حسین اور احسن دو بھائی تھے ان کی ایک بہیں بھی تھی خدیجہ جو لاہور میں رہتی تھیں حسین صاحب کے دو بچے تھے بیٹا حماد اور مہر بیٹی احسن صاحب کی دو بیٹیاں تھیں اوروہ اور حیا حیا کے والدین کی۔ ایک کار ایکسیڈنٹ میں فوتگی کی۔ وجہہ سے حسین صاحب ان دونو کو اپنے گھر لے کر آ گئے مہر کی کوئی بہیں نہیں تھی حیا کے آجانے کے بعد مہر کی یہ شکایت دور ہوگئی حماد اور اوروہ کی شادی ایک سال پہلے هو چکی تھی مہر اور حیا یونی کے سیکنڈ یر میں تھے خدیجہ کا ایک ہے بیٹا تھا فہد جو انگلینڈ میں پڑھائی کے سلسلے میں مقیم تھا حسین صاحب ایک کامیاب بزنس میں تھے سارا گھر حیا اور مہر کی نوک جھوک اور الٹی سیدھی عادتون سے خوب واقف تھا گھر کی تو رونق بھی ان دونو سے تھی
***** *************
وہ دونو بھاگتی ہوئی کلاس روم میں داخل پوہنچی جہاں پر سر ولید اسگمنٹ اسیگمنٹ لے رہے تھے ان دونو کو دیکھ کے مسکراے پوری یونی ان کی الٹی سیدھی عادتیں جانتی تھی سر ولید دونو سے گویا ھوۓ ہاں تو آج سورج کو باہر نکلنے میں لیٹ کیسے هو گئی وہ ان کے لیٹ آنے پر سوال کرنے لگے مہر نے حیا کی طرف دیکھ کے منہ بنایا جو معصوم اسے کھڑی تھی جیسے اس جیسا کوئی هو ہی نا مہر نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کے حیا بولنا شروع هو گئی سر ولید اس کی طرف متوجہ هو گئے وہ نا سر میں کیا بتاوں آپ کو میں تو سبھا جلدی اٹھ گئی تھی بس یہ مہر ہی دیر کر دیتی ہے مہر مہر کا منہ کھل ویس کیا اففف جھوٹی مہر نے دل ہی دل میں حیا کو سنایا میں تو سر اٹھ گئی تھی پھر جب میں سات بار اسکو اٹھا کے تھک گئی پھر مہر نے مجھے بھی اپنے ساتھ سلا دیا ہاے سرکیا پوچھیں مینے چاے بھی نہیں پی اطمینان سے حیا نے منسوی منصوی آنسوں بہاے مہر کی آنکھیں باہر آ گئی حیا کی باتیں سن کے پوری کلاس حیا کی باتیں سن کے قہقے قہقے لگانے لگی سر ولید بھی ہنس دئے انہوں نے مہر کی طرف دیکھا جیسے کہ رہے ہوں دیکھو تمہاری بہیں کیسے باتیں بناتی ہے سر مہر سے گویا ھوۓ مہر کیا سچ ہے یہ سب مہر نے نفی میں سر ہلایا حیا نے زبان دانتوں تلے دبای دبائی سر حیا کی طرف پلٹے حیا احسن ی تھنک اپنے اپنا سبھا والا قصہ دوہرایا ہے اتنے میں مہر اور حیا دونو ہنس دیں اوکے اب اپنی اپنی اسگمنٹ دکھا یں حیا نے ماتھے پر ہاتھ مارا ہاے مینے تو اسگمنٹ رکھی ہی نہیں بیگ میں اف میرے خدا اب کیا کروں سر تو میرا کچمبر کچمبر بنا دینگے حیا آپ کی اسگمنٹ حیا کے تھوک نگلا وہ سر میں وہ سر یہ رہی حیا کی اسگمنٹ یہ میرے بیگ میں رکھ کے بھول گئی تھی مہر نےسر کو اسگمنٹ پکارتے پکاراتے ھوۓ بتایا حیا کو تو جیسے نیی زندگی مل گئی هو وہ بے اختیار مسکرادی اسی ہی تو تھی وہ دونو ایک دوسرے پر جان چھڑکنے چھڑکنے والی اففف مہر قسم سے اگر آج تم نا بچاتی نس تی سر مجھ سولی پر لٹکا دیتے مہر نے غصے سے اسکی طرف دیکھا پھر اسکی باتوں پر ہنس دی اچھا ہوتا اگر لٹکا دیتے تو اچھا اگر مجھے لٹکا دیتے تو میں اپنی آخری وش پتا ہے کیا مانگتی مہر نے سوالیہ نظروں۔ سے حیا کو۔ دیکھا کیا یہی کے سر میری گردن لٹکانے سے پہلے ایک کپ چائ کا تو پلا دیں کیا پتا رسی میری گردن میں ہے لٹک جائے ہاہاہاہا دونو۔ کی ہنسی چھوٹ گئی تم نہیں سدھروگی سدھروگی حیا لو اب مینے سدھار کر کونسا تیر مارنا ہے حیا نے منہ بسورا بسورا اب جلدی چلو بہت بھوکھ لگی ہے جلدی کچھ لے کے ورنہ بھوکھ کے میرے میرا پیٹ ہی باہر آجانا ہے ہاہاہہاہا اف اللہ یتبی ی بھوکھ لگی تھی کیا بتاؤں مہر نے حیا کا برگر اچکتے ھوۓ منہ میں ڈالا حیا کا منہ کھل گیا ہیں میرا برگر کھا لیا تونے قسم سے مہر اللہ پوچھے تم سے میں روز اے محشر سوال کرونگی اپنے اس اکلوتے برگر کا ہاہاہا اچھا اب چلو لاسٹ کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے وہ دونو کلاس روم کی طرف روانہ ہوگئیں مہر ایک بات بتاؤ اگر میں کھو گئی تو تم مجھ کیسے پہچانو گئی حیا نے مہر کی طرف دیکھتے ھوۓ پوچھا مہر نے حیا کی طرف دیکھا پھر کھا حیا اول تویہ ہے کی تم کبھی گم نہیںہنے والی لیکن پھر بھی تم کو میں بتا دیتی ہیں گو دھرتی پر چاہے جہاں بھی رہیگی حیا کی آنکھیں چمک اٹھیں مہر نے ہنسی دبای تجھےتیری کرتوتوں سے پہچان لونگی مہر بے اختیار ہنستی چلی گئی ہاہاہاہ حیا کا چہرہ غصّے سے سرخ پڑ گیا اففف اللہ حیا کتنے فضول سوال کرتی ہی مہر منہ پر ہاتھ رکھ کے ہنسنے لگی ہونہ فضول تو تمہارے نواب ہیں مہر نے میوزک ون کر دیا
ہمیں ہر گھڑی آرزو ہے تمہاری ہوتی کیسی صنم بے قراری ملوگے جو تم تو بتاینگے ہم بہت پیار کرتے ہیں تم کو صنم قسم چاہے لے لو خدا کی قسم …..
تمھیں پتا ہے حیا یہ سونگ مجھ بہت زیادہ پسند ہے جب بھی میں تم سے ناراض ہوجاؤں نا کبھی بھی تم تب یہ سونگ مجھ گا کر سنانا میں تم سے جھٹسے راضی ہوجونگی مہر نے آنکھیں مونڈ موند تے ھوۓ بولا اللہ نا کرے مہر کے ہم دونو ایک دوسرے سے ناراض ہوں حیا نے اداسی سے بولا ارے نہیں یار ویسے ہی بول رہی تھی میں تو مہر نے مسکراتے ھوۓ حیا سے کہا اتنے میں گھر آگیا السلام عليكم ماما وعلیکم السلام کیسا رہا آج کا دن تم دونو کا مدیحہ بیگم نے مسکرا کر دونو۔ سے پوچھا ہمیشہ کی طرح بہت ہی اچھا ماما حیا نے جواب دیا اللہ تم دونو۔ کو اسے ہی خوش رکھے مدیحہ بیگم نے دل۔ سے دونو۔کو دعا دی جب تک آپ کی دعائیں ساتھ ہیں۔ ہم ایسے ہی خوش رہینگے ماما مہر نے مدیحہ بیگم کے گلے میں باہیں ڈالتے ھوۓ بولا اچھا ماما مجھ بہت نیند آرہی میں جا رہی ہیں سونے مہر بیٹا کھانا تو کھا لو نہیں ماما اگر ابھی کھانا کھانے کے لئے رکی نا تو یہی پر ہی سو جاؤں گئی مہر نے مسکرا کے کھا حیا تم کھا لو نہیں ماما میں اور مہر بعد میں کھا لینگے مہر سو گئی کیا حیا سونے دو مجھ نہیں پہلے سنو حیا اگر ابھی تم نے مجھ آواز دی تو میں تمہیں بیڈ کے نیچے پھینک دونگی حیا نے منہ بنایا ہونہ آویں مفت میں اور منہ دوسری طرف کر ک سو گئی
۔….😊😊
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...