ملتان کے محاصرے کے دوران میں محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف کی وفات کی خبر ملی۔اس کے ساتھ ہی اسے اپنی بیوی کا مکتوب ملا جس میں اس نے اپنے باپ کی موت کا ذکر کرنے کے بعد محمد بن قاسم کی ماں کے متعلق لکھا کہ ان کی صحت دوبارا خراب ہوگئی ہے لیکن ان کی یہ خواہش ہے کہ آپ ہندوستان میں اپنا کام ختم کیے بغیر گھر آنے کا ارادہ نہ کریں۔ زبیدہ نے اپنے متعلق لکھا۔”میں ان ہزاروں بیویوں سے مختلف نہیں۔جن کے شوہر سندھ، ترکستان اور اندلس میں برسرِپیکار ہیں اور سندھ کے سپہ سالار کی بیوی ہوتے ہوئے میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کی جدائی کو عام سپاہیوں کی بیویوں کی نسبت زیادہ صبروسکون کے ساتھ برداشت کروں،آپ نے لکھا تھا کہ ملتان کی فتح کے بعد ہمیں اپنے پاس بلوالیں گے لیکن والدہ کی صحت شاید آئندہ چند مہینے انھیں سفر کی اجازت نا دے۔ مجھے ڈر ہے کہ گھر کے متعلق آپ کی تشویش، آپ کی فتوحات کی رفتار پر اثر انداز نا ہو۔ انتہائی تشویش کے وقت آپ کی فتح کی خبر سن کر ان کے چہرے پر رونق آجاتی ہے۔ جب کبھی ان کا جی اداس ہوتا ہے تو میں ان کے منہ سے یہ دعا سنتی ہوں۔ ”یااللہ! مجھے قرونِ اولی کے مجاہدین کی ماوں کا صبر و استقلال دے۔“ اور جب کبھی وہ مجھے غمگین دیکھتی ہیں تو کہتی ہیں کہ ”زبیدہ تم ایک مجاہد کی بیوی ہو۔“ ناہید اور زہرا کو میرا سلام پہنچا دیجیے۔ مجھے ان بہنوں پر رشک آتا ہے جو ہر روز سندھ کے میدانوں میں مجاہدوں کے گھوڑے سے اٹھنے والی گرد دیکھتی ہیں۔ بصرہ میں ان عورتوں اور بچوں کا انتظار ہورہا ہے۔ جنھیں آپ نے برہمن آباد کے قید خانے سے آزاد کروایا ہے۔ انھیں کب بھیجیں گے؟ میں اس سے زیادہ اور کیا دعا کرسکتی ہوں کہ آپ کا ہر قدم بلندی کی طرف ہو اور میری نگاہ کا ہر آسمان آپ کے سمندرِ اقبال کے پاوں چومے۔“
چند دن کی مزاحمت کے بعد ملتان کے باشندوں نے ہتھیار ڈال دیے اور محمد بن قاسم امیرداود نصر کو ملتان کا امیراعلی مقرر کرکے ارور کی طرف وآپس ہوئے۔راستے میں اسے خبرملی کہ قنوج کا راجہ ہری چندر راجکمار جےسنگھ کو پناہ دےکر سندھ پر حملے کی تیاری کررہا ہے۔ یہ خبرسنتے ہی محمد بن قاسم یلغار کرتا ہوا ارور پہنچا اور وہاں قیام کیے بغیر قنوج پر چڑھائی کردی۔
(((یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ قنوج جنوبی ہند کا مشہور شہر نہیں بلکہ موجودہ اودھے پور کے قریب اس زمانے کی ایک طاقتور ریاست کا دارالحکومت تھا۔)))
سندھ اور راجپوتانہ کی سرحد پر دونوں افواج کا سامنا ہوا۔ راجہ ہری چندر جے سنگھ کی زبانی یہ سن کر اس کی اعانت کے لیے آمادہ ہوا تھا کہ بیرونی حملہ آواروں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ نہیں لیکن جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ محمد بن قاسم کی جے کے نعرے لگانے والے سندھی عربوں سے کہیں زیادہ ہیں تو وہ جےسنگھ کو کوستا ہوا میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ جے سنگھ کو بعض ساتھیوں نے اسے محمد بن قاسم کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانے کا مشورہ دیا لیکن اس نے چاروں طرف سے مایوس ہوکر بھی یہ مشورہ قبول نا کیا اور جنوب کی طرف راہِ فرار اختیار کی۔
صرف دوسرداروں نے اس کا ساتھ دیا اور باقی محمد بن قاسم کی پناہ میں چلے آئے۔
اس کے بعد محمد بن قاسم سندھ کے انتظامات درست کرنے اور سندھ کی ہمسایہ ریاستوں پر چڑھائی کرنے سے پہلے اپنی افواج کو ازسر نو منظم کرنے کے لیے ارور وآپس چلا آیا۔ بصرہ سے ایک قاصد اس کی آمد سے ایک روز قبل ارور پہنچ چکا تھا۔ اس نے محمد بن قاسم کو دیکھتے ہی کہا۔”سالارِ اعظم! میں ایک بہت بری خبرلایا ہوں۔“
محمد بن قاسم کے پرسکون چہرے پر تفکرات کے ہلکے سے آثار پیدا ہوئے اور اس نے اپنے ہونٹوں پر ایک مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔” یہ خبر میری ماں کے متعلق تو نہیں؟“
ایلچی نے اثبات میں سر ہلایا اور جیب سے خط نکال کر محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دےدیا۔ محمد بن قاسم نے جلدی سے خط کھول کر پڑھا اور ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ کہہ کر گردن جھکا لی۔
شام کے وقت شاہی محل کے اس حصے میں جسے محمد بن قاسم نے اپنے قیام کے لیے منتخب کیا تھا، شہر کے معززین کے علاوہ کئی بیوائیں جمع تھیں، جن کی نگاہوں میں فاتح سندھ ایک نیک دل بھائی اور نیک دل باپ کا رتبہ حاصل کرچکا تھا جو اسے اس دیوتاوں کی زمین پر ایک نیا دیوتا خیال کرتے تھے۔
محمد بن قاسم نے محل سے باہر نکل کر ایک مختصر سی تقریر میں ان کا شکریہ ادا کیا۔
رات کے وقت اس نے مشعل کی روشنی میں ایک بار زبیدہ کا مکتوب پڑھا اور اس کی نگاہیں دیر تک ان الفاظ پر مرکوز رہیں۔ بسترِ مرگ پر امی جان کے آخری الفاظ یہ تھے۔” میری روح جسم کی قید سے آزاد ہوکر ان میدانوں پر پرواز کرسکے گی جہاں میرا بیٹا اسلام کی فتوحات کے جھنڈے نصب کررہا ہے۔“
تین ماہ کے بعد محمد بن قاسم عرب سپاہیوں کے علاوہ ایک لاکھ سندھی نومسلم اور ان غیرمسلم سپاہیوں کو فوجی تربیت دےچکا تھا جو اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود باقی تمام ہندوستان کی آخری حدود تک اس کمسن سالار کی فتوحات کے پرچم لہرانا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت سمجھتے تھے۔ جس کے عدل و انصاف نے اسے فتوحہ علاقے کے ہر باشندے کی نگاہ میں ایک دیوتا بنا دیا تھا۔ وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور باقی ہندوستان کے لیے ایسے نجات دہندے کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔
ایک دن ارور کے ایک مشہور سنگ تراش نے شہر کے ایک چوراہے میں اپنا ایک شاہکار نمائش کے لیے رکھ دیا۔ یہ سنگ مرمر کی ایک مورتی تھی جس کے نیچے یہ الفاظ کندہ تھے۔” وہ دیوتا جس نے اس ملک میں عدل و مساوات کی حکومت قائم کی۔“
شہر کے ہزاروں باشندے اس مورتی کے گرد جمع ہوگئے اور مورتی کو پاوں سے لےکر سر تک پھولوں میں ڈھانپ دیا۔ ارور کے بہت سے سردار اس مورتی کو اپنے گھر کی زینت بنانے کے لیے سنگ تراش کو منہ مانگے دام دینے کے لیے تیار تھے لیکن شہر کے پروہتوں کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ محمد بن قاسم جیسے دیوتا کی مورتی کا مقام سرداروں کے محل نہیں بلکہ ہمارے مندر ہیں۔ سنگ تراش نے بھی اپنے شاہکار کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اسے کسی مندر میں جگہ دی جائے۔ پروہتوں نے اس کے لیے بدھ کا ایک پرانا مندر منتخب کیا۔
شام کے وقت مورتی کو مندر کی طرف لےجاتے ہوئے شہر کے پروہتوں اور عوام کا جلوس شاہی محل کے سامنے سے گزرا۔ بھیم سنگھ نے بھاگ کر محمد بن قاسم کو اطلاع دی کہ لوگ آپ کی مورتی کو مندر میں نصب کرنے کے لیے لےجارہے ہیں۔
محمد بن قاسم پریشان ہوکر محل سے باہر نکلا۔ جلوس اسے محل کی سیڑھیوں پر کھڑا دیکھ کر رک گیا۔ شہر کے بڑے پروہت نے آگے بڑھ کر کہا۔ ”یہ لوگ آپ کی اس سے زیادہ عزت نہیں کرسکتے۔ یہ ایک سنگ تراش کا کمال ہے۔ لیکن آپ کی تصویر جو ان کے دلوں میں ہے اس مورتی سے کہیں زیادہ حسین ہے۔“
محمد بن قاسم نے بلند آواز میں ہجوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔”ٹھہرو! میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں!“
ناقوس اور شہنائیوں کی صدائیں بند ہوگئیں اور مجمع پر ایک سکوت طاری ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے اپنی تقریر میں اصنام پرستی کے متعلق اسلام کے نقطہ نظر نگاہ کی وضاحت کی اور اختتام پر عوام سے یہ اپیل کی:-
”مجھے گہنگار نہ کرو۔مجھ میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ اسلام کی عطا کی ہوئی ہے اگر اسلام کا پیروکار ہوکر میں انسانیت کی کوئی اچھی مثال بن سکتا ہوں تو یہ دروازہ سب کے لیے کھلا ہے۔ تم میری پوجا ناکرو بلکہ اس کی پوجا کرو جس نے مجھے بنایا ہے، جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ جس کا دین ہر انسان کو عدل و مساوات اور حریت کا سبق دیتا ہے!“
لوگ جذبات سے مغلوب تھے لیکن مورتی کے مقابلے میں وہ جیتے جاگتے دیوتا کے حکم کی تکمیل سے انکار نہ کرسکے۔ جب محمد بن قاسم نے یہ کہا کہ۔” مجھے یہ سب کچھ دیکھ کر روحانی تکلیف ہوئی ہے۔“ تو سنگ تراش نے آگے بڑھتے ہوئے ہاتھ باندھ کر کہا۔”ایک سنگ تراش صرف مورتی بناکر اپنے جذبات کا اظہار کرسکتا ہے۔میں نے دیوتاوں کے نام سنے تھے اور ان کی مختلف خیالی تصوریں بنایا کرتا تھا۔مگر اب آپ کو دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہوچکا ہے کہ میں خواہ کسی دیوتا کی تصویر بناوں اس کی شکل و صورت وہی ہوگی جو آپ کی ہے۔ میرا بیٹا بیلا کی جنگ میں زخمی ہوا تھا۔ آپ نے دوسرے زخمیوں کی طرح اس کی بھی تیماداری کی اور اس کے زخم اچھے ہو گئے لیکن یہاں پہنچ کر وہ بیمار ہوگیا اور چند دن کے بعد وہ چل بسا مرتے وقت وہ آپ کے اس رومال کو چوم رہا تھا جو آپ نے اس کے زخم پر باندھا تھا اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں اس کی مورتی بناوں گا لیکن آپ کو برہم دیکھ کر شاید اس کی آتما کو بھی دکھ ہو۔ میں اپنے بیٹے کے دیوتا کی پوجا کرنے کی بجائے اس کا حکم ماننا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اگر آپ کو حکم ہو تو میں یہ مورتی توڑنے کے لیے تیار ہوں!“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”یہ آپ کا مجھ پر بڑا احسان ہوگا!“
”احسان! یوں نہ کہیے۔ اس مورتی کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی میں آپ کو ایک دیوتا ہی سمجھوں گا اور سندھ کے لاکھوں انسان بھی آپ کو دیوتا ہی خیال کریں گے۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن میری تمنا فقط یہ ہے کہ میں اس ملک میں انسانیت کا ایک خادم ہونے کی حثیت میں پہنچانا جاوں۔“
سنگ تراش نے سینے پر پتھر رکھ کر تیشے کی ایک ضرب سے مورتی کے ٹکڑے اڑا دیے لیکن ہجوم ان ٹکڑوں کو جواہرات کا انبار سمجھ کر ان پر ٹوٹ پڑا۔
اس واقعے کے بعد ارور کے ہزاروں باشندے اسلام کی تعلیم کے ساتھ دلچسپی لینے لگے اور سندھ کے طول و عرض میں نومسلموں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہونے لگا۔
ارور سے چند سالار رخصت پر جارہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ واپسی پر اپنے بال بچوں کو ساتھ لاکر مستقل طور پر سندھ میں آباد ہوجائیں۔
محمد بن قاسم نے زبیدہ کو لکھا کہ وہ بصرہ سے سندھ آنے والی خواتین کے ساتھ چلی آئے اور بصرہ کے حاکم کو یہ بھی لکھا کہ اسے باقی عورتوں کے ساتھ سپاہیوں کی حفاظت میں ارور تک پہچانے کا انتظام کرے۔اس کے بعد وہ چند دن راجپوتانہ اور پنجاب کی تسخیر کے لیے نقشے بنانے میں مصروف رہا۔ چنددن کے غوروغوض کے بعد اس نے پنجاب سے پہلے راجپوتانہ کو تسخیر کرنا ضروری خیال کیا، اس کا ارادہ تھا کہ زبیدہ کی آمد تک راجپوتانہ کی مہم سے فارغ ہوجائے اور اس کے بعد ملتان کو اپنا مستقر بناکر پنجاب کا رخ کرے۔ چنانچہ اس نے بصرہ جانے والے سپاہیوں کے رخصت ہونے کےسات دن بعد ایک شام شہر سے باہر فوجی مستقر میں اپنی فوج کے سامنے مختصر سی تقریر کرنے کے بعد انھیں یہ حکم دیا کہ وہ علی الصباح کوچ کے لیے تیار رہیں۔
لیکن ایک مغربی مورخ کے قول کے مطابق محمد بن قاسم کا آفتاب اقبال عین دوپہر کے وقت غروب ہورہا تھا۔ صبح کی نماز کے بعد جب ارور کے باشندے پڑاو میں جمع ہوکر جب محمد بن قاسم کو الوداع کہہ رہے تھے اور عورتیں آگے بڑھ بڑھ کر سپاہیوں کے گلوں میں پھولوں کے ہار ڈال رہیں تھیں۔ اچانک ایک طرف سے اٹھتی ہوئی گرد دکھائی دی اور آن کی آن میں پچاس مسلح عرب نمودار ہوئے۔ محمد بن قاسم ایک سفید گھوڑے پر سوار فوج کی صفوں میں چکر لگارہا تھا۔ دور سے آنے والے سواروں کی رفتار سے اس کا ماتھا ٹھنکا اور وہ اپنے چند سالاروں کے ساتھ ایک طرف ہوکر سواروں کی راہ تکنے لگا۔
ان سواروں کی ہمراہ محمد بن قاسم کے وہ سالار بھی تھے جو ایک ہفتہ پہلے بصرہ کے لیے رخصت پر روانہ ہوئے تھے۔ ایک سوار نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کو ایک خط پیش کرتے ہوئے کہا۔” یہ امیرالمومنین سلیمان بن عبدالملک کا مکتوب ہے۔“
محمد بن قاسم نے چونک کرکہا۔”امیرالمومنین۔۔۔۔۔۔۔سلیمان۔۔۔۔؟“
اس نے جواب دیا۔”ہاں! خلیفہ ولید وفات پاچکے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ پڑھ کر جلدی سے خط پڑھا اور کچھ دیر گردن جھکاکر سوچنے کے بعد قاصد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔” مجھے سلیمان سے یہی توقع تھی۔ یزید بن ابوکبشہ کون ہے؟“
ایک ادھیڑ عمر آدمی نے گھوڑا آگے کیا۔”میں ہوں!“
محمد بن قاسم نے گھوڑا آگے بڑھا کریزید بن ابوکبشہ سے مصافحہ کیا اور کہا۔”آپ کو اس فوج کی قیادت مبارک ہو۔ میں امیرالمومنین کی بیڑیاں پہننے کے لیے حاضر ہوں!“
یزید بن ابوکبشہ، محمد بن قاسم کی مغموم مسکراہٹ سے متاثر ہوئے بغیر نارھ سکے۔ اس نے پڑاو میں ان بیشمار سپاہیوں کی طرف دیکھا جو کوچ کے لیے امیر عساکر کے حکم کے منتظر تھے پھر ان سالاروں کی طرف دیکھا جو ولید کی موت اور سلیمان کی مسند نشینی کی خبر سن کر محمد بن قاسم کے گرد جمع ہوگئے تھے۔یزید بن ابوکبشہ نے محسوس کیا کہ وہ خود ایک لاکھ جانبازوں کی قائد کے سامنے ایک مجرم کی حثیت میں کھڑا ہے۔ محمد بن قاسم کے یہ الفاظ کہ ”میں امیر المومنین کی بیڑیاں پہننے کے لیے حاضر ہوں!“ اس کے کانوں میں بار بار گونج رہے تھے۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ قدرت نے اس کے کاندھوں پر زمین آسمان کا بوجھ لاد دیا ہے۔ محمد بن قاسم کی طرف اس کی نگاہیں کی بار اٹھ اٹھ کر جھکیں اور جھک جھک کر اٹھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ ان سب کی گردنیں جھکی ہوئیں تھیں۔ کئی بار الفاظ اس کی زبان تک آآ کر رک گئے۔ بالآخر اس نے کہا۔”میرے دوست! قدرت نے یہ خفت میرے حصے میں لکھی تھی۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ فقط ایلچی ہیں۔ خالد! انھیں محل میں لے چلو اور زبیر تم سپاہیوں کو حکم دو کہ ہم نے آج کوچ کا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔“
بھیم سنگھ نے آگے بڑھ کر کہا۔”اگر اس خط میں کوئی راز کی بات نا ہوتو ہم سب یہ جاننے کے لیے بےقرار ہیں کہ دربارِ خلافت سے آپ کو کیا حکم ملا ہے؟“
محمد بن قاسم نے خط محمد بن ہارون کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”یہ آپ کو پڑھ کر سنادے گا۔“
شام کے وقت ارور کے ہر گلی کوچے میں کہرام مچا ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف کے خاندان کے ساتھ سلیمان کی پرانی دشمنی کی خبر مشہور ہوچکی تھی۔ ہر گھر میں سندھ کے نئے گورنر کی آمد اور محمد بن قاسم کی روانگی کا ذکر ہورہا تھا۔ شہر کے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے شاہی محل کے گرد جمع ہوکر شور مچارہے تھے۔
نمازِ مغرب کے بعد محمد بن قاسم کی فوج کے تمام عہدےدار محل کے ایک وسیع کمرے میں جمع ہوئے۔ محمد بن قاسم کو اس کی مرضی کے خلاف اس اجتماع میں شریک ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس نے ایک مختصر سی تقریر میں کہا:-
”میں صبح دمشق جانے کا فیصلہ کرچکا ہوں اور اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک سپاہی کا سب سے پہلا فرض اطاعتِ امیر ہے۔ آپ اس حادثے پر پریشان نہ ہوں اور اپنے نئے حاکم کے ساتھ پورا تعاون کریں۔ امیرالمومنین سلیمان غالباً یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرے دل میں اطاعتِ امیر کا جذبہ ہے یا نہیں۔دمشق سے روانگی کے وقت وہ مجھ سے بدظن ہوگئے تھے لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہ تھا۔ اب وہ امیرالمومنین ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہوگی۔ بہت ممکن ہے کہ وہ ہندوستان میں مجھے اپنا ادھورا کام پورا کرنے کے لیے بھیج دیں لیکن اگر میں ان کی غلط فہمی دور نہ کرسکا اور مجھے دوبارا یہاں آنے کا موقع نہ دیا گیا تو بھی یزید بن ابوکبشہ کی اطاعت تمہارا فرض ہے!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”آپ جو حکم دیں ہم ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن سندھ کے تمام سرداروں کی رائے یہ ہے کہ آپ اس وقت تک یہاں سے نا جائیں جب تک آپ کو خلیفہ کی نیک نیتی کا یقین نا ہوجائے۔ میں زبیر سے دمشق کے واقعات سن چکا ہوں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ سلیمان آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کرے گا۔ ہم آپ کو سلیمان کی رعیت نہیں سمجھتے۔ بلکہ اپنے دلوں کا بادشاہ سمجھتے ہیں۔ ہم آپ کے اشارے پر آگ میں کود سکتے ہیں لیکن یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے آپ کو بیڑیاں پہنائی جائیں۔آپ کے عرب ساتھیوں کے دلوں میں دربارِ خلافت کا احترام ہوتو ہو لیکن ہم ایسے خلیفہ کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیں جو سندھ کو اس کے محسنِ اعظم سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ ہم زندگی اور موت میں آپ کا ساتھ دینے کا عہد کرچکے ہیں اور یہ عہد ٹوٹنے والا نہیں۔ آپ سندھ میں رہیں، سندھ کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ کے عرب ساتھی اگر آپ کا ساتھ چھوڑ بھی دیں تو بھی ہماری ایک لاکھ تلوریں آپ کی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ سندھ کر ہر بچہ اور بوڑھا خطرے کے وقت آپ پر جان قربان کرنے کے لیے تیا ہوگا۔ بھگوان کے لیے آپ نا جائیں اور کم از کم اس وقت تک نا جائیں جب تک ہمیں یہ اطمینان نہ ہوجائے کہ سلیمان آپ کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرے گا۔اگر میرے الفاظ آپ پر اثر نہیں کرتے تو آپ اس محل کے نیچے جھانک کر دیکھ لیں کہ وہ ہزاروں یتیم جو آپکو اپنا باپ سمجتے ہیں، وہ ہزاروں بوڑھے جو آپ کو اپنا باپ سمجھتے ہیں اور وہ بیوائیں جو آپ کو اپنا بھائی سمجھتی ہیں، آپ پر کوئی حق رکھتے ہیں یا نہیں؟“
اختتام پر بھیم سنگھ کی آواز بھرا گئی۔حاضرین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
زبیر نے کہا۔”آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سلیمان آپ کے ساتھ نیک سلوکی نہیں کرے گا۔ آپ یہیں ٹھہریں اور مجھے امیرالمومنین کی خدمت میں حاضری کا موقع دیں۔ میری جان اس قدر قیمتی نہیں لیکن سندھ اور عالمِ اسلام کو آپ کی ضرورت ہے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میں اپنے کر سپاہی کی جان کو اپنی جان سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں اور بھیم سنگھ! تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں لیکن تم میری ذات کو میرے مقصد سے زیادہ اہمیت دے رہے ہو۔ تم نہیں جانتے دربارِ خلافت سے میری بغاوت دراصل اس عظم الشان مقصد سے بغاوت ہوگی جس کے لیے گزشتہ ایک صدی میں لاکھوں سرفروش اپنا خون بہاچکے ہیں۔ یہ ایک لاکھ انسان تمان ہندوستان کو فتح کرنے کے لیے کافی ہیں اور میری جان اس قدر قیمتی نہیں کہ میں سندھ کی ایک لاکھ تلواروں کو عالمِ اسلام کی ایک لاکھ تلواروں سے ٹکرانے کی اجازت دے دوں۔ایسی بغاوت میں میری فتح بھی مسلمانوں کی بدترین شکست کے مترادف ہوگی۔ کیا میں یہ گوارا کرسکتا ہوں کہ اس وقت ترکستان اور اندلس میں ہماری جو افواج مصروفِ جہاد ہیں، وہ صرف اس لیے بلا لی جائیں کہ سندھ کے سپہ سالار نہیں اپنی جان کے خوف سے عالمِ اسلام کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ اگر یہ سوال میری اور سلیمان کی ذات تک محدود ہوتا تو شاید میں اس کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتا لیکن میں اس قوم کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہوں جو سلیمان کو اپنا خلیفہ تسلیم کرچکی ہے۔ اگر میری موت مسلمانوں کو اتنے بڑے انتشار سے بچا سکتی ہے تو میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا۔ تم یہ کہہ چکے ہو کہ تم میرے اشارے پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔ میں تم سے کوئی قربانی طلب کرنے کا حق دار نہیں لیکن اگر تم چاہتے ہو کہ سندھ سے رخصت ہوتے وقت میرے دل پر کوئی بوجھ نہ ہو اور میں اپنے دل میں یہ اطمینان لےکر جاوں کہ سندھ میں میرا کوئی کام ادھورا نہ تھا تو تم جو دین عملاً قبول کرچکے ہو اس کا زبان سے بھی اقرار کردو۔ میری یہ دعوت اپنے ان تمام احباب کے لیے ہے جو اس جگہ موجود ہیں۔ تم جیسے لوگوں کے قبول اسلام کے بعد سندھ کا مستقبل کسی محمد بن قاسم کا محتاج نہ ہوگا۔ اب عشاء کی نماز کا وقت ہورہا ہے اور آج میری حالت اس مسافر کی سی ہے جو ایک لمبے سفر کے بعد منزل پر قدم رکھتے ہی سوجانا چاہتا ہو۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری ذات سے متاثر ہوکر فوراً کوئی فیصلہ کریں لیکن اگر آپ دل سے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کرچکے ہیں تو مجھے آپ کا اعلان سن کر روحانی مسرت ہوگی!“
بھیم سنگھ نے بلند آواز میں کلمہ توحید پڑھتے ہوئے کہا۔”میں اگر اسلام کی خوبیوں کا معترف نا بھی ہوتا تو بھی آپ کی دعوت پر انکار نہ کرتا۔ میرے نزدیک اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ جیسے لوگ مسلمان ہیں!“
محمد بن قاسم نے آٹھ کر بھیم سنگھ کو سینے سے لگا لیا اور کہا۔”مسلمانوں میں تمہیں مجھ جیسے ہزاروں انسان ملیں گے۔“
آٹھ اور سرداروں نے بھیم سنگھ کی تقلید کی اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
جب یہ لوگ عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد سے باہر نکل رہے تھے تو محل کے ایک اور کمرے سے بڑے پروہت کی قیادت میں معززین شہر کا ایک وفد یزید بن ابوکبشہ سے ملاقات کے بعد وآپس جارہا تھا۔ اس وفد کے ارکان مرجھائے ہوئے چہروں کے ساتھ یزید کے کمرے میں داخل ہوئے تھے اور مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ یزید ان کے دیوتا ہی جان بچانے کا وعدہ کرچکا تھا اور وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ سندھ کے آفتاب کے گرد جمع ہونے والے بادل چھٹ چکے ہیں۔
پروہت اور اس کے ساتھی محل سے باہر نکلے تو بے شمار لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے۔ ہزاروں سوالات کے جواب میں پروہت نے فقط یہ کہا کہ۔” تم اپنے اپنے گھر جاو! سندھ کے مقدر کے ستارے کی نحوست ٹل چکی ہے۔ تمہارا دیوتا تمہیں مل جائے گا۔“
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...