………….. دو سال بعد ……………….
ارحم کا پشتاوا دن بہ دن بڑھنے لگا تھا مہر کے آنسوں اس کے ساتھ کی ہوئی زیادتی ایک ایک لمحہ ارحم کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں تھا آج اگر مہر تکلیفوں میں ہے تو خوش وہ بھی نہیں تھا سکوں اسکی زندگی سے رخصت ہی ہوگیا تھا اسنے تنبہیہ کر لیا کے اب مہر کے بارے میں بلکل نہیں سوچے گا لیکن دل اور دماغ پے کس کا زور چلتا ہے دل تھا کے مہر کے حق میں گواہی دے رہا تھا دماغ تھا کے قبول کرنے سے انکاری تھا دل اور دماغ کی جنگ میں ارحم بری طرح پھنس گیا تھا ارحم نے سر ہاتھوں میں گرا لیا اسکا دماغ بلکل سن ہوگیا تھا ایسے میں صرف ایک شخص ہی تھا جو اسکو اس کفیت سے نجات دلا سکتا تھا اور وہ تھا اسکا دوست ریحان ہاں ریحان آج اسکو ریحان کی بہت یاد آرہی تھی کتنا سمجھایا تھا اسنے ارحم کو کے سارا اس کے لیے بلکل غلط آپشن ہے لیکن وہ ہر بر اس کی بات کو اگنور کر دیتا کاش اسنے اسکی بات ماں لی ہوتی تو آج اس کی یہ حالت نہیں ہوتی لیکن یہی تو انسان کی۔ صفت ہے کے جب تک اسے ٹھوکر نا لگے تب تک وہ نہیں سمبھلتا بہت سوچنے کے بعد اسنے فیصلہ کیا کے وہ سب سے معافی مانگیگا چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کیوں نا کرنا پڑے اسنے کچھ سوچتے ہوے ریحان کا نمبر ڈائل کیا اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اسنے کال ڈس کنیکٹ کردی ریحان سے ملنا ہوگا وہ ایسے میری بات نہیں سمجھ سکےگا آئ ہیو ٹو میٹ ود ہم
اگلی صبح ارحم ریحان کے کلینک جانے کے لیے تیار تھا اس نے طے کر لیا تھا کے آج ریحان سے معافی مانگ کے ہی لوٹے گا اسنے ریش ڈرائیونگ سٹارٹ کردی ہسپتال کے قریب پوہوںچ کے اسنے گاڑی پارک کی ایک گہرا سانس ہوا میں خارج کر کے وہ ہوسپٹل کے اندر داخل ہوا وہ رسیپشنسٹ کے پاس بڑھا اسلام علیکم مجھ ڈاکٹر ریحان سے ملنا ہے کیا وہ فری ہیں سر اسکے لیے آپ کو ویٹ کرنا ہوگا رسیپشنسٹ نے خوش اخلاقی سے جواب دیا میں انکا رشتےدار ہوں آپ پلیز آپ انسے مجھ ملوا دیں ارحم نے اکتاتے ہوے کہا سر آپ کا نام بتا دیں ارحم خلیل اوکے آپ جا سکتے ہیں ارحم نے تیزی سے قدم ریحان کے آفس کی طرف بڑھاے اسنے جھجھکتے ہوے دروازہ نوک کیا ریحان کی اسکی طرف پشت تھی اسلام علیکم ارحم نے دھیمے لہجے میں کہا کیوں اے ہو یہاں پر اب کیا رہ گیا ہے جو لینے اے ہو ریحان نے روکھے لہجے میں سوال کیا ارحم نے ہونٹ بھینج لیے معافی مانگنے آیا ہوں معافی ؟؟ کس کی معافی مانگنے اے ہو کون کون سے جرم کی مافی مانگوگے تم کس کس کے آنسوؤں کا ازلا دوگے تم بولو ہونہ معافی مانگنے آیا ہے ریحان نے تیکھے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
سہی کہ رہے ہو میں کسی کے بھی آنسوؤں کا ازلا نہیں چکا سکتا میں بہت برا ہوں نا یہی میری سزا ہونی چاہیے کے کوئی مجھ معاف نا کرے میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ تنہا میں اسے ہی ٹھیک ہوں وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگا ریحان کو اسکی حالت پر شبہ ہوا اسنے ابھی ارحم کو دیکھا تھا بڑھی ہوئی شیو بکھرے بال بے ترتیب حلیا وہ کہی سے بھی ہینڈسم سمارٹ اور ہر وقت ہشاش بشاش رہنے والا ارحم نہیں لگ رہا تھا ریحان کو اپنے لفظوں پر ندامت ہوئی وہ ارحم کی طرف بڑھا اور اسے گلے لگا لیا سوری یار بہت غصہ تھا تجھ پے جو تو نے کیا اس کے لیے یہ سب کہ گیا اتنے ٹائم سے نا تو نے کوئی رابطہ رکھا نا ہمیں رکھنے دیا تجھے پتا ہے پھوپھو کتنا تجھے یاد کر کے روتی ہیں انکل بہت اپسیٹ رہتے ہیں تو کہاں تھا یار ریحان نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا میں بہت تنہا تھا یار ارحم نے کھوے ہوے انداز میں کہا ایسا نہیں ہے بڈی ہم سب تیرے ساتھ ہیں تو گھر چل پھوپھو کی بھی طبیعت سمبھل جائے گی ریحان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا بابا معاف نہیں کرینگے کبھی بھی ریحان میں بہت اچھے سے انکا غصہ جانتا ہوں انکل تجھے معاف کر چکے ہیں ہم۔ سب ہی تجھے معاف کر چکے ہیں کیوں کے تیرے جانے کے بعد انکل کو مینے بتا دیا تھا کے تو کسی اور کو چاہتا ہے ریحان م مہر کیسی ہے؟؟؟ ارحم نے جھجھکتے ہوے سوال پوچھا ریحان نے لمبا سانس لیا وہ یہاں سے جا چکی ہے ارحم کے ماتھے پر مانو کسی نے ہتھوڑا مارا ہو وہ یک ٹک ریحان کو دیکھے جارہا تھا اسکو جیسے اس کے الفاظوں پر یقین نہیں آیا تھا
ک کہاں ایسے کیسے جا سکتی ہے وہ مجھ چھوڑ کے جب اس سے محبت نہیں تھی تب تو وہ میرے سامنے میرے پاس تھی اور اب جب مجھ اسے محبت ہوگئی ہے وہ مجھ چھوڑ کے چلی گئی ایسے کیسے کرسکتی ہے میرے ساتھ وہ جب کے وہ میرے نکاح میں ہے ارحم نا چاہتے ہوے بھی چیخ رہا تھا دیوانہ وار ہاں آج اسنے قبول کیا تھا کے وہ اسے محبت کرنے لگا ہے یار تو ریلیکس ہوجا کچھ کرتے ہیں ابھی تو گھر چل پھر سوچتے ہیں آگے کیا کرنا ہے ریحان نے اسکی حالت دیکھتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کیا سوچا تونے کیا کرنا ہے آگے ریحان نے اسکو سوچ میں ڈوبے پایا تو پوچھ بیٹھا سوچنا کیا ہے مینے مہر کو نکالا تھا میں ہی اسے لے آؤنگا مینے اسے تکلیفیں دیں ہیں میں ہی ان تکلیفوں کو مٹاؤن گا
ارحم بیٹا کھانا کھا لیں آپ کے بابا ویٹ کررہے ہیں تحمینا بیگم نے محبت بھرے لہجے میں کہا آرہے ہیں پھوپھو ریحان نے مسکرا کر جواب دیا خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا سب نے ارحم کو معاف کر دیا تھا بس اب اسے مہر سے معافی منگنی تھی رات کو وہ لیپ ٹاپ پر کام نپٹا رہا تھا بہت تھک گیا کام
کرکے اسنے لیپ ٹاپ بینڈ کرکے سائیڈ پر رکھ دیا اور فریش ہونے کے لیے وارڈ روپ کی طرف کپڑے نکلنے کے لیے بڑھا اسنے جیسے ہی وارڈ روپ کھولا سامنے اسے کسی کا موبائل فون نظر آیا یہ کس کا ہے وہ موبائل کو الٹ پھلٹ کرکے ددیکھنے لگا بعد میں دیکھتا ہوں وہ باتھ لینے چلا گیا واپس آکر اسنے موبائل اٹھایا اور بیڈ پر لیٹ گیا موبائل پر کوئی بھی لاک یا پاس ورڈ نہیں لگا تھا اسکو کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئ جیسے ہی اسنے موبائل کھولا سکرین پر مہر کی مسکراتی ہوئی تصویر نظر آئ وہ اسکی تصویر کو کتنی ہی دیر دیکھتا رہا اس کا سکتا اسکی موبائل پر ہونے والی رنگ ٹون سےٹوٹا ریحان کالنگ ہاں بول مہر کی کزن سسٹر یونی میں پڑھتی ہے تو اس سے بات کر کے اسے مہر کا پوچھ میں تجھے اسکی یونی کا۔ اڈریس سینڈ کرتا ہوں ریحان نے مصروف سے انداز میں بتایا اوکے کہ کے اسنے کال بند کردی رات کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا تیز ہوا اس کے لمبے گہنے سیاہ بالوں کو بار بار اس کے چہرے کے گرد لپیٹ رہی تھی مگر وہ کہیں اور ہی گم تھی چاند کی روشنی اسکی دودھیا رنگت کو اور بھی روشن کر رہی تھی آج پھر ماضی کی تلخ یادوں نے اسکی آنکھیں آنسوو سے بھر دیں تھیں وہ تو رونے والوں میں سے تھی ہی نہیں زندگی کے ہر لمحے کو اسنے خوشی خوشی جینا سیکھا تھا اسنے تو کبھی اپنی حد نہیں پار کی تھی لیکن پھر بھی اذیت اسکے مقدر کا حصہ بن گی تھی اسنے اپنے آنسو صاف کیے اور بیڈ پے سونے کے لیے لیٹ گئی ایک وقت تھا جب اسے سکوں کی نیند میثر تھی اب نیند تو آجاتی ہے سکوں اس سے روٹھ گیا تھا آج اسے حیا کی بے حد یاد آ رہی تھی حیا کی نادانیان اس کا پاگل پن اس کا چھوٹی چھوٹی بات پر ہنسنا وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی اسنے کچھ سوچتے ہوے حیا کا نمبر ملایا تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئی مہر خیریت تم ٹھیک تو ہو اس وقت کال کی تمنے ہ حیا تم اپنا لاسٹ ایئر میرے ساتھ لاہور میں کمپلیٹ کرلو مجھ بہت یاد آرہی ہے تمہاری تم پلیز میرے پاس آجاؤ میں تو اس وقت بھی چلنے کو تیار تھی تم ہی نہیں لیکے گئی اپنے ساتھ خیر میں بابا سے بات کر کے تمہیں بتاتی ہوں ابھی تم سوجاؤ ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا خدا حافظ مہر نے کال بند کرکے موبائل ٹیبل پر رکھ دیا دو سال ہوگئے تھے اسے اسلام آباد سے لاہور آے ہوے کس کے لیے اس بے حس پتھر دل کے لیے جو اسے محرم بنا کر اپنی دسترس بنا کر ایک نا محرم کے لیے چھوڑ گیا آنسو کا ایک گولہ اس کے رخسار کو چھو گیا دو سالوں میں ایک ایک پل اسے وہ ذلت یاد آئ تھی جس کے وجہ سے اس شخص کے لیے نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا لیکن ہاۓ یہ دل نادان اسی سے محبت کر بیٹھا تھا اس نے سختی سے اپنے گال رگڑے میں چاہ کر بھی اپنی اس محبت کی نا دانی کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روک پائی ارحم بیشک تم نے جو میرے ساتھ کیا اس کے بعد مجھ نفرت کرنی چاہیے پر دلوں پر کس کا اختیار ہوتا ہے ارحم میں اس محبت کو اپنے دل سے نکال تو نہیں سکتی پر تمہیں معاف بھی نہیں کر سکتی خدا کرے تمہیں بھی اسی محبت اور درد کی آگ میں جہلسنا پڑے جس میں میں جل رہی ہوں میری دعا ہے ارحم کے تمہیں بھی مجھسے محبت ہوجاے پھر اذیت کا اندازہ هو تمہیں وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی آئ ہیٹ یو ارحم آئ ریلے ہیٹ یو روتے روتے وہ نیند کی وادییوں میں چلی گئی
وہ اس وقت اپنے بیڈ پے لیٹا مہر کی تصویر کو اپنی موبائل کی سکرین پر دیکھ رہا تھا اس نے انگلی مہر کے مسکراتے ہوے ہونٹوں پر رکھی پھر موبائل کو اپنے ہونٹوں کے قریب لے جا کے مہر کی مسکراتی تصویر پر بوسہ دیا مجھے نہیں پتا تھا مہر میں نے جس کو چاہا وہ مجھ یوں دھوکھا دیگی دو سالوں سے مہر ایک پل کے لیے بھی مینے تمہیں یاد کرنا نہیں چھوڑا تمہیں یاد کر کر کے کب محبت نے میرے دل میں تمہارے لیے جگہ بنا لی میں خود نا واقف ہوں بس اب انتظار ختم ہونے والا ہے بہت جلد میں ارحم خلیل تمہیں اپنی زندگی میں واپس لے آؤنگا اس نے سرد اہ بھری اور مہر کی تصویر دیکھ کے آنکھیں موند لیں