مناباو کی گمشد قبریں (دوسری فصل)
نیو چھور کا شہداء قبرستان
۔۔۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمود احمد ہلالِ امتیاز ملڑی نے ایک عرق ریزی کے بعد 1965 کی پاک بھارت جنگ پر ایک کتاب مرتب کی تھی۔ جی ہاں آپ وہی ہیں، کارگل کے دنوں کے راولپنڈی کور کمانڈر اور پرویز مشرف کے عنانِ اقتدار پر قابض ہونے کی سازش میں جنرل کے دستِ راست ۔ بعد از ریٹائرمنٹ آپ اب تبلیغی جماعت کے سپرد ہیں ، مگر قارئین یہ سب تفصیل ہماری اس بے ضرر اور مسکین تحریر کے احاطے سے باہر ہے۔
تو ہم ذکر کررہے تھے جنرل صاحب کی تصنیف کردہ کتاب کا، جو پہلے پہل لیکسکن پبلشرز کے ہاں سے چھپ کے آئی تو اس کا عنوان تھا Illusion of Victory جس کا سلیس اردو میں ترجمہ ہوگا فتح کا بہلاوہ۔
بعد ازاں یہ کتاب سروسز بک کلب سے مسلمان ہوکر 1965 کی پاک بھارت جنگ کی عسکری تاریخ کہلائی اور اب سٹاف کالج کے داخلی امتحان کے سلیبس میں شامل ہوکر نوجوان کیرئیر میجروں کی نیندیں اڑانے کے کام آتی ہے۔
دیکھیے ہم پھر غیر ضروری تفصیل میں الجھے جاتے ہیں۔ تو بات جنرل محمود کی پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ پر مرتبہ ایک زبردست کتاب کی ہورہی تھی۔
اس کتاب کا یہاں ذکر اس لیے آیا کہ جب ہم نے پہلے پہل مناباوٗ کے شہیدوں کی گمنام قبروں کی کہانی
انگریزی میں کہی تھی تو فیس بک پر ہمارےایک کرم فرمانےجن کاتعلق فوج سےہے ہمیں بتایاتھا کہ جنرل موسیٰ کی تصویر والی قبروں سےملتے جلتے کچھ مزار نیو چھور کےشہداء قبرستان میں ہیں ۔ یہ غالباً 18 پنجاب کے شہید ہیں جو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں گدرا یا پھر مناباوٗ کے محاذ پر کام آئے تھے۔
ہمیں جب نیا چھور کے قبرستان کا حوالہ دیا گیا تو ہم فوراً اوپر بیان کی گئی کتاب اور اسکے نقشوں کی طرف پلٹے۔ جہاں اس کتاب میں شمال کے جنگی محاذوں بشمول کشمیر، سیالکوٹ اور لاہور کا ذکر ایک باریک بین تفصیل سے ہوا ہے وہیں جنرل صاحب جنوبی محاذ وں بشمول سلیمانکی اور تھر پارکر کے ذکر میں کافی حد تک کنجوسی کرگئے ہیں۔ بہر کیف ہمیں اسی کتاب میں اپنا گوہرِ مقصود تھر کے ریگزار کا عسکری نقشہ مل گیا۔ اس محاذ پر برسرِ پیکار یونٹوں میں 18 پنجاب، 8 فرنٹیئر فورس اور ان کی راست امداد میں ہماری خود کی پلٹن چودہ عباسیہ تھی ۔ اور ان یونٹوں اور دیگر عسکری اکائیوں پر مشتمل اس بریگیڈ کا انتظامی علاقہ عمر کوٹ ۔ نیا چھور کے علاقے میں تھا جو ایک بڑے نیلے گول دائرے کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تو صاحبو پینسٹھ کی جنگ میں مناباوٗ کے محاذ پر جو پلٹنیں دشمن سے برسرِ پیکار تھیں ان کے شہداء کی تدفین نئے چھور کے قبرستان میں ہوئی ہوگی اور عین ممکن ہے کہ جنرل موسیٰ کی وہ تصویر نئے چھور کے ریلوے سٹیشن پر کھینچی گئی ہو۔
تو صاحبو، جنوبی سندھ کے ریگزار کی اس گرد آلود شام، مانی اور قیوم جب عمرکوٹ سے چھور کی نیت کرتے تھے اور ان کے ساتھ ریت کی آندھی کے بگولوں میں جو سوزوکی کلٹس چلتی تھی تو اس کی وجہ مناباوٗ کے گمشدہ شہیدوں کی کھوج تھی۔
چھور چھاوٗنی میں ایک پرتکلف استقبال کی تفصیل میں ہم جانا نہیں چاہتے۔ کینٹ کے لاج میں اپنے مختصر سامان سمیت خود کو سموچا ڈھو لینے کے بعد ہم نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوست سٹاف کیپٹن کو طلب کرکے اگر کوئی غلط فہمی رہ بھی گئی ہے تو اس کا ازالہ کردیا جائے۔
’ لالے ہم ایک بے ضرر سے سادھارن ریٹائرڈ میجر ہیں اور فوج سے ہماری ریٹائرمنٹ کو بھی کم وبیش ایک دہائی ہونے کو ہے تو ہم پروٹوکول، تشریفات اور ان کے معجل اور غیر معجل لوازمات کو قریب قریب بھول چکے ہیں ۔ اس لیے ریلیکس۔ فی الوقت ہماری چھور آمد کی شانِ نزول یہ ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کےکچھ گمشدہ شہید ہیں جن کےمدفن کانشان ڈھونڈتےہم یہاں تک آئے ہیں‘۔ کیپٹن حنین کےچہرےپراطمینان جھلکتادیکھ ہم نےفٹ جنرل موسیٰ کی کتاب سےمستعار لی گئی شہداء کی قبروں پر فاتحہ کی تصویر آگےکردی۔ ’ہماراخیال ہے کہ یہ قبریں نیا چھور کے شہداء قبرستان میں واقع ہیں‘۔
سٹاف کیپٹن کے چہرے پر لاعلمی کی پرچھائیں دیکھ کر ہمارا دل بیٹھ گیا۔ ’سر میرے علم میں تو نہیں ہے، میں بریگیڈ کی یونٹوں کو خبر کرتا ہوں، کل تک اگر کچھ معلوم ہوا تو آپ سے شیئر کروں گا‘۔ کیپٹن حنین تویہ کہہ کر چلتے بنے اور یہ تب ہوا کہ چھور کی اس ڈھلتی شام پہلے پہل اس دل میں شک کی کونپل پھوٹی۔ اگرسٹاف کیپٹن کےعلم میں نہیں ہےتو پھرچھورکینٹ یا اس کی قربت میں نیاچھور میں کوئی شہداء قبرستان نہیں ہوسکتا۔
مغرب میں ابھی کچھ وقت تھا جب میں لاج کے باہری باغیچے میں چہل قدمی کو نکلا۔ آندھی کا زور ٹوٹ گیا تھا اور گھر کر آئےبادلوں کےجھرمٹ میں چلتی ہوا میں نم ٹھنڈک تھی۔
دل میں شک کا بیج اب پھیلتا چلا جا رہا تھا کہ جن گمنام قبروں کو کھوجتے آئے ہیں شاید ان کا کوئی نشان چھور یا اس کی ہمسائیگی میں نہیں ہے اور شاید ہمارا چھاوٗنی تک کا یہ سفر بے مراد ہی رہا۔ صاحبو اداؔجعفری کی ایک لازوال غزل جسے استاد امانت علی خان نے گاکر امر کردیا ہے کا حاصلِ کلام شعر ہے جو ہمارے گرو سلمان رشید کو بہت پسند ہے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہٗ انجام ہی آئے
جس دشتِ عقیدت کے ہم مسافر تھے، شہیدوں کے مرقد کی کھوج، اس میں منزل کو پالینے کی تسکین یا کھو دینے کے اندیشے سے زیادہ کھوج میں رہنے کی راحت تھی جسکا کوئی نعم البدل نہیں تھا۔ تب دل سے بے اختیار آواز آئی۔ مناباوٗ کے ہمارے گمشدہ شہیدوں کے مرقد ملے یا نہ ملے یہ کہنے والے تو بنیں گے کہ ان کی تلاش میں چھور تک آئے تھے۔
کچھ اسی عقیدت کی چاشنی میں مغرب کی نماز پڑھی تو دعا کے لیے بے اختیار ہاتھ اُٹھ گئے۔
صاحبو، یہاں اپنے پڑھنے والوں کو یہ باور کراتے چلیں کہ باقی کے سادھارن مسلمانوں کی طرح ہم نماز کے بہت پابند نہیں ہیں۔ مطلب پابندی کی کوشش پوری کرتے ہیں مگر کبھی کبھار قضا بھی ہو جاتی ہے۔ جب کبھی پڑھنے کو کھڑے ہوں تو روایتی عجلت برتتے ہیں اور جائے نماز تہہ کرتےہوئے اکثر دعا گول کرجاتے ہیں کہ پروردگار نے سب کچھ تو دے رکھا ہے، الحمد للہ۔ مگر چھور کینٹ کے لاج میں ادا کی گئی مغرب کی وہ قصر نماز کچھ مختلف تھی۔ ابھی چند دن پہلے ہم کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان میں جب امجد صابری کے مدفن پر دعا کرنے کو کھڑے ہوئے تھے تو صابری برادران کے مرشد کی پائنتی غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری کی قبروں کو دیکھ کر ایک عجیب فسوں طاری ہوگیا تھا۔ اس قوال گھرانے نے موسیقی کے کیا کیا نہ نادر فن پارے تخلیق کیے اور ہم جیسے مداحوں پر کیا کیا نہ احسان کیے تھے۔
چھور کینٹ کے لاج کے اس کمرے میں بچھی مغرب کی جانمازپر اُٹھے ہاتھوں کو بے ساختہ صابری برادران یاد آئے اور ساتھ ہی ’بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ‘ کی تان بھی ۔اور شاہوں کے شہنشاہ کے دربار میں اُٹھے منگتے ہاتھوں نے بے اختیار فریاد کی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو
صاحبو یہ محبوبِ الٰہی کے نواسے اور سیدالشہداء کے صدقے کی بھیک تھی، کیسے نہ ملتی! دل کو یقین سا ہوگیا کہ یہ التجا ہماری ٹالی نہ جائے گی
اگلے دن اتوار تھا اور چھاوٗنیاں اور ان میں متمکن افسران اتوار کی کہولت پسندی کے سبب دیر سے ہی بیدار ہوتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوتے ہیں ہم نے قیوم کو فون لگایا۔ صبح فجر کی نماز پڑھتے ہی لاج پر آجائیں، ذرا باہر نکلیں گے۔ ناشتہ واپس آکر کریں گے۔
’جی بھائی، صبح میں پہنچ جاوٗں گا‘۔
اتوار کو علی الصبح جبکہ ہمارے میزبان چھور کینٹ میں خوابِ غفلت میں پڑے سوتے تھے، قیوم اور میں نیا چھور کے ریلوے سٹیشن پر موجود مسافروں کے چہروں کو ٹٹولتے تھے۔ 220 ڈاوٗن ماروی پسنجر صبح چھ بجے کھوکھروپار سے چلی تھی اور نیا چھور سے میرپورخاص اور آگے حیدرآباد جانے والے مسافر اس کی راہ تکتے تھے۔ وہیں انتظار گاہ میں ہم نے نیا چھور کے قبرستان اور اس میں دفن شہیدوں کے بارے میں دریافت کیا۔ حیرت ہمیں اسوقت ہوئی جب ایک نوجوان نے نہ صرف یہ کہ ریلوے سٹیشن سے تھوڑا دور قبرستان کی تصدیق کی بلکہ ایک تیقن کے عالم میں وہاں دفن شہید فوجیوں کے قطعے کی موجودگی کا بھی بتایا۔ اور یہی نہیں ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچانے کی خاطر اپنی ٹرین چھوڑ ہماری راہنمائی پر کمر بھی باندھ لی۔
ہمارےاصرار پر کہ ہماری خاطروہ اپنی راہ کھوٹی نہ کرےاس کاجواب تھا، ’سائیں ٓاپ میری فکر نہ کریں ، میں آپکو قبرستان پہنچاکر وہیں راستے سے میرپورخاص کی بس پکڑ لوں گا‘۔ نیا چھور کے ریلوے پھاٹک سے لگ بھگ ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر قصبے کا قبرستان ہےجہاں ایک بزرگ کےمزار کےپہلو میں ایک چاردیواری میں قطار اندر قطارایک ہی طرح کی کچھ قبریں ہیں۔
ویڈیو لنک
ایک نیم خوابیدہ ریگستانی سویر میں طلوع ہوتےسورج کی ملکوتی کرنیں تھیں جن میں سامنے چاردیواری اور اس کے اندر آراستہ قبروں پر ہوا پیلا گیروی رنگ سونے کی مانند دمکتا تھا۔ ایک ہی طرز کی وردی پہنے ایک ہی طرح کے مورچوں میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند دفاع لیے سپاہی جب شہادت کا جام پی لیں تو ان کے مدفن بھی ایک ہی طرح کا پیراہن اوڑھ ایک ترتیب میں آراستہ ہوتے ہیں۔
چاردیواری پر ایک تواتر سے پینٹ ہوئے سبز ہلالی پرچم اور شہادت سے متعلق اشعار گواہی دے رہے تھے کہ نیوچھور کے قبرستان میں ہم نے گوہرِ مقصود کو پالیا ہے
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے
داخلی گیٹ پر سنگِ مرمر کی تختی گواہی دیتی ہے کہ یہ ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ کے شہداء کا مسکن ہے۔ مگر اندر آراستہ تما م قبور ایک گور کی رعایت سے کتبوں سے بے نیاز ہیں۔ ان تمام قبروں میں ایک قدرِ مشترک سرہانے کی طرف ایک چوکورتکیہ ہے جس کے ایک رُخ پر ہرے اور سفید رنگ میں پرچم بنایا گیا ہے
اور باقی تین اطراف میں ایک طرف لفظ شہید اور دوسری طرف ۱۹۶۵ کے حروف کھدے ہوئے ہیں۔ جب ان قبروں کا پلستر تازہ ہوگا تو غالباً انگلی یا کسی ٹہنی کی مدد سے یہ حروف کھودے گئے ہوں گے۔
سنِ شہادت اور سبز ہلالی پرچم اوڑھے یہ گمنام سپاہی نہیں بتاتے کہ ان کا تعلق کس پلٹن سے تھا اور انہوں نے کس معرکے میں سر دھڑ کی بازی لگادی تھی اور اب اپنے علاقوں سے دور ایک اجنبی سرزمین کو اپنا مسکن بنائے محوِ استراحت تھے۔ وہاں نئے چھور کے مدفن میں بے ساختہ ہمیں لادیاں
میں اپنے گھر کے صحن میں دفن میجر عزیز بھٹی شہید کے کتبے پر کندہ اشعار کی دو سطریں یاد آئیں۔
سرخرو ہوکے جہادِ فی سبیل اللہ سے
مردِ مومن لے رہا ہے خوابِ شیریں کے مزے
اب ہم اس چاردیواری میں اس اکلوتی قبر کوپلٹتے ہیں جسکے کتبے پر باقاعدہ ایک نام اور اس سے متعلقہ تفصیل نظر پڑتی ہے۔
شہید عبدالسبحان ولد علیم ذات سمیجو
تاریخِ شہادت جنگ 1965
رہائشی لاڈو (یہ غالباً کسی نواحی گاوٗں کا نام ہے)
بہت ممکن ہے کہ یہ اکلوتی شناختی قبر کسی مقامی سویلین رضاکار یا مجاہد کی ہو جو ان سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑتا ہوا پاک بھارت کی 1965 کی جنگ میں شہید ہوا۔
قبرستان کی انتظامی حالت اچھی نہیں تھی۔ جھاڑیاں اور گھاس پھوس بتاتے تھے کہ بہت عرصے سے یہاں کی صفائی اور دیکھ ریکھ نہیں ہوئی۔
غالباً جب آخری مرتبہ رنگ و روغن، اشعار اور جھنڈے پینٹ کیے گئے تھے اس کے بعد سے کوئی آیا نہ گیا۔ اگر کوئی آیا ہوتا تو چھور چھاوٗنی کے سپاہیوں اور بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو ان کی خبر نہ ہوتی! کسے پڑی تھی کہ ایک اجنبی بستی میں دفن ان گمنام شہیدوں کے مدفن پر پھول اور چراغ تو کجا دعا کے دو شبد ہی بکھیر جاتا۔
چاردیواری کے مرکز میں قومی پرچم لہرانے کو ایک پوڈیم کھڑا تھا جس کے اوپر ایک ڈنڈا ایستادہ تھا۔ مگر صاحبو پرچم کے نام پر ایک میلے چیتھڑے نما کپڑے کی دھجیاں لٹک رہی تھیں۔ دل کچھ برا ہوا تو دھیان بٹانے کو ہم نے قیوم اور نیو چھور کےہمارےراہنما کوحاضر کیا
اور ایک اہتمام سے شہیدوں کے لیے دعا اور بعد از دعا سلیوٹ کا اہتمام کیا۔ شہیدوں کو اللہ کی امان میں دیتے اپنی چھاتیاں پھُلائے ایک ریٹائرڈ میجر اور دو سویلین واپسی کے راستے پر ہوئے۔ وہیں ہم نے فاصلے سے انجن کی روانگی کی سیٹی سنی اور ٹرین کو نیو چھور ریلوے سٹیشن سے روانہ ہوتے دیکھا۔
اور تب مجھے خیال آیا کہ نیو چھور کے قبرستان میں دفن یہ شہداء جنرل موسیٰ کی تصویر والے مناباوٗ کے شہید نہیں ہیں۔ یہاں سے ریل کی پٹڑی ڈیڑھ دو کلومیٹر دور سے گزرتی ہے جبکہ جنرل صاحب کی تصویر والے شہید تو عین ریلوے لائن یا پھر سائیڈنگ کے ساتھ مدفون ہیں۔
ہمیں نئے چھور کے قبرستان میں دفن مناباوٗ کے 1965 کےمحاذ کےشہید ضرور مل گئےتھےمگر ایک تو ان کی شناخت ابھی ادھوری تھی اور دوسرا یہ وہ قبریں نہیں تھیں جنکو جنرل موسیٰ کی کتاب پڑھ کر ہم کھوجتےہوئے یہاں آئے تھے۔ تو کیا پینسٹھ کی جنگ کےشہید نیوچھور کےعلاوہ بھی کہیں سپردِ خاک ہیں؟
اگر ہیں تو کہاں؟
ہم سوچوں میں غلطاں تھے کہ قیوم کی آواز سے حقیقت کی دنیا میں واپس آئے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ بھائی ہمارا میزبان بتا رہا ہے کہ ٹرین چھور ریلوے سٹیشن پر آدھا گھنٹہ رکتی ہے۔ چھور نہ چلیں، اپنے میر پور خاص کے مسافر کو ٹرین میں بھی سوار کرادیں گےاور چھور ریلوے سٹیشن سے نکلتی ریل گاڑی کو بھی ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہہ دیں گے۔ صاحبو ریل سے ہمار ا رومانوی انس تو ہے ہی مگر کسی سفری تعلق کی شعاعوں سے قیوم کے دل میں بھی یہ مرض گھر کر لے گا، ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔ یکایک ہمیں اس سفر پر ڈرائیونگ کی ذمہ داری کے لیے قیوم کے اپنے انتخاب پر بے تحاشا رشک آیا۔
ہم جب ایک دُھل کر نکلتے دن کی گرمی میں نیو چھور کے قبرستان سے چھور ریلوے سٹیشن کے لیے نکل رہے تھے تو ہمیں علم نہیں تھا کہ وہاں نئی حیرتیں ہماری منتظر تھیں۔
۔۔۔
واسر باہ کی سبز پوش ڈھیریاں
______
ہمارے دوست سکواڈرن لیڈر (رب سوہنا ان کے کندھوں پر جلد ونگ کمانڈر کے پھول لگائے) رحمان ارشد المعروف راشد منہاس کے دل پسند لکھاری پاوٗلو کوہیلو کی کتاب The Alchemist کا ایک مشہور اور زبان زدِ عام فقرہ ہے
لنک
“And, when you want something, all the universe conspires in helping you to achieve it.”
مطلب یہ کہ جب آپ صدقِ دل سے کسی چیز کی تمنا کریں تو کائنات کی نادیدہ قوتیں اس کے حصول میں آپ کی مدد کرنے کی سازش کا تانا بانا بننے میں لگ جاتی ہیں۔
صاحبو ہماری جھولی میں تو پھر چھورلاج میں اد کی گئی ٹوٹی پھوٹی مغرب کی نماز کےبعد طلب کیا گیا ’کچھ نواسوں کاصدقہ‘ تھا۔ کائنات کی تمام قوتیں تورات کی رات حرکت میں آگئی تھیں۔
راشد منہاس ہی کے اصرارپر جب ہم نے The Alchemist پڑھی تو پاوٗلوکوہیلو کی ایک اور ترکیب بھی کچھ دل کولڑسی گئی،
‘of things accomplished with love and purpose…’
یعنی ایسا کام جو نیک نیتی اور محبت کی آمیزش سے پایہٗ تکمیل تک پہنچا ہو۔
چھور چھاوٗنی میں ہماری شب باشی کی نیت محض یہ تھی کہ اگلی سویر اپنے مناباوٗ کے شہیدوں کے مزار پر حاضری دے کر عمرکوٹ کے مسافر ہوں گے کہ اسی دن کی مسافت میں ایک ”بدنگاہ سومرا“ کے محل کی یاترا کے بعد ہم نے ملیر کے گوٹھ میں اپنے مارووٗں کی محبت میں گندھی ماروی کے کنویں پر حاضری دیتے ہوئے شام کے دھندلکے سے پہلے نگر پارکر پہنچنا تھا۔ ہماری چھور کے بعد کی اگلی منزلوں کی منصوبہ بندی مکمل تھی۔ مگر اگلی صبح نیو چھور کے شہداء کے مدفن پر حاضری کے بعد بھی ہماری کھوج ادھوری تھی اور ہم ایک دُھل کر نکلتے دن کی حدت میں کھوکھروپار سے چلی ماروی پسنجر کی محبت میں چھور ریلوے سٹیشن کو جاتے تھے تو صرف اس نیت سے کہ ہمارے اندر کابچہ اس ریگزار کے دل کو چیرتی ریلوے لائن پر سےگزرتی دن کی اکلوتی ٹرین کو پلیٹ فارم سے نکلتادیکھ کر ہاتھ ہلا نے کو بے چین سا ہوگیا تھا۔
چھور کے ریلوے پلیٹ فارم پر ابھی ٹرین کھڑی تھی اور بکنگ کلرک کے دفتر کے باہر ٹکٹ خریدتے مسافروں کی قطار جب ہم نے اسسٹننٹ سٹیشن ماسٹر سے پلیٹ فارم کی آوارہ گردی اور تصویریں کھینچنے کی اجازت طلب کی جو ایک مہمان نواز مسکراہٹ کی اوٹ سے بخوشی مل گئی۔
قیوم اور میں پلیٹ فارم کے پرلے کونے سے جاتی ریل گاڑی کو خداحافظ کرکے واپس بکنگ کلرک کے دفتر لوٹے تو ہمارے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر خوشخط ٹرین اور اس کو کھینچنے والے انجن کی تفصیلات لکھ کر ہمیں عنایت کیں۔
عین اس وقت جب ہم اجازت طلب کرکے دفتر سے باہر نکل رہے تھے سندھی ٹوپی میں ایک باریش آدمی نے اندر داخل ہوکر ایک وضعداری سے السلام علیکم کہا اور دفتر کے تمام لوگ جواب دیتے ہوئے احتراماً کھڑے ہوگئے۔ آپ چھور ریلوے سٹیشن سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے سٹیشن ماسٹر نور محمد تھے جو ’ایسے ہی‘ سٹیشن کے عملے سے ملنے چلے آئے تھے۔ اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر نے ہمارا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ چھاوٗنی سے پدھارے ماروی پسنجر کو الوداع کہنے آئے میجر صاحب کے والد بھی پاکستان ریلوے سےسٹیشن ماسٹر ریٹائرڈ ہیں۔ نور محمد صاحب اسی گرمجوشی سے ملے جو ’اپنے لوگوں‘ کی جوان اولاد کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ جب انہیں پتہ چلا کہ 1971-72 میں ابو کراچی سرکلر ریلوے میں تھے تو نور محمد کی آنکھوں میں ایک شناسائی کی رمق جاگی۔ یہ وہ ڈپو ہل سٹیشن والے سعید صاحب تو نہیں جو بعد میں کراچی ۔ حیدرآباد سیکشن پر چلے گئے تھے، میٹنگ، بھولاری، جنگ شاہی، پپری والے سعید صاحب؟ بھئی وہ تو میرے استاد رہے ہیں!
بات اب گھر والی ہوگئی تھی۔ چھور کے ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر نور محمد اب اجنبی نہیں رہے تھے بلکہ اپنے ہی آدمی تھے۔ نور محمد ایک عرصہ چھور ۔ کھوکھروپار ریلوے لائن کے سٹیشنوں پر گزار کر اب ریٹائر ہوچکےتھےاور کبھی کبھار دل پشوری کرنے چھور سٹیشن پر آجاتے تھے۔
آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ ان سے گپ شپ شایدطول پکڑ جاتی مگرہمیں عمر کوٹ کےلیے نکلنے میں دیر ہوتی تھی توہم اجازت طلب کرکےواپسی کےمسافر ہوئے۔ باہر سٹیشن کے پارکنگ لاٹ سے گاڑی نکالتے ہوئے قیوم کو کچھ خیال آیا ، ’بھائی وہ آپ ریلوے لائن کےشہیدوں والی تصویر نورمحمد کو کیوں نہیں دکھاتے۔
کیا پتہ انہیں اس جگہ کا علم ہو’۔ ایک ہی دن میں یہ دوسری مرتبہ تھا کہ ہمیں اس سفر کی ہمراہی کے لیے قیوم کے اپنے انتخاب پر بے انتہا رشک آیا۔
نور محمد نے ایک نظر ہمارے موبائل کی سکرین پر جنرل موسیٰ کی کتاب والی تصویر کو دیکھا، ان کے کان ہمارے شبدوں پر لگے ہوئے تھے۔
سکوت کے ایک مختصر وقفے (جس میں ہمیں لگا کہ جیسے کائنات کی حرکت تھم گئی ہو، ہر چیز ساکن ہو گئی ہو) کے بعد گویا ہوئے ’سر میری یادداشت میں ریلوے لائن کے اتنا نزدیک قبرستان صرف دو جگہوں پر ہے۔ ایک کھوکھروپار اور دوسرے واسر باہ۔ کھوکھر وپار میں ہم سنتے ہیں کہ کچھ شہید دفن ہیں مگر ان کے نشانوں کا علم نہیں۔ واسر باہ میں البتہ قبرستان سے تھوڑا اِدھر بالکل ریلوے لائن پر چار سے پانچ قبریں ہیں جو کہتے ہیں کہ شہیدوں کی ہیں۔ اتنا وقت گزرگیا، جب بھی ریگستان میں آندھی چلتی ہے تو ان ڈھیریوں کے نشان مٹ جاتے ہیں، مگر گاوٗں کے لوگ دوبارہ ریت اکٹھی کرکے شہیدوں کی قبروں کے نشان بناتے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ آج بھی ان کے پاس سے گرزتے ہوئے انجن ڈرائیور اور فائر مین گاڑیوں کی رفتار ایک احترام میں دھیمی کردیتے ہیں کہ یہاں ہمارے شہید دفن ہیں“۔ اور پھر مسکراتے ہوئے ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ”میجر صاحب! آپکی یہ تصویر واسر باہ کے پاس ریلوے لائن کے عین اوپر دفن شہیدوں کے مزاروں کی ہے“۔
سٹیشن ماسٹر کے دفتر سے پارکنگ لاٹ آتے آتے ہم نے اپنے دماغ کو نقشے سے اور نقشے کو شمال سے ملانے کی کوشش کی۔ اب مشکل یہ آن پڑی تھی کہ اس دن کے سفر کی ہماری منصوبہ بندی پہلے سے مکمل تھی۔
چھور سے نگر پارکر تک کا ہمارا سفر عمرکوٹ اور اس سے آگے کے دیکھے بھالے معلوم راستے پر تھا۔ واسر باہ جانے کا مطلب تھا کہ ہم چھور سے کھوکھروپار کی راہ پکڑتے اور عمرکوٹ کو یکسر فراموش کرتے کھوکھروپار سے وہ راستہ لیتے جو چھاچھرو سے ہوتا ہوا اسلام کوٹ اور آگے نگر پارکر کو جاتا ہے۔
کھوکھروپار تک کی سڑک زیرِ تعمیر تھی اور ظالموں نے مکمل اکھاڑ کر رکھ دی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ کھوکھروپار تک لگ بھگ پچاس کلومیٹر دو سے تین گھنٹے لے لیں گے اور ساتھ ہی ساتھ گاڑی کی بھی جو کہ سوزوکی کلٹس تھی ’لے لیں گے‘۔ دوسری طرف اسی خاردار راہ پر ہمارے واسر باہ کے شہید تھے جو پکار پکار کر کہہ رہے تھے
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آوٗ
میرےگھر کے راستےمیں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مزید برآں کھوکھروپار سے براستہ چھاچھرو اسلام کوٹ تک کاراستہ نامعلوم تھااور صاحبو ریگستان میں نامعلوم رسک لینا دل گردے کاکام ہے۔ انہی سوچوں کی جگالی کرتامیں گاڑی میں آکر بیٹھا تو قیوم نے بے تابی سے پوچھا، ’بھائی کچھ پتہ چلا؟‘
ہم نے قیوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا’ اگر میں کہوں کہ کھوکھروپار چلنا ہے تو چلو گے؟‘
’جی بھائی کیوں نہیں چلیں گے‘۔
’راستہ ویسا ہی ٹوٹا پھوٹا ہے جیسا عمر کوٹ سے چھور تک کا دیکھ کر آئے ہیں۔ ان راستوں پر آج کل کے’ماڈرن کیکڑے‘ چلتے ہیں یا پھر فور بائی فور جیپیں۔ کلٹس کا تو بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ سوچ لو‘
سوچ لیا بھائی آپ اس کی فکر نہ کریں۔
’قیوم ! کھوکھروپار سے آگےکےراستے کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ کیسا ہے۔ تھر کے ریگستان میں چھاچھرو اور اسلام کوٹ کو تلاش کرتے چار سے پانچ گھنٹے کہاں بھٹکتے پھریں، کچھ پتہ نہیں۔
بڑا رسک ہے‘۔
’بھائی آپ دل بڑا کریں۔ میری فکر چھوڑیں ۔ جہاں کہیں گے چلیں گے’۔
اس ایک دن میں تیسری مرتبہ اپنے ہنس مُکھ ڈرائیور پر جب کہ وہ دل بڑا کرنے کا کہہ رہا تھا ہمیں بے تحاشا پیار آیا تھا۔ وہاں چھور ریلوے سٹیشن کے پارکنگ لاٹ میں سوزوکی کلٹس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہمارے ساتھ قیوم نہیں بلکہ اللہ دتہ لونے والا بیٹھا ہوا تھا
مینوں لئی ونجھ سجنا نال
تے ٹکٹاں دو لے لے
قیوم کی منطق سیدھی تھی ۔ بھائی آپکو کیا لگتا ہے کہ ہم چھور سٹیشن ایسے ہی آگئے تھے۔ کسی نے تو ہمارے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ جاتی ہوئی ریل کی سیٹی سُن کر ہم دوڑے چلے آئے۔اور عین اسوقت نور محمد کو ہمارے پاس بھیجا ورنہ ایک ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر کا سویرے سویرے ریلوے سٹیشن پر کیا کام۔
کوئی تو ہے جو چاہتا ہے کہ ہم جن شہیدوں کو تلاش کرتے یہاں تک آگئے ہیں تو تھوڑا آگے واسر باہ بھی جائیں۔
کائنات کی نادیدہ قوتیں ہمارے لیے حرکت میں آگئی تھیں اور قیوم ان کے ہاتھ پر بیعت ہو گیا تھا۔ صاحبو دل بھی عجب شے ہے، اپنے اشفاق احمد کے شبدوں میں یہ ”من چلے کا سودا ہے“
جہاں جس پر آجائے وہیں دستِ یقیں باندھ لیتا ہے
بدہِ دستِ یقیں اے دل بہ دستِ شاہِ جیلانی
ایک گھنٹے کی دوری پر چھور لاج میں ناشتے کی میز پر میس حوالدار سے جو آپریشنل ایریا ریکانیسنس (reconnaissance) کی برکتوں سے آگے کے علاقے سے واقف تھا، ہم نے چھور سے کھوکھروپار اور آگےچھاچھرو تک کے راستے کی سچوئشن رپورٹ لی۔ معلوم ہوا کہ کھوکھروپار تک تو راستہ ٹوٹا ہوا ہے، آگے چھاچھرو کی طرف تو ’وی آئی پی‘ روڈ ہے۔ ہمیں دورانِ گفتگو خالص سندھی ترکیب ’وی آئی پی‘ کی معنویت سے آگاہی تھی، مگر یہ ڈھکوسلا ہی انجان راستے کو اختیار کرنے کو کافی تھا۔ چھور کی اس سویر الوداعی کلمات ادا کرلینے کے بعد جب گاڑی کا پہیہ گھوما تو واسر باہ کے شہید عمر کوٹ کے سومرا شہزادے پر بازی لے گئے تھے۔
نیو چھور سے آگے تھرپارکر اپنے سچل ریگستانی رنگوں میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ مواصلاتی سیارے سے کھنچی تصویر (سٹیلائٹ امیجری) میں نظر آتی ہریاول ایک مٹیالے ریگزار میں بدل جاتی ہے ۔
اسی راستے پر آگے کھوکھروپار اور ہندوستانی سرحد کے پار مناباوٗ اور اس سے آگے تاحدِ نظر ریت کا سمندر ہے، ابھرتے گم ہوتے ٹیلے ہیں اور یہیں خال خال خشک گھاس پھونس کے چھپروں سے ڈھکے جھونپڑے ہیں۔ اس ویرانے میں چلتی چلی جاتی اکلوتی ریلوے لائن پر نیو چھور سے اگلا سٹاپ پرچے جی ویری ہے اور
ویڈیو لنک
اس سے آگے واسرباہ۔ پینسٹھ کی جنگ کے منظرنامے میں یہ دونوں نام واسر باہ اور پرچے جی ویری کہیں نہیں بولتے کہ پاک فوج لڑائی ہندوستان کی سرحد کے پار ان کے علاقے میں لے گئی تھی۔ 51 بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر (بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل) کے ایم (خواجہ محمد) اظہر نے بازی اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے 18 پنجاب کو گیارہ ستمبر کی صبح مناباوٗ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی دن قریباً ڈیڑھ بجے مناباوٗ پاکستان کے قبضے میں تھا۔ اس کامیابی سے شہ پاکر بریگیڈ کی دوسری پلٹن 8 فرنٹئیرفورس مناباوٗ کے شمال میں یکے بعد دیگرے کے دو حملوں میں روہیری اور پنچلہ کی پوسٹوں پر قابض ہوگئی۔
ہندوستانی تیرہ ہلاکتوں کے علاوہ کیپٹن گووند سنگھ اور پینتیس جوان جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ ہندوستان کا جوابی حملہ جنوب میں سرحد کے ساتھ ڈالی گاوٗں پر آیا جہاں 18 پنجاب اکیس ستمبر کو ہندوستان کی 5 مراٹھا اور 17 مدراس سے بھڑ گئی۔ 22ستمبر کی صبح طلوع ہوئی تو 18پنجاب کے قبضے میں
180 جنگی قیدی اور تین ہندوستانی ٹینک تھے۔
واسر باہ اور پرچے جی ویری کے نام اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں بولتے ہیں اور انہیں ہمارے سامنے لاتے ہیں بھارت کے ڈیفنس سیکریٹری شیکھر دت۔
اکہتر کی جنگ میں وہ کیپٹن شیکھر دت تھے اور توپخانے کے او پی کے طور پر ہندوستانی 3 انڈیپنڈنٹ آرمرڈ سکواڈرن کے ساتھ تھے جو ہندوستانی 11 انفنٹری ڈویژن کے پاکستانی سرحد کے اِس پار حملے کے ہراول دستے میں تھا۔ کیپٹن شیکھر کی جیبی ڈائری میں جنگ کے دنوں کے اندراج میں دو تاریخیں ایسی ہیں
6 دسمبر 1971 ، دن کے ایک بجے۔ واسر باہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے داخل ہوئے۔
7 دسمبر 1971، صبح کے سات بجے۔ پرچے جی ویری کے راستے پر مخالف فائر آیا ۔ دن دس بجے پاکستانی توپخانے کی بھاری گولہ باری میں ہندوستانی سپاہ پرچے جی ویری میں داخل ہوگئی۔
صاحبو پینسٹھ کی جنگ میں جو ہندوستانی 11 انفنٹری ڈویژن پیچھے دھکیل دیا گیا تھا اکہترکی جنگ میں اپنا بدلہ پورا کرتے ہوئے اپنے آرمرڈ سکواڈرن اور انفنٹری کی پلٹنوں کے ساتھ گاوُں پربت علی پر قابض ہوتے ہوئے نیو چھور کی دہلیز پر آگیاتھا۔ مگر یہ تفصیل ہماری اس کہانی سے متعلق نہیں ہے۔
ہم واپس پینسٹھ کی جنگ کے مناباوٗ محاذ کے شہیدوں کو پلٹتے ہیں۔
کھوکھروپارکے جنوب میں ڈالی جہاں 18 پنجاب نے اکیس ستمبر کو بڑا جوابی حملہ کیا تھا وہاں سے مغرب کی طرف ایک سیدھ میں ریگستانی شارٹ کٹ لیں تو نیا چھور آتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ اس حملے میں شہید ہونے والے 18 پنجاب کے جوان نیوچھور کے قبرستان میں امانتاً دفن کیے گئے ہوں گے۔ یہ وہی شہداء قبرستان ہے جسکا ذکر ہم اس کہانی کے دوسرے حصے میں کرچکے ہیں۔ شمال میں مناباوٗ اور اس کی بغلی پوسٹوں پر ہوئے حملے میں 8 فرنٹئیر فورس رجمنٹ کے شہداء کھوکھروپار سے پیچھے جانے والے راستے پر لائے گئے ہوں گے جہاں مرکزی جگہ واسرباہ یا پھر پرچے جی ویری بنتی ہے۔ اگر سٹیشن ماسٹر نورمحمد کو واسر باہ پر برلبِ پٹڑی شہیدوں کے مدفن یاد ہیں تو عین ممکن ہے یہ 8 ایف ایف کے مناباوُ پر حملے کے شہید تھے جن کے پاس ریل گاڑی میں مناباوٗ جاتے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ اپنے سٹاف کے ساتھ دعا کرنے کو رکے تھے۔
مگر صاحب اس علاقے میں پینسٹھ کی جنگ اور اس کے شہیدوں سے متعلق کچھ اور کہانیاں بھی تو ملتی ہیں۔
عمر کوٹ سے جوراستہ جنوب میں اسلام کوٹ کو نکلتا ہے وہ کچھ کچھ بل کھاتا آدھا سفر اِدھر آدھا اُدھر کانٹیو نامی گاوٗں سےگزرتا ہے۔ یہاں گوگل میپ ہمیں حوالدارعلی اکبر شہید کا مقبرہ دکھاتا ہے۔
ہمارا حوالدار علی اکبر پینسٹھ کی جنگ کا شہید ہے جو کھوکھروپار میں مقامی لوگوں کو شدید زخمی حالت میں ملا تھا۔ وہ شہادت سے قبل محض اپنا نام ہی بتا پایاتھا۔ مقامی آبادی نے نہ صرف یہ کہ شہید کی تدفین کی بلکہ بعد ازاں مقبرہ بھی تعمیر کروایا جسکی دیکھ ریکھ کانٹیو کے لوگ کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کھوکھروپار میں جہاں آج بھی سٹیشن اور قصبے کے گھروں پر پینسٹھ کی جنگ کی ہندوستانی توپخانے کی شدید گولہ باری کے نشان ملتے ہیں لوگوں نے اکثر شہداء کی اپنی مدد آپ کے تحت تدفین کی۔ ان بے نامی قبروں پر کتبے تو نہیں ہیں، مگر آج بھی جب کھوکھروپار کے قبرستان میں کوئی تازہ تدفین کے لیے قبر کھودی جاتی ہے تو کہیں نہ کہیں تازہ خون نکلتا نظر پڑتا ہے اور لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں گئے وقتوں کی پاک بھارت جنگ کا کوئی شہید سور ہا ہے۔ یہ قصے ہمیں لانس نائیک سومرو نے سنائے جو نیو چھور سے نکلتے ہی پرچے جی ویری پر ہمیں آٹکرایا تھا۔
جون کی تپتی ریگستانی دوپہر میں چھور سے کھوکھروپار کا راستہ ہمارے تخمینے سے کہیں زیادہ خراب نکلا مگر صاحبو ایک ثابت قدم قیوم اور کائنات کی نادیدہ قوتیں ہمارے ہمجولی تھے اور اب ہم پیچھے مڑنے والے تو نہیں تھے۔ نیوچھور سے کھوکھروپار کی راہ پکڑتی ریلوے لائن اور سڑک (نقشے کی رعایت سے تو ہم اسے سڑک ہی کہیں گے) یوں تو ساتھ ساتھ ہی چلتی ہیں مگر تھوڑا آگے جہاں پرچے جی ویری کا بس سٹاپ ہے اس کے بعد ریت کے ٹیلے پٹڑی کو نظر اور پہنچ سے اوجھل کردیتے ہیں۔ اور یہ پرچے جی ویری پر ہی ہوا کہ قبل اس کے ہم کسی سے راستہ پوچھیں کچھ لوگوں نے ہاتھ دے کر گاڑی کو روکا۔
وہ ہمیں کھوکھروپار کی ایک سواری کو ساتھ لے جانے کی درخواست کررہے تھے۔ تو ہوا کچھ یوں کہ بلوچ رجمنٹ کا لانس نائیک سومرو جو چھٹی آیا تھا اور اب اپنے گاوٗں کو جاتاتھا کھوکھروپار کی سواری بن کر ہمارا شریکِ سفر ٹھہرا۔
پرچے جی ویری سےہمارے نئےہم سفر نےکچھ دیر تک تو مانی اورقیوم کی آپسی گفتگو سنی اورجب ڈاکخانہ ملتے دیکھاتومناسب سمجھتے ہوئے ’کوَر بریک‘ کیا۔ سر میں لانس نائیک سومرو، فلاں بلوچ میری یونٹ ہےاور آج کل میں کاکول اکیڈمی میں ای آر ای ( Extra Regimental Employment ERE کا مخفف ہے) پر ہوں۔
کھوکھرو پار کے ہمارے لانس نائیک سے ہمار ا دوہرا ڈاکخانہ نکل آیا تھا۔ میری اپنی یونٹ عباسیہ بھی اوکاڑہ میں تھی اور کاکول کے پلاٹون کمانڈری کے دنوں کی یادوں کو بھی ابھی بہت عرصہ تو نہیں گزرا تھا۔ کچھ دیر تک ہم نے ایک عسکری گرمجوشی میں سومرو سے فوجی زبان میں حال احوال لیا۔
کچھ اوکاڑے کچھ کاکول کی باتیں ہوئیں۔ مگر سومرو کو ڈاکخانہ خاص تو کھوکھروپار کا لگتا تھا اور اس نسبت سے واسر باہ کے متعلق اس کا علم ہم سے یقیناً افضل تھا۔ اوپر بیان ہوئے پینسٹھ کی جنگ کے شہیدوں کے قصوں کے ساتھ ساتھ لانس نائیک سومرو نے نہ صرف چھور کے سٹیشن ماسٹر کی واسر باہ کی شہید قبروں کے بارے فراہم کردہ تفصیلات کی توثیق کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہاں تک جانے کے لیے سڑک سے اتر کر کچھ فاصلہ پیدل طے کرنا پڑے گا اور یہ کہ جہاں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ آئے گی وہ قیوم کو ہوشیار کردے گا۔
صاحبو سٹیشن ماسٹر نور محمد کے بعد کائنات کی نادیدہ قوتوں نے جو ہمیں واسر باہ کے شہیدوں سے ملانے پر اب تلی بیٹھی تھیں لانس نائیک سومرو کی شکل میں ایک راہنمابھیج دیا تھا کہ تھر آئے پردیسیوں کی جوڑی ریگستانی ویرانے میں کہیں بھٹک نہ جائے۔
دن کے لگ بھگ بارہ بجے کا عالم تھا، سورج سوا نیزے پر تھا اور تاحدِ نظر کسی درخت، جھاڑی الغرض کسی بھی طرح کی چھاوٗں اور سائے سے یکسر عاری ریت کا سمندر تھا جب سولا ہیٹ پہنے ، گردن کو صافے نما تولیے سے ڈھکے، کندھے پر کیمرہ لٹکائے، ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے واسر باہ کی قربت میں مَیں گاڑی سے اترا۔ میرے سامنے ایک بھربھری ریت سے بنا چھوٹی پہاڑی نما ٹیلہ تھا جس کے پار جانا تھا۔ میرے پیچھے پیچھے لانس نائیک سومرو بھی اترا آیا۔ سر یہ ہمارے شہیدوں کا مدفن ہے، آپ مجھے گاڑی میں چھوڑ کے اکیلے کیسے جاسکتے ہیں! سومرو نے سر پر صافہ باندھا ، پانی کی ایک اور بوتل تھامی اور ہماری راہنمائی کو آگے چل پڑا۔ ایک ویران سڑک پر گاڑی کی رکھوالی کے لیے قیوم کو ہم نے وہیں گاڑی میں چھوڑ دیا کہ ہمارا پیدل سفر بہت لمبا تو نہیں مگر آنکھ اوجھل ضرور تھا اور صاحبو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
بھربھری ریت میں ٹخنوں تک دھنستی ٹانگیں تھیں، جوتوں میں بھر بھر آتی تپتی سلگتی ریت تھی اور آگ برساتا جھلستا دن تھا، مگر ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ منزلِ مقصود بس آیا ہی چاہتی تھی۔ سومرو کے پیچھے پیچھے جب پہلا ٹیلہ سر کرکے ہم کچھ اونچائی پر آئے تو اللہ بخشے منیرؔ نیازی یاد آئے
ایک اور ٹیلے کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک ٹیلے کے پار اترا تو میں نے دیکھا
پسینے میں شرابور سلگتے پیروں اور بوجھل سانسوں کے ساتھ جب دوسری رکاوٹ عبور کی تو ایک محبوب منظر ان آنکھوں پر طلوع ہوا۔ درمیانے فاصلے پر پکے مکانوں اور ان کے بیچ خال خال گھاس پھونس کی چھتوں سے
ڈھکی جھونپڑیوں پرمشتمل واسر باہ کا گوٹھ تھا۔ تھوڑا دائیں کچھ فاصلے پر گوٹھ کا قبرستان تھا ۔ یہ ساری تفصیل ہم نے گوگل میپ پر دیکھ رکھی تھی۔ جو گوگل میپ پر نہیں تھا وہ قبرستان سے کافی ہٹ کر دو سے تین عام قبر سے کچھ بڑی سبز چادروں سے ڈھکی ریت کی ڈھیریاں تھیں اور ان کے بالکل
ساتھ ریلوے لائن گزر رہی تھی۔ نیو چھور سے کھوکھرو پار جاتی ریلوے لائن جو پرچے جی ویری اور واسر باہ کے شہیدوں کی قبروں سے ہوکر گزرتی ہے۔ ریت کی یہ ڈھیریاں تھوڑے فاصلے پر ساتھ ساتھ ہی ہیں۔
بکھربکھر جاتی ریشمی ریت کو تھامتے کالے پتھر جن کو ڈھکتی سبز چادروں کے اوپر منتیں مان کرجانے والوں کی چھوڑی نشانیاں پڑی تھیں۔ گرہیں دی ہوئی چادروں کی دھجیاں، ٹھیکرے، چینی کے برتن اور بہت سے ارمان، ہزاروں خواہشیں۔ امتدادِ زمانہ سے اب یہ کل دو ڈھیریاں ہی بچی تھیں۔
ایک طرف کونے میں صحرائی جھاڑی کے سائے میں پڑی ڈھیری کے سرہانے زمین میں گڑا کتبے کی شکل کا لوہے کا زنگ آلود ٹکڑا تھا۔ کسی زمانے میں اس پر اگر کچھ لکھا ہوا تھا تو لوہے کا کھاجانے والا زنگ اس لکھائی کو بھی نگل گیا تھا۔
نظر آتا تھا کہ عام قبر سے بڑی ان ڈھیریوں کے نیچے دو سے زیادہ قبریں رہی ہوں گی۔ پینسٹھ کی جنگ میں جیتے ہمارے امتیازی نشان مناباوٗ کی یاترا کو جاتے کمانڈر انچیف جب یہاں رکے تھے تو نرم تازہ ریت میں گندھی ایک فوجی ڈسپلن میں قطار اندر قطار پانچ سے چھ شہیدوں کی قبریں تھیں۔
ان مہ و سال میں جانے کتنی آندھیاں چلی ہوں گی، بادل گھر کر آئے اور برسے ہوں گے اور عین ممکن تھا کہ دھل کر بہتی ریت میں ہمارے شہیدوں کے آخری مدفن کے نشان گم ہوجاتے اگر واسر باہ کے عقیدت مند ہر آندھی، ہر بارانِ رحمت کے بعد اندازے کے زور پر ریت اکٹھی کرکے ان ڈھیریوں کو تازہ نہ کرتے۔ واسر باہ کے مکینوں کی شہیدوں سے عشق کی زندہ تعبیر، سبز اور سرخ چادروں کا پیرہن اوڑھے منتوں اور مرادوں سے پلی ان دو ڈھیریوں تلے ہمارے مناباوٗ کے شہید آرام کرتے ہیں۔
بُلّھا شَوہ نے آندا، مینوں عنایت دے بُوہے
جس نے مینوں پوائے ، چولے ساوے تے سُوہے
جاں میں ماری ہے اَڈّی، مِل پیا ہے وہیّا
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا
چھور سے کھوکھروپار اور آگے مناباوٗ جاتی ریلوے لائن کی قربت میں، کھلے آسمان تلے آگ برساتے سورج کی حدت میں ہم نےواسر باہ کے شہیدوں کےنام کی دعا کےلیے ہاتھ اُٹھائےاور بعدازدعا ہوشیارحالت میں ایک حاضرسروس لانس نائیک اور ایک ریٹائرڈ میجر نے پینسٹھ کی جنگ کے ان شہیدوں کو سلیوٹ پیش کیا اور سڑک پر منتظر قیوم کی طرف واپس ہوئے۔ وہیں قیوم نے کمپنی کی مشہوری کے لیے ”ایڈونچر“سے واپسی پر ہماری ایک تصویر کھینچی۔ ہم نے گھڑی دیکھی، دن کے بارہ بج کر چالیس منٹ ہوئے تھے۔
کہانی آگے چلتی ہے تو اس میں مقاماتِ آہ و فغاں اور عشق کے امتحاں اور بھی آتے ہیں۔ کھوکھروپار سے چھاچھرو کے وی آئی پی روڈ پر گزشتہ روڈ کی آندھی کے سبب ہم ریت کے ٹیلوں سے نبرد آزما ہوئے اور ہاتھوں اور قدموں سے ریت ہٹاتے، سوزوکی کلٹس کو پہلے گیئر میں ڈال، دعاوٗں کا ورد کرتے کامران نکلے کہ قیوم کو یقینِ کامل تھا کہ داسر باہ کے شہیدوں کی دعا ہمیں ہر مشکل سے پار نکالنے کو کافی تھی۔
مگر یہ کہانی پھر کہیں گے
پسِ تحریر
______
چھور کوخدا حافظ کہتےسمےہم نےسٹاف کیپٹن سے نیو چھور کےشہداء قبرستان کی تصویر سانجھی کرکے جھنڈےاور قبروں کی حالتِ زار پر شکوہ کیا تھا چند دن بعد سٹاف کیپٹن کی بھیجی تصویر میں اب وہاں نیا پرچم لہرا رہاہے
ہمیں اطمینان ہے کہ چھور والوں کو بڑےدن پر پھولوں کی چادریں چڑھانےاورسلامی دینے کو جگہ مِل گئی ہے۔ نیو چھور کے شہداء قبرستان کے مکین اب اکیلے اور گمنام نہیں رہے ۔
‘of things accomplished with love and purpose …’