نیرون کے وسیع کمرے میں راجہ داہر سونے کی ایک کرسی پر رونق افروز تھا۔اودھے سنگھ سندھ کی افواج کا سیناپتی اور جےسنگھ سندھ کا ولی عہد اس کے سامنے کھڑے تھے۔اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! اگراجازت ہوتو بھیم سنگھ کو اندر بلالوں؟“
راجہ نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔”میں اس کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔اگر وہ تمہارا بیٹا نا ہوتا تو میں اسے مست ہاتھی کے آگے ڈلوادیتا۔“
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! وہ بےقصور ہے۔اگر ہم پچاس ہزار فوج کے ساتھ دیبل کی حفاظت نہیں کرسکے تو وہ بیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ اس کا راستہ کیسے روک سکتا تھا۔“
”لیکن یہ دعوی کرکےگیا تھا کہ دشمن کو پہاڑی علاقے سے آگے نہیں بڑھنے دےگا۔اس نے یہ کہا تھا کہ اگر دشمن کی فوج ہمارے بیس ہزار سپاہیوں کے پتھروں کی بارش میں دب کر نارھ گئی تو واپس آکر منہ نہیں دیکھائے گا!“
”مہاراج! میں نے کبھی اس کی تائید نہیں کی۔مجھے دشمن کی شجاعت کے متعلق کوئی غلط فہمی نا تھی۔اگر دیبل میں ہماری پاس ہزار فوج کےتیروں کی بارش میں کمندیں ڈال کر فصیل پر چڑھ سکتے ہیں تو بیس ہزار سپاہیوں کے پتھر انھیں پہاڑیوں پر قبضہ جمانے سے نہیں روک سکتے تھے۔“
راجہ نے گرج کرکہا۔”میرے سامنے دیبل کے پچاس ہزار سپاہیوں کا نام نا لو۔ان میں نصف کے قریب دیبل کے ڈرپوک تاجر تھے۔کاش مجھے معلوم ہوتا کہ پرتاپ رائے نے دیبل کے خزانے سے سپاہیوں کی بجائے بھیڑیں پال رکھی ہیں۔“
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! میں شروع سے اس بات کے خلاف تھا کہ آپ دیبل جائیں۔راجہ کا شکست کھا کر بھاگنا فوجوں پر بہت برا اثرڈالتا ہے!“
راجہ نے کہا۔”بھگوان کا شکر ہے کہ میں نے تمہارا کہا نہیں مانا۔ ورنہ یہ بیس ہزار فوج بھی یہاں بچ کر نا پہنچتی!“
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! اگر آپ بھاگنے میں جلدبازی سے کام نہ لیتے تو۔۔۔۔“
راجکمار جےسنگھ نے اودھے سنگھ کا جملہ پورا نا ہونے دیا اور چلا کر کہا۔”اودھے سنگھ! ہوش میں آکر بات کرو۔مہاراج کو اس لیے دیبل چھوڑنا پڑا کہ ان کے ساتھی تمہاری طرح نکمے اور بزدل تھے۔“
اودھے سنگھ کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی تاہم اس نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔”راجکمار! آپ جانتے ہیں کہ بھیم سنگھ بزدل نہیں۔وہ آپ کے ساتھ کھیلا ہے!“
”وہ بزدل نہیں لیکن بےوقوف ضرور ہے۔پھر بھی میں پتاجی سے کہوں گا کہ اسے یہاں حاضر ہونے کا موقع دیں!“
راجہ نے جےسنگھ کی طرف دیکھا اور پھر اودھے سنگھ کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”بلاو اسے!“
اودھے سنگھ نے دروازے پر ایک سپائی کو اشارہ کیا اور وہ باہر نکل گیا۔تھوڑی دیر میں بھیم سنگھ اندر داخل ہوا اور آداب بجالانے کے بعد ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا!
راجہ نے پوچھا۔”تم شکست کے بعد سیدھا دیبل کیوں نا پہنچے؟“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! مجھے یہ علم نا تھا کہ آپ دیبل پہنچ جائیں گے اور میں نے آپ سے چند ضروری باتیں کرنے کے لیے نیرون پہنچنا ضروری خیال کیا۔“
”لیکن تمہارا فرض تھا کہ تم رہی سہی فوج کے ساتھ دیبل پہنچتے۔“
”مہاراج کو شاید معلوم نہیں کہ میں زخمی ہونے کے بعد چند دن دشمن کی قید میں رہا، اور جب میں آزاد ہوا، میرے ساتھ چند سپاہی تھے اور انھیں کسی اور محفوظ مقام پر پہنچانا میرا فرض تھا!“
راجہ نے کہا۔”بھیم سنگھ! دیبل اور بیلا کی جنگوں میں ہماری شکست کے ذمہ دار فقط تم ہو۔اگر تم پہاڑوں میں دشمن کا راستہ روک سکتے تو ہمیں دیبل میں ناکامی کا منہ نا دیکھنا پڑتا۔میں نے تمہارے باپ کی مرضی کے خلاف تمہیں یہ موقع دیا تھا۔اب میں یہ فیصلہ کرچکا ہوں کہ آئندہ کوئی مہم تمہارے سپر نا کی جائے۔“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! میں خود بھی کوئی ذمہ داری سنبھالنے کےلیے تیار نہیں!“
راجہ نے آنکھیں پھاڑ کر بھیم سنگھ کی طرف دیکھا اور بلند آواز میں کہا۔”تو یہاں کیا لینے آئے ہو؟“
اودھے سنگھ نے اپنے بیٹے کے جواب سے پریشان ہوکر کہا۔”مہاراج! بھیم سنگھ کا مطلب یہ ہے کہ اسے بڑے عہدے کی ضرورت نہیں۔وہ آپ کی فتح کے لیے ایک سپاہی کی حثیت میں بھی لڑنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہے۔بھیم سنگھ! ان داتا تم سے ناراض ہیں ان کے پاوں پکڑ لو!“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”پیتا جی! ان داتا کی تعظیم سر آنکھوں لیکن میں ان کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا۔میں زخمی تھا اور دشمن کے سپہ سالار نے اپنے ہاتھوں سے میری مرہم پٹی کی۔میری جان بچائی اور مجھ سے دوبارا اپنے مقابلے میں نا آنے کا وعدہ لیے بغیر آزاد کردیا۔مجھے یہاں پہنچنے کے لیے اپنا گھوڑا دیا۔“
اودھے سنگھ نے مداخلت کی۔”مہاراج! ہمارا دشمن بہت ہوشیار ہے۔اس کا خیال ہوگا کہ وہ اس طرح چاپلوسی کرکے بھیم سنگھ کو ورغلا سکے گا لیکن اسے کیا پتہ بھیم سنگھ کے باپ دادا آپ کے نمک خوار ہیں اور اس کی رگوں میں راجپوت کا خون ہے اور یہ آپ کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دےگا۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”پتاجی! اگر وہ میری جان نا بچاتا تو میرے جسم کا آخری قطرہ میدانِ جنگ میں بہہ چکا ہوتا۔میں نہیں جانتا کہ اس نے میری جان کس نیت سے بچائی ہے لیکن میں اس کے خلاف تلوار نہیں اٹھا سکتا!“
بھیم سنگھ نے اپنی تلوار اتار کر راجہ کو پیش کرتے ہوئے کہا۔”مہاراج! یہ مجھے آپ نے عطا کی تھی لیجیے!“
راجہ غصے سے کانپنے لگا اور راجکمار جےسنگھ نے بھیم کے ہاتھ سے تلوار چھینتے ہوئے کہا۔” بزدل! کمینہ!“
اودھے سنگھ نے کہا۔”بھیم سنگھ! تمہیں کیا ہوگیا ہے۔مہاراج سے معافی مانگو، وہ تمہاری تقصیر معاف کردیں گے۔بھیم سنگھ! مجھے شرمسار ناکرو۔ دنیا کیا کہے گی۔تم تو کہتے تھے تم مہاراج کو جنگ کے لیے ایک ضروری مشورہ دینے کےلیے آئے ہو۔مہاراج! مہاراج! میرا بیٹا بےقصور ہے۔دشمن نے اس پر جادو کردیا ہے!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”ہاں مہاراج! اس نے مجھ پر جادو کردیا ہے۔اگر آپ نے اسے سمجھنے کی کوشش ناکی تو کسی روز اس کا جادو تمام سندھ پر چھا جائے گا۔مہاراج!میں آپ کو اس کے جادو سے بچنے کا طریقہ بتانے کے لیے آیا تھا!“
اودھے سنگھ نے چلا کرکہا۔”بھیم سنگھ! بھگوان کے لیے جاو!“
راجہ نے کہا۔”اودھے سنگھ! تم اب خاموش رہو۔تمہارا بیٹا ہماری اجازت سے یہاں آیا ہے اور ہماری اجازت کے بغیر یہاں سے نہیں جاسکتا۔ہاں بھیم سنگھ! تم ہمیں دشمن کے جادو سے بچنے کا طریقہ بتارہے تھے؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! وہ یہ ہے کہ آپ عرب اور سراندیپ کے قیدیوں کو دشمن کے حوالے کردیں۔ورنہ ہمارے خلاف جو طوفان عرب سے اٹھا ہے وہ مجھے رکنے والا نظر نہیں آتا!“
راجہ اچانک کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔”تم دشمن کے طرفدار بن کر مجھ پر اس کی طاقت کا رعب جمانے کے لیے آئے ہو؟“
بھیم سنگھ نے اطمینان سے جواب دیا۔”مہاراج! آپ دیبل میں اسے دیکھ چکے ہیں!“
راجہ نے چلا کر کہا۔”دیبل! دیبل! میرے سامنے دیبل کا ذکر نا کرو۔وہاں مندر کا کلس گرجانے کی وجہ سے تمہارے جیسے بزدل سپاہیوں نے ہمت ہار دی تھی۔“
”مہاراج! میں بزدل نہیں!“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں بزدل ہوں۔کوئی ہے؟“
اودھے سنگھ نے ہاتھ باندھ کر کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”مہاراج! مہاراج! اس کی خطا معاف کیجیے۔ہم ساتھ پشتوں سے آپ کے خاندان کی خدمت کررہے ہیں۔“
راجہ نے جھلا کر جواب دیا۔”مجھے تمہارے خاندان کی خدمات کی ضرورت نہیں!“
پندرہ بیس سپاہی ننگی تلواریں لیے کمرے میں داخل ہوئے اور راجہ کے حکم کا انتظار کرنے لگے۔راجہ نے بھیم سنگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”اسے لے جاو اور نیروں کی سب سے تاریک کوٹھڑی میں رکھو!“
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! اس کی خطا معاف کیجیے۔یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔“
جےسنگھ نے آگے بڑھ کر راجہ کے کان میں کچھ کہا اور اس نے اودھے سنگھ کو جواب دیا۔”تم بھی اس کے ساتھ جاسکتے ہو۔سندھ کو تمہارے جیسے سپہ سالار کی ضرورت نہیں!“
عقب کے کمرے کا پردہ اٹھا اور لاڈھی رانی جلدی سے راجہ کے قریب آکر کہنے لگی۔”مہاراج! آپ کیا کررہے ہیں۔اودھے سنگھ فوج کا سینا پتی ہے اور فوج اس کے ساتھ برا سلوک برداشت نا کرے گی!“
جےسنگھ نے جلدی سے کہا۔”جب فوج کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ باپ بیٹا دشمن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، وہ سب کچھ برداشت کرلے گی!“
رانی نے کہا۔”بیٹا! دشمن سر پر کھڑا ہے۔یہ آپس میں پھوٹ ڈالنے کا وقت نہیں!“
جےسنگھ نے جواب دیا۔”دشمن کی آخری منزل دیبل تھی۔وہ دریائے سندھ کو کبھی عبور نہیں کرسکے گا۔پتاجی! آپ فکر نا کریں۔چند دنوں میں ملتان سے لےکر قنوج تک تمام راجہ اور سردار ہماری مدد کے لیے پہنچ جائیں گے اور ہم دشمن کو ایسی شکست دیں گے کہ اس کے خواب و خیال میں بھی نا ہوگی۔میرا مشورہ ہے کہ ان دونوں کو یہاں رکھنے کی بجائے ارور بھیج دیا جائے۔
سپاہیو! کیا دیکھتے ہو۔تم نے مہاراج کا حکم سنا نہیں؟ انھیں لے جاو!“
سپاہی آگے بڑھے لیکن اودھے سنگھ نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے اپنی تلوار اتار دی اور جےسنگھ سے مخاطب ہوکر کہا۔”یہ لیجیے! یہ سینا پتی کی تلوار ہے۔مجھے دشمن پر سندھ کی فوج کی فتح سے زیادہ کسی اور بات کی خواہش نہیں!“
جےسنگھ نے اس کے ہاتھ سے تلوار پکڑنے کی بجائے چھینتے ہوئے کہا۔”فتح کے لیے ہمیں تمہاری دعاوں کی ضرورت نہیں!“
شام کے وقت اودھے سنگھ اور بھیم سنگھ چند سپاہیوں کی حراست میں ارور کا رخ کررہے تھے اور نیرون کے مندروں میں فوج کے نئے سینا پتی جےسنگھ کی فتح کے لیے دعائیں ہورہی تھیں۔
راجہ کے حکم کے مطابق بھیم سنگھ اور اودھے سنگھ کو ارور کے قید خانے کی ایک زمین دوز کوٹھری میں بند کیا گیا۔اس کوٹھڑی میں ایک قیدی پہلے ہی موجود تھا۔اس نے دو نئے قیدیوں کو دیکھتے ہی ٹوٹی پھوٹی سندھی زبان میں کہا۔”جگہ تنگ ہے۔تاہم ہم تینوں گزارا کرسکتے ہیں۔تم کون ہو؟ اور یہاں کیسے ہو؟“
بھیم سنگھ اور اودھے سنگھ نے جواب دینے کی بجائے تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرقیدی کو دیکھنے کی کوشش کی۔
قیدی نے کہا۔”شاید آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے لیکن آپ بہت جلد تاریکی میں دیکھنے کے عادی ہوجائیں گے۔بیٹھ جائیے! آپ تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور اگر میں غلطی نہیں کرتا تو آپ دونوں شاید باپ بیٹا ہیں؟“
اودھے سنگھ اور بھیم سنگھ تاریکی میں ہاتھ پھیلا کر سنبھل سنبھل کر پاوں پھیلاتے ہوئے آگے بڑھے اور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
قیدی نے پھر کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی میری طرح بےگناہ ہیں۔معاف کرنا۔شاید آپ کو میری باتیں ناگوار محسوس ہوں لیکن کئی مہینوں سے میں نے کسی انسان سے بات نہیں کی۔اس لیے آپکو دیکھ کر میرے دل میں اپنی بپتا سنانے اور آپ کی سننے کی خواہش پیدا ہونا ایک قدرتی آمر ہے۔ابتدائی چھے مہینے میں اس تہہ خانے سے اوپر ایک کشادے کمرے میں تھا۔وہاں میرے ساتھ آپ کے ملک کے چھے اور قیدی تھے۔میں نے آپ کی زبان انھی سے سیکھی تھی۔اگرچہ مجھے اس زبان پر عبور حاصل نہیں ہوا۔پھر بھی مجھے یقین ہے کہ میں اپنا مطلب سمجھا سکتا ہوں۔آپ میرا مطلب سجھتے ہیں نا؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”تم اچھی خاصی سندھی جانتے ہو!“
قیدی نے بھیم سنگھ کی متجسس نگاہیں دیکھ کر کہا۔شاید آپ مجھے ابھی تک اچھی طرح نہیں دیکھ سکے۔میں قریب آجاتا ہوں!“
قیدی نے ایک کونے سے اٹھ کر بھیم سنگھ کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔”ہاں! اب آپ مجھے دیکھ سکیں گے۔میں عرب کا ایک مسلمان ہوں۔آپکو میرا قریب بیٹھنا ناگوار تو نہیں۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”تم عرب ہو؟ لیکن عرب کے قیدی تو برہمن آباد میں تھے؟“
قیدی نے جواب دیا۔”وہ کوئی اور ہوں گے۔میں شروع سے اس قید خانے میں ہوں!“
اودھے سنگھ نے پوچھا۔”تم سر اندیپ سے آئے تھے؟ اور تمہارا جواب دیبل کے قریب ڈوبا تھا؟ تمہارا نام ابوالحسن ہے؟“
قیدی نے جلدی سے جواب دیا۔”ڈوبا نہیں، ڈبویا گیا تھا اور ہاں آپ برہمن آباد کے قیدیوں کے متعلق کچھ کہہ رہے تھے۔وہ اس ملک میں کیسے آئے؟ میرے جہاز سے تو صرف چار آدمی بچے تھے۔دو زخمی تھے۔وہ دیبل سے ارور تک پہنچنے سے پہلے ہی جاں بحق ہوگئے۔تیسرا جس کے زخم معمولی تھے وہ میرے ساتھ اس قید خانے میں مرگیا تھا!“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”تمہارے جہاز کے بعد سراندیپ سے دو اور جہاز آئے تھے۔دیبل کے گورنر نے انھیں بھی گرفتار کرلیا تھا!“
”وہ یہاں کیا لینے آئے تھے؟“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”وہ سراندیپ سے اپنے ملک جارہے تھے!“
”آپ ان میں سے کسی کا نام جانتے ہیں؟“
”ان جہازوں کے کپتان کو میں جانتا ہوں۔اس کا نام زبیر ہے اور وہ آزاد ہوچکا ہے!“
”زبیر؟ سراندیپ میں اس نام کا کوئی عرب نا تھا، وہ شاید کسی اور کے جہاز ہوں گے!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”زبیر کو بصرہ کے حاکم نے عرب کی بیوہ عورتیں اور لاوارث بچے لانے کے لیے سراندیپ بھیجا تھا!“
قیدی نے بےتاب ساہوکر کہا۔”عورتیں اور بچے؟ آپ ان میں سے کسی کا نام جانتے ہیں؟“
”ان میں سے ایک نوجوان کا نام خالد ہے لیکن وہ قید میں نہیں۔“
”خالد!! خالد!!! میرا بیٹا!!! وہ اس وقت کہاں ہے؟“
”وہ اس وقت دیبل میں ہوگا!“
”دیبل میں؟ وہ وہاں کیا کرتا ہے۔سچ کہو تم نے اسے دیکھا ہے؟“
”میں نے اسے لسبیلا میں مسلمانوں کے ساتھ دیکھا تھا اور اب وہ دیبل فتح کرچکے ہیں!“
ابوالحسن پر تھوڑی دیر کے لیے سکتہ تاری ہوگیا۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یکے بعد بھیم سنگھ اور اودھے سنگھ کو دیکھ رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔”سچ کہو، مجھ سے مزاق نہ کرو!“
اودھے سنگھ بولا۔”وہ جن کے ساتھ قدرت مذاق کررہی ہو دوسروں کے ساتھ مذاق کی جرات نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کی فوج دیبل فتح کرچکی ہے اور انھیں یہاں آنے میں دیرنہیں لگے گی۔“
ابوالحسن دیر تک کوئی بات ناکرسکا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔خوشی کے آنسو۔۔۔۔۔تشکر کے آنسو۔۔۔۔۔۔لیکن اچانک اس نے بھیم سنگھ کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”سراندیپ میں میری بیوی اور بیٹی بھی ہے۔تم ان کے متعلق کچھ جانتے ہو؟“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”آپ کی بیوی کے متعلق مجھے کوئی علم نہیں۔شاید وہ برہمن آباد کے قیدیوں کے ساتھ ہو لیکن جب میں لسبیلا میں زخمی ہونے کے بعد مسلمانوں کی قید میں تھا، اس وقت زبیر کے ساتھ خالد کی بہن کی شادی ہوئی تھی۔“
”تو سلمی بھی ان کے ساتھ ہوگی۔وہ یقیناً ان کے ساتھ ہوگی!“
اودھے سنگھ نے پوچھا۔”سلمی کون ہے؟“
”میری بیوی۔آپ مجھے یہ بتائیے کے مسلمانوں کی فوج نے سندھ پر کب اور کیسے حملہ کیا؟“
اودھے سنگھ نے اس کے جواب میں مختصراً محمد بن قاسم کے حملے کے واقعات بیان کیے۔بھیم سنگھ نے زرا تفصیل کے ساتھ یہ داستان دہرائی اور اس کے بعد ابوالحسن نے آپ بیتی سنائی۔غرض شام تک یہ تینوں قیدی گہرے دوست بن گئے اور قید سے رہا ہونے کی تدابیر سوچنے لگے۔
دیبل سے نیرون کی طرف محمد بن قاسم کی پیش قدمی کی خبر ملنے پر راجہ دہر نے اپنے سرداروں اور فوج کے عہدہ داروں سے مشورہ طلب کیا۔سب نے جےسنگھ کی اس تدبیر سے اتفاق کیا کہ عربوں سے فیصلہ کن جنگ دریائے سندھ کے پار برہمن آباد کے قریب لڑی جائے۔نیرون میں صرف اس قدر فوج رکھی جائے جو چنددن کے لیے محمد بن قاسم کی پیش قدمی روکنے کے لیے کافی ہوا اور اس عرصے میں راجہ اور سینا پتی کو برہمن آباد میں ایک زبردست فوج تیار کرنے کا موقع مل جائے گا۔
موسم گرما شروع ہوچکا تھا۔اور راجہ دہر کو یہ بھی توقع تھی کہ طغیانی کے دنوں میں دریائے سندھ کی سرکش موجیں دیکھ کر محمد بن قاسم آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرےگا اور اسے سندھ کے طول و عرض سے نئی افواج فراہم کرنے کے علاوہ ہمسایہ ریاستوں سے مدد حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔چنانچہ نیرون کے ایک بااثر برہمن کو جو شہر کا سب سے بڑا پروہت ہونے کے علاوہ فوجی معملات میں دسترس رکھتا تھا۔نیرون کی حفاظت کے لیے منتخب کیا اور اس کے پاس آٹھ ہزار سپاہی چھوڑ کر جےسنگھ اور باقی فوج کے ہمراہ برہمن آباد کارخ کیا۔
محمد بن قاسم کی فوج نے اس پروہت کی توقع سے پانچ دن پہلے شہر کا محاصرہ کرلیا۔منجنیق کے بھاری پتھروں کی بارش سے شہر کی مضبوط فصیل لرزا اٹھی اور تیسرے دن جب دبابوں کی مدد سے شہر پناہ پر حملے کرنے والی فوج کے مقابلے میں شہر کے محافظین کی قوتِ مزاحمت جواب دےرہی تھی۔شہر کے باشندوں کو احساس ہوا کہ راجہ نے اس پروہت کی فوجی قابلیت کے متعلق غلط اندازہ لگایا تھا۔چوتھے دن محمد بن قاسم کی فوج شہر پر ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہی تھی کہ شہر کا دروازہ کھلا اور چند پروہت صلح کا جھنڈا لہراتے ہوئے باہر نکلے۔
شہر پر قبضہ کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے نیرون کے باشندوں کی خلاف بھی وہی سلوک کیا جس کی بدولت وہ دیبل کے باشندوں قلوب مسخر کرچکا تھا۔نیرون کا نظم و نسق ٹھیک کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے سیون کا رخ کیا۔سیون کا گورنر راجہ داہر کا بھتیجا باج رائے تھا اور شہرکی زیادہ آبادی برہمن، پرہتوں اور تاجر پیشہ لوگوں پر مشتمل تھی۔ ایک ہفتے کے محاصرے کے بعد باج رائے رات کے وقت شہر سے بھاگ نکلا اور شہر کے باشندوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
سیون کی فتح کے بعد محمدبن قاسم کے بعض آزمودہ کار سالاروں نے اسے مشورہ دیا کہ اب دریا عبور کرکے برہمن آباد کا رخ کیا جائے تاکہ راجہ کو مزید تیاری کا وقت نا ملے۔لیکن محمد بن قاسم نے جواب دیا کہ دریا کے اس کنارے پر سوستان ایک اہم شہر ہے اور اس وقت جبکہ راجہ کی تمام کوشش برہمن آباد کا محاز مضبوط بنانے پر لگی ہوئی ہے۔ہم نیرون اور سیون کی طرح سوستان کو بھی نہایت آسانی سے فتح کرسکیں گے۔اگر اب ہم دیبل سے براہِ راست برہمن آباد کی طرف پیشقدمی کریں تو نیرون اور سیون کی افواج کو اپنے راجہ کے جھنڈے تلے جمع ہونے کا موقع مل جائے گا۔ہماری فتوحات راجہ کی طاقت میں کمی اور ہماری فوج کی تعداد میں اضافہ کررہی ہیں۔مفتوح شہروں کی کچھ فوج تتر بتر ہوجاتی ہے، کچھ ہمارے ساتھ مل جاتی ہےاور باقی تھوڑی بہت جو پسپا ہوکر راجہ کے پاس پہنچتی ہے، وہ اپنے ساتھ ایک شکست خوردہ ذہنیت لےکر جاتی ہے اور وہ فوج جس کے ایک فیصد سپاہی شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہوں، خواہ وہ لاکھوں کی تعداد میں ہو ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی جب ہم سندھ کی حدود میں داخل ہوئے تھے ہماری تعداد بارہ ہزار تھی۔اب بیلا اور دیبل کے مقصانات کے باوجود ہماری تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور ہمارے سندھی ساتھیوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی تلواریں جو حق کے مقابلے میں کند ثابت ہوئیں، باطل کے مقابلے میں کافی تیز ہیں۔“
محمد بن قاسم کے دلائل سن کر فوج کے تمام عہدےدار اس کے ہم خیال ہوگئے۔باج رائے سیون سے فرار ہوکر سوستان میں جاٹوں کے راجہ کاکا کے پاس پناہ لےچکا تھا۔کاکا راجہ داہر کا زبردست حلیف تھا۔اس کی شجاعت کی داستانیں سندھ کے طول و عرض میں مشہور تھیں۔تاہم دیبل، نیرون اور سیون میں محمد بن قاسم کی شاندار فتوحات نے اسے کسی حد تک خوفزدہ کردیا تھا۔سوستان کی فصیل کافی مضبوط تھی لیکن اس نے قلعہ بند ہوکر لڑنے والی فوج کے لیے حملہ آوروں کے منجنیق اور دبابے خطرناک سمجھتے ہوئے کھلے میدان میں لڑنے کو ترجیح دی۔
محمد بن قاسم نے یلغار کرتا ہوا سوستان پہنچا تو کاکا کی فوج شہر سے باہر صف بستہ ہوکر حملے کے لیے تیار کھڑی تھی۔کاکا نے شجاعت سے زیاہ اپنے جوشیلے پن اور جلدبازی کا ثبوت دیا اور محمد بن قاسم کو جنگ کی تیاری کا موقع دینا مناسب نا سمجھتے ہوئے اچانک حملہ کردیا۔محمد بن قاسم نے حملے کی شدت دیکھ کر قلبِ لشکر کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔کاکا کی فوج اس جنگی چال کو نا سمجھ سکی اور وہ فتح سے پرامید ہوکر دیوانہ وار لڑتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔کاکا کو اپنی غلطی کا اس وقت احساس ہوا جب حریف کے لشکر کے قلب سے پسپا ہونے والے دستے اچانک رک کر ایک آہنی دیوار کی طرح جمع کر کھڑے ہوگئے اور بازوں کے سوار آندھی کی طرح اس کی فوج کے عقب میں جاپہنچے۔کاکا کی فوج چاروں طرف سے ایک زور دار حملے کی تاب نہ لاسکی۔باج رائے میدان سے بھاگنے کی کوشش میں مارا گیا۔اس کی موت نے کاکا کی فوج کے سپاہیوں کو بددل کردیا۔کاکا نے فوج کا حوصلہ بڑھانے کی بڑی کوشش کی لیکن جب اپنی شکت کے متعلق کوئی شبہ نا رہا تو وہ بھی اپنے چند جانثاروں کے ساتھ ایک طرف سے گھیرا ڈالنے والی فوج کی صفیں توڑ کر بھاگ نکلا لیکن محمد بن قاسم کے سواروں نے تعاقب کرکے اسے پھر ایک بار گھیرے میں لےلیا اور اس نے رہے سہے ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے۔
جب سوستان کے راجہ کاکا کو محمد بن قاسم کے سامنے لایا گیا تو اس نے حیران ہوکر پوچھا۔”اس فوج کے سپہ سالار آپ ہیں؟“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”ہاں! میں ہوں!“
کاکا نے اور زیادہ متعجب ہوکر محمد بن قاسم کو سر سے پاوں تک دیکھا اور پوچھا۔”آپ نے میرے لیے کیا سزا تجویز کی؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”سندھ پر حملہ کرنے کے بعد تم دوسرے آدمی ہو جسے میں نے بہادری کے ساتھ لڑتے دیکھا ہے۔ میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو میں بھیم سنگھ کے ساتھ کرچکا ہوں۔تم آزاد ہو!“
کاکا نے جواب میں کہا۔”اور اس آزادی کی مجھے کیا قیمت ادا کرنی ہوگی؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ہم آزادی کی قیمت وصول کرنے کے لیے نہیں آئے!“
”تو آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں؟“
”ظلم کا ہاتھ روکنے اور مظلوم کا سر اونچا کرنے کے لیے!“
کاکا نے کچھ دیر سرجھکا کر سوچنے کے بعد کہا۔”اگر آپ کو یقین ہے کہ میں ظالم ہوں تو آپ مجھے آزاد کیوں کرنا چاہتے ہیں؟“
”اس لیے کہ مظلوم انسان پر تشدد اسے سرکشی کے لیے ابھارتا ہے اسے اصلاح کی طرف آمادہ نہیں کرتا!“
کاکا نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”میں نے سنا تھا کہ آپ بہت بڑے جادوگر ہیں۔آپ دشمن کو دوست بنانے کے ڈھنگ جانتے ہیں۔ کیا مجھے بھی آپ کے دوستوں میں جگہ مل سکتی ہے؟“ یہ کہتے ہوئے اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔
محمد بن قاسم نے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔”میں پہلے بھی تمہارا دشمن نا تھا!“