(Last Updated On: )
اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہمارا سیشن شروع ہوا۔ پہلے دن سب سے پہلے ڈیپارٹمنٹ پہنچنے کے چکر میں میں صبح سات بجے ہی علامہ اقبال میڈیکل کالج کے ہاسٹل نمبر 4 سے نکل پڑا۔
شروع کے دن میںعلامہ اقبال کے ہاسٹل میںاپنے بچپن کے دوست اورکلاس فیلو عروج کے کمرے میں رہا۔سچ تویہ ہے کہ دوتین ماہ چھوڑ کرسیشن کے باقی دن بھی میں عروج کے پاس ہی رہا۔ علامہ اقبال کے اکثر ہاسٹل لائٹ مجھے کالج کا سٹوڈنٹ تصورکرتے اور علامہ اقبال کی ٹک شاپ والے کامران صاحب اور فوڈ شاپس پر کام کرنے والے مجھے ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کہہ کر مخاطب کرتے۔
میرا خیال تھاسب کلاس فیلو پہلے دن خوب جوش وخروش سے آئیں گے اورآئیںگی، میلے کاساسماں ہوگا مگر پہلے دن توکیا پہلا پورا ہفتہ کلاس میں حاضری بہت کم رہی۔ پہلے دن دوشناسا چہرے دکھائی دیئے۔ ایک توناصر تھا جوگورنمنٹ کالج لاہور میں میرا کلاس فیلوتھا دوسرا رانا فاروق جوایف سی کالج میں تھا لیکن کسی مشترکہ دوست کی وجہ سے ہم دونوں میںدوستی بی اے کے دنوںمیں ہوچکی تھی ۔
پہلے دن ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین مسکین حجازی نے ہمیں خوش آمدید کہا اور لگ بھگ ایک گھنٹے کالیکچر دیا جس میںانہوں نے بتایا آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جویہاں تک پہنچے ہیںکہ پاکستان میں یونیورسٹی لیول پرپہنچنے والوں کی تعداد محض0.5فیصد ہے۔
حجازی صاحب کانام اورچہرہ جانا پہچانا تھا۔ اخباروں میںان کی تصویر اورٹی وی پر ان کی گفتگو سننے کاموقع مل چکا تھا۔میٹرک دنوں میں ان کا ناول ’’اللہ کے سپاہی‘‘ پڑھ کرمیں ایک عرصہ ہوا ان سے غائبانہ متعارف تھا۔
ہم دل ہی دل میںخوش ہوئے کہ ایسے معروف لوگ ہمیں پڑھائیں گے۔
حجازی صاحب کے بعد اے آر خالد اور آخر میں مہدی حسن تشریف لائے۔ یہ سبھی جانے پہچانے نام تھے۔
پہلے دن کلاس میں تین چار خواتین موجو دتھیں جنہیں سب لڑکے کن اکھیوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ پہلے دودن رول کال نہیں بولی گئی لہٰذا ہم ان لڑکیوں کی آواز سننے کوترستے رہے۔
پہلے دن عروج میری کلاس کی لڑکیاں دیکھنے کے چکر میں مجھے لینے کے بہانے بارہ بجے ہی ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا۔
دوسرے روز مزید اساتذہ سے تعارف ہوا۔ مجاہد منصوری آئے۔ پہلی ملاقات میں اچھے لگے۔ یونیورسٹی کے دو سال اچھے لگتے رہے۔آج بھی اچھے لگتے ہیں البتہ جنگ میں ان کے کالم پڑھ کر غصہ ضرور آتا ہے۔ جی ایم نقاش آئے جن کا تعارف حجازی صاحب نے یہ کہہ کرکروایا کہ یہ سابق ٹیسٹ کرکٹر طاہرنقاش کے والد ہیں۔ اگلے دوسال ان سے مزید تعارف حاصل ہوتارہا اورآج یہ تعارف ایک بدمزہ یاد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سب سے زیادہ خوف اور سنسنی جوناتھن کوریل کے آنے سے پھیلی۔ جوناتھن فل برائٹ سکالر کے طورپر امریکہ سے ہمیںرپورٹنگ پڑھانے کے لیے آیا تھا۔ اکثر کلاس فیلو انگریزی بولنے کے ڈرسے سوچنے لگے کہ رپورٹنگ کا پیپر اگلے سال تک ملتوی کردیا جائے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اردو اور انگریزی رپورٹنگ کے پیریڈ علیحدہ علیحدہ ہوا کریں گے۔ اکثر دوستوں نے جوناتھن کی انگریزی کے خوف سے فیصلہ کیا کہ وہ اردو رپورٹنگ کی کلاس لیں گے۔
جوناتھن کی کچھ کلاسز لینے کے بعد ہمارے بھولے بھالے کلاس فیلو مقبول ملک کے کمنٹس خاصے دلچسپ تھے۔
مقبول کا تعلق دیپالپور کے ایک گائوں سے تھا۔آج کل وہ پنجاب حکومت کے محکمہ تعلقات عامہ میں افسرہے۔ اس کے سیدھے سادے کمنٹس ہمیشہ دلچسپی کے باعث ہوتے تھے۔ ایک دن کہنے لگا:
’’جوناتھن کوزیادہ انگریزی نہیں آتی پتہ نہیں تم لوگ کیوں اس کے پیریڈ میں نہیں آتے؟‘‘
ہم چند دوست فروٹ شاپ پر بیٹھے گپ شپ کررہے تھے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ایک دوست نے حیرت سے پوچھا
’’ویکھونا! میںاتنی صاف تے کلیئر انگریزی بولداہاں جوناتھن نوں فیر وی سمجھ نئیں آندی ‘‘مقبول نے وضاحت پیش کی۔
دوسرے دن ڈاکٹر مغیث شیخ المعروف قاری صاحب اورڈاکٹر عفیرہ سے بھی ملاقات ہوئی۔
تمام اساتذہ سے پہلا تعارف متاثرکن تھا ماسوائے احسن اختر ناز کے۔چھوٹے قد، بڑی توند، موٹی عینک لگائے یہ شخص بالکل متاثر کن نہ لگا۔ خاص کرجب وہ قائد اعظم کو قیداعظم کہہ کرپکارتا رہا تو اکثر کلاس فیلوز زیر لب مسکراتے رہے۔موصوف نے ہمیں پاکستان کی تاریخ پڑھاناتھی۔ پاکستان پربہت سے ظلم ڈھائے گئے ہیں۔اکثر تو لوگ جانتے ہیں مگر جوظلم اس ملک کی تاریخ احسن اختر ناز کے حوالے کرکے اس ملک کے ساتھ ظلم ہوتارہا ہے اس کا اندازہ صرف شعبہ صحافت کے طالب علم ہی کرسکتے ہیں۔
شروع کے چنددن تعارف اورمختلف تفصیلات جاننے میں گزرے۔
ان دنوں ایک دن جمعیت کے ناظم سے تعارف ہوا۔ ان کانام زین العابدین تھا۔ پہلے ہفتے ہی بریک سے پہلے اچانک سفید شلوارقمیض میں ملبوس ایک عددساتھی بھائی کے ہمراہ زین صاحب ہماری کلاس میںآدھمکے۔ اپنا تعارف بطور ناظم ڈیپارٹمنٹ کروایا۔جمعیت کی خدمات کاخلاصہ پیش کیا اور ہماری کلاس کوچائے پارٹی کی دعوت دی۔
زین سانولے رنگ اور چھ فٹ کادبلا مگرمضبو ط جسم کامالک نوجوان تھا۔ اعتماد کی شدید کمی کے باعث شرمیلے پن کاشکار رہتاتھا۔ پہلے دفعہ جب اس سے تعارف حاصل ہوا تومیں دل میں سوچ رہاتھا اسے ناظم ِجمعیت کی بجائے نادمِ جمعیت کہلانا چاہئے۔
میں جمیعت کی چائے پارٹی پہ نہیں گیا۔
گورنمنٹ کالج کے اوپن ائیر تھیٹر اوراوول کی آزاد خیال فضائوں میں بیٹھ کرہم نے جہاں ادب اور فلسفے سے محبت سیکھی تھی وہاں جمعیت سے نفرت کا سبق بھی پڑھاتھا۔
ان کی چائے پارٹی پرنہ جانا اسی کا اظہار تھا۔آئندہ دوسال یہ اظہار باربار ہوا اور اس کی خوب قیمت بھی چکائی مگر کیا ہے کہ
ہرداغ ہے اس دل میں بجز داغ مذمت
شروع کے دنوں میں ہاسٹل میںمیرا زیادہ وقت رانا فاروق اور میاں عابد کے ساتھ گزرتا۔ یہ دونوں ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ میاں عابد سائنس کالج سے آیاتھا۔ وہاں اس کاتعلق پی ایس ایف سے تھا۔گویا جمعیت سے نفرت ہماری دوستی کی بنیاد بن گئی۔ ہم تینوں گھنٹوں بیٹھے جمعیت کے اثرسے اپنی کلاس کومحفوظ رکھنے کے منصوبے بناتے۔
انہی دنوں میری دوستی ایک سپر سینئیر سے ہوگئی ۔ ہوایوںکے میں مارکسزم کی چند کتابیں ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری سے ایشوکروا کرلایا۔ کتابیں ڈیپارٹمنٹ کے لان میںرکھ کرمیں چائے لینے اشرف کی کنٹین پرگیا۔ واپس آیا تو کتابیں غائب ۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا ایک میلا کچیلا،گندا مندا، گھنگھریالے بالوں والا پتلا دبلا سا شخص ان کتابوں کوبغل میں دبائے جارہا ہے۔ میں بھاگ کراس کے پاس پہنچا اورکتابوں کی بابت تمیز سے عرض کیاکہ یہ کتابیں میری ہیں اورآپ کویوں بتائے بغیر یہ کتابیں نہیں اٹھانا چاہیں تھیں۔
’’آپ یہ کتابیں کیوں پڑھتے ہو۔ کمیونسٹ ہوکیا؟‘‘ اس نے سرائیکی زدہ اردو میں سوال کیا۔
’’کمیونسٹ کا تو پتہ نہیں البتہ مارکسزم کاسٹوڈنٹ ضرور ہوں‘‘میں نے جواب دیا۔
’’میں بھی مارکسز م کا سٹوڈنٹ ہوں۔ میرانام تنویر عباس نقوی ہے۔16نمبر ہاسٹل کے کمرہ نمبر112میں رہتاہوں۔ روزنامہ پاکستان میں کام کرتاہوں۔ آپ سے مل کرخوشی ہوئی۔ ہوسکے تو آج رات بارہ بجے کے بعد میرے کمرے میں آنا گپ شپ ہوگی۔ کتابیں میرے کمرے سے لے لینا‘‘۔
میں اس عجیب وغریب شخص سے مل کرتھوڑا حیران ہوا۔ البتہ یہ عجیب وغریب شخص آج بھی میرا دوست ہے اور اسی کی وساطت مجھے ڈاکٹر مہدی حسن کی صحبت میں بیٹھنے کاچسکہ پڑا ۔ اسی دوست کی وساطت میرا معین اظہرسے تعارف ہوا۔ صحافتی زندگی میں معین اظہر سے گہرا دوست اورساتھی نہیںملا۔تنویر نقوی اور معین اظہر ہم جماعت تھے۔ یہ لوگ ہمارے ُسپر سینئیر تھے اور تھیسس وغیرہ کے سلسلے میں ابھی تک ڈیپارٹمنٹ آرہے تھے۔ ان دنوں زیادہ دوستی تنویز نقوی،معین اظہر، عدنان ملک اورعدنان کے چھوٹے بھائی یاسر ملک سے تھی۔
شروع کے ہفتوں میں جو دوستیاں ہوئیں آئندہ چند ہفتوںمیں ان میں خاصی تبدیلیاں آگئیں۔ کلاس میں موجود لڑکوں لڑکیوں کے درمیان بھی ’’برف‘‘ پگھلنے لگی اوربہت جلد بے تکلفی کی ایک فضاقائم ہوگئی۔
کلاس میںکچھ نئے چہرے بھی آئے اورایک ’’چہرہ‘‘جس کا نام ثوبیہ شہزادی تھا ہفتوں کے انتظار بعد بھی نہ آیا۔
کلاس میں پہلے ہی خواتین کی تعداد کم تھی اوپر سے ایک کامزید’’نقصان ‘‘کسی صورت بھی ہمیں قبول نہ تھا۔
البتہ چند دنوں کے بعد ثوبیہ شہزادی کی تلافی سعدیہ حجازی کی صورت ہوگئی۔ سعدیہ ہمارے چئیر مین مسکین حجازی کی بیٹی تھی۔ یہ شائد سعدیہ کی واحد خامی تھی۔
انہی دنوں میںنے تنویر نقوی کے ہمراہ روزنامہ پاکستان جانا شروع کردیا۔ زندگی ایک دم سے بہت مصروف اور دلچسپ ہوگئی تھی اور اس رنگارنگی میں ایک مزید اضافہ ایک دن مظہر ٹوبہ نے کردیا۔