پروفیسر وہاب اشرفی کا شمار اردو کے ان مقتدر ناقدین میں ہوتا ہے جنھوں نے نئی ادبی تھیوری کے معاملات کی چھان بین نہایت لگن، انہماک اور دقتِ نظر کے ساتھ کی ہے، اور اس کی روشنی کو نئی نسل تک پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ ’مابعد جدیدیت: مضمرات و ممکنات‘(الہ ٰ آباد: کتاب محل، ۲۰۰۲ء)، نہ صرف ما بعد جدیدیت کے حوالے سے نئی تھیوری پران کی ایک مایۂ ناز تصنیف ہے، بلکہ اس موضوع پر آئندہ کام کرنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ بھی ہے۔ مغرب میں مابعد جدیدیت سب سے پہلے آر کی ٹیکچر(عمارت سازی ) میں ایک رجحان کی نمائندگی کے طور پر رائج ہوئی۔ اس کے بعد یہ ادب، آرٹ، اور فلسفے میں بحث کا موضوع بنی۔ اردو کی دانشورانہ فضا میں اس کی گونج بہت بعد میں سنائی دی۔ جس زمانے میں (۱۹۶۰ء کے لگ بھگ) مابعد جدیدیت آر کی ٹیکچر میں فروغ پا رہی تھی، ٹھیک اسی زمانے میں مغرب میں ساختیات کے مباحث بھی جاری تھے۔ بعد میں ساختیات سے پس ساختیاتی فکر کی تشکیل عمل میں آئی اور جامعاتی سطح پر مابعد جدیدیت ایک نئے تنقیدی رویّے کے طور پر رائج ہونے لگی۔
وہاب اشرفی نے ذہنی سطح پرا ن تینوں مکاتبِ فکر کے اثرات قبول کیے ہیں، لیکن مابعد جدیدیت اور اس کے مضمرات و ممکنات پران کی نظر بہت گہری ہے۔ انھوں نے مابعد جدیدیت کو بہ طورِ خاص اپنی فکری جولاں گاہ بنایا ہے جس کا روشن ثبوت ان کی متذکرہ کتاب ہے۔ جس طرح ساختیات کوسمجھے بغیر پس ساختیات کا سمجھنا مشکل ہے، اسی طرح مابعد جدیدیت کی افہام و تفہیم بھی ساختیاتی فکر سے واقفیت کی متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاب اشرفی مابعد جدیدیت کے فکری پس منظر کے طور پر ساختیاتی، پس ساختیاتی اور رد تشکیلی فکر، اور نئی روشنی کے دیگر تصورات کو اکثر زیرِ بحث لاتے ہیں۔ اس طرح وہ نئی تھیوری اور نئے ڈسکورس کے حوالے سے پورے عالمی منظر نامے کی خبر رکھتے ہیں۔
’مابعد جدیدیت: مضمرات و ممکنات‘ گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جنھیں دو زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے زمرے میں چھے ابواب شامل ہیں جن میں مابعد جدیدیت اور متعلقہ تصورات کے نظری پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے زمرے میں پانچ ابواب ہیں جن میں اردو کے تناظر میں مابعد جدید فکر کو جانچا اور پرکھا گیا ہے۔ متذکرہ کتاب کے ان دونوں زمروں میں مابعد جدید نظریۂ تنقید کے علاوہ بعض دیگر معاصر تنقیدی نظریات و تصورات کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے کتاب کے پہلے ہی باب ’’مابعد جدیدیت کے تشکیلی پہلو‘‘ میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ مابعد جدیدیت کا تعلق کسی نہ کسی طرح ساختیات اور پس ساختیات سے رہا ہے۔ چنانچہ انھوں نے فرڈی نینڈڈی سسیور (۱۸۵۷ تا۱۹۱۳ء) کے لسانیاتی تصورات(فلسفۂ لسان) کو بنیاد بنا کر اس باب میں ان دونوں فکری جہات سے سیر حاصل بحث کی ہے۔
کتاب کا دوسرا باب ’’مابعد جدیدیت اور مغربی مفکرین‘‘ ہے جس میں وہاب اشرفی نے رولاں بارت، دریدا، مشل فوکو، لاکاں، لیوتار، لوئی آلتھو سے، اِہاب حسن، جولیاکر سٹیوا، ٹیری انگلیٹن، اور بعض دیگر مفکرین کے حوالوں سے نئی تھیوری کے مباحث کا بڑی فکری آگہی اور آگاہی کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ اس سے ان کے ذہنی ارتفاع کا پتا چلتا ہے۔ اس باب میں اہاب حسن کے حوالے سے انھوں نے مابعد جدیدیت اور جدیدیت کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس میں ضمناً فضیل جعفری اور شمس الرحمن فاروقی کا بھی ذکر آگیا ہے۔ وہاب اشرفی نے ا س بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ فضیل جعفری نے یہ کیسے لکھ دیا کہ ’’وہاب اشرفی نے کبھی بھی مابعد جدیدیت کو ادب سے روشناس کرانے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اس کی تحریروں سے اس طرح کا کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے‘‘(ص۹۳)۔ فضیل جعفری کے اس بیان پر وہاب اشرفی اپنا ردِ عمل یہ لکھ کر ظاہر کرتے ہیں کہ ’’یہ کہنا کہ اہاب حسن نے کبھی بھی مابعد جدیدیت کو ادب سے روشناس کرانے کا دعویٰ نہیں کیا ہے، ایک غلط دعویٰ ہے اور عدم آگہی پر دال ہے۔ میں اس بات کا احسا س دلانا چاہتا ہوں کہ اہاب حسن مابعد جدیدیت (اور جدیدیت) کے حوالے سے بہت کچھ لکھتا رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ وہ غیر ادبی پہلو کو بھی نشان زد کرتا ہے‘‘ (ص۹۹)۔ واضح رہے کہ اہاب حسن نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تصورات پر اپنی کتاب(1987 )The Post-modern Turn ہی میں زیادہ تر لکھا ہے، اور یہ عین ممکن ہے کہ یہ کتاب فضیل جعفری کی نظر سے نہ گذری ہو۔
کتاب کے تیسرے باب میں وہاب اشرفی نے ایڈورڈسعید، ہومی بھابھا اور گائتری کے حوالوں سے نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی صورتِ حال کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔ (وہاب اشرفی نے نہ جانے کیوں گائتری کے ساتھ’’چودھری‘‘ لگا دیا ہے اور ان کا نام ’’گائتری چودھری اسپاوک‘‘ لکھا ہے جب کہ ان کا نام گائتری چکرورتی اسپیوک [Gayatri Chakravorty Spivak] ہے اور عام طور پر وہ گائتری چکرورتی کے نام سے جانی جاتی ہیں )۔ ایڈورڈ سعید کی نوآبادیاتی فکر کا بنیادی ماخذ اس کی کتاب Orientalism ہے جس کا نچوڑ وہاب اشرفی نے یہ پیش کیا ہے کہ حکم راں بیرونی قوتیں اپنی رعایا کی خدمت کی آڑ میں اپنی طاقت کا فروغ چاہتی ہیں، چنانچہ جہاں جہاں بھی نوآبادیاتی سلسلے ہیں وہاں یہ صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ وہاب اشرفی نے ایڈورڈ سعید کی فلسطینیوں کے کاز کی حمایت کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں ایڈورڈ سعید نے فلسطینیوں کے مسائل کو نہ صرف سمجھنے کی کوشش کی بلکہ اس کے صحیح رخ کو عوام اور دنیا کے سامنے رکھنے کا بھی جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ہومی بھابھا نے نوآبادیاتی و ما بعد نوآبادیاتی فکر کے سلسلے میں کوئی بہت خاص کام نہیں کیا، البتہ گائتری چکرورتی کو اس موضوع پران کے مقالے”Can the Subaltem Speak?” کی وجہ سے خاصی شہرت ملی۔ ژاک دریدا کی کتابOf Grammatology کے ترجمے اور اپنے انٹر وڈکشن کی وجہ سے بھی گائتری کافی مشہور ہوئیں۔ عملی مارکسسٹ ہونے کے علاوہ وہ رد تشکیلی مفکر اور تانیثیت پسند بھی ہیں۔ اس باب کے آخر میں وہاب اشرفی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نوآبادیات کی پوری بحث مابعد جدیدیت کے حوالے سے ہی ممکن ہے۔
متذکرہ کتاب کا چوتھا باب ’’مابعد جدیدیت: تاریخیت اور نئی تاریخیت‘‘ ہے۔ تاریخیت اور نوتاریخیت دونوں کا نئی ادبی تھیوری سے گہرا رشتہ ہے۔ وہاب اشرفی نے اس باب میں اس رشتے کو بہ خوبی اجاگر کیا ہے۔ اس ضمن میں باختن، آلتھو سے، ہیڈن وہائٹ اور فوکو کے حوالوں سے انھوں نے بڑی مدلل بحث کی ہے، اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ادب کا تاریخ سے اٹوٹ رشتہ ہے، اس لیے کہ تاریخ محض علم کا کوئی خزانہ نہیں ہے بلکہ اسے ادبی متن کے طور پربھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ادب اور تاریخ میں حدِ فاصل نہیں قائم کی جا سکتی۔
زیرِ مطالعہ کتاب کا پانچواں باب ’’مابعد جدیدیت اور تانیثیت‘‘ ہے۔ اس باب میں وہاب اشرفی نے مغرب میں تانیثی تحریک کے عہد بہ عہد ارتقا پر بڑی غائر نظر ڈالی ہے اور تانیثیت کی مختلف شکلوں، مثلاً ریڈیکل تانیثیت، لبرل تانیثیت، نفسیاتی تانیثیت، سماجی تانیثیت، وغیرہ کے اہم نکات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے معروف تانیثی مفکر اینڈ ریز ہیسین(Andreas Huyssen) کے تانیثی تصورات سے بھی مفصل بحث کی ہے۔ اس باب میں وہاب اشرفی تانیثیت کے بارے میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’بہر طور نسوا نیت کی تحریک کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کم تر سطح کی مخلوق نہیں ہے۔ یوں تو یہ بات مغرب کے حوالے سے کہی جاتی ہے، لیکن مشرق میں بھی اس سے کچھ مختلف صورت نہیں ہے‘‘(ص ۱۴۸)۔
زیرِ نظر کتاب کا چھٹا باب دراصل زمرۂ اول کا تتمہ ہے جس میں شروع کے پانچ ابواب کے مباحث کے’’ نتائج‘‘ پیش کیے گئے ہیں۔ مصنف نے مابعد جدیدیت کے پچھلے مباحث کو اس باب میں اس خوبی کے ساتھ سمیٹا ہے کہ کہیں بھی تکرار کی صورت پیدا ہونے نہیں پائی ہے۔
کتاب کا زمرۂ دوم پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس کے پہلے باب میں اردو مابعد جدیدیت کے اہم نکات بیان کیے گئے ہیں۔ یہ باب خاصا اہم ہے اور اہلِ اردو بالخصوص اردو ناقدین کو دعوتِ فکر دیتا ہے اور ذہن کے بہت سے جالے دور کرتا ہے۔ اس باب میں وہاب اشرفی نے اردو کے ’’معصوم‘‘ نقادوں اور ’’اردو ادب کی ترقی پسندی‘‘کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مابعد جدیدیت کے بارے میں ان معصوم نقادوں کی پھیلائی ہوئی غلط اور بے بنیاد باتوں کا بھی انھوں نے کافی و شافی جواب دیا ہے۔ مابعد جدیدیت اور اس کے تصورات کے دفاع میں وہاب اشرفی کی یہ ایک نہایت سنجیدہ، سلجھی ہوئی اور صاف گوئی پر مبنی تحریر ہے جس کی داد نہ دینا علمی دیانت داری کے منافی ہے۔
زمرۂ دوم کے بعد کے تین ابواب میں ما بعد جدیدیت کے تناظر میں اردو شاعری، اردو فکشن، اور اردو تنقید کا عمیق جائزہ پیش کیا گیا ہے جس سے مابعد جدیدیت کے بہت سے اطلاقی و عملی پہلو اور نمونے بھی سامنے آ گئے ہیں۔ اسی زمرے کے ایک باب میں انھوں نے پس ماندہ اور دلت طبقے کے استحصال اور دلت لٹریچر کے تاریخی پس منظر کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس بات پراطمینان ظاہر کیا ہے کہ اردو کہانیوں اور ناولوں میں مابعد جدید رویّے کے تحت دلتوں اور پس ماندہ لوگوں کی زندگی کی عکاسی پر خاصا زور ملتا ہے۔
مابعد جدیدیت اور اردو شاعری کی بحث اٹھاتے ہوئے وہاب اشرفی نے واضح کر دیا ہے کہ ’’ہر زمانے کے ادب پر مابعد جدیدیت کے نقطۂ نظر سے بحث ہوسکتی ہے، بلکہ ہو گی ہی، ا س لیے کہ اس کے تمام نکات واضح طور پر کسی ایک عہد، زمانے یا رجحان میں قید نہیں، بلکہ یہ زمان و مکان کے بیحد وسیع تناظر میں اپنا کام سرانجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ‘‘(ص۱۷۸)۔ اس ضمن میں انھوں نے بہمنی دور کے ایک ممتاز شاعر فخر دین نظامی (نظامی بیدری) کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کا ذکر کیا ہے کہ جس کا مطالعہ مابعد جدید نقطۂ نظر سے کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس میں ہندو صنمیات کا ذکر کثرت سے ہوا ہے۔ اسی طرح عادل شاہی اور قطب شاہی دور کی قدیم (دکنی) شاعری بھی بہ قولِ وہاب اشرفی، ’’اپنی کلّی تفہیم کا جدید ترین رویّہ چاہتی ہے۔ ‘‘ وہ مصحفی، مرزا شوق، داغ اور بعض دیگر کلاسیکی شعرا کے اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان بزرگ شعرا کا مطالعہ مابعد جدید شعریات کے حوالے سے بہتر طور پر ممکن ہے۔ وہاب اشرفی نے آج کی اردو شاعری میں بھی مابعد جدید عناصر کی نشان دہی کی ہے اور مثال کے طور پر کچھ نظمیں پیش کی ہیں، مثلاً ’’شناختی کارڈ‘‘(حسن نواب)، ’’نارسائی‘‘( کفیل آذر)، ’’ ناموجود‘‘( احمد فراز)، ’’مکالمہ‘‘ (افتخار عارف)، ’’مدافعت‘‘ (ساقی فاروقی)، ’’دلوں کا فلسطین‘‘( اوصاف احمد)، ’’نئے تخلیق کار‘‘ (مخمور سعیدی)، ’’آٹھواں سمندر‘‘( خاطر غزنوی)، ’’اداسی کی ہجو‘‘( شہریار)’’ ایک دعا جو میں بھول گیا تھا‘‘ ( منیر نیازی)، ’’عہدِ وفا‘‘( اختر الایمان )، ’’ناریل کے پیڑ‘‘( بلراج کومل)، وغیرہ۔ اِن نظموں میں انھیں مابعد جدید رویوں اور مابعد جدید ذہنی میلانات کا پتا چلتا ہے۔ آج کل مابعد جدید غزلیں بھی خوب لکھی جا رہی ہیں، چنانچہ وہاب اشرفی نے غزل کے منظر نامے پر بھی مابعد جدید نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالی ہے، اور شہریار، مظہر امام، حسن نعیم، سلطان اختر، حامدی کاشمیری، شجاع خاور، باقر مہدی، حنیف ترین، مظفر حنفی، شہزاد احمد، شمیم حنفی، صبا اکرام، ندا فاضلی، وغیرہ کی غزلوں کا تجزیہ مابعد جدید رویوں کی روشنی میں کیا ہے۔
وہاب اشرفی نے مابعد جدید رویوں کی نشان دہی اردو شاعری کے علاوہ اردو فکشن میں بھی کی ہے اور ایسے بے شمار ناولوں اور افسانوں کا ذکر کیا ہے جن میں مابعد جدید عناصر کی رمق پائی جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت چوں کہ ثقافت پر زیادہ زور صرف کرتی ہے، اس لیے انھوں نے صرف ایسے افسانوں اور ناولوں کا تجزیہ پیش کیا ہے جو اپنی ثقافت کے زائیدہ ہیں یا اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ بعض ناولٹ اور ناول جن کا انھوں نے مابعد جدید نقطۂ نظر سے جائزہ پیش کیا ہے یہ ہیں : ’نمبر دار کا نیلا‘( سید محمد اشرف)، ’شب گزیدہ‘( قاضی عبدالستار)، ’نمک‘( اقبال مجید)، ’بستی‘( انتظار حسین)، ’ دوگز زمین‘ (عبدالصمد)، ’ فائر ایریا‘( الیاس احمد گدی)، ’مکان‘ (پیغام آفاقی)، ’ بولو مت چپ رہو‘ (حسین الحق)، ’ بادل‘ (شفق)، وغیرہ۔ ناولوں کے مابعد جدید تجزیوں کے ساتھ ساتھ وہاب اشرفی اردو افسانوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اردو ناولوں کی طرح افسانے میں بھی کئی آوازیں ایسی ابھری ہیں جو مابعد جدیدیت کے نقطۂ نظر سے خاصی اہم جانی جاتی ہیں۔ ‘‘(ص ۳۳۸)۔ انھوں نے ایسے کئی اردوافسانوں کا ذکر کیا ہے جن میں مابعد جدیدیت کی کوئی نہ کوئی صورت نظر آتی ہے، حتیٰ کہ جدیدیت کے سرخیل شمس الرحمن فاروقی کے افسانے’’سوار‘‘ میں بھی انھوں نے مابعد جدید عنصر ڈھونڈ نکالا ہے۔ فاروقی کے بارے میں وہاب اشرفی کا یہ بیان خاصا چونکا دینے والا ہے:’’ ایسا لگتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی قطعاً اپنے وجود ی افکار سے الگ ہو گئے ہیں اور جدیدیت کی تمام تر شقوں کو فراموش کر دیا ہے۔ وہ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، ’سوار‘ مابعد جدیدیت کے زمرے ہی کی ایک مثالی کتاب ہے جس کی طرف بار بار جوع کرنا ناگزیر ہو گا‘‘( ص ۳۴۸)۔ شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ، وہاب اشرفی کی اس تحریر میں، جن دوسرے افسانہ نگاروں کا ذکر مابعد جدید رویّے کے سلسلے میں آیا ہے ان میں شوکت حیات، شفیع مشہدی، مشتاق احمد نوری، محمود واجد، انیس رفیع، جابر حسین، مشرف عالم ذوقی، عابد سہیل، رضوان احمد، عبدالصمد، ساجد رشید، حسین الحق، شموئل احمد، پیغام آفاقی، سید محمد اشرف، طارق چھتاری کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ مابعد جدیدیت کے حوالے سے ان افسانہ نگاروں کا ذکر کرنے کے بعد وہاب اشرفی نے نیر مسعود کے افسانوی مجموعے ’طاؤسِ چمن کی مینا‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’سوار‘ کی طرح یہ افسانوی مجموعہ بھی ہماری زندگی کے وہ نقوش پیش کررہا ہے جو ہماری ’’ثقافتی میراث‘‘ رہے ہیں۔
وہاب اشرفی نے کتاب کے آخری باب’’ مابعد جدیدیت اور اردو تنقید‘‘ میں ان ناقدین کے نظری اور اطلاقی کاموں کا جائزہ لیا ہے جنھوں نے مابعد جدیدیت کے حوالے سے اردو تنقید کی کئی سمتوں اور جہتوں کو ’’روشن‘‘ کیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام پروفیسر گوپی چند نارنگ کا ہے۔
بلاشبہ گوپی چند نارنگ نے ساختیاتی اور پس ساختیاتی تصورات پر اردو میں بنیادی کا م کیا ہے جس کا اعتراف ہر اس شخص کو ہے جس نے نئی ادبی تھیوری کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا ہے، لیکن ان کی فکری جولاں گاہ یہیں تک محدود نہیں۔ انھوں نے نئی تھیوری اور اس کے اطراف کو اپنی گراں قدر تحریروں سے پُر ثروت بنانے کے علاوہ مابعد جدید فکر سے بھی اپنی گہری آگہی کا ثبوت پیش کیا ہے، اور’ اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘ مرتب کرنے کے علاوہ مابعد جدید رویّے پر کئی اہم مضامین قلم بند کیے ہیں۔ وہاب اشرفی کا یہ قول صداقت پر مبنی ہے کہ ’’گو پی چند نارنگ نے نہایت عالمانہ طریقے پرنہ صرف مغربی مابعد جدیدیت، بلکہ اردو کی بھی مابعد جدیدیت کے سلسلے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اس کی تفہیم میں کوئی دشواری ہونی نہیں چاہیے‘‘( ص ۳۹۸)۔ مابعد جدید تنقید کے حوالے سے وہاب اشرفی نے گوپی چند نارنگ کے بعد وزیر آغا کا ذکر کیا ہے۔ جہاں تک راقم السطور کو علم ہے وزیر آغا کی ساختیاتی، پس ساختیاتی اور رد تشکیلی فکریات سے تو دل چسپی رہی ہے اور انھوں نے رولاں بارت اور دریدا کے حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی ہے، لیکن مابعد جدید رویّے کے تعلق سے ان کی کوئی اہم اور قابلِ ذکر تحریر راقم السطور کی نظر سے نہیں گذری۔ بہر طور، وہاب اشرفی کے خیال میں وہ’’‘ داد‘‘ کے مستحق ہیں کہ بعض مغربی فکری نظام کو انھوں نے اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد نظام صدیقی کا نام آتا ہے جو ’’طویل مضامین ‘‘لکھنے کے ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ ’’زود نویس‘‘ بھی ہیں، لیکن بہ قولِ وہاب اشرفی انھوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے بہت سوچ بچار کے بعد لکھا ہے، کیوں کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ مابعد جدید تنقیدی رویّے کے ضمن میں وہاب اشرفی نے جن دوسرے ناقدین کی نگارشات کا جائزہ لیا ہے ان میں حامدی کاشمیری، ابوالکلام قاسمی، شافع قدوائی، دیویندر اسر، اور عتیق اللہ خاص ہیں۔
پاکستان میں وزیر آغا کے علاوہ قمر جمیل، فہیم اعظمی، اور ضمیر علی بدایونی بھی مابعد جدیدیت کے امکانات سے بحث کرتے رہے ہیں اور اس کے ڈسکورس کو آگے بڑھاتے رہے ہیں، چنانچہ وہاب اشرفی نے اپنے اِس تنقیدی جائزے میں ان تینوں ناقدین کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن ناصر عباس نیر کو وہ نظر انداز کر گئے ہیں جو کافی عرصے سے نئی تھیوری پر مسلسل لکھ رہے ہیں اور مابعد جدید رویّے سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مضامین ’استعارہ‘ (نئی دہلی) میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی کتاب ’جدیدیت سے پس جدیدیت تک‘ ۲۰۰۰ء میں شائع ہو چکی تھی۔
کتاب کے آخر میں شامل ’’آخری بات‘‘ کے عنوان سے اپنی دو صفحوں کی تحریر میں وہاب اشرفی نے کتاب کے جملہ مباحث کا مغز پیش کر دیا ہے اور اپنی بات اس جملے پر ختم کر دی ہے:’’قصہ مختصر کہ مابعد جدیدیت ہمیں اپنی جڑوں کی طرف لے جاتی ہے، ہماری ثقافت کی نیرنگی اور تنوع کے پس منظر میں نیا ادبی منظر نامہ پیش کرتی ہے جن سے کترانا اپنے سے روٹھنے کے مترادف ہے‘‘ (ص ۴۵۰)۔
مابعد جدیدیت بالخصوص اردو کے تناظر میں مابعد جدیدیت کے نئے چیلنج اور نئی ذہنی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے وہاب اشرفی کی اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔