دنیا میں انسانی مساوات کے قیام کی خواہش قوموں کے دلوں میں اکثر پیدا ہوتی رہی ہے۔ اسی کی ایک نمایاں شکل عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق تفویض کیے جانے کی جدوجہد ہے جس نے مغرب میں انیسویں صدی کے دوران ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ حقوقِ نسواں کی اس تحریک کو ’تانیثیت‘ (Feminism) کا نام دیا گیا۔ یہ تحریک ان عورتوں نے شروع کی تھی جو سیاسی، سماجی اور معاشی نا برابری کے زخم کو خود سہہ چکی تھیں۔ بعد میں عورتیں اور مرد دونوں اس تحریک میں پیش پیش رہے جنھیں ’تانیثیت پسند‘ (Feminists)کہا گیا۔ انھی میں کچھ ایسے مفکرین بھی پیدا ہوئے جنھوں نے تانیثیت کے نظری ڈسکورس میں حصہ لیا، اور فلسفیانہ طور پر اس کے اِشوز اور مسائل سے بحث کی جس سے تانیثی تھیوری کی تشکیل عمل میں آئی۔
(۲)
کہا جاتا ہے کہ مرد کی تخلیق عورت کی تخلیق سے پہلے عمل میں آئی، لیکن ’’خلد‘‘ سے نکلنے کے بعد مرد اور عورت دونوں روئے زمین پر ازل سے ایک ہی ساتھ رہتے آئے ہیں۔ اس قربت، موانست اور رفاقت کی بنیادی وجہ ان دونوں کے درمیان حیاتیاتی (بائیلوجیکل) تفریق تھی۔ اسی تفریق کی بنا پر عورت قرن ہا قرن سے جنسی و تولیدی عمل سے گذرتی رہی ہے۔ مرد تولیدی عمل کا سبب تو بنتا ہے، لیکن اسے شئیر نہیں کرتا۔ اس عمل کا سارا بار عورت ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جسمانی اعتبار سے عورت، بہ مقابلۂ مرد، کم زور اور نازک و ناتواں سمجھی جاتی ہے، اور جذباتی سطح پر وہ زیادہ حساس اور نم دیدہ (Prone to tears)واقع ہوئی ہے۔ (۱) عورت کو ’’ناقص العقل‘‘ بھی کہا گیا ہے(اگر چہ سائنس اسے ثابت نہیں کر سکی ہے)۔ اس کے علی الرغم مرد عقل و فراست، ذہانت اور تفکر پسندی کی صفت سے متصف قرار دیا گیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سماجی و معاشرتی سطح پر عورت کے ساتھ بے شمار زیادتیاں اور نا انصافیاں ہوتی رہی ہیں۔ خانگی تشدد، زد و کوب، جنسی استحصال، ریپ(اکثر ریپ کے بعد قتل )، اور بعض ملکوں میں جہیزی اموات چند ایسے واقعات ہیں جو عورت کے ساتھ آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ عورتوں کو سماجی نا برابری اور جینڈر تفریق (سماجی اور تہذیبی سطح پر جنسی تفریق)کے کرب سے بھی گذر نا پڑتا ہے۔ سماجی و سیاسی سطح پر بعض حقوق جو مردوں کو حاصل ہیں وہ عورتوں کو حاصل نہیں، مثلاً کئی ملکوں میں آج بھی عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ادب اور آرٹ میں عورتوں کو ’’سامان‘‘ یا کموڈٹی، بلکہ سیکس کموڈٹی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اجنتا، ایلورا اور کھجوراہو کے غاروں کے سنگ تراشی کے نمونے ہوں یا دنیا کے عظیم مصوروں کے فنی شاہکار یا عالمی ادب کے شعری متون، ہر سطح پر عورت کے جنسی پیکر و تمثال(Images) اور جنسی حوالے موجود ہیں جو احساسِ حسن و جمال پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی جذبے کو بھی متحرک اور بیدار کر دیتے ہیں۔ سنسکرت کی ’’شرنگاررس‘‘کی شاعری کا تو مقصد ہی یہی ہے کہ یہ فرد کے جنسی جذبے کو بیدار کرتی ہے۔ (۲)
اقبالؔ نے فنونِ لطیفہ کی اس صورتِ حال پر یوں اظہارِ افسوس کیا ہے ؎
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
سماج نے عورت کو بیوی کا درجہ تو دیا، لیکن اسی سماج نے ایسے حالات پیدا کیے کہ عورت کو ’’زنِ بازاری ‘‘ کا کردار بھی ادا کرنا پڑا، اور ’’داشتہ‘‘ بن کر بھی زندگی گزارنی پڑی جس سے اس کی معاشی بہتری تو ہوئی، ساتھ ہی اسے (اس کے خیال میں ) بیوی پر برتری بھی حاصل ہوئی۔ کسی نے مزاحیہ طرزِ اظہار کا سہارا لے کر اسی بات کو یوں کہا ہے، ع
زوجہ می آید بہ رکشہ، داشۃ آید بہ کار (۳)
کوئی شخص ’’کار‘‘ اسی وقت خرید سکتا ہے جب کہ اس کے پاس وافر رقم موجود ہو، اس سے کوئی بحث نہیں کہ وہ رقم اس کے پاس آئی کہاں سے ! جسم فروشی عورت کا ایک نہایت گھناؤنا روپ ہے، یہ اس کا اصلی روپ نہیں۔
(۳)
مغرب میں تانیثی جدوجہد کا آغاز اس وقت ہوا جب حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے بعض عورتوں نے انفرادی طور پر آواز بلند کی۔ اس ضمن میں برطانیہ کی میری وول اسٹون کریفٹ (Mary Wollstonecraft)(۴) کا نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے جس نے اٹھارویں صدی کے نصفِ دوم میں سماجی سطح پر عورتوں اور مردوں کے درمیان نا برابری (جینڈر تفریق) کے خلاف نہایت پر زور انداز میں آواز اٹھائی اور حقوقِ نسواں کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کا موقف تھا کہ عورتیں طبعاً مردوں سے ’’کم تر‘‘ (Inferior)نہیں ہوتیں، لیکن وہ کم تر اس لیے سمجھی جاتی ہیں کہ ان میں تعلیم کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ عورتوں اور مردوں دونوں کو Rational beingsکے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ نا برابری کے خاتمے کے لیے وہ ایک ایسے سماجی نظم و ضبط (Social order) کی ضرورت کو محسوس کرتی تھی جو Reasonپر مبنی ہو۔ حقوقِ نسواں سے متعلق اس کی مشہور کتاب A Vindication of the Rights of Woman(1792) تانیثیت پسندوں کو آج بھی دعوتِ فکر دیتی ہے۔
میری وول اسٹون کریفٹ کے بعد حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے منظم طور پر جدو جہد کا آغاز ہوا جس نے مغرب میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک میں اولاً عورتیں ہی پیش پیش رہیں، لیکن بعد میں مرد بھی اس میں شامل ہو گئے۔
تانیثی تحریک کا بنیادی مقصد عورتوں کو مردوں کے مساوی سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی حقوق دلانا تھا اور ترقی کے میدان میں انھیں برابر کے مواقع فراہم کرانا تھا۔ تانیثیت، اپنے عام مفہوم میں، صرف عورتوں ہی کے اِشوز کی ذمہ دار ہے اور جینڈر کے تعلق سے نا برابری کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔ جیسے جیسے تانیثی تحریک فروغ پاتی گئی، اس کے نظر ی اور فلسفیانہ ڈسکورس میں بھی تبدیلی آتی گئی۔
تانیثی تھیوری ایک ایسے نظری ڈسکورس کا نام ہے جس میں فلسفیانہ طور پر نسائی اِشوز اور مسائل سے بحث کی جاتی ہے۔ یہ تھیوری ان سماجی و سیاسی تحریکات سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے جو عورتوں کے حقوق کی پاس داری کرتی ہیں خواہ ان کا تعلق ازدواجی زندگی کے مسائل سے ہو یا سیاسی و معاشی معاملات سے، یا محض سماجی نابرابری اور جینڈر تفریق سے۔ (۵)
تانیثیت پسندوں (Feminists)نے عام زندگی میں عورت کی تذلیل و خواری، خانگی سطح پر اس کے ساتھ پیش آنے والے تشدد کے واقعات (Domestic violence)، شوہر کے ذریعہ اسے زد و کوب کیے جانے (Wife-beating) کی وارداتوں، نیز اس کے ساتھ جنسی زور زبردستی، جنسی استحصال اور آبرو ریزی کے خلاف بھی احتجاج کیا ہے۔ تانیثیت پسند معاشی سطح پر بھی عورتوں کے حقوق کی پاس داری کرتے ہیں اور ان کے لیے بہتر ورکنگ حالات و سہولیات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ عورتوں کے لیے کیریر کے مساوی مواقع اور مساوی مشاہرے کی حمایت کرنا بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ (۶)
(۴)
تانیثی مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب میں تانیثیت کی تحریک نے اپنی ابتدا(انیسویں صدی) سے زمانۂ حال تک تین ارتقائی مراحل طے کیے جنھیں ’’لہروں ‘‘ (Waves)سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اجتماعی طور پر تانیثیت کی لہر اٹھنے سے پہلے حقوقِ نسواں کی تمام تر جدو جہد انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اس وقت تک ’تانیثیت‘(Feminism) کی اصطلاح بھی رائج نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان عورتوں نے، جنھوں نے حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی تھی، خود کو ’تانیثیت پسند‘(Feminist)کہا تھا۔ یہ دونوں اصطلاحیں تانیثی ادب میں کافی بعد میں مستعمل ہوئیں۔
پہلی تانیثی لہر برطانیہ میں انیسویں صدی کے وسط میں ابھری جب لندن کی متوسط طبقے کی خواتین نے بار براباڈ یکون (Barbra Bodichon)اور بیسی رینر پارکس (Bessie Rayner Parkes)کی سربراہی میں سماجی اور قانونی نا برابری، اور بے انصافی کے خلاف منظم طور پر آواز اٹھائی اور متحد ہو کر حقوقِ نسواں کا پرچم بلند کیا۔ اسی وقت سے تانیثی جدوجہد نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ یہ اس تحریک کی ’’پہلی لہر‘‘ تھی۔ اس لہر کے دوران تانیثیت پسندوں نے جن اِشوز پر اپنی توجہ مرتکز کی ان میں عورتوں کی تعلیم، ان کے لیے روز گار کے مواقع اور شادی سے متعلق قوانین تھے۔ ان تینوں میدانوں میں انھیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل گئے، طب (Medicine) اور دوسرے پیشوں میں انھیں روزگار کے مواقع حاصل ہونے لگے، اور ۱۸۷۰ء کے ایکٹ (Married Women’s Property Act of 1870)کی رو سے شادی شدہ عورتوں کو حقِ ملکیت بھی حاصل ہو گیا۔ تانیثیت کی یہ پہلی لہر پہلی عالمی جنگ (۱۹۱۴تا۱۹۱۸ء) تک جاری رہی۔
تانیثی تحریک کی ’’دوسری لہر‘‘ نہ صرف برطانیہ، بلکہ دوسرے یورپی ممالک اور امریکہ تک پھیل گئی۔ بیسویں صدی کے دوران ان تمام ممالک میں عورتوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے آواز اٹھائی گئی اور زبردست جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا۔ نسلی بنیادوں پر تفریق کے خلاف بھی جدوجہد جاری رہی۔ لسبین (Lesbian)اِشوز اور اسقاطِ حمل کے حق کو بھی حقوقِ نسواں کی تحریک میں شامل کر لیا گیا۔ بعض جنسی و نسائی مسائل پر عدم اتفاقِ رائے کی وجہ سے دوسری تانیثی لہر تنازعات کا شکار ہو کر ۱۹۹۰ء کے آس پاس ختم ہو گئی۔
تانیثی تحریک کی ’’تیسری لہر‘‘ بیسویں صدی کے آخری دہے سے ذرا قبل نمودار ہوئی۔ اسے ’جدید تانیثیت‘ (Modern Feminism) بھی کہتے ہیں۔ یہ لہر دوسری تانیثی لہر کی ناکامی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے تناظر میں معرضِ وجود میں آئی۔ اس تحریک سے نوجوان خواتین وابستہ ہوئیں جن کی عمریں ۳۰، ۳۵، یا ۴۰ سال سے زیادہ نہ تھیں۔ اس تحریک سے عورت کی ایک نئی شبیہ ابھر کر سامنے آئی۔ اب عورت ادعائیت کی حامل (Assertive)ہے، طاقت ور ہے اور اپنی جنسیت (Sexuality) پر اسے خود اختیار ہے۔ (۷) تیسری تانیثی لہر کے دوران اس بات کا بھی احساس پیدا ہوا کہ عورت کا تعلق مختلف رنگ، نسل، طبقے، قومیت، مذہب، اور تہذیبی و ثقافتی بیک گراؤنڈ سے ہوسکتا ہے۔ (۸) یہ تحریک یا لہر عورت کی معاشی، سیاسی اور سماجی مختاریت (Empowerment)کے ساتھ ساتھ اس کی انفرادی مختاریت پربھی اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس تحریک کے دوران عورت کا تشخص (Identity)ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ اکثر عورتیں متضاد تشخصات کی حامل ہوتی ہیں۔ بعض خواتین کیریر وومَن، بیوی، اور نیک لڑکی کا کردار نبھاتی ہیں تو بعض ٹام بوائے، لسبین اور سیکس سمبل کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ یہ تحریک عورت کو اپنا تشخص یا پہچان خود قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
(۵)
تانیثی تھیوری درحقیقت ان فلسفوں سے نمو پذیر ہوتی ہے جو تانیثیت کے مختلف نظری ڈسکورس کے پسِ پردہ ہیں، جیسے کہ سوشلسٹ فلسفۂ حیات جو ’سوشلسٹ تانیثیت‘ (جسے ’مارکسی تانیثیت‘ بھی کہتے ہیں ) کی روح ہے۔ اس فلسفے کی رو سے عورتوں کو برابری کا درجہ صرف اسی وقت مل سکتا ہے جب سماج میں بہت بڑے پیمانے پرکوئی تبدیلی واقع ہو۔ سوشلسٹ تانیثیت پسندوں کا کہنا ہے کہ نا برابری سرمایہ دارانہ سماج (Capitalist Society) میں بری طرح جڑ پکڑ چکی ہے جہاں قوت (Power)اور سرمایے (Capital)کی تقسیم غیر مساویانہ ہے۔ صرف یہی کافی نہیں کہ عورتیں انفرادی طور پر جدوجہد کر کے سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کریں، بلکہ سماج میں اجتماعی تبدیلی (Collective Change)کی اشد ضرورت ہے تاکہ عورت اور مرد دونوں کو برابری کا درجہ حاصل ہوسکے۔ سوشلسٹ تانیثیت اسی لیے پدری سماجی نظام (Patriarchy)کی بھی مخالف ہے کہ یہ مردانہ اقتدار و قوت کی علامت ہے۔
’ریڈیکل تانیثیت‘سوشلسٹ تانیثی تھیوری سے کافی حد تک متاثر ہے۔ تانیثی مفکر ین جو ریڈیکل نظریات کے حامل ہیں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی بڑی ڈرامائی سماجی تبدیلی کے بغیر عورتوں کو برابری کا درجہ نہیں مل سکتا، نیز عورتوں کی پستی (Oppression)کی بنیادی وجہ پدری نظام ہے جس میں اقتدار مرد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عورت مجبورِ محض تصور کی جاتی ہے۔ مرد کا عورت پر تفوق قوت (Power)کے بل بوتے پر ہے۔ اسی لیے وہ آئے دن مردوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ ریڈیکل تانیثیت پسندوں کا سارا ارتکاز اس ظلم و ستم پر ہے جو پدری نظام میں مرد عورت پر ڈھاتا ہے اور اپنے جابرانہ رویے سے اسے سماجی سطح پر زیر کر لیتا ہے اور پست (Oppressed)بنا دیتا ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب، گوری ہو یا کالی، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ۔ اسی لیے ریڈیکل تانیثیت پدری نظام اور مردانہ اقتدار کے سخت خلاف ہے۔
سوشلسٹ تانیثی فکر کے علی الرغم ’لبرل تانیثیت‘ نا برابری کے خاتمے کے لیے اجتماعی سماجی تبدیلی کے بجائے انفرادی کوشش و عمل (Individualistic actions)کو ضروری قرار دیتی ہے۔ اس فلسفے کی رو سے عورتیں انفرادی طور پر کام اور جدو جہد کر کے سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتی ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سے مغربی ملکوں میں عورتیں آج ان عہدوں پر فائز ہیں جو پہلے مردوں کی دسترس میں تھے۔ ہر چند کہ لبرل تانیثیت سیاسی و قانونی اصلاحات کے ذریعے مرد و زن میں برابری کی خواہاں ہے، تاہم اس کا ارتکاز عورتوں کی اپنی صلاحیتوں اور کوششوں پر ہے جنھیں بروئے عمل لا کر وہ سماج میں برابری کا درجہ حاصل کر سکتی ہیں۔
بعض یورپی ممالک (بالخصوص برطانیہ اور فرانس) نے جب تیسری دنیا کے ملکوں پر اپنا تسلط قائم کیا تو یہ ممالک ان کی کالونیاں (نو آباد بستیاں ) بن کر رہ گئے جس کی وجہ سے وہاں کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال بالکل بدل گئی اور تانیثیت کی ایک نئی شکل ابھر کر سامنے آئی جسے ’مابعد نو آبادیاتی تانیثیت‘ کا نام دیا گیا۔ اسے تیسری دنیا کی تانیثیت یا تھرڈ ورلڈ تانیثیت بھی کہا گیا جس کے مفکرین کا خیال ہے کہ مغربی نوآباد کاروں نے تھرڈ ورلڈ ممالک کو سماجی و معاشی پستی کے غار میں دھکیل دیا ہے جس کی وجہ سے مابعد نوآبادیاتی معاشرے (Post-colonial society)میں عورت کی حیثیت فرد تر اور پست ہو کر رہ گئی ہے۔ مابعد نوآبادیاتی تانیثیت پسندوں نے مغربی نو آباد کاروں کی اندھی تقلید اور ان کی تہذیب اور طرزِ بود و باش کی بے جا نقالی اور تھرڈ ورلڈ ممالک کی عورتوں میں بڑھتی ہوئی مغربیت اور ماڈرنایزیشن کے مغربی معیارات پر بھی انگلی اٹھائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورتوں کا معیارِ زندگی محض مغربی تہذیب کی نقالی کر کے بلند نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسے اپنے اپنے ممالک کی سماجی، ثقافتی اور تہذیبی قدروں سے ہم آہنگ کر کے بھی اونچا اٹھایا جا سکتا ہے۔
(۶)
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ’تانیثیت‘ اب صرف ایک مغربی اصطلاح نہیں رہی۔ تیسری دنیا کے ملکوں (بہ شمولِ ایشیائی ممالک) میں تانیثیت کا تصور اب بہت عام ہو چکا ہے۔ ہندوستان میں، جہاں مسلمانوں کا کثیر اجتماع پایا جاتا ہے ’اسلامی تانیثیت‘ (Islamic Feminism)کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے۔ یہاں کی پڑھی لکھی مسلم خواتین اب نہایت سنجیدگی سے اس بات کو سوچنے لگی ہیں کہ انھیں سماج میں مردوں کے مساوی حقوق ملنے چاہییں۔ عذرا بانو نے، جو لکھنؤ کے ناری شکشا نکیتن میں اقتصادیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، اس موضوع پر نہایت جرأت مندی سے قلم اٹھایا ہے۔ وہ لکھتی ہیں :
’’جنسی مساوات ایک طرح کی جنگ نہیں مردوں سے، بلکہ ایک ایسی روایت کو توڑنا ہے جو ہمارے سماج میں برسوں سے بودی گئی ہے۔ سماج کو چاہیے کہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور قبول کریں کہ عورت اور مرد زندگی کے ہم سفر ہیں، اور سماج کی پہچان اور ترقی صرف مردوں سے نہیں، بلکہ عورتوں سے بھی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ آج کی عورت نے برابری کی آواز اٹھانے کے حق کو طلب کیا ہے۔ یہ برابری تعلیم، نوکری، سیاست، اور جائداد وغیرہ کے لیے ہے۔ یہ نعرے عورتوں کو آگے لانے کے لیے ہیں جوان کی شخصیت اور خیالات میں تبدیلی لانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ‘‘۔ (۹)
لیکن اِسی ملک کے بعض قدامت پسند آج بھی تانیثیت کو ایک ’’غیر اسلامی تصور‘‘ قرار دیتے ہیں، اور اس پر گفتگو کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ اگر معروف اسلامی اسکالر اصغر علی انجینئر سے، جو ان دنوں ممبئی کے ایک اسلامی تحقیقی ادارے ’انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز‘ کے سربراہ ہیں، یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا واقعی اسلامی نقطۂ نظر سے اس اصطلاح (تانیثیت) کا استعمال قابلِ اعتراض ہے؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ ’ایسا قطعی نہیں ہے‘۔ اصغر علی انجینئر اپنے ایک مضمون ’’اسلامی تانیثیت‘‘ میں اس خیال کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
’’واقعہ یہ ہے کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے باقاعدہ طور پر عورت کو اس وقت اختیارات دیے جب وہ مکمل طور پر مرد کی تابع دار سمجھی جاتی تھی یعنی اس زمانے میں جب عورت کے خود مختار ہونے اور پر وقار طریقے سے مساوات کی حق دار ہونے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ (۱۰)
تانیثیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے وہ اپنے متذکرہ مضمون میں لکھتے ہیں :
’’دیکھنا یہ ہے کہ تانیثیت یا Feminismسے ہم کیا مراد لیتے ہیں۔ اور اس کا جواب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ یہ عورت کو طاقت ور بنانے کی ایک تحریک ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے بارے میں یہ سوچنے کی کہ اسے بھی مکمل انسان کا درجہ دیا جائے، نہ کہ اسے بقول Simone de Beauvoire ایک دوسری جنس (Second Sex)سمجھ لیا جائے‘‘۔ (۱۱)
اصغر علی انجینئر کا یہ خیال ہے کہ قرآن نے عورت کو جو اختیار اور مرد کے مساوی جو درجہ دیا تھا، اس پر اسلامی معاشرے میں عمل درآمد نہیں ہوا اور وہاں مردانہ برتری ہی کی صورت قائم رہی۔ ان کے قول کے مطابق ان معاشروں میں ’’قرآنی فرامین کو یا تو نظر انداز کر دیا گیا یا ان کی وہ تعبیرات پیش کی گئیں جو مردانہ اقتدار کے موافق تھیں ‘‘۔ چنانچہ انجینئر صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ قرآن کی اصل روح کو سمجھا جائے‘‘۔ (۱۲) انھوں نے ایک ایسی ’’مہم‘‘ چھیڑنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے جس کے ذریعے مسلم خواتین اپنے ’’قرآنی حقوق‘‘ سے آگاہ ہوسکیں۔ اسلامی تانیثیت سے ان کی مراد گویا یہی ہے۔
اصغر علی انجینئر نے اسلامی تانیثیت اور مغربی تانیثیت کے فرق کو بھی واضح کر دیا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’’اسلامی تانیثیت کی بنیاد ان اقدار پراستوار ہے جن کے بارے میں کسی بھی سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ‘‘۔ (۱۳) مسلم خواتین کی آزادی کے بارے میں انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’’ آزادی کی کچھ اسلامی ذمہ داری بھی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ مغرب میں آزادیِ نسواں کے دوسرے معنی لیے جاتے ہیں۔ وہاں آزادی سے مراد جنسی آزادی یا جنسی بے راہ روی بھی ہے جس کے ’’مبتذل‘‘ شکل اختیار کر لینے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علی الرغم اسلام میں جنسی رویے کے سلسلے میں سخت قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کی رو سے مرد اور عورت دونوں کو جنسی لطف اندوزی کا حق حاصل ہے، لیکن صرف ازدواج کے دائرے میں رہ کر۔ چنانچہ جیسا کہ اصغر علی انجینئر نے بھی کہا ہے کہ ’’ازدواج کی حدود سے باہر کسی بھی طرح کی جنسی آزادی کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے‘‘۔ (۱۴)
اصغر علی انجینئرنے مغربی تانیثیت کے اُس رخ کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جہاں عورت کی جنسیت کا استحصال تجارتی اور کاروباری مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے ’’یہ عورت کی عزت اور وقار کی توہین ہے۔ ۔ ۔ یہ اسلامی تانیثیت کے سراسر منافی ہے۔ ‘‘(۱۵)
اس بحث و تمحیص سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’اسلامی تانیثیت‘‘ کوئی قابلِ اعتراض یا ممنوع شے نہیں ہے، بلکہ یہ مسلم خواتین کے حقوق کی پاس داری ہے تاکہ وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشرے میں عزت و وقار کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں، لیکن اسلامی فریم ورک میں رہ کر۔ (۱۶)
واضح رہے کہ کوئی بھی اسلامی تانیثیت پسند(Islamic Feminist)قرآن و حدیث اور شریعت کے احکامات سے صرفِ نظر کر کے حقوقِ نسواں یا آزادیِ نسواں کی پاس داری و حمایت کا اعلان نہیں کر سکتا /کر سکتی، اور نہ ہی کوئی اسلامی تانیثی تھیوری اسلامی نظری ڈسکورس کو بنیاد بنائے بغیر تشکیل دی جا سکتی ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہر چند کہ اسلامی تانیثیت اور مغربی تانیثیت میں تفاوت موجود ہے، تاہم مغربی تانیثیت کے بعض اثرات عہدِ حاضر کی اسلامی دنیا میں صاف نظر آتے ہیں۔ یہ مغرب کی ’لبرل تانیثیت‘ ہی کا اثر ہے کہ کئی مسلم خواتین مسلم اکثریتی ممالک کی سربراہ بنیں، مثلاً انڈونیشیا میں میگاوتی سوکارنوپتری صدر کے عہدے پر، پاکستان میں بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم کے عہدے پر، بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد وزیرِ اعظم کے عہدوں پر، ٹرکی میں تانسو چیلر (Tansu Ciller)صدر کے عہدے پر، اور کرغستان میں روزہ عوتن بیے وا (Roza Otunbayeva) صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ شیخ حسینہ واجد آج بھی بنگلہ دیش کی وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
———-
تانیثیت کے ڈسکورس کا نئی ادبی تھیوری سے گہرا تعلق ہے۔ تانیثیت نے تنقیدی تھیوری کو بھی گہرے طور پر متاثر کیا ہے، بلکہ اس نے اپنی ایک علاحدہ تھیوری، ’’تانیثی تنقیدی تھیوری‘‘ بھی تشکیل دے دی ہے۔ ’گائینوکریٹی سزم‘ (Gynocriticism) جسے ہم ’نسائی تنقید‘ کہہ سکتے ہیں، تانیثی تنقید ہی کا ایک حصہ ہے۔ اردو کے تناظر میں تانیثی تنقید کے عملی و اطلاقی پہلو اور نمونے بھی سامنے آنے لگے ہیں، لیکن یہ مباحث خاصی توجہ کے متقاضی ہیں جن کی اس مختصر سے مقالے میں گنجائش نہیں نکل سکتی۔
حواشی
۱- بعض طبی ماہرین کا خیال ہے کہ عورتیں اپنی ہارمون کیمسٹری کی وجہ سے زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔
۲- ابھینو گپت نے ’شرنگاررس‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ ’’جذبہ‘‘ ہے جو ’’فرد کی جنس کو بیدار کرتا ہے ‘‘۔ (بہ حوالہ قاضی عبدالستار، ’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘، [علی گڑھ: ادبی پبلی کیشنز، آنند بھون، ۱۹۷۷ء]، ص۴۰۔ )
۳- کسی منچلے شاعر نے فارسی کی مشہور ضرب المثل ’’داشتہ آید بہ کار‘‘ کو مزاحیہ انداز میں مصرعے کی شکل دے کر اس میں ذو معنیت پیدا کر دی ہے۔
۴- میری وول اسٹون کریفٹ (۱۷۵۹ تا۱۷۹۷ء) اٹھارویں صدی کی، برطانیہ کی معروف دانشور، فلسفی اور ناول نگار گذری ہے جس نے حقوقِ نسواں کی حمایت و پاس داری کے لیے زبردست جدو جہد کی۔ افسوس کہ صرف ۳۸سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
۵- ان مباحث کے لیے دیکھیے ڈرو سیلا کارنیل (Drucilla Cornell)کی کتاب
At the Heart of Freedom: Feminism, Sex and Equality. (پرنسٹن، نیوجرسی: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، ۱۹۹۸ء)۔
۶- مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے این سی۔ ہرمن اور ایبی گیل جے۔ اسٹیوارٹ (Ann C.Hermann and Abigail J. Stewart)کی مرتبہ کتاب Theorizing Feminism (بولڈر :ویسٹ وئیوپریس، ۲۰۰۱ء)۔
۷- دیکھیے لارا برونیل (Laura Brunell)کا مضمون “Feminism Re-imagined :The Third Wave”مشمولہ Encyclopedia Britannica Book of the Year (شکاگو : انسائی کلوپیڈیا برٹینیکا Inc.، ۲۰۰۸ء)۔
۸- روز میری ٹونگ (Rosemarie Tong)، Feminist Thought: A More Comprehensive Introduction، تیسرا ایڈیشن (بولڈر:ویسٹ وئیوپریس، ۲۰۰۹ء)، ص۲۸۴۔
۹- عذرا بانو، ’’صنفِ نازک تو بالاتر ہے‘‘، مطبوعہ روزنامہ ’انقلاب‘، ممبئی (علی گڑھ)، جلد ۷۴، شمارہ نمبر ۳۲۳(مورخہ ۲۶؍ نومبر۲۰۱۱ء)، ص۶۔
۱۰- دیکھیے اصغر علی انجینئر کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ مضمون ’’اسلامی تانیثیت‘‘(ترجمہ : اطہر پرویز)، مطبوعہ سہ ماہی ’اردو ادب‘ (نئی دہلی)، کتاب ۳۵۲ (اپریل، مئی، جون۲۰۱۱ء)، ص ۹۸۔
۱۱- ایضاً۔
۱۲- ایضاً، ص۹۹۔
۱۳- ایضاً۔
۱۴- ایضاً، ص ۱۰۰۔
۱۵- ایضاً، ص۱۰۱۔
۱۶- مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے اصغر علی انجینئر کی کتاب Rights of Women in Islam (اسٹرلنگ پبلشر ز، ۱۹۹۲ء)۔