علی الصباح قلعہ کے چار کوس کے فاصلے پردریا کے کنارے پرتاپ رائے کے سپاہی سفر کی تیاری کررہے تھے۔جےرام دریا میں نہا کر کپڑے بدل رہا تھا کہ پاس ہی ایک جھاڑی کے عقب سے ایک سنسناتا ہوا تیر آیا، اور اس کے پاوں کے نزدیک زمین میں پیوست ہوگیا۔تیر کے ساتھ ایک سفید رومال بندھا ہوا تھا۔جےرام نے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد زمین سے تیر نکالا اور اس کے ساتھ بندھا ہوا رومال کھول کر دیکھنے لگا۔ جس پر کوئلے کے ساتھ یہ چند حروف لکھے ہوئے تھے:
”جےرام میں تمہیں کس نام سے پکاروں۔تم کو بھائی کہتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔اگر میری جان بچانا چاہتے ہو تو گنگو کے ساتھ چلے آو ورنہ میری خیر نہیں۔“
تمہاری بدنصیب بہن
مایا
جےرام نے بھاگتے ہوئےجھاڑیوں کے قریب پہنچ کر آواز دی۔”گنگو! گنگو! تم کہاں ہو؟“
گنگو نے آہستہ سے جواب دیا۔”میں یہاں ہوں اس طرف۔“
جےرام جھاڑیوں میں سے گزر کر اس کے قریب پہنچا۔گنگو گھوڑے پر سوار تھا۔جےرام نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور بےقرار سا ہوکر پوچھا۔”گنگو! مایا کہاں ہے؟ وہ کس حال میں ہے۔وہ تمہارے پاس کیسے پہنچی؟“
گنگو نے جواب دیا۔”مایا زندہ ہے۔اور میں تمہیں اس کے پاس لے جاسکتا ہوں کہو تم میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو؟“
”میں مایا کے لیے سات سمندر عبور کرنے کے لیے تیار ہوں۔بتاو وہ کہاں ہے؟“
”وہ یہاں سے زیادہ دور نہیں۔تم میرے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ جاو۔“
”اگر زیادہ دور ہو تو میں اپنا گھوڑا لے آوں؟“
”تم اپنا گھوڑا لاسکتے ہو لیکن تم نے اگر پھر کوئی چلاکی کی تو یاد رکھو۔مایا کو کبھی نہیں دیکھ سکو گے۔میں یہاں تمہارا انتظار کرتا ہوں۔“
”میں ابھی آتا ہوں۔“ جےرام یہ کہہ کر ٹیلے کی طرف بھاگا۔گنگو احتیاط کے طور پر اس جگہ سے ہٹ کر گھنے درختوں کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد جےرام نے جھاڑی کے قریب پہنچ کر گھوڑا روکا اور گنگو کو وہاں ناپاکر آواز دی۔گنگو نے مطمین ہوکر اسے اپنے پاس بلا لیا۔
گنگو کے ساتھ چلنے سے پہلے جےرام نے اس سے کئی سوالات پوچھے۔ لیکن گنگو نے بس یہی جواب دیا کہ مایا کہ پاس پہنچ کر تمہیں سب حال معلوم ہوجائے گا۔جنگل میں تھوڑی دور چلنے کے بعد گنگو کے دس اور مسلح ساتھی جھاڑیوں سے نکل کر ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔جےرام کو گنگو کی نیت پر شبہ ہوا اور اس نے لگام کھینچ کر گھوڑے کو روکتے ہوئے پوچھا۔”گنگو! یہ کیا؟“ لیکن اس سے پہلے کے گنگو کوئی جواب دیتا اس کے ساتھیوں نے جےرام کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک نے آگے بڑھ کر اس سے گھوڑے کی لگام چھین لی۔ گنگو کی توقع کے خلاف جےرام نے کوئی مدافعت نا کی اور جب اس کے ساتھیوں نے اس کے ہتھیاڑ چھیننے کی کوشش کی تو اس نے خود ہی اپنی تلوار کمان اور ترکش اتار کر اس کے حوالے کردیے۔
کمر کے پٹکے میں ایک چھوٹا سا خنجر لٹک رہا تھا۔گنگو کے ایک ساتھی نے وہ بھی اتارنا چاہا لیکن اس نے اشارے سے منع کیا۔
جےرام نے کہا۔”تمہیں معلوم ہے کہ میں مایا کا پیغام سننے کے بعد بھاگ نہیں سکتا۔“
گنگو نے جواب دیا۔”تم بھاگنا بھی چاہو تو نہیں بھاگ سکتے۔اس جنگل میں جگہ جگہ تیر انداز چھپے ہیں۔“
”لیکن گنگو میں نے تم سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کی۔تم جہاں کہو میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔“
”جو شخص زبیر جیسے محسن کے ساتھ دغاکرسکتا ہے۔مجھے اس کی کسی بات پر اعتبار نہیں آسکتا۔تمہاری خیر اسی میں ہے کہ آنکھیں بند کر کے میرے ساتھ چلتے رہو۔“
”قلعہ چار کوس سے زیادہ دور نا تھا۔لیکن گنگو نے مصلحتاً طویل اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا۔قلعے کے سامنے پہنچ کر سوار گھوڑوں سے اترے۔جےرام کو خالد قلعے سے باہر آتا ہوا دیکھائی دیا۔وہ اس کی طرف ہاتھ پھیلا کر آگے بھرا۔”خالد خالد تم بھی یہاں ہو۔تم بھی یہاں ہو۔ تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا اور جواب دینے کی وجہ کترا کر گنگو کے پاس کھڑا ہوگیا۔جےرام کے دل پر چرکا لگا۔اس کے پاوں زمین میں گڑ گئے۔وہ ہاتھ جو خالد کے استقبال کے لیے اٹھے تھے جھکتے جھکتے پہلووں سے آلگے۔اس نے بےچارگی اور بےبسی کی حالت میں چاروں طرف دیکھا۔اس کی نگاہیں پھر ایک بار خالد کے چہرے پر جم گئیں۔خالد نے منہ پھیڑ لیا۔
جےرام نے انتہائی کرب کی حالت میں کہا۔”خالد! مجھے معلوم نہیں۔میں تم سب کی نظروں میں اس قدر حقیر کیوں ہوگیا ہوں۔میں بےقصور ہوں۔میرے ساتھ اس طرح پیش نا آو۔مایا کہاں ہے؟“
پیچھے سے آواز آئی۔”میں یہاں ہوں۔“ جےرام نے چونک کر پیچھے دیکھا۔مایا چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ ”مایا! مایا! میری بہن! میری بہن!! میری ننھی بہن!!“ وہ یہ کہہ کر مایا کی طرف بڑھا لیکن وہ پیچھے ہٹتے ہوئے چلائی۔”ظالم! کمینے! دغاباز! مجھے ہاتھ نا لگاو۔تم نے ایک راجپوت باپ کے خون اور ایک راجپوت ماں کے خون کی لاج نہیں رکھی۔تم میرے کچھ نہیں لگتے۔تمہارا دامن اپنے محسنوں کے خون سے داغدار ہے۔“
اگر کوئی جےرام کا سینہ خنجر سے چھلنی کردیتا تو بھی شاید اسے اس قدر تکلیف نا ہوتی۔اس کے دل میں غصے کی آگ کے شعلے بھڑکے اور غم کے آنسووں سے بجھ گئے۔اس نے پھر ایک بار چاروں طرف دیکھا۔گنگو کے چہرے پر ایک حقارت آمیز تبسم دیکھ کر اس کا منجمد خون کھولنے لگا۔وہ اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ چباتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔”ذلیل ڈاکو! ان سب باتوں کے ذمہ دار تم ہو۔تم نے ان سب کو میرے خلاف کیا ہے۔“ بیشتر اس کے کہ گنگو کے ہاتھ مدافعت کے لیے آٹھتے۔جےرام نے اچانک دو مکے اس کے منہ پر دے مارے۔گنگو اپنے گال سہلاتا ہوا پیچھے ہٹا۔خالد نے آگے برھتے ہوئی جےرام کے منہ پر ایک مکا مارا۔جےرام نے خالد کے ہاتھ کی ضرب منہ سے زیادہ اپنے دل پر محسوس کی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”خالد! تم۔۔۔۔۔؟“
گنگو کے ساتھیوں کی تلواریں نیاموں سے باہر آچکی تھیں۔لیکن اس نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور جےرام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”اب بتاو تم اپنی بہن کی جان بچانے کے لیے زبیر کے ساتھیوں کو قید سے چھڑانے کے لیے تیار ہو؟“
جےرام نے زخم خوردہ سا ہوکر جواب دیا۔”تو تم بھی زبیر کی طرح یہ سمجھتے ہو کہ میں پرتاپ رائے کی سازش میں شریک تھا؟“
گنگو نے جواب دیا۔” نہیں بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پرتاپ رائے تمہاری سازش میں شریک تھا۔تم نے اسے سراندیپ کے ہاتھیوں اور جواہرات کا کا لالچ دے کر جہاز لوٹنے کے لیے آمادہ کیا۔“
”بھگوان جانتا ہے کہ میں بےقصور ہوں۔“
گنگو نے جواب دیا۔“
گنگو نے جواب دیا۔”بھگوان اس سے زیادہ جانتا ہے۔اس وقت ہمارا کام تمہاری بےگناہی پر بحث کرنا نہیں۔ہم صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ تم اپنی بہن کے لیے ان بےگناہ قیدیوں کو چھوڑتے ہیں یا نہیں۔“
جےرام نے جواب دیا۔”کاش! انھیں چھوڑنا میرے بس میں ہوتا۔وہ اس وقت دوسو سپاہیوں کے پہرے میں برہمن آباد جارہے ہیں اور میں اکیلا ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔“
”تو تم ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہوکہ تمہارے اپنی سپاہی تمہارا حکم نہیں مانتے؟“
کاش! میرے سپاہی ہوتے۔قیدیوں پر پرتاپ رائے کا چہرہ اس قدر سنگین ہے کہ ان کے ساتھ بات چیت بھی نہیں کرسکتا۔اسے یقین ہو چکا ہے کہ میں ان کا طرفدار ہوں۔“
گنگو نے اپنے چہرے پر ایک طنز بھری مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”تمہاری طرفداری کا شکریہ! اب میرے سوال کا جواب دو۔تم انھیں چھڑانے کے لیے تیار ہو یا نہیں؟“
بھگوان کے لیے مجھ پر اعتبار کرو۔جب تک ان کا معاملہ راجہ کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔میں بےبس ہوں۔مجھے یقین ہے راجہ انھیں قید میں رکھ کر عربوں سے لڑائی مول لینے کی جرات نہیں کرے گا۔“
گنگو نے کہا۔”پرتاپ رائے تمہارا دوست ہے اگر اس کے پاس تمہارا خط پہنچ جائے کہ تم ہماری قید میں ہو تو کیا پھر بھی وہ انھیں رہا نہیں کرے گا۔تم یہ خط لکھ دو اور ہم اسے برہمن آباد پہنچنے سے پہلے تمہارا یہ خط پہنچا دیں گے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”وہ لومڑی سے زیادہ مکار اور بھیڑیے سے زیادہ ظالم ہے۔مجھے اپنی سرگزشت بیان کرنے کا موقع دو۔تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔بھگوان کے لیے میری بات مانو۔پرتاپ رائے کو میری جان بچانے سے زیادہ خالد اور اگر ناہید بھی یہاں ہے تو ان دونوں کی تلاش ہوگی۔جس طرح اب تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ تم یہاں کیسے پہنچے، اسی طرح تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ دیبل کا واقعہ کس طرح پیش آیا۔“
گنگو اور اس کے ساتھیوں کو متوجہ دیکھ کر جےرام نے بندرگاہ سے رخصت ہونے سے لیکر قید خانے میں زبیر سے ملاقات تک تمام واقعات بیان کیے اور اختتام پر گنگو اور خالد کو ملتجی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”اب بھی تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں آتا، تو میں ہر سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
گنگو بولا۔” تو اب تم راجہ کے پاس قیدیوں کی سفارش کے لیے جارہے ہو؟“
”آپ کو اب بھی یقین نہین آتا؟“
”اپنی بہن سے پوچھ لو۔اگر اسے تمہاری باتوں پر اعتبار آگیا ہو تو ہم بھی تمہاری باتوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ یہ کہہ کر گنگو مایا سے مخاطب ہوا۔” ہم تمہارے بھائی کا فیصلہ تم پر چھوڑتے ہیں۔“
جےرام مایا کی طرف متوجہ ہوا۔مایا کے لیے یہ گھڑی صبرآزما تھی۔بھائی کی سرگزشت سننے کے بعد اس کے دل میں ایک ردِ عمل شروع ہوچکا تھا تاہم وہ اس کے متعلق خیالات فوراً بدلنے کے لیے تیار نا تھی۔ضمیر کی یہ آواز اگر یہ کہہ رہی تھی کہ مایا تجھے اپنے بھائی پر اعتبار کرنا چاہیے تو دوسری آواز کہہ رہی تھی کہ نہیں، وہ صرف تمہیں ساتھ لے جانے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔اس ذہنی کشمکش کے دوران اسے گنگو کے یہ الفاظ یاد آئے۔”اس کی صورت دیکھ کر تمہارا دل تو پسیج نہیں جائے گا ممکن ہے کہ میں تمہارے ہاتھ میں انصاف کی تلوار دےدوں۔“ مایا نے گنگو کی طرف دیکھا۔اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔”میں انصاف کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دے چکا ہوں۔اب تم اپنا وعدہ یاد کرو۔“
اس نے جواب دیا۔”اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے ان لوگوں کے انتقام کے خوف سے یہ قصہ نہیں سنایا۔“
جےرام نے درد بھری آواز میں کہا۔”مایا! تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں بزدل ہوں۔میں موت کے خوف سے جھوٹ بول رہا ہوں۔بھگوان کے لیے مجھے دوسروں کے سامنے شرسار نا کرو۔میں تمہارا بھائی ہوں۔بھگوان کے لیے مجھے شرمسار مت کرو۔میں تمہارا بھائی ہوں۔لیکن اگر تمھیں مجھ یقین نہیں آتا تو یہ میرا خنجر لو اور میرا دل چیر کر دیکھو کہ میرا الہوا ابھی تک سرخ ہے یا سفید ہوچکا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے جےرام نے اپنا خنجر مایا کے ہاتھ میں دےدیا اور اپنا سینہ اس کے سامنے تان کر بولا۔ ”مایا! تمہیں باپ کے سفید بالوں کی قسم اپنی ماں کے دودھ کی قسم! اگر میں مجرم ہوں، تو یہ خیال نا کرو کہ تمہارا بھائی ہوں۔میں یہ جاننے کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتا کہ میری بہن بھی مجھے بزدل خیال کرتی ہے، مجھے اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلا دو۔تمہاری رگوں میں ایک راجپوت کا خون ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ رعائیت نا کرو۔“
مایا نے جذبات کی شدت میں غیرشعوری طور پر اپنا ہاتھ جس میں خنجر تھا، بلند کیا__ جےرام کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ کھیلنے لگی۔خالد نے کپکپی لی۔مایا نے عزم و ہمت کے اس پیکر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔اس کا ہاتھ کانپنے لگا۔خالد چلایا۔”مایا! تمہارا بھائی معصوم ہے۔“مایا کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے خنجر گرپڑا۔آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور بےاختیار جےرام سے لپٹ کر ہچکیاں لینے لگی۔”بھیا بھیا مجھے معاف کرد۔“
جےرام اس کے سیاہ بالوں پر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بار بار یہ کہہ رہا تھا۔”میری بہن! میری ننھی مایا تھا۔
بہن اور بھائی ایک دوسرے باہر سے علیحدہ کھڑے ہے گئے۔خالد نے جےرام کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔”جےرام مجھے معاف کرنا۔مجھے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا۔“
جےرام نے اس کا۔
جےرام نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا۔”مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں بھی شاید یہی کچھ کرتا۔“
خلد نے مسکراے ہوئے کہا۔”میں نے ہنگامی جوش میں آپ کے منہ پر مکا رسید کردیا تھا۔اب آپ یہ قرض وصول کرسکتے ہیں۔“
جےرام نے کہا۔”نہیں!!! اب یہ قصہ نا چھیڑو ورنہ ایک مکا ما کے مجھے گنگو سے دو وصول کرے پڑیں گے۔
گنگو اپنی زندگی میں کبھی اس قدر پریشان نہیں ہوا تھا۔وہ سر جھکائے کھڑا تھا جےرام نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”گنگو! اگر خلوصِ دل سے زبیر اور اس کے ساتھیوں کو چھڑانا چاہتے ہو تو یہ معاملہ چنددن کے لیے مجھ پر چھوڑدو۔ مجھے امید ہے کہ راجہ صحیح خطرات سے باخبر ہوکر انھیں قید میں رکھنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر اس نے میری بات نا سنی تو میں تمہارے پاس چلا آوں گا اور پھر ہم کوئی اور تدبیر سوچین گے لیکن خالد کی بہن کہاں ہے؟“
گنگو نے کہا۔”وہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔وہ جہاز پر زخمی ہوگئے تھے۔“
”اب وہ کیسی ہے؟“
اس سوال کے جواب میں خالد بولا۔”اب وہ پہلے سے اچھی ہے لیکن زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا۔میں مایا دیوی کا شکرگزار ہوں۔انھوں نے اس کی تیماداری میں بہت تکلیف اٹھائی۔“
گنگو نے کہا۔”جےرام! اگر پرتاپ رائے نے راجہ کے حکم سے جہاز لوٹے ہیں تو مجھے یقین نہیں کہ وہ قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوگا۔میرے خیال میں وہ اس بات کی کوشش کرے گا کہ یہ خبر سندھ سے باہر نا نکلے۔برہمن آباد میں ایسے قیدخانے ہیں جہاں سے صرف موت کی صورت میں انسان باہر نکلتے ہیں۔اس خبر کو مکران یا بصرہ تک پہنچانا ضروری ہے۔اگر ان کی حکومت نے مداخلت کی تو راجہ یقیناً قیدیوں کو چھوڑ دےگا۔“
جےرام بے کہا۔”اگر خالد جانا چاہے تو میں اسے سرحد پار پہنچادینے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔“
گنگو نے جواب دیا۔”خالد کو میں بھی سرحد کے پات پہنچا سکتا ہوں، لیکن جب تک اس کی بہن تندرست نہیں ہوتی، اس کے لیے جانا ممکن نہیں۔اس کے علاوہ عربوں کی فوجیں اس وقت ترکستان اور افریقہ میں لڑرہی ہیں۔ممکن ہے کہ وہ سپاہیوں کی قلت کے پیشِ نظر سندھ کے ساتھ بگاڑ پسند نا کریں۔خالد کا خیال ہے کہ اگر زبیر کسی طرح رہا ہوجائے۔تو یہ مہم اس کے لیے بہت آسان ہوگی۔وہ بصرہ اور دمشق کے ہر بااثر آدمی کو جانتا ہے۔“
جےرام نے کہا۔”اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی زبیر کو قید سے آزاد کرانے کی کوشش کروں گا۔“
مایا نے کہا۔”بھیا! تم سب کچھ کرسکتے ہو۔زبیر کی رہائی کی کوشش ضرور کرو۔“
”مایا! تمہاری سفارش کے بغیر بھی یہ میرا فرض ہے۔“ یہ کہہ کر جےرام گنگو سے مخاطب ہوا۔”اب اگر آپ کی اجازت ہو تو مایا سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“
گنگو کا اشارہ پاکر اس کے ساتھی وہاں سے کھسک گئے۔گنگو نے ایک طرف ہوکر خالد سے کہا۔ ”تم ناہید کے پاس جاو اور اگر وہ قیدیوں کو کوئی پیغام بھیجنا چاہتی ہے تو پوچھ آو۔“
خالداندر داخل ہوا تو ناہید دروازے کی آڑ میں کھڑی تھی۔اس نے کہا۔”ناہید تمہیں تھوڑا افاقہ ہوتا ہے تو چلنے پھرنے لگتی ہو تمہیں بستر پر لیٹنا چاہیے۔“
ناہید نے اس کی بات پر توجہ دیے بغیر کہا۔”تم نے بیچارے جےرام پر بہت سختی کی۔اب مایا کے متعلق تم نے کیا فیصلہ کیا؟“
خالد نے جواب دیا۔”مایا کے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔وہ بہن بھائی آپس میں باتیں کررہے ہیں۔غالباً وہ اس کے ساتھ چلی جائے گی۔جےرام نے زبیر کو قید سے چھڑانے کا وعدہ کیا ہے۔وہ رہا ہوتے ہی مکران کے راستے بصرہ پہنچ کر ہماری سرگزشت سنائے گا۔عورتوں اور بچوں کے رہا ہونے کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ ہماری حکومت اس معاملے میں مداخلت کرے۔“
ناہید نے کہا۔”میں یہ باتیں سن چکی ہوں۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ جس طرح ابا کے معاملے میں حکومتِ سندھ نے مکران کے گورنر کو ٹال دیا تھا۔اس طرح یہ معاملہ بھی رفع دفع ہوجائے گا۔میں نے سنا ہے کہ بصرہ کا حاکم بہت جابر ہے لیکن سندھ کی طرف متوجہ نا ہونے کے لیے اس کے پاس معقول بہانہ ہے کہ عرب کی تمام افواج افریقہ اور بصرہ میں برسرِپیکار ہیں۔“
خالد نے پریشان ہوکر کہا۔”میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔لیکن میں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔“
ناہید نے کہا۔”میں نے ایک تجویز سوچی ہے۔میں بصرہ کے حاکم کو خط لکھتی ہوں۔ اگر جےرام زبیر کو رہا کروا سکے تو اسے کہو یہ خط اس کے حوالے کردے۔اگر باالفرض میرا خط حاکم بصرہ کو متاثر نا کرسکا تو بصرہ کی عوام اس سے متاثر ضرور ہوں گے۔میں خواب میں مسلمانوں کو قید کے دروازے توڑتے ہوئے دیکھ چکی ہوں۔مجھے اپنے خواب کے صحیح ہونے کا یقین ہے۔“
”تو تم اندر جاکر خط لکھو۔کس چیز پر لکھو گی؟ ہاں یہ لو میرارومال ۔“ خالد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ناہید کو رومال دیا اور وآپس مڑتے ہوئے کہا۔”تم خط لکھو میں اتنی دیر جےرام کو روکتا ہوں۔“
باہر مایا اپنے بھائی کو آپ بیتی سنا رہی تھی۔اختتام پر جےرام نے پوچھا۔”مایا! تمہیں یہاں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں؟“
”نہیں“ اس نے جواب دیا۔”گنگو مجھے اپنی بیٹی سمجھتا ہے۔ناہید مجھے اپنی چھوتی بہن خیال کرتی ہے۔“
جےرام نے کہا۔”مایا میں تمہیں ایک بہت بری خبر سنانا چاہتا ہوں۔“
مایا نے گھبرا کر پوچھا۔”وہ کیا؟“
”بات یہ ہے کہ میں تمہیں اس وقت اپنے ساتھ نہیں لےجاسکتا۔میں نے تمہارے غائب ہونے کی ذمہ داری پرتاپ رائے پر تھوپ دی تھی۔لیکن جب اس نے زبیر اور علی کو اذیت دینی شروع کی تو مجھے ان کی جانیں بچانے کے لیے یہ تسیلم کرا پڑا کہ تم میرے ساتھ نا تھیں۔اب اگر میں تمہیں ساتھ لےجاوں تو مجھے خالد اور ناہید کا پتہ بتانے پر مجبور کیا جائے گا۔میں بذاتِ خود راجہ کی سختی سے نہیں ڈرتا لیکن پرتاپ رائے کو شک ہو جائے گا اور وہ خالد اور ناہید کی تلاش شروع کردے گا۔میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں دیکھ کر انھیں خالد اور ناہید کے روپوش ہونے کا شک ہو۔اگر تم چنددن اور یہاں رہنا گوارا کروتو پرتاپ رائے غالباً تین چار دن روز تک واپس دیبل چلا جائے گا۔اس کے بعد میں تمہیں یہاں سے لےجاں گا۔“
مایا نے اطمنان سے جواب دیا۔”بھیاآپ میری فکر نا کریں۔میں یہاں ہرطرح خوش ہوں۔اور جب تک ناہید تندرست نہیں ہوتی۔میں اسے چھوڑ کرجانا پسند بھی نہیں کروں گی۔“
گنگو اور خالد کچھ فاصلے پر آپس میں باتیں کررہے تھے۔جےرام نے انھیں آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر اشارے سے اپنے پاس بلا لیا۔جب قریب پہنچے تو اس نے کہا۔” آپ کو کہیں پھر شک نا ہوجائے گا کہ میں کوئی سازش کررہی ہوں۔مایا کہتی ہے کہ وہ ناہید کے تندرست ہونے تک یہیں رہنا چاہتی ہے اور میں بھی بعض مصلحت میں چند دن تک اسے لےجاوں گا۔ممکن ہے کہ مجھے بھی زبیر کے ساتھ فرار ہونا پڑے اور میں ہمیشہ کے لیے آپ سے آملوں۔ اب مجھے دیر ہورہی ہے ممکن ہے کہ راجہ پرتاپ رائے کے شہر میں پہنچتے ہی ہمیں ملاقات کے لیے بلالے۔میرا غیرحاضر ہونا ٹھیک نہیں۔“
خالد نے کہا۔”آپ زرا ٹھہریے۔ناہید ایک خط لکھ رہی ہے۔آپ یہ خط زبیر کو آزاد کروانے کے بعد اس کے حوالے کردیں۔“
”تو جلدی سے وہ خط لے آو۔مجھے بہت دیر ہوگئی ہے۔وہ برہمن آباد کے قریب پہنچ گئے ہوں گے۔“
گنگو نے کہا۔”تم فکر نا کرو۔ہم ان سے پہلے ایک آسان راستے سے تمہیں برہمن آباد پہنچا دیں گے۔“
جےرام نے کہا۔”میں فقط آپ کا ایک ساتھی ساتھ لے جانا چاہتا ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ برہمن آباد میں اسے کوئی پہچانتا نا ہو۔اگر کوئی نازک صورتِ وقت آیا تو میں اسے آپ کے پاس پیغام بھیج دوں گا۔“
گنگو نے کہا۔”آپ داسو کو لےجائیں۔
دوپہر کے وقت جےرام داسو کی رہنمائی میں جنگل عبور کررہا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...