اگلے دن کی صبح اجلی اجلی تھی۔ بارش سے دھل کر ہر منظر پہلے سے زیادہ حسین لگ رہا تھا۔ سورج کی سنہری کرنیں مری کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں ۔ ایسے میں وہ ارد گرد سے بے نیاز ولی کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم آج کے دن کا لائحہ عمل تیار کر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں رات بھر کشمالہ کی باتیں گونجتی رہی تھیں ۔ اس کے دکھ نے اسے بھی غمزدہ کر دیا تھا۔ وہ جلد سے جلد کسی حد تک اس کی مدد کرنا چاہتا تھا اسی لئے تو صبح سویرے ہی ولی کے گھر کے باہر تھا۔
”چلو چلیں“ ولی کی آواز اسے سوچوں کے بھنور سے باہر لائی اس نے نظر اٹھا کر دیکھا ولی دوسری طرف کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ رہا تھا۔
وہ سب سے پہلے ہسپتال گئے تھے کچھ فارمیلٹیز پوری کرنے کے بعد انہیں عدیمہ کی لاش لے جانے کی اجازت مل گئی تھی۔
”ان کی والدہ کی ڈیڈ باڈی بھی یہیں ہے“ پیپر پہ سائن کرتا اس کا ہاتھ رکا تھا اس نے چونک کر نرس کی طرف دیکھا جو اسی سے مخاطب تھی۔
”کس کی والدہ؟ “ اس نے زرا حیرانگی سے پوچھا۔
”اسی بچی کی۔۔۔اس بچی کی ڈیتھ سے اگلے دن ہی کچھ مقامی لوگ ان کی لاش لے کر آئے تھے۔۔۔ ان کے ساتھ جو ان کی بہن تھیں ہم نے انہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ملی نہیں“ وہاں دن میں ہزاروں نہیں تو سو سے زائد لوگ تو آتے ہی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کو سب کے چہرے کہاں یاد رہتے ہیں لیکن نیوز میں آئی خبر نے اس واقعہ کو ان کی یاداشت میں بھی محفوظ کر دیا تھا۔مجتبٰی نے جیب سے فون نکال کر ولی کا نمبر ملایا۔ وہ جو کچھ مقامی لوگوں کو نیچے کھائی میں اترنے کے لئے آمادہ کر رہا تھا اس کی کال سن کر فوراً آگیا۔ لاش کی شناخت کرنے کے بعد انہوں نے شکر ادا کیا تھا اللہ نے ایک مقام پر انہیں سُرخرو کر دیا تھا۔ ورنہ مجتبٰی کو زیادہ فکر زینب بی بی کی ہی تھی ایک تو انہیں کھائی میں گرے پانچ دن گزر چکے تھے دوسرا یہ ڈر بھی تھا کہ رات بھر ہوتی تیز بارش کی وجہ سے لاش کہیں بہہ نہ گئی ہو۔
”ایک منٹ رکیں سر“ وہ لوگ جو ایمبولینس کی طرف بڑھ رہے تھے نرس کی آوز پر رک گئے یہ وہی نرس تھی جس نے کچھ دیر پہلے انہیں زینب بی بی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔
”اگر آپ ان کی بیٹی سے ملیں تو یہ انہیں دے دیجئے گا۔۔۔یہ کچھ زیور ہے جو ان خاتون کے پاس سے ملا تھا“ اس نرس نے دوائی والی ڈبیہ ان کی طرف بڑھائی جس میں اس نے زیور چھپا رکھا تھا۔ اس سے ڈبیہ پکڑتے ہوئے مجتبٰی کے اندر طمانیت بھرا احساس اترا تھا اس نے ڈبیہ کھول کر نہیں دیکھی تھی اسے اس سے کوئی مطلب بھی نہیں تھا لیکن اب وہ کشمالہ کو جاکر بتا سکتا تھا کہ اس کے پاکستان کے لوگ اتنے برے بھی نہیں ہیں کہیں کوئی لاش دیکھ کر ہسپتال دے جاتا ہے اور کہیں کوئی ایمانداری سے کسی کا زیور سنبھال کر رکھتا ہے۔
غسل اور کفن دفن کا انتظام مجتبٰی نے احتیاط کے پیش نظر مری میں مقیم اپنی خالہ کے گھر کروایا تھا۔ سب انتظامات ہو جانے کے بعد کشمالہ کو آخری دیدار کے لیے لایا گیا تھا۔ وہ ہانیہ کے ساتھ آئی تھی۔ عام انسان اپنے پیاروں کی لاش کو کفن میں لیپٹا دیکھ کر غم زدہ ہو جاتے ہیں بین کرتے ہیں لیکن کوئی کشمالہ سے پوچھتا اس وقت اس کا دکھ راحت میں تحلیل ہو رہا تھا۔ اب وہ مطمئن تھی کہ اس کے پیارے کم از کم آخری سفر پر پر سکون جا رہے ہیں۔۔۔ اب اسے یہ ڈر نہیں ستائے گا کہ کہیں اس کی ماں کی لاش کو جنگل کے جانور نہ نوچ کھائیں کہیں اس کی بہن کی لاش کسی تجربہ گاہ کا حصہ نہ بن جائے۔ پاکستان کے بیٹوں نے اس کے دل پر پہلا مرہم رکھ دیا تھا۔ اس کی نفرت اب بھی قائم تھی لیکن اب اس میں ایک غیر محسوس سی دراڑ پڑ چکی تھی۔ جو آنے والے وقت میں نفرت کی دیوار گرانے میں معاون ثابت ہونی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
” کچھ سوچا ہے کشمالہ کو کہاں رکھنا ہے؟“ تدفین سے فارغ ہو کر وہ دونوں ولی کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب ولی نے پوچھا۔
”رکھنا کہاں ہے یہ تو بعد کی بات ہے پہلے سارے قرض تو اتر جائیں “ مجتبٰی نے چائے کا کپ منہ سے لگاتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”آگے کا کیا پلان ہے؟“ ولی نے سوال داغا۔ وہ دو سال سے مجتبٰی کو جانتا تھا اسی لئے اتنا تو سمجھ گیا کہ مجتبٰی کے ذہن میں ضرور کوئی پلان ہے۔
”پہلے اس شخص کو ڈھونڈیں گے جس نے عدیمہ کے ساتھ برا کیا“ اس نے بولنا شروع کیا۔
”اور اس شخص کو بغیر نام پتہ کے کیسے ڈھونڈیں گے؟“ ولی نے ابرو اچکا کر اس کی طرف دیکھا۔
”جس دکان کے باہر عدیمہ گم ہوئی تھی اس دکان کے مالک اور وہاں ارد گرد موجود دوسرے دکانداروں سے میں نے سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی ہے“ وہ پورا ہوم ورک کیے بیٹھا تھا۔
”اسے پکڑنے کے بعد کیا کریں گے؟“ ولی نے معلومات میں کے اضافے کے لئے پوچھا۔
”وہی جو کشمالہ چاہے گی۔۔۔ وہ اس کا مجرم ہے اسی کے حوالے کیا جائے گا“ مجتبٰی نے وہی بات کہی جو وہ سوچ چکا تھا اور جانے کے لئے اجازت چاہی۔
”چلو ٹھیک ہے تم اب جا کر آرام کرو صبح ملتے ہیں“ ولی نے اس کی سرخ پڑتی آنکھوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے اس لڑکی کی پاکستان سے نفرت چین سے سونے نہیں دیتی ۔ ۔۔یہ وہ پاکستان ہے جس کے تحفظ کے لئے میرے بابا اور بھائیوں نے جان دی تھی ۔۔۔ یہ وہ پاکستان ہے جس کی خاطرجان کی بازی لڑانے کو میں تیار بیٹھا ہوں ۔۔۔ اور میرے ایسے پاکستان سے کوئی نفرت کا اظہار کرے وہ بھی میرے سامنے اور میں اس کی سوچ نہ بدل سکوں تو تف ہے میری محبت پر“ وہ دہلیز پر کھڑے کھڑے ولی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وفور جذبات سے کہتے ہوئے دروازہ عبور کر گیا۔
۔۔۔۔۔۔
اگلا دن انہوں نے دکانوں کے باہر لگے کیمروں کی ریکارڈنگ چیک کرنے میں گزارا تھا اور قسمت نے یہاں بھی ان کا ساتھ دیا۔ عدیمہ کو اٹھا کر لے جاتے شخص کا چہرہ دھندلا تھا لیکن اس کا ڈیل ڈول اور لباس کا رنگ واضح تھا ۔ ایک دوسری دکان کے اندر لگے کیمرہ میں اس لباس کی مدد سے اس کے چہرے کے نقوش مل گئے تھے۔وہ چالیس پینتالیس سالہ شخص تھا وہ اس کی تصویر لے آئے تھے۔ اس شخص کو ڈھونڈنے میں مجتبٰی نے اپنے سارے ذرائع استعمال کیئے تھے۔ اگلے دن رات کو اس شخص کے بارے میں پتہ چل گیا وہ پولیس کی حراست میں تھا۔ تھانے کی تفصیلات لیتے ہی وہ دونوں گھر سے نکل آئے تھے۔
“آئیے کیپٹن صاحب کیسے آنا ہوا؟“ ان سے مصافحہ کر کے بیٹھتے ہوئے تھانے کے انسپکٹر نے پوچھا۔ ایک دو بار ان کی مقامی سلسلوں میں پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی اسی لئے انسپکٹر ان سے شناسا تھا۔
”سنا ہے کل رات آپ نے ایک مجرم پکڑا ہے ملک نظیر ۔۔۔ کیا کیس ہے اس پر؟“ مجتبٰی نےسادہ لہجے میں پوچھا۔
”چھوٹی موٹی چوری کا کیس ہے۔۔۔ ایک دکان سے پیسے چرانے کی کوشش کی اور پکڑا گیا“ انسپکٹر نے بتایا۔
”ایف آئی آر کاٹ دی؟ “ ولی نے محتاط لہجہ اپنایا۔
”ابھی کہاں ابھی تو سیٹل مینٹ میں لگے ہیں۔۔۔ معاملہ درست ہو گیا تو دو چار چھتر مار کر چھوڑ دیں گے“انسپکٹر نے عام سے لہجے میں کہتے ہوئے جاندار قہقہ لگایا۔
”ہمارا بھی ایک چھوٹا سا پرانا حساب نکلتا ہے تھوڑی دیر کے لئے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں“ مجتبٰی اصل مدعہ پہ آیا۔ انسپکٹر نے کچھ دیر تامل سے کام لیا لیکن سامنے بیٹھے بندے کی پرسنلٹی میں ایسا رعب تھا کہ وہ صاف انکار بھی نہیں کر سکتا تھا۔
”ٹھیک ہے آپ لے جائیں۔۔۔ لیکن ایک گھنٹے بعد باحفاظت یہاں چھوڑ جانا“ انسپکٹر نے کسی نتیجے پر پہنچتے ہوئے انہیں اجازت دے دی۔
۔۔۔۔۔۔
جنگل کے وسط میں وہ کوٹھری نما گھر تھا۔ جس کے مکیں نہ جانے کب سے اسے خالی چھوڑ کر کہیں اور کوچ کر چکے تھے۔ اسی گھر میں انہوں نے ملک نظیر کو کرسی کے ساتھ رسیوں سے جکڑا ہوا تھا۔ ولی وہیں تھا جبکہ مجتبٰی ولی کے گھر سے کشمالہ کو لینے گیا تھا۔ کچھ وقت گزر جانے کےبعد کشمالہ نے کمرے میں قدم رکھا۔ اس کے پیچھے پیچھے مجتبٰی بھی داخل ہوا تھا۔
”یہ ہے عدیمہ کا مجرم۔۔۔ اس کے ساتھ تم جو کرنا چاہو کرو“مجتبٰی کہتے ہوئے ولی کے ساتھ ایک طرف آ کھڑا ہوا۔
“ یہ بدلہ لے گی مجھ سے۔۔۔۔ یہ اگر تھپڑ بھی مارے گی تو لطف ہی آئے گا“ اس کے دھان پان سے سراپا کو دیکھتے ہوئے ملک نظیر نے سوچا اور اس کے چہرے پر ایک خباثت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔
”کیپٹن مجھے پستول چاہیے “ اس نے مجتبٰی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ کچھ دیر شش و پنج کے بعد اس نے پستول کشمالہ کی طرف بڑھا دی ۔ ولی نے اس کی حرکت پر ایک گھوری ڈالی تھی جس کا مقابل پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا تھا۔
”ماں زندہ ہے ؟“ کشمالہ نے تفتیشی انداز میں سوال شروع کیے۔
”نہیں دو سال پہلے مر گئی“ ملک نظیر نے بے خوف ہو کر جواب دیا۔
”بہنیں ؟ “ اگلا سوال کیا۔
”دو ہیں“ جواب ملا۔
”بیوی؟“ پھر پوچھا۔
”ایک بیوی ہے“
”بیٹیاں؟“
”چار ہیں“
”پھر ذلیل انسان دوسروں کی بیٹیوں کو برباد کر کے گناہ کو اپنے گھر کا رستہ کیوں دکھاتا ہے؟“ کشمالہ نے پورے زور سے پستول کا دستہ اس کے منہ پہ مارا ہونٹ پھٹ کر خون ابلنے لگا تھا۔ وہ جو اسے دھان پان سمجھ رہا تھا پہلے وار میں ہی اس کی غلط فہمی دور ہو گئی ۔
”ویسے تم اپنی بہن سے زیادہ خوبصورت ہو تمہیں ساتھ لے جانا چاہیے تھا اسے تو بڑی مشکل سے ساتھ لے کر گیا تھا کتنے لالچ دئیے مان ہی نہیں رہی تھی “ اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ خباثت سے ہنسا تھا جواباً کشمالہ نے اشتعال میں آکر اسے پستول کی نال مارتے ہوئے ناقابل اشاعت گالیوں سے نوازا ۔
”یہ کیسی زبان استعمال کر رہی ہے؟“ ولی نے پاس کھڑے مجتبٰی کے کان میں سرگوشی کی۔
”ویسی ہی جیسی ہماری پولیس عادی مجرم سے کرتی ہے“ مجتبٰی نے مسکراہٹ روکتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں ہی جواب دیا۔
”دل تو چاہتا ہے تجھے چوک پر لٹکا کر لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دوں۔۔۔ لیکن پھر تیری بہن بیٹیوں پر ترس آتا ہے جن کی زندگیاں تجھ جیسے مرد سے جڑی ہیں جو مرد کہلائے جانے کے بھی لائق نہیں“ وہ قہر آلود لہجے میں بولی تھی۔ ا سکی بات پر ملک نظیر تھوڑا مطمئن ہوا کہ شاید اب وہ اسے چھوڑ دے گی۔
”لیکن تو زندہ رہ جانے کے بھی لائق نہیں ہے“ اس نے بندوق کا حفاظتی بند کھولا۔ جہاں اس کی حرکت پر ملک نظیر کی آنکھوں میں خوف جھلکا تھا وہیں ان دونوں کی آنکھیں بھی حیرت سے اُبل کر باہر آئی تھیں۔ مجتبٰی نے اسے پستول ویسے ہی پکڑا دی تھی وہ کہاں جانتا تھا کہ اسے چلانی بھی آتی ہے۔ لیکن اب کشمالہ کے ہاتھوں کی گرفت بتا رہی تھی کہ وہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
”شاید آپ بھول رہے ہیں کیپٹن مجتبٰی کہ ہمیں ایک ایک گولی کا حساب دینا پڑتا ہے۔۔۔ کچھ سوچا ہے آپ نے کیا جواب دیں گے؟“ پہلی گولی چلنے پر ولی نے سامنے تڑپتے وجود کو دیکھتے ہوئےا ایک بار پھر سرگوشی کی۔
”یہ تو آپ کو سوچنا چاہیے لیفٹینٹ ولی“ اس نے کشمالہ پر نظریں جمائے اسی کے انداز میں جواب دیا اس کے چہرے پر صاف محسوس کی جانے والی شرارت کا عکس تھا۔ اس کی بات پر ولی نے پہلے ناسمجھی والے انداز میں اسے اور پھر اپنی پستول کی جگہ کو دیکھا۔ وہاں پستول نہ پا کر اسے سو واٹ کا کرنٹ لگا تھا۔
”باقی بچ جانے والی گولیاں میں آپ کے اندر اتاروں گا سر“ ولی نے دانت کچکچاتے ہوئے اسے گھورا۔
”بے فکر رہو جونیئر۔۔۔ آج ایک بھی گولی نہیں بچے گی“ اس کا اطمینان قابل دید تھا۔ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا کشمالہ نے آخری گولی تک ہاتھ نہیں روکا تھا۔ ملک نظیر کا چھلنی جسم تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو چکا تھا اور وہ اب بھی زہر خند نظروں سے اسے گھور رہی تھی اس نے امجد صاحب سے پستول چلانا سیکھا تھا اور ریحان کے ساتھ مشن میں وہ پستول سے ہی دشمن پر وار کیا کرتی تھی۔
”تم لاش ٹھکانے لگانے کا انتظام کرو۔۔۔۔ میں کشمالہ کو گھر چھوڑ کر آتا ہوں“ وہ ولی کو کہتے ہوئے باہرآ گیا اس نے ولی کے دبے دبے اجتجاج پر کان نہیں دھرے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
”تواتر سے گولیاں چلا کر آپ کے ہاتھ میں تکلیف ہو رہی ہو گی یہ باندھ لیں “ مجتبٰی نے اپنی پینٹ کی سائیڈ جیب سے ایک رومال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
”جو درد سہنے کے عادی ہوں انہیں یہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں کچھ نہیں کہتیں“ اس نے رومال پکڑنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا تو مجتبٰی نے واپس رکھ لیا۔
”آپ کی ایک امانت تھی میرے پاس۔۔۔ “ اب کہ مجتبٰی نے ڈِش بورڈ پر پڑی ڈبیہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھائی۔
”یہ نفرت کو محبت میں بدلنے کی دوا ہے۔۔۔ امید ہے پہلی خوراک سے ہی افاقہ ہو گا“ کشمالہ کی آنکھوں میں سوالیہ نشان دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ کشمالہ نے ڈبیہ کھولی اس میں زینب بی بی کی چین ،ایک انگوٹھی اور چھوٹے چھوٹے ٹاپس تھے۔ یہ وہ زیور تھا جو وہ ہمیشہ پہن کر رکھتی تھیں اور پھر عدت کے دوران انہوں نے اتار کر دوپٹّے کے پلو سے باندھ دیا تھا۔
”جہاں اپنے بچھڑ جائیں وہاں چیزوں سے دل نہیں بہلتے کیپٹن صاحب“ اس کا لہجہ دکھ بھرا تھا۔ اس کے چہرے پر چھائے حزن کے بادل دیکھ کر مجتبٰی نے دل سے اس کی خوشیوں کی دعا مانگی تھی۔
اگر کشمالہ کو راستوں کی پہچان ہوتی تو جان جاتی کہ گاڑی ولی کے گھر کے بجائے انجان راستوں پر گامزن ہے۔
۔۔۔۔۔۔
میز کے پار کرسی پر بیٹھے شخص کی آنکھیں ان دونوں پر جمی تھیں اور وہ دونوں نظریں جھکائے فرش کے نقش حفظ کرنے میں لگے تھے۔ لیکن ان کی نظریں جھکانے کی وجہ شرمندگی نہیں احترام تھا۔
”ملک نظیر کہاں ہے؟“ کمرے میں میز کے پار بیٹھے شخص کی آواز گونجی۔
”وہ بھاگ گیا تھا“ مجتبٰی نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا۔
”یہ بکواس میں اس انسپکٹر سے بھی سن چکا ہوں جو بار بار فون کر کے میرا سر کھا رہا ہے۔۔۔ تم مجھے سچ بتاؤ “ وہ دھاڑے۔
”وہ ہمارے ساتھ ہی تھا لیکن ہم راستے میں مقبول جنرل سٹور کے سامنے رکے تھے میں سٹور کے اندر کچھ چیزیں لینے گیا تو وہ ولی اس کے پاس تھا۔۔۔ واپس آیا تو مجھے ولی اکیلا ملا اتنی سی دیر میں وہ بھاگ چکا تھا“ وہ روانی سے وہ سب بولتا رہا جو سوچ چکا تھا۔
”یہ سچ کہہ رہا ہے ولی؟“ انہوں نے ولی کی طرف دیکھا۔
”یس سر۔۔۔ میں نے اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کسی چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا“ ولی کی طرف سے ترنت جواب آیا۔
”کہانی اچھی ہے لیکن میں تو جیسے تمہیں جانتا نہیں نا۔۔۔ اب یہ بتاؤ اسے دفنایا کدھر ہے؟“ انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے تھوڑا آگے ہو کر پوچھا۔
ان کی بات پر دونوں نے نظریں اٹھا کر بے یقینی سے دیکھا تھا وہ انہیں ہی دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہو میں اتنا بھی بے خبر نہیں۔
”لگتا ہے مجتبٰی تم نے کبھی نہ سدھرنے کا ارادہ کر رکھا ہے “ وہ مایوسی سے بولے۔
”یس سر“ روانی میں اس کے منہ سے نکلا اور پھر سر کے بگڑے تیور دیکھ کر اپنی غلطی کا فوراًاحساس ہوا تھا۔
”سوری سر“ اس نے فوراً معذرت کی رسم نبھائی۔
”لوگ آگے کی طرف جاتے ہیں لیکن تم نے اپنے مستقبل کو بیک گئیر لگارکھا ہے۔۔۔ پہلے دو ماہ میجر رہ کر اپنی حرکتوں کی وجہ سے واپس کیپٹن بنے تھے اور اب ایسی ہی حرکتیں جاری رہیں تو انشاء اللہ جلد سکینڈ لیفٹینٹ تک پہنچ جاؤ گے“ انہوں نے اسے شرمندہ کرنا چاہا۔
”میں سکینڈ لیفٹینٹ بنوں میجر بنوں یا پھر جرنل ۔۔۔میں فوجی ہوں فوجی ہی رہوں گا ۔۔۔ سر آپ مجھ سے اختیارات چھین سکتے ہیں لیکن میرے جذبات نہیں“ اس کے انداز میں بغاوت نہیں تھی لیکن لہجہ مضبوط تھا۔ وہ ان کا پسندیدہ تھا اسی لئے تو جب سے وہ ان کے پاس آیا تھا وہ اس کی کئی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ اب کی بار بھی معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا لیکن اگر پولیس اوپر شکایت کر دیتی تو ان کی کرسی کو بھی خطرہ تھا۔
”وہ لڑکی کدھر ہے جو اس دن کیمپ کے باہر سے ملی تھی؟“ انہوںُ نے کشمالہ کے بارے میں پوچھا۔
”وہ اسی دن رات کو بھاگ گئی تھی“ جواب پھر مجتبٰی کی طرف سے ہی آیا تھا۔
”اور تمہیں تو جیسے پتا ہی نہیں کہ وہ کہاں گئی ہے؟“ انہوں نے طنز کیا تھا۔ جواباً وہ خاموش رہا لیکن اس کے ہونٹوں کے کناروں کو ایک ہلکی سی مسکراہٹ نے چھوا تھا جو سامنے بیٹھے آفیسر کی زیرک نگاہوں سے بھی چھپی نہیں رہی تھی۔
” اس کی ماں اور بہن کی تدفین کا کام بھی ایثال ثواب کی نیت سے کیا ہوگا؟“ انہوں نے طنز کا ایک اور تیر مارا ۔
”بلکل سر“ مقابل بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔
”تم دونوں کو تین ماہ کے لئے برطرف کیا جاتا ہے۔۔۔ اور اس دوران سب سے پہلے ملک نظیر والے معاملے کو نپٹاؤ۔۔۔ دوبارہ مجھے شکایت نہیں ملنی چاہیے“ محکم انداز میں کہتے ہوئے انہوں نے اپنے سامنے فائل کھول لی تھی جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اب جاؤ۔
” اوکے سر لیکن۔۔۔“ ولی نے کچھ کہنا چاہا۔
”بکواس بند کرو۔۔۔ اور اپنی پستو لیں یہاں رکھ کر جاؤ“ ان کے بے لچک انداز میں کہنے پر وہ دونوں میز پر پستول اور اپنے بیج رکھ کر باہر آگئے۔
”وہ کچھ نہیں کرے گی۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ایک دو تھپڑ مار دے گی دو چار گالیاں دے دے گی پھر ہم ملک نظیر کو واپس پولیس کے حوالے کر دیں گے۔۔۔۔ اور ان محترمہ نے واقعی کچھ نہیں کیا سوائے ہمیں برطرف کروانے کے“ باہر نکل کر ولی نے مجتبٰی کے لہجے کی نقل اتارتے ہوئے کہا تھا۔
”بھابھی اب اسے پہلے سے بھی زیادہ پسند کرنے لگ جائیں گی۔۔۔ اس کی وجہ سے تمہیں لمبی چھٹی جو مل گئی ہے“ مجتبٰی نے اس کی دہائی کو نظر انداز کرتے ہوئے شوخی سے کہا۔
“اور اس لمبی چھٹی کے ساتھ جو ٹھپہ لگا ہے وہ؟ ولی نے جل بھن کر دانت پیسے۔
”ایسے ٹھپے ریکارڈ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں“ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہ ہو۔
”تم تو عادی ہو ایسے ٹھپوں کے۔۔۔ویسے کشمالہ کو کہاں کیا تم نے؟“ دوپہر میں جب وہ لوگ کوٹھری سے نکلے تھے اس کے بعد سے ولی نے کشمالہ کو نہیں دیکھا تھا۔
”کل کے کارنامے کی وجہ سے ممی خالہ کی طرف آئی تھیں بس انہی کے ساتھ بھیج دیا۔۔۔ مجھے یقین تھا سر اس کے بارے میں ضرور پوچھیں گے“ مجتبٰی نے تفصیل بتائی۔
”ویری سمارٹ“ ولی کے لہجے میں ستائش تھی۔
”اینی ڈاؤٹ؟“ وہ اترایا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ولی چلا گیا تو وہ بھی سونے کے لئے کیمپ میں بنے اپنے کمرے میں آگیا۔ آج نیند کی وادی میں جاتے ہوئے وہ قدرے مطمئن تھا ۔ صبح اسے بھی اپنے گھر جانا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ صبح ایک اور بڑا دن اس کا منتظر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...