امرد پرستی (Pederasty) جسے دلی کی بازاری زبان میں “لونڈے بازی” بھی کہا جاتا پوری سوسائٹی میں پھیل چکی ہے
کیا علما، شعرا، مدرسے و ہاسٹل کے طلبا، ذاکرین، میڈیا، سیاستدان اور فلمی ایکٹر غرض ہر شعبے کے لوگ اس علت میں مبتلا ہیں۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی اس بارے میں خاطر خواہ چرچا نہیں ہوتا۔
اس موضوع پر ہندی سینما کی فلم Page 3 دیکھنے کے لائق ہے۔
مقام شرم ہے کہ پاکستان کے کچھ شہروں کی وجہ شہرت ہی امرد پرستی ہے جن میں بنوں، میانوالی، تونسہ وغیرہ سر فہرست ہیں۔
اداکار فیصل قریشی نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ مرد اس سے اغلام بازی کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔
لاہور کے مفتی عزیز ہوں یا فیصل آباد کے قاری ابوبکر معاویہ یا پھر لاڑکانہ کی ایک مسجد کے محراب میں منہ کالا کرنے والا قاری۔۔۔۔۔ ہر روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن اپنے مسلک کی بدنامی کے ڈر سے اس فعل قبیح پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
اور تو اور امرد پرستی شعرا کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے اور انہوں نے بھی اپنے کلام میں کئی جگہ امرد پرستی کا برملا اظہار کیا ہے۔
اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا
بخالِ ہندوش بخشم ثمرقند و بخارا را
( اگر شیراز کا وہ ترک لڑکا میرے ہاتھ لگے تو میں اس کی گال کے تل کے بدلے ثمرقند و بخارا اسے بخش دوں)
حافظ شیرازی
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عــــٓــطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
میر تقی میر
دونوں طرف میں داڑھی خورشید رو کے دوڑی
دیکھو زوال یارو ، آیا برا زمانہ
آبرو شاہ مبارک
جو لـــونڈا چھوڑ کر رنڈی کو چاہے
وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے
آبرو شاہ مبارک
اے ولی کیا کہوں بیاں اس کا
لطف میں دلربا ہے امرت لال
ولی دکنی
ہے بس کہ بے مثال نہ دیکھا جو خواب میں
آئینہ خیال مثالِ گوبند لال
ولی دکنی
گر چہ سب خوب رو ہیں خوب ولے
قتل کرتی ہے میرزا کی ادا
ولی دکنی
ہے بس کہ آب و رنگ حیا کھیم داس میں
آتا نہیں کسی کے خیال و قیاس میں
ولی دکنی
تیرا قد دیکھ اے سید معالی
سخن فہماں کی ہوی ہے فکر عالی
ولی دکنی
لونڈے پھرے ہیں گھر بہ گھر کھاوے نوالے تر بتر
بھوکے پھرے چاکر نفر ، بی بی برے احوال میں
جعفر زٹلی
بہت لڑکے پھرے کونی کہ دہلی ڈھونڈتے سونی
مراوے کون بے دونی ، عجب یہ دور آیا ہے
جعفر زٹلی
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
میر تقی میر
رکھے اس لالچی لڑکے کو کوئی کب تلک بہلا
چلی جاتی ہے فرمایش کبھی یہ لا کبھی وہ لا
ناجی
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ
میر تقی میر
کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں
اس نسخے کی کوئی نہ رہی حیف دوا یاد
میر تقی میر
باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا
میر تقی میر
گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے
میر تقی میر
دھولا چکے تھے مل کر کل لونڈے میکدے کے
پر سرگراں ہو واعظ جاتا رہا سٹک کر
میر تقی میر
امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا
حیدر علی آتش
میر اس قاضی کے لونڈے کے لیے آخر موا
سب کو قضیہ اس کے جینے کا تھا بارے چک گیا
میر تقی میر
یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو
قائم چاندپوری
لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی
مصحفی غلام ہمدانی
ہاتھ چڑھ جائیو اے شیخ کسو کے نہ کبھو
لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے
میر تقی میر
معروف نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق اگر شہوانی خواہش کی موزوں وقت پر تکمیل نہ ہو تو یہ انسان کے لاشعور میں پرورش پاتی ہے اور اظہار کے لیے کڑھتی رہتی ہے۔ سماج اور مذہب کی جکڑ بندیوں کے سبب یہ اظہار کے بجائے گرفت میں رہتی ہے اور پھر خطرناک صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ امرد پرستی بھی اسی کی ایک شکل ہے۔
اپنے نو عمر بچوں کو اس فعل قبیح بارے آگاہی دیں۔ ان پر کڑی نظر رکھیں تاکہ وہ امرد پرستوں کے بہلاوے میں نہ آئیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس لعنت کے تدارک کے لیے POCSO جیسا قانون نافذ کرے جو کہ پڑوسی دیش نے بچوں کی رکشا کے لیے متعارف کروایا ہے۔