(فراق گورکھپوری ]م: ۱۹۸۲ء[کو ان کی ۳۰ ویں برسی پر یاد کرتے ہوئے)
فراق گورکھپوری(۱۸۹۶تا ۱۹۸۲ء) کے بارے میں اکثر نقادوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وہ ’’جدید حسیّت ‘‘ اور ’’نئے تہذیبی شعور‘‘ کے شاعر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق کی شاعری میں ایک نئے طرزِ احساس اور نئے لب و لہجے کا پتا چلتا ہے، لیکن فراق کے یہاں ہمیں جو چیز سب سے زیادہ اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ان کا ہندی اسلوب اور ان کی شاعری کی ہندوستانی فضا ہے۔ فراق نے اپنی شاعری میں ہندو اساطیر و تلمیحات کا ذکر جس کثرت سے کیا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ان کی شاعری میں ہندوستان کی مِٹی، یہاں کی بوباس، فضا اور تہذیب و معاشرت، نیز رسم و رواج کی جھلکیاں بھی خوب دیکھنے کو ملتی ہیں۔ فراق نے اپنے طرزِ بیان کا انتخاب بھی موضوع ہی کی مناسبت سے کیا ہے اور اپنی شاعری کی ہندوستانی فضا کی عکاسی کے لیے ہندی لفظیات، ہندی تشبیہات و استعارات اور ہندی علائم کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔
فراق کے یہاں ہندوستانی عناصر اور ہندی لغات کی کار فرمائی یوں تو جگہ جگہ نظر آتی ہے، لیکن ان کی ’روپ‘ کی رباعیاں کلیتہً اسی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ’روپ‘ کی رباعیوں کو فراق نے ’’سنگھار رس کی رباعیاں ‘‘ کہا ہے۔ یہ رباعیاں فراق نے جوش ملیح آبادی (۱۸۹۸ تا ۱۹۸۲ء) سے ’’ان بن ‘‘ ہو جانے کے بعد ۱۹۴۵ء کے امل ہیں۔ (۳) اگر فراق کی بات سے اتفاق کریں تو ان رباعیوں میں —
’’لطیف، نازک، رچے ہوئے اور مہذب انداز سے اپنی پوری وجدانی اور جمالیاتی شان سے ہندستان کی زندگی اور ہندستان کے کلچر کی مصوری یا ترجمانی ہوئی ہے۔ ‘‘ (۴)
فراق نے اردو شاعری میں ہندوستانیت کے فقدان کا اکثر ذکر کیا ہے، اور اردو شاعری کے ہندوستانی شاعری نہ بن سکنے پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔ ان کے خیال میں ہندوستانیت کے کچھ عناصر شروع میں بعض دکنی شعرا کے یہاں ضرور نظر آئے، اس کے بعد اس کی تھوڑی سی جھلک میر تقی میرؔ، نظیر اکبر آبادی، اور حالیؔ کے یہاں نظر آئی۔ اقبال کے دورِ اول کے کلام میں بھی ہندوستانیت کی جھلک نظر آئی، لیکن انھیں اس بات کا ہمیشہ افسوس رہا کہ ہندوستانی کلچر اپنے رچاؤ اور اپنی تمام قیمتی قدروں کے ساتھ اردو شاعری میں کہیں جلوہ گر نہ ہوسکا۔ فراق کے نزدیک ہندوستانی شاعری سے مراد ایسی شاعری ہے جس میں :
’’یہاں کی فضا کی ٹھنڈک اور گرمی ہو، ہندستان کی مٹی کی خوشبو ہو، یہاں کی ہواؤں کی لچک ہو جو یہاں کے آکاش، سورج، چاند اور ستاروں کا آئینہ بنے اور ان کو آئینہ دکھائے جس میں وہ مخصوص احساسِ حیات و کائنات ہو جو کہ ’رگ وید‘ سے لے کر تلسی داس اور سور داس اور میرا بائی کے کلام میں نظر آتا ہے جو اس زمانے میں بھی ٹیگور کے نغموں کی پنکھڑیوں کی آبیاری اور شادابی کا باعث ہے۔ ‘‘ (۵)
چوں کہ یہ تمام خوبیاں اردو شاعری میں پورے طور پر جلوہ گر نہ ہوسکیں، اس لیے اردو شاعری سے، اس کی تمام اچھائیوں کے باوجود، فراق کا ذہن کسی قدر ’’نا آسودہ‘‘ رہا۔ غالباً اسی ’’ناآسودگی‘‘ کے احساس کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے ’روپ‘ کی رباعیاں] =سنگھار رس کی رباعیاں [تخلیق کیں۔
فراق اردو شاعری کو ہندوستانی کلچر اوراس کی روح کا ’’صحیح نمائندہ‘‘ اور ’’آئینہ دار ‘‘ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس کے لیے ان کے خیال میں، ’’اردو کو سنسکرت اور ہندی شاعری دونوں کی قدروں سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ ‘‘ فراق نے اپنی تنقیدی کتاب ’اردو کی عشقیہ شاعری ‘ میں بھی اس مسئلے پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اردو زبان ہندو، مسلمانوں کی مشترکہ زبان ضرور ہے، لیکن اردو ادب اُس وقت صحیح معنوں میں ہندو، مسلمانوں کا مشترکہ ادب ہو گا جب اردو لغت اور اردو ادب میں کافی تعداد سنسکرت کے فقروں اور ٹکڑوں بلکہ کبھی کبھی سنسکرت ترکیبوں کی بھی سلیقے سے جوڑ لی جائے۔ ‘‘ (۶)
(۲)
جیسا کہ سطورِ بالا میں کہا گیا ہے، فراق نے ’روپ‘ کی رباعیوں کو سنگھار رس کی رباعیاں کہا ہے۔ انھوں نے سنسکرت لفظ ’’روپ‘‘ کو جمالیاتی معنی میں استعمال کیا ہے۔ (۷) جمالیات یا جمالیاتی تجربے کا’کام‘ (काम)یعنی محبت کے جذبے سے گہرا تعلق ہے، اور ’کام ‘ کو سنگھار رس میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لفظ ’سنگھار‘ سنسکرت زبان کے لفظ ’شرنگار‘ (श्रृंगार) سے مشتق ہے جو دو لفظوں ’شرنگ‘(श्रृंग)اور ’آر‘ (आर) کی سَندھی یعنی ترکیب سے بنا ہے۔ سنسکرت میں ’شرنگ‘ کے معنی ہیں ’کام‘ یعنی محبت اور ’آر‘ کے معنی ہیں ابھارنے، جگانے یا بیدار (Stimulate) کرنے والا۔ اس طرح ’شرنگار‘ سے مراد وہ تجربہ یا عمل ہے جو محبت کے جذبے کو ابھارتا، جگاتا یا بیدار کرتا ہے یا اس میں تحریک پیدا کرتا ہے۔ ہندواساطیر میں ’کام دیو‘ (कामदेव)کو محبت کا دیوتا مانا گیا ہے اور اس کی بیوی کو جس کا نام ’رتی‘ (रति) ہے، ’پرم روپ وَتی‘ یعنی انتہائی حسین و جمیل عورت کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ ’رتی‘ ادب و شاعری میں محبت اور حسن کا استعارہ بن گیا ہے۔ محبت انسان کا ایک ’استھائی بھاؤ‘ (स्थायी भाव) یعنی مستقل یا بنیادی جذبہ ہے جسے ’رتی‘ کہا گیا ہے۔ شرنگار رس =)سنگھار رس(کی بنیاد اسی جذبے پر قائم ہے۔ یہ سب سے اہم بنیادی جذبہ تسلیم کیا گیا ہے۔
سنگھار رس ان آٹھ رسوں میں سے ایک ہے جن کا ذکر سنسکرت شعریات میں پایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ’رس‘ (रस) اُس ’آنند‘ یعنی حظ کو کہتے ہیں جو کسی جمالیاتی تجربے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا تعلق در حقیقت انسان کے بنیادی جذبوں یا ذہنی کیفیات سے ہے جن کی تعداد آٹھ بتائی گئی ہے۔ (۸) ’رس‘ انھی جذبات کی جمالیاتی تجسیم ہے، اور سنگھار رس وہ حظ، مسرت یا آنند ہے جو محبت کے جمالیاتی تجربے سے حاصل ہوتا ہے۔ فراق نے سنگھار رس کو جمالیات کا مترادف مانا ہے۔ چنانچہ وہ ’روپ‘ کے دیباچے (’’چند باتیں ‘‘) میں لکھتے ہیں :
’’یہ رباعیاں سب کی سب جمالیاتی یا سنگھار رس کی ہیں۔ ‘‘ (۹)
سنسکرت شعریات میں سنگھاررس کے تین پہلو (Aspects) بیان کیے گئے ہیں : ’آلمبن‘ (आलम्बन)، ’آشرے‘ (आश्रय) اور ’اُدّی پن‘ () جن کا تفصیل سے ذکر آئندہ صفحات میں کیا جائے گا۔
فراق نے ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ میں ان رباعیوں کا موضوع ’’جسم و جمالِ محبوب‘‘ بتایا ہے۔ (۱۰) اس میں کوئی شک نہیں کہ ان رباعیوں کو پڑھتے وقت نسوانی حسن و جمال کا احساس شدید تر ہو جاتا ہے اور قاری ایک ایسے جمالیاتی تجربے سے گذرتا ہے جس سے اسے حد درجہ روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ شکیل الرحمن نے ’روپ‘ کی رباعیوں کو ایک جمالیاتی مسلک سے تعبیر کیا ہے۔ وہ فراق کی جمالیات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’روپ کی رباعیاں ایک جمالیاتی مسلک (Cult) کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ہم اسے اردو شاعری میں ایک ایسے منفرد جمالیاتی مسلک سے تعبیر کر سکتے ہیں جو انفرادی طور پر ایک مختلف انداز سے جمالیاتی آسودگی حاصل کرنے کے لیے ہو۔ الگ تھلگ رہ کرمسرتوں کو پانے اور لذتوں کو حاصل کرنے کا یہ مسلک جدید اردو شاعری میں اپنی نوعیت کا واحد مسلک ہے۔ ‘‘ (۱۱)
’روپ ‘ کی بعض رباعیوں میں فراق نے محبوب کے ’’جسم و جمال‘‘ کا ذکر اتنے بر ملا انداز میں کیا ہے کہ اس میں شہوانی (Erotic) جذبے کی لپک پیدا ہو گئی ہے، اور اس کی حدیں عریانیت سے جا ملتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق اپنے تخلیقی اظہار کے وسیلے سے جمالیاتی حظ کے علاوہ جنسی تلذذ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شکیل الرحمن راقم السطور کے اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں، بلکہ وہ اس سے بھی آگے کی بات کہتے ہیں :
’’فراق نے اپنی رباعیوں میں دل فریب اور لذت آمیز فضا خلق کی ہے اور اس تخلیقی فضا کا تقاضا تھا کہ ایک ایسا نسوانی پیکر خلق ہو جائے جس کے جسمانی وجود کی ایک سے زیادہ جہتیں گوشت پوست کے سچے احساس کے ساتھ جلوہ بن جائیں۔ ۔ ۔ عورت اور اس کے تعلق سے حسن اور سیکس کی لمساتی کیفیتوں نے متحرک خاکے، لکیریں اور رنگ فراہم کیے ہیں۔ اس وِژن کا رشتہ ان اعجاز آفریں جمالیاتی تجربوں سے جا ملتا ہے جن کی ارفع اور افضل صورتیں اجنتا، کھجورا ہو اور ایلورا میں ملتی ہیں۔ ‘‘ (۱۲)
’روپ‘ کی رباعیاں صرف جمالیاتی تجربوں ہی کی حامل نہیں ہیں، بلکہ ان سے فراق کے حسی، لمسی اور جنسی تجربوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ ذیل کی رباعیاں ملاحظہ ہوں :
چڑھتی ہوئی ندّی ہے کہ لہراتی ہے
پگھلی ہوئی بجلی ہے کہ بل کھاتی ہے
پہلو میں لہک کے بھینچ لیتی ہے وہ جب
کیا جانے کہاں بہا کے لے جاتی ہے
(رباعی ۸۳)
کھنچنا ہے عبث، بغل میں بانہوں کو تولے
کھو جانے کا ہے وقت، تکلف نہ رہے
ہنگامِ وصال، کر سنبھلنے کی نہ فکر
سَو سَو ہاتھوں سے مَیں سنبھالے ہوں تجھے
(رباعی ۸۲)
پہلو کی وہ کہکشاں، نبتھوں ؎ کا ابھار
ہر عضو کی نرم لو میں مدھم جھنکار
ہنگامِ وصال پینگ لیتا ہوا جسم
سانسوں کی شمیم اور چہرہ گلنار
(رباعی ۸۱)
( ؎ نبتھوں = سرین ]فراقؔ [)
فراق نے یہ رباعیاں کسی قسم کی افادیت کے پیشِ نظر نہیں کہی ہیں۔ انھوں نے ’روپ ‘ کے دیباچے میں خود اس کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ان میں شاعری کے وہ افادی پہلو نظر نہیں آئیں گے جن کے لیے ہم لوگ بے صبر رہتے ہیں۔ ‘‘ لیکن وہ یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ احساسِ جمال، جنسی جذبے یا شہوانی نفسیات کی تہذیب اگر عشقیہ یا جمالیاتی شاعری کے ذریعے سے ہوسکے تو ایسی شاعری کو ’’بالکل غیر افادی ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، ’روپ‘ کی رباعیاں ۱۹۴۵ء کے اوائل کی تخلیق ہیں۔ فراق نے اگرچہ اس سے پہلے بھی رباعیاں کہی ہیں جو ان کے مجموعۂ کلام ’روحِ کائنات‘ میں شامل ہیں، لیکن وہ سب کی سب روایتی انداز کی ہیں۔ ان کے الفاظ، ترکیبیں اور بندشیں قدیم طرز کی رباعیوں کی یاد دلاتی ہیں۔ مضامین اور خیالات کے اعتبار سے بھی ان میں کوئی نیا پن نہیں۔ اس کے علی الرغم ’روپ ‘ کی رباعیاں ایک نئے موڈ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ ان میں تخیل کی ایک نئی دنیا آباد ہے، اور فکر نے اظہار کے نئے اسالیب اختیار کیے ہیں۔ فراق کے تخلیقی اظہار کو نیا موڑ دینے میں جوش ملیح آبادی کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ اسی لیے ان سے ’’ان بن ‘‘ کے باوجود ’روپ‘ کا انتساب فراق نے جوش کے نام کیا ہے۔
(۳)
’روپ ‘ کی رباعیوں کو موضوع کے اعتبار سے دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی قسم ان رباعیوں کی ہے جن میں ہندوستان کے کلچر (بلکہ ہندو کلچر) اور آدابِ معاشرت، نیز یہاں کی سماجی اور گھر یلو زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق نے ان رباعیوں میں ہندوستانی معاشرے اور ہندو معاشرت کے بڑے دل آویز مرقعے اور یہاں کی گھر یلو زندگی کی بڑی خوبصورت تصویریں پیش کی ہیں جن میں عورت کے مختلف روپ اور انداز دیکھنے کو ملتے ہیں ؛ کہیں وہ الھڑ دوشیزہ ہے تو کہیں سہا گن اور گرہستن اور کہیں معصوم بچے کی ماں۔ اسی کے ساتھ ان رباعیوں میں یہاں کے موسم، دریا، گھاٹ، چاند، سورج، آکاش، گھٹا، پشوپکشی اور پھولوں کا بھی ذکر بڑے دل فریب انداز میں ملتا ہے۔
ان رباعیوں میں جو مرقعے پیش کیے گئے ہیں اور جن مناظر کی عکاسی کی گئی ہے ان میں سے بعض یہ ہیں، مثلاً مدھم سروں میں گانا، لوریاں سنانا، آرتی اتارنا، دیوی کا ستار بجانا، بلائیں لینا، چھم چھم ناچنا، گھر کی عورتوں کا بابل گانا، جھولا جھولنے میں ساون گانا، گھاٹ پر نہانا، الگنی پر گیلی ساڑی پھیلانا، تلسی پر پانی چڑھانا، ایکھ کے کھیتوں میں معصوم کنواریوں کا دوڑنا اور چھلانگ لگانا، چاندنی رات میں کشتی پر دریا کی سیر کرنا، بچے کو ہاتھوں پہ جھلانا، سہاگن کاسہاگ سیج پر سونا، گھر کی لکشمی کا بھوجن پکانا، سہاگنی کا تھال سجائے ہوئے آنا، دہی متھنا، ہولی کھیلنا، ماں کا بچے سے خفا ہونا، دیوالی کی شام گھروں کو سجانا، بھائی کے راکھی باندھنا، گائے کو چارا کھلانا، گائے کو دوہنا، پنگھٹ پر گگریاں چھلکنا، مندر میں چراغ کا جھلملانا، کوئل کا کوکنا، بھونروں کا منڈلانا، چندر ماسے امرت برسنا، گاتی ہوئی اپسرا کا گگن سے اترنا، بچے کو نہلانا/ کپڑے پہنانا، پانی کا ہچکولے لے کر ترنگ بھرنا، بھینچ کے چوم چوم لینا، گیسو سمیٹے نیند سے اٹھنا، بستر سے آنکھیں ملتی اٹھنا، پریم کے ترانے چھیڑنا، معصوم آنکھوں میں اشک چھلکنا، بادل کی تہوں سے ماہِ کامل کا نکلنا، گیسو کھولے کروٹ سے سونا، وغیرہ۔
ان رباعیوں میں پیش کیے گئے چند اور دل آویز مرقعے اور دل فریب مناظرو کیفیات ملاحظہ فرمائیں، مثلاً ساون کی پھوار، بنسی کی تان، چیت کی چاندنی، چندر مکھی کی مسکراہٹ، بسنت کی ترنگ، ماتھے کی کہکشاں، سرکتا گھونگھٹ، کھلتا ہوا کنول، موروں کا رقص، تاروں بھری رات، پائل کی صدا، چہرے کی دمک، منڈلا تی گھٹا، مہکتی ہوئی شام، گھنگھور گھٹا، گاتی ہوئی اپسرا، رس کی لہر، روپ کا کنوارا پن، تلووں کی گدگدی، فضا میں سات رنگوں کی پھوار، تاروں کا کارواں، نیند بھری انگڑائی، شبنم میں نہائی صبح، گلوں کے جھرمٹ میں جگنو کی چمک، وغیرہ:
تاروں بھری رات! بزمِ فطرت ہے سجی
ہے شوخ نگاہ میں بھی ایسی نرمی
یہ چندر کرن میں سات رنگوں کی جھلک
گاتی ہوئی اپسراگگن سے اتری
(رباعی ۱۱۳)
گنگا میں چوڑیوں کے بجنے کا یہ رنگ
یہ راگ، یہ جل ترنگ، یہ رَو، یہ امنگ
بھیگی ہوئی ساڑیوں سے کوندے لپکے
ہر پیکرِ نازنین کھنکتی ہوئی چنگ
(رباعی ۱۳۱)
حمّام میں زیرِ آب جسمِ جاناں
جگمگ جگمگ یہ رنگ و بو کا طوفاں
ملتی ہیں سہیلیاں جو منہدی رچے پاؤں
تلوؤں کی گدگدی ہے چہرے پہ عیاں
(رباعی ۱۴۲)
کس پیار سے دے رہی ہے میٹھی لوری
ہلتی ہے سڈول بانہہ گوری گوری
ماتھے پہ سہاگ، آنکھوں میں رس، ہاتھوں میں
بچے کے ہنڈولے کی چمکتی ڈوری
(رباعی ۲۶۹)
رخساروں پہ زلفوں کی گھٹا چھائی ہوئی
آنسو کی لکیر آنکھوں میں لہرائی ہوئی
وہ دل امڈا ہوا وہ پریمی سے بگاڑ
آواز غم و غصے سے بھرّائی ہوئی
(رباعی ۲۲۷)
(۴)
’روپ‘ کی دوسری قسم کی رباعیاں وہ ہیں جن کا انداز خالص جمالیاتی ہے اور جن میں عشقیہ جذبات اور جنسی خیالات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ فراق نے محبوب کے نازو انداز، شرم و حیا، حسن و جمال اور شوخی و ادا سے لے کر اس کے جسم کے ایک ایک عضو کا ذکر ان رباعیوں میں کیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا نسوانی عضوِ بدن ہو جس پر فراق کی شاعرانہ نظر نہ پڑی ہو۔ ان رباعیوں میں کہیں کہیں عریاں جنسی خیالات بھی در آئے ہیں جو شہوانی جذبات کو ہوا دیتے ہیں، لیکن اس میں فراق کا کوئی قصور نہیں کہ سنگھار رس کی شاعری میں اس قسم کی عریاں نگاری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ مشہور ماہرِ جمالیات ابھینو گپت نے تو شرنگار رس کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ یہ وہ ’’جذبہ‘‘ ہے ’’جو فرد کی جنس کو بیدار کرتا ہے۔ ‘‘ (۱۳)
شرنگار رس کی شاعری میں ’آلمبن ‘ (आलम्बन) کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، بلکہ المبن ہی اس شاعری کا مرکزو محور ہے۔ یہ محبت کا مخرج و منبع ہے۔ ’کام‘ (काम) یعنی جذبۂ عشق (Love Instinct) اسی کو دیکھ کر بیدار ہوتا ہے۔ یہ ’سوندریہ‘ (सौन्दर्य) یعنی حسن و جمال کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔ حسن اور محبت یا حسن اور عشق (Beauty and Love) میں گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ نسوانی وجود میں یہ دونوں چیزیں اس طرح مدغم ہو جاتی ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ محبت کہاں سے شروع ہوتی ہے اور حسن کہاں ختم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جمالیاتی نقطۂ نظریہ ہے کہ عشق کی ابتدا حسن سے ہوتی ہے۔ عاشق پہلے محبوب کے حسن و جمال کو دیکھ کر مبہوت و متحیر رہ جاتا ہے، پھر اس کے عشق میں سرشار و دیوانہ ہو جا تا ہے۔ ’آلمبن‘ کو ہم آسانی کی خاطر ’محبوب‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ سنگھار رس کی شاعری میں آلمبن یعنی محبوب کے نہ صرف حسن و جمال کی تعریف بیان کی جاتی ہے، بلکہ اس کے جسم کے اعضا کابھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اسی لیے فراق نے ’روپ‘ کی رباعیوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کا موضوع ’’جسم و جمالِ محبوب‘‘ ہے۔
اب ذرا محبوب کے ان اعضائے بدن پر ایک نظر ڈالیں جن کا ذکر ’روپ‘ کی رباعیوں میں ملتا ہے، مثلاً چہرہ، رخ، منہ، مکھڑا، سر، جبیں، پیشانی، ماتھا، ابرو، آنکھ، نین، پتلی، پلک، مژہ، مژگاں، رخسار، عارض، گال، گات (گال)، لب، ہونٹ، اَدھر (لب)، ناک، کان، ٹھوڑی، گردن، کلائی، شانہ، دوش، بغل، بازو، ہاتھ، بانہہ، انگلی، دل، سینہ، کاندھا، ناف، کمر، پیڑو، کولھا، ران، گھٹنا، پنڈلی، ٹخنہ، پاؤں، تلوا، ایڑی، وغیرہ۔ محبوب کے جسم و اعضا کے بیان کے ساتھ فراق نے محبوب کی آواز، گفتار، رفتار، چال، چاپ، انگڑائی، شوخی، مسکان، مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، جماہی، دھڑکن، سانس، زلف، گیسو، مانگ، جوڑا، بال، پہلو، گود، نظر، نگاہ، آنسو، تِل، قامت، قد، رنگ، روپ، جوبن، اور جوانی کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ محبوب سے تعلق رکھنے والی بعض دوسری چیزوں مثلاً ساڑی، چولی، گھونگھٹ، آنچل، کنگھی، کنگن ور چوڑی کو بھی نہیں بھولے۔
فراق نے محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کرتے وقت فارسی کی خوبصورت تراکیب کا بھی استعمال کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں، مثلاً روئے تاباں، جسمِ رنگیں، تنِ شفاف، تنِ نازک، گیسوئے شب گوں، شوخیِ نگہ، قدِرعنا، زلفِ پیچاں، پیکرِ نازنیں، وغیرہ۔
محبوب کا سراپا، اور اس کے حسن و جمال کی جھلک ان رباعیوں میں ملاحظہ فرمائیں :
مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں
خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں
رہ جانا وہ مسکراکے تیرا کل رات
جیسے کچھ جھلملا کے تارے چھپ جائیں
(رباعی ۱۳۳)
آواز میں وہ لوچ کہ بلبل چہکے
رفتار میں وہ موج کہ سبزہ لہکے
زلفوں سے چمک مانگتی ہے شامِ بہار
عارض میں حنا کا نرم شعلہ دہکے
(رباعی ۱۴۷)
وہ پینگ ہے روپ میں کہ بجلی لہرائے
وہ رس آواز میں کہ امرت للچائے
رفتار میں وہ لچک پون رس بل کھائے
گیسو میں وہ لٹک کہ بادل منڈلائے
(رباعی ۲۲)
انگڑائی سے نیند آفتابوں کو بھی آئے
وہ چال کہ ٹھوکرآسمانوں کو لگائے
وہ قد کہ جھنجھوڑ کر قیامت کو جگائے
وہ شوخ ادا کہ برق آنکھیں جھپکائے
(رباعی ۱۲۷)
امرت سے دھلی جبیں، ابرو کے ہلال
گردن کا یہ خم، یہ چھب، یہ حسنِ خدوخال
ہر عضو میں یہ لچک، یہ نکھ سُکھ کا رچاؤ
دب جاتا ہے صنعتِ اجنتا کا کمال
(رباعی ۱۳۰)
انسان کے پیکر میں اتر آیا ہے ماہ
قدیا چڑھتی ندی ہے امرت کی اتھاہ
لہراتے ہوئے بدن پہ پڑتی ہے جب آنکھ
رس کے ساگر میں ڈوب جاتی ہے نگاہ
(رباعی ۳)
شرنگار رس کی شاعری میں ’آلمبن‘ کے علاوہ ایک دوسرے انسانی وجود کا بھی حوالہ پایا جاتا ہے جسے ’آشرے‘ (vkJ😉 کہتے ہیں۔ محبت کا جذبہ اسی کے دل میں بیدار ہوتا ہے اور عشق کی چنگاری یہیں بھڑک کر شعلہ بنتی ہے۔ سنگھار رس کی رباعیوں میں فراق نے محبت کے تجربات، عشق کی واردات اور عاشق، نیز عاشق کے دل پر گذرنے والی کیفیات کو نہایت دل فریب و دل آویز انداز میں بیان کیا ہے:
جب چاند کی وادیوں سے نغمے برسیں
آکاش کی گھاٹیوں میں ساغر اچھلیں
امرت میں دھلی ہو رات اے کاش ترے
پائے رنگیں کی چاپ ایسے میں سنیں
(رباعی ۱۶۹)
جس طرح ندی میں ایک تارا لہرائے
جس طرح گھٹا میں ایک کوندا بل کھائے
برمائے فضا کو جیسے اک چندر کرن
یوں ہی شامِ فراق تیری یاد آئے
(رباعی ۱۷۱)
جس طرح رگوں میں خونِ صالح ہو رواں
جس طرح حیات کا ہے مرکز رگِ جاں
جس طرح جدا نہیں وجود و موجود
کچھ اس سے زیادہ قرب اے جانِ جہاں
(رباعی ۱۷۵)
رنگت تری کچھ اور نکل آتی ہے
یہ آن تو حوروں کو بھی شرماتی ہے
کٹتے ہی شبِ وصال، ہر صبح کچھ اور
دوشیزگیِ جمال بڑھ جاتی ہے
(رباعی ۲۴۲)
سنگھار رس کی شاعری کا ایک اور اہم عنصر بھی ہے جسے ’اُدّی پن‘ () کہتے ہیں۔ اس سے مراد ماحول اور فضا کی رنگینی ہے جسے دیکھ کر دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں اور محبت کے جذبات انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔ فراق نے ’روپ‘ کی رباعیوں میں ماحول کی خوب صورتی اور فضا کی رنگینی کا اکثر ذکر کیا ہے۔ ایسے میں انھیں محبوب کی یاد ستانے لگتی ہے اور اس سے ملنے کے لیے ان کا دل بے قرار ہو اٹھتا ہے:
جب کھول رہی ہوں پہلی کرنیں پلکیں
جب رات سمیٹتی ہو مہکی الکیں
جب ذرے کنمنا کے آنکھیں کھولیں
تیری آوازِ پا کے ساغر چھلکیں
(رباعی ۱۵۵)
جب تاروں کے کارواں ہوں ٹھہرے ٹھہرے
جب کشتیِ ماہِ نو ہو لنگر ڈالے
جب نیند کی سانس کہکشاں لیتی ہو
ایسے میں کاش تری آہٹ آئے
(رباعی ۱۵۸)
وہ اک گہرا سکوت کل رات گئے
طاقوں پہ دیے نیند میں ڈوبے ڈوبے
پلکیں جھپکا رہی تھیں جب ٹھنڈی ہوائیں
آنا ترا اک نرم اچانک پن سے
(رباعی ۱۵۳)
جب زلفِ شبِ تار ذرا لہرائی
جب تاروں نے پور انگلیوں کی چٹکائی
جب چاند کی بل کھائی جبیں ابھری ذرا
ایسے میں تری نیند بھری انگڑائی
(رباعی ۱۶۱)
جب تاروں نے جگمگاتے نیزے تولے
جب شبنم نے فلک سے موتی رولے
کچھ سوچ کے خلوت میں بصد ناز اس نے
نرم انگلیوں سے بند قبا کے کھولے
(رباعی ۱۵۶)
جب رات ہو جگمگاتی چادر اوڑھے
جب چاند کی آنکھ سے بھی غفلت ٹپکے
جب سازِ سکوت رات ہو ایسے میں
تیرے قدموں کی گنگناہٹ آئے
(رباعی ۱۶۳)
فراق نے اردو شاعری میں سنگھاررس کو جس طرح سے برتا ہے اور ’روپ‘ کی رباعیوں کی شکل میں جمالیاتی شاعری کے جو نمونے پیش کیے ہیں اس سے اردو شاعری، بالخصوص رباعی کی صنف کو ایک امتیازی شان حاصل ہوئی ہے، لیکن افسوس کہ اس باب میں فراق کا کوئی پیروکار پیدا نہ ہوا اور اردو شاعری میں سنگھار رس کی یہ روایت فراق کے ساتھ ہی ختم ہو گئی (قطع نظر جاں نثار اختر کے جنھوں نے ’گھر آنگن‘ کی مثال قائم کی)۔
حواشی
۱- فراقؔ گورکھپوری نے جوشؔ ملیح آبادی سے اپنی ’’ان بن‘‘ کا ذکر ’روپ‘ (۱۹۴۷ء) کے ’’انتساب ‘‘ میں کیا ہے جو ’’شاعرِ اعظم جوش ملیح آبادی کے نام‘‘ ہے۔ اس انتساب میں فراق نے جوش کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’جوشؔ،
کچھ دنوں کی بات ہے کہ میرٹھ کے مشاعرے سے ہم تم ساتھ ساتھ دلّی آئے اور ایک ہی جگہ ٹھہرے۔ رات باقی تھی، ہم لوگوں کے اور ساتھی ابھی سور ہے تھے، لیکن تھوڑ ے سے وقفے کے آگے پیچھے ہم تم جاگ اٹھے۔ باتیں ہونے لگیں۔ تم نے مجھ سے پوچھا کہ فراق تم رباعیاں نہیں کہتے؟ میں نے کہا: کبھی بہت پہلے کچھ رباعیاں کہی تھیں، ادھر تو نہیں کہیں۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ بعد کو دلّی کے اس قیام میں مجھ سے تم سے اَن بن بھی ہو گئی تھی اور آپس میں تیز تیز باتیں بھی ہو گئی تھیں جس کی تکلیف ہم دونوں کو بہت دنوں تک رہی، شاید اب تک ہے۔ ‘‘ (’روپ‘، ص ۴-۳)
راقم السطور کا خیال ہے کہ فراق و جوش میں یہ ’’اَن بن ‘‘ غالباً ۱۹۴۴ء کے اواخر میں ہوئی ہو گی، کیوں کہ اس کے فوراً بعد فراق نے ’’جسم و جمالِ محبوب‘‘ پر رباعیاں کہنا شروع کیں جن کا مجموعہ ’روپ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ فراق گورکھپوری اپنی تنقیدی کتاب ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’میں نے جنوری، فروری ۱۹۴۵ء میں تین سورباعیاں جسم و جمالِ محبوب پر کہیں۔ ‘‘ (ص ۱۳۱)
۲- ’روپ‘ ]سِنگھار رس کی رباعیاں [، ناشر: سنگم پبلشنگ ہاؤس، الٰہ آباد، ۱۹۴۷ئ۔ (سیدہ جعفر نے اپنی کتاب ’فراق گورکھپوری‘ ]نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی، ۱۹۹ء[ میں لکھا ہے کہ ’’۱۹۴۶ء میں ’روپ‘ کی اشاعت عمل میں آئی ‘‘ جو صحیح نہیں ہے۔ دیکھے متذکرہ کتاب کا، ص ۷۵)۔
۳- فراق نے ’’محبوب کے حسن سے متعلق ‘‘ لگ بھگ ’’چار سو‘‘ رباعیاں کہی تھیں، لیکن ’روپ‘ میں صرف ۳۵۱ رباعیاں ہی شامل کی گئیں۔ (دیکھیے ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ ]فراق گورکھپوری [، ص ۱۴۱ ]حاشیہ[)۔
۴- دیباچہ ]’’چند باتیں ‘‘[، ’روپ‘ (فراق گورکھپوری )، ص ۷۔
۵- ایضاً، ص ۱۰-۹۔
۶- فراق گورکھپوری، ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ (کراچی: مکتبۂ عزم و عمل، ۱۹۶۶ء)، ص ص ۱۲۸-۱۲۷۔
۷- ’’روپ‘‘ کے لغوی معنی حسن و جمال اور Beautyکے ہیں۔
۸- آٹھ بنیادی جذبے یہ ہیں : ۱) ’رتی‘ (محبت)، ۲) ’ہاس‘ (مزاح)، ۳) ’شوک‘ (غم)، ۴)’ کرودھ‘ (غصہ)، ۵) ’اُتساہ‘ (بہادری)، ۶) ’بھَے‘ (خوف)، ۷) ’جگپسا‘ (نفرت)، ۸) ’وِسمے‘ (حیرت واستعجاب)۔ انھی آٹھ بنیادی جذبوں کی بنیاد پر سنسکرت شعریات میں علی الترتیب آٹھ بنیادی رس بیان کیے گئے ہیں جو یہ ہیں : ۱) شرنگار رس =]سنگھار رس[، ۲) ہاسیہ رس، ۳) کرونا رس، ۴) رودر رس، ۵) ویررس، ۶) بھیانک رس، ۷) بیبھتس رس، ۸) اَدبھُت رس۔ سنسکرت کے بعض عالموں کا خیال ہے کہ بنیادی رسوں کی مجموعی تعداد نو ہے، لیکن نواں رس جو غالباً ’سنتارس‘ ہے متنازع فیہ ہے۔
۹- دیباچہ ]’’چند باتیں ‘‘[، ’روپ‘، ص ۱۴۔
۱۰- ’اردو کی عشقیہ شاعری‘، ص ۱۳۱۔
۱۱- شکیل الرحمن، ’ ’فراق کی جمالیات: ’روپ‘ کی رباعیاں ‘‘، مطبوعہ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ (نئی دہلی)، جلد ۵۵، شمارہ نمبر ۴۷-۴۶، (۸و ۱۵؍دسمبر ۱۹۹۶ء)، ص۱۔ ]کل ہند سہ روزہ سمینار کے موقع پر خصوصی پیش کش[۔
۱۲- ایضاً۔
۱۳- بہ حوالہ قاضی عبدالستار، ’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘ (علی گڑھ: ادبی پبلی کیشنز، آنند بھون، ۱۹۷۷ء)، ص ۴۰۔