’’عزیزان علی گڑھ‘‘ رشید احمد صدیقی کی آخری تحریر ہے جس کا ڈول تو ۱۹۶۷ء میں پڑا تھا، لیکن جسے وہ اپنے انتقال (۱۵؍ جنوری ۱۹۷۷ء) سے ایک دن پہلے تک درست فرماتے رہے تھے لیکن صدافسوس کہ ان کی شدید خواہش اور کوشش کے باوجود یہ تحریر ان کی زندگی میں کتابی صورت میں شائع نہ ہوسکی۔ جب بھی اس کے چھپنے کی امید پیدا ہوتی معاملہ کسی نہ کسی وجہ سے کھٹائی میں پڑ جاتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ تحریر اُن کی مرضی سے ’’قومی آواز‘‘(لکھنؤ) کے ہفتہ وار ضمیمے میں ۲۶قسطوں میں شائع ہوئی۔ اس کے کچھ اجزاء اُن کی عنایت سے صحابہ ’فکر و نظر‘ (علی گڑھ ملسم یونیورسٹی) میں بھی چھپے ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کی شان نزول کے بارے میں رشید صاحب یوں رقم طراز ہیں :
’’۱۹۶۷ء میں پروفیسر ڈاکٹر عبد العلیم صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہو کر تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ موصوف اس ادارے کی صد سالہ جوبلی منانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسکیم کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ کچھ کام بھی ہونے لگا تھا لیکن کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ مجوزہ تقریب ملتوی کر دی گئی۔ جوبلی کے ساتھ یہ خیال دل میں آیا کہ اپنے طلبہ عزیزان علی گڑھ کو ایک خطبہ دوں گا۔ لکھنا شروع کر دیا تھا پھر یہ ہوا کہ جوبلی ملتوی ہو گئی لیکن خطبہ کا لکھا جانا بند نہ ہوا اور طویل وقفوں کے ساتھ یہ مشغلہ جاری رہا کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ لذیذ نہ ہونے کے باوجود حکایت دراز ہو گئی‘‘۔
مذکورہ اقتباس رشید احمد صدیقی کی اس تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو ’’کچھ ا سبے ربطی شیرازہ اجزائے حواس کے بارے میں ‘‘ کے عنوان سے بطور تعارف خطبہ عزیزان علی گڑھ کی ابتدا میں درج ہے۔
’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کی شان نزول کا ایک اور حوالہ ہمیں رشید صاحب کے اس خط میں ملتا ہے جو انھوں نے ۱۶؍ جولائی ۱۹۷۲ء کو ڈاکٹر گیان چند جین کو لکھا تھا:
’’آپ نے جس طرح میرے ناتمام خطبہ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کو پسند اور اس ضمن میں مجھے جس خلوص سے یاد فرمایا ہے اس سے بہت خوش اور شکر گذار ہوں … خطبہ کا جو حصہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے (وہ)کل کا تقریباً ایک چوتھائی ہے جس کے اقتباسات مدیر ’’فکر و نظر‘‘ نے جہاں تہاں سے لے کر شائع کر دیے کاش کوئی صورت ایسی نکل سکتی کہ پورا خطبہ ناظرین کے مطالعہ میں آسکتا۔ یہ خطبہ کہیں پڑھا نہیں گیا۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ کئی سال گذرے مسلم یونیورسٹی کی جبلی منانے کی تحریک سامنے آئی۔ خیال آیا کہ اس موقع کے لیے ایک خطبہ لکھوں گا جس کے مخاطب یونیورسٹی کے طلبہ ہوں گے جبلی کی تحریک ملتوی ہو گئی لیکن خطبہ کا کام وقتاً فوقتاً جاری رہا۔ اب دیکھتا ہوں تو وہ بہت طویل ہو گیا، اس کا حشر کیا ہو گا کچھ نہیں معلوم‘‘۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ہے خطبہ ’’عزیزان علی گڑھ ‘‘ لکھنؤ کے اخبار ’’قومی آواز‘‘ کے ہفتہ وار ضمیمے میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ اس کی ہر قسط کے ساتھ سرخیاں اور عنوانات‘‘ بھی قائم کیے گیے تھے لیکن کتابی شکل میں شائع کرتے وقت نہ جانے کیوں اس کے عنوانات حذف کر دیے گیے۔
رشید صاحب کی روح کو ’’عزیز ان علی گڑھ‘‘ کی اشاعت سے کتنا سکون ملا ہو گا، اس کا اندازہ ہمیں فصیح احمد صاحب کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو ’’قصہ عزیزان علی گڑھ کے چھپنے کا‘‘ کے عنوان سے زیر نظر کتاب میں بطور دیباچہ شامل ہے۔ اسی کے ساتھ فصیح صاحب کی ایک اور تحریر بھی چھپی ہے جس میں انھوں نے اپنے ’’ماموں میاں ‘‘ (رشید احمد صدیقی مرحوم) کے دم وپیسی کی روداد بڑے پر اثر انداز میں بیان کی ہے جس کے ایک ایک لفظ سے رشید صاحب سے اُن کی محبت اور عقیدت ٹپکتی ہے۔
رشید صاحب کے انتقال کے بعد سے اب تک ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کا مسودہ فصیح احمد صدیقی کے پاس پڑا ہوا تھا۔ اسے اردو کی بدنصیبی کہنا چاہیے کہ تیرہ سال تک اس کی طباعت کا انتظام یہاں نہ ہوسکا۔ چنانچہ اپنے دورہ علی گڑھ کے دوران لطیف الزماں نے جیسے ہی اس کے مسودے کو دیکھا اسے زیر طبع سے آراستہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ انھوں نے نہایت تشویق سے اس کے منتشر اجزاء کو یکجا کیا۔ لفظ بہ لفظ اور بڑی محنت اور وقت نظر کے ساتھ مدون کر کے اور کلیۃ ً اپنے اخراجات سے طبع کروا کر اسے قارئین کے سامنے پیش کر دیا۔ لطیف صاحب تمام دنیا کے شکریے کے مستحق ہیں جن کی سعی و کاوش سے یہ مقتدر علمی کام انجام کو پہنچا۔ اس طرح رشید ساحب جو حسرت لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گیے تھے اس کی تکمیل کا سامان انھوں نے بہ طریق احسن بہم پہنچا دیا۔
(۲)
خطبہ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کا موضوع ’’علی گڑھ کے ذکر سے شروع ہوتا ہے اور ختم بھی اس کے ذکر پر ہوتا ہے۔ اس کے مخاطب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا ہیں جن سے وہ اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی کہ علی گڑھ سے ان کو محبت تھی۔ اس خطبے کا انداز غیر رسمی (Informal)ہے، بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے، اور رشید صاحب علی گڑھ کے حوالے سے سرسید احمد خاں، علی گڑھ تحریک، ایم، اے، او کالج، مسلمانوں کی زبوں حالی، اردو کی کسمپرسی، تحریک آزادی اور ہم عصر سیاسی و سماجی میلانات کا ذکر بڑی فہم و فراست اور ذہنی بصیرت کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اسی ضمن میں اصغرؔ، حالیؔ، اقبال، غالبؔ اکبر الہ آبادی اور دیگر شعراء کا بھی ذکر آتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنے اصل موضوع سے ہٹتے ہیں تو جنسیت اور ہپی ازم تک کا ذکر کر جاتے ہیں ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کو بادی النظر میں ہم چند منتشر خیالات کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں لیکن بہ نظر غائر دیکھا جا سکتا ہے تو اس کا ہر خیال اپنی جگہ انتہائی جامعہ اور Compactنظر آتا ہے۔ وہ جو ذکر بھی چھیڑتے ہیں اس کے بارے میں اپنی ٹھوس اور مدلل رائے پیش کرتے ہیں، وہ صحیح بات کہنے اور اپنے موقف پر اٹل رہنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے خواہ اس کے لیے انھیں دوسروں کی خشمگیں ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے۔ رشید صاحب چیزوں کووسیع تناظر میں رکھ کر دیکھتے ہیں۔ اردو یونیورسٹی کی تحریک کی مخالفت اور مسلم یونیورسٹی ترمیمی بل ۱۹۷۲ء کی مذمت اس کی بین مثالیں ہیں۔
خطبہ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ پورے دس سال (۱۹۶۷ء تا۱۹۷۷ء) کے دوران وقفے وقفے سے لکھا گیا۔ یہ رشید صاحب کی زندگی کی آخری دہائی تھی جو کلیتہً علی گڑھ کے لیے وقف ہو کر رہ گئی تھی۔ رشید صاحب کی اس دور کی تحریروں کو دیکھ کر مسعود حسین خاں نے انھیں ’’علی گڑھ نگار کو بہت پیچھے چھوڑ چکے تھے اور صرف علی کے موضوعات پر قلم اٹھاتے تھے۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں :
’’ان کا قلم ابھی تک نہیں تھکا تھا۔ تابڑ توڑ وہ علی گڑھ اور اس سے متعلق موضوعات پر لکھ رہے تھے۔ یہ تحریر یں جا بجا چھپتی بھی رہیں، لیکن اب وہ مزاح اور طنز نگار نہیں تھے خاکہ نگاری بھی چھوڑ دی تھی وہ اب علی گڑھ نگار تھے۔ کچھ ماضی کی یادیں کچھ حال کے مناظر اور کچھ مستقل کے بارے میں پیشین گوئیاں۔ موجودہ علی گڑھ کی جانب سے مضطرب رہتے، اسی شدت سے ماضی کے علی گڑھ کی جانب بازگشت کرتے‘‘۔
(رقعات رشید صدیقی، مرتبہ مسعود حسین خاں، ص۱۳)
اس اقتباس کے تناظر میں ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کا بخوبی مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے مطالب تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ رشید صاحب کا علی گڑھ سے والہانہ عشق اظہر من الشمس ہے۔ انھیں سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، ہمہ وقت علی گڑھ کا خیال رہتا تھا، رشید صاحب نے علی گڑھ میں اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ گذارا تھا اور اپنی بہترین صلاحیتیں اس کی نذر کی تھیں۔ وہ خود فرماتے ہیں :
’’ایک آدھ سال اور جیا تو علی گڑھ کی تابعداری، ترفع اور تحفظ میں اپنی بساط کے مطابق اپنی بہترین صلاحیتوں کو صرف کرتے ہوئے مسلسل ساٹھ سال ہو جائیں گے‘‘۔
(عزیزان علی گڑھ‘‘ ص۴۱)
رشید صاحب ہائی اسکول کے بعد ۱۹۱۵ء میں علی گڑھ۔ خود انھیں کے الفاظ میں :
’’یہ وہ زمانہ تھا جب کالج اپنی اعلیٰ روایات اور اعلیٰ شخصیتوں کی گراں مائگی، مغربی تعلیم، مشرقی تہذیب اور بے مثل رواداری، بلند نظری اور خیرسگالی کا ایسا نمونہ پیش کر رہا تھا جو ملک کے کسی تعلیم، علمی، مغربی ادارہ میں نہیں ملتا تھا، آج بھی مفقود ہے‘‘۔
(عزیزان علی گڑھ‘‘ ص۴۰)
رشید صاحب چاہتے تھے کہ یہ اعلیٰ قدریں علی گڑھ کے طلبہ میں پھر سے پیدا ہوں، اور اگر سچ پوچھا جائے تو ان قدروں کا زوال و فقدان یا پامالی ہی خطبہ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کا متحرک بنی۔ رشید صاحب نے خطبے کے آغاز میں اس طرف یوں اشارہ کیا ہے:
’’جس تہذیب کے کھنڈر پر، جن اقدار و عزائم کو سامنے رکھ کر، جن سر آمد روزگار نے علی تعمیر کیا تھا اور جس علی گڑھ نے اپنے فرزندوں کو زندگی اور زمانے کے بڑے بڑے چیلنج کو قبول کرنے کا حوصلہ دیا، جن کی تاریخ اور تقدیر کو اس نے ان کے لیے دریافت کیا اور تب و تاب دی، اس کو رسوا اور مسمار ہوتے دیکھ کر علی گڑھ کا دیوانہ اپنے نوجوانوں کو اللہ اور انسانیت کی طرف لے بھاگے اور بھگا لے جانے پر آمادہ ہو جائے تو کیا کرے‘‘
(عزیزان علی گڑھ، ص۳۷)
’’عزیزان علی گڑھ‘‘ علی گڑھ کا قصہ پارینہ ہے، اس کے ماضی کی داستان ہے۔ اس کے ’فرزانوں کی…گمشدگی‘ کا نوحہ ہے۔ اور جس طرح اقبال سسلی کی بربادی پر روتے ہیں اور داغ دلی کی تباہی پر خون کے آنسو بہاتے ہیں اسی طرح رشید صاحب ماضی کے علی گڑھ کو یاد کر کے ’’آہ و فغان نیم شب‘‘ بلند کرتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دیکھنے میں کالج چھوٹی سی بستی تھی لیکن اتنے بزرگوں، چھوٹے بڑے ساتھیوں اور ایسی امیدوں اور امکانات سے آباد معلوم ہوتی تھی جیسے علی گڑھ اپنے آباء و اسلاف اور اکابر کا خاندان اور وطن ہو، دن رات یگانگت کے تنوع اور تہنیت ہوں۔ رفتہ رفتہ یہاں تک محسوس ہونے لگا۔ جیسے علی گڑھ کی شہریت دنیا کی تمام مہذب اقوام اور ممالک کی شہرت کی ضامن ہو… زمانہ بدل گیا، طبیعتیں بدل گئیں اور ان کے ساتھ کیا کیا نہیں بدل گیا۔ غم اتنا بدل جانے کا نہیں جتنا مسخ ہو جانے کا ہے‘‘۔
(’’عزیزان علی گڑھ‘‘ ص۴۳ و ۴۴)
’عزیزان علی گڑھ‘ میں ماضی کے علی گڑھ کی بیشمار یادیں محفوظ کر دی گئیں ہیں ایم اے او کالج جہاں رشید صاحب نے ۱۹۱۵ء سے ۱۹۲۱تک تعلیم پائی، کی یاد اُن کے دل سے کبھی اوجھل نہیں ہوتی۔ وہ یہاں کی نہ صرف روایات اور اقدار کو یاد کرتے ہیں بلکہ بورڈنگ ہاؤس کا رہن سہن، ڈائننگ ہال، کلاس روم، مسجد، یونین کلب، کھیل کے میدان مشاعرے متعارفے حتی کہ ٹدرائڈ (کیچڑ پانی سے برسات کا خیر مقدم)کی یاد بھی ان کے دل کو کچو کے دیتی ہے۔
ماضی کے علی گڑھ سے سرسید احمد خاں، علی گڑھ تحریک اور بعدہٗ مسلم یونیورسٹی کی تحریک کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ میں سرسید اور ان کی تحریک کا بھی قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔ رشید صاحب کے خیال میں ’’مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو کسی شخص یا ادارے نے وہ ہمہ جہتی فائدہ اور دور رس فائدہ نہیں پہنچایا جو علی گڑھ نے پہنچایا۔ ‘‘ وہ ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ ’’علمائے کرام اور دوسرے حضرات از راہ حقیقت پسندی اس کا تصور فرمائیں کہ علی گڑھ موجود نہ ہوتا تو ہندوستان میں پچھلے سو سال میں ہم کہاں اور کس حال میں ہوتے‘‘۔ ایک جگہ تو انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ ’’سرسید نہ ہوتے … تو آج مسلمان کہیں کے نہ ہوتے‘‘۔ رشید صاحب علی گڑھ تحریک کو سرسید کا یاک ’’تاریخی انقلاب آفریں اور تعمیری کارنامہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’سرسید نے علی گڑھ تحریک کو بروئے کار لاکر … مایوس کن اور اندیشہ ناک حالات پر قابو پانے کی کامیاب کوشش کی‘‘۔
مسلم یونیورسٹی کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’علی گڑھ جن شرائط پر قائم ہوئی، چنانچہ ان کے خیال میں ’’مسلمانوں نے اپنے خواب کی یونیورسٹی کو خیر آباد کہہ کر حقیقت یا بیداری کی پونیورسٹی کو وقت کا تقاضا سمجھ کر قبول کر لیا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم یونیورسٹی اگر چہ ’’بدیسی حکومت‘‘ کے زیر سایہ وجود میں آئی تھی لیکن اسے وہ ’’حقوق و اختیارات‘‘ تفویض کیے گیے تھے جو اس کے ’’علمی، مذہبی اور اقلیتی کردار کی سلامتی‘‘ کے ضامن تھے اور اس کی ’’قدرتی نشو نما‘‘ میں معاون تھے۔ تقریباً تیس(۳۰) سال تک مسلم یونیورسٹی انھیں خطوط پر چلتی رہی اور بقول رشید صاحب اس نے ’’یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنی ذمہ داری اور اپنی ضروریات کا پورے طور پر احساس رکھتی تھی اور ان سے عہدہ برآمد ہونے میں حکومت وقت، اصحاب علم و فن اور ملک و ملت کے بہترین توقعات کو بہ طریق احسن پورا کر سکتی تھی۔ نیز ایک تہذیبی ادارے اور معیاری دانش کدہ کی حیثیت سے ہر حلقہ اور ہرسطح پر ممتاز منفرد تھی‘‘۔ لیکن آزادی کے بعد ۱۹۵۱ء میں جو یونیورسٹی ایکٹ پاس ہوا اس سے رشید صاحب بے حد ملول ہوئے کیوں کہ اس میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں تھیں جو اس کے ’’خصوصی کردار‘‘سے متناقض تھیں۔ علی گڑھ پر جب بھی کوئی ضرب پڑی تو رشید صاحب کا دل بری طرح دکھا۔ ۱۹۷۲ء میں جب مسلم یونیورسٹی ترمیمی بل پاس ہوا تو رشید صاحب کی بیحد تکلیف پہنچی۔ انھیں ایسا لگا جیسے کہ یہ یونیورسٹی اپنی نہ رہ گئی ہو، لیکن جب اس بل میں ’’اصلاح و رعایات و حقوق ‘‘ کا سامان کر دیا گیا تو انھوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
رشید صاحب کی نظر میں ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آزاد ہندوستان میں ملک کی سب سے اہم اور سب سے بڑی اقلیت کی یونیورسٹی ہے۔ سیکولر جمہوریہ میں اس کے خصوصی امتیازات اور حقوق کو برقرار رکھنے کی کا مسئلہ معمولی نہیں ہے‘‘۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مسلم اقلیت کی یونیورسٹی ہے تو اسے اردو یونیورسٹی کی شکل میں کیوں فروغ نہیں دیا گیا۔ بعض لوگوں نے اس کے لیے سرسید کو مورد الزام قرار دیا ہے۔ کہ انھوں نے اردو کے بارے میں غلط پالیسی اختیار کی۔ رشید صاحب کا اس بارے میں موقف بالکل واضح ہے۔ اُن کے خیال میں ’’ مسلم یونیورسٹی کو اردو یونیورسٹی قرار دینے سے مسلمان ان فوائد سے محروم رہ جاتے جو انگریزی حکومت میں چھوٹی بڑی ملازمتوں کے ملنے اور مغربی علوم و فنون سے کامل شناسائی اور مغربی طور طریقوں کو اختیار کرنے سے میسر آسکتے تھے اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب مدرستہ العلوم اور مسلم یونیورسٹی انگریزی زبان اور مغربی علوم میں دسترس رکھنے میں معاصر یونیورسٹیوں سے بھی آگے ہوتی ‘‘۔ سرسید ابتدا میں مدرستہ العلوم (ایم اے او کالج) میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں تھے، لیکن بعد میں وہ اپنے اس ارادے سے ہٹ گئے۔ رشید صاحب نے سرسید سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے اس فیصلے کو ’’دور اندیشی اور حقیقت پسندی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سرسید کی بے بے مثل دوراندیشی اور حقیقت پسندی کا یہ بہت بڑا ثبوت ہے کہ انھوں نے اردو کے بارے میں اپنی رائے بدل دی اور علی گڑھ کو اردو ادارہ رکھنے کی بجائے اس کو ایک اعلیٰ درجہ کے انگریزی (مغربی) ادارے میں ڈھال دیا‘‘۔
(’’عزیزان علی گڑھ‘‘ ص۷۱)
رشید صاحب اردو یونیورسٹی کے قیام کے حق میں نہ تھے۔ ارباب نظم و نسق نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اردو یونیورسٹی قرار نہ دے کر اُن کے خیال میں اچھا ہی کیا۔ کیوں کہ بقول اُن کے ’’اردو یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے علی گڑھ کا وہی حشر ہوتا جو اردو کا ہوا‘‘۔ رشید صاحب اردو یونیورسٹی کو اردو سے الگ کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں جب تک کہ اردو کو وہ سہولیتں میسر نہ ہوں (مثلاً اردو کا علاقائی زبان ہونا) اس وقت اردو یونیورسٹی ’’کارآمد و کامیاب‘‘ نہیں ہوسکتی مسلم یونیورسٹی اردو یونیورسٹی کیوں نہ بن سکی۔ اس کی ایک اور وجہ رشید صاحب یہ بتاتے ہیں کہ ’’ایم اے او کالج اور مسلم یونیورسٹی کی حیثیت ایک کل ہند ادارے کی تھی۔ اس میں ایسے طلبہ کو سبھی داخلے کا حق تھا جو ملک کے دور افتادہ حصول کے باشندے تھے اور ان کی مادری زبان اردو نہ تھی۔ اس بنا پر علی گڑھ کو ’’اردو برادر‘‘ رکھتے میں ہر طرف سے اور ہر طرح کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہی نہیں یقین تھا۔ اس لیے علی گڑھ کے لیے لازم تھا کہ وہ اس طرح کے پر خطر امکانات سے اپنے آپ کو علاحدہ اور محفوظ رکھے‘‘۔ لیکن اردو یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں سب سے بڑا ڈر انھیں مسلم یونیورسٹی کے مخالفین سے تھا۔ علاوہ ازیں حیدرآباد کی اردو یونیورسٹی (جامعہ عثمانیہ) کا جو حشر ہوا وہ بھی اُن کے پیش نظر تھا۔ اس ضمن میں ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اگر مسلمان کی مغربی طرز کی اعلیٰ تعلیم گاہیں ملک کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوتیں … تو کسی ایک اردو کالج یا یونیورسٹی بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔ لیکن لے دے کے صرف ایک علی گڑھ میں دوسرے عناصر کی آمیزش کی گئی ہوتی یا عوامل کو دخل دیا گیا ہوتا تو اس کے مخالف اس کے رسوا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ساری تعمیر مسمار ہو جاتی اور ہم شاید کہیں کہ نہ رہ جاتے۔ ۱۹۴۷ء تک انگریزی کے سوا ایک بھی دوسری زبان کی یونیورسٹی قائم کرنے کا مطالبہ کہیں سے نہیں کیا گیا اور جس زبان کی ایک جیتی جاگتی یونیورسٹی قائم تھی اس کا کیا حشر ہوا اور کیوں ہوا وہ بھی کوئی راز نہیں ہے‘‘۔
’’عزیزان علی گڑھ‘‘ میں اردو زبان کا ذکر بھی قدرے تفصیل سے ملتا ہے۔ اردو کے شاندار ماضی سے لے کر اس کی موجودہ صورت حال اور کس مپرسی تک کے تمام مراحل کو انھوں نے بخوبی بیان کیا ہے۔ رشید صاحب کا یہ قول بجا ہے کہ ’’ہندوستان کے بیشتر مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے۔ بہت بڑی تعداد ایسے غیر مسلموں کی ہے جو اس کو اس طرح کام میں لاتے ہیں جس طرح مسلمان‘‘ رشید صاحب نے اس حقیقت کا بھی برملا اظہار کیا ہے کہ ’’اردو کے جتنے مخلص اور دلیر حامی غیر مسلموں میں ملتے ہیں اتنے مسلمانوں کے کسی اور مطالبے کی تائید کرنے والے غیر مسلموں میں نہیں ملیں گے۔ لیکن ان کے خیال میں ’’یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جتنی یہ کہ بعض مسلم شعراء اور ادیب اردو کی عمارت میں رخنے ڈالنے لگے ہیں۔ رشید صاحب کے خیال میں ‘‘ اردو کو اس لیے گردن زدنی قرار دینا کہ وہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے قرین انصاف نہیں ہے‘‘ تقسیم ملک کے بعد اردو پر جو بیتی اس کا کرب رشید صاحب نے یوں محسوس کیا:
’’تقسیم ملک کے بعد اردو دشمنی کی جو لہر اٹھی اُس کی وسعت اور شدت بڑھتی ہی گئی۔ سیاست اور حکومت کے سربراہوں سے سوا طفل تسلی اور نا معتبر وعدوں کے کچھ اور ہاتھ نہ آیا۔ پانی سرسے گذر گیا۔ جن بچوں کی مادری زبان اردو تھی وہ برابر اس سے محروم ہوتے گئے چنانچہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ روزی اور بے روزگاری کی خاطر اب خود اردو والے اردو سیکھنے پڑھنے سے احتراز کرنے لگے ہیں ‘‘۔
(’’عزیزان علی گڑھ‘‘ ص ۶۴)
اردو ہندی تنازعے کا ذکر کرتے ہوئے رشید صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اردو ہندی کا مرض یا فتنہ کم و بیش پونے دو سو سال پرانا ہے، اور جیسا کہ بعض امراض کا خاصہ ہے کہ اگر وہ جلد دور نہ کیے جائیں تو ان کا ازالہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اردو کا حال کچھ اس طرح کا ہو کر رہ گیا ہے‘‘۔ اردو رسم خط بدلنے کی تحریک کو وہ ایک ’’رخنہ ‘‘اور ’’فتنہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کا معتدبہ حصہ شعراء کے تنقیدی تذکروں پر مشتمل ہے جن میں غالبؔ، حالیؔ، اقبالؔ اور اکبرؔالٰہ آبادی خصوصیت کے ساتھ قاب ذکر ہیں۔ ان شعراء کے کلام پر رشید صاحب کی تنقیدی آراء کو ہم تاثراتی (Impressionistic Criticiem) کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں رشید صاحب نقاد نہ تھے اور نہ ہی انھوں نے کبھی نقاد ہونے کا دعویٰ کیا، کیوں کہ ان کا اصل میدان تو طنز و مزاح انشائیہ نگاری اور خاکہ نگاری تھا جس میں انھوں نے اپنی شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی، شوخی، طبع اور ندرت بیان کے خوب خوب جوہر دکھائے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا فارسی اور اردو کے کلا کی شعراء کا مطالعہ بہت گہرا تھا۔ رشید صاحب کے ’’نقد پاروں، کو پڑھ کر اُن کے ہاں کسی ٹھوس تنقیدی نظریے کا سراغ تو نہیں لگایا جا سکتا لیکن اُن کی گہری تنقیدی بصیرت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ تاثراتی تنقید میں اختلاف رائے کی بہت کچھ گنجائش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشید صاحب نے غالبؔ، حالیؔ، اقبالؔ اور اکبرؔ الٰہ آبادی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس سے بہت کچھ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
اس امر کا ذکر بیجا نہ ہو گا کہ رشید صاحب تنقید کے معاملے میں تعریف توصیف کے زیادہ قائل ہیں۔ اُن کی نظر فن پارے کی خامیوں سے زیادہ اس کی خوبیوں پر ہوتی ہے۔ وہ ادیب یا شاعر کی بڑی سے بڑی لغزش کو بھی نظر انداز کر جاتے ہیں اور اس کی چھوٹی سے چھوٹی خوبی کی سبھی دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ انھوں نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’میں تنقید میں میانہ روی کا قائل ہوں ‘‘۔ لیکن خود ان کی تنقید میں ’’میانہ روی‘‘ کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ان کی تنقیدی کاوشوں کو یک طرفہ تنقید کہنا زیادہ مناسب ہو گا کیوں کہ وہ صرف حسن کو دیکھتے ہیں قبیح کو نہیں، خوب کو دیکھتے ہیں زشت کو نہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو وہ زشت کو بھی خوب اور قبیح کو بھی حسن بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے سرسید اور علی گڑھ پر جو لعن طعن کی ہے رشید صاحب اس میں بھی ’’خلوص‘‘ کی جھلک دیکھتے ہیں۔ اسی طرح حالیؔ کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اقبال کے ’’کلام و پیام‘‘ کو جو اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی اس کے پیچھے حالیؔ کا ہاتھ تھا۔ حالیؔ کے کلام کی انھوں بے شمار خوبیاں بیان کی ہیں لیکن عقلیت اور واقفیت پسندی کا جو عنصر حالیؔ کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہے، اس کا رشید صاحب نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ اقبالؔ پر رشید صاحب کی جو تنقید ہے اس میں انھوں نے زیادہ تر ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو وقتاً فوقتاً ان پر کیے جاتے رہے لیکن یہاں بھی معاملہ یک طرفہ ہے۔
چونکہ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ کے مخاطب طلبہ تھے، اس لیے رشید صاحب نے آخر میں طالب علمانہ زندگی سے متعلق سبھی چند باتیں کہیں ہیں۔ رشید صاحب چاہتے تھے۔ کہ طلبا میں علی گڑھ کی دیرینہ اور اعلیٰ روایات کا پاس ہو، وہ ڈسپلن کی پابندی کریں، تخریبی تحریکوں سے دور رہیں، سیاست میں حصہ نہ لیں، اپنے اندر اخلاقی پاکیزگی پیدا کریں، تعلیمی ذمہ داریوں کی طرف سے غفلت نہ برتیں، مسلمہ اخلاقی اقدار کو نظر انداز نہ کریں، سلیقہ اور خوش دلی کو ہاتھ سے جانے نہ دیں، اقامتی زندگی کی صالح تفریحی سرگرمیوں اور دیگر صحت مند مشاغل میں حصہ لیں اور ’’وہ کریں جو تعلیم، تہذیب اور اخلاق کا تقاضا ہو اور وہ نہ کریں جس کا مطالبہ سوجھ بوجھ سے بے گانہ جم غفیر کرتا ہو‘‘۔
خطبۂ ’’عزیزان علی گڑھ‘‘ انھیں ناصحانہ باتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔