راجہ کاکا نے چند دنوں میں اپنی بچی کھچی فوج دوبارا منظم کی اور محمد بن قاسم کے ساتھ شامل ہوگیا۔محمد بن قاسم نے یہاں سے برہمن آباد کا رخ کیا اور برہمن آباد سے چند کوس دور دریا کے کنارے پر پڑاو ڈال دیا۔یہاں اسے دریا عبور کرنے کی تیاریوں میں چنددن لگ گئے۔اس مرحلہ میں سعد(گنگو) اس کے لیے ایک بہت بڑا مددگار ثابت ہوا۔ اس کے ساتھی دریا کے کنارے دور تک ماہی گیروں کی بستیوں میں سندھ کے نجات دہندہ کی آمد کا پیغام لےکر پہنچے اور چنددنوں میں کئی ملاح اپنی کشتیوں سمیت محمد بن قاسم کی اعانت کے لیے آجمع ہوئے لیکن دریا عبور کرنے سے محمد بن قاسم کے گھوڑوں میں ایک وباپھوٹ نکلی اور چنددنوں میں گھوڑوں کی ایک خاصی تعداد ہلاک ہوگئی۔حجاج بن یوسف نے یہ خبر سنتے ہی بصرہ سے دوہزار اونٹوں پر سرکہ لاد کر بھیج دیا اور یہ سرکہ اس خطرناک بیماری کے لیے مفید ثابت ہوا۔
جون ٧٢٣عیسوی میں محمد بن قاسم نے کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر دریائے سندھ عبور کرلیا۔
راجہ داہر قریباً دوسو ہاتھیوں کے علاوہ اپنی فوج میں پچاس ہزار سواروں اور کئی پیدل دستوں کا اضافہ کرچکے تھا۔ جون کے آخری دنوں میں دریا زوروں پر تھا اور یہ امید نا تھی کہ محمد بن قاسم اسے عبور کرنے میں اس قدر مستعدی سے کام لےگا۔ اس نے اپنے لشکر کو فوراً پیش قدمی کا حکم دیا اور محمد بن قاسم کے مستقر سے دوکوس کے فاصلے پر پڑاو ڈال دیا۔
چنددن دونوں افواج کے گشتی دستوں کے درمیان معمولی جھڑپیں ہوتی رہیں۔بالآخر ایک شام محمد بن قاسم نے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔رات کے وقت عشاء کی نماز کے بعد اس نے مشعل کی روشنی میں اپنی بیوی کے نام ایک خط لکھ کر قاصد کے حوالے کیا۔
رفیقہ حیات!
خدا تمہیں ایک مجاہد کی بیوی کا عزم اور حوصلہ عطا کرے۔میں صبح دشمن کی بےشمار فوج کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے جارہا ہوں اور یہ مکتوب تمہارے ہاتھ تک پہنچنے سے پہلے سندھ کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔میرا دل گواہی دیتا ہے کہ خدا مجھے فتح دےگا۔مجھے اپنے سپاہیوں پر ناز ہے اور ان سپاہیوں سے زیادہ عرب کی ان ماووں پر ناز ہے جن کا دودھ ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔جنھوں نے انھیں بچپن میں لوریاں دیتے وقت بدروحنین کی داستانیں سنائیں۔مجھے ان بیویوں پر ناز ہےجن کی فرض شناسی نے ان کے شوہروں کو غازیوں کی زندگی اور شہیدوں کی موت کی تمنا کرنا سیکھایا ہے۔ جن کی محبت نے ان کے پاوں میں زنجیریں پہنانے کی بجائے انھیں تسخیرِ عالم کا سبق دیا ہے اور مجھے اطمینان ہے کہ جب تک ان مجاہدوں کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نہیں بہہ جاتا یہ اسلام کا جھنڈا سرنگوں نا ہونے دیں گے۔
میں تمہاری اور اماں جان کی جداہی سے کبھی پریشان نہیں ہوا۔ میں تمہاری یاد سے بھی غافل نہیں۔ لیکن جب میں اپنے ساتھ ہزاروں ان نوجوانوں کو دیکھتا ہوں جو خدا کی راہ میں صبر اور شکر کے ساتھ اپنی بیویوں، ماوں اور دوسرے عزیزیوں کی جدائی برداشت کررہے ہیں تو مجھے اس بات سے بڑے خوشی ہوتی ہے کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔پچھلی جنگوں میں جو نوجوان شہید ہوچکے ہیں، ان میں سے بعض کی ماوں نے مجھ سے خط لکھ کر یہ پوچھا ہے کہ ان کے بیٹوں کا خون ایڑھیوں پر تو نہیں گرا اور اگر میں شہید ہوجاوں تو مجھے توقع ہے کہ میری ماں بھی میرے ساتھیوں سے یہی سوال کرے گی۔
میں تم سے یہ وعدہ کرچکا ہوں کہ جب تک بیوہ عورتیں اور یتیم بچے رہا نا ہوں گے، میں اپنی رفتار سست نا ہونے دوں گا اور میں یہ وعدہ پورا کرکے رہوں گا اور تم مجھ سے وعدہ کرچکی ہو کہ تم میری شہادت پر آنسو نہیں بہاو گی۔تم بھی اپنا وعدہ پورا کرنا۔امی جان سے میرا مودبانہ سلام کہنا۔میں ان کے نام ایک علیحدہ خط لکھ رہا ہوں۔
*تمہارا محمد*
دوسرا خط ماں کو لکھنے کے بعد محمد بن قاسم میدانِ جنگ کا نقشہ دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
صبح کی نماز کے بعد مسلمانوں کی فوج کیل کانٹے کی سے لیس ہوکر صفوں میں کھڑی ہوگئی۔محمد بن قاسم نےگھوڑے پر سوار ہوکر ایک پرجوش تقریر کی:-
”اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے سپاہیو! آج تمہاری شجاعت، تمہارے ایمان اور تمہارے ایثار کے امتحان کا دن ہے۔دشمن کی تعداد سے نا گھبرانا۔تاریخ گواہ ہے کہ کفرواسلام کے گزشتہ تمام معرکوں میں باطل کے علمبردار حق پرستوں کے مقابلے میں زیادہ تھے اور حق پرستوں نے پمیشہ یہ ثابت کیا کہ فوج کی طاقت کا راز افراد کی تعداد میں نہیں بلکہ ان کے ایمان کی پختگی اور ان کے مقاصد کی بلندی میں ہے۔ہماری جنگ کسی قوم کے خلاف نہیں، کسی ملک کے خلاف نہیں، بلکہ دنیا کے تمام ان سرکشوں کے خلاف ہے جو خدا کی زمین پر فساد پھیلاتے ہیں۔ہم روئے زمین پر اپنی حکومت نہیں بلکہ خدا کی حکومت چاہتے ہیں۔ہم اپنی سلامتی اور اپنے ساتھ دنیا کے تمام انسانوں کی سلامتی چاہتے ہیں۔ اور خدا کی زمین پر سلامتی کا راستہ صرف السلام ہے۔یہ وہ دین ہے جو دنیا سے آقا اور غلام، گورے اور کالے، عربی اور عجمی کی تمیز مٹاتا ہے۔ہمارا مقصد اس دین کی فتح ہے اور اس مقصد کے لیے جینا اور مرنا دنیا کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ہمارے اباواجداد اس مقصد کے لیے لڑے۔ خدا نے ان کی مٹھی بھر جماعت کے سامنے دنیا کے بڑے بڑے جابر اور قاہر شہنشاہوں کی گردنیں جھکا دیں۔
عرب کے شہسوارو! تمہیں اپنے مقدر پر فخر کرنا چاہیے کہ خدا نے اپنے دین کی اشاعت کے لیے تمہیں منتخب کیا۔تم نے خدا کی راہ میں سردھڑ کی بازی لگائی اور خدا نے تمہیں ارض و سما کی نعمتوں سے مالا مال کردیا۔ وہ وقت یاد کرو جب خدا نے اپنے تین سو تیرہ بےسروسامان بندوں کو بہترین ہتھیاروں سے مسلح لشکر پر فتح دی تھی۔قادسیہ، یرموک اور اجنا دین کے میدانوں میں حق کی ایک تلوار کے مقابلے میں باطل کی دس اور بعض اوقار اس سے بھی زیادہ تلواریں بےنیام ہوئیں۔ لیکن خدا نے ہمیشہ حق پرستوں کو فتح دی۔خدا آج بھی تمہاری مدد کرے گا لیکن یاد رکھو قدرت کے فیصلے اٹل ہیں۔قدرت صرف ان کی مدد کرتی ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔تم اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوئے بغیر خدا کے انعامات کے مستحق نہیں ہوسکتے۔قدرت کا دستِ شفقت صرف ان کی طرف دراز ہوتا ہے جو تیروں کی بارش میں سینہ سپر ہوتے ہیں۔جو خندقوں کو اپنی لاشوں سے پاٹتے ہیں۔قدرت کے انعامات صرف ان اقوام کے لیے ہیں جن کی تاریخ کا ہر صفحہ شہیدوں کے خون سے رنگین ہے۔
یادرکھو! بنی اسرائیل بھی خدا کی لاڈلی امت تھی لیکن جب وہ راہِ حق میں جہاد کی ذمہ داری خدا اور اس کے پیغمبر کو سونپ کربیٹھ گئے تو قدرت نے انھیں دھتکار دیا اور انھیں آج اس زمین پر جائے پناہ نہیں ملتی۔جس پر کسی زمانے میں ان کے اقبال کے پرچم لہراتے تھے۔ خدا وہ دن نا لائے کے تم بھی بنی اسرائیل کی طرح اپنی کتاب زندگی سے جہاد کا باب خارج کردو۔
میرے دوستو اور میرے بھائیو! آج تمہارے لیے ایک سخت آزمائش کا دن ہے۔تمہیں بدروحنین کے مجاہدوں کی سنت ادا کرنی ہے۔تمہیں قادسیہ اور یرموک کے شہیدوں کی نقشِ قدم پر چلنا کر دکھانا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ آج کے دن فتح کے لیے خدا نے جس جماعت کو منتخب کیا ہے، وہ تم ہو۔مجھے یقین ہے کہ حق کی تلواروں کے سامنے سندھ کا لوہا روم و ایران کے لوہے کے مقابلے میں سخت ثابت نہ ہوگا۔ظالم لوگ کبھی بہادر نہیں ہوتے لیکن میں پھر ایک بار تمہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ حق کی راہ کو کفر کے کانٹوں سے پاک کرتے وقت یہ خیال رکھنا کہ تم کوئی مہکتا ہوا پھول بھی اپنے پاوں سے نہ مسل ڈالو۔گرے ہوئے دشمن پر وار نہ کرنا۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر تمہارا ہاتھ نہ اٹھے۔میں جانتا ہوں کہ سندھ کے راجہ نے عرب عورتوں اور بچوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ انتقام کا جذبہ کہیں تمہیں ظلم پر آمادہ ناکردے۔خدا کے قانون میں توبہ کرنے والوں کے لیے ہر وقت رحم کی گنجائش ہے۔دشمن کو مغلوب کرو اور اس پر ثابت کردو کہ ہماری غیرت خدا کی غیرت ہے اور ہماری تلوار خدا کی تلوار ہے۔ لیکن جب وہ اپنی شکست کا اعتراف کرلے اور تم سے پناہ مانگے تو اسے اٹھا کر گلے لگا لو اور کہو کے اسلام کی رحمت کا دروازہ کسی کے لیے بند نہیں۔
تم جانتے ہو اس دنیا میں کسی کو اتنا نہیں ستایا گیا جس قدر کفارِ مکہ نے پیغمبرِ السلام کو ستایا تھا۔ظلم کے ترکش میں کوئی ایسا تیر نہیں تھا۔جس سے اس کے مقدس جسم کو مجروح کرنے کی کوشش نا کی گئی ہو۔ رحمتہ العالمین کی آنکھون کے سامنے ان کے جانثاروں کے سینوں پر تپتے ہوئے پتھر رکھے گئے اور جب آپ نے ہجرت کی تو ظالموں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا نہ چھوڑا۔مدینے کی جنگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی جانثار شہید ہوئے لیکن فتح مکہ کے بعد اپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ اسی نیک سلوک کا نتیجہ تھا کہ آپ کے بدترین دشمن آپ کے بہترین جانثار بن گئے۔ آج ترکستان اور افریقہ میں ہر اس ملک کے باشندے جو کسی زمانے میں ہمارے خلاف نبردآزما ہوئے تھے۔اسلام کی فتح کے لیے ہمارے دوش بدوش لڑرہے تھے۔ یہ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سندھ بلکہ سارا ہندوستان کسی دن ایران، شام اور مصر کی طرح دنِ حق کی فتح کے لیے ہمارا ساتھ نہیں دےگا۔میرے دوستو! آج تمہاری منزل برہمن آباد ہے۔آو ہم فتح کے لیے دعا کریں۔“
محمد بن قاسم نے یہ کہہ کر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔
”اے سزا اور جزا کے مالک! ہم تیرے دین کی فتح چاہتے ہیں۔ہمیں اپنے اسلاف کا جذبہ عطا کر۔ رب العالمین! حشر کے دن ہماری ماوں کو شرمسار نہ کرنا۔ ہمیں غازیوں کی زندگی اور شہیدوں کی موت عطا کر۔“
شام تک سندھ کی فوج راجہ دہر کے علاوہ تیس ہزار لاشیں میدان میں چھوڑ کر پسپا ہوچکی تھی۔ فوج کے وہ دستے جنہیں تیسرے پہر ہی اپنی شکست کا یقین ہوچکا تھا، ارور کا رخ کرچکے تھے۔باقی فوج نے راجہ داہر کے قتل ہوجانے پر ہمت ہار دی اور برہمن آباد کا رخ کیا۔
مسلمان کچھ دیر ان کا تعاقب کرنے کے بعد کیمپ کی طرف لوٹ آئے۔اس جنگ میں مسلمان زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب تھی۔ سپاہی زخمیوں کو میدان سے اٹھا اٹھا کر قطاروں میں لٹا رہے تھے اور محمد بن قاسم جراہوں کی جماعت کے ساتھ ان کی مرہم پٹی میں مصروف تھا۔زبیر ایک زخمی کو پیٹ پر اٹھائے ہوئے محمد بن قاسم کے قریب پہنچا اور اسے زمین پر لٹاتے ہوئے محمد بن قاسم سے مخاطب ہوا۔”آپ زرا اسے دیکھ لیں۔یہ بہت بری طرح زخمی ہوا ہے!“
محمد بن قاسم نے جلدی سے اٹھتے ہوئے محمد بن قاسم کے قریب آکر کہا۔”کون؟ سعد؟“
سعد کا چہرہ خون سے رنگا ہوا تھا۔محمد بن قاسم نے کپڑے سے اس کا منہ پونچنے کی کوشش کی لیکن اس نے محمد بن قاسم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”اب اس کی ضرورت نہیں۔میں بس آخری بار آپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔“
زبیر اور محمد بن قاسم نے ادھر ادھر دیکھا۔خالد چند قدم کے فاصلے پر زخمیوں کو پانی پلا رہا تھا۔زبیر نے اسے آواز دی اور وہ بھاگتا ہوا سعد کے قریب پہنچا۔ ”چچا تم!۔۔۔۔۔۔“ اس کی زبان سے بےاختیار نکلا۔
سعد نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا اور خالد اسے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ گیا۔
سعد نے کہا۔”مجھے اب موت کا ڈر نہیں لیکن میں بہت گنہگار ہوں۔کیا آپ کو یقین کے کہ خدا مجھے معاف کردے گا!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”شہیدوں کا خون ان کے تمام گناہ دھو دیتا ہے۔“
سعد نے خالد کی طرف دیکھا اور نحیف آواز میں کہا۔ ”بیٹا زہرا کا خیال رکھنا اور زبیر تمہیں ناہید کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔“ تھوڑی دیر تک اس نے یکے بعد دیگرے ان دونوں کی طرف دیکھا اور محمد بن قاسم کے چہرے پر نگاہیں گاڑ دیں۔اس کی آنکھوں کی چمک مانند پڑ گئی۔سعد نے چند اکھڑی ہوئی سانسیں لینے کے بعد خالد اور محمد بن قاسم کے ہاتھ چھوڑ دیے۔اتنی دیر میں سعد کے چند اور رفیق بھی اس کے گرد جمع ہوچکے تھے۔ محمد بن قاسم نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اناللہ واناالیہ راجعون پڑھا اور اپنے ہاتھ سے اس کی آنکھیں بند کردیں۔
محمد بن قاسم اٹھ کر پھر زخمیوں کی طرف متوجہ ہونا چاہتا تھا کہ ایک سوار اپنے آگے ایک زخمی کو لادے ہوئے اس کے قریب پہنچا۔محمد بن قاسم نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا۔”بھیم سنگھ تم۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ کون ہے؟“
ایک سپاہی نے زخمی کو اتار کر نیچے لٹا دیا۔بھیم سنگھ نے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا۔”خالد! اپنے باپ کی طرف دیکھو!“
خالد سرجھکائے سعد کے قریب بیٹھا تھا۔اس نے زخمی کو دیکھتے ہی ہلکی سی چیخ ماری اور بھاگ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔”ابا!! میرےابا!!!“
زخمی کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر وہ بھیم سنگھ کی طرف متوجہ ہوا۔”آپ انھیں کہاں سے لائے ہیں؟ یہ کیسے زخمی ہوئے؟“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”میں، پتاجی اور یہ ارور کے قید خانے سے ایک فوجی افسر کی وجہ سے فرار ہوئے تھے۔جب ہم یہاں پہنچے تو راجہ کی فوج فرار ہورہی تھی انھوں نے پتاجی کے سمجھانے کے باوجود سپاہیوں کے ایک گروہ پر حملہ کردیا۔میں اور پتاجی نے مجبوراً ان کا ساتھ دیا۔پتاجی ایک تیرکھا کر گھوڑے سے گرپڑے اور ایک ہاتھی کے پاوں تلے کچلے گئے۔“ یہاں تک کہہ کر بھیم سنگھ خاموش ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔تھوڑی دیر بعد اس نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”اور یہ بےتحاشا آگے بڑھتے گئے۔پانچ چھ سپاہیوں کو مارنے کے بعد یہ زخمی ہوکر گھوڑے سے گرپڑے۔ان کی آخری خواہش تھی کہ میں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔آپ انھیں اچھی طرح دیکھیں۔میرا خیال ہے کہ یہ ابھی تک زندہ ہیں!“
محمد بن قاسم نے چند سپاہیوں کو اشارہ کیا اور کہا۔”تم ان کے ساتھ جاو اور ان کے پتاجی کی لاش اٹھا لاو اور خود ابوالحسن کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”انھیں غش آگیا ہے۔پانی لاو!“
ایک سپاہی نے مشکیزے سے پانی کا گلاس بھر کر پیش کیا اور محمد بن قاسم نے ابوالحسن کا منہ کھولتے ہوئے اسے پانی کے چند گھونٹ پلادیے۔
بوالحسن نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں لیکن خالد کو پہچانتے ہی اس پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوگئی۔اسے دوبارا ہوش میں لانے کے بعد محمد بن قاسم نے اس کے سینے کے زخم کی مرہم پٹی کی۔
خالد سے ابوالحسن کا پہلا سوال یہ تھا۔”تمہاری ماں کہاں ہے؟
”وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔!“ خالد گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
ابوالحسن نے اپنے چہرے پر دردناک مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔بیٹا! گھبراو نہیں۔میں سمجھ گیا ہوں وہ زندہ نہیں۔ناہید کہاں ہے؟“
”وہ دیبل میں ہے!“
”تو تمہاری بیوی بھی وہیں ہوگی۔کاش! میں موت سے پہلے انھیں دیکھ سکتا۔لیکن وہ بہت دور ہیں اور میں فقط چند گھڑیوں کا مہمان ہوں!“
محمد بن قاسم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”آپ فکر نا کریں۔میں ابھی انھیں بلابھیجتا ہوں۔ان شاء اللہ وہ ڈاک کے گھوڑوں پر پرسوں تک یہاں پہنچ جائیں گی۔“
ابوالحسن نے احسان مندانہ نگاہوں سے محمد بن قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”شکریہ! لیکن میں شاید پرسوں تک زندہ نا رہوں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ کا زخم زیادہ خطرناک نہیں۔اگر قدرت کو آپ کی ملاقات منظور ہے تو وہ ہوکر رہے گی!“
چوتھے روز طلوعِ آفتاب سے کچھ دیر بعد ابوالحسن کے بستر کے گرد محمد بن قاسم، خالد اور زبیر کے علاوہ ناہید اور زہرہ بھی موجود تھیں۔ناہید اور زہرا نے شام کے وقت اس جگہ پہنچنے کے بعد سفر میں تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود زبیر اور خالد کی طرح ساری رات ابوالحسن کی تیماداری میں کاٹی تھی۔
نزع سے کچھ دیر پہلے ناہید اور زہرا کی طرح خالد کی آنکھوں میں بھی آنسو دیکھ کر ابوالحسن نے کہا۔”بیٹا میں اپنے لیے اس سے بہتر موت کی دعا نہیں کرسکتا تھا۔موت پر آنسو بہانا دنیا کی ایک رسم ہے لیکن شہادت کی موت کے لیے اس رسم کو پورا کرنا شہادت کا مذاق اڑانا ہے۔ اس طرح ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میری طرف نہ دیکھو۔ مجھے آنسووں سے نفرت ہے۔زندگی کی کٹھن منازل میں ایک مسلمان کی پونجی آنسو نہیں خون ہے!“
خالد نے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا۔”اباجان مجھے معاف کردیجیے!“
دوپہر کے وقت ابوالحسن نے داعی اجل کو لبیک کہا۔