اگلے دن کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور پہرے دار نے ہاتھ جوڑ کر جےرام کو پرنام کیا اور کہا۔” آپ کو سردار پرتاپ رائے بلاتے ہیں۔“
جےرام پہرےدار کے طرزِ عمل میں اس تبدیلی پر حیران تھا۔وہ چپکے سے اس کے ساتھ ہولیا۔پرتاپ رائے اپنے دیوان خانے کے برآمدے میں آبنوس کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سامنے چاندی کے ایک طشت میں سراندیپ کے راجہ کے وہ تحفے پڑے ہوئے تھے، جو گذشتہ شاپ عربوں کے جہاز سے لوٹے گئے تھے۔
اس نے جےرام کو دیکھتے ہی جواہرات کے انبار کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔”جےرام! مہاراج سراندیپ کے تحائف دیکھ کر کاٹھیاوار کے راجہ کے تحائف کی نسبت زیادہ خوش ہوں گے۔ان میں سے ایک ایک ہیرا تمہارے صندوق کے سارے مال سے زیادہ قیمتی ہے۔“
جےرام نے اس پر قہر آلود نگاہ ڈالی اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگا۔
پرتاپ راہے نےکہا۔”لیکن تمہارا چہرہ زرد اور تمہاری آنکھیں سرخ ہیں۔معلوم ہوتا ہے تم رات بھر نہیں سوئے۔کوٹھڑی میں بہت گرمی تھی۔بندرگاہ سے وآپس آکر مجھے تمہارا خیال نا آیا۔ ورنہ تمہیں اتنی دیر وہاں رکھنے کی ضرورت نا تھی۔میں نے مہاراج کی خدمت میں ایلچی بھیج دیا ہے۔ چنددنوں تک قیدیوں کے متعلق ان کا حکم آجائے گا۔“
جےرام نے کہا۔”تو آپ نے انھیں قید کرلیا ہے؟“
”ہاں! میں نے تمہیں کل بھی کہا تھا کہ یہ راجہ کا حکم ہے۔“
”آپ نے انھیں لڑکر قید کیا یا میزبان بن کر؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”تم ابھی بچے ہو۔لڑائی میں سب جائز ہے۔“
”میری بہن کہاں ہے؟“
”کون؟“
”میری بہن۔“
”کہاں تھی؟“
”آپ مجھے بنانے کی کوشش نہ کریں۔ایک راجپوت کی عزت پر ہاتھ ڈالنا اس قدر آسان نہیں جتنا آپ سمجھے ہیں۔میں پہلے آپ کے راجہ کا ملازم تھا اور اب میں کاٹھیاوار کے راجہ کے سفیر کی حثیت سے یہاں آیا ہوں۔اگر آپ نے میری بہن کی طرف آنکھ آٹھا کے بھی دیکھا تو یاد رکھیے میں کاٹھیاوار سے لے کر راجپوتانہ تک آگ کی دیوار کھڑی کردوں گا اور مہاراج اپنے ہزاروں سپاہیوں کی جانیں ضائع کرنے کی بجائے دیبل کے ایک مغرور حاکم کو ہمارے حوالے کردینا زیادہ مناسب سمجھین گے۔ رہے عرب وہ مہمان تھے۔مجھے افسوس ہے وہ میری وجہ سے اس مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ممکن ہے کہ ان کے متعلق میری پکار ہندوستان کے کسی گوشے میں نا سنی جائے لیکن ان کے بازو بہت لمبے ہیں۔وہ جب چاہیں گے آپ کا گلا دبوچ لیں گے۔“
پرتاپ رائے کو معلوم تھا کہ بعض اوقات راجہ کے غلط فیصلوں کا خمیازہ اہلکاروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔حاکم خطرے کے وقت اپنا قصور اہلکاروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔عربوں کے متعلق وہ اپنے راجہ کی طرح مطمین تھا لیکن وہ کاٹھیاوار کے سفیر کی بہن کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نا تھا۔اس نے کہا۔”جےرام! مجھے تمہاری بہن کے متعلق کوئی علم نہیں۔“
”آپ جھوٹ کہتے ہیں۔میں اسے جہاز پر عرب عورتوں کے پاس چھوڑ آیا تھا۔“
”عورتیں جو جہاز میں تھیں وہ سب ہماری قید میں ہیں۔اگر تمہاری بہن ان میں ہے تو میں ابھی تمہارے ساتھ چل کر اس سے معافی مانگتا ہوں۔چلو!!!“
بہن کو تلاش کرنے کی خواہش جےرام کے تمام ارادوں پر غالب آگئی۔اور وہ پرتاپ رائے کے ساتھ چل دیا۔راستے میں اس نے پوچھا۔”عرب ملاحوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”وہ سب آخری وقت تک لڑتے رہے۔عورتوں اور بچوں کے علاوہ ہم صرف پانچ آدمیوں کو زندہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔دوسرے جہاز پر سراندیپ کے ملاحوں نے معمولی مزاحمت کی اور جلد ہی ہتھیار ڈال دیے۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بیک وقت سراندیپ اور عربوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے۔“
”میں نے صرف راجہ کے احکام کی تعمیل کی ہے اور جب تک اس عہدے پر رہوں گا ایسے احکامات کی تعمیل کرتا رہوں گا۔میرے خط کے جواب میں اگر تمہیں راجہ نے بلا بھیجا اور تم نے ان قیدیوں کو رہا کرنے کی اجازت طلب کرلی، تو مجھے خوشی ہوگی اور میں خوامخواہ کی ذمہ داری سے بچ جاوں گا۔“
محل سے نکل کر چند قدم کے فاصلے پر جےرام اور پرتاپ رائے قید خانے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔پہرے داروں نے پرتاپ رائے کا اشارہ پاکر عربوں کے کمرے کا دروازہ کھولا۔عورتوں نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔عرب ملاحوں نے جےرام کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیے۔زبیر ایک کونے میں دیوار کے سہارے بیٹھا ہوا تھا۔اس نے نفرت اور حقارت سے جےرام کی طرف دیکھا اور منہ اپنے ساتھیوں کی طرف پھیر لیا۔
جےرام نے پرتاپ رائے کی طرف دیکھا اور کہا۔”میری بہن یہاں نہیں ہے۔وہ کہاں ہے؟“
پرتاپ رائے نے ایک پہرے دار کو آواز دے کر بلایا اور اس سے پوچھا۔”کیا تمام عورتیں اسی کمرے میں ہیں یا سراندیپ کے ملاحوں کے کمرے میں بھی کوئی ہے؟“
”نہیں مہاراج! تمام عورتیں یہیں ہیں۔“
جےرام نے بدحواس سا ہوکر جےرام کی طرف دیکھا اور ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا۔”زبیر! میری طرف اس طرح نا دیکھو میں بےقصور ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میری بہن کہاں ہے؟“
زبیر کے منہ سے اچانک ایک بھوکے شیر کی گرج سے متلی جلتی آواز نکلی۔”تم میری توقع سے کہیں زیادہ ذلیل ثابت ہوئے ہو۔تم جھوٹ سے حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔یادرکھو! ناہید کا بال بھی بیکا ہوا تو خدا کی زمین پر کوئی ایسا خطہ نہیں ملے گا جو ہمارے انتقام سے پناہ دے سکے۔ناہید کو اڑانے کے لیے تم نے اپنی بہن کو جہاز پر چھوڑا تھا۔تمہاری تدبیر کامیاب تھی۔تم نے اس حلیف کو ہمارا میزبان بنا کر بھیجااور مجھے جہاز سے بلوالیااور خود پیچھے جہاز پر پہنچ کر نہ معلوم کس بہانے سے ناہید کو کہیں لے گئے لیکن اگر صلح اور جنگ کے لیے تم لوگوں کے اصول یہی ہیں تو یاد رکھو تمہارے جہاز کے دن گنے جاچکے ہیں۔“
پرتاپ رائے نے اچانک سپاہی کے ہاتھ سے کوڑا چھین کر زبیر کے منہ پر دے مارا اور دوسرے کوڑے کے لیے تیار کھڑا تھا کہ جےرام نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑلیا۔پرتاپ رائے نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”تم راجہ کی توہیں برداشت کرسکتے ہو لیکن میں نہیں کرسکتا۔“
جےرام نے کہا۔”میں تم سے آخری بار پوچھتا ہوں کہ میری بہن اور وہ عرب لڑکی کہاں ہے؟“
اس سوال نے پرتاپ رائے کا غصہ ٹھنڈا کردیا اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا۔”کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے حملے کے وقت اسے انتقامی جذبے کے ماتحت جہاز سے نیچے پھین دیا گیا ہو۔“
جےرام نے کہا۔”یہ لوگ دشمنی میں شرافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔میری بہن کے ساتھ عرب لڑکی کا غائب ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس شازش کی تہہ میں تمہارے جیسے کسی کمینے آدمی کا دماغ کام کررہا ہے۔“
زبیر نے پھر جےرام سے مخاطب ہوکرکہا۔”تم ان باتوں سے مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتےناہید، خالد اور تمہاری بہن بیک وقت جہاز سے غائب ہوئے ہیں اور وہ یقیناً تمہاری قید میں ہیں۔مجھے تم سے کسی نیکی کی توقع نہیں لیکن ہم اتنا ضرور چاہتے ہیں کہ ہمیں راجہ کے سامنے پیش کیا جائے اور جب تک وہ ہمارا فیصلہ نہیں کرتا ناہید اور خالد کو ہمارے ساتھ رکھا جائے۔“
پرتاپ رائے نے چونک کر کہا۔”میں اب سمجھا جےرام! اگر ان لڑکیوں کے ساتھ جہاز پر کوئی آدمی بھی غائب ہوا ہے تو یہ معاملہ صاف ہے کل رات بندرگاہ سے ایک سرکاری کشتی بھی غائب ہوگئی ہے لیکن وہ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔تم میرے ساتھ آو۔“
پرتاپ رائے اور جےرام قید خانے سے باہر نکل کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور انھیں سرپٹ دوڑاتے ہوئے بندرگاہ پر پہنچے۔بندرگاہ کے پہرے داروں نے شام کے وقت کسی کشتی غائب ہوجانے کے متعلق پرتاپ رائے کے بیان کی تصدیق کی، اور مایا کے متعلق جےرام کی تشویش بڑھنے لگی۔پرتاپ رائے نے چند کشتیاں اور جہاز شمال اور مغرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال کے لیے روانہ کردیے اور جےرام کو تسلی دی کہ وہ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔جےرام پرتاپ رائے کے ساتھ وآپس شہر چلا آیا۔
سہ پہر تک اپنے مکان میں مایا کے متعلق کوئی خبر نا پاکر اس نے بندرگاہ پر جانے کا ارادہ کیا لیکن پرتاپ رائے کا سپاہی آیا اور اسے اپنے ساتھ اس کے محل کی طرف لے گیا۔“
پرتاپ رائے کے محل کے پائیں باغ میں زبیر اور علی ناریل کے دو درختوں کے ساتے جکڑے ہوئے تھے۔پرتاپ رائے اور اس کے چند ساتھی اور دو جلاد ہاتھ میں کوڑے لیے ان کے پاس کھڑے تھے۔علی اور زبیر کی جھکی ہوئی گردنیں اور عریاں سینوں پر ضربوں کے نشانات یہ ظاہر کررہے تھے کہ انھیں ناقابلِ برداشت جسمانی اذیت پہنچائی جاچکی ہے۔ ایک سپاہی نے جےرام کی آمد کی اطلاح دی، اور پرتاپ رائے کا اشارہ پاکر جلاد علی اور زبیر پر کوڑے بسانے لگے۔زبیر ایک چٹان کی طرح کھڑا تھا لیکن علی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور کوڑے کی ہر ضرب کے ساتھ اس کے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔
باہر کے دروازے میں پاوں رکھتے ہی علی کی چیخ وپکار نے جےرام کو متوجہ کیا اور اس نے بھاگ کر یکے بعد دیگرے دونوں جلادوں کو پیچھے دھکیل دیا اور پرتاپ رائے کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”یہ ظلم ہے۔یہ پاپ ہے۔آپ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ان کا فیصلہ راجہ پرچھوڑ دیا ہے۔“
پرتاپ رائے نے علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔”یہ لڑکا سپاہیوں نے شہر سے تلاش کیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہاری بہن کے ساتھ ہی جہاز پر سے روپوش ہوا تھا اور اس کے ساتھی شہر کے آس پاس چھپے ہوئے ہیں۔“
جےرام نے آگے بڑھ کر علی سے پوچھا۔”تم کہاں تھے؟ میری بہن کہاں ہے؟“
علی نے سراپا التجا بن کر اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔
جےرام نے کہا۔” اگر تمہیں مایا دیوی کے متعلق کچھ معلوم ہے تو بتا دو۔میں تمہیں بچا سکتا ہوں۔“
علی نے دوبارا گردن اٹھائی اور چلاچلا کر کہنے لگا۔” مجھے معلوم نہیں۔میں سچ کہتا ہوں۔مجھے ان کے متعلق معلوم نہیں۔میں نے جہاز پر سے کودنے سے پہلے انھیں تلاش کیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیسے غائب ہوا۔“
جےرام نے پوچھا۔”تم شہر میں کیسے پہنچے؟“
میں جہاز سے کود کر سمندر کنارے ایک کشتی میں چھپ گیا تھا۔آج میں شہر پہنچا اور سپاہی مجھے پکڑ کر یہاں لے آئے۔تم سب ظالم ہو۔میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔“
جےرام نے زبیر کی طرف دیکھا لیکن حیرانی، غصہ، ندامت اور افسوس کے جذبات کے ہیجان میں وہ اس سے مخاطب ہونے کے لیے موزوں الفاظ تلاش نا کرسکا۔اس کی آنکھیں ایک بار اٹھیں اور جھک گئیں۔ہونٹ کپکپائے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوگئے۔اس نے پرتاپ کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔” آپ انھیں چھوڑ دیں۔مجھے ان پر کوئی شبہ نہیں۔“
پرتاپ رائے نے کہا۔”میں انھیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔اگر تمہاری بہن جہاز میں تھی تو انھیں یقیناً یہ علم ہوگا کے وہ کہاں ہے۔تم شاید اب تک مجھے مجرم خیال کرتے ہو اور میں ان لوگوں کی زبان سے تمہیں یقین دلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تمہاری بہن نے ان لوگوں نے چھپا رکھا ہے اور اگر وہ زندہ نہیں تو انھوں نے جہاز پر حملہ ہونے سے پہلے اسے سمندر میں پھینک دیا ہوگا۔اب یا انھیں اپنا جرم تسلیم کرنا پڑے گا اور یا تم کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمہاری بہن جہاز پر تھی ہی نہیں اور تم نے مجھے مرعوب کرنے کے لیے یہ بہانہ تلاش کیا ہے۔“
پرتاپ رائے نے پھر جلادوں کو اشارہ کیا اور وہ علی اور زبیر پر کوڑے برسانے لگے۔جےرام چلایا۔”ٹھہرو! ٹھہرو! یہ بےقصور ہیں۔یہ ظلم ہے۔انھیں چھوڑ دو۔“
لیکن اس کی چیخ وپکار بےاثر ثابت ہوئی۔اس نے آگے بڑھ کر ایک جلاد کے منہ پر گھونسا رسید کیا، لیکن پرتاپ رائے کے اشارے پر چند سپاہیوں نے اسے پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا وہ سپاہیوں کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔علی چیخیں مارنے کی بجائے نیم بیہوشی کی حالت میں آہستہ آہستہ کراہ رہا تھا۔زبیر کر کوڑے کی ضرب لگنے کے بعد جےرام کی طرف دیکھتا اور پھر آنکھیں بند کرلیتا۔بالآخر علی کے کراہنے کی آواز بند ہوگئی اور گردن اٹھانے اور آنکھیں کھولنے کے لیے زبیر کی طاقت بھی جواب دے گئی۔
پرتاپ رائے نے ایک سپاہی کو گرم لوہا لانے کا جکم دیا۔جےرام پھر چلایا۔پرتاپ تم ظالم ہو، کمینے ہو۔مجھے جو سزا چاہو دے لو لیکن ان پر رحم کرو۔“
پرتاپ رائے نےگرج کرکہا۔”مجھے تمہاری بدزبانی کی پروا نہیں۔میں تمہارا فیصلہ مہاراج پر چھوڑ دوں گا لیکن اس وقت ان کی جان ہمارے قبضے میں ہے۔میں ان کی آنکھیں نکلوا دوں گا۔ان کی بوٹیاں نوچ ڈالوں گا۔یہ ناممکن ہے کہ یہ زندہ بھی رہیں اور تم مہاراج کے پاس جاکر اپنی بہن کے اغواء کیے جانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالو۔اگر تمہاری بہن جہاز پر سے غائب ہوئی ہے تو میں ضرور اس کا پتہ لگاوں گا۔اس کے لیے ان تمام بچوں اور عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کرنا پڑا تو دریغ نہیں کروں گا۔“
سپاہی نے لوہے کی سلاخ پرتاپ رائے کے ہاتھ میں دےدی اور وہ زبیر کی طرف بڑھا۔جےرام نے بلند آواز میں کہا۔”نہیں!!! نہیں!!! ٹھہرو! میری بہن جہاز پر نہ تھی۔میں اکیلا آیا تھا۔میں فقط ان کی جان بچانا چاہتا تھا۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”لیکن مجھے کیونکر یقین آئے کہ تم راجہ کے سامنے ایسی کہانیاں بیان کرکے اسے میرے خلاف نہیں بھڑکاو گے؟“
”پرتاپ میں وعدہ کرتا ہوں۔ایک راجپوت کا وعدہ! مجھ پر اعتبار کرو۔“
”تمہیں یہ گواہی بھی دینی پڑے گی کہ جہاز پر سے کوئی بھی لڑکی غائب نہیں ہوئی۔“
”اگر تم انھیں چھوڑ دو تو میں یہ وعدہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔“
”انھیں چھوڑنا نا چھوڑنا راجہ کا کام ہے۔میں صرف یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ آئندہ کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔تمہیں راجہ کے سامنے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تم نے ان لوگوں کو چھڑانے کی نیت سے مجھ پر دباو ڈالا اور اپنی بہن کا بہانہ بنایا تھا۔“
جےرام نے شکست خوردہ سا ہوکر جواب دیا۔”میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔“
پرتاپ رائے نے لوہے کی سلاخ پھینکتے ہوئے کہا۔”تم نے مجھے خواہ مخواہ پریشان کیا۔“
زبیر نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں۔وہ علی کے قریب قید خانے میں پڑا ہوا تھا۔جےرام ٹھنڈے پانی کی بالٹی سے رومال بھگو بھگو کے اس کے زخموں کی ٹکورکررہا تھا۔ایک عورت علی کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھی۔زبیر ہوش میں آتے ہی اٹھ کربیٹھ گیا۔جےرام نے پانی کا کٹورا بھر کے اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔زبیر کے دل میں ایک لمحے کے لیے پھر غصے اور حقارت کے جزبات بیدار ہوئے لیکن جےرام کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پانی کے چند گھونٹ پی لیے۔جےرام نے فقط اتنا کہا۔”زبیر مجھے افسوس ہے۔“ اور اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔زبیر نے اپنے چہرے پر مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”جےرام! تم میرے لیے ایک معما ہو۔تم نے دیبل کے حاکم سے سازباز کرکے ہمیں اس حالت تک پہنچایا۔اس کے بعد تم میرے لیے جلادوں سے نبردآزماہوئے۔اب تم آنسو بھی بہا رہے ہو آخر ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے؟“
جےرام کے ہونٹوں سے درد کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی۔”زبیر! مجھ پر اعتبار کرو۔میں تمہارا دوست ہوں۔تم نے میری جان بچائی تھی اور ایک راجپوت احسان فراموش نہیں ہوسکتا۔دیبل کے سردار نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔تمہارے جہازوں پر حملہ کرنے سے پہلے مجھے ایک کوٹھی میں بند کردیا۔تم مجھ سے بدظن ہو۔مجھے دغاباز سمجھتے ہو لیکن میں بےقصور ہوں۔اگر بھگوان نے موقع دیا تو میں یہ ثابت کرسکوں گا۔“
زبیر نے کہا۔”اگر تم اس سازش میں شریک نہیں تو میں پوچھتا ہوں ناہید اور خالد کہاں ہیں؟“
جےرام نے جواب دیا۔”اگر تم مایا کے متعلق کچھ نہیں جانتے تو میں خالد اور ناہید کے متعلق کیا بتا سکتا ہوں۔۔۔؟ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ساری رات کوٹھڑی میں بند رہا۔تم جہاز پر تھے۔بندرگاہ سے ایک کشتی بھی اس رات غائب ہوچکی ہے۔اگر تم نے لڑائی سے پہلے انھیں کہیں بھیج دیا ہے تو بھگوان کے لیے مجھ سے نا چھپاو۔مجھے یقین ہے کہ تم نے انھیں پرتاپ رائے کے ظالم ہاتھوں سے بچانے کے لیے کہیں بھیجا ہوگا۔مجھے صرف اتنا بتا دو کہ مایا زندہ ہے اور کسی محفوظ جگہ پر ہے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم پر کوئی آنچ نا آنے دوں گا۔میں پرتاپ رائے کو یقین دلا چکا ہوں کہ میری بہن میرے ساتھ نہ تھی۔ورنہ وہ آج تمہیں زندہ نا چھوڑتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”کاش! میں تم پر اعتبار کرسکتا۔تم دونوں ناہید کو چھپا کر مایا کی ذمہ داری ہمارے سر اس لیے تھوپ رہے ہو کہ ہم راجہ سے ناہید اور خالد کے متعلق سوال نا کرسکیں۔“
جےرام نے کہا۔”زبیر! مجھ پر اعتبار کرو۔مجھے تم سے جھوٹ بولنے میں کوئی فائدہ نہیں۔اگر تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو مایا اور ناہید کے متعلق کوئی علم نہیں تو یہ پرتاپ رائے کی شرارت ہے۔آج وہ میرے سامنے تم لوگوں کو اس لیے سزا دے رہا تھا کہ میں آئندہ مایا اور ناہید کا نام نا لوں۔میں یہ وعدہ کرتا ہوں اور تم نہیں جانتے کہ ایک راجپوت بھائی کے لیے اپنی بہن کے متعلق اس قسم کا وعدہ کرنا کس قدر صبر آزما ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”تمہاری مہربانی کا شکریہ۔اس وقت ہم پر تمہاری تلواروں کا پہرہ ہے۔ہمارے لیے تمہارے جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا میں سچ بولنے کا انعام دے سکتا ہوں اور نا جھوٹے بولنے کی سزا۔صرف یہ جانتا ہوں کہ ہم تمہاری وجہ سے اس مصیبت میں گرفتار ہوئے اور جب تک میں ناہید کو نہیں دیکھتا مجھے نا تم پر اعتبار آسکتا ہے نا دیبل کے حکمران پر۔اگر مستقبل کے حالات نے یہ ثابت کردیا کہ تم بے قصور تھے۔تو میں اپنی بدگمانی کے لیے تم سے معزرت کرلوں گا۔اگر دیبل کا حاکم قصوروار ہے تو تمہاری سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا آواز راجہ کے کانوں تک پہنچ جائے۔میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو خالد، ناہید اور تمہاری بہن کا کوئی علم نہیں۔دوسرے جہاز سے سراندیپ کے ملاحوں نے ہمارے جہاز سے چند آدمیوں کو کشتی پر سوار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ کشتی جنوب کی طرف غائب ہوگئی تھی۔اگر انھیں اس کشتی پر اغواء کیا گیا ہے تو معاملا صاف ہے۔کشتی ہمارے جہازوں سے نہیں بلکہ بندرگاہ سے غائب ہوئی ہے اور اس بات کا علم بندرگاہ والوں کو ہونا چاہیے کے وہاں سے کشتی کون لایا۔“
جےرام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”پرتاپ! کمینہ! مکار! ظالم! بزدل!۔۔۔۔زبیر بھگوان کے لیے میری خطا معاف کردو۔میں نے تم پر شک کیا۔میں نادم ہوں۔“
زبیر کو ان الفاظ سے زیادہ جےرام کی پرنم آنکھوں نے متاثر کیا اور اس نے جےرام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”جےرام! تم جاو۔انھیں تلاش کرو۔پرتاپ رائے ظالم بھی ہے اور مکار بھی۔اسے اپنے دل کا حال مت بتانا ورنہ تم اپنی بہن کو تلاش نہیں کرسکو گے اور نا راجہ ہی کے کانوں میں یہ خبر پہنچے گی۔“
جےرام اٹھ کر قید خانے کی کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔پہرے داروں نے دروازہ بند کردیا۔چند قدم دور جانے کے بعد جےرام نے وآپس آکر ایک پہرے دار کو سراندیپ کے ملاحوں کی کوٹھڑی کھولنے کا حکم دیا۔
ان لوگوں سے چند سوالات پوچھنے کے بعد جب وہ باہر نکلا تو اس کے دل پر بھاری بوجھ تھا۔سراندیپ کے ملاح زبیر کے بیان کی حرف نا حرف تصدیق کرچکے تھے اور اسے افسوس تھا کہ اسے زبیر کی باتوں پر شک کیوں گزرا۔“
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...