دھڑکتے دل اور بوجھل سانسوں کے ساتھ وہ باہر آئی السلام علیکم اسنے مسکرا کر سلام کیا وعلیکم السلام خلیل صاحب اور تحمینہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا بیٹھو مہر بیٹا مدیحہ بیگم نے محبت سے کہا وہ سر جھکا کے ان کے ساتھ بیٹھ گئی تو مہر بیٹا کیسی جا رہی ہے آپ کی اسٹڈی خلیل صاحب نے شفقت سے پوچھا بہت اچھی جا رہی ہے انکل مہر نے جھکے سر کے ساتھ جواب دیا اتنے میں ارحم بھی واپس آ چکا تھا مہر نے اسکی طرف دیکھنے سے گریز کیا مہر بیٹا آپ کچھ بول نہیں رہی کیا ہوا تحمینہ بیگم نے اسکو چپ بیٹھے پایا تو بول پڑیں اب اس شوخے کے سامنے کیا صلواتین پڑھوں مہر نے دل میں سوچا کچھ نہیں انٹی بس ویسے ہی وہ لب کاٹنے لگی مہر بیٹا آپ کو شادی پر کتنے ٹائم بعد جانا ہے بس ابو ابھی جانے لگے ہیں مہر نے سکھ کا سانس لیا پھر اٹھ کے کمرے میں چلی گئی چادر پہن کے اسنے حیا کا ہاتھ سختی سے پکڑا اور لان میں اسنے سب کو خدا حافظ کہا پھر گاڑی میں بیٹھ
گئی ان دونوں کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کردی مہر نے گہرے گہرے سانس لے کے خود کو کمپوز کیا ہوا اسے کیوں کررہی ہو حیا نے کھا جانے والی نظروں سے مہر سے پوچھا ابھی اسنے چائے کپ میں رکھی ہی تھی کے مہر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور گاڑی میں بیٹھ گئی کچھ نہیں مہر نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کے آنکھیں موند لیں ٹھیک آدھے گھنٹے بعد گاڑی حال کے سامنے رکی مہر نے لمبا سانس خارج کیا اور باہر نکلی تم نے یہ اچھا نہیں کیا مہر اللہ تمہیں معاف نہیں کریگا مہر کا دل بند ہونے لگا اسنے حیا کی طرف سہم کے دیکھا کیا کیا مینے مہر نے لب کاٹتے ہوے پوچھا مینے تم پر اتنی محنت کی تم کو اتنا اچھا تیار کیا اپنا سر کھپایا اور تم نے میری ایک بھی تعریف نہیں کی ارے تعریف تو دور کی بات تم نے تو میری سلفی بھی نہیں لی حیا نے منہ پھیر لیا مہر کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی اسنے حیا کا ہاتھ تھام کے اسکا رخ اپنی جانب کیا ارے میری جان تم تو ہمیشہ سے بہت پیاری لگتی ہو مہر نے اسکے گال پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور رہی بات سلفی کی تو نکال لینگے وہ بھی ہاے سچی حیا نے خوش ہوتے ہوے پوچھا ہاں جھلی اب چلو اندر حال میں ہر طرف جکمگ جگمگ کرتی روشنییان پھیلی ہوئی تھیں ہر طرف خوش گوار ماحول تھا وہ دونوں برائیڈل روم پہنچی جہاں پر ہانیہ اقصیٰ (ہانیہ کی بہن ) دلہن کے روپ میں بہت جچ رہی تھی بیٹھی ہوئی تھی وہ دونوں ان سے مل کے چادر اتار کے ہانیہ کے ساتھ بیٹھ گئیں کہاں تھی تم دونوں اب تک ہانیہ نے دیر سے آنے کی وجہہ پوچھی کچھ نہیں یار ویسے ہی ابو کے کچھ گیسٹ آۓ تھے اوہ اچھا ویسے میڈم کہیں رشتہ تو پکا کرا کے نہیں آرہی تم ویسے کافی اچھی لگ رہی
ہو قسم سے دل کرے دیکھتی رہوں ایسی کسی خوش فہمی میں رہنے کی تمہیں ضرورت نہیں مہر نے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوے جواب دیا اب چلو بھی باہر میرا دولہا دیکھنے کا دل چاہ رہا ہے ہاں چلو ہانیہ اٹھتے ہوے بولی وہ تینو دلہن کو اسٹیج پر بٹھا کے خود بھی ایک ٹیبل کے پاس بیٹھ گئیں بہت اچھی جوڑی لگ رہی آپی والوں کی اللہ نظر بد سے بچاے مہر نے دلہن اور دولہے کو دیکھتے ہوے دعا دی ہانیہ اور حیا نے یک زبان ہوکے امین کھا وہ اس وقت موبائل پر ٹائپنگ کرنے میں بزی تھا جب اسفند نے اسکو کہنی ماری یاسر سن وہ تیرے ساتھ سیٹ ہوگئی کیا وہ کون یاسر نے موبائل رکھتے ہوے پوچھا وہ مہر شاہ دیکھ یہ وہی ہے نا یاسر نے اسکی بات پر سر اٹھا کے دیکھا دیکھ اسنے بھی بلیو سوٹ پہنا ہے اور تونے بھی یاسر نے جب مہر کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا آج وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی اسفند اور بھی کچھ بول رہا تھا پر وہ ہوش میں کب تھا مہر نے اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپعش محسوس کی تو اسنےآس پاس دیکھا لیکن جب اسے اپنا وھم لگا تو سر جھٹک کے حیا کی طرف متوجہ ہوگئی وقت بلیک کمیز پر وائٹ شلوار پہنے بالوں میں برش کررہی تھی کے آج والا واقعہ اس کے ذہن میں گھوم گیا وہ سر جھٹک کے بیڈ پر لیٹ گئی حیا کب کی سو گئی تھی بار بار ارحم کا چہرہ اسکے تصور میں آرہا تھا وہ اٹھ کے وضو کرنے چلی گئی دوپٹہ نماز کی صورت میں پہنا اور دو رکعت توبہ کی پڑھنے لگی دعا کے لیے اسنے ہاتھ اٹھاے آئ ام سوری اللہ پاک آپ تو جانتے ہیں کے میں اپ سے کتنا پیار کرتی ہیں جو بھی آج ہوا وہ انجانے میں ہوا پلیز آپ مجھ معاف کر دیں میں آئندہ خیال رکھوں گی چہرے پر ہاتھ پھیر کے وہ اٹھی اور جا نماز لپیٹ کے شیلف میں رکھ دی پھر بیڈ پر لیٹ گئی کچھ ہی دیر میں نیند اس پر غالب آ گئی
رات کے بارہ بج رہے تھے وہ بار بار کروٹیں لے رہا تھا اس دوران وہ صرف مہر کو ہی سوچ رہا تھا تنگ
آکر اسنے پاس پڑا موبائل اٹھایا اور کال ملانے لگا تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئی ہیلو اسفند کی خمار آلود آواز آئ ہیلو اسفند یار تو ٹھیک کہتا ہے مجھ مہر سے پیار ہوگیا ہے یاسر نے اقرار محبت کیا تو میں بھنگڑ ے ڈالوں اسفند بد مزہ ہوتے ہوے بولا یار میں نے تجھسے اتنی بڑ ی گڈ نیوز شیر کی تجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی یاسر نے صدمے سے کہا ارے یار مذاق کرہا تھا یار تو بتا کیا کروں کیا مطلب کیا کروں مہر کو بتا دے اسفند نے مشورہ دیا یار مجھ ڈر لگ رہا ہے اسنے میرا پرپوزل ریجیکٹ کر دیا تو ؟؟؟یاسر نے پریشانی سے کہا یاسر عزیز کو کوئی ریجیکٹ نہیں کر سکتا بڈی اسفند نے ہنس کے کہا بات تو تو ٹھیک کہ رہا ہے تو پھر کل ہی کر دیتا ہوں میں مہر کو پرپوز یہ ہوئی نا بات چل ٹھیک ہے کل ملتے ہیں گڈ نائٹ یاسر نے کال ڈسکنیکٹ کردی تو مہر شاہ یاسر عزیز کا پیار آپ کو مبارک ہو اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی ……
وہ بلیک گھٹنو تک اتا فراک پر بلیک چوڑیدار پاجامہ پہنے بلیک کلر کا حجاب پہنے بہت جاذب نظر لگ رہی تھی اس وقت وہ نیچے گھاس پر بیٹھی کوئی ناول پڑھ رہی تھی مہر تم کاجل کیوں نہیں لگاتی تم پر بہت اچھا لگیگا حیا چپس کھاتے ہوے بولی مہر نے حیا کی طرف دیکھا پھر مسکرا دی وہ اس لیے میری جان کیوں کے جو لوگ زیادہ روتے ہیں نا رات رات بھر میری نظر میں وہی کاجل لگاتے ہیں اپنے آنکھوں کی سرخی چھپانے کے لیے ایسا نہیں ہوتا مہر تم سے یہ بے تکی بات کسنے کہی حیا نے زچ ہوتے ہوے کہا ضروری نہیں کے ہر بات دوسرے ہی کہیں وہ کتابیں سمیٹتے ہوے بولی حیا نے منہ بنایا اب چلو چھٹی ہونے والی ہے وہ دونو اٹھ کھڑی ہوئیں ایکز کیوز می مہر کو کوئی مردانہ آواز آئ یس وہ پیچھے مڑتے ہوے بولی دیکھیں پہلے میری بات کو تحمل سے سنیے گا پھر سوچ سمجھ کے جواب دیجئے گا یاسر نے ہاتھ اٹھا کے کہا مہر اور حیا نے ایک دوسرے کو دیکھا آئ ڈونٹ نو کیسے لیکن مینے جب سے آپ کو دیکھا ہے میرا دل مجھسے بگاوت کرنے لگا ہے مینے کبھی نہیں سوچا تھا کے مجھ پیار ہوجاۓگا لیکن جب سے آپ کو دیکھا ہے میرا دل تو میرے بس میں ہی نہیں ہوتا میں میں اپ سے پیار کرنے لگا ہوں آئ لوو یو مہر اسنے گھٹنے زمین پر ٹیک دیے اور لال گلاب مہر کی طرف بڑھایا پاس کھڑے سٹوڈنٹس یہ منظر بہت محویت سے دیکھ رہے تھے مہر کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا وہ کوئی تماشا نہیں بنانا چاہتی تھی اسنے حیا کا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز چلنے لگی یاسر اس کے پیچھے لپکا مہر آئ نو کے آپ کو برا لگا لیکن ٹرسٹ می آئ رئیلی لوو یو مہر نے اسے نظر انداز کیا مہر میری بات تو سنو یاسر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا مہر کو جیسے آگ لگ گئی چٹاخ مہر نے یاسر کے منہ پے تھپڑ مارا یاسر کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں