زکی کو کومہ میں گۓ ڈیڑھ مہینہ ہو گیا تھا۔
خرم واپس جا چکا تھا وہ اپنا سب کام چھوڑ کر یہاں بیٹھا تھا بزنس میں لاس ہو رہا تھا سو مجبوراً کو حمنہ کو یہیں چھوڑے واپس آسٹریلیا چلا گیا تھا۔
ایسے میں رمشا تھی جو حمنہ کا بھرپور خیال رکھ رہی تھی۔
اسکی حمنہ سے کافی دوستی ہو گٸ تھی۔
مجھے لگتا ہے آپکو اپنے ہزبینڈ کے پاس اب چلے جانا چاہیے۔ وہ دونوں لان میں ٹہل رہی تھیں۔
میں اپنے بھاٸ کو اس حال میں کیسے چھوڑ کر جاسکتی ہوں؟؟؟
آپ کے یہاں رہنے سے زکی ٹھیک تو نہیں ہو جاۓ گا مگر آپ کی میریڈ لاٸف متاثر ہو سکتی ہے۔
نجانے زکی کو کتنا لگ جاۓ آپ کم از کم اپنے گھر کو تو اچھی طرح سنبھال لیں نہ۔
سب یہاں زکی کا خیال رکھ رہے ہیں مگر آپکے شوہر کو آپکے گھر کو آپکی ضرورت ہے۔
جیسے ہی زکی کی کنڈیشن نارمل ہوتی ہے آپ واپس آ جاٸیے گا۔ رمشا اسے سمجھاتے ہوۓ بولی۔
مگر میرا دل نہیں مانتا اسے اس حال میں چھوڑ کر جانے کو۔ پتا ہے زکی ایک ہفتے کا تھا جب مام ہاسپٹل سے گھر آٸیں تھیں۔ اور ڈیڈ نے مام کے آنے سے پہلے ہی زکی کے لیے گورنس رکھ لی تھی۔
میں تب سات سال کی تھی۔ زکی ساری رات روتا رہتا تھا مگر مام اپنے روم میں ہوتی تھیں۔ تب وہ سات سال کی بچی وہ سیکھ گٸ تھی جو ہماری سوسائٹی کی لڑکیاں شادی کے بعد بھی نہیں سیکھ پاتیں۔
وہ صرف دو دن گورنس کے پاس رہا اور پھر میں نے زکی کو گود لے لیا۔
اس دن کے بعد سے میں زکی کے لیے ماں باپ بہن بھاٸ دوست سب کچھ بن گٸ۔
وہ میری فیملی ہے اور میں اسکی۔۔۔
مام ڈیڈ نے مجھے بہت فورس کیا کہ میں بورڈنگ چلی جاٶں زکی کے لیے وہ بیسٹ گورنس لاٸیں گے میری مرضی کی۔
مگر میں نہیں مانی نہ میں خود بورڈنگ گٸ اور نہ بعدمیں میں نے زکی کو بورڈنگ جانے دیا۔ وہ میری ذمہ داری تھا اور دیکھو جیسے ہی میں لاپرواہ ہوٸ اس پہ کیسی قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ ضبط کرتے ہوۓ بھی رو دی تھی۔
سنبھالیں خود کو اگر آپ ایسے حوصلہ ہار جاٸیں گی تو زکی کو کیسے سنبھالیں گی وہ آپکو ایسے دیکھ کر بہت دکھی ہو گا۔
ام اوکے تھینکس۔۔۔۔ وہ خود کو کمپوز کرتےہوۓ بولی۔۔۔۔
وہ دونوں چلتے ہوۓ ہاسپٹل کے فلاحی حصے کی طرف آ گٸیں۔
جہاں غریبوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ لوگ اپنے پورے خاندان کو لیے وہاں موجود اپنے پیاروں کی صحت پانے کے لیے آتے تھے۔
کسی کی ماں بیمار تھی تو کسی کا باپ تو کوٸ اپنے بچے کے لیے گڑگڑا رہا تھا۔
پتا ہے رمشا ان لوگوں کے لگتا ہو گا کہ ان کی ہی زندگی مشکل ہے بس۔ ان کے نزدیک وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔
مگر پتا ہے درحقیقت یہ لوگ حوش قسمت ہوتے ہیں پیسے کی کمی ان کو جوڑے رکھتی ہے۔ ان کے کمانے والے جب تھک ہار کر آتے ہیں تو ان کی ماں بہن بیوی بیٹی انکی راحت کا سامان ہوتی ہیں۔
پیسے کی کمی کی وجہ سے یہ گڑگڑا رہے ہوتے ہیں مگر دیکھو انکا یہ گڑگڑانا ہی انکے پیاروں کے لیے زندگی بن جاتا ہے۔ یہ صرف پیسہ نہیں لگاتے اس سے ذیادہ انکے آنسو محبتیں انکی دعاٸیں ہوتی ہیں۔
جبکہ ہمارے ماں باپ دنیا کا سب سے بیسٹ ڈاکٹر اور مشینری منگوا لیتے ہیں۔
وہ ہمارے لیے اس طرح منتیں نہیں کرتے وہ لوگوں پر رعب ڈالتے ہیں کہ ہمیں ٹھیک کریں ہمیں ٹھیک کرنے میں ساری محنت ڈاکٹرز کی ہوتی ہے۔
ہم اس سوساٸٹی میں رہتے ہیں جہاں لوگ جانور تو خود پالتے ہیں مگر بچے۔۔۔بچے نوکر پالتے ہیں۔
اور دنیا کو ہم خوش قسمت لگتے ہیں۔ پیسے سے خوشی ملتی ہوتی تو اللہ اپنے سب سے محبوب بندوں کو مسکین کیوں رکھتا۔۔۔
یہ تو اللہ کی عطا ہے نہ وہ جسے چاہے نواز دے۔۔۔۔
ہاں مگر اسے پسند تو درویشی ہے نہ۔
چلو چاۓ پیتے ہیں۔
ہمممم چلیں۔
***********************************
تو آپ جا رہی ہیں واپس۔۔۔۔
ہاں کل کی فلاٸٹ ہے میری۔
آپ نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔
تھینکس ٹو یو مجھے دوراہے سے نکال کر ہمت دینے کے لیے۔
اور میں جانتی ہوں تم میرے بھاٸ کا بہت خیال رکھو گی۔
وہ مسکرا کر کہتی زکی کے روم کی طرف چلی گٸ۔
اگلے دن رمشا اسے اٸیر پورٹ چھوڑنے آٸ تھی۔
تو آپ نے انفارم کر دیا کیا۔۔۔؟؟؟؟
نہیں سرپراٸز دوں گی۔ اوہ پھر تو بہت اچھی بات ہے۔ ہممممم بہت لوگوں کو ہماری ضرورت ہوتی ہے ہمیں ان کو میسر بھی ہونا چاہیے۔
آپ بہت گہراٸ تک سوچتی ہیں۔
کیونکہ زندگی بہت گہری ہے۔
آپ لاجواب کر دیتی ہیں۔
تو ساٸیکا ٹرسٹ بھی لاجواب ہوتے ہیں۔
بالکل ہوتے ہیں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں بھی چپ کروا دیتے ہیں۔۔۔۔
اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو۔۔۔۔
تو میں ضرور بتانا پسند کروں گی۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
دو ڈھاٸ ماہ پہلے زکی کی لاٸف میں ایک لڑکی تھی۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا وہ کیسے اس سے پوچھے پتا نہیں وہ جانتی بھی تھی یا نہیں۔
اس لڑکی کا تو مجھے بھی پتا نہیں جب زکی ٹھیک ہو جاۓ گا تو تم خود اس سے پوچھ لینا۔
فلاٸٹ کی اناٶنسمنٹ ہوٸ تو وہ چل دی۔
**********************************
کیا۔۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟؟؟؟ تم شادی کر چکے ہو اور تم نے باپ کو بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔
اوہ ڈیڈ کم آن اب میں ہر بات تو آپکی اجازت سے کرنے سے رہا۔ ویسے بھی یہ میری لاٸف ہے میں خود ڈیسیژن لے سکتا ہوں۔
آٶں گا میں پاکستان ایک دو مہینے میں اور جو آپ مجھے ناکارہ سمجھتے تھے نہ انگلینڈ فٹبال ٹیم میں سلیکٹ ہو گیا ہوں میں۔ اور پلیز میں خوش ہوں میری خوشی خراب مت کرنا۔ کہتے ہی تیمور کال کاٹ چکا تھا۔
اور رضا جو اسے زکی کا بتانے والے تھے انکی بات وہیں رہ گٸ۔
اتنے وقت کے بعد اس نے رابطہ کیا بھی کیا بتانے کے لیے۔ وہ سرکش ہو گیا تھا اب وہ سواۓ صبر کے اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
انکل کیا بات ہے آپ آجکل کچھ پریشان سے رہتے ہیں سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔؟؟؟؟
رمشا ایک دو دن سے دیکھ رہی تھی رضا الجھے ہوۓ تھے۔
ہممممم نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔
کیا بات ہے انکل کیا بات پریشان کر رہی ہے آپ کو؟؟؟؟ صرف آپ ہی میرا چہرہ نہیں پڑھنا جانتے میں بھی آپکا چہرہ پڑھ سکتی ہوں کچھ تو ہے جو آپکو ڈسٹرب کر رہا ہے۔۔۔۔
بالآخر انہوں نے تیمور سے ہوٸ ساری بات اسے بتا دی۔
اور یہ بات تو وہ بہت پہلے سے جانتی تھی کہ یقیناً ایک دن ایسا تو ضرور ہی ہو گا۔
مگر پھر بھی اسے تیمور سے اس خود غرضی کی امید نہ تھی۔
اکثر اوقات لوگ ہماری امیدوں کے برعکس ہی تو ہوتے ہیں۔
************************
رمشا گھر آٸ تو خالہ پہلے سے موجود تھیں۔
اس وقت وہ کم از کم ان کا سامنا تو ہر گز نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ اسے دیکھ چکی تھیں مجبوراً اسے ان کے پاس بیٹھنا پڑ گیا۔
اور سناٶ کیسی چل رہی ہے تمہاری جاب۔۔۔؟؟؟؟
اچھی چل رہی ہے خالہ۔۔۔
اچھا لوگ آتے ہیں تمہارے پاس۔۔۔؟؟؟؟
خالہ میں ڈاکٹر ہوں اور جنہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے وہ آتے ہیں میرے پاس۔
ارے تم بھی نہ چھوڑو یہ سب اب ہر کوٸ مریض ہی تو نہیں ہوتا نہ لوگ ڈپریشن سے چھٹکارے کے لیے بھی تو جاتے ہی ہیں۔ یا پھر زندگی کے جھمیلوں سے نپٹنے کے لیے وہ مشورہ لینے بھی جاتے ہیں۔
اور رمشا کو پانی پیتے اچھو ہی تو لگ گیا تھا۔
خالہ اور ایسی باتیں۔۔۔۔ یقیناً کسی نے انکا برین واش کیا تھا۔
ارے بیٹا آرام سے پانی پیو دیکھو اب کیسے بری طرح کھانسی لگ گٸ ہے۔
وہ اسکی پِیٹھ تھپتھپانے لگیں۔
جی خالہ کیا پریشانی ہے مطلب ایسی کونسی بات ہے جو آپکو پریشان کر رہی ہے۔
انکا رویہ دیکھ قر وہ اتنا تو سمجھ گٸ تھی کہ انہیں کوٸ کام تھا اس سے۔
اسی لیے اس نے گول مول کر کے پوچھا۔
نہیں بیٹا ایسی تو کوٸ بھی بات نہیں ہے۔۔۔۔ ساتھ ہی انہوں نے اسے پوری سٹوری سنا دی تھی۔۔۔
جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ خالہ کی پڑوس کی آنٹی ساٸیکا ٹرسٹ کے پاس جا رہی تھیں۔
وہ جانے کس وجہ سے جا رہی تھیں مگر خالہ سے برداشت نہ ہوا تھا سو وہ بھی اس کے پاس چلی آٸ تھیں۔
اور بیٹا پتا ہے مسز اسفر کہہ رہی تھیں کہ یہ تو آجکل اپر کلاس والوں نے ٹرینڈ بنا لیا ہے کہ ہر کوٸ ہی ساٸیکا ٹرسٹ کے پاس جا رہا ہے۔ تو میں کیوں پیچھے رہتی بھلا۔
اور رمشا انہیں دیکھ کر رہ گٸ تھی۔ شاید وہ انہیں ساٸیکا ٹرسٹ سے کنسلٹ کرنے کے فاٸدے اچھے سے نہیں سمجھا پاٸ تھی۔
******************************
زکی کی حالت میں کوٸ سدھار نہ آیا تھا اسے کومہ میں گۓ چار ماہ ہو گۓ تھے۔
آج اسی سے ریلیٹڈ ڈاکٹرز کی میٹنگ تھی۔
رمشا اس کے پاس آٸ تھی۔
زکی۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے تم یہاں ایسے خاموش لیٹے ہوۓ بالکل اچھے نہیں لگتے ہو۔ اتنے تم کوجے ہو گۓ ہو بالکل ہینڈسم نہیں رہے۔ اگر تم ایسے ہی رہے نہ تو ڈاکٹرز اور نرسز نے ڈر کے مارے پھر تمہارے پاس آنا ہی نہیں ہے اب تم بس بھی کرو اور اٹھ جاٶ۔
یہ اسکا روز کا معمول تھا وہ روز اس کے پاس آ کر باتیں کرتی تھی ادھر حمنہ بھی ویڈیو کال کر کے بولتی رہتی تھی۔ رمشا زکی کے پاس بیٹھی حمنہ سے باتیں کرتی تھی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ زکی زندگی کی طرف لوٹ آۓ۔ مگر کچھ سجھاٸ نہ دے رہا تھا۔
رمشا کو کسی کورس کے لیے دو ماہ کے لیے بینگ کاک جانا تھا۔ وہ جانے سے پہلے اس سے ملنے آٸ تھی۔
دیکھو اب میں تمہیں لاسٹ ٹاٸم کہہ رہی ہوں میرے آنے تک تم مجھے ایسے سوۓ نظر نہ آٶ۔ تمہارے پاس دو مہینے ہیں اچھا نہ جلدی سے ٹھیک ہو جاٶ تم۔۔۔۔
وہ چلی گٸ تھی اپنی تھیسسز تو وہ مکمل نہ کر پاٸ تھی مگر وہ کورس پہ پورا دھیان دے رہی تھی۔
ان دو مہینوں میں اس نے پاکستان صرف زنیرہ بیگم سے رابطہ کیا تھا زکی کے بارے میں وہ فلحال انجان تھی۔۔۔
*********************
ڈاکٹر۔۔۔۔ ڈاکٹر رضا۔۔۔
یس سسٹر امبرین کیا ہوا آپ ہانپ کیوں رہی ہیں سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔؟؟؟؟
وہ زکی کی نرس تھی۔
ڈڈ ڈاکٹر پیشنٹ کو۔۔۔۔ہوش آ رہا ہے۔۔۔۔
وہ پھولی سانسوں سے بولی۔
وااااٹ؟؟؟؟ وہ فوراً زکی کے کمرے کی جانب بڑھ گۓ تھے۔
زکی کو ہوش آ رہا تھا مگر اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔
سسٹر آکسیجن۔۔۔۔
اسے فوراً سے ڈرپ لگا دی گٸ تھی۔سبھی سینٸر ڈاکٹرز وہاں آ گۓ تھے۔ دو گھنٹے کی سر توڑ کوششوں کے بعد اسکی سانس اب نارمل ہوٸ تھی۔
انہوں نے شکر کا کلمہ پڑا تھا۔ زکی کا کومہ سے باہر آنا معجزے سے کم نہ تھا۔
انہوں نے فوراً حمنہ کو بتایا تھا۔ حمنہ نے شکرانہ ادا کیا تھا وہ خرم کے ساتھ پاکستان آرہی تھی۔
اظہر اور ٹینا بیگم کو بھی وہ بتا چکی تھی۔ کچھ بھی تھا وہ ماں باپ تھے۔ اور پھر ان ساڑھے چار ماہ میں وہ لاتعداد چکر لگا چکے تھے۔
وقت نے انہیں اچھی ٹھوکر لگاٸ تھی۔ وہ اس سے پہلے مزید گرتے سنبھل گۓ تھے۔ سبھی چار دن بعد زکی کے پاس پہنچ گۓ تھے۔
وہ رب کا جتنا شکر کرتے کم تھا کتنے ہی نوافل کتنے ہی صدقات انہوں نے دیے تھے۔ ان کا بس نہ چل رہا کہ وہ پوری دنیا زکی پر سے وار دیتے۔
اتنی لمبی بے ہوشی کے بعد زکی کا دماغ فلحال کسی کو بھی پہچان نہ پا رہا تھا۔
کچھ بے ہوشی کا اثر تھا کچھ دواٸیوں کا اثر تھا۔ اب یہ سچ میں دواٸیوں کا ہی اثر تھا یا وہ اپنی یاداشت کھو چکا تھا یہ تو اسکے بولنے پہ ہی پتا چلتا۔
وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہا تھا۔ پورے دو ہفتوں بعد وہ بول پایا تھا صد شکر تھا کہ وہ دماغی طور پر ٹھیک تھا۔
سب کو پہچاننے میں اسے ابھی بھی دقت ہو رہی تھی مگر وہ آہستہ آہستہ پہچاننے لگا تھا۔
اسکی یاداشت لوٹ آٸ تھی اسے سب یاد آگیا تھا اور یہی تو برا ہوا تھا اسے وہ تلخ لمحات بھی یاد آۓ تھے۔
جن کی وجہ سے اس نے پھر چپ کی چادر اوڑھ لی تھی۔
ڈاکٹرز فیملی دوست سب نے ہر ممکن کوشش کی تھی اسے خوش رکھنے کی مگر وہ بھلا نہیں پا رہا تھا۔
اسکے دوست جانتے تھے تیمور اور ھُدا کے بارے میں مگر زکی یہ بات جانتا تھا وہ یہ نہ جانتے تھے۔
وہ اس سے چھوٹی موٹی باتیں کرتے ہنسی مذاق کرتے مگر کچھ تو تھا جو اسے اندر ہی اندر کھاۓ جا رہا تھا وہ جاننے سے قاصر تھے۔
اظہر صاحب نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ساٸیکا ٹرٹس جمع قر ڈالے تھے مگر ان کی محنت بے کار جا رہی تھی وہ انکی باتوں سے علاج سے صحت یاب تو ہو رہا تھا مگر ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ کہیں کچھ تو غلط تھا۔
***********************************
رمشا واپس آ گٸ تھی۔ پرسوں اس نے ہاسپٹل جواٸن کرنا تھا مگر وہ اگلے دن ہی واپس آ گٸ تھی۔
روم نمبر 104۔۔۔۔۔مگر یہ کیا کمرہ تو وہی تھا مگر وہاں زکی نہیں کوٸ اور تھا۔ وہ بار بار نمبر پلیٹ اور کبھی پیشنٹ کو دیکھ رہی تھی۔
اسکا دل انہونی کے احساس سے دھڑک رہا تھا۔
وہ غلط سوچنا نہیں چاہتی تھی مگر۔۔۔۔۔
جانے کس احساس کے تحت اسکی آنکھیں بھر آٸیں تھیں۔
کسی سے پوچھنے کی اس میں ہمت نہ ہوٸ۔
وہ اسکی موت کی خبر سننے کا حوصلہ خود میں نہ پا رہی تھی۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی اپنے روم کی طرف بڑھ رہی تھی تبھی حمنہ کی نظر اس پہ پڑی تھی۔
رمشا۔۔۔۔۔ وہ زکی۔۔۔
وہ اسے ساتھ لیے چل دی رمشا کی ٹانگوں سے جان نکل رہی تھی۔ وہ بند آنکھوں سے اسکے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔
ایک کمرے کے پاس جا کر وہ رکی تھی اور رمشا نے وقت کے تھم جانے کی دعا کی تھی اسکا دل پتے کے مانند لرز رہا تھا۔
یہ دیکھو وہ اسے سامنے کرتے بولی۔
چلو زکی اسکو پہچانو۔
حمنہ کی آواز پہ اس نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ اسے ٹیک لگاۓ بیٹھا دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا تھا۔
زکی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
نہیں میں نہیں جانتا یہ کون ہیں۔
اسکی خوشی ملیا میٹ ہوٸ تھی۔ وہ اسکے دماغ سے نکل گٸ تھی۔ وہ جس کے دل میں آن بسا تھا۔
کب کیسے یہ اسے پتا نہیں تھا ہاں مگر ان دو مہینوں میں اسے اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ اسے زکی کے وجود کی عادت ہو گٸ تھی۔
مگر عادت کب محبت بنی یہ تو رب ہی جانتا تھا۔ وہ دل کی اس بے ایمانی پر حیران تھی یہ ایک مردہ وجود کی خواہش کر رہا تھا۔
مگر اب تو وہ زندہ صحیح سلامت اسکے سامنے موجود تھا۔ مگر اسے پہچاننے سے انکاری تھا۔
وہ الٹے قدموں وہاں سے لوٹ گٸ تھی۔
زکی تم جانتے ہو وہ کون ہے میں تماری آنکھوں میں شناساٸ دیکھی ہے۔ تم جانتے ہو نہ اسکو۔
ان چار مہینوں میں اس نے سب سے ذیادہ خیال رکھا ہے تمہارا اور تم کہہ رہے ہو تم اسے پہچانتے نہیں۔
اگر اس نے میرا خیال رکھا ہے تو احسان نہیں کیا یہ اسکا فرض تھا۔
یہ اسکا فرض نہیں تھا زکی تم اچھے سے جانتے ہو۔
آپو پلیز۔۔۔۔
نہیں زکی تم ایسے تو نہیں تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟
آپو یہ جب میرے سامنے آتی ہے تو وہ تلخ یادیں مجھے آن گھیرتی ہیں۔
آپ جانتی ہیں کیا ہوا تھا جب میں پاکستان آیا۔۔۔۔۔
اس نے ھُدا اور تیمور کو گاڑی میں دیکھنے سے لے کر ایکسیڈنٹ تک ہر بات سنا ڈالی تھی۔
اسکا ضبط ٹوٹا تھا ساتھ ہی وہ حوصلہ ہار گیا تھا۔
مگر زکی میرے بھاٸ اس میں رمشا کا تو کوٸ قصور نہیں ہے نہ وہ تو جانتی بھی نہیں ہو گی اس سب کے بارے میں۔
کسی اور کے کیے کی سزا کیا تم کسی اور کو دو گے۔
یہ حمنہ کے سمجھانے کا ہی اثر تھا کہ اس نے رمشا کی طرف سے اپنا دل صاف کر دیا تھا۔
مگر آپو اب تو وہ ناراض ہو گٸ ہو گی نہ اب مناٶں کیسے؟؟؟؟ وہ کان کھجاتے بولا۔
بدتمیز یہ پہلے سوچنا چاہیے تھا نہ اب خود بھگتو اور اگر وہ تمہیں اٹھا کر باہر بھی پھینک دے نہ تو مجھے مت کہنا۔
******************************
حمنہ باہر چلی گٸ جبکہ زکی سوچ میں پڑ گیا کہ رمشا سے سوری کیسے کی جاۓ۔
رمشا گھر چلی گٸ تھی۔ وہ ڈسٹرب تھی سکون کرنا چاہ رہی تھی۔
پھر ایک ہفتہ اس نے لِیو لے لی تھی۔
حمنہ خرم کے ساتھ واپس جا چکی تھی۔
زکی نے باقی سب کو بھی بھیج دیا تھا کہ ڈاکٹرز اور نرسز اسکا خیال رکھ لیں گے انہیں رکنے کی ضرورت نہیں۔
مگر اب تیسرا دن تھا زکی خوب ہی بور ہو رہا تھا اسکے دوست بھی کچھ دیر کے لیے آتے تھے۔
رمشا ہاسپٹل آٸ تو فلحال اس نے زکی کے سامنے جانے سے پرہیز کیا۔
ایک دو لوگوں کی سِٹنگز نپٹا کر اب وہ راٶنڈ لگا رہی تھی۔
ایکسیڈنٹ والے پیشنٹس کو دیکھ رہی تھی انہیں تسلی آمیز لہجے میں درد سے جیتنا سکھا رہی تھی۔
وہاں سے ہو کر وہ چلڈرن وارڈ میں چلی گٸ بچوں کے ساتھ وقت گزار کر وہ ہلکی پھلکی ہو گٸ تھی۔
ابھی وہ چلڈرن وارڈ سے باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے ہی ایک نرس زکی کی وہیل چٸیر دھکیلتے آ رہی تھی۔
کتنا کمزور ہو گیا تھا وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا ایکسیڈنٹ نے اسکی تمام وجاہت جیسے نچوڑ لی تھی۔
سسٹر آپ رہنے دیں مجھے ڈاکٹر رمشا کمپنی دیں گی۔ آپ جاٸیں۔
ایک جتاتی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی تھی اس نے گویا وہ اسے بھولا نہیں تھا۔
وہ انکار کرنے والی تھی کہ تبھی ڈاکٹر رضا آ گۓ۔
اور بھٸ ینگ مین کیسے ہو اب؟؟؟
میں ٹھیک ہوں انکل بس ابھی ڈاکٹر رمشا مجھے واک کے لیے لے جا رہی تھی۔ وہ مسکراہٹ دباتا بولا۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے ڈاکٹر رمشا کی کمپنی تو سچ میں کمال کی ہے۔
آپ جاٶ۔
ڈاکٹر رضا کے سامنے وہ انکار نہ کر سکی اور بظاہر مسکراتی دل میں صلواتیں سناتی اسکی طرف بڑھ گٸ۔
محبت ایک طرف مگر اسے اپنی عزتِ نفس پیاری تھی وہ اسے پہچاننے سے انکار کر چکا تھا تو وہ بھی اسے منہ کیوں لگاتی۔
وہ اسکی وہیل چٸیر دھکیلتی لان میں لے آٸ۔
سو مسٹر اب کیسا فِیل کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔
ابھی اس نے پروفیشنل انداز اپنایا تھا کہ زکی نے بیچ میں ٹوک دیا۔
لگتا ہے ایکسیڈنٹ میرا ہوا ہے مگر دماغ تمہارے پہ اثر ہوا ہے میرا نام مسٹر نہیں زکی ہے۔
باٸ دا وے تم بہت بری ایکٹر ہو ایک پیشنٹ کی تم چار ماہ سے خدمت کر رہی ہو اور تمہیں نام بھی نہیں پتا۔
میں خدمت نہیں ڈیوٹی کر رہی تھی۔ وہ دانت پیس کر بولی۔
چلو ایک ہی بات ہے نہ اور سناٶ کیا چل رہا ہے۔
اتنے عرصے بعد زکی مسکرا رہا تھا وہ زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا شاید۔۔۔۔
*******************************
تمہاذی رپورٹس آ گٸیں کیا؟؟؟؟
ہاں آ گٸ ہیں۔۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں بولا۔
اسکے انداز پہ وہ ٹھٹھکی تھی پھر رپورٹس اٹھا کر دیکھنے لگی۔
اسکی ٹانگیں ڈیمیج ہوٸ تھیں وہ اب کبھی فٹبال یا ریس لگانے کے قابل نہ رہا تھا۔
ھُدا بہت کچھ اس سے چھین کر لے گٸ تھی۔
وہ ٹھیک ہو رہا تھا ایکسرساٸزز تھراپیز کی مدد سے چلنے بھی لگا تھا۔
مگر وہ دماغی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔
زکی پھر سے مایوس ہو رہا تھا اس نے ایکسرساٸز سے بھی منع کر دیا تھا۔
واک کے لیے چلیں۔۔۔۔؟؟؟؟
میرا موڈ نہیں ہے پلیز میں اکیلے رہنا چاہتا ہوں۔
کوٸ بات نہیں۔۔۔۔
وہ اسکی وہیل چٸیر گھسیٹتے بولی۔۔۔
کہاں لے جا رہی ہو میں نے کہا نہ میں نے نہیں جانا۔۔۔
مگر وہ اسکی سنے بغیر پارکنگ کی طرف لے آٸ۔
چلو بیٹھو۔۔۔
مجھے نہیں جانا۔۔۔۔ وہ نروٹھے انداز میں بولا۔
دیکھو میں کہہ رہی ہوں بیٹھو ورنہ وہ ہتے کٹے آدمی دیکھ رہے ہو نہ وہ تمہیں اٹھا کر ڈال دیں گے چلو بیٹھو۔۔۔۔
تو تم مجھے دھمکا رہی ہو۔۔۔؟؟؟
کچھ بھی سمجھو بیٹھو اب۔۔۔۔
مگر ہم کیاں جا رہے ہیں؟؟؟؟؟
سی ساٸیڈ۔۔۔۔۔
وہاں کیوں؟؟؟
تمہیں زندگی سے ملانے۔۔
مطلب؟؟
تم خاموش نہیں رہ سکتے کیا اب چپ رہو تم۔۔۔۔
وہ اسے لیے بِیچ پہ آگٸ۔
سمندر کی ٹھنڈی ہواٸیں اسے سکون دے رہی تھیں۔
اب بتاٶ کیوں ہو اتنے مایوس۔۔۔۔
تم جانتی ہو۔۔۔
میں کیسے جانتی ہوں۔۔۔
وہ مجھے نہیں پتا مگر تم جانتی ہو۔۔۔۔
کیا جانتی ہوں۔
یہی کہ ھُدا تیمور کی بیوی ہے۔۔۔
اور رمشا شاک ہوٸ تھی۔
تو اس دن تم نے سن لیا جب تمہارے دوست اس بارے میں بتا رہے تھے۔
نہیں میں پہلے دن سے جانتا ہوں میں نے انہیں ساتھ میں دیکھا تھا۔
تو کیا تمہارے ایکسیڈنٹ کی وجہ یہی تھی۔؟؟؟
ہاں شاید۔۔۔۔
اف خدایا۔۔۔۔ وہ چکرا گٸ تھی زکی کتنا سب کچھ سہہ رہا تھا۔
وہ ہنستا بولتا لڑکا کیوں خاموش ہو گیا تھا یہ وجہ بہت اذیت ناک تھی۔