اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی تنقید اب بین العلومی (Interdisciplinary) بن چکی ہے، اور معاصر سماجی علوم سے اس کا رشتہ کافی حد تک استوار ہو چکا ہے۔ تنقید کا اب وہ مفہوم، مقصد اور فنکشن نہیں رہا جوپہلے متصور کیا جاتا تھا۔ تنقیدی رویوں میں اس انقلابی نہج کی تبدیلی کا آغاز گذشتہ صدی کی دوسری دہائی سے ہوتا ہے جب سوویت یونین میں ہیئت پسندی(Formalism)، اور فرانس میں لسانیاتِ جدید (Modern Linguistics) کی داغ بیل پڑتی ہے۔ فرڈی نینڈ ڈی سسیور (م۱۹۱۳ء) لسانیاتِ جدید کا ابو الآبا تسلیم کیا گیا ہے جس کے فلسفۂ لسان نے معاصر تنقیدی رویوّں کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔
ناصر عباس نیرّ کا شمار عہدِ حاضر کے اردو کے ان کشادہ ذہن ناقدین میں ہوتا ہے جو نہ صرف نئی ادبی تھیوری کی آگہی رکھتے ہیں، بلکہ جنھیں نئے تنقیدی رویوّں کے لسانیاتی مضمرات کا بھی احساس ہے۔ اس احساس و آگہی کے بغیر نہ تو ساختیات و پس ساختیات سے انصاف کیا جا سکتا ہے اور نہ نشانیات و اسلوبیات سے، اور نہ ہی کسی اور معاصر تنقیدی رویّے سے۔
گذشتہ صدی کے آخری چند دہوں کے دوران مختلف سائنسی وسماجی علوم میں جو غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے، اس کے اثرات عالمی سطح پر تنقیدی رویوّں پر بھی چیلنج کی صورت میں مرتسم ہوئے ہیں۔ ناصر عباس نیرّ اردو کے تناظر میں ہر نئے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور علمی و فکری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی حالیہ تصنیف ’لسانیات اور تنقید‘ (اسلام آباد: پورب اکادمی، ۲۰۰۹ء) ان کی اس صلاحیت کا بینّ ثبوت ہے۔ اس کتاب میں ۱۴ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ بہ قولِ مصنف’’ یہ مختلف موضوعات پر نظری اور عملی تنقیدی مضامین ہیں، مگر ان میں باطنی سطح پر ایک ہم آہنگی نظر آئے گی، ایک خاص تنقیدی موقف دکھائی دے گا، ادب، تاریخ، زبان، نظریات کو جانچنے کی ایک ’پوزیشن‘ محسوس ہو گی‘‘ (ص۸)۔ اس کتاب کے مضامین کے بارے میں ستیہ پال آنند (جنھوں نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر کیا ہے)، لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے ان مضامین کو اپنی علالت کے باوجود بے حد خوشی سے پڑھا۔ کچھ نکتے تو ایسے تھے جن کے بارے میں میری واقفیت محدود تھی اور ان مضامین نے اس میں اضافہ کیا۔ ان کیRange and reach اتنی وسیع ہے کہ انھیں پڑھنے اور سمجھنے کے لیےEncyclopedic knowledge کی ضرورت ہے‘‘ (ص ۲۲)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ناصر عباس نیرّ کا نئی تنقیدی تھیوری اور اس کے مضمرات کا مطالعہ نہایت وسیع ہے۔ وہ نئے ذہنی و فکری رویوّں کے زیرِ اثر فروغ پانے والے تنقیدی رجحانات و میلانات کے نظری پہلوؤں سے کماحقہ، واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے عملی و اطلاقی نمونے پیش کرنے کی بھی غیر معمولی اہلیت واستعداد رکھتے ہیں۔ ان کا ذہنی افق ساختیاتی، پس ساختیاتی اور رد تشکیلی نظریات سے لے کر مابعد جدیدیت، مظہریت، نوتاریخیت اور تانیثیت، نیز گلوبلا ئزیشن اور مابعد نوآبادیاتی صورتِ حال تک پھیلے ہوئے تمام تصورات اور فکری جہات کا بہ خوبی احاطہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں انھیں ادبی تاریخ، ادبی تحریک، اور تحقیق و تنقید کے نئے پیرا ڈایم کا بھی فہم و ادراک ہے، اور ادب، لسانیات اور تنقید کے باہمی رشتوں پر بھی ان کی نظر بہت گہری ہے۔
متذکرہ کتاب کے ایک سیر حاصل مضمون ’’ساختیات۔ ۔ ۔ حدود اور امتیازات‘‘ میں ناصر عباس نیرّ نے ساختیات کی بنیادی فکر سے بحث کرتے ہوئے ان اعتراضات کا کافی و شافی جواب دیا ہے جو ساختیات پر اکثر کیے جاتے رہے ہیں۔ انھوں نے اس مضمون میں ہمارے یہاں ساختیات کے دیر سے فروغ پانے کی ثقافتی، فکری اور علمی وجوہ بھی بیان کی ہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے یہاں ساختیاتی مباحث اسیّ کی دہائی میں اس وقت شروع ہوئے جب مغرب میں پس ساختیاتی مباحث کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہر چند کہ پس ساختیاتی فکر، ساختیات کے بعد معرضِ وجود میں آئی، تاہم ساختیات کے مباحث ختم نہیں ہوئے۔ ساختیاتی فکر آج بھی پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کے مباحث میں پس منظر کے طور پر جاری وساری ہے۔ ناصر عباس نیرّ کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ’’ جملہ پس ساختیاتی نظریات (جیسے ڈی کنسٹر کشن، نوتاریخیت، نومارکسیت، نو تحلیلِ تفسی، تانیثی تنقید، وغیرہ ہم) پر مدلل گفتگو ساختیات کی کامل تفہیم کے بغیر ممکن نہیں ‘‘ ( ص۶۶)۔ ناصر عباس نے بجا طور پر سِوس ماہرِ لسانیات فرڈی نینڈ ڈی سسیور کو’’ساختیات کا بانی‘‘ قرار دیا ہے۔
اپنے ایک اور مفصل مضمون ’’مابعد جدیدیت کا فکری ارتقا‘‘ میں ناصر عباس نیرّ نے مابعد جدیدیت کے نئے چیلنج سے مدلل انداز میں بحث کی ہے۔ ان کے خیال میں مابعد جدیدیت کاڈسکورس۱۹۶۰ء کی دہائی میں قائم ہوا۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس کا ’’چرچا‘‘ جامعات کی سطح پر ہونے لگا اور زیادہ تر ’’ثقافتی مطالعات‘‘ تک محدود رہا، لیکن ۱۹۸۰ء کی دہائی میں مابعد جدیدیت آرٹ، ادب، فلسفے اور دیگر شعبوں میں زیرِ بحث آنے لگی۔ یہ بات نہایت دل چسپ ہے( جس کی طرف اشارہ ناصر عباس نیرّ نے بھی کیا ہے) کہ مابعد جدیدیت کا ڈسکورس اولاً آرکی ٹیکچر میں رائج ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرے شعبوں میں اس کی پذیرائی ہوئی۔ ناصر عباس نے نہایت پتے کی بات کہی ہے کہ مابعد جدیدیت اور پس ساختیات کے مباحث میں ’’ معاصریت‘‘ یعنی ہم زمانی کا رشتہ ہے، کیوں کہ ان کے بہ قول ’’جب آرکی ٹیکچر میں مابعد جدیدیت موضوعِ بحث بن رہی تھی، تب یورپ کی دانشورانہ فضا پر ساختیات کا غلبہ تھا، اور جب مابعد جدیدیت جامعات میں پہنچ رہی تھی اس وقت پس ساختیات کے مباحث عام ہو رہے تھے( اور پس ساختیات میں دریدا کی ڈی کنسٹرکشن اور میشل فوکو[کے] نظریات بہ طورِ خاص اہم ہیں )‘‘(ص۹۵)۔ اپنے ایک اور مضمون ’’مابعد جدید عہد میں ادب کا کردار‘‘ میں ناصر عباس نیرّ نے مابعد جدیدیت کے فکری مباحث کا رخ ادب کی جانب موڑتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مابعد جدید عہد میں ادب کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ ان کا یہ سوال تمام مابعد جدید ناقدین کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔
ناصر عباس نیرّ نے اس کتاب میں جدیدیت کی فکری اساس کو بھی اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے (دیکھیے مضمون’’ جدیدیت کی فکری اساس‘‘)۔ جدیدیت کے موضوع پر اردو میں اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں جدیدیت پر اردو میں لکھے گئے مقالات ایک ’’عجیب انتشار‘‘ کو پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’جدیدیت کے مرکزی تعقلات کی وضاحت میں خوب آزادی سے کام لیا گیا اور ان تعقلات کی تعبیر میں من مانی کی گئی ہے‘‘( ص۱۵۶)۔ ناصر عباس نے آل احمد سرورؔ، ن۔ م۔ راشد، وزیر آغا، شمیم حنفی اور محمد حسن کی تنقیدی تحریروں سے اقتباسات پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’اردو میں جدیدیت کوAll-inclusive اصطلاح کے طور پر برتا گیا ہے۔ اس ایک اصطلاح سے وہ سارے مطالب وابستہ کر دیے گئے ہیں جو جدیدیت کے ممکنہ اور لغوی معنی ہیں ؛ جو بیک وقت ماڈرینٹی اور ماڈرن ازم کے ہیں اور وہ معانی بھی جو نہ ماڈرنیٹی کے ہیں نہ ماڈرن ازم کے، محض ایجادِ بندہ ہیں ‘‘ (ص ص ۵۷-۱۵۶)۔ ناصرعباس نے بڑی وضاحت اور دلائل کے ساتھ انگریزی اصطلاحات ’’ماڈرنیٹی‘‘ او ر ’’ماڈرن ازم‘‘ کے درمیان فرق کو بتلایا ہے۔ ہمارے اکثر ناقدین انگریزی کی مذکورہ دونوں اصطلاحوں کے لیے لفظ ’’جدیدیت‘‘ ہی استعمال کرتے رہے ہیں، ناصر عباس نے ماڈرینٹی کے لیے ’’جدیدیت اول‘‘ اور ماڈرن ازم کے لیے ’’جدیدیت دوم‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں تاکہ خلطِ مبحث نہ ہونے پائے۔
ناصرعباس نیرّ نے اپنی متذکرہ کتاب کے ایک مضمون ’’اقبال اور جدیدیت‘‘ میں یہ خیال پیش کیا ہے کہ ہر چند کہ اقبال مغربی ادبیات سے پورے طور پر واقف تھے، تاہم ماڈرن ازم، جو اقبال کی معاصر یورپی تحریک تھی، کے براہِ راست اثرات ان کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ اس سلسلے میں ناصر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا اقبال اس تحریک سے آگاہ نہیں تھے، اور اگر آگاہ تھے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی نظرِ انتخاب اس تحریک کو ان کے شعری مقاصد سے ہم آہنگ نہ محسوس کرتی ہو۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات نہیں تھے۔ ان کے خیال کے مطابق اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذواستفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا تھا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈسیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ واضح رہے کہ مغرب میں ماڈرن ازم کی تحریک کا زمانہ ۱۹۱۰ تا۱۹۳۰ء قرار دیا گیا ہے۔ ناصر عباس لکھتے ہیں کہ ’’جن دنوں [مغرب میں ] ماڈرن ازم کی تحریک زور شور سے جاری تھی، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کر چکے تھے، اور ماڈرن ازم مغربی تہذیب ہی کا جمالیاتی مظہر ہے‘‘( ص۱۲۷)۔ اقبال کے ماڈرن ازم سے راست ربط و ضبط نہ رکھنے کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اقبال ’’ ایک مختلف تصورِ کائنات اور مائنڈ سیٹ کے علم بردار تھے‘‘، اسی لیے انھوں نے ماڈرن ازم سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔
اپنی کتاب’لسانیات اور تنقید‘ میں ناصر عباس نیرّ نے فکشن کی تنقید، ادبی تاریخ نویسی میں تنقید کی اہمیت، اور ادب اور ادبی تحریک جیسے مباحث سے بھی اپنی دل چسپی کا اظہار کیا ہے۔ فکشن کی تنقید کے سلسلے میں انھوں نے پرانے اور نئے دونوں نظری مباحث اٹھائے ہیں۔ پرانے نظریے(روسی ہیئت پسندی اور ساختیات کے ارتقا سے قبل کا نظریہ) کی رو سے فکشن کا زندگی سے گہرا اور اٹوٹ رشتہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن نئے نظریے نے، جوروسی ہیئت پسندوں کا نظریہ تھا، ’’فکشن کو زندگی اور خارجی حقیقت سے الگ کر کے دیکھا اور اس امر کو باور کرانے کی سعی کی کہ فکشن کی ایک اپنی حقیقت ہے اور وہ کسی دوسری اور خارجی حقیقت پر منحصر نہیں ‘‘(ص ۲۲۵)۔ ادبی تاریخ نویسی کے سلسلے میں ناصر نے تنقید کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ’’تنقید کو تاریخ سے جدا نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ انھوں نے اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگ ادبی تاریخ نویسی میں تحقیق کو تنقید پر فوقیت دیتے ہیں، مثلاً گیان چند جین اور رشید حسن خاں کا موقف ہے کہ تحقیق سے صرفِ نظر کر کے ادبی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اصلاً ’’محقق‘‘ ہیں۔
ناصر عباس نیرّ کی علمی دل چسپی کا موضوع ’’نوآبادیاتی صورتِ حال‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ اس عنوان سے لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جہاں ایسی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے وہاں ’’دو دنیاؤں ‘‘ کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ ایک دنیا وہ ہوتی ہے جو نو آبادکار کی دنیا کہلاتی ہے، اور دوسری دنیا نو آبادیاتی یا مقامی باشندوں کی دنیا ہوتی ہے۔ یہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے کی ’’ضد‘‘ ہوتی ہیں۔ البرٹ میمی (Albert Memmi) کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے ناصر عباس کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی باشندوں کے لیے دوہی صورتیں ہوتی ہیں، ’’ انجذاب‘‘ یا ’’بغاوت‘‘۔ انجذاب کی صورت میں ’’ نوآبادیاتی باشندہ یا تونو آباد کار جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، اس کی شخصیت، ثقافت، نظامِ فکر، اقداری نظام کو مکمل طور پر جذب کرنے کی سعی کرتا ہے، یا پھر اس کے خلاف بغاوت کرتا اور اپنی باز یافت کے عمل سے گذرتا ہے‘‘(ص۲۸)۔
آج کی دنیا گلوبلا ئزیشن یا عالم کاریت کی زد میں آ کر ایک گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے جس سے چھوٹی اور اقلیتی زبانوں کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ناصر عباس نیرّ نے اپنے مضمون ’’گلوبلایزیشن اور اردو زبان‘‘ میں اسی موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’گلوبلایزیشن ثقافتی ولسانی یکسانیت کی زبردست مداح اور مابعد جدیدیت کے برعکس ثقافتی ولسانی تنوع(Diversity) کی مخالف ہے‘‘(ص ۱۹۱)۔ گلوبلایزیشن نے اردو زبان کو کئی زاویوں سے متاثر کیا ہے جن کا ذکر ان کے اس مضمون میں ملتا ہے۔
متذکرہ کتاب کے آخری دو مضامین جن میں افسانوی تنقید اور تحقیق کے پیرا ڈایم کی بات کہی گئی ہے انتہائی فکر انگیز ہیں اور نہایت توجہ سے پڑھے جانے کے متقاضی ہیں۔ یہ مضامین جامعاتی سطح پر کام کرنے والے تحقیق کاروں کے لیے نئی روشنی فراہم کرتے ہیں اور تحقیقی طریقِ کار کے نئے در وا کرتے ہیں۔
مذکورہ کتاب کا ایک اور مضمون بھی لائقِ توجہ ہے جس میں ناصر عباس نیرّ نے فراقؔ گورکھپوری کے لفظی پیکروں (تمثالوں ) کو اپنے مطالعے اور تجزیے کا موضوع بنایا ہے۔ فراقؔ کی شاعری کی خاطر خواہ تحسین اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم ان کے شعری پیکروں کوAppreciate نہ کریں۔ ہمارے ناقدین فراق کی شاعری پر گفتگو کرتے وقت اکثر اس پہلو سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں، لیکن ناصر عباس نے بڑی دقتِ نظر اور انتہائی معروضیت کے ساتھ ان پیکروں (Images) کا مطالعہ اپنے مضمون ’’کلامِ فراق کے لفظی پیکر‘‘ میں پیش کیا ہے۔ اس مطالعے سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ فراق کے لفظی پیکروں میں ’’ ہندوستانیت کی بوباس‘‘ رچی بسی ہے، اس میں ’’ ایمائیت، تمثیلیت اور استعاراتی پہلو‘‘ پائے جاتے ہیں، نیز یہ شاعر کے ’’جمالیاتی تجربے‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں اور شاعرانہ تخلیقی عمل سے ایک ’’نامیاتی ربط‘‘ رکھتے ہیں۔
ناصر عباس نیر کی زیرِ مطالعہ کتاب ’لسانیات اور تنقید‘ نئے تنقیدی رویوں اور معاصر تنقیدی میلانات و رجحانات پر ایک نہایت قابلِ قدر علمی دستاویز ہے۔ اس کے تمام مقالات ایک عالمانہ شان اور دانشورانہ آن بان رکھتے ہیں، اور مصنف کے گہرے اور وسیع مطالعے کے غماز ہیں۔ ناصر کا طرزِ استدلال سائنسی و معروضی ہے۔ وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے وقت تحقیق اور چھان بین سے بھی کام لیتے ہیں۔ نئی ادبی تھیوری اور اس کے مضمرات پر ان کی نظر بہت گہری اور گرفت کافی مضبوط ہے۔ انھوں نے نئی تھیوری کے تمام معاملات پر انتہائی سنجیدہ غور و فکر سے کام لیا ہے۔
یہ کتاب نئی ادبی تھیوری، نئے ڈسکورس، نئے مباحث اور نئے تنقیدی رویوّں کی افہام و تفہیم کی ایک کامیاب کوشش سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔