کالج کے دنوں میںجب اساتذہ کے دیوان اورشاعروں کی کلیات کی کلیات ازبر تھیں ،اُن دنوں میں اور میرے دوست گورنمنٹ کالج کے اوپن ایئر تھیٹر میں بیٹھے انگلش ڈیپارنمنٹ کی طرف منہ کئے منیر نیازی کی ایک نظم’’ایک عالم سے دوسرے عالموں کاخیال‘‘ اکثر دہرایا کرتے تھے:
نیلا گرم سمندر
اوپر دھوپ کاشیشہ چمکے
موتی اس کے اندر
یاد آئی ہیں باتیںکتنی
بیٹھ کے اس ساحل پر
اک بے مقصد عمرکے قصے
بوجھ ہیں جواب دل پر
کیاکیامنظر دیکھے میں نے
کیسی جگہوں میں گھوما
کیسے مکانوں میں دن کاٹے
کن لوگوں میںبیٹھا
یہ منظر بھی یاد آئے گا
اورکسی موسم میں
اورکسی دریا کے کنارے
اورکسی عالم میں
منیر نیازی کی یہ نظم ان دنوں میں اکثر پھر سے دہراتا ہوں مگراب یہ نظم میں اکیلا جھیل کنارے ایک کیفے پر بیٹھ کرتحت الفظ میں پڑھتاہوں۔ یہ کیفے سٹاک ہولم کے پرانے حصے میں جسے گملاستان (Gamla Stan) کہتے ہیںمیں واقع ہے۔ سٹاک ہولم خوب صورت شہرہے اور یہ حصہ اس کاخوب صورت ترین علاقہ شمار ہوتاہے۔ان دنوں یہاں’’گرمیوں‘‘ کاموسم ہے مگر سویڈش موسم گرما کے لیے گرمیوں کالفظ بہت نامناسب معلوم ہوتاہے۔ اسے Summer بولا جائے تو مناسب لگتا ہے۔ لوگ سال بھر اس موسم کاانتظار کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے لاہوری سال بھر بسنت کا انتظار کرتے ہیں۔لیکن کیاہے کہ ؎
جیسا موڈہو ویسا منظر ہوتاہے
موسم توانسان کے اندر ہوتاہے
میںیہاں بیٹھا اداس ہوتا ہوں اور منیر نیازی کی ہی ایک اورنظم دہرانے لگتا ہوں:
شاموںکی بڑھتی تیرگی میں
برکھا کے سونے جنگل میں
کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں
رنگوں کی بہتی نہروں میں
ان اونچی اونچی کھڑکیوں والے
اجڑے اجڑے شہروںمیں
کن جانے والے لوگوں کی
یادوں کے دیے جلاتے ہو؟
کن بھولی بسری شکلوں کو
گلیوں میں ڈھونڈنے جاتے ہو!
مگرکیاہے کہ انہی بھولی بسری شکلوں کے لیے یہ سب لکھ رہا ہوں۔
ان شکلوں میں سب سے نمایاں اوردلکش بڑی بی اورمہدی حسن ہیں۔عینی، صوفیہ اورتزمین ہیں۔ معصومہ ،کامران اورشعاع ہیں۔
ایک شکل مسعود کشمیری کی ہے جولائن آف کنٹرول کوپار کرتا کرتا اب کشمیر سیکرٹریٹ پہنچ چکاہے۔
(مسعود !مجھے معلوم ہے کہ ’’اوربھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ مگر میرادل نہیں مانتا)
ایک بزرگانہ سا چہرا عظمت رسول کا ہے۔ جسے ہم سب بابا کہتے تھے۔
محمود بٹ تھا۔ جس کی شکل سے زیادہ (اس کاہاتھی ایسا)ڈیل ڈول یاد آتا ہے۔
شاہد نوید بیگ کا ہمیشہ ہنستا ہو اچہرہ۔ کچھ شکلیں ہیں جن کے نام اب ٹھیک سے یاد نہیں۔ کچھ نام یا د ہیں مگر سردار جی کی طرح میںان کی شکلیں بھول گیا ہوں۔
سلمیٰ عنبر کومیں بھولی بسری شکلوں میںشمار نہیں کرتااس لیے کہ اس نے بہت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملی صحافت میںقدم رکھا۔ یونیورسٹی دنوں میں اس بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اس سے رابطہ رہتاہے۔
ایک خاتون زنیب عابدی احمد تھیں جوکینیا سے فارن سٹوڈنٹ کے طورپر ہماری کلاس میں تھیں۔
زینب کی میں نے کئی دفعہ منت سماجت کی کہ بی بی مجھ سے شادی کرلو کیونکہ پاکستان میں مجھ سے کسی نے شادی نہیں کرنی اورافریقی سیٹنڈرڈز کے مطابق میں اچھا خاصا بریڈ پِٹ گردانا جاسکتا ہوںمگر اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا۔
I will marry a business tycon
معلوم نہیں اسے بزنس ٹائیکون ملا یانہیں البتہ ہماری دعاہے وہ جہاں ہو خوش ہو۔
کچھ شکلیں ہیں جویاد بالکل بھی نہیں آتیں ہاں مگر ان کا ذکرضرور کرنا پڑتا ہے۔ یہ ناپسندیدہ شکلیں لگ بھگ تمام کی تمام اسلامی جمعیت طلباء سے تعلق رکھتی تھیں۔ان شکلوںکے نام مختلف تھے البتہ کردار ایک تھے۔ ان میں کلاس ناظم ، ہاسٹل ناظم ، ڈیپارٹمنٹ ناظم، علاقہ ناظم، ناظم جامعہ اور نہ جانے کون کو ن سے ناظم شامل تھے۔
کچھ چہرے ہیں جن کاتعلق ڈیپارٹمنٹ سے نہیں تھا۔ان میںسب سے دلکش یاد جس شکل سے وابستہ ہے وہ میرے ہی شہرکا سائیکالوجی والا صفدر تھا۔ صفدر خوب صورتی اورمعصومیت کی تجسیم تھا۔
ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے اسے دیکھ کرخوش ہوتے کہ شکر ہے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں نہیں ورنہ اس کے ہوتے ہوئے کسی کی دال نہ گلتی(خیر اس کے نہ ہوتے ہوئے بھی کسی کی دال نہیں گل پائی) اورلڑکیاں اسے دیکھ کرآہیں بھرتیں کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں نہیں۔
لیکن محبت بہت عجیب چیز ہے۔ صفدر جیسا خوب صورت اور خوب سیرت شخص اس سے محروم رہا۔
صفدر نے محبت میں ایسی ٹھوکر کھائی کے آج تک گرکر سنبھل نہیں پایا۔ آخری بارسرگودہا میں اچانک سڑک کنارے ہماری ملاقات ہوگئی۔ ملا تو کینیڈا شفٹ ہو رہا تھا۔ کبھی ملا تو پوچھوں گا کہ جس پچھتاوے سے بھاگ رہے ہوکیا اس سے فرار ممکن ہے؟
ایک واہلہ صاحب تھے ۔ جمعیت سے تعلق رکھنے والے واحد شخص تھے جن کا میں نے ہمیشہ احترام کیااور ان سے ہمیشہ اچھی دوستی رہی۔مجھے یہ توسمجھ آتی تھی واہلہ صاحب جمعیت میںکیوں ہیں البتہ یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ جمعیت والوں نے واہلہ صاحب کوکیوں رکھا ہوا ہے۔بہت سے نام یاد آرہے ہیں مگر……………۔