پروفیسر سراج خان کی ڈائری سے ایسے ایسے راز منکشف ہوئے کہ انسپکٹر عاصم چکرا کر رہ گئے۔ یہ تو اتفاق تھا کہ ان کے ہاتھوں پروفیسر سراج خان کی ڈائری لگ گئی تھی، ورنہ بہت سی باتیں شاید انہیں کبھی معلوم نہ ہوتیں، کیوں کہ اس کیس کا سہرا انسپکٹر عاصم کے سر جا رہا تھا، اسی لیے ایک زمانہ ان کے پیچھے لگ گیا تھا اور ان سے مکمل حالات وواقعات اور تمام تر حقائق سننے کو بے تاب تھا، لیکن خود انسپکٹر عاصم نے اس کیس کا ہیرو اختر کو قرار دیا تھا۔ واقعی یہ بات درست ہی تھی، اختر نے مختصر سا ہونے کے باوجود جو کارنامے سر انجام دئیے تھے، وہ حیران کن تھے۔ انسپکٹر عاصم کے خیال میں اگر اختر ان کو فون نہ کرتا تو وہ اس معاملے سے لا علم رہتے اور اسٹینلے کا کھوج کبھی نہیں لگا پاتے۔
پروفیسر سراج کی ڈائری سے معلوم ہوا تھا کہ وہ چوہوں کے اوپر کسی قسم کی ریسرچ میں لگا ہوا تھا۔ پھر اس نے ایک کیمیکل بنایا اور تجرباتی طور پر اسے اپنی لیبارٹری کے قریب میں ہول کے گندے پانی میں ملا دیا۔ اس کا رد عمل انتہائی نتیجہ خیز تھا۔ چند ہی دنوں میں جہاں چوہے بہت کم تھے۔ وہاں چوہوں کی تعداد میں یک لخت بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ چوہے عام سائز سے کچھ بڑے اور خونخوار بھی ہو گئے تھے۔ اس تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اگر اس کیمیکل کو دشمن ممالک کے میں ہولوں اور پانیوں کی جگہ استعمال کیا جاتا تو کچھ ہی دنوں میں وہاں چوہوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا۔ اس کیمیکل کو دشمن ملک کے حساس مقامات پر استعمال کر کے دشمن ملک کو پریشان کیا جا سکتا تھا۔ ان حساس مقامات میں ہوائی اڈے، فوجی چھاؤنیاں، ریلوے اسٹیشن وغیرہ ہو سکتے تھے۔ چوہوں کا بڑھتا ہو سیل رواں نا صرف اس ملک کو حواس باختہ کر دیتا، بلکہ دوسرے مخالف ممالک کو موقع بھی فراہم کرتا کہ وہ اس ملک کی غفلت اور حواس باختگی سے فائدہ اٹھا کر اس پر دھاوا بول دیں۔ پروفیسر سراج کے ایک ماتحت نے یہ راز کچھ لوگوں پر آشکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نامعلوم لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ پروفیسر سراج نے فائل پروفیسر نجیب کے پاس امانتاً رکھوا دی، لیکن اسی رات اس کی تجربہ گاہ میں رکھا خوفناک کیمیکل کا ایک جار پھٹ گیا۔ سارا کیمیکل پروفیسر پر آگرا تھا۔ پروفیسر سراج تجربہ گاہ سے نکل کر میں ہول میں بھاگ لیا، کیوں کہ دشمن اس پر حملہ کرنے کی نیت سے آ چکے تھے۔ اس نے کچھ دیر قبل پولیس کو بھی فون کر دیا تھا۔ پروفیسر تو میں ہول میں بھاگ گیا، لیکن پولیس اورمجرموں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا آخر بچنے والے مجرم اس کی لیبارٹری تباہ و برباد کر کے کھنڈرات میں بدل کر فرار ہو گئے۔ صرف تجربہ گاہ کے نیچے خفیہ تہہ خانہ محفوظ رہا تھا۔ ادھر پروفیسر سراج میں ہول میں ہی بھٹکتا رہا۔ وہ باہر نہیں نکلا، کیوں کہ اس کی ہیت تبدیل ہوتی گئی تھی۔ اس نے بھاگتے وقت اپنی یہ ڈائری ساتھ ہی لے لی تھی اور جب تک ہو سکا، اپنی بدلتی ہوئی کیفیت کے بارے میں لکھتا بھی رہا۔ اس نے لکھا تھا کہ میری جسمانی ہیئت حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو رہی ہے۔ میرا منہ کسی چوہے کی طرح لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ میرا دبلا پتلا سا بدن پھولنا شروع ہو گیا ہے اور چوہے جیسی دم بھی نکلتی جا رہی ہے۔ میں خود ہی اپنے تجربے کی بھینٹ چڑھ گیا ہوں ۔۔۔ ڈائری میں آگے ٹیڑھے میڑھے الفاظوں میں لکھا گیا تھا۔ اب مجھ سے لکھا نہیں جا رہا ہے۔ میری یادداشت غائب ہوتی جا رہی ہے۔ شاید چند گھنٹوں کے بعد میں سب کچھ بھول جاؤں۔ میرے ذہن پر وحشتوں کی یلغار ہو رہی ہے۔ بے شمار چوہے میرے پاس آ کر جمع ہو گئے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے وہ مجھ سے مانوس ہیں ۔۔۔ وہ خاموشی سے مجھے تک رہے ہیں ۔۔۔ اور اب شاید۔۔۔ آگے جگہ خالی تھی، بلکہ آگے کے بقیہ صفحات آخر تک خالی ہی تھے۔
پروفیسر سراج اس طرح دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر ایک عفریت کا روپ دھار گیا، مگر وہ عفریت کے روپ میں آنے کے بعد بھی اپنی تجربہ گاہ کے تہہ خانے اور میں ہولوں میں ہی رہا تھا۔ کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ پروفیسر سراج ابھی تک اپنے ٹھکانے پر ہی رہ رہا ہے۔ اس تمام قصے کے ختم ہونے کے بعد انسپکٹر عاصم نے پروفیسر سراج کی لیبارٹری پر ایک ٹیم کے ساتھ بغور معائنہ کیا۔ وہاں موجود زندہ بچ جانے والے خونی چوہوں کو اور ان کے بچوں کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ پروفیسر نجیب کا لائیٹر اختر کی فرمائش پر ضائع کر دیا گیا کہ اس کی وجہ سے پھر کوئی نیا کھیل شروع نہ ہو جائے۔ اسٹینلے کے ساتھ دینے والے ہمدانی اور زخمی حالت میں پڑے ہوئے علی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اختر اور ہیرا، اب بھی پروفیسر نجیب کی رہائش گاہ میں ہی رہتے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ: کتاب ایپ
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید