوں پر شائع ہو چکی ہیں۔اس میں درجنوں سفلی سے مذاکروںکا اضافہ بھی کر لیجئے جن کا اہتمام ٹی وی سکرین پر کیا جاتا ہے اور جن میں ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ جناح نے کیا کہا تھا اور کیا نہیں کہا تھا۔ اس موقع پر ہمیشہ ہی سے یہ ہوتا آیا ہے کہ بے وفا لارڈ مونٹ بیٹن اورا نکی ’’بے راہرو‘‘اہلیہ ،ایڈوینہ، (نہرو کے ساتھ ایڈوینہ کے معاشقے کو سیاسی رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے)نے اثاثوں کی تقسیم پر بھارت کا ساتھ دیا۔ یہ درست ہے لیکن اب اس بات سے کسی کو کیا لینا دینا؟اس بے جوڑ شاہی جوڑے کو بہر حال کسی طرح بھی اس تباہی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا جس سے آج یہ ملک دو چار ہے۔ نجی سطح پر البتہ زیادہ بے لاگ خود تنقیدی ہوتی ہے اور یہ بات اکثر اب بہت سے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ یہ ملک بننا ہی نہیں چاہئے تھا۔
1971 ء میں ملک ٹوٹنے کے کئی سال بعد میں نے ’’کین پاکستان سروائیو‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔اس کتاب کو سرِ عام تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور آمروقت جنرل ضیا ء الحق نے، جو ملک کی تاریخ کا بد ترین آمر ثابت ہوا، اس کتاب پر پابندی عائد کر دی ۔ضیاء کی نگرانی میں ملک کی بھر پور’ ’اسلامائزیشن‘ ‘کا عمل ہوا ، ملک کی سیاسی ثقافت کو وحشتناک بنایا گیا جبکہ مزاحمت کرنے والوں کو سرِ عام کوڑے لگائے گئے۔ ضیاء کی بر بریت سے بھرپور سیاسی وراثت کسی انمٹ داغ کی طرح موجود ہے۔میری کتاب کے بلاحقوقِ اشاعت کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور مجھے بعد ازاں پتہ چلا کہ اس کتاب کو کئی جرنیلوں نے دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ اس کتاب میں میری دلیل یہ تھی کہ اگر ریاست نے اپنے اطوار نہ بدلے تو باقی چھوٹے صوبے بھی علیحدہ ہو سکتے ہیں اور آخر میں گھر کے تیس مار خان ایسا پنجاب ہی رہ جائے گا۔بہت سے وہ لوگ جنہوں نے مجھ پر غداری اور انحراف کا الزام لگایا، وہ بھی اب یہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اب پچھتانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس ملک کو کچھ نہیں ہو گا۔ بقائے پاکستان کی ضمانت عارفانہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ یا مذہب نہیں بلکہ دو دیگر عناصر ہیں: اس کی ایٹمی طاقت اور واشنگٹن سے ملنے والی حمایت۔
اگر امریکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پاکستان کی ہلکی پھلکی سی بلقانائزیشن کر دی جائے ـ ۔۔۔۔مثلاً یہ کہ صوبہ سرحد کو علیحدہ کر کے ناٹو کے مقبوضہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے۔۔۔۔ توایسے میں چین محسوس کرے گا کہ اسے اس ملک کی بقاء کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔ملک کو درپیش بنیادی تضادات پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکل اختیار کر گئے ہیں: ہزاروں دیہات اور کچی آبادیاں آج بھی بجلی اور پانی سے محروم ہیں۔ لکڑی کا ہل اور ایٹمی انبار ساتھ ساتھ موجود ہیں۔یہ ہے اصل سکینڈل۔
ملک کی ساٹھویں سالگرہ پر (بیسویں اور چالیسویں سالگرہ کی طرح)ڈگمگاتی ہوئی ایک فوجی آمریت اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی تھی:مغربی سرحد پر اسے ایک بیرونی جارح کا سامنا تھا اور اندرونی محاذ پر جہادی، وکیل اور جج اس کے لئے وبالِ جان بنے ہوئے تھے۔ ان باتوں کا لاہور کے نوجوان زندہ دلان پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا تھا اور وہ یومِ آزادی اپنے ہی ڈھنگ سے منانا چاہتے تھے۔ صبح سویرے نوجوان لڑکے موٹر سائیکلوں پر یوںسوار ہوئے کہ بُل بھی وہ خود تھے اور بُل فائٹر بھی۔ پھر خود کشی کے لئے اس موٹر سائیکل دوڑ کا آغاز ہواجو اب تو ہر سال ہی ہوتی ہے۔گویا اگرجشن منانے کے لئے کچھ بچا ہے تو وہ ان کا حقِ خود کشی ہے۔ 2007 ء میں صرف پانچ نوجوان یہ حق استعمال کرسکے۔ گذشتہ سالوں کی نسبت یہ تعداد کہیں کم تھی۔ہو سکتا ہے اس واقعہ کی یاد منانے کا معقول طریقہ یہی ہو جس میں دس لاکھ سے زائد افراد نے اس وقت ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارا جب زوال پزیر سلطنتِ برطانیہ گھرواپس بھاگ رہی تھی۔
دریں اثنا ایک باوردی آمر اسلام آباد میں یومِ آزادی کے موقع پر فوجی پریڈ سے سلامی وصول کر رہا تھا۔اس نے بوریت کے شکار کسی بیوروکریٹ کی لکھی ہوئی تقریر بھی پڑھ کر سنائی مگر تقریر ارد گرد موجود خوشامدیوں کی جمائیاں روکنے میں بری طرح ناکام ہو رہی تھی۔ ایف سولہ طیاروں کی سیلانی پرواز بھی حاضرین کو جوش نہ دلا سکی۔سکول کے بچے پرچم لہرا رہے تھے۔ ایک بینڈ قومی ترانے کی دھن بجا رہا تھا۔ سارا شُو براہ راست دکھایا جا رہا تھا۔ آخر کار یہ شُو ختم ہوا۔
مغرب نے پاکستان کا ایک خاص تصور قائم کر رکھا ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ کے اخبارات یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان کو سامنا تو بے شمار مسائل کا ہے مگر اہم ترین مسئلہ کوہِ ہندوکش میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے با ریش جنونیوں کا اثر و رسوخ ہے ۔ مذکورہ اخبارات یہ تاثر دیتے ہیں گویا یہ جنونی اقتدار تک پہنچنے ہی والے ہیںاورا گر کسی نے جہادیوں کی انگلی نیوکلئیر بٹن تک پہنچنے سے روک رکھی ہے تو وہ جنرل مشرف ہیں۔ یہ بات تو 2007 ء ہی میں واضح ہو گئی تھی کہ جنر ل مشرف مسائل کے گرداب میں ڈوب سکتے ہیں لہٰذا مہربان مددگار کے طور پر امریکی محکمہ خارجہ نے بے نظیر بھٹو کی صورت میں ایک کشتی یوں بھیجی گویایہ نوح کی بیڑی ہو۔ دسمبر 2007ء میںبے نظیر بھٹو کی ہلاکت سے مہینوں پہلے ہم میں سے کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ اگر دونوں ایک ساتھ ڈوبے تو کیا بنے گا؟
درحقیقت اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ جہادی اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ جہادیوں کی ایسی کسی بغاوت کا کوئی امکان نہیں تاآنکہ فوج ایسا چاہے جیسا کہ اسّی کی دہائی میں جنرل ضیاء نے تعلیم اور اطلاعات کی وزارتیں جماعت اسلامی کو دے دی تھیں جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے: جماعتی غنڈوں نے تمام جامعات سے جمہوری طور پر منتخب مخالفین کا صفایا کر کے رکھ دیا جبکہ جماعتی نظریات کے پر چار ک ابلاغی اداروں میں گھس گئے۔ پاکستان کو بلا شبہ سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے مگر واشنگٹن کی انتظامیہ ہو یا مالی ادارے، ان مسائل کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ بنیادی سماجی ڈھانچے کی عدم موجودگی مایوسی کو جنم دیتی ہے مگر اس کے باوجود ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جو مسلح جہاد کی طرف مائل ہوتی ہے۔پاکستان میں فوجی آمریت آتی ہے تو تین گروہوں کا اکٹھ ہو جاتا ہے: فوجی جرنیل،جوڑ توڑ کے ماہر سیاست دان اور کاروباری افراد جن کی نظریں یا سرکاری زمین پر ہوتی ہیں یا بھاری ٹھیکوں پر۔ ہر گروہ اب دھوکہ دہی میں مہارت حاصل کر چکا ہے اور ہر گروہ کو معلوم ہے کہ آپس کے اندر کے حسد اورگھٹیا اختلافات پر ایک بڑی برائی کی خاطر پردہ کیسے ڈالنا ہے۔ان میں بندھن ہے پیسے کا ، زرعی اراضی اور شہری پلاٹوں کی اندھی لوٹ مار کا۔ فوجی عتاب کا شکار سیاستدان اس سوچ میں ہوتے ہیں کہ ان سے ایسی کون سی خطا ہو گئی لہٰذا وہ فوج کی غلط فہمی دور کرنے والوں کی قطار میں لگ جاتے ہیںتا کہ فوج ان پر بھی دستِ شفقت رکھ دے ۔ملک کا حکمران طبقہ ساٹھ سال سے ناجائز کمائی کی حفاظت میں مصروف ہے جبکہ قائدِ اعلیٰ (وہ باوردی ہو یا بے وردی)ان کی خوشامدسے مست رہتا ہے۔
سرکاری حزبِ اختلاف کی بابت کچھ کہئے؟ وائے افسوس!اس ملک کا نظام ایسے ارکانِ قومی اسمبلی پیدا کرنے میں مہارت رکھتا ہے جو ہر وقت اشرفیوں کے چکر میں رہتے ہیں۔ بے رحم اور عیار ، منمناتی ہوئی آوازمیں بات کرتے ہوئے یہ سیاستدان اپنے لئے کسی تنخواہ دہندہ کا بندوبست کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تنخواہ دہندہ بھی ان پر انحصار کرنے لگتا ہے۔یہ لوگ اگر خطرناک نہ ہوتے تو بلا کے طربیہ کردار ہوتے: مَنت پوری ہونے پرممنونِ احسان ، ٹھکرائے جانے پر بے رحم۔عوام نے ایسی کیا خطا کی ہے، جس کی سزا یہ سیاستدان ہیں؟
بد عنوانی پاکستان کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری نے دو بار اقتدار میں رہ کر ڈیڑھ ارب ڈالر اکٹھے کئے۔ کاروبارکے دائو پیچ سے آشنا ،دو بار وزیرر اعظم رہنے والے نواز شریف اور انکے بھائی نے غالباً اس سے دوگنا رقم بنائی۔ قیادت سے تحریک پا کر نچلی سطح کے سیاستدانوں ، ہر درجے کے سرکاری افسر اور ان کے فوجی ہم منصبوں کو اپنے لئے دولت کا ڈھیر لگانے میں کم ہی کوئی مشکل پیش آئی۔بوجھ تو غریب پر پڑتا ہے مگر متوسط طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔وکیل، ڈاکٹر، اساتذہ، چھوٹے کاروباری اورتاجر ایک ا یسے نظام میں بری طر ح پس کر رہ جاتے ہیں جہاں اقربا پروری اور رشوت ترپ کا پتہ ہیں۔ کچھ فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔۔۔۔بیس ہزار پاکستانی ڈاکٹر امریکہ میں کام کر رہے ہیں۔۔۔۔باقی نظام سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور ان سمجھوتوں کو قبول کر کے وہ خود اپنے اور دوسروں بارے سنکی رویہ اپنا لیتے ہیں۔
دریں اثناء گو اسلام پرست ایوانِ اقتدار سے ہنوز بہت دور ہیں مگر ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔تبلیغی جماعت کے مستقل مزاج اور سنگدل طائفے انتہائی موثر ہیں۔ تبلیغ سے مراد ہے’’ حقیقی اسلام کا پرچار‘‘۔ تبلیغی جماعت اور امریکہ کے بارن اگین عیسائی بنیاد پرستوں کے مابین بے شمارمما ثلت پائی جاتی ہے۔ہر سماجی پرت کے گناہ گار توبہ کے لئے قطار میں کھڑے نظر آئیں گے۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت کا بہت بڑامرکز رائے ونڈ میں ہے۔ کبھی رائے ونڈ گندم، جوار اور سرسوں کے کھیتوں سے گھرا ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ اب یہ لاہور کے جدید مضافات میں شمار ہوتا ہے جہاں شریف برادران نے ،جب وہ نوے کی دہائی میں بر سرِ اقتدار تھے، اپنے لئے خلیجی طرز کا محل تعمیر کروایا تھا۔تبلیغی جماعت کی بنیاد انیس سو بیس کی دہائی میں مولانا الیاس نے رکھی تھی جو اتر پردیش کے قصبے دیو بند کے ایک کٹر مدرسے سے فارغ التحصیل تھے۔ ابتداء میں تبلیغی طائفے شمالی ہند تک محدود تھے۔ اب بڑے بڑے طائفوں کی منزل مغربی یورپ اور شمالی امریکہ بن چکے ہیں۔ تبلیغی جماعت کو امید ہے کہ اسے مشرقی لندن میں اس میدان کے قریب ہی مسجد بنانے کی اجازت مل جائے گی جہاں 2012ء میں اولمپکس ہونے والے ہیں۔یہ یورپ کی سب ے بڑی مسجد ہو گی۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت وسیع اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم میں اس کا اثر و رسوخ اور کرکٹ ستاروں کو تبلیغی بنانا اس کی معروف ترین کامیابی ہے: انضمام الحق اورمحمد یوسف اندرونِ ملک جبکہ مشتاق احمد برطانیہ میں تبلیغی جماعت کے مفادات کی نگرانی پر معمور ہیں۔ ایک اور کامیابی گیارہ ستمبر کے بعد جنید جمشید کی بھرتی تھی جو پاکستان کے پہلے پاپ گروپ وائٹل سائنز کے کرشماتی لِیڈ سنگر تھے۔ انہوں نے اپنا ماضی تج دیا اور اب صرف نعتیں پڑھتے ہیں۔
تبلیغی جماعت والوں کا کہنا ہے کہ وہ متشدد نہیں ہیں اور ان کا مقصد حقیقی دین کا پرچار ہے تا کہ لوگ اس زندگی میں صراطِ مستقیم پر چل سکیں۔ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو مگر بعض نوجوان لڑکے عقیدے ، عبادات اور رسومات سے تنگ آ کر کلاشنکوف کو آزمانے میں زیادہ دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تبلیغی جماعت کی بوئی ہوئی فصل کشمیر اور مغربی سرحد پر مصروف مسلح گروہ کاٹتے ہیں۔مذہب کی جو تشریح تبلیغی جماعت ایسے گروہ کرتے ہیں، اسے چیلنج کرنے کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ نے سست روی سے کام لیا ہے۔ یہ مذہبی گروہ نہیں ہیں جنہوں نے مشرف حکومت کو للکارا ہے۔ یہ وکیل برادری تھی جس نے مشرف آمریت کو بے بس کر کے رکھ دیا۔
9 مارچ2007ء کو جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کر دیااور ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس کے خلاف لگائے گئے ا لزامات وہی تھے جو حکومت نواز وکیل نعیم بخاری نے اپنے ایک خط میں لگائے تھے۔ اس خط کا حیران کن انداز میں پرچار کیا گیا۔ مجھے بھی اس کی ایک کاپی بذریعہ ای میل موصول ہوئی۔ پہلے تو میں نے سوچا شائد کچھ ہونے والا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ انگور کھٹے والا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں تھا۔ جلد ہی واضح ہو گیا کہ یہ خط ایک منصوبے کا حصہ تھا۔ خط کا آغاز کچھ شکایات سے ہوا اور پھر بھرپور لفاظی غالب آتی گئی:
مائی لارڈ!آپ مسلسل وکلاء کی توقیر کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ہمارے ساتھ بدتمیزی ، بدمزاجی، اکھڑ پن اور سختی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ہمیں ہمارا مقدمہ پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔وکالت کے لئے گنجائش بہت ہی کم بچی ہے۔ بار روم میں کورٹ نمبر 1 کے لئے ’قصاب خانے‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ آپ کی قیادت میں قائم بنچ سے ہمیں مرغوب کیا جاتا ہے۔ ہماری جانب آپ کا رویہ جارحانہ، متشدد اور متکبرانہ ہے۔
خط کامندرجہ ذیل حصہ تو ایسا تھا کہ مجھے چونک جانا چاہئے تھا کہ کیا ہونے والا ہے:
بنیادی حقوق کے نام پر سپریم کورٹ میں مائی لارڈ نے جن مقدمات کی شنوائی کی، ان مقدمات کو ملنے والی شہرت سے مجھے شدید تکلیف پہنچی ہے۔ سپریم کورٹ جن مقدمات کی شنوائی کررہی ہے، وہ مقدمات با آسانی ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ میں بھی چلائے جا سکتے تھے۔ایک (مغوی) خاتون کی بازیابی پر سپریم کورٹ کو جو میڈیا کوریج ملی ہے، مجھے اس سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔ بار روم میں اسے ’میڈیا سرکس‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس افتخارچوہدری حکومت کو شرمندگی سے دو چار کر رہے تھے۔ انہوں نے کئی اہم مقدمات میں حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔ ان مقدمات میں کراچی میں واقع پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری بھی تھی جو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت ’شارٹ کٹ ‘ عزیز کا خاص منصوبہ تھا۔اس مقدمے نے بورس یلسن کے روس کی یاد تازہ کر دی۔ ماہرینِ معیشت کا خیال تھا کہ اس مل کی قیمت پانچ ارب ڈالر تھی۔آدھ گھنٹہ جاری رہنے والی ایک بولی میں ا س کے پچھتر فیصد حصص 362 ملین ڈالر کے عوض اپنے قریبی اس کنسورشیم کو دیدئے گئے جو عارف حبیب سکیورٹیز (پاکستان) ، التوائرکی(سعودی عرب)اور میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ سٹیل ورکس اوپن جے ایس سی (روس) پر مبنی تھا۔ یہ نج کاری فوج میں سند قبولیت حاصل نہ کر سکی اور ریٹائر ہوتے ہوئے چئیرمین سٹیل ملز حق نواز اختر نے شکایتاً کہا کہ اگر ’’پلانٹ کوسکریپ کے طور پر بھی بیچ دیا جاتا تو وہ اس سے زیادہ مہنگا بکتا‘‘۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ جنرل مشرف اور وزیر اعظم نے اپنے دوستوں کو نوازا ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج سے شناسائی رکھنے والے ایک شخص نے مجھے کراچی میں بتایا کہ عارف حبیب سکیورٹیز، جس نے مل کے بیس فیصد حصص خریدے،شوکت عزیز کی فرنٹ کمپنی کے طور پر بنائی گئی تھی۔سعودی سٹیل کمپنی، التوائرکی نے چالیس فیصد حصص خریدے۔کہا جاتا ہے کہ مشرف کے اس کمپنی سے قریبی تعلقات تھے۔ اس کمپنی نے جب پاکستان سٹیل ملز سے ہی لی گئی دوسو بیس ایکڑ اراضی پر ، اس کے پڑوس ہی میں،پلانٹ لگایا تھا تو اس کا افتتاح جنرل مشرف نے کیا تھا۔اب اس کمپنی کا اس سارے معاملے سے مفاد وابستہ ہے۔
جب سپریم کورٹ نے اصرار کیا کہ ’لاپتہ‘سیاسی کارکنوں کوعدالت میں پیش کیا جائے اور عدالت نے زیادتی کے مقدمات خارج کرنے سے انکار کر دیا تو اسلام آباد میں بعض لوگوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں چیف جسٹس باوردی صدارت کو بھی غیر آئینی نہ قرار دے دیں۔ مالیخولیاطاری ہو گیا۔کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ۔ جنرل اور جنرل کی کابینہ نے چیف جسٹس کو معطلی کی صورت میں دھمکانے کی کوشش کی۔ 9 مارچ2007ء کو چیف جسٹس گرفتار کر لئے گئے، انہیں کئی گھنٹے قید تنہائی میں رکھا گیا ۔ خفیہ کے اہل کاروں نے ان سے بد تمیزی کی اور ٹی وی پر ان کے خلاف گھٹیا الزامات لگائے گئے۔ چیف جسٹس نے البتہ گھٹنے ٹیک کر ایک بامنافع پنشن حاصل کرنے کی بجائے اپنا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں آزاد عدلیہ کے حق میں ایک زبر دست تحریک شروع ہو گئی۔ یہ سب حیران کن تھا۔ پاکستانی جج اپنی قدامت پرستی کیلئے مشہور ہیں اور انہوں نے ہر فوجی بغاوت کو’ ’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت جائز قرار دیا۔ جب مشرف نے اقتدار سنبھالا تو چند ججوں نے حلف اٹھانے سے انکار کر تے ہو ئے استعفیٰ دیدیامگر افتخار چوہدری نے ایسا نہیں کیا۔ ایک سال بعد، جنووری 2000 ء میں انہیں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیایوں 2005 ء میں انہیں چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ اس عہدے پر انکی تقرری سے قبل اس بات کا اشارہ کم ہی ملتا ہے کہ وہ جوڈیشل ایکٹوسٹ تھے۔
جب اپریل 2007ء میں میں پاکستان گیا تو مظاہرے روز بروز پھیلتے جا رہے تھے۔ابتداََ تو یہ مظاہرے اسّی ہزار وکیلوں اور چنددرجن ججوں تک ہی محدود تھے مگر بے چینی جلد ہی انکی صفوں سے باہر تک پھیل گئی جو ایک ایسے ملک میں غیر معمولی بات تھی جہاں عوام کافی حد تک اشرافیہ کے اقتدار سے کٹ چکے ہیں۔ وکلاء اس بات کے حق میں مظاہرے کر رہے تھے کہ اقتدار کے مختلف سرچشمے اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ ہر شہر میں مظاہرے ہوئے۔ پولیس دستوں کوللکارتے ہوئے کالے کوٹ تو گویا اب ایک ایسا منظر تھا جو اکثر دیکھنے میں آتا تھا۔ نجی ٹی وی چینلز ۔۔۔۔جیو، آج، انڈس وغیرہ۔۔۔ان واقعات کو مسلسل پیش کر رہے تھے۔ مشرف اور ان کے وزراء سے انٹرویوز میں تند و تیز سوالات کئے جانے لگے ۔ ان سوالات سے گھبرا کر جنرل مشرف بی بی سی یا سی این این کی پناہیں تلاش تو کرتے ہوں گے۔جنرل مشرف باقاعدگی سے صحافیوں کی سرزنش کرتے کہ وہ ان سے اس پاس لحاظ کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کا مظاہرہ مغربی نیٹ ورکس جارج بش اور یورپی رہنمائوں کے معاملے میں کرتے ہیں۔
خوشگوار حد تک پرانی طرز کی اس جدوجہد میں نہ توپیسے کا عمل دخل تھا نہ ہی مذہب کا۔ جدوجہد ایک اصول کی خاطر ہو رہی تھی۔ حزب ِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے بعض مفاد پرستوں نے اس جدوجہد پر اجارہ داری کی کوشش کی( ان میں بعض ایسے تھے جنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا) ۔ ملک کے ایک معتبر وکیل عابد حسن منٹو نے مجھ سے کہا:’’ایسا نہیں کہ یہ سب اچانک بدل گئے ہیں۔ ان کا تعلق بھی اشرافیہ ہی کے طبقے سے ہے۔ بات یہ ہے کہ جب وقت آ چکا ہو تو کوئی بھی چیز چنگاری بن سکتی ہے۔‘‘
اسلام آباد کی نوکر شاہی کے اکثر افراد کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ انہوں نے جسٹس چوہدری کو گرفتار کر کے غلطی کی ہے لیکن بحرانوں میں جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، غلطی تسلیم کرنے کے بجائے غلطی کا ارتکاب کرنے والے طاقت پر انحصار کرتے ہیں۔ اس طاقت کا پہلا نشانہ نجی ٹی وی چینل تھے۔ کراچی اور جنوبی پاکستان میں اچانک تین چینل اس وقت بند کر دئے گئے جب وہ مظاہروں کی خبریںپیش کر رہے تھے۔اس کے خلاف شدید عوامی رد عمل ہوا۔ پانچ مئی کو جسٹس چوہدری ایک تقریر کے سلسلے میں اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوئے ۔ راستے میں جگہ جگہ اپنے حامیوں سے ملنے کے لئے انہیں بار بار رکنا پڑا۔تین چار گھنٹے میں مکمل ہو جانے والا سفر چھبیس گھنٹوں میں مکمل ہو سکا۔ اسلام آباد میں مشرف نے جوابی وَار کی منصوبہ بندی کی۔
بارہ مئی کو چیف جسٹس نے ڈیڑھ کروڑ کی بے ہنگم آبادی پر مبنی،ملک کے سب سے بڑ ے شہر کراچی جانا تھا ۔کراچی میں سیاسی قوت ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہے۔یہ بد مزہ گروہ ضیاء آمریت کے دور میں 1984ء میں قائم ہوا۔ اس کی ابتداء تو 1978ء میں بطور طلباء تنظیم ہوئی ۔ اس تنظیم کے بانی الطاف حسین تھے اور رکنیت سندھ میں رہائش پزیر اردو بولنے والوں تک محدود تھی۔یہ لوگ ان مسلمان مہاجروں کے بچے تھے جو 1947 ء میں بھارت سے ہجرت کر کے ایک گھر کی تلاش میں پاکستان آئے تھے۔ ملازمتوں میں امتیازی سلوک کی وجہ سے معاشی لحاظ سے پچھڑ گئے۔ نئی تنظیم نے ان جذبات کا فائدہ اٹھایا ، ان کی ترجمانی کی مگر جلد ہی بھتوں اور تشدد کے حوالے سے بدنامی بھی کمائی۔ ہر بحران کے دوران ایم کیو ایم نے مشرف کا ساتھ دیا۔
ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین نوے کی دہائی میں ملک سے فرار ہو گئے کہ انہیں مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انہیں برطانیہ میں سیاسی پناہ ملی اور اب وہ لندن کی ایک محفوظ پناہ گاہ سے اپنی جماعت کا نظم و نسق چلار ہے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر وہ واپس لوٹے تو ان کے مخالف ان سے بدلہ لینے کی کوشش کریں گے۔ جسٹس چوہدری کی کراچی آمد سے کچھ دیر پہلے اپنے پیروکاروں سے ٹیلی فونک خطاب میں انہوں نے کہا :’’اگر موجودہ جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لئے سازشیں ہوئیں تو ایم کیو ایم کا ہر کارکن ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا اور جمہوری حکومت کا دفاع کرے گا‘‘۔ اسلام آباد کی ہدایت پر ایم کیو ایم کی قیادت نے تہیہ کر لیا کہ وہ چیف جسٹس کو اپنے حامیوں سے، جن پر شہر کے مختلف حصوں پر حملے ہو رہے تھے، خطاب کے لئے ہوائی اڈے سے ہی نہیں نکلنے دیں گے۔ تقریباََ پچاس لوگ ہلاک ہو گئے۔ جب اس تشدد کی فلم’ آج‘ ٹی وی پر چلی تو ایم کیو ایم کے رضاکاروں نے اس کے دفتر پر حملہ کر دیا ۔ چھ گھنٹے تک ’آج‘ کے دفتر پر گولی چلتی رہی جبکہ پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کو نذزِ آتش کر دیا گیا۔
سینئر پولیس افسران، وزیر اعلیٰ اور گورنر، کسی نے بھی مداخلت نہ کی لہٰذا ایک عام ہڑتال ہوئی جس کے نتیجے میں آمریت مزید تنہا ہو گئی۔ اگست 2007 ء میں ’کراچی میں قتل عام‘ کے عنوان سے پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے ایک خوفناک رپورٹ شائع کی جس میںتفصیل سے ان تمام باتوں کی تصدیق کی گئی جو سب کو پہلے سے معلوم تھیں: پولیس اور فوج کو حکم تھا کہ ایم کیو ایم کے کارکن جب اودھم مچائیں تو وہ مداخلت نہ کریں:
ریاست کی بحیثیت ادارہ ساکھ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ امر انتہائی قابلِ تشویش ہے کہ بیس گھنٹوں تک ریاستی حفاظتی انتظامات ناپید تھے جبکہ شہر پر ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کے مسلح کارکنوں کاباقاعدہ قبضہ تھا۔یہ منظر انتہائی پریشان کن تھا کہ غیر مسلح پولیس والے مسلح کیڈر کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے،بالخصوص جب ریاست کے کلیدی افسر محض لاچارگی کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دئے۔
اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے ، ہر طرح سے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے جنرل مشرف کو اب یہ خطرہ لاحق تھا کہ چیف جسٹس کے حق میں چلنے والی عوامی تحریک بے قابو نہ ہو جائے، بالخصوص کراچی ایسے واقعات کسی اور شہر میں پیش آنے کی صورت میں۔ مزید جبر کے نتائج سے گھبرا کر مشرف کے پاس پسپا ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ معطلی کے خلاف چیف جسٹس کی اپیل سماعت کے لئے منظور ہوئی اور سپریم کورٹ نے اس کی سماعت کی۔ 20جولائی کو سپریم کورٹ نے متفقہ طور پرچیف جسٹس کو بحال کر دیا جبکہ سرکاری وکیل عدالت کے احاطے سے جلدی میں نکلتے ہوئے دکھائی دئے۔ ایک نئے ولولے کے ساتھ عدالت نے اپنا کام شروع کر دیا۔حافظ عبدالباسط ’لاپتہ ‘ قیدی تھا جسے ’دہشت گردی‘ کے شبے میںپکڑا گیا تھا مگر کوئی باقاعدہ الزام نہ تھا۔ چیف جسٹس نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل طارق پرویز کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا اور شائستگی سے مذکورہ قیدی بارے پوچھا۔ طارق پرویز کا جواب تھا کہ انہیں نہ تو یہ معلوم ہے کہ مذکورہ قیدی کہاں ہے نہ ہی اس قیدی بارے کبھی کچھ سنا ہے۔ چیف جسٹس نے پولیس کے سربراہ کو حکم دیا کہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر باسط کو عدالت میں پیش کیا جائے: ’’قیدی پیش کرو یا جیل کے لئے تیار ہو جائو۔‘‘ دو دن بعد باسط کو عدالت میں پیش کر دیا گیااور جب پولیس کی جانب سے اس کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہ ہو سکا تو اسے رہا کر دیا گیا۔ واشنگٹن اور لندن کو یہ ناگوار گزرا کہ ان کو باسط کے دہشت گرد ہونے کا یقین تھا لہٰذا اسے غیر معینہ مدت کے لئے قید رکھنا چاہئے تھا جیسا کہ امریکہ اور برطانیہ میں یقیناََ اسے رکھا جاتا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے چھ ایسی درخواستوں پر سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس میں جنرل مشرف کے با وردی صدارتی انتخاب لڑنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیاتھا۔ پارلیمنٹ نے گو 2004 ء میں ایک ایکٹ کی منظوری دی تھی جسکا مقصد مستقبل میں ایسے کسی چیلنج سے بچنا تھا جو جنرل مشرف کے صدر اور فوجی سربراہ کے عہدے بیک وقت رکھنے کی بابت سامنے آ سکتا تھا۔سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف درخواست سماعت کے لئے یہ کہتے ہوئے منظور کر لی کہ مذکورہ ترمیم کا متن آئین سے متصادم ہے۔صدارتی مدت کے تعین کے حوالے سے بھی ابہام پایا جارہا تھا: پاکستانی آئین کے مطابق صدر صرف دو ٹرم کے لئے اس عہدے پر فائز رہ سکتا ہے۔ مشرف نے صدارت کا عہدہ جون 2001 ء میں سنبھالا تھا۔ اس کے بعد 2002ء میں ایک ریفرنڈ م ہوا جسے جنرل مشرف نے ’جموری مینڈیٹ ‘ قرار دیا لہٰذا جنرل مشرف کے مخالفین کا کہنا تھا کہ وہ دو بار عہدہ صدارت پر متمکن رہ چکے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ انکی عمر ساٹھ سال سے زائد ہو چکی تھی لہٰذا قواعد و ضوابط کے مطابق انہیں بطور فوجی سربراہ ریٹائر ہو جانا چاہئے تھا۔ اگر وہ بطور فوجی سربراہ ریٹائر ہو جاتے تو پھر وہ ایک اور قانون کی ضد میں آتے تھے جس کے مطابق سرکاری ملازم اپنی ریٹائر منٹ کے دو سال بعد تک کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس میں لہٰذا حیرت کیسی اگر اسلام آباد میں تشویش کی لہر پائی جا رہی تھی۔ مشرف کے حامی دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر عدالت نے مشرف کے خلاف فیصلہ دیا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایمرجنسی لگانے کے لئے فوج کی حمایت ضروری تھی اور اس مرحلے پر، کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کے فوری بعد، غیر سرکاری چہ مگوئیوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ جرنیلوں کی طرف سے مشرف کی خاطر مداخلت بارے تحفظات پائے جاتے تھے۔ انکی طرف سے شائستہ سا بہانہ یہ بنایا گیا کہ وہ اس وقت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ شہروں میں امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے مناسب وسائل نہیں رکھتے۔ بعد ازاں امریکی سفارت خانے کی طرف سے حوصلہ افزائی کے بعد البتہ انہوں نے سوچ تبدیل کر لی۔
عدالتی بحرن میں تھوڑی سی کمی آئی تو ایک اور سنگین مسئلہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ عہدِ حاضر کے زیادہ تر جہادی گروہ پاکستانی اور مغربی خفیہ اداروں کی بد نسلی اولاد ہیں۔ ان کی پیدائش اسّی کی دہائی میں ہوئی جب اقتدار پر جنرل ضیاء کا قبضہ تھا اور وہ افغانستان پر قابض بے دین روسیوں کے خلاف مغرب کی جنگ لڑ رہے تھے۔ تب شروع ہوئی تھی ان جہادی گروہوں کی سرکاری سرپرستی۔ اس سرپرستی سے مستفید ہونے والوں میں ایک مولانا عبداللہ بھی تھے جنہیں سرکاری عمارتوں کے قریب ہی، اسلام آباد کے دل میں، مدرسہ تعمیر کرنے کے لئے زمین الاٹ کی گئی۔ اس زمین میں جلد ہی توسیع کر لی گئی تا کہ لال مسجد میں توسیع کے ساتھ ساتھ ،لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مدرسے تعمیر کئے جا سکیں ۔ اس مقصد کے لئیے سرکاری خزانے سے رقم جاری کی گئی ۔ کاغذوں میںاس جگہ کی ملکیت حکومت کے پاس تھی۔
اسّی اور نوے کی دہائی میں یہ کمپلیکس افغانستان میں بعد ازاں کشمیر جانے والے جہادی نوجوانوں کے لئے ایک عبوری کیمپ بن گیا۔مولانا عبداللہ سعودی فکر کے وہابی اسلام کے پیروکار تھے اور ایران عراق جنگ کے دوران وہ پاکستان میں شیعہ ’کافروں‘ کو ہلاک کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ شیعہ پاکستان کی آبادی کا بیس فیصد ہیں اور ضیاء آمریت سے قبل اہلِ تشیع کی سنی اکثریت سے مخاصمت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ شیعہ مخالف کٹر فرقہ پرست دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کا نتیجہ اکتوبر 1998 ء میں مولانا عبداللہ کے اپنے قتل کی صورت میں نکلا۔ ایک مخالف مسلم گروہ نے ایک روز ان کو اس وقت انکی اپنی ہی مسجد میں ہلاک کر ڈالا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے۔
اس کے بعد مسجد اور مدارس کے معاملات ان کے بیٹوں، عبدالرشید غازی اور عبدالعزیز نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ حکومت نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نمازِ جمعہ کی امامت مولانا عزیز کریں گے۔ ان کے خطبوں میں القاعدہ کی حمایت کی جاتی البتہ گیارہ ستمبر کے بعد مولانا تھوڑا محتاط ہو گئے۔ اعلی سرکاری اور فوجی افسران ان کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرتے۔ لاغر چہرے، ناہموار داڑھی والے نرم گو اور زیادہ تعلیم یافتہ رشید غازی کے ذمے کہانیاں گھڑنے اور ملکی و غیر ملکی صحافیوں کو متاثر کرنے کا کام لگا۔
نومبر 2004 ء کے بعد البتہ جب زبردست امریکی دبائو کے بعد افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی شروع ہوئی تو حکومت اور ان دونوں بھائیوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ مولانا عزیز بالخصوص غصے میں تھے۔ مولانا رشید کے مطابق ،جب ’’پاکستانی فوج کے ایک ریٹائر کرنل نے قبائلی لوگوں کے خلاف فوجی کارروائی کے حوالے سے شرعی نقطہ نظر کے حوالے سے فتوٰی مانگا ‘‘ تو مولانا عزیز نے وقت ضائع کئے بغیر فتوٰی جاری کر دیا کہ مسلم فوج کا اپنے لوگوں کو ہلاک کرنا حرام ہے، ’’اس کارروائی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی نمازِ جنازہ جائز نہیں‘‘ اور’ ’پاکستانی فوج سے لڑتے ہوئے ہلاک ہونے والے جنگجو شہید ہیں‘‘۔یہ فتوٰی جاری ہونے کے چند دنوں بعد ہی پانچ سو سے زائد ’علماء‘ اس فتوے کی سر عام تائید کر چکے تھے۔آئی ایس آئی میں موجود مسجد کے سرپرستوں کے زبر دست دبائو کے باوجود دونوں بھائیوںنے فتوٰی واپس لینے سے انکار کر دیا۔ حکومت کا ردِ عمل حیران کن حد تک ساکت تھا۔ مولانا عزیز سے مسجد کی امامت واپس لے لی گئی اور انکی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہوا مگر گرفتاری عمل میں نہ آئی اور دونوں بھائی بلا روک ٹوک اپنی پرانی ڈگر پر چلتے رہے۔ شائد آئی ا یس آئی کا خیال تھا کہ یہ دونوں ہنوزسود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
1948ء میں قائم ہونے والی آئی ایس آئی افواجِ پاکستان کی تینوں سروسز کے اہل کاروں پر مبنی ایک ادارہ تھا جس کے ذمے معلومات اکٹھی کرنا اورمعلومات کا تجزیہ کرنا تھا جبکہ اس کا فوکس بھارت اور’اشتراکی تخریب ‘ تھی۔اس کے بجٹ اور حجم میں سویت روس کے خلاف پہلی افغان جنگ کے دوران زبردست اضافہ ہو ا۔اس عرصے میں اس نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی خفیہ اداروں کی معیت میں کام کیا ۔ جیسا کہ اس کتاب میں آگے چل کر ذکر آئے گا، آئی ایس آئی نے مجاہدین کو مسلح کرنے اور انہیں تربیت دینے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے علاوہ بعد ازاں طالبان کی کابل میں گھس بیٹھ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ میں جتنی خودمختاری سی آئی اے یا ڈی آئی اے کو حاصل ہے، اتنی ہی خودمختاری کے ساتھ،اعلیٰ عسکری قیادت کی باقاعدہ منظوری سے آئی ایس آئی نے ہر جگہ کارروائیاں کیں۔
ازاں قبل 2004 ء میں حکومت نے دہشت گرد ی کے ایک منصوبے کوناکام بنانے کا دعوٰی کیا ۔ حکومت کے مطابق مجوزہ منصوبے کے تحت چودہ اگست کے دن راولپنڈی میں جی ایچ کیو سمیت اسلام آباد میں کئی سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ مشین گنیں اور دھماکہ خیز مواد عبدالرشید غازی کی گاڑی سے برآمد ہوا۔ دونوں بھائیوں کے خلاف نئے وارنٹ جاری ہوئے اور دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقعے پر جنرل ضیاء الحق کے بیٹے، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ، اعجاز الحق نے اپنے ساتھیوں کو قائل کیا کہ وہ تحریری معافی نامے، جس میں مسلح جدوجہد سے تائب ہونے کا وعدہ کیا جائے، کے عوض دونوں بھائیوں کو معاف کر دیں۔ مولانا رشید کا دعوٰی تھا کہ یہ سارا منصوبہ مغرب کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا تھا اور انہوں نے ایک اخباری مضمون میں وزیر مذہبی امور سے کہا تھا کہ اگر ایسا کوئی معافی نامہ موجود ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔ کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
جنوری 2007 ء میں دونوں بھائیوں نے اپنی توجہ خارجہ امور کی بجائے داخلی امور پر مرکوز کر تے ہوئے فوری طور پر نفاذِ شریعت کا مطالبہ کر دیا۔ اب تک تو وہ مسلم دنیا میں امریکی حکمت ِعملی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت گرانے میں مدد دینے والے،پاکستان میں امریکی پٹھو جنرل مشرف کی مذمت ہی پر قانع تھے۔گو انہوںنے حال ہی میں جنرل مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی سرِ عام حمایت تو نہیں کی تھی لیکن یہ ایک کھلا راز تھا کہ وہ ان حملوں کی ناکامی پر ناخوش تھے۔ جنوری میں انہوں نے جو بیان جاری کیا وہ کھلم کھلا حکومت کو اشتعال دلانے کی کارروائی تھی۔ مولانا عزیز نے اپنا منشور جاری کیا:’ ہم پاکستان میں رقص اور موسیقی کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنہیں ایسی چیزوں میں دلچسپی ہے وہ بھارت چلے جائیں۔ اب ہم مزید انتظار نہیں کریں گے۔ ہمارا نعرہ ہے شریعت یا شہادت‘۔ ناجائز تجاوزات قرار پانے والی دو مساجد گرائے جانے کی وجہ سے دونوں بھائی چوکنے ہو گئے تھے۔ جب ان کو لال مسجد اور لڑکیوں کے مدرسے کا وہ حصہ گرانے کا نوٹس ملا جو سرکاری اراضی پر تعمیر کیا گیا تھا تو انہوں نے کالے برقعوں میں ملبوس درجنوں طالبات کا جلوس روانہ کیا جس نے قریب واقع بچوں کی لائبریری پر قبضہ کر لیا۔ خفیہ والے بظاہر اس کارروائی پر حیران رہ گئے اور جلد ہی مذاکرات کے ذریعے قبضہ چھڑا لیا گیا۔
دونوں بھائی مسلسل حکومت کا امتحان لے رہے تھے۔ لال مسجد میں واقع جنسی تفریق پر مبنی مدارس میں شرتعت نافذ کی گئی : کتبوں، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کو نذر آتش کیا گیا۔ اس کے بعد طالبات کی آتش ِ قہر کا رخ اسلام آباد کے مہنگے چکلوں کی طرف ہو گیا۔ آنٹی شمیم کو نشانہ بنایا گیا جو ایک معروف نائکہ تھی اور نامناسب مقاصد کے لئے ’مناسب‘ لڑکیاں فراہم کرتی تھی۔ اس کے گاہکوں میں معتدل مذہبی رہنمائوں کے علاوہ شہر کے اچھے اور بڑے لوگ بھی شامل تھے۔ آنٹی اس چکلے کو دفتر کی طرح چلاتی تھی: دفتر دفتری اوقات میں کھلتا اور جمعے کے روز، بوقت دوپہر، بند کر دیا جاتا تاکہ گاہک قریبی لال مسجد میں نماز جمعہ ادا کر سکیں۔ اخلاقِ مطہرہ بریگیڈ نے چکلے پر حملہ کیا اور وہاں موجود خواتین کو ’آزاد‘ کروا لیا۔ زیادہ تر خواتین تعلیم یافتہ تھی۔ کچھ بیوہ تھیں تو کچھ مطلقہ۔ سب کی مالی حالت انتہائی پتلی تھی۔ دفتری اوقات ان کے لئے موزوں تھے۔ آنٹی شمیم شہر سے فرار ہو گئی۔ اس کی ملازماؤں نے کہیں اور اسی طرح کی نوکری ڈھونڈھ لی جبکہ مدرسے کی طالبات نے ایک باآسانی حاصل ہونے والی فتح کی خوشی منائی۔ اس کامیابی سے شہ پا کر دونوں بھائیوں نے اسلام آباد کے مہنگے مساج پارلرز کا رخ کیا۔ یہ سب پارلر قحبہ خانے نہیں تھے اور کچھ پارلرز تھے جہاں چینی شہری بطور ملازم کام کرتے تھے۔چھ چینی خواتین کو اغوا کر کے مسجد پہنچا دیا گیا۔ چینی سفیر اس واقعہ پر سخت نالاں ہوئے۔ سفیر نے صدر ہوجن تائو کو مطلع کیا جوسفیر سے بھی زیادہ برہم ہوئے ۔ بیجنگ نے واضح انداز میں کہا کہ وہ اپنے شہریوں کی بلا تاخیر رہائی چاہتا ہے۔ حکومتی معاملہ باز مسجد پہنچے۔ انہوں نے پاک چین تعلقات کی اہمیت کا واسطہ دیا اور ان خواتین کو رہائی مل سکی۔ مساج کرنے والوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ صرف مرد ہی مردوں کو مساج کریں گے۔عزت بہر حال بچ گئی چاہے یہ معاہدہ شریعت کے خلاف سہی کہ شریعت کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزا موت ہے۔ لبرل پریس نے ان بھائیوں کی اس مہم کو پاکستان کی طالبانائزیشن قرار دیا جس سے یہ دونوں بھائی سیخ پا ہوئے۔ رُڈی گیولانی نے بھی تو نیو یارک کا مئیر بننے پر چکلے بند کر دئے تھے‘، مولانا رشید نے کہا: ’کیا وہ بھی طالبانائزیشن تھی؟‘۔ مولانا رشید زندہ ہوتے تونیو یارک کے گورنر، ایلیٹ سپٹزر ، کے ’استعفیٰ‘ کی مکمل حمایت کرتے۔ چینی خواتین کے اغوا پر شرمندہ اور قہر آلود جنرل مشرف نے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں سعودی سفیر ، علی سعید اود اسیری نے مسجد کا دورہ کیا اور دونوں بھائیوں سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی۔ انہوں نے سفیر کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور سفیر کو بتایا کہ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی سعودی قوانین کا اطلاق ہونا چاہئے۔ کیاواقعی سفیر نے رضامندی کا اظہار کیا؟سفیر نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا لہٰذا ان کا جواب ریکارڈ پر نہیں آسکا۔ جب سعوددی سفیر کی صلح کے لئے کوشش رنگ نہ لائی تو پلان بی پر کام شروع ہوا۔ تین جولائی کو رینجرز نے مسجد کی طرف جانے والی سڑک کے گرد خاردار باڑھ لگا نا شروع کی۔ مدرسے کے طالب علموں نے گولی چلا دی جس میں رینجرز کا ایک اہل کار ہلاک ہو گیا اورلگے ہاتھوں قریب ہی موجود وزارتِ ماحولیات کی عمارت کو بھی آگ لگا دی۔ اسی رات سکیورٹی دستوں نے آنسو گیس اور مشین گنوں سے جواب دیا۔ اگلے روز حکومت نے اس علاقے میں کر فیو لگا دیا اور ہفتے بھر کے لئے محاصرہ شروع ہو گیا جس کے مناظر دنیا بھر کے ٹی وی نیٹ ورکس پر دکھائے جانے لگے۔ شہرت کے متمنی مولانا رشید کو یقیناََ اس بات سے مسرت حاصل ہوئی ہو گی۔ان بھائیوں کا خیال تھا کہ عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا کر انکی بچت ہو جائے گی۔کچھ کو البتہ رہا کر دیا گیا جبکہ مولانا عزیز کو برقعے میں فرار ہوتے ہوئے گرفتار کر لیاگیا پھر ہفتے بعد خاموشی سے رہا کر کے اپنے گائوں جانے کی اجازت دیدی گئی۔
دس جولائی کو پیرا ٹروپس نے مسجد کے کمپلیکس پر ہلہ بول دیا۔ مولانا رشید اور سو دیگر ساتھی اس حملے میں مارے گئے ۔ فوجی بھی ہلاک ہوئے جبکہ چالیس سے زائد زخمی ہوئے۔ بے شمار تھانوں پر حملے ہوئے اور قبائلی علاقوں سے شدید احتجاج سامنے آیا۔ طالبان کے معروف حامی مولانا فقیر محمد نے ہزاروں مسلح قبائلیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ہماری اللہ سے دعا ہے کہ مشرف تباہ و برباد ہو جائے۔ ہم لال مسجد میں ہونے والے مظالم کا بدلہ لیں گے‘۔ انہی خیالات کو اسامہ بن لادن نے بھی دہرایا اور مشرف کو ’کافر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مشرف کو ہٹانا ہر مسلمان پر واجب ہے‘۔
ستمبر 2007ء میں میں پاکستان میں تھا جب خود کش حملہ آور مولانا رشید کا بدلہ لینے کے لئے فوجی ٹھکانوں پرحملے کر رہے تھے۔آئی ایس آئی کے ملازمین کو لے جانے والی ایک بس بھی ایسے ہی ایک حملے کا نشانہ بنی۔ باقی ملک میں البتہ رد عمل ساکت ہی رہا۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے، جس کی سرحد میں حکومت اور بلوچستان کی مخلوط حکومت میں حصہ تھا، کچھ گھناؤنے بیانات جاری کئے مگر عملََا کچھ نہیںکیا۔اگلے روز صوبائی دارلحکومت پشاور میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں فقط ایک ہزار لوگ شریک ہوئے۔ یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا اور یہاں بھی زیادہ جوش و خروش نہیں تھا۔شہیدوں کو کسی اعلیٰ و ارفع رتبے پر فائز نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کی بحالی کے لئے جاری تحریک سے فرق بالکل واضح تھا۔ تین ہفتے بعد پنجاب کے شہر قصور میں ایک لاکھ سے زائد لو گ17 ویں صدی کے معر وف شاعر بابا بلّھے شاہ کا 250 واں عرس منانے جمع ہوئے جس کا تعلق صوفیوں کی معروف لڑی سے تھا ۔ بابا بلّھے شاہ نے ہر قسم کے کٹر پن سے پرہیز کیا، تشکیک کو فروغ دیا اور منظم مذہب کی مخالفت کی۔ بلّھے شاہ کے نزدیک ملاّبھونکتا ہوا کتا اور کائیں کائیں کرتا ہوا کوّا ہے۔ جب کسی اہل ایمان نے بلّھے کے مسلک بارے پوچھا تو بلّھے نے جواب دیا:
بلھیا کیہ جاناں میں کون؟
نہ میں مومن وچ مسییتاں
نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میںپاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ نہ فرعون
یہ اور ایسی بہت سی نظموں کا پاکستان بھرمیں پڑھا اور گایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے اکثر حصوں میں جہادی مقبول نہیں ہیں۔ حکومت بھی مقبول نہیں ہے۔لال مسجد نے ایسے بہت سے سوالوں کو جنم دیا جن کا ہنوز جواب نہیں مل سکا۔حکومت نے جنوری میں کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا کہ جب دھرم وادی دستوں نے چھاپے مارنا شروع کئے تھے؟ ملائوں نے حکومت کی توجہ حاصل کئے بغیر اتنا ززیادہ اسلحہ کیسے جمع کر لیا؟ کیا آئی ایس آئی کو معلوم تھا کہ مسجد میں اس قدر اسلحہ موجود تھا؟ اگر ایسا تھا تو وہ خاموش کیوں رہے؟ مولانا عزیز کو رہائی دے کر خاموشی سے اپنے گائوں لوٹ جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟
میں سوچ رہا تھا کہ کیا مجھے ان سوالوں کے جواب صوبہ سرحد کے دارلحکومت،درہ خیبر اور افغان سرحد کے قریب واقع پشاور میں مل سکیں گے۔ ربع صدی ہوئی ، میں اس شہر نہیں جا سکا۔ اسّی کی دہائی کے بعد ، جب یہ شہر سویت مخالف جہاد کا مرکز بنا اور یہاں کے گورنر اور ضیاء کے قریبی ساتھی نے ہیروئن کے کاروبار کی پشت پناہی کی،تب سے میں اس شہر نہیں جا سکا ۔1973 ء میں جب میں پشاور گیا تو میں بغیر پاسپورٹ کے افغانستان سے ہو کر آیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا یہ اب بھی ممکن ہے۔ اپنی اس کامیابی پر مسرور میں بذریعہ بس راولپنڈی پہنچا۔ اٹک کے پاس دریائے سندھ پار کرتے ہوئے شام ڈھلنے لگی۔ مجھے و ہ ڈھلتی ہوئی سرخ شام آج بھی یاد ہے جس کی دھوپ نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔
دریا کا پرانا پُل ہمیشہ ہی بچپن اور جوانی کی یادیںتازہ کر دیتا ہے۔طغیانی میں آئی موجِ دریا کا نظارہ کرتے ہوئے انسان کا ذہن تاریخ میں کھو جاتا ہے جو سکندر سے بھی قبل یورپ اور وسطی ایشیا سے متواتر آنے والے فاتحین کی جنوب کی طرف پیش قدمی کی گواہ ہے۔ عارضی پُلوں سے گزرتے ہوئے کتنے سپاہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوںگے؟ یہاں سے ذرا اوپر،جہاں دریائے کابل پُر شور انداز میں اپنے زیادہ مشہور بھائی کے ساتھ شامل ہوتا ہے ، وہاںمغل شہنشاہ اکبر نے ایک بہت بڑاقلعہ تعمیر کروایا تھا۔یہ قلعہ ایسے دستوں کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا جن کے ذمے حملہ آوروں کو روکنا، مقامی بغاوتوں کو کچلنا اور بلا شبہ تاجروں سے ٹیکس وصول کرنا تھا۔
چونتیس سال بعد اسلام آباد سے کار کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اس پُل سے گزرا تو اپنے جوش و خروش پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ اوپر قلعے پر اور نیچے دریا پرایک نظر ڈالنے کے لئے میں نے گاڑی روک دی۔ یہ قلعہ اب سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والا بدنام بندی خانہ ہے اور اسے صرف فوجی حکومتیں ہی عقوبت خانے کے طور پر استعمال نہیں کرتیں۔قلعے کے عین نیچے ابھری ہوئی جو دو چٹانیں ہوتی تھیں، باوجود کوشش کے نظر نہیں آئیں۔ کہاں گئیں؟شائد وہ اس پرانے پُل سے ہی نظر آتی تھیں جو انیسویں صدی میں بنایا گیا تھا ۔ وکٹورین انجینئرنگ کا شاہکار، وہ پرانا پُل مغل عہد کی عمارات کے کھنڈرات سے گھرا ہوا تھا ۔ ان کھنڈروں میں ایک پرانا کتبہ بھی تھا جس پر ’ طوائف کی آرام گاہ‘کندہ تھا(یہ سزا ایک ملکہ نے اپنے شوہر کی پسندیدہ داشتہ کو دی تھی)جو بچپن میں ہم بچوں کو کھلکھلانے پر مجبور کر دیتا۔
دو چٹانیں کمال الدین اور جمال الدین نامی دو بھائیوں سے منسوب تھیں جنہیں مغل اعظم نے کنویں میں الٹا لٹکوا دیا تھا۔اختلافِ رائے کے حوالے سے اکبر کی برداشت بارے اکثر مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب یورپ میں کیتھولک انکوئزیشن نے دہشت مچا رکھی تھی، اس وقت اکبر نے فرمان جاری کیا ’’انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق مذہب بدل سکتا ہے‘‘۔آگرہ میں اکبر نے جو مذہبی مناظرے منعقد کئے ان میں ہندو، مسلم، عیسائی، پارسی، جینی، یہودی اور چاروک مکتبہ ء فکر سے تعلق رکھنے والے تشکیکی بھی شامل ہوتے جن کا کہنا تھا کہ برہمنوں نے صرف اپنے ’’روٹی روزگار ‘‘ کی خاطر مرنے والوں کے لئے رسمیں بنا رکھی ہیں ۔
جب اکبر کی حکوت کو خطرہ درپیش ہوتا تو وہ اپنے ہی جاری کردہ قوانین کی خلاف ورزی بھی کرتا لہٰذا وزیرستان کے باغی پشتونوں اور ان کے فلسفے سے اس کی ناراضی سمجھ میں آتی ہے۔ ان دونوںبھائیوں کا تعلق سولہویں صدی کے مسلم فرقے روشنائی سے تھا ۔ اس فرقے کی بنیاد ان کے والد پیر روشن نے رکھی تھی۔ یہ لوگ ہر الہامی مذہب ، نتیجتاً قرآن، کے منکر تھے۔ وہ بادشاہوں اور پیغمبروں کو وسیلہ ماننے کے قائل نہ تھے۔ خالق تو واحد ہے اور ہر انسان کو ذاتی حیثیت میں اس سے رشتہ جوڑناہے1۔ مذہب اللہ اور بندے کے مابین فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔
اکبر مختلف مذاہب کے اشتراک سے ایک نیا نذہب تشکیل دینے میں مصروف تھا جس کا مقصد مختلف دھرموں اورطبقوں میں خلیج کو ختم کرتے ہوئے بھارت کو متحد کرنا تھا۔ روشنائیوں پر جبر کی وجہ کوئی نظریاتی مخاصمت نہ تھی۔ان کی تعلیمات اس علاقے کے کسانوں میں مقبول تھیں اور زندگی بارے ان کا رویہ عموماََمرکزی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا جواز بنتا تھا۔ فوجی اور تجارتی مرکز کے طور پر پشاور شہر کی بنیاد رکھنے والے مغل بادشاہ کے لئے یہ ناقابلِ برداشت تھا۔
تیس لاکھ کی آبادی کا شہر پشاور پچھلے پچیس سالوں میںتین گنا بڑھ گیا ہے۔اس کے مکینوں کی بڑی تعداد مہاجروں کی وہ تین نسلیں ہیں جوبیسویں اور اکیسویں صدی میں بڑی طاقتوں(امریکہ اور روس) کی شروع کی ہوئی باہم متصل تین جنگوں کے نتیجے میں یہاں آباد ہیں۔ برطانوی راج نے جو کلونیل شہر آباد کیا وہ کنٹونمنٹ کی طرز پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد برطانوی ہند کی شمال مغربی سرحد کو زارِ روس اور بالشویکوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے فوجی دستوں کا قیام و طعام تھا۔شہر کا یہ کردار نہ صرف آج بھی باقی ہے بلکہ اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہو گیا ہے۔
پشاور گو آج بھی سرحدی شہر ہے مگر صورتحال ہر گز وہ نہیں ہے جو نیو یارک ٹائمز نے اپنی 8جنوری 2008ء کی اشاعت میں پیش کی ہے کہ ’’صدیوں سے لا قانونیت اور بد امنی شہر کی زندگی کا حصہ ہے‘‘۔ پشاور بارے یہ سوچ سلطنتِ برطانیہ کے ثناء خواں رُڈیارڈ کپلنگ کی ان تحریروں کی عکاس ہے جنہیں غلط طور پر تاریخ سمجھ کر پڑھا جاتا ہے۔ لاہور سے شائع ہونے والے سول اینڈ ملٹری گزٹ کی 28مارچ 1885ء کی اشاعت میں کپلنگ کا اایک مراسلہ شائع ہوا جو اس نے پشاور سے بھیجاجسے اس نے ایک ’’بھیانک صورت شہر ‘‘قرار دیا۔ اس مراسلے میں برطانوی موجودگی بارے پائی جانے والی نفرت کا اظہار یوں کیا گیا ہے:
مٹھائی فروشوں اور گھی فروشوں کی دکانوں کے سامنے ، ان دکانوں کی روشنی میں بد ترین الفاظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کتوں، خنزیروں، نیولوں، اور بکریوں کے چہرے اور بھی بھیانک ہو جاتے ہیں جب وہ انسانی جسم پر سجے ہوں ، انسانی ذہانت سے منور ہوں، لالٹین کی روشنائی میں بیٹھے ہوں، جہاں متواتر آدھ گھنٹہ ان کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ پٹھان، آفریدی، لوگا، کوہستانی، ترکمان، اور سرکش پٹھان نسل کی دیگر سینکڑوں شاخیں کسی انسانی وحوش خانے کی طرح گیٹ سے لیکر غور کٹری تک پھیلی نظر آئیں گی۔ اگر کوئی انگریز یہاں سے گزرے گا تو یہ اس پر تیوری چڑھائیں گے اور اکثر اس کے گزر جانے کے بعد زمیں پر بار بار تھوکیں گے۔ موٹی توند والا ایک بدمعاش، جس کا سر منڈا ہوا ہے اور گردن پر چربی کی تہیں لگی ہوئی ہیں، یہ مذہبی فریضہ سر انجام دینے میں بالخصوص پُر جوش ہے۔ وہ تھوک پھینکنے کی رسمی کارروائی پر اکتفا نہیں کرتا، وہ بلغم والی تھوک پھینکتا ہے جو اس کے ساتھیوں کے لئے تو کوئی خوشگوار تجربہ ہو گا مگر کسی یورپی کے لئے نتہائی کریہہ ، سَر۔۔۔۔ایسے لیکن ہزاروں ہیں۔مرکزی سڑک زبردست قسم کے لفنگوں اور خوبصورت بدمعاشوں سے بھری ہوتی ہے ۔ سب کسی دیکھنے والے کو یوں نظر آئیں گے گویا وحشی جانور ہیں جنہیں قتل اور تشدد سے روکنے کے لئے باندھ دیا گیا ہو اور اس روک کے خلاف وہ پیچ و تاب کھا رہے ہوں۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں یہاں زیادہ گڑ بڑ نہیں پائی جاتی تھی ماسوائے دورانِ جنگ۔ گو آزادی خواہ قومی رجحان کو دبانے اور ناکام بنانے کے لئے برطانیہ نے فوجی راج نافذ کر رکھا تھا اور معمولی باتوں پر کڑی سزائیں دی جاتی تھیں مگر بیسویں صدی میں یہاں چلنے والی سب سے بڑی تحریک بالخصوص پر امن تھی۔1930 ء کی دہائی میں چارسدہ کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں، غفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب نے برطانیہ کے خلاف عدم تشدد پر مبنی تحریک شروع کی۔ ُسرخ پوش تحریک (یہ نام اس تحریک کے کارکنوں کی سرخ قمیصوں کی وجہ سے دیا گیا نہ کہ کسی نظریاتی بنیاد پر۔ یہ رضاکار گاندھی سے متاثر تھے ، لینن سے نہیں)کے نام سے مشہور ہونے والی یہ تحریک جلد ہی پو رے خطے میں پھیل گئی۔ غفار خان ور ان کے رضاکار کسانوں کو راج کے خلاف منظم کرنے گائوں گائوں پہنچے اور جلد ہی دور دراز دیہاتوں میں بھی تحریک کی شاخیں قائم ہو گئیں۔
اس تنظیم کی مقبولیت سے گھبرا کر راج نے فیصلہ کیا کہ ’’برائی کا جڑ سے ہی خاتمہ‘‘ کر دیا جائے۔ اس کا نتیجہ 1930ء میں قصہ خوانی بازار کے قتلِ عام کی صورت میں نکلا جب ہزار کے لگ بھگ سرخ پوش کانگریسی رہنمائوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع تھے کہ انہیں بتایا گیا کانگریسی رہنمائوں کے صوبہ سرحد میں داخلے پر پابندی ہے۔ کانگریس نے ایک جلسہ کیا اور انگریز ملکیت میں چلنے والی دکانوں کے مقاطعے کا تقاضا کیا۔ گورنر نے غفار خان اور بعض دیگر کی دفعہ 144کے تحت گرفتاری کے احکامات جاری کئے جس کے تحت چار سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر جمع نہیں ہو سکتے اور جنوبی ایشیا میںآج بھی یہ دفعہ اکثر زیرِ استعمال رہتی ہے۔مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کر دیا ، فوجی دستوں نے گولی چلا دی، دو سو کارکن ہلاک ہو گئے۔ مزید لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انکی بڑی تعداد نے دستوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ چار دن تک پشاور اہلِ پشاور کے زیرِ انتطام پر امن انداز میں چلتا رہا تا آنکہ مزید برطانوی دستے کمک کے طور پر شہر میں آن پہنچے۔ قتلِ عام اور اس کے عواقب بارے ایک انگریز افسر سر ہربرٹ تھامسن کی رائے یہ تھی کہ یہ عین وہی بات تھی گویا ’ایک بچہ اپنی ہی شرارت سے گھبرا کر اپنی آیا کی محفوظ گود میں چلا آئے‘۔1
پولیس کے جاسوسوں اور ایجنٹوں کے بھر پور استعمال کے باوجود انگریز سرکار غفار خان اور ان کے حامیوں بارے ایک بھی ثبوت سامنے نہ لا سکی اس کے باوجود سرخ پوش تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں، ان کو ہراساں کرنے کا عمل اور ان سے بد سلوکی جاری رہی۔ قصہ خوانی بازار کے واقعہ کی وجہ سے سرخ پوش تحریک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ غفار خان مسلمان تھے اور اس کے باوجود ایک متحدہ سیکولر ہندوستان پر یقین رکھتے تھے لہٰذا مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کی نظر میں آگئے۔
سرخ پوش تحریک نے کانگرس سے الحاق کی درخواست دی اور یہ درخواست منظور کر لی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کانگرس کا اس صوبے میں وجودقائم ہو گیا اور یوں 1937ء کے بعد ہونے والا ہر انتخاب یہ جماعت با آسانی جیت گئی۔ نہرو نے بعد ازاں اپنی سوانح عمری میں لکھا:
یہ حیران کن بات تھی کہ اس پٹھان نے کس طرح عدم تشدد کا نظریہ قبو ل کر لیا بالخصوص نظرئیے کے طور پر وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی نسبت اس کے زیادہ قائل تھے اور چونکہ وہ عدم تشدد کے قائل تھے لہٰذا انہوں نے اپنے لوگوں کو بھی قائل کر لیا کہ کس طرح ہر اشتعال انگیزی کے باوجود پُر امن رہنا ہے۔ 1930……ء اور اس کے بعد جس خُود تنظیمی کا مظاہرہ سرحد کے لوگوں نے کیا وہ حیران کن تھا۔
مسلم اکثریت والایہ صوبہ تصورِ پاکستان اور مسلم لیگ سے بیگانہ ہی رہا گو بعد ازاں مسلم لیگ نے سامراجی نوکر شاہی ، پولیس اور دھونس دھاندلی کے امتزاج سے اس صوبے میں پیر جما لئے۔ ہندو مسلم تقسیم کو انگریز سرکار پورے انہماک کے ساتھ پروان چڑھاتی رہی تھی لہٰذا وہ تذبذب کا شکار تھی اوراسے سرخ پوشوں پر خوب تائو آ رہا تھا۔ انگریز دور کے ایک اور سرکاری افسر َسر اولف قاروئی نے اپنی کتاب میں اس بابت عارفانہ رجعت پسندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ پشتون(نوآبادیاتی اصطلاح میں پٹھان)قوم بارے قاروئی کی رقم کردہ تاریخ عمومی طور پر دلچسپ ہے مگر جا بجا ایسی ندرتیں بھی ملیں گی:’یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پٹھان روایت نے کس طرح ہندو قیادت سے اتنا لمبا عرصہ نبھاہ کر لیا کہ بہت سے لوگ ہندو کو ظاہر دار، منافق اور دو رُخا سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ایسے میں اِس نے کس طرح ایک ایسی جماعت سے تعلق قائم کر لیا جو بھارتی بلکہ برہمن قیادت میں چل رہی تھی‘۔ انہی خطوط پر ایسی کئی حماقتیں اس کتاب میں موجود ہیں۔ جو پشتون انگریز کی مرضی پر چلنے کو تیار نہ تھے ان سے سختی کے ساتھ نپٹا گیا۔
ایک امریکی صحافی اس تنازعے کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے گاندھی کا انٹرویو کیا۔ گاندھی سے اس نے پوچھا:’مغربی تہذیب بارے آپ کا کیا خیال ہے‘؟ بوڑھے لومڑ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:’خیال تو اچھا ہے‘۔ یہ جواب دیتے ہوئے گاندھی کے ذہن میں پشتونوں کے ساتھ ہونے والا سلوک نمایاں تھا۔ برطانوی ایجنٹ قبائل کو ساتھ ملانے کے لئے رشوت دیتے جبکہ پراپیگنڈہ باز یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے کہ غفار خان ، جو ویسے ایک پاکباز مسلمان تھے، خفیہ برہمن ہے۔ کانگرس رہنمائوں کی اس صوبے میں داخلے پر پابندی تھی مگر برطانوی نواز مسلم لیگ کے لئے تمام دروازے کھلے تھے۔ برطانوی راج کی اس فیاضی کے باوجود پشتونوں کی اکثریت اگر قائل نہ ہو سکی تو اس سے غفار خان کی تحریک کے اثر و رُسوخ کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ان کے عدم تشدد اور متحدہ آزاد ہندوستان کے نظریات کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ کئی دہائیوں کے تشدد اور رشوت ستانی (یہ عمل پاکستان بن جانے کے بعد بھی جاری رہا) کے نتیجے میں ان نظریات کو اس دھرتی سے اکھاڑا جا سکا مگر گمبھیر نتائج کے ساتھ۔
یہ سا مراجی مفروضہ کہ پٹھان ’عالی ظرف وحشی‘ اور ’بچگانہ ‘ ہوتا ہے، نو آبادیاتی ادب میں نمایاں ہے ۔ ِکپلنگ کے افسانے اور مغلوب ہم جنس پرستانہ جذبات پر مبنی اِس کا ناول ’ کِم‘ میں بھی ایسا ہی ہے۔ خود ہی اس بات کا قا ئل ہو جانے کے بعد کہ یہ قدیم جنگجو قبائل کسی منطقی سوچ کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور انہیں مسلسل مدد کی ضرورت ہے ، انگریز سرکار بہت حیران ہوئی جب پٹھان عدم تشدد کے راستے پر چل پڑے۔ استعمار ی تاریخ دانی میں تو پٹھان اور تشدد لازم و ملزوم تھے۔
پشاور میں آج جو کشیدگی اور متشدد رجحانات دکھائی دیتے ہیں ، ان کا تعلق گذشتہ چندصدیوں سے کم اور پڑوسی ملک افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سے زیادہ ہے۔اس جنگ کے پاکستان، چین، امریکہ اور یورپی یونین پرا ثرات بارے اگلے ایک باب میں بات ہو گی۔ پاکستان کا صوبہ سرحد واحد صوبہ ہے جس کا نام جغرافیائی بنیاد پر رکھا گیا ہے اور یوں اسے اس کے پشتون نسلی تشخص سے محروم رکھا گیا ہے۔اکتوبر 2002 ء سے یہاں جے یو آئی، جماعت اسلامی اور چار دیگر چھوٹے مذہبی گروہوں کے اتحاد پر مبنی ایم ایم اے کی حکومت تھی مگر 2008 ء کے انتخابات میں اس اتحاد کو زبر دست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گو ایک وقت پر مذہبی جماعتوں کا صوبہ سرحد پر غلبہ رہا ہے مگر 2002 ء میں بھی قومی سطح پر مذہبی جماعتوں کا ووٹ پندرہ فیصد تھا جو اب تک ان کی بہترین کارکردگی تھی اور یوں بذریعہ بیلٹ وہ قومی سطح پر اقتدارحاصل کرنے کی منزل سے کوسوں دور تھے۔ جماعت اور جمعیت اپنے کردار کے حوالے سے ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ جماعت مذہب کی تشریح کرنے میں زیادہ رجعت پسند ہے۔ جماعت کی بنیاد قراردادِ پاکستان اور مسلم لیگ کے جواب میں لاہورشہر میں 1941ء میں رکھی گئی۔ اس کے بانی مولانا مودودی (1903-79) کی نظر میں جماعت ’متبادل لیگ ‘ تھی۔بطور مذہبی عالم مولانا مودودی کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور سعودی عرب کے وہابیوں سے ان کے تعلقات قیامِ پاکستان سے قبل ہی سے موجود تھے۔ جمعیت کی بنیادیں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں موجود تھیں۔ اس کے رہنما مولانا مفتی محمود (1919-80) ہوشیار سیاسی کارندے تھے جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے سیکولر قوم پرستوں سے بھی اتحاد کر سکتے تھے۔ جمعیت کی جڑیں مدرسہ دیو بند میں پائی جاتی ہیں جو قبل از تقسیم ہندوستان میں کٹر سنی عقائد کا گڑھ تھا۔ دونوں جماعتوں کی نظر میں قیام ِ پاکستان ’اسلام کے آفاقی ‘ اصولوں کے خلاف سیکولرر قوم پرست سازش تھی۔
جماعتِ اسلامی غالباََ ملک کی منظم ترین سیاسی جماعت ہے۔ اس کا اندرونی ڈھانچہ کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر تشکیل دیا گیا تھا اور ہر اہم شہر میں اس کا سیل آج بھی موجود ہے۔ جمعیت اس کے برعکس سرحدی صوبوں تک محدود ایک روایتی جماعت ہے جس کا ڈھانچہ قرابت داری پر انحصار کرتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران ، سعودی تعلقات کی بنیاد پر جماعت پوری طرح مغرب سے منسلک تھی۔ اس کے بر عکس جمعیت پاکستان میں موجود سویت نواز گروہوں سے محبت جتلاتی تھی۔ آج دونوں واشنگٹن دشمن ہونے کا دعوٰی کرتی ہیں مگر یہ اختلافات مقامی اورحکمت عملی پر اختلاف کے حوالے سے ہیں۔ دونوں جماعتیں واشنگٹن سے کسی سنجیدہ سودے بازی پر تیار ہو سکتی ہیں ۔ دونوں مصر کی اخوان المسلمین کی طرح ترکی کے امورِ سلطنت چلانے والے ناٹو نواز ترک اسلام پسندوں کو آئندہ کسی ممکنہ سودے بازی کے حوالے سے اپنا ماڈل سمجھتی ہیں۔ یہ رائے کہ دونوں جماعتیں نظام ِ خلافت لاگو کرنے پر تلی ہوئی ہیں، خیال ِ خام ہے۔ معاشی و سماجی میدان میں کسی بھی قسم کی خود مختاری سے محروم ہونے کے باعث ان جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی اسلامی ساکھ قائم رکھنے کے لئے نفاذ شریعت کی مہم چلائی جائے۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی (جہاں قیام پاکستان کے وقت سے ہی لڑکیوں لڑکوں کے اختلاط پر زیادہ سختی نہیں رہی)ایسے مخلوط تعلیم کے اداروں کو نشانہ بنایا، ویڈیو شاپس کو دھمکیاں دیں، خواتین کی تصاویر والے اشتہاری بِل بورڈز پر سیاہ پینٹ کیا، وغیرہ وغیرہ۔
چند سال پہلے سی این بی سی (پاکستان) پر جماعت ِ اسلامی کے ایک نظریہ دان کے ساتھ گھنٹہ بھر کے مباحثے میں میں نے موصوف سے پوچھا کہ وہ خواتین کے پیچھے ہی کیوں پڑے رہتے ہیں۔ان کو ان کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ ان کے عکس مٹانے کی یہ کوشش کیوں ؟ان صاحب کا جواب سنا تو ستر کی دہائی سے تعلق رکھنے والی ایک ترقی پسند فیمن اسٹ کا جواب یاد آیا(ان دنوں سیکس پارلرز اور پورنو گرافی کے خلاف تحریک کا رواج تھا) : ’ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ عورت کو جنسی کھلونا بنا دیا جائے۔ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟‘ میں نے اقرار کیا کہ یقینا میں بھی ایسا نہیں چاہتا مگر ان کی تصویروں کو کالا کر دینا تو مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ پھر یہ کہ مردوں بارے کیا خیال ہے؟ میں نے شائستگی سے پوچھا۔ کیا وہ بھی جنسی کھلونا نہیں ہیں؟ اس موقعے پر مذاکرے کے میزبان نے محفوظ مقام میں پناہ تلاش کی۔ میزبان کا خیال تھا میںہم جنس پرستی کا حوالہ دے رہا ہوں، قرآن میں اس کی ممانعت ہے ، جو ملک بھر میں پائی جاتی ہے اور صوبہ سرحد میں اس کی جڑیں خاصی گہری ہیں ۔ بعض لوگ صوبہ سرحد میں اس ہم جنس پرستی کا رشتہ سکندر اعظم کے حملے کے بعد یہاں مقیم ہو جانے والے یونانیوں سے جوڑتے ہیں۔اس ہم جنس پرستی کی کچھ دنیاوی وجوہات اور بھی ہیں۔بہر حال میں محض ہم جنس پرستی کی بات نہیں کر رہا تھا ۔ میرے پیشِ نظر یہ بات بھی تھی کہ عورتوں کے لئے مردبطور جنسی کھلونے بارے کیا خیال ہے؟ اسے کیوں برداشت کیا جائے۔؟ میں ایم ایم اے کی کامیابی کے بعد جنسی ویڈیوز اور پُورن کے پھیلائو بارے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر مذاکرے کا وقت ختم ہو گیا۔
روایتی سیاست سے بیزاری نے اخلاقی خلاء پیدا کر دیا ہے ۔ اس خلا کو پورنوگرافی اور مختلف نوعیت کی مذہب پرستی پُر کر رہی ہے۔ بعض مقامات پر پورنو گرافی اور مذہب پرستی ہم رکاب ہیں: مذہبی جماعتوں کے گڑھ پشاور اور کوئٹہ میں جنسی فلمیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ طالبان رہنما ویڈیو دکانوں کو نشانہ بناتے ہیں مگر ویڈیو ڈیلر زیرِ زمین چلے جاتے ہیں۔پاکستان میںیہ تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعت ہے، جس میں مقامی مرد اور عورتیں ملوث ہیں۔ یہ ملک جنسی محرومی میں مبتلا ہے۔
صوبہ سرحد کے حالات پر بات کرنے کے لئے میں مقامی دانشوروں، صحافیوں ، سیکولر اور قوم پرست سیاستدانوں کے ایک گروہ سے ملا۔ ان میں سے کچھ پرانی سرخ پوش روایت کے وارث تھے، چاہے اب سرخ لباد ہ کسی حد تک د اغدار ہو چکا ہے۔غفار خان کی اولاد بھی اسی بیماری کا شکار ہو چکی ہے جو روایتی پاکستانی سیاست کا روگ ہے یعنی اصول اور پروگرام نہ ہونے کے باعث، پارٹی (عوامی نیشنل پارٹی ۔ اے این پی) مفادات کے لئے فوج اور مسلم لیگ سے سودے بازی۔ ہماری ملاقات غفار خان سنٹر میں ہوئی۔یہ پارٹی ہیڈ کوارٹر بھی ہے ، کتب خانہ بھی اور ملاقاتوں کی جگہ بھی۔ بحث کا موضوع ایم ایم اے، طالبان اور افغانستان پر امریکی ناٹو قبضہ تھا۔ یہاں یہ نقطۂ نظر پایا جا رہا تھا کہ ایم ایم اے کی جیت ایک تو فوج کی پشت پناہی کے کارن ممکن ہو سکی تھی اور دوسرا انہوں نے کتاب کے لئے ووٹ کو قرآن کے لئے ووٹ کے مترادف قرار دیا۔ یہ بات کسی حد تک تو درست تھی مگر اس تجزیئے میں اے این پی کی اس داغدار کارکردگی کا ذکر شامل نہ تھا جو اسے نے گذشتہ دورِ حکومت میں دکھائی تھی۔ حالات و واقعات کی روشنی میں اس بات کی سمجھ تو آتی ہے لیکن اے این پی کو اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کارکردگی کا جائزہ لینا ہو گا۔ یہ اس علاقے کی واحد سیکولر قوت ہے جس کے پاس کچھ ایسا کیڈر موجود ہے جو حالات کی تصویر ایک وسیع تناظر میں دیکھ سکتا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ انہیں ایک حکمتِ عملی کی ضرورت ہے،سیاسی قلابازیاں اور مؤقف کی بار بار تبدیلی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پارٹی پروگرام ۔۔۔۔سماجی انصاف، زرعی اصلاحات وغیرہ۔۔۔۔میں تو خاص تبدیلی نہیں آئی مگر عملاََ اس پروگرام سے اجنبیت نے ترش روئی کو جنم دیا۔مزید یہ کہ پارٹی نے سامراج مخالف بات کرنا چھوڑ کر بھٹو خاندان کی پیپلز پارٹی کی طرح امریکہ کی خطے میں دیر پا موجودگی سے یہ امید وابستہ کر لی ہے کہ اس طرح اسے اپنے مذہبی مخالفین سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
صوبہ سرحد کو درپیش بعض مسائل کا تعلق پڑوسی ملک افغانستان سے ہے۔ اے این پی کے ذہین ترین رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ اس خطے کی تاریخ میں بد ترین عہد ضیاء آمریت کے ساتھ شرع ہوا جب ملک میں ہیرویٔن، مغربی و موساد ایجنٹوں، اسلحے اور دولت کی بھرمار اور یلغار ہوئی تاکہ افغانستان میں موجود سویت فوجوں کو شکست دی جا سکے۔یہ درست ہے مگر اے این پی کے بعض مرکزی رہنمائوں نے بشمول اجمل خٹک کھل کر سویت مداخلت کی حمایت کی اور اس دوران افغانستان میں رہائش اختیار کر لی۔آہ! پاکستان میں بایاں بازو قرار دئے جانے والے حلقوں کی اکثریت اس مداخلت کی حامی تھی۔ 2001 ء میں امریکی اور ناٹوقبضے کی حمایت کرنے والے بعض معروف پاکستانی تجزیہ نگاروں نے 1979ء میں بھی اسی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا جب سویت دستوں نے آمو دریا پار کرتے ہوئے جنوب کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔
ناٹو کی ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ طالبان بھی لوٹ آئے ہیں اور ہیرویٔن کی تجارت بھی، یوں شمال مغربی پاکستان غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ امریکی ڈرون طیاروں کی بلا امتیاز بمباری کا نتیجہ بے شمار معصوم جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلا ہے جبکہ اس خطے میں بدلے کا رواج آج بھی عام ہے۔ناٹو کے ہاتھوں قائم ہونے والی کرزئی حکومت کا طرہ امتیاز بد عنوانی اور اقرباء پروری ہے جو سرطان کی طرح پھیل چکی ہے اور عام افغان جو اچھے وقت کی امید میں ملا عمر کی رخصتی پر خوش تھا، لا تعلق ہو چکا ہے۔ عام افغان نے اچھے وقت کی بجائے زمین پر ناجائز قبضے اور کرزئی کے حامیوں کی بڑی بڑی کوٹھیاں تعمیر ہوتے ہی دیکھی ہیں۔ مغرب سے آنے والی امداد سے مقامی تقسیم کاروں کی کوٹھیاں ہی تعمیر ہو سکی ہیں۔ امریکی قبضے کے دو سال بعد ناجائز قبضوں کے حوالے سے ایک زبر دست سکینڈل سامنے آیا تھا۔ وزراء نے اپنے اور اپنے حامیوں کے نام دارلحکومت کابل کے علاقوں میں اراضی الاٹ کرا لی جہاںامریکی قبضے کے بعد زمین کے نرخ آسمان کو چھو رہے تھے کہ قابضین اوران کے حواری اسی انداز میں رہنا چاہتے تھے جس کے وہ عادی ہو چکے تھے۔ غریبوں کی آنکھوں کے سامنے کرزئی کے ساتھیوں نے بڑی بڑی کوٹھیاں بنائیں جن کی حفاظت پر ناٹو کے دستے معمور تھے۔
برطانیہ کی مسلط کردہ ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے تمام قبائل نے تسلیم نہیں کیالہٰذا جب ناٹو مخالف جنگجو پاکستان کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں آ جاتے ہیں تو انہیں اسلام آباد کے حوالے نہیں کیا جاتا ۔ ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے تا آنکہ وہ واپس چلے جائیں یا القاعدہ رہنمائوں کی طرح ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ جنوبی وزیرستان میں ہونے والی لڑائی عموماََاسی کارن ہے۔واشنگٹن مزید لاشیں دیکھنے کا متمنی ہے جبکہ قبائلی رہنمائوں سے مشرف کے معاہدوں کو گویا طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔امریکیوں کو اس پر سخت غصہ اس لئے بھی آ رہا ہے کہ پاکستان کی فوجی کارروائیوں کا خرچہ براہ راست سینٹ کام برداشت کر رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان کے پیسے کی صحیح قیمت نہیں لگ رہی۔ گیارہ ستمبر کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں حصہ دار بننے پر پاکستان کو ملنے والے دس ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ملٹری انٹیلی جنس میں بعض عناصر کا خیال ہے کہ ’ آپریشن انڈیورنگ فریڈم‘ ختم ہونے کے بعد وہ افغانستان پر دوبارہ قبضہ کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ بعض جنگجو رہنمائوں کے ساتھ تعلق ختم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا تو یہ بھی خیال ہے کہ آخر کار امریکہ خود ایسے کسی اقدام کی حمایت کرے گا۔ یہ بات تو اب سب کو معلوم ہے کہ کرزئی نے طالبان سے رابطے کئے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ بات آگے بڑھ پائے گی کہ خطے میں بعض دیگر قوتیں بھی متحرک ہیں۔ ہرات اور مغربی افغانستان میں ایران کا کافی اثر پایا جاتا ہے۔ شمالی اتحاد کو روس سے اسلحہ ملتا ہے۔ بھارت اس خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ واحد دیرپا حل افغان استحکام کیلئے علاقائی قوتوں کی طرف سے ضمانت اور ناٹو افواج کی واپسی کے بعد قومی حکومت کا قیام ہے۔ اگر امریکہ طالبان کے کسی دُھل کر آئے ہوئے دھڑے سے معاملہ کر بھی لے تو باقی قوتیں نہیں مانیں گی اور یوں ایک نیا تنازع شروع ہو جائے گا جس کا نتیجہ فقط ملک کی تقسیم کی صورت میں نکلے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف موجود پشتون اپنی ریاست بنانے کی طرف جا سکتے ہیں اور یوں پاکستان مزید تقسیم ہو سکتا ہے۔ آج یہ بات دُور کی کوڑی لانے کے مترادف سہی لیکن ایسے میں کیا ہو گااگر افغانستان کہلانے والی قبائلی کنفیڈریشن کے حصے بخرے ہو تے ہیں اور یوں وجود میں آنے والی ہر چھوٹی سی ریاست کسی بڑی طاقت کے زیر اثر ہو گی ؟
ادھر پاکستان کے قلب میں مشکل ترین اور آتش گیر مسئلہ سماجی اور اقتصادی عدم برابری ہے۔ مدرسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق اس مسئلے سے بھی ہے۔ اگر ریاستی تعلیمی نظام تھوڑا سا بھی بہتر ہوتا تو غریب والدین اس وجہ سے اپنا ایک بیٹا یا بیٹی مدرسے نہ بھیجتے کہ کم از کم ان کے ایک بچے کو تو کپڑے، رہائش اور تعلیم میسر ہو سکے گی۔ صحت کی معمولی سی سہولتیں بھی میسر ہوتیں تو لاکھوں لوگوں کو ان بیماریوں سے بچایا جا سکتا تھا جو غربت کے باعث جنم لیتی ہیں۔ یہ رائے کہ مشرف کے کندھوں پر سوار مرحوم بے نظیر بھٹو ترقی کی علامت تھیں اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا نواز شریف کی وہ توقع جو انہوں نے جولائی 2007 ء میں باندھی تھی کہ لاکھوں لوگ انہیں خوش آمدید کہنے کے لئے اسلام آباد ہوائی اڈے پر پہنچ جائیں گے۔
پاکستان میں قیام کے دوران میں نے اپنا آخری دن کورنگی کریک کے قریب ماہی گیروں کے ایک گائوں میں گزارا۔ حکومت نے ایسے جزیرے بیچ دئے ہیں جہاں جھینگے اور خولدار مچھلی پائی جاتی ہے۔ واگزار کی جا رہی زمیں پر ڈائمنڈ سٹی، شوگر سٹی اور خلیجی طرز پر اس طرح کے بعض دیگر بے ہنگم منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ ماہی گیر ان تجاوزات کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں مگر زیادہ کامیابی حاصل نہیںکر پائے۔ ایک ماہی گیر نے نیم مزاحیہ انداز میں کہا ’ہمیں ایک سونامی کی ضرورت ہے‘۔ ہم نے ان کے معیار زندگی بارے بات کی۔ ایک عورت نے کہا ’ ہمارا تو بس اتنا خواب ہے کہ بچوں کے لئے سکول ہوں، گائوں میں ہسپتال اور دوائی میسر ہو، پینے کو صاف پانی ملے اور گھر بجلی سے روشن ہوں۔ کیا ہم بہت بڑے مطالبے پیش کر رہے ہیں؟‘۔ کسی نے مذہب کا ذکر تک نہیں کیا۔
مذہب کاذکر فروری 2008 ء کے انتخابات میں بھی سننے کو نہیں ملا۔ ان انتخابات بارے عمومی رائے یہ تھی کہ خوب دھاندلی ہو گی لیکن جی ایچ کیو میں مشرف کے جانشین ، جنرل کیانی نے آئی ایس آئی اور اس کے بدنام ’الیکشن سیل‘ کو ہدایت کی کہ وہ انتخابی عمل سے دور رہے۔ اس کا ڈرامائی نتیجہ نکلا۔ اس کے باوجود کہ کچھ جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ٹرن آئوٹ کم رہا(چالیس فیصد یا اس سے بھی کم)، رائے دہندگان نے ان انتخابات کو مشرف کے خلاف ریفرنڈم بنا دیا اور مسلم لیگ کے مشرف نواز دھڑے کے خلاف ووٹ دیا۔ ان انتخابات میں مشترکہ طور پر کامیاب ہونے والے نواز شریف اور بی بی سی کے الفاظ میں ’widower Bhutto ‘ (رنڈوا بھٹو)تھے جن کا اصل نام لینے کی بجائے یہ اصطلاح استعمال کی گئی۔ مشرف کو استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا مگر وہ اقتدار سے چمٹے رہنے پر مُصر تھے ۔ ان کو امریکی سفیر کی مدد حاصل تھی جس نے رنڈوے کو طلب کر کے یاد دلایا کہ اس کی مرحوم بیوی کے ساتھ کیا سودے بازی ہوئی تھی۔ اس بابت شک کی گنجائش کم ہی ہے کہ دونوں وراثتی سیاستدا ن، رنڈوا بھٹو اور غفار خان کا پڑپوتا واشنگٹن کا حکم بجا لائیں گے۔
…٭…