جنگلوں میں لڑکوں کو جنگی تربیت کا تمام ہوئے کچھ عرصہ بیت گیا تھا اور ایک صبح ہم اپنے گھر کالاڈھنگی کے برآمدے میں ناشتے کے بعد بیٹھے تھے۔ میری بہن میگی میرے لیے خاکی کمبل بن رہی تھی اور میں اپنی پسندیدہ بنسی کی مرمت کر رہا تھا جو کئی برس سے میرے استعمال میں تھی۔ صاف ستھرے مگر پیوند لگے کاٹن کے کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی سیڑھیوں پر چڑھا اور چہرے پر بڑی مسکراہٹ سجائے سلام کر کے بولا کہ آپ کو میں یاد ہوں؟
صاف ستھرے اور غلیظ، امیر اور غریب (زیادہ تر غریب)، ہندو، مسلمان اور عیسائی ان سیڑھیوں سے چڑھ کر آتے تھے کہ ہمارا گھر چوراہے پر تھا جہاں جنگلات سے آبادی کو جانے والی سڑکیں ملتی تھیں۔ ہر بندہ جو چاہے بیمار ہو یا مدد کا طلبگار ہو یا محض بات کرنا چاہتا ہو یا چائے پینی ہو، چاہے آبادی سے آیا ہو یا جنگلات سے محض مسافر ہو، ہمارے گھر کا چکر لگا جاتا تھا۔ اگر محض بیمار اور زخمیوں کے علاج کا رجسٹر ہوتا تو وہ تعداد ہزاروں میں ہوتی۔ ہر قسم کے زخموں اور بیماریوں کے علاج کے لیے ہر ممکن دوائی استعمال ہوتی تھی کہ جب آپ مضرِ صحت علاقوں میں رہتے ہوں یا ایسے جنگلات میں کام کرتے ہوں جہاں بعض اوقات درندوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہو۔
ایک بار ایک عورت کو ہم نے اس کے بچے کے پھوڑے پر لگانے کے لیے السی کا مرہم دیا تھا اور اگلے دن وہ آئی کہ اس کا بچہ دوائی نہیں کھا رہا تھا اور کھانے کے بعد بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، سو دوائی بدل دیں۔ ایک بار ایک مسلمان عورت دھاڑیں مارتی میگی کے پاس آئی کہ اس کے شوہر کو نمونیا ہو گیا ہے اور وہ مر رہا ہے۔ پھر اس نے M. & B. 693 (اس دور کی مشہور ترین اینٹی بیکٹیریل دوا) کی شیشی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ صرف یہی ایک دوائی مرتے ہوئے انسان کو بچانے کے لیے استعمال ہوتی ہے؟ اگلے دن وہ اپنی چار سہیلیوں کے ساتھ آئی کہ اس کا شوہر ٹھیک ہو گیا ہے اور چونکہ اس کی سہیلیوں کے شوہر اس کے شوہر کے ہم عمر ہیں اور انہیں کسی وقت بھی نمونیا ہو سکتا ہے، سو ان کے لیے ابھی سے دوائی دے دیں۔ ایک بار ایک آٹھ سالہ بچی بمشکل ہمارے گیٹ کو کھول کر برآمدے میں آئی۔ اس نے ایک چھ سالہ لڑکے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور بولی کہ وہ اس بچے کی آشوبِ چشم کی وجہ سے خراب آنکھوں کی دوائی لینی آئی ہے۔ پھر اس نے زمین پر بیٹھ کر بچے کو زمین پر لٹایا اور اس کے سر کو اپنے زانو پر رکھ کر بولی، “مس صاحب، آپ اب اس کا علاج کریں۔” یہ بچی چھ میل دور ایک گاؤں کے نمبردار کی بیٹی تھی۔ اس کی جماعت کے اس بچے کی آنکھیں خراب تھیں تو وہ اس کے علاج کے لیے خود ہی اسے لے آئی۔ علاج پر پورا ایک ہفتہ لگ گیا اور وہ بچی ہر روز اس بچے کو لاتی رہی، حالانکہ اس طرح روز اسے چار میل اضافی چلنا پڑتا تھا۔
پھر ایک بار دلی سے آیا ہوا لکڑہارا ہمارے صحن میں رینگتے ہوئے داخل ہوا۔ اس کی دائیں ٹانگ ایڑی سے گھٹنے تک کھلی ہوئی تھی۔ اس پر سور نے حملہ کیا تھا۔ جتنی دیر اس کے زخم کی مرہم پٹی ہوتی رہی، اتنی دیر یہ بندہ اس پلید جانور کو گالیاں دیتا رہا کہ وہ مسلمان تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک روز قبل گرائے ہوئے درخت کو آرے سے کاٹنے پہنچا تو اس کی شاخوں میں چھپا ہوا سور اس پر حملہ آور ہو گیا۔ جب میں نے بتایا کہ شاید یہ اس کی اپنی غلطی ہوگی کہ وہ سور کے راستے میں آیا تو وہ بولا، “پورا جنگل موجود تھا، مگر پھر بھی اس جانور کو مجھ پر ہی حملہ کرنا تھا، میں نے تو اسے حملے کے بعد ہی دیکھا تھا۔”
ایک اور لکڑہارا بھی تھا۔ ایک تنے کو الٹاتے ہوئے اس کے نیچے چھپے بچھو نے اس کی ہتھیلی پر ڈنک مارا تھا جو بہت بڑا تھا۔ علاج کے بعد وہ فرش پر لوٹنیاں لگاتا اور زور زور سے اپنی قسمت کو کوستا رہا اور بتاتا رہا کہ دوائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ اچانک اس نے قہقہے لگانا شروع کر دیے۔ اس روز بچوں کا میلہ تھا اور بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے بعد سب بچے اور ان کی مائیں دائرے میں کھڑے ہو گئے۔ درمیان میں دو لمبے بانسوں پر کاغذی تھیلے میں مختلف میوے بھر کر لٹکا دیے گئے اور ایک بچے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے کہا گیا کہ وہ ڈنڈے سے اس تھیلے کو پھاڑے۔ ان بانسوں کو دو بندے تھامے کھڑے تھے۔ اچانک بچے کا ڈنڈہ ایک بندے کے سر پر لگا جسے دیکھ کر بچھو والے بندے نے قہقہے لگانا شروع کر دیے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تکلیف کیسی ہے تو وہ بولا کہ اب اسے تکلیف کی کوئی پروا نہیں رہی کہ اتنا اچھا تماشہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
میری بہنیں میڈیکل مشنری تھیں اور ہندوستان کے غریب لوگوں کی یاداشت بہت اچھی ہوتی ہے اور جب ان پر کوئی مہربانی کی جائے تو وہ کبھی نہیں بھولتے، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ سو ہمارے مہمان ہمیشہ بیمار یا زخمی نہیں ہوتے تھے۔ بہت سارے افراد تو کئی کئی دن کا پیدل سفر چل کر ہمارا شکریہ ادا کرنے آتے کہ ہم نے پچھلے سال یا کئی سال قبل ان پر کوئی مہربانی کی تھی۔
ایک بار سولہ سالہ لڑکا اپنی ماں کے ساتھ کئی روز سے ہمارے گاؤں مقیم تھا کہ میری بہن اس کی ماں کے انفلوئنزا اور آشوب چشم کا علاج کر رہی تھی۔ کچھ عرصے بعد وہ لڑکا کئی دن پیدل چل کر ہمارے پاس شکریہ ادا کرنے آیا اور ساتھ تحفے کے طور پر کئی انار تھے جنہیں اس کی ماں نے “اپنے ہاتھوں” سے توڑے تھے۔ اوپر بیان کیے گئے پیوند لگے کپڑوں والے بندے سے ایک گھنٹہ قبل ہی ایک بندہ ہمارے برآمدے میں پہنچا اور ایک ستون سے ٹیک لگا کر کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا اور پھر مایوسی سے سر ہلا کر بولا، “صاحب، آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ پچھلی بار جب آپ کو دیکھا تھا تو آپ جوان تھے۔” میں بولا، “ہاں، سبھی دس سال بعد بوڑھے لگتے ہیں۔” اس پر وہ بولا، “دس نہیں، بارہ سال صاحب۔ اُس بار میں بدری ناتھ یاترا کے بعد لوٹ رہا تھا اور آپ کا کھلا ہوا پھاٹک دیکھ کر اندر چلا آیا کہ میں بہت تھکا ہوا تھا اور مجھے دس روپے اشد درکار تھے۔ آپ سے کچھ آرام کرنے کی اجازت لی تھی اور آپ سے دس روپے بھی مانگے تھے جو آپ نے دے دیے تھے۔ اب میں دوسری یاترا سے بنارس سے واپس آ رہا ہوں۔ اس بار مجھے پیسے درکار نہیں ہیں اور میں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور یہ بتانے آیا ہوں کہ میں بخیریت گھر پہنچ گیا تھا۔ سگریٹ پینے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد میں اجازت چاہوں گا کہ میرے گھر والے ہلدوانی میرے منتظر ہوں گے۔” ہلدوانی کا یک طرفہ سفر یہاں سے چودہ میل بنتا ہے۔ اگرچہ وہ کہہ رہا تھا کہ بارہ برس یا چودہ میل کے سفر سے اسے کوئی فرق نہیں پڑا، مگر وہ بہت ضعیف تھا۔
اگرچہ اس پیوند لگے کپڑوں والے بندے کا چہرہ ہلکا سا واقف لگ رہا تھا مگر ہماری یاداشت میں ملاقات کی کوئی یاد نہیں تھی۔ جب اس نے اندازہ لگا لیا کہ ہم اسے نہیں پہچان سکے تو اس نے اپنی صدری اتاری اور قمیض کھول کر اپنا سینہ اور دائیاں کندھا سامنے کیا۔ کندھے سے ہمیں فوراً سب یاد آ گیا۔ اس کا نام نروا تھا۔ نروا، چھابیاں بنانے والا، اسے ہم نے چھ سال قبل دیکھا تھا جب وہ محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور چلنے میں انتہائی دشواری ہوتی تھی اور لاٹھی کے سہارے چلتا تھا۔ اب اس کے شانے کو دیکھا تو سب یاد آ گیا کہ کیسے تین ماہ تک وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا اور ہم اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ اس نے اب اپنے بازو کو اوپر نیچے اور مٹھی کھول اور بند کر کے دکھایا کہ کیسے اس کا ہاتھ ٹھیک ہوا ہے۔ اس کی انگلیاں بھی ٹھیک کام کر رہی تھیں حالانکہ ہمیں ڈر تھا کہ شاید اس کی انگلیاں اکڑ جائیں۔ اب وہ اپنا کام کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اب وہ ہمیں یہ بتانے آیا تھا کہ وہ ٹھیک ہو چکا ہے اور اب میگی کا شکریہ ادا کرنے آیا ہے کہ میگی نے تین ماہ تک اس کی دیکھ بھال اور علاج کے علاوہ اس کی بیوی اور بچوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا تھا۔
نروا اور ہریا سگے بھائی تو نہیں تھے مگر خود کو سگے بھائی کہتے تھے۔ دونوں الموڑا کے قریب ایک ہی گاؤں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ جب کام کرنے کی عمر کو پہنچے تو انہوں نے ایک ہی کام شروع کیا جو ٹوکریاں بنانا تھا۔ صوبجاتِ متحدہ میں ٹوکریاں بنانے کا کام محض اچھوت کرتے تھے، سو یہ بھی اچھوت تھے۔
گرمیوں کے دوران نروا اور ہریا اپنا کام الموڑا کے قریب اپنے دیہات میں کرتے تھے اور سردیوں میں نیچے اتر کر کالاڈھنگی چلے جاتے جہاں بڑی ٹوکریوں کی بہت مانگ تھی جو پندرہ فٹ چوڑی ہوں۔ ان ٹوکریوں میں دیہاتی لوگ اپنا غلہ رکھتے تھے۔ الموڑا کے قریب اپنے گاؤں میں ان کی ٹوکریاں رنگل یعنی پہاڑی بانس سے بنتی تھیں جو ایک انچ موٹا اور لگ بھگ بیس فٹ لمبا ہوتا ہے اور یہ بانس چار ہزار سے دس ہزار فٹ کی اونچائی پر اگتا ہے۔ یہ بانس مچھلیاں پکڑنے کی بنسیوں کے لیے بھی بہترین ہے۔
کالاڈھنگی میں یہ بانس سرکاری جنگلات میں اگتا ہے اور ہم جیسے لوگ جو سرکاری جنگلات کے قریب کاشتکاری کرتے ہیں، کو ذاتی استعمال کے لیے ایک خاص تعداد میں ہر سال بانس کاٹنے کی اجازت ملتی ہے۔ تجارتی مقاصد کے لیے ایک گٹھری کی قیمت دو آنہ مقرر ہے اور یہ لائسنس فارسٹ گارڈ سے ملتا ہے۔ لائسنس کی خانہ پری کرنے کے لیے فارسٹ گارڈ کو بھی کچھ معاوضہ مل جاتا ہے۔ اس بارے ایک اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ ایک بندہ ایک وقت میں کتنے بانس اٹھا سکتا ہوگا اور لائسنس میں اتنے ہی مقرر ہوتے ہیں۔ یہ بانس دو سال کے ہوں تو کاٹ لیے جاتے ہیں اور ٹوکری بنانے کے لیے بہترین شمار ہوتے ہیں۔
ایک بار صبح پو پھٹتے ہی ۲۶ دسمبر ۱۹۳۹ کو نروا اور ہریا اپنے مشترکہ جھونپڑے سے نکلے جو کہ کالاڈھنگی کے بازار کے قریب تھا، تاکہ آٹھ میل دور نلنی دیہات جا کر فارسٹ گارڈ سے لائسنس لیں اور پھر دو گٹھڑیاں بانسوں کی کاٹ کر شام کو گاؤں واپس لے آئیں۔ چونکہ صبح بہت سرد تھی، اس لیے انہوں نے کھیس لپیٹ رکھے تھے۔ ایک میل تک ان کا راستہ نہر کے کنارے چلتا رہا۔ پھر ہیڈورکس کی دیواریں عبور کر کے وہ لوگ اس راستے پر چڑھے جو گھنی جھاڑیوں والے جنگل اور دریائے بور کے پتھروں سے بھرے کناروں سے گزرتا تھا۔ اس جگہ دریا پھیل جاتا تھا اور یہاں اودبلاؤ کا جوڑا رہتا تھا جو علی الصبح تیرتا دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تین یا چار پاؤنڈ وزنی مہاشیر بھی آسانی سے پکڑی جا سکتی ہیں۔ مزید دو میل آگے جا کر انہوں نے دریا کو کم گہری جگہ سے عبور کر کے دریا کے بائیں کنارے کا رخ کیا اور درختوں اور گھاس کے جنگل میں داخل ہو گئے۔ صبح اور شام اس جگہ چیتلوں اور سانبھروں کے کئی چھوٹے مندے دکھائی دیتے تھے اور بسا اوقات کاکڑ، شیر اور تیندوے بھی دکھائی دیے جاتے تھے۔ اس جگہ ایک میل دور وہ اس جگہ پہنچے جہاں پہاڑیاں مڑتی ہیں اور یہاں کئی سال پہلے روبن نے پہلی بار پوال گڑھ کے کنوارے شیر کے پگ تلاش کیے تھے۔ اس جگہ سے وادی کھلنا شروع ہو جاتی ہے اور مویشی چرانے والے اور چور شکاری، سبھی اس جگہ کو سمل چور کہتے تھے۔ اس جگہ چلتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے کہ یہاں شیر بکثرت پگڈنڈیوں پر چلتے ہیں۔
وادی کے بالائی سرے پر راستہ گھنی گھاس کی پٹی سے گزرتے ہوئے پھر دو میل کی سخت چڑھائی سے ہوتا ہوا نلنی پہنچتا ہے۔ یہ گھاس آٹھ فٹ اونچی اور یہ پٹی تیس گز لمبی اور راستے کے دونوں اطراف پچاس پچاس گز تک پھیلی ہوئی ہے۔ چڑھائی کا خیال کرتے ہوئے گھاس سے ذرا پہلے نروا نے اپنا کھیس اتارا اور تہہ کر کے اپنے دائیں کندھے پر ڈال لیا۔ ہریا آگے چل رہا تھا اور نروا چند قدم پیچھے۔ ابھی وہ گھاس میں تین یا چار گز چلا ہوگا کہ اسے شیر کی دھاڑ سنائی دی اور نروا کی چیخ بھی۔ ہریا مڑ کر دوڑا اور گھاس کے کنارے پہنچ کر دیکھا کہ نروا پشت کے بل لیٹا ہے اور ایک شیر اس کے اوپر موجود تھا۔ نروا کے پیر قریب تھے، اس لیے ہریا نے نروا کے پیر پکڑے اور اسے گھسیٹنا شروع کیا۔ شیر اٹھ کر دھاڑنا شروع ہو گیا۔ نروا کو کچھ دور لے جا کر اس نے اسے بٹھانے کی کوشش کی مگر نروا نقاہت کی وجہ سے چلنے یا کھڑا ہونے سے معذور تھا۔ اس لیے ہریا کبھی اسے گھسیٹتا اور کبھی اٹھا کر چلنا شروع ہو گیا۔ شیر مسلسل دھاڑ رہا تھا۔ پھر اس نے نلنی کا راستہ لیا۔
ہریا حیران کن قوت سے نروا کو لے کر نلنی پہنچا۔ دیکھا گیا کہ کھیس کی آٹھ تہوں سے شیر کے چاروں بڑے دانت گزر گئے تھے اور کندھے کی ہڈیاں توڑ دی تھیں اور سینے اور پشت کے دائیں جانب کی ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر کھیس نہ ہوتا تو نروا کے زخم مہلک ہوتے۔ چونکہ فارسٹ گارڈ اور مقامی افراد کچھ کرنے سے قاصر تھے، اس لیے ہریا نے دو روپے کے عوض خچر کا بندوبست کیا اور نروا کو لے کر کالا ڈھنگی روانہ ہوا۔
یہ فاصلہ آٹھ میل بنتا تھا مگر شیر سے بچنے کے لیے ہریا نے مسابنگا دیہات کے راستے لمبا چکر کاٹا جس سے یہ تکلیف دہ سفر دس میل طویل ہو گیا۔ نلنی میں زین نہیں تھی، سو نروا کو خچر کی پشت پر سوار ہو کر آنا پڑا۔ پہلے نو میل انتہائی دشوار راستے سے گزرتے تھے۔
میگی ہمارے برآمدے میں بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ یہ لوگ آن پہنچے۔ نروا خون میں تر تھا اور اسے ہریا نے تھام رکھا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے علم ہو گیا کہ یہ زخم اس کے بس سے باہر ہیں، سو میگی نے نروا کو خوشبودار نمک سنگھایا تاکہ اس کے حواس بحال ہوں اور پھر اس کے بازو کو پٹی سے لٹکا دیا اور بستر کی چادر پھاڑ کر زخم کے لیے پٹیاں بنائیں۔ پھر اس نے خط لکھ کر کالاڈھنگی کے اسسٹ سرجن کی طرف نروا کو ایک ملازم کے ساتھ بھیج دیا۔
میں اس روز پرندوں کے شکار پر نکلا تھا کہ میرے کئی دوست کرسمس کی تعطیلات پر کالاڈھنگی آئے ہوئے تھے۔ میری واپسی رات گئے ہوئی۔ اگلی صبح میں ہسپتال گیا تو ایک نوجوان اور انتہائی ناتجربہ کار ڈاکٹر نے بتایا کہ اس نے ہرممکن کوشش کی ہے اور چونکہ اس امید نہیں تھی کہ نروا بچ سکے گا، اس نے نروا کو گھر واپس بھیج دیا کہ ہسپتال میں داخلے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
بڑے مشترکہ گھر میں بیس خاندان آباد تھے اور اس کے ایک کونے میں نروا چٹائی پر پڑا تھا۔ اتنی تکلیف دہ حالت میں ایسی جگہ ہونا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا اور اس کے زخموں میں پیپ کے آثار واضح تھے۔ ایک ہفتے تک نروا ایسی کیفیت میں پڑا رہا کہ کبھی تیز بخار ہوتا تو کبھی بے ہوشی میں ہوتا۔ اس دوران اس کا خیال اس کی بیوی اور اس کا منہ بولا بھائی ہریا کرتے رہے۔ میری ناتجربہ کار نگاہوں کو بھی صاف پتہ چل رہا تھا کہ ہریا کے زخموں میں پیپ پڑ گئی ہے اور اگر انہیں کھول کر صاف نہ کیا گیا تو ہریا کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ سو میں نے اس کی ہسپتال منتقلی کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر کی مہارت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ جب اس نے ذمہ داری اٹھائی تو نروا کے آپریشن کو بخوبی سرانجام دیا۔ نروا کے جسم پر موجود کئی لمبے زخم شیر سے نہیں بلکہ ڈاکٹر کے نشتر سے لگے تھے۔ یہ زخم شمشان گھاٹ تک نروا کے ساتھ جائیں گے۔
ہندوستان میں بھکاریوں کے علاوہ غریب اس وقت کھاتے ہیں جب انہیں کوئی کام ملے۔ چونکہ نروا کی بیوی مستقل ہسپتال میں اپنے شوہر اور اپنی تین سالہ بیٹی اور بچے کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھی، میگی نے ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا (ہندوستان میں چھوٹے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے تیماردار اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا)۔ تین ماہ بعد، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا اور دائیں بازو لٹکائے کہ جیسے دوبارہ کبھی استعمال نہیں کر پائے گا، نروا جھونپڑے سے رینگتا ہوا ہمارے گھر آیا اور جانے کی اجازت مانگی۔ اگلی صبح وہ اور ہریا اپنے خاندان سمیت اپنے گاؤں کو الموڑا کی سمت چل دیے۔
پہلی بار جب میں نروا سے ملنے اس کے جھونپڑے گیا تو میں نے ہریا سے سارا واقعہ پوچھا۔ واقعہ سن کر میرا خیال تھا کہ نروا کے ساتھ شیر کی مڈبھیڑ اتفاقیہ تھی۔ تاہم اپنی تسلی کے لیے میں جائے وقوعہ کو چل دیا تاکہ اگر شیر کی شرارت ہو تو اسے ہلاک کروں۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا روانہ ہو گیا۔ نلنی کی چڑھائی سے قبل چند گز تک راستہ گھاس کے ساتھ چلتا ہوا دائیں مڑ کر گھاس میں داخل ہوتا ہے۔ ہریا اور نروا کی آمد سے ذرا قبل ہی شیر نے ایک نر سانبھر مارا تھا اور اسے اٹھا کر راستے کے قریب گھاس کے قطعے میں گھسا۔ جب ہریا مڑ کر گھاس میں داخل ہوا تو آواز سن کر شیر باہر نکلا اور سامنے نروا تھا۔ یہ سامنا اتفاقیہ تھا کیونکہ گھاس بہت گھنی اور بہت اونچی تھی۔ اس کے علاوہ شیر نے نروا کو بھنبھوڑنے کی کوشش بھی نہیں کی اور جب ہریا نے اسے گھسیٹنا شروع کیا تو شیر نے اسے نہیں روکا۔ اس لیے میں نے شیر کو کچھ نہیں کہا۔ بعد میں یہی شیر ان شیروں میں شامل ہوا جن کا ذکر میں نے کماؤں کے آدم خور میں “صرف شیر” کے عنوان میں کیا ہے۔
بہادری کے جتنے واقعات کے بارے میں نے سنا ہے یا خود دیکھے ہیں، میرے نزدیک ہریا کا یہ فعل سب سے بہادرانہ ہے۔ اتنے وسیع جنگل میں تنہا اور نہتا ہونے کے باوجود غصے سے دھاڑتے شیر کے نیچے سے اپنے ساتھی کو گھسیٹ کر نکالنا اور پھر اسے دو میل کی کٹھن چڑھائی تک لے کر جانا اور یہ جانے بغیر، کہ آیا شیر تعاقب کر رہا ہے یا نہیں، میرے نزدیک کوئی کوئی انسان اتنا بہادر ہو سکتا ہے۔ جب میں نے ہریا سے تفصیلات پوچھیں اور جن کی حرف بحرف تصدیق بعد ازاں نروا نے بھی کی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اس نے کتنا بڑا کام کیا ہے تو اس نے جواب دیا، “صاحب، میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا کہ مجھے یا نروا کو مشکل ہو؟” ایک ہفتے بعد جب میں نے نروا سے بیان لیا تو اس کی تکلیف کے پیشِ نظر مجھے یہ اس کا نزاعی بیان لگ رہا تھا۔ اس نے انتہائی کمزور آواز میں کہا، “صاحب، میرے بھائی کو کوئی مشکل نہ ہو۔ اس نے میری جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی اور اس کا کوئی قصور نہیں۔”
مجھے یہ بتا کر بہت خوشی ہوتی کہ ان کی بہادری کے عوض حکومت نے انہیں کوئی امداد، انعام یا تمغہ دیا ہوتا، مگر سرخ فیتہ میرے بس سے باہر تھا اور حکومت کسی ایسی چیز کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ جس کے لیے کوئی غیر جانبدار گواہ نہ ہو۔
انسانی تاریخ کے چند انتہائی نڈر واقعات میں سے ایک واقعہ تسلیم نہ ہو سکا کہ اس بارے کوئی “آزاد اور غیر جانبدار” گواہ نہیں تھا۔ ہریا زیادہ مستحق تھا کہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور نروا کے پاس اس کے زخم اور خون سے لتھڑا کھیس تو تھا۔
کئی روز تک میں اس فیصلے کے خلاف شاہِ انگلستان سے اپیل کا سوچتا رہا مگر پھر جنگِ عظیم کے آغاز پر میں نے یہ خیال دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دیا۔
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...