عشاء کی نماز کے بعد جب محمد بن قاسم اپنی قیام گاہ میں داخل ہورہا تھا تو یزیدبن ابوکبشہ نے آواز دی۔ خالد، زبیر اور بھیم سنگھ ابوکبشہ کے ساتھ آرہے تھے۔ محمد بن قاسم دروازے پر رک کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔ یزید نے قریب پہنچ کر خالد، زبیر اور بھیم سنگھ کو رخصت کیا اور محمد بن قاسم کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اس کے کمرے میں داخل ہوا۔
کمرے میں مشعل جل رہی تھی۔ علی کرسی پر سورہا تھا۔محمد بن قاسم نے یزید کو ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔” اس لڑکے کو میرے ساتھ بہت محبت ہے۔ یہ بھی برہمن آباد میں قید تھا۔“
یزید نے مسکراتے ہوئے کہا۔”اس سرزمین میں وہ کون ہے جسے آپ سے محبت نہیں۔“
محمد بن قاسم نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے موضوع سخن بدلنے کی نیت سے کہا۔” میں چاہتا تھا کہ رخصت ہونے سے پہلے آپ کو سندھ کے تمام حالات بتادوں۔میرا ارادہ تھا کہ علی الصباح آپ سے ملوں لیکن یہ اچھا ہوا کہ آپ خود ہی۔ آگئے۔“
یزید نے کہا۔”میں آپ سے سندھ کے حالات پوچھنے نہیں آیا۔ میں آپ کو یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ آپ یہیں رہیں گے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ کی ہمدردی کا شکریہ! لیکن میں امیرالمومنین کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا۔“
”لیکن آپ نہیں جانتے کہ سلیمان آپ کے خون کا پیاسا ہے!“
”مجھے معلوم ہے، لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے خون کے چند قطروں کے لیے عالمِ اسلام دو حصوں میں تقسیم ہوجائے۔“
”آپ اس عمر میں میری توقعات سے کہیں زیادہ دور اندیش ہیں پھر بھی مجھے یقین ہے کہ اگر میں خود جاکر سلیمان کو یہ بتاوں کہ سندھ میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہی آپ کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے تو وہ آپ کے خلاف یقیناً اعلانِ جنگ نہیں کرے گا۔“
”لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ میں اور میرے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت مرکز سے کٹ کر علیحدہ ہوجائے گی اور ہم اس دنیا میں ایک اجتماعی جدوجہد کے انعام سے محروم ہوجائیں گے۔ میں آپ کو یہ سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ لامرکزیت دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو لے ڈوبتی ہے!“
یزید نے کہا۔”میرے پاس نماز سے پہلے ارور کے معززین کا وفد آیا تھا اور وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا دیوتا ہم سے نا چھینیے! اگر سلیمان نے آپ کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی تو وہ تمام ہندوستان کو اس کے خلاف مشتعل کردیں گے۔“
”آپ اس بات کی فکر نہ کریں میں ان کو سمجھا لوں گا۔“
یزید، محمد بن قاسم کا فیصلہ اٹل سمجھ کر خاموش ہوگیا۔اس کے بعد محمد بن قاسم نے اسے سندھ کے تمام حالات بتائے اور اس ملک کے باشندوں کے ساتھ رواداری برتنے اور مشکل وقت میں ناصرالدین والی دیبل اور بھیم سنگھ کی ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید کی۔
یزید نے اٹھتے ہوئے کہا۔”میں آپ سے صرف ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ سلیمان کے حکم کی تعمیل میں یہاں سے بیڑیاں پہن کر رخصت ہونے پر ضد نہ کریں۔ اس سے ہزاروں انسانوں کے دل مجروح ہوں گے اور ممکن ہے کہ لوگ مشتعل بھی ہوجائیں۔“
”اگر آپ اسی میں مصلحت سمجھتے ہیں تو میں ضد نہیں کروں گا۔ ورنہ اطاعتِ امیر کی بیڑیاں پہنتے ہوئے میں فخر محسوس کرتا۔“
یزید نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔”میں ایک اور سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ عرب سالاروں میں سے آپ کا بہترین دوست کون ہے؟“
”میرے سب دوست ہیں لیکن جو شخص میری زندگی کے ہر پہلو سے واقف ہے وہ زبیر ہے، وہ ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گا!“
”میں آپ کے رخصت ہونے سے پہلے اسے روانہ کردینا چاہتا ہوں، آپ اسے میرے کمرے میں بھیج دیں!“
محمد بن قاسم نے علی کو جگایا اور کہا۔”انھیں ان کے کمرے میں چھوڑ آو اور زبیر کو ان کے پاس بھیج دو!“
یزید کو اس کے کمرے میں چھوڑ کر علی زبیر کو بلانے کے لیے چلا گیا اور یزید مشعل کی روشنی کے سامنے بیٹھ کر خط لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد زبیر اندر داخل ہوا۔ یزید نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔
زبیر دیر تک بیٹھا رہا۔خط ختم کرنے کے بعد یزید اس کی طرف متوجہ ہوا۔”آپ ایک لمبے سفر کے لیے تیار ہوجائیں۔یہ خط پڑھ لیں!“
یزید نے خط زبیر کے ہاتھ میں دے دیا۔زبیر نے خط پڑھا اور اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر امید کی روشنی جھلکنے لگی۔ یزید کا یہ خط حضرت عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کے نام تھا جس میں اس نے محمد بن قاسم کو عالمِ اسلام کا جلیل القدر مجاہد ثابت کرنے کے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ اسے سلیمان کے انتقام سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یزید کے مکتوب کے آخری الفاظ یہ تھے:-
”محمد بن قاسم جیسے مجاہد بار بار پیدا نہیں ہوتے۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے لوگ دیکھے ہیں لیکن اس نوجوان کی عظمت کا میں صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا، جس نے سترہ برس کی عمر میں سندھ فتح کیا اور اب اپنے ایک لاکھ بارہ ہزار جانبازوں کی موجودگی میں خوشی سے اطاعتِ امیر کی بیڑیاں پہننے کے لیے تیار ہے۔ محمد بن قاسم اسلام کے جسم میں ایک ایسا دل ہے جس کی ہر دھڑکن مجھ جیسے انسانوں کی عمر بھر کی ریاضت سے زیادہ قیمتی ہے۔ آپ عالمِ اسلام کی ایک ناقابلِ تلافی نقصان سے بچا سکتے ہیں۔“
زبیر نے خط پڑھ کر یزید کی طرف دیکھا اور پوچھا۔” آپ کو یقین ہی کہ وہ سلیمان پر اثر ڈال سکیں گے!“
”مجھے یقین ہے۔ تم جاو، وہ اس وقت مدینے میں ہیں لیکن راستے میں ایک لمحہ ضائع مت کرنا۔ سلیمان کے مشیر جنھیں محمد بن قاسم کے ساتھ فقط اس لیے عناد ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کا داماد ہے۔ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اس کے متعلق کوئی فیصلہ ہوجائے۔ سلیمان خود اتنے بااثر آدمی کو زیادہ دیر تک زندہ رکھنا خطرناک خیال کرے گا۔ عمر بن عبدالعزیز اگر مدینہ میں نہ ہوئے تو جہاں بھی وہ ہوں، تم وہاں پہنچو اور کوشش کرو کہ وہ محمد بن قاسم کی قمست کا فیصلہ ہونے سے پہلے دمشق پہنچ جائیں۔ میرے نزدیک یہ مہم تمام ہندوستان کی فتح سے زیادہ اہم ہے۔“
زبیر نے اٹھتے ہوئے کہا۔” میں ابھی جاتا ہوں۔“
”جاو! خدا تمہاری مدد کرے۔“
زبیر یزید کے کمرے سے نکل کر بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ناہید، خالد اور زہرا اس کا انتظار کررہے تھے۔ سب نے یک زبان ہوکر کہا۔”کیا خبر لائے؟“
”میں مدینے جارہا ہوں۔“ زبیر صرف اتنا کہہ کر عقب کے کمرے میں لباس تبدیل کرنے کے لیے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ لباس تبدیل کر کے باہر نکلا۔ ناہید نے کوئی سوال پوچھے بغیر کونٹھی سے تلوار اتار کر اس کے ہاتھ میں دےدی۔
خالد نے اٹھتے ہوئے کہا۔”میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔“
زبیر نے تلوار کمر کے ساتھ باندھتے ہوئے کہا۔”تم ناہید اور زہرا کو لےکر محمد بن قاسم کے ساتھ بصرہ پہنچ جاو۔“
زہرا نے کہا۔”بھیا! مدینے میں آپ کو کیا کام ہے؟“
زبیر نے کہا۔”میں ایک ایسے آدمی کے پاس یزید کا خط لےکر جارہا ہوں جو محمد بن قاسم کو بچاسکتا ہے۔ خالد! تم بصرہ پہنچ کر سیدھا محمد بن قاسم کے گھر چلے جانا اور زبیدہ کو تسلی دینا۔مجھے امید ہے کہ میں بھی بہت جلد وہاں پہنچ جاوں گا۔ناہید خدا حافظ!زہرا! میری کامیابی کے لیے دعا کرنا۔“ زبیر یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
راستے میں محمد بن قاسم کا کمرہ تھا۔اندر مشعل ٹمٹا رہی تھی۔اس نے دروازے پر رک کر اندر جھانکا اور پھر کچھ سوچ کر دبے پاوں اندر چلا گیا۔ محمد بن قاسم گہری نیند سورہا تھا ایک معصوم بچے کی سی مسکراہٹ جسے زبیر نیند کی حالت میں اکثر اس کے ہونٹوں پر دیکھ چکا تھا، آج بھی اس کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ سرہانے کی طرف دیوار کی کھونٹی سے وہ تلوار لٹک رہی تھی جس کے ساتھ کمسن اور نوجوان سالار نے سندھ کے مضبوط قلعوں اور سندھ کے باشندوں کے قلوب کو مسخر کرلیا تھا۔
ایک نامعلوم جذبے کے ماتحت زبیر کا دل دھڑکا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کانپتی ہوئی آواز میں آہستہ سے یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔”میرے بھائی! میرے دوست! میرے سالار! خدا حافظ!“
محل سے نکلتے وقت زبیر اپنے سہمے ہوئے دل کو بار بار یہ کہہ کر تسلی دے رہا تھا۔”نہیں! نہیں! ہم ایک بار اور ضرور ملیں گے۔“
صبح کے وقت محل کے دروازے پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ محمد بن قاسم دروازے سے باہر نکلا تو ہجوم نے ادھرادھر سمٹ کر دروازے دروازے کے سامنے سیڑھیاں خالی کردیں۔ فوج کے عہدےدار، شہر کے معززین اور پروہت آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کرنے لگے۔ بھیم سنگھ کی باری آئی تو وہ بےاختیار محمد بن قاسم کے ساتھ لپٹ گیا۔ اس نے کہا۔”آپ نے میرا اسلامی نام تجویز نہیں کیا۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”تم اگر پسند کرو تو میں تمہارا نام سیف الدین رکھتا ہوں!“
سیڑھیوں سے نیچے ایک سپاہی گھوڑا لیے کھڑا تھا۔ محمد بن قاسم نیچےاتر کر گھوڑے پر سوار ہونے لگا تویزید بن ابوکبشہ نے بھاگ کر باگ تھام لی۔محمد بن قاسم کے احتجاج کے باوجود لوگ بھاگ بھاگ کر دیوانہ وار اس کے پاوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔
گھوڑے پر سوار ہوکر محمد بن قاسم نے چاروں طرف دیکھا۔ اسے کوئی آنکھ آنسووں سے خالی نظر نا آئی۔ سفید ریش بورھے یہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا عزیز ترین بیٹا ان سے رخصت ہورہا ہے۔ بیوہ عورتیں اور یتیم بچے یہ محسوس کررہے تھے کہ قدرت ان کا زبردست سہارا چھین رہی ہے۔ نوجوان لڑکیاں یہ کہہ رہیں تھیں کہ ان کی عفت و عصمت کا نگہبان جارہا ہے۔ارور کے درودیوار پر حسرت برس رہی تھی۔
اپنے باپ کے اشارے پر شہر کے پروہت کی نوجوان لڑکی آگے بڑھی اور اس نے محمد بن قاسم کو پھولوں کا ہار پیش کرتے ہوئے کہا۔” میرے بھائی! میں ارور کی تمام کنیاوں کی طرف سے یہ تحفہ تمہارا خدمت میں پیش کرتی ہوں۔“
محمد بن قاسم نے اس کی طرف احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پھول قبول کرلیے۔
دیبل کے بازاروں سے سلیمان بن عبدالملک کے قیدی کا گھوڑا پھولوں کے ڈھیر روندتا ہوا نکلا____ ارور کے باشندوں نے کسی شہنشاہ کا جلوس بھی اس قدر شاندار نہیں دیکھا تھا۔ کسی عزیز کی جدائی پر اس قدر آنسو نہ بہائے تھے۔ وہ ہاتھ جنہوں نے دوسال قبل فاتح سندھ کو اپنا دشمن سمجھ کر تیروں اور نیزوں کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا تھا وہی اب پھولوں کی بارش کررہے تھے۔
علی، خالد، ناہید اور زہرا محمد بن قاسم کے ساتھ جانے والے چند سپاہیوں کے ساتھ پہلے ہی شہر سے باہر پہنچ چکے تھے۔ یہ قافلہ ساٹھ نفوس پر مشتمل تھا۔ ان میں چالیس وہ سپاہی تھی جو محمد بن قاسم کو پابہ زنجیر دمشق لےجانے کے لیے یزید بن ابوکبشہ کے ساتھ آئے تھے۔ واسط کا کوتوال مالک بن یوسف صالح کی سفارش سے ان کا سالار مقرر ہوکر آیا تھا۔ مالک بن یوسف کو صالح کی یہ ہداہت تھی کہ وہ راستے میں محمد بن قاسم کے ساتھ کوئی رعایت نا کرے۔ مالک خود بن حجاج بن یوسف کے خاندان کا پرانا دشمن تھا لیکن ارور پہنچ کر وہ یزید بن ابوکبشہ کی طرح محمد بن قاسم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رھ سکا۔ اس کے بعض ساتھی بھی ارور سے روانگی کا منظر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ کھولے بندروں سلیمان کے غلط احکام پر نکتہ چینی کرنے لگے۔یزید نے انھیں رخصت کرتے وقت تاکید کی تھی کہ انھیں عزت کے ساتھ بصرہ لےجاو۔ امیرالمومنین کو میں جواب دےدوں گا۔
دوپہر کے وقت سیف الدین(بھیم سنگھ) ارور کے پروہت کے ساتھ ایک ٹیلے پر کھڑا دور راستے کی گرد میں ایک قافلے کو روپوش ہوتے دیکھ رہا تھا۔
پروہت نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔”سندھ کا آفتاب دوپہر کے وقت غروب ہورہا ہے۔“