پروفیسر مغنی تبسم اردو کے ایک ممتاز شاعر ہونے کے علاوہ ایک معروف نقاد بھی تھے۔ انھیں تنقید نگاری کے میدان میں ایک نمایاں حیثیت اسی زمانے میں حاصل ہو گئی تھی جب آج سے تقریباً چالیس سال قبل فانی بدایونی پران کی تنقیدی کتاب منظرِ عام پر آئی تھی۔ یہ کتاب دراصل ان کا پی ایچ۔ ڈی۔ کا وہ تحقیقی مقالہ تھا جو انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں پروفیسر مسعودحسین خاں کی نگرانی میں تیار کیا تھا۔ اس مقالے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس کا معتدبہ حصہ کلامِ فانی کے صوتیاتی اور اسلوبیاتی تجزیوں پر مشتمل تھا۔ اردو میں پہلی بار اس جامعیت کے ساتھ کسی شاعر کے کلام کا صوتیاتی و اسلوبیاتی تجزیہ پیش کیا گیا تھا۔ مغنی تبسم کی اس کوشش کو غیر معمولی طور پر سراہا گیا۔ چنانچہ فانی پر اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد سے انھوں نے بعض دیگر اردو شعرا کے کلام کا مطالعہ و تجزیہ بھی اسلوبیاتی نقطۂ نظر سے کرنا شروع کر دیا۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ اسلوبیات درحقیقت لسانیاتی مطالعۂ اسلوب ہے۔ ادبی فن پارے کی زبان اور اسلوب کا مطالعہ جب لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور لسانیاتی طریقِ کار کی مدد لی جاتی ہے تو یہ مطالعہ ’اسلوبیات ‘ (Stylistics) کہلاتا ہے۔ اسی مطالعے کو ’اسلوبیاتی تنقید‘ بھی کہتے ہیں۔ اردو میں اس قسم کے مطالعے اور تجزیے کی بنیاد مسعود حسین خاں کے مضامین و مقالات سے پڑ چکی تھی جو انھوں نے امریکہ سے اپنی واپسی کے بعد گذشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے اوائل سے لکھنا شروع کیے تھے۔ مغنی تبسم کو اسلوبیاتی تنقید سے دل چسپی مسعود حسین خاں ہی کی تربیت کی وجہ سے پیدا ہوئی اور انھی سے تحریک پاکر مغنی صاحب نے اردو میں اسلوبیاتی مضامین لکھے اور ا س کے اطلاقی و عملی نمونے پیش کیے۔
اسلوبیاتی تنقید سے مغنی تبسم کواس لیے بھی دل چسپی پیدا ہوئی کہ یہ ایک نیا اور روایتی ادبی تنقید سے حد درجہ مختلف نظریۂ تنقید تھا جس میں ادبی فن پارے کو خود کفیل و با اختیار مان کر اس کا معروضی و توضیحی مطالعہ و تجزیہ کیا جاتا تھا اور داخلی، تاثراتی اور تشریحی اندازِ نقد سے گریز کیا جاتا تھا۔ اسلوبیاتی تنقید کا یہ امتیاز انھیں پسند آیا اور انھوں نے چند برسوں کے دوران اردو میں اچھی خاصی تعداد میں اسلوبیاتی مضامین لکھ ڈالے جن میں سے بیشتر سیمیناروں میں پڑھے گئے اور مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ انھی مضامین کا مجموعہ مغنی صاحب نے کتابی شکل میں ’آواز اور آدمی‘( حیدرآباد: الیاس ٹریڈ رس، ۱۹۸۳ء) کے نام سے شائع کرایا۔
یہ کتاب گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔ شروع کے چار مضامین: ۱-’’اصوات اور شاعری‘‘، ۲-’’ قافیہ‘‘، ۳-’’غالب کا آہنگِ شعر اور بحروں کا استعمال‘‘، اور ۴- ’’غالب کی شاعری -بازیچۂ اصوات‘‘ خالص صوتیاتی نقطۂ نظر سے لکھے گئے ہیں۔ ان مضامین میں جو طریقِ کار اختیار کیا گیا ہے وہ خالصتہً معروضی اور تجزیاتی ہے۔ ان کے مطالعے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ مغنی صاحب نہ صرف شعر کے رمز شناس تھے اور ادب کا رچا ہوا ذوق رکھتے تھے، بلکہ زبان کی ساخت اور اس کی توضیح پر بھی ان کی نظر بہت گہری تھی، نیز اردو کے صوتی و صرفی نظام کا بھی انھیں ٹھوس علم تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلوبیات جیسے موضوع پر صحیح معنیٰ میں وہی شخص قلم اٹھا سکتا ہے جو ادب اور زبان دونوں کی نزاکتوں سے بہ خوبی واقف ہو، اور لسانیات کے نظری اور اطلاقی پہلوؤں پرا س کی گرفت کا فی مضبوط ہو۔ مسعود حسین خاں سے کسبِ فیض کے دوران مغنی صاحب نے لسانیاتِ جدید کی مبادیات سے بھی کماحقہٗ واقفیت حاصل کر لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے اسلوبیاتی مطالعے اور تجزیے کے دوران انھیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔
شعری اسلوب کے صوتیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مغنی تبسم اپنے مضمون’’ اصوات اور شاعری‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :’’یہ ایک حقیقت ہے کہ شعر کی خارجی موسیقی اصوات ہی کی مخصوص ترتیب سے تشکیل پاتی ہے۔ شاعر اصوات کے بامعنی مجموعوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور ہم ان آوازوں کو سن کر شعر سے متاثر ہوتے ہیں ‘‘(ص۱۰)۔ اسی مضمون میں مغنی صاحب نے اردو کے تمام مصوتوں (Vowels) اور مصمتوں (Consonants) کی تعریف و توضیح اور ان کی طرزِ ادائیگی، نیز مخارج کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی بھی پیش کی ہے۔ علاوہ ازیں ان کے صوتی وسماعی تاثر اور صوتی رمزیت وموسیقیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اپنے مضمون ’’قافیہ‘‘ میں انھوں نے اردو قوافی کی صوتی بنیادوں کا پتا لگایا ہے اور ان کے صوتی تجزیہ و تحلیل سے بڑے دل چسپ نتائج اخذ کیے ہیں۔ اس مجموعے کا ایک اور اہم مضمون ’’غالب کا آہنگِ شعر اور بحروں کا استعمال‘‘ ہے جو بڑی دیدہ ریزی اور دقتِ نظر کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ یہ مضمون زبان کے حوالے سے ادبی تجزیہ و تحلیل کی نہایت عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ غالب کے آہنگِ شعر اور بحروں کے انتخاب واستعمال کے مطالعے اور تجزیے سے مغنی تبسم نے جو نتیجہ برآمد کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’غالب نے مختلف اوزان میں مصوتوں اور وقفوں کی تبدیلی سے آہنگ کے نت نئے تجربے کیے ہیں ‘‘( ص۷۲)۔
کلامِ غالب کے صوتیاتی تجزیے کے سلسلے کا ایک اور اہم مضمون ’’غالب کی شاعری – بازیچۂ اصوات‘‘ ہے جس میں مغنی صاحب نے غالب کی شاعری کے صوتی آہنگ کی تعمیر میں اصوات کی ترتیب و تنظیم اور تکرر(Frequency) کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے، کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ’’ غالب کے شعر کی تاثیر میں اس کے صوتی آہنگ کا جو حصہ ہے اسے نظر انداز کر دیں تو ہماری تحسین اور تنقید ادھوری رہ جائے گی‘‘ (ص ۷۵)۔ چنانچہ غالب کی شاعری کے صوتی تار و پود کا، جس سے ان کی شاعری کا لہجہ متعین ہوتا ہے اور شعر سے نغمے پھوٹتے ہیں، مغنی صاحب نے بڑی فنی مہارت، چابک دستی اور دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ پیش کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’غالب کی شاعری کے حسن اوراس کی تاثیر میں اصوات کے انتخاب اور ان کی تنظیم کو خاص دخل ہے۔ ۔ ۔ شعرِ غالب گنجینۂ معنی ہی نہیں بازیچۂ اصوات بھی ہے‘‘ (ص۷۶)۔
غالب پر اپنے ایک اور مضمون میں مغنی تبسم نے کلامِ غالب میں اسالیب کی آویزش کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق غالب کے یہاں دو اسالیب پائے جاتے ہیں — ایک خالص اردو اسلوب اور دوسرا فارسی آمیز اسلوب۔ یہ اسالیب ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ ایک مدت تک ان میں باہم کشمکش اور آویز ش جاری رہی اور آخر میں فارسی اسلوب کے بہت سے عناصر زائل ہو گئے۔ فارسی اسلوب کے عناصرِ ترکیبی میں فارسی مصادر، فارسی حروف (Particles)، فارسی جمع اور فارسی تراکیب کو غالب نے خاص اہمیت دی ہے۔ بعض اشعار میں فارسی افعال و تراکیب اور فارسی صرف و نحو کے استعمال کو انھوں نے اس حد تک جائز قرار دیا ہے کہ ان کے اردو اشعار پر فارسی اشعار کا دھو کا ہونے لگتا ہے۔
متذکرہ کتاب کا ایک اور اہم مضمون ’’میر کا لہجہ‘‘ ہے جس میں میر کی شاعری کے چند نمایاں لہجوں، مثلاً خطاب و تخاطب اور خود کلامی وغیرہ کا اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور مثالیں دی گئی ہیں۔ اسی ضمن میں مغنی صاحب کے ایک اور مضمون ’’حسرت کی غزل گوئی کے چند پہلو‘‘ کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے حسرت کی شاعری کے صوتی آہنگ کو اپنے مطالعے اور تجزیے کا موضوع بنایا ہے۔
’آواز اور آدمی‘ کے بیشتر مضامین شاعری کے صوتیاتی تجزیوں پر مشتمل ہیں۔ صوتیات کے بعد اسلوبیاتی تجزیے کی دوسری سطح لفظیات ہے، چنانچہ مغنی تبسم نے لفظیات کے حوالے سے بھی اردو شاعری کا اسلوبیاتی مطالعہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا موقف یہ ہے کہ لفظ کو متن سے الگ کر کے کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا اور نہ انفرادی طور پر لفظ کو بحث کا موضوع بنایا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ عین ممکن ہے کہ کسی شاعر کے یہاں الفاظ تو نئے ہوں، لیکن مضمون روایتی اور فرسودہ ہو۔ اس کے علی الرغم کوئی دوسرا شاعر قدیم الفاظ کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی نئے تجربے کا اظہار کر سکتا ہے۔
مغنی صاحب نے جدید غزل کی فرہنگِ شعر کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جدید غزل میں بہت سے الفاظ اور استعارے وہی استعمال ہوئے ہیں جو قدیم شاعری میں مروج تھے، لیکن ان کے استعمال کے پیرایے اور ان کے تلازمات بدل گئے ہیں۔ تاہم انھوں نے ایسے الفاظ کی ایک نامکمل فہرست پیش کی ہے جو قدیم غزل میں مستعمل تھے لیکن جدید غزل نے انھیں متروک قرار دے دیا، مثلاً لب، رخسار، گیسو، زلف، غمزہ، ادا، ناز، حیا، جفا، مسیحا، بیمار، دوا، دامن، گریبان، جنوں، بام، خلوت، محمل، وغیرہ۔ انھوں نے جدید غزل سے ماخوذ الفاظ کی بھی ایک فہرست دی ہے جس میں سے چند الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں، مثلاًسمندر، دریا، ندی، پانی، موج، ریت، ساحل، بادبان، پتوار، بارش، بادل، دشت، جنگل، صحرا، درخت، شجر، سورج، دھوپ، سایہ، دن، شام، رات، شب، تاریکی، اندھیرا، نیند، خواب، سناٹا، ہوا، گرد، تنہائی، آئینہ، عکس، چہرہ، مکان، دیوار، دریچہ، وغیرہ۔
اس کتاب کے دو اور مضامین ’’محمد علوی- گھر اور جدید غزل‘‘، اور’’ آئینہ- اردو غزل کا ایک مقبول استعارہ‘‘ بھی اسلوبیاتی نقطۂ نظر سے نہایت اہم ہیں۔ ان مضامین میں مغنی تبسم نے ’’گھر‘‘ اور ’’آئینہ‘‘ کے رموزو علائم اور ان کے تلازمات کا بڑی ژرف بینی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ یہاں بھی ان کا انداز تجزیاتی اور مشاہداتی ہے نہ کہ تاثراتی اور وجدانی۔ لفظ ’’گھر ‘‘ کی استعاراتی اور علامتی حیثیتوں سے بحث کرتے ہوئے مغنی تبسم لکھتے ہیں کہ یہ ’’ اپنے تکرر کی وجہ سے محمد علوی کی فرہنگِ غزل کا ایک مانوس اور مخصوص جزو بن گیا ہے، اور جس شعر میں بھی استعمال ہوا ہے بالعموم کلیدی لفظ بن کر آیا ہے‘‘( ص۱۰۱)۔ انھوں نے محمد علوی کے کئی اشعار پیش کر کے اپنی یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے۔ کلاسیکی شاعروں نے گھر کی ویرانی اور تباہی کا ذکر اکثر کیا ہے، لیکن ’’گھر‘‘ کا یہ قدیم تلازمہ ہے۔ محمد علوی نے اس لفظ کو عصری مسائل اور عصری حسیت سے جوڑ کر ایک نئے علامتی رنگ میں پیش کیا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے ؎
مجھے یہ دکھ ہے کہ میں نے یہ گھر بنایا کیوں
یہ گھر ہے آگ کی لپٹوں میں اور میں گھر میں ہوں
سہلِ ممتنع کی صفت سے متصف محمد علوی کایہ شعر بھی دیکھیے ؎
ابھی میں گھر کے اندر سورہا تھا
ابھی میں گھر سے بے گھر ہو گیا ہوں
مغنی تبسم لکھتے ہیں کہ ’’یہ شعر احمد آباد کے فرقہ وارانہ فسادات سے ذہنی طو ر پر متاثر ہو کر نہیں، بلکہ اس تجربے سے گذر کر لکھا گیا ہے۔ یہ ایک افتاد اور واردات کا راست اظہار ہے‘‘ (ص۱۱۱)۔
مغنی صاحب اپنے مضمون ’’آئینہ- اردو غزل کا ایک مقبول استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’آئینہ اردو غزل کا ایک سدا بہار استعارہ ہے۔ اس کے تشبیہی اور تلازماتی سوتے ہنوز خشک نہیں ہوئے ہیں ‘‘(ص۱۸۹)۔ اس بیان کے ثبوت میں انھوں نے ولیؔ دکنی سے لے کر پروین شاکر اور کشور ناہید تک بے شمار شعرا کے کلام سے’’آئینہ‘‘ کی مثالیں پیش کی ہیں۔ کسی نے اسے صفائی اور آب کے وصف سے متصف بتایا ہے تو کسی نے دل کو آئینے سے تشبیہ دی ہے، کسی نے آئینے سے آنکھ کی مماثلت ظاہر کی ہے تو کسی نے اسے چشمِ حیراں بتایا ہے۔ مغنی صاحب کا خیال ہے کہ ’’آئینہ غالبؔ کاسب سے مرغوب استعارہ ہے۔ آئینے کے جتنے تلازمے غالبؔ نے باندھے ہیں اور اس استعارے کے ذریعے جو جو معنی آفرینیاں غالبؔ نے کی ہیں اس کی مثال ساری اردو شاعری میں نہیں ملتی‘‘ (ص ۱۹۲)۔ ’’آئینہ ‘‘ جدید اردو شاعری میں بھی جلوہ فگن ہے۔ مغنی صاحب کہتے ہیں کہ ’’آئینے کا جو وصف جدید شاعری کی توجہ کو خاص طور پر کھینچتا ہے وہ اس کی بے رحم حقیقت بیانی ہے‘‘ (ص۱۹۶)۔ مثال کے طور پر کشور ناہید کا یہ شعر دیکھیے ؎
چھپاکے رکھ دیا پھر آگہی کے شیشے کو
اس آئینے میں تو چہرے بگڑتے جاتے تھے
’آواز اور آدمی ‘ میں ایک مضمون بہ عنوان ’’اقبال اور غزل ‘‘ بھی شامل ہے جو اس کتاب کے دیگر مشمولات سے میل نہیں کھاتا۔ چوں کہ یہ کتاب اسلوبیاتی مضامین کے لیے مختص ہے، اس لیے متذکرہ مضمون کو کسی دوسرے مجموعے میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ تاہم مغنی صاحب کا یہ ایک اہم تنقیدی مضمون ہے جس میں انھوں نے اقبال کے ابتدائی دور کے کلام پر داغ کا رنگ دکھلایا ہے اور اس کے بعد کی شاعری پر حالی کے اثرات کی نشان دہی کی ہے۔
بہ حیثیتِ مجموعی یہ کتاب مغنی تبسم کے اسلوبیاتی نظریۂ تنقید اور سائنسی طرزِ نقد کی نہ صرف بہترین عکاسی کرتی ہے، بلکہ ادبی تنقید کی ایک نئی جہت بھی متعین کرتی ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزاروں میں مغنی صاحب کا نام ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔