باب سوم:حصہ ششم
علامت نگاری کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء
الفاظ جہاں انسانی زندگی میں ربط و ترسیل اور افہام کے سلسلے قائم کرتے ہیں وہاں ان کی ترتیب اور استعمال کے قرینے میں انسان کی ذہنی ترقی اور اوج و عروج کی داستان پوشیدہ ہے۔ الفاظ کوئی جامداورٹھوس شے نہیں ہوتے بلکہ ہرعہدمیں ان کی شکل اور ہیئت بدلتی رہی ہے۔ خاص طورپر جہاں انھیں ادبی تخلیق کے لیے استعمال کیاگیا ہے تو وہاں یہ تخلیق کار کے مزاج اور طرز احساس کے مطابق نیارنگ اختیارکرتے رہے ہیں۔ جس طرح سائنس کے تجربات کی صداقت اس کے اشاروں اورعلامتوں میں پنہاں ہوتی ہے اسی طرح شاعری اور ادب میں بھی انسانی تجربات کی صداقت اس کے رموز، کنایوں اور علامتوں کے ذریعے عیاں ہوتی ہے۔
دی نیو انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکامیں علامت کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں:
“The word Symbol comes from the Greek “Symbolon” which means contract, token, insignia and a means of
identification.” (1)
دی انسائیکلوپیڈیا آف امریکانامیں علامت کے معنی ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں:
“The use of word to suggest or to intimate, rather than to convey specific meaning, in an essential
characteristic of poetry.” (2)
ویبسٹرز انسائیکلوپیڈیاکے مطابق علامت کی تعریف یہ ہے:
“A word, phrase image or the like, having a complex of associated meaning and perceived as having inherent value, separable from that which is symbolized, as being part of that which as symbolized and as performing that which is normal function of standing for or representing that which is symbolized, usually conceived as deriving its meaning chiefly from the structure in which it appears and generally, distinguished from a sign.”(3)
دی ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز (The Dictionary of Literary Terms) میں علامت کا مفہوم یوں لکھا ہے:
“The word symbol derives from the Greek verb symballien, mark, emblem, token or sign…… A literary symbol combines an image with a concept (words themselves are a kind of symbol) it may be public or private, universal or local.”(4)
چارلس چاڈوک (Charles Chadwick) اپنی کتاب “Symbolism” میں علامت نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
“Symbolism is a way to communicate ideas and thoughts, indirectly negating the real object, depending on alternate emblem, sign or mark to regenerate the real
objects without emphasizing on the real object.”(5)
علامت کے بارے میں بیان کیے گئے درج بالا مفاہیم کی رُو سے ہمیں اس لفظ کے حتمی معنی تک پہنچنے میں مددملتی ہے۔ چنانچہ اس یونانی الاصل لفظ کو نشان، اشارہ، خیال اور کسی پس منظرمیں خوابیدہ مفہوم کے متبادل کے طورپر استعمال کیاجاتا ہے۔ ادبی اصطلاح میں علامت نگاری سے مراد کسی خیال یا فکرکو بالواسطہ طورپر کسی اشارے یا نشان کے طورپربیان کرنے کا نام ہے۔ ولیم یارک ٹنڈل(William York Tindall) کے مطابق:
’’ادبی علامت ان دیکھی شے کی ایسی مشابہت یا مماثلت ہے جس کے قلب میں محسوسات اور فکر کے اشارات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے۔‘‘(6)
اردو کے نقاد عارف عبدالمتین نے علامت کے معنی و مفہوم سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’علامت کے لغوی معنی ہیں نشان یا سُراغ اور اس لفظ کی توضیح یوں کی جاسکتی ہے کہ علامت کسی بھی نوعیت کی اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی بھی نوعیت کی دوسری چیز کی نشاندہی کرے یا اس کاسراغ مہیاکرے۔ بہ الفاظ دیگر علامت اس پُرمعنی وجود کا نام ہے جس کی معنویت محض اس سے ماورا کسی اوروجود کے حوالے میں مضمرہو۔ گُل کا لفظ ایک علامت ہے۔ اس کی معنویت اس نباتاتی وجود میں پوشیدہ ہے جو کہ سُرخ رنگ کی نرم و نازک پتیوں پرمشتمل پیکر لیے اپنی خوشبو سے باغ کے گوشے گوشے کو مہکارہاہو۔ اسی طرح بلبل کا لفظ ایک علامت ہے اور اس کی معنویت کا راز اس حیواناتی وجود میں پنہاں ہے جو اپنے خوشنما اور دیدہ زیب رنگوں والے پَروں کے ساتھ باغ میں اُڑتااور گلوں پرکمال شیفتگی سے منڈلاتا ہے۔‘‘(7)
غورکیاجائے تو الفاظ کے صحیح معنی اور امکانات علامتی اسلوب ہی نمایاں کرتے ہیں۔ جب لفظ علامت بنتا ہے تو وہ اپنی قوت کا اظہاربھرپور طریقے سے کرتا ہے۔ شعری علامت احساساتی اور تصوراتی سطح کی حامل ہوتی ہے جو پہلے احساساتی سطح پر قاری کو متاثرکرتی ہے اور پھرتصوراتی سطح پرذہن کی دوسر ی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتی ہے۔ اس اعتبار سے الفاظ کا علامتی استعمال دراصل زبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ جب الفاظ کو ادبی علامتوں کے طورپر استعمال کیاجاتا ہے تو ان کی حیثیت محض اشاروں اور کنایوں کی نہیں رہتی بلکہ وہ جن حقائق اور کوائف کی نشاندہی کرتے ہیں وہ بھی اس کی معنویت کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔شاعری اور ادب میں علامتوں کا مطالعہ عصری اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تمدنی اسالیب علامتوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتے ہیں اور وسیع ترمعانی میں ادبی علامتوں کے ذریعے کسی تمدن کی جذباتی اور فکری زندگی کی تشخیص بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی قطعی اور مکمل شکل میں علامتیں انفرادی اور عصری اظہار کا ایک اہم ذریعہ بھی ہوتی ہیں اور فنی اور ادبی اعتبار سے تخلیقی تجربے کے ادراک، تنظیم اور ترسیل کاجامع اور موثروسیلہ بھی۔ ڈبلیو۔بی۔ ژیٹس(W.B. Yeats) کے بقول:
’’علامتیں شاعری میں ایک بہت بڑی طاقت کی حیثیت رکھتی ہیں…وہ اس کو پہلودار بناکراس میں حسن پیدا کردیتی ہیں۔‘‘(8)
گویا شاعری جو الفاظ کو ترسیلِ جذبات و افکار کے ناگزیر ذریعے کے طورپر بروئے کارلاتی ہے، علامتوں سے قوت حاصل کرتی ہے اور اس میں اثر آفرینی پیدا ہوتی ہے۔ شاعری کا لطف یہی ہے کہ قاری کا ذہن علامت کے پردے میں پوشیدہ خیال سے ربط پیداکرلے۔ ڈاکٹروزیرآغا لکھتے ہیں:
’’علامت شے کو اس کے مخفی تصور سے منسلک کرتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جب شے علامت کا روپ اختیارکرتی ہے تو قاری کے ذہن کو اپنے مخفی تصورکی طرف موڑ دیتی ہے۔ جب شاعر کسی شے یا لفظ کو علامت کے طورپراستعمال کرتا ہے تو اپنی تخلیقی جَست کی مدد سے اس شے اور اس کے مخفی معنی میں ایک ربط دریافت کرتا ہے۔ شاعرکاسارا جمالیاتی حظ اس کی اِسی جَست کے باعث ہے۔‘‘(9)
ہم علامت کو اس پُرمعنی وجود کا نام دے سکتے ہیں جس کی معنویت اس سے ماورا کسی اور وجود کے حوالے میں مضمر ہے۔ چنانچہ شاعری میں علامت کے وسیلے سے معنوی تہیں پیداہوتی ہیں۔ گویاعلامت اپنے لفظی معنی کے علاوہ تہ در تہ احساسات اور مفاہیم کا ایک سلسلہ اپنے بطن میں چُھپائے ہوتی ہے۔ پھر ان معنوی پرتوں کا ایسا پائیدار رشتہ انسانی ذہن سے قائم کرتی ہے جس کے امکانات قوتِ متخیلہ کے ساتھ ساتھ وسیع ترہوتے چلے جاتے ہیں۔ علامت کو ایک خاص امیج قراردیاجاسکتا ہے جس میں سے اور متعددامیبحز برآمدہوتے ہیں۔ یہ خاص امیج دعوتِ فکر و خیال دیتا ہے۔ اس لحاظ سے علامت فکر کے لیے غذا کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور ذہنِ انسانی کے زنگ کو دُورکرکے اس میں حرکت کی صفت پیداکرتی ہے۔
الفاظ کے صحیح لغوی امکانات علامتی اسلوبِ بیاں ہی سے واضح ہوتے ہیں۔ علامت سازی ایک ہمہ گیرعمل ہے اور انسان کا ذہن مختلف خیالات، افکار، محسوسات اور تلازمات کے رشتوں کوعلامتی شکل میں متعین کرتارہتا ہے۔
علامتوں کی اقسام
علامتوں کے ابلاغ اورمعنویت کی بناپر ان کو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
۱۔ روایتی علامتیں(Conventional Symbols)
۲۔ اتفاقی علامتیں(Accidental Symbols)
۳۔ آفاقی علامتیں(Universal Symbols)
روایتی علامتیں نسل در نسل انسانی معاشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں لفظ اور شے میں بظاہرکوئی رشتہ نہیں ہوتا لیکن کثرتِ استعمال ان میں رشتہ پیدا کردتیا ہے۔ چنانچہ الفاظ کے زبان پر آتے ہی شے کے بارے میں ابلاغ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپرلفظ’’میز‘‘میں اور شے ’’میز‘‘ میں معنوی طور پر کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن ایک عرصے سے اِسے برابر میز ہی کہاجاتا ہے۔ اس لیے زبان سے لفظ ادا ہوتے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اشارہ کس شے کی طرف ہے۔ یہ مثال ان علامتوں پربھی صادق آتی ہے جو کسی مخصوص زبان کے ادب میں ایک زمانے سے استعمال ہوتی چلی آرہی ہوں اور ان کے معنی قطعیت کے ساتھ متعین ہوچکے ہیں۔ مثلاًاردو، فارسی شاعری میں گل و بلبل، برق و آشیاں، دشت و جنوں وغیرہ الفاظ روایتی علامتوں کے زمرے میں آئیں گے۔
اتفاقی علامتوں میں بھی علامت اور شے میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ روایتی علامتوں کے بالکل متضادہوتی ہیں۔ ایسی علامتیں رفتہ رفتہ جذباتی حدت سے محروم ہوجاتی ہیں اور صرف ذہنی یا فکری رہ جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ان کا انفرادی تعلق کمزور ہوجاتا ہے اور اجتماعی قدر زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ اتفاقی علامتیں مکمل طورپر ذاتی ہوتی ہیں اور ان کی تشکیل فرد کے ہی جذباتی تجربات سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کو کسی شہر یا گلی یا مکان کے سلسلے میں کچھ ایسا تجربہ ہوتا ہے کہ اس کا نام آتے ہی وہ منظرپوری تفصیل کے ساتھ ذہن میں ابھرآتا ہے اور جب وہ شخص اس کا ذکرکرتا ہے تو ایک خاص تاثرکے ساتھ کرتا ہے لیکن دوسرا شخص اس کے مفہوم کو اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک اس مقام سے متعلق ان واقعات کا رشتہ واضح نہ کردیاجائے جس کا تجربہ پہلے شخص نے کیا ہے اور جن کے بارے میں وہ اپنے تاثرکا ابلاغ دوسروں تک کرناچاہتا ہے۔
آفاقی علامتوں میں علامت اور اس شے میں گہرا اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے جس کی وہ نمائندگی کرتی ہے۔ انسان زندگی کی ارتقائی منزلوں سے گزرتے ہوئے مختلف جذباتی اور جسمانی مرحلوں سے گزرتا اور ان کے بارے میں مختلف تاثرات قائم کرتا رہا ہے۔ بقول ابنِ فرید:
’’اس ماحول کے بارے میں جس سے بنی نو ع ِانسان کے ارتقائے حیات کا تعلق رہا ہے تمام انسانوں کے تصورات یکساں ہیں۔ مثلاً آگ، پانی، ہوا،روشنی، زمین، پہاڑ، پیڑ وغیرہ۔ اس لیے ان کے بارے میں تمام انسانوں کے ذہنی و جذباتی تجربات، تاثرات یکساں ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں ردّ ِعمل میں تنوع دو وجوہ کی بناپرہوسکتا ہے اولاً عمرانی، ثانیاًمیلانی۔ یعنی ایک معاشرے یا آبادی کے لوگ کرۂ ارض کے انتہائی شمال میں رہنے کی بناپر سورج کو جمال کی علامت تصور کرتے ہوں لیکن خطِ استواپر رہنے والے لوگ اسے جلالِ محض قراردیتے ہیں۔ اسی طرح الائو میں جلتی ہوئی آگ نہ صرف زندگی اور جذبے کی علامت ہوگی بلکہ رحمت و محبت کی مظہربھی۔ لیکن یہی آگ بستی کو اپنے مہیب شعلوں کی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو قہر، غضب اور نفرت کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ غرض آفاقی علامت کے ذریعے ہم جذباتی تجربات کا مادی تجربات کی زبان میں اظہار کرتے ہیں۔ یہ زبان کسی فرد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں میں مشترک ہوتی ہے۔‘‘(10)
علامت کی تاریخ اور پس منظر
قدیم علامتوں پرغوروفکر کرنے والے ناقدین کے سامنے یہ اہم سوال رہا ہے کہ ان علامتوں کی تاریخ کیا ہے؟ اس سوال پر غورکرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی علامت کی تشکیل میں صرف فردِ واحد شامل نہیں ہوتا بلکہ اس میں ماحول، معاشرہ اور وقت بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ جب کوئی شاعر یا ادیب کوئی علامت استعمال کرتا ہے تو اس علامت کا تعلق صرف شاعر یا ادیب کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس منظر میں مختلف تہذیبوں اور ان تہذیبوں سے وابستہ انسانوں کے آثاربھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیلانی کامران علامتوں کے استعمال کو اظہار کی قدیم ترین صورت سے تعبیرکرتے ہیں۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ پہلے ادوارمیں شاعری میں علامتوں کا استعمال جزوی طورپر ہوتا تھا مگر جب یہ رجحان مکمل طورپر شاعری پر حاوی ہوا تو اس سے ابلاغ کا مسئلہ پیداہوا۔ انھوں نے علامت میں قاری کی شرکت کو ضروری قراردیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ علامت ایسی ہونی چاہیے کہ قاری بھی شاعرکے محسوسات اور یادداشتوں میں شریک ہوسکے۔ لیکن اگر قاری اِن یادداشتوں اور محسوسات سے لاتعلق رہتا ہے تو اس صورت میں قاری کے لیے علامت کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔(11)
غلام جیلانی اصغر کے خیال میں شاعری ہر دور میں اپنا مزاج بدلتی رہتی ہے اس لیے اس کی علامات کے معنی اور مفہوم میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس ریاضی کی علامات متعین ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک غزل میں مستعمل علامتیں قدیم دور سے لے کر اب تک ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اس لیے یہ علامتیں اپنی تازگی کھوبیٹھی ہیں۔ وہ یہ خیال ظاہرکرتے ہیں کہ ریاضی اور سائنسی علامات کا تاثراجتماعی جبکہ شاعر کی تخلیق کردہ علامات کا کردار اور تاثر انفرادی اور شخصی ہوتا ہے۔(12)
ڈاکٹرسجاد باقررضوی نے دیگر تہذیبوں کی علامتوں کے بجائے اپنی تہذیب کو فوقیت دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فرد اور قوم کے شعور میں اضافہ اپنی تہذیبی علامتوں کا شعورپیداکرنے، انھیں سمجھنے اور جذب کرنے ہی سے ممکن ہے۔ اپنی تہذیبی علامتوں کو فراموش کرنے سے قوم انحطاط و زوال کاشکار ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
’’کسی قوم کے انحطاط کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عزائم کو بھول جاتی ہے جو اس کے افراد کی جذباتی زندگی کو مربوط رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ انحطاط سیاسی اور سماجی ہونے سے پہلے جذباتی زندگی کا انحطاط ہوتا ہے۔ تاہم قوم کے تخلیقی ذہن علامتوں کو اپنے اندر رچائے بسائے ہوتے ہیں اور ان ہی علامتوں کے ذریعے اپنے لاشعور سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔‘‘(13)
شادامرتسری نے ہندی دیومالا کے مختلف کرداروں کے حوالے سے علامت کی ادبی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب ہم ہندی دیومالاکی کہانیوں کے کرداروں کی صفات کو کسی دوسرے شخص میں دیکھتے ہیں تو ہم اسے اس کردار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شخص کی متعددصفات کوگنوانے کے بجائے فقط ایک ہی لفظ سے اس کی تمام خوبیوں یا خامیوں کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ انھوں نے علامت کو اپنے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پرزوردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جدیدانسان اپنی شاعری میں موجود ماحول اور زندگی سے علامتیں اخذکرکے استعمال کرے۔ شادامرتسری کے خیال میں:
’’ علامت بذاتِ خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ شاعر ہے جو علامت کو ایک جہانِ معنی عطاکرتا ہے اور جس کا طریقۂ اظہار علامت کے مفہوم کو بیان کرتا ہے اور اس طرح شاعر اپنی شاعری میں ایک نیا حسن اور تازگی پیداکرتا ہے۔ علامت ایک ایسا خزانہ ہے جس کو صرفِ بے جا سے بچانا ہمارا فرض ہے اور اس کے موزوں صَرف سے ہی شاعری کی دنیامیں معنی اور مطالب کے نئے دروازے کھُل سکتے ہیں۔‘‘(14)
ڈاکٹروزیرآغا کا موقف ہے کہ علامت میں ابہام ضروری ہوتا ہے لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی علامت کا استعمال اس طرح کرے کہ قاری اس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ ان کے نزدیک علامت کا قاری تک ابلاغ بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر فن پارے میں حظ افروزی ممکن نہیں۔ وہ علامت کی تخلیق کے سلسلے میں آزادانہ تلازمہ خیالی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں انفرادی علامتوں میں بھی اجتماعی تجربات شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹروزیرآغا نے علامت کو استعارے کی ترقی یافتہ شکل قراردیا ہے۔ ان کے نزدیک جب استعارے میں سے نئے نئے معنی پھُوٹتے ہیں اور وہ اپنے لغوی حدود سے تجاوزکرجاتا ہے تو وہ علامت کے مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک تمثیل کے ذریعے علامت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگراندھیری رات ہے اور میدان میں صرف ایک قمقمہ روشن ہے اورآپ اس قمقمے کی طرف آرہے ہیں تو جسم سے جڑا ہواآپ کا سایہ آپ کا تعاقب کرے گا اور قدم بہ قدم مختصرہوتاچلاجائے گا۔ حتیٰ کہ جب آپ قمقمے کے نیچے کھڑے ہوںگے، سایہ آپ کے قدموں میں سمٹ کرغائب ہوجائے گا۔مگرجب آپ قمقمے سے آگے بڑھنے لگیں تو یہی سایہ آپ کے قدموں سے نکل کر آگے آگے چلنے لگے گا اور بتدریج بڑا ہوتاجائے گا تاآنکہ اندھیروں میں جذب ہوکرمعدوم ہوجائے گا۔ جب شے صرف ایک معنی کی حامل ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ نشان ہے۔ جب یہ شے ایک اور شے سے مشابہت کی بناپررشتہ قائم کرے تو یہ تشبیہ یا استعارہ ہے اور جب یہی شے آگے بڑھ کر معنوی توسیع کی علمبرداربن جائے تو علامت ہے۔‘‘(15)
ڈاکٹرمحمداجمل کا موقف یہ ہے کہ ہرخالص شعری واردات علامتی ہوتی ہے۔وہ شعری رویے کے مابین واسطے کا کام سرانجام دیتی ہے۔ شعور ایک سوال پوچھتا ہے اور جواب میں لاشعور کوئی علامت یا علامتوں کا کوئی سلسلہ جس کا اساطیر اور لوک دانش میں اظہار ہوا ہو فراہم کردیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہرعلامت کو ایک پہلوسے شعوری اور دوسرے پہلو سے لاشعوری کہاجاسکتا ہے۔ کسی علامت کے لاشعوری معنی کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مدھم سُروں پردھیان دیاجائے۔ دبی دبی آوازوں کو سُنااور بین السّطور اچھی طرح جھانک لیاجائے۔‘‘(16)
ڈاکٹرسلیم اختر علامت کو تخلیق کار کے شعور میں جھانکنے کا وسیلہ بھی قراردیتے ہیں اور نفسی توانائی کی شدت کی پیمائش کا معیاربھی۔ ان کا کہنا ہے کہ:
’’تخلیق کار میں نفسی توانائی کی شدت کی پیمائش علامات سے کی جاسکتی ہے۔ علامت خوابوں کی ہو یا کسی جدیدنظم کی، ان سب کا مقصد ایک ہے۔ یعنی یہ نفسی توانائی کے اخراج کا ایک اوراندازبھی ہے۔ معنی خوابوں میں بھی ہیں اور نظم بھی ان ہی سے پُرمعنی ہوتی ہے۔‘‘(17)
شمیم احمد کے خیال میں علامت کی تشکیل کے لیے جہاں اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کا ہوناضروری ہے وہاں اظہار کے پیرایوں پرمکمل گرفت کاہونا بھی لازم ہے۔ اس خیال کو وہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
’’کبھی بڑا ادب بغیر علامات کے پیدانہیں ہوتا اور علامات بغیرپُرقوت تخیل، زبان پر اعلیٰ درجے کی قدرت اور مہارت اور الفاظ سے زندہ رشتے کے بغیروجود میں نہیں آتیں۔‘‘(18)
علامت کے حوالے سے ناقدین کے خیالات اور آراء کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ علامت زبان کا ایسا تخلیقی اور تخیلی استعمال ہے جو اپنی وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے ہمہ گیر ہے۔ علامت کا تعلق فرد سے بھی ہے اور اجتماع سے بھی۔ یہ ماضی سے بھی اپنا تعلق استوارکرتی ہے اور حال اور مستقبل سے بھی ربط قائم کرتی ہے۔ یہ قدیم تہذیبوں اور اساطیری روایات سے بھی اپنا ناتاجوڑتی ہے اور تہذیبی سطح پرجدید منظرنامے میں بھی اپنا قدم مضبوطی سے جماتی ہے۔ انسانی نفسیات کے حوالے سے اس کی جلوہ فرمائی شعورمیں بھی ہے اور لاشعور میں بھی۔ اس کے ذریعے ہم تخلیق کار میں نفسی توانائی کی شدت کو ماپ سکتے ہیں اور انسان کے خوابوں میں پھیلے ہوئے معانی کوسمیٹ سکتے ہیں۔ علامت کی اثرانگیزی معاشرے کی زندہ حقیقتوں میں سرایت کیے ہوئے ہے اور کائنات کے جملہ مظاہر انسان کی ذات میں عکس ریزہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
معنوی لحاظ سے علامت نگاری سے ملتی جلتی ایک اور اصطلاح تمثال نگاری(Imagism) بھی ہے۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں۔عام طورپرتمثال ’’زبان و بیان کے ذریعے اشیائ، افعال، اعمال، احساسات، خیالات، نظریات، ذہنی کیفیات اور بہت سے حسّی و غیرحسّی تجربات کے اظہار پر محیط ہے۔‘‘(19) تمثال نگاری میں تمثال(Image) لفظوں سے بنائی ہوئی تصویر کو کہاجاتا ہے۔(20) ضروری نہیں کہ یہ تصویر ذہنی ہی ہو۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں لفظی، خیالی اور ادراکی تصویر میں امتیازکرناہوگا۔
لفظی تصویر میں تمثیل، استعارے یا کنائے سے کام نہیں لیاجاتا جو علامت نگاری اور تمثال نگاری کی ہی مختلف صورتیں سمجھی جاتی ہیں۔ لفظی تصویر ہو بہو وہی ہوتی ہے جو دکھائی دیتی ہے۔ خیالی اور ادراکی تصویر انسان کی ایک یا تمام حسیات کوالگ الگ کرکے یا ایک دو یا پانچوں حسیات کے امتزاج سے بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔
علامت نگاری اور تمثال نگاری کا مقصد یہ رہا ہے کہ’’ لمبی لمبی وضاحتوں سے بہتر ہے کہ شاعر ایک ایسی تصویر سامنے لائے جس پر غورکرنے سے افعال کی کئی سطحیں اجاگرہوجائیں۔‘‘(21) اور کوئی شے، واردات یا تجربہ اس میں سمٹ جائے۔
علامت نگار یا تمثال پرست شعراء اشاریت کی بجائے قوتِ متخیلہ کو تحریک دے کر واضح اور مخصوص پیکر تراشتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے خیال کی ترسیل کرتے ہیں۔ تمثال نگاروں کا اسلوبِ بیاں صنائع، بدائع، تشبیہات اوراستعارات سے پُر ہوتا ہے۔
Sybmolسے مراد علامت کے علاوہ رمز بھی لیاجاتا ہے اور Image کے معنوں میں بھی رمز شامل ہے۔ اس لیے علامت نگارشعرا میں علامت نگاری ، رمزیت اور تمثال نگاری ایک ساتھ تلاش کی جاسکتی ہیں چاہے وہ ژیٹس ہو، ایذراپائونڈ ہو،بودلیئرہو ، میر ہو، میرزا ہویا مصحفی ہو۔
علامت کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ علامت یا تمثال یا رمزمیں اپنی بات ابہام پیداکرکے براہِ راست نہ کہنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جبرواستبداد کے ماحول میں اس اسلوب کے ذریعے، سچائی کا اظہار اس لیے کیاجاتا ہے کہ اس کی مختلف تاویلیں ہوسکیں، اس کی تشریح مشکل ہو اور اس طرح کسی ظالم یا جابر حکومت کے ظلم سے بچاجاسکے۔ ناسازگار سیاسی، سماجی ماحول میں بات علامت کے پردے میں چھپاکر کہنا عام ہوجاتا ہے۔ بعض ناقد اسے فرار یا بزدلی بھی کہہ بیٹھتے ہیں لیکن دراصل یہ اپنی بات کہنے کا ایک اسلوب رجحان اور ڈھنگ ہے۔ باطنی اور روحانی علوم میں بھی اس انداز کو ناقدرشناسوں اور کم فہم لوگوں سے روحانی اسرارورموز کو الگ رکھنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔
مغرب میں تمثال نگاری اور علامت نگاری انیسویں صدی کے نصف آخر میں بطورِ تحریک نمودار ہوئی تھیں۔ بودلیئر اس تحریک کا پیش روتھا۔ راںبو، ورلینن، میلارمے، والیری، ژیٹس، ایذراپائونڈ اور ایلیٹ اس تحریک کے نمایاں شعرا میں سے ہیں۔فرانسیسی شاعری میں یہ رجحان تیزی سے انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں دیکھنے میں آیا۔یہ تحریک سائنس کے متعین اصول و ضوابط کے خلاف ایک ردّعمل تھی جس کے نتیجے میں پابندشاعری کے مقابلے میں آزاد نظم نے رواج پایا جن میں طبیعی اور عمرانی معاملات کی تصویرکشی نہ ہو۔(22)
اردو دنیا سے میرا جی نے بودلیئراور میلارمے کو متعارف کروایا جس سے اردو شاعری کو علامت نگاری اور تمثال نگاری کے حوالے سے پرکھاجانے لگا ورنہ علامت نگاری تو ہرعہداور ہرزبان کی شاعری میں ابتدا ہی سے موجود رہی ہے اور اسی لیے اس تحریک سے بہت پہلے کی جانے والی شاعری کی تفسیر بھی بعض نقادوں نے اس تحریک کے زیراثر کی ہے ،اور ورجل ، شیکسپیئر اور دانتے کی شاعری کو بھی تمثالوں کی توضیح کے لیے استعمال کیا ہے۔(23)
اردوشاعری میں علامت نگاری کی روایات
تخلیقی عمل کے دوران میںتخلیق کار کبھی لاشعوری تجربے سے گزرتا ہے اور کبھی شعوری مرحلے سے کبھی لاشعورمیں پڑا ہوا لفظ یا لفظوں کا ایک سلسلہ شعر میں منتقل ہوجاتا ہے اور کبھی لفظوں کی تلازماتی اور انفرادی معنویت کو مدّ ِنظررکھتے ہوئے تخلیق کار شعوری طورپر ان کی تخلیق کرتے ہیں۔ کبھی ایک لفظ اپنی علامتی معنویت کے ساتھ غیرشعوری طورپراچانک ذہن میں ابھرتا ہے اور تخلیق کار اس لفظ کو مرکزی حیثیت تفویض کرتے ہوئے اس کے گردتلازمات اور انسلاکات کا ایک ایسا دائرہ بنادیتا ہے جو اس لفظ کے ابلاغ اور ترسیل میں پوری معاونت کرے۔ دراصل ایک تخلیق کار اپنے لاشعور میں پڑے ہوئے لفظ یا لفظوں کے کسی ایک سلسلے سے اپنا تخلیقی سفر شروع کرتا ہے اور جیسے ہی وہ لفظ یا لفظوں کے سلسلے سے آگے بڑھ کر اپنی نظم یا غزل تخلیق کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ شعور کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ تاہم اس امرکے لیے کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کی مدد سے واضح طورپر علامت کو شعوری یا غیرشعوری عمل قراردیا جاسکے۔ اصل مقصد علامتوں کے تعین کے بعدکسی فن پارے میں اس کی حیثیت اورعمل کی تاویل سے ہے اور اس کا جواب تین طریقوں سے دیاجاسکتا ہے:
۱۔ شاعرکاوہ ذاتی تجربہ جو علامت کی تشکیل کا منبع ہے۔ یہ منبع خواہ فطری
دنیاہویا انسانی بدن یا آدمی کی مصنوعات۔
۲۔ کسی تخلیق میں ان علامتوں کی معنوی حیثیت۔
۳۔ وہ طریقہ جس میں یہ علامتیں قوت حاصل کرتی ہیں۔
کلاسیکی اردو غزل کا علامتی نظام اس دور کے شعراء کے نظریۂ کائنات اور تصورِ حیات سے پھوٹتا ہے۔ خدا، کائنات اور انسان، یہ وہ تین موضوعات ہیں جن کے آپس کے تعلق سے اس دور کے شعراء کا فکری نظام مرتب ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں استعمال ہونے والی علامتوں کا معنوی عکس بھی بیک وقت ان تین سطحوں پرمنعکس ہوتا ہے اور غزل کا یہ علامتی نظام صوفیانہ فکرکے تابع ہے۔ صوفیانہ روایت کی طرح علامت بھی اپنے اندر مختلف درجات اور سطحیں رکھتی ہے۔ وہ زندگی کے ادنیٰ مظاہر سے بلندہوکر حقیقت الحقائق تک رسائی حاصل کرتی ہے اور یوں زندگی کے عمودی رُخ کو ظاہرکرتی ہے۔ لیکن زندگی کی مابعدالطبیعاتی اور روحانی وارداتوں کی مظہرہونے کے ساتھ ساتھ وہ مادی زندگی سے بالکل لاتعلق بھی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ مادہ اور اس کی تمام شکلیں بنیادی طورپر حقیقتِ واحدہ کا ہی حصہ ہیں۔
یہ علامتی الفاظ، روحانی اور ماورائی حقائق کی رمزہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے اطراف و جوانب کو بھی چُھوتے ہیں۔ اردو غزل کا یہ علامتی نظام فارسی کی علامتی شاعری سے مستعار ہے۔ گل و بلبل و پروانہ وغیرہ فارسی شاعری سے ہمارے شعری نظام میں علامت کے طورپر منتقل ہوئے۔تاہم انھیں فارسی کی طرح ہمارے ہاں علامت بننے کے لیے ارتقائی منازل سے نہیں گزرناپڑا۔ چنانچہ بُلبل کی نغمہ سرائی، آہ و زاری میں تبدیل ہوگئی اور عاشق کا کردار اداکرنے لگی۔ گل اپنے حسن، تازگی اور شگفتگی کے سبب محبوب کے مشابہ ہوگیا۔ یوں گل اور بلبل کا تلازمہ عاشق اور محبوب کی علامت بن گیا۔ شمع پہلے صرف روشنی کا کام دیتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس میں سوزوگداز پیداہوناشروع ہوگیا اور وہ غم کی نمائندگی کرنے لگی۔ پھرشمع کے گردپروانے کے والٰہانہ طواف اور جاں سپاری نے بھی عاشق کے بے لوث خلوص اور ایثار کی معنویت اختیارکرلی اور شمع و پروانہ کا تلازمہ عاشق و معشوق، سوزوگداز اور نوروضیا کے مفاہیم اداکرنے لگا۔ دبستانِ دہلی کے شعراء کے یہاں اپنے خاص پس منظر اور مخصوص طرزِ احساس کے ساتھ ان علامات کا استعمال ملتا ہے۔ ڈاکٹرنورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں:
’’دہلی دبستانِ شاعری میں معنوی اعتبار سے روحانیت یعنی قلبی واردات، تصوف، علوخیال، ہجرنصیبی، انفرادیت، احساس اور لسانی حوالے سے وضاحت، سادگی، سلاست اور آہ کی اصطلاحوں سے واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ دہلوی شعراء نے جو علامتیں استعمال کی ہیں ان میں بھی یہی طرزِ احساس دکھائی دیتا ہے۔‘‘ (24) ؎
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے
(درد)
o
ایک سب آگ ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
(میر)
o
غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
(غالب)
اردو شاعری جب لکھنؤ پہنچی تو یہاں تہذیب وتمدن پرتکلّف اور تصنّع کا رنگ چڑھ رہاتھا اور زبان میں وسعت پیداہوچکی تھی۔ اس لیے شاعری کو جدید رنگ میں پیش کرنے کی اس سے بہتر اور کوئی صورت ممکن نہ تھی کہ اسے صنعت گری بنادیاجائے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرابوللیث صدیقی لکھتے ہیں:
’’شاعری اور صنعت گری، جذبات نگاری اور الفاظ کی شعبدہ کاری کو ملاکر لکھنوی شعراء نے ایک نیا رنگ پیداکردیا۔ ہررنگ کی نمایاں صفت صنعت ہی کو ٹھہرایاگیا۔ رعایتِ لفظی یا ضلع جگت جواوّل الذکر کی ایک بدنماشکل تھی، اس کے باعث ظہور میں آئی۔ تشبیہ اور استعارے میں سادہ اور فطری تشبیہات کے بجائے دورازکار تشبیہات شاعری میں درآئیں اور اردو غزل میں جو علامتیں استعمال ہورہی تھیں ان کاسطحی استعمال ہونے لگا۔‘‘(25) ؎
مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغِ ہجراں کا
طلوعِ صبحِ محشر چاک ہے میرے گریباں کا
(ناسخ)
o
یہ روشنی تھی برقِ تجلی سے آشنا
بیگانہ شمعِ طُور سے اِک شمعداں نہ تھا
(منیرشکوہ آبادی)
o
شاعری کا علامتی نظام ابتداً حسن و عشق کے گردگھومتا رہا۔ چونکہ ان جذبات کے بالواسطہ اظہارکے لیے گل و بُلبل کے پیرائے اپنی علامتی قوت کی بنا پر موزوں ترین قرارپاتے تھے۔اسی لیے انھی پیرایوں کو اظہار کا وسیلہ بنایاگیا لیکن رفتہ رفتہ ان تلازموں میں معنویت کی وسعت پیداہونے لگی اور حسن و عشق اورغم کے علاوہ یہ پیرائے اپنے تلازمات کے ساتھ دوسرے مفاہیم کی بھی ادائیگی کرنے لگے۔ مثلاً:
’’باغ کے تلازمات میں سرو، قمری، گُل، بلبل، صیاد، گل چیں، باغبان، آشیاں، قفس، دام و دانہ، یاسمین، نسرین، نسترن، ارغوان، سوسن اور خاور وغیرہ، دنیا کے معنوی تلازمات اور حقیقت کے مختلف پہلوئوں کے لیے علامتوں کا کام دینے لگے۔ اس طرح محفل کے حوالے سے شمع، پروانہ، شراب، کباب، پیالٰہ، صُراحی، خُم، جُرعہ، شیشہ، خمار، صبوحی، ساقی، مطرب، چنگ، رباب، پردہ، ساز وغیرہ میں علامتی معنویت پیداہوئی اور یہ تمام تلازمات زندگی کے مختلف مفاہیم اور حقیقت کی مختلف اشکال کو ظاہرکرنے لگے۔‘‘(26)
اردو شاعری نے فارسی شاعری یا عجمی تہذیب کی علامات کو قبول کیاتو اس لیے کہ ان لوگوں نے اس تہذیبی روایت کو اپنی فکر سے ہم آہنگ پایا۔ بقول انتظارحسین:
’’ہماری علامتیں کچھ براہ ِراست ہمارے مذہبی تجربے سے ماخوذ ہیں اور ان تہذیبی روایتوں سے جن کی گہری تہ میں یہ مذہبی تجربہ پانی کی رَو کی طرح جاری ہے۔‘‘(27)
عجمی تہذیب کے ساتھ ہمارا واسطہ موخرالذکر کی نوعیت کا ہے۔ مستعار ہئیتی سانچوں مثلاً غزل، مثنوی،قصیدہ وغیرہ میں شعراء انھی مضامین کی عکاسی کرنے لگے جو فارسی شاعری میں رائج تھے۔ کلاسیکی اردو غزل میں علامتی نظام زیادہ تر تین مثالوں سے ظاہر کیاجاسکتا ہے:
اول: باغ اور اس کے متعلقات
دوم: شراب اور اس کے لوازمات
سوم: معاشرتی حوالوں سے اور ان میں سے خاص طورپر طرز آرائش کے ذریعے۔ اس نوعیت کی علامتوں میں سب سے زیادہ علامتی معنویت ’’آئینہ‘‘ نے حاصل کی۔
درج بالا علامتی وسائل میں سے باغ اور اس کے متعلقات نے اپنی زبردست علامتی قوت کی بناپر بے پناہ علامتی مفاہیم پیدا کیے۔ باغ کے تلازمات میں سے ’’گُل و بلبل‘‘کثیر جہات کو سامنے لاتا ہے ؎
گُل و بُلبل کا گرم ہے بازار
اس چمن میں جدھر نگاہ کرو (غالبؔ)
o
درد منداں باغ میں ہر گز نہ جاویں اے ولی!ؔ
گر نہ دیوے نالہ و بُلبل سُراغِ عاشقی (ولیؔ)
o
خدا جانے صبا نے کیا کہی غنچوں کے کانوں میں
کہ تب سے دیکھتا ہوں عندلیبوں کو فضائوں میں (سراجؔ)
o
لائی ہے جب سے بات چمن کی زبان پر
رنگیں ہوا ہے تب سے بیاں عندلیب کا (حاتمؔ)
درج بالا اشعار میں گُل و بُلبل کے تلازمات اپنے بنیادی مفاہیم میں حسن و عشق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم اپنے علامتی عمل میں یہ زندگی کے دوسرے وقوعوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ یہ علامتی سطح وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوجاتی ہے ؎
گل کی جفا بھی دیکھی، دیکھی جفائے بُلبل
یک مُشت پر پڑے ہیں گلشن میں جائے بُلبل (آبرو)
o
اللہ رے، عندلیب کی آوازِ دل خراش
جی ہی نکل گیا جو کہا اس نے ہائے گُل (میر)
o
ہے کس قدر ہلاکِ فریب وفائے گُل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل (غالب)
قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو!
خبر گُل کی ہم کو سناتا رہے گا (درد)
ان اشعار میں معنی کا کثیرالجہاتی عمل کارفرما ہے۔ مثلاً شعرمیں گل سے محبوب کی طرف، بلبل سے عاشق کی طرف اور گلشن سے دنیا کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ یعنی اس دنیا میں محبوب کی جفائوں کے مقابل عاشق کی وفا کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بالآخر فناہوجاتا ہے۔ اس سے آگے چلیں تو گل سے مراد حاکمِ شہر، بلبل سے مراد رعایااور گلشن شہر کا استعارہ ٹھہرتا ہے۔ اس سے مزید آگے بڑھیں تو گل قادرِ مطلق کی علامت ہے یعنی مشیّتِ ایزدی کے سامنے ہم اس حد تک مجبور ہیں کہ فناپذیرہیں مگر اُف نہیں کرسکتے۔
برصغیر پرانگریزوں کے تسلط کے بعدزندگی کے ہرشعبے میں تبدیلیاں آئیں۔ ادب بھی ان گہرے اثرات سے دامن نہ بچاسکا۔ چنانچہ کلاسیکی طرزِ فکر کی جگہ انجمنِ پنجاب کے مشاعرے اور علی گڑھ تحریک کے تحت مقصدیت و سادگی نے اردو شاعری پر اپنا رنگ جماناشروع کردیا۔ انجمنِ پنجاب کے مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعراء کا بنیادی مقصد خیالات کی ترسیل تھا۔ اس لیے استعارہ اور استعاراتی اندازِ بیان مردُود قرارپائے اور شعر کا کمال یہ ٹھہرا کہ شاعر کا مافی الضمیر کماحقہٗ ادا ہوا چنانچہ مولانا محمدحسین آزاد نے پرانی شاعری کے استعاراتی انداز پر ردّ ِعمل کا اظہارکرتے ہوئے لکھا کہ:
’’تم استعارات کی گہرائیوں میں دھنس کے اپنے آپ کو تباہ کرچکے ہو۔ تشبیہات و استعارات اس طرح استعمال ہونے چاہئیں کہ وہ کیفیات کا آئینہ ہوں۔ جن سے واقعات واضح ہوسکیں، نہ کہ زیادہ دھندلے ہوجائیں۔ ‘‘(28)
آزاد کی نظرمیں استعارہ مافی الضمیر کی ادائیگی میں معاونت کے بجائے بیان کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور مضامین استعارے میں گم ہوجاتے ہیں چنانچہ آزادیہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ:
’’وضاحت کے معنی یہ ہیں کہ خوشی یا غم، کسی شے سے رغبت یا اس سے نفرت، کسی شے سے خوف یا فکر، یا کسی شے پر مہروغضب، غرض جو خیال ہمارے دل میں ہو، اس کے بیان سے وہی اثر، وہی جذبہ، وہی جوش سننے والوں کے دلوں پر چھاجائے جو اس مشاہدے سے ہوتا ہے۔‘‘(29)
دوسری طرف علی گڑھ کے روحِ رواں سرسیداحمدخاں ایک سائنسی اور منطقی ذہن رکھنے والے مُصلح تھے۔ وہ قوم کی اصلاح کے لیے کسی مابعدالطبیعاتی یا ماورائی نظام کی جگہ ٹھوس حقائق کے قائل تھے۔ ان کے سارے فکری نظام کی بنیاد عقلیت پر ہے۔ چنانچہ ان کی یہی عقلیت پسندی ادبی امور کے سلسلے میں بھی ظاہر ہوئی۔انجمن پنجاب کے مشاعروں کے بارے میں انھوں نے لکھا:
’’یہ بات سچ ہے کہ ہمارے اِن باعثِ افتخار شاعروں کو ابھی نیچرکے میدان میں پہنچنے کے لیے قدم بڑھانا ہے اور اپنے اشعار کو نیچرل پوئٹری کے ہمسر کرنے میں بہت کچھ کرنا ہے۔ مگر ان مثنویوں کو دیکھنے سے اتنا خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ خیالات میں کچھ تبدیلی ضرور پیداہوئی ہے۔‘‘(30)
سرسیداحمدخان نیچرل شاعری کو ٹھوس حقائق کے ہم معنی خیال کرتے تھے۔ ان کے نزدیک حواس کے باہراور مابعدالطبیعات کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ ان کی یہی منطقی سوچ اور سائنسی طرزِ احساس علامت نگاری کے مانع رہا۔ علی گڑھ تحریک کے اہم ستون مولاناالطاف حسین حالی، سرسید کے جملہ نظریات اور تصورات سے مکمل متفق تھے۔ چنانچہ مقدمہ شعروشاعری میں ملٹن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ اور جوش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’سادگی سے مراد محض لفظوں کی سادگی نہیں بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہئیں جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کی شارع عام پرچلنا، بے تکلفی کے سیدھے راستے سے ادھر اُدھرہونا، فکرکوجولانیوں سے باز رکھنا، اس کا نام سادگی ہے۔‘‘(31)
علامت نگاری ایک پیچیدہ اورتہ دار عمل ہے۔ جہاں معانی کی بے شمار سطحیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ حالی جس طرح کے سادہ اور اکہرے طرزِ اظہار کا تقاضا کرتے ہیں وہ علامت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حالی کا زور معانی پر ہے جبکہ علامت میں لفظ بھی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ علامتی الفاظ ہی ہوتے ہیں جو شعر کو کثیرالجہات بناتے ہیں۔ علامت کے حوالے سے شعر میں معانی کی ہمہ رنگ چھوٹ پڑتی ہے۔ اس عمل میں بعض اوقات اشکال کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن حالی کے نزدیک عمدہ شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سریع الفہم ہو۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ اصمعی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اصمعی نے عمدہ شعر کی یہ تعریف کی ہے کہ اس کے معنی لفظوں سے پہلے ذہن میں آجائیں۔‘‘(32)
حالی کے نزدیک شاعری کی بنیاد قدرتی عناصر پرہونی چاہیے اور لفظی اور معنوی دونوں حوالوں سے وہ فطرت کے موافق ہو۔ اپنے اسی موقف کی بناپر وہ شاعری میں مبالغے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ لفظوں کے بطون میں غوطہ زن ہونے کے بجائے محض ان کی ظاہری سطح تک رہ جاتے ہیں۔
علی گڑھ تحریک اور اس کے زیراثر مولاناحالی کے برعکس اکبر الٰہ آبادی کا طرزِ احساس مشرقی تہذیب سے گہرا ربط رکھتا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں ہمیں لفظ کا علامتی استعمال نظرآتا ہے۔ اکبرالٰہ آبادی کی شاعری قدیم اقدار اور جدیدتہذیب کی آویزش کا منظرنامہ پیش کرتی ہے اور اسی آویزش سے ان کی علامتیں ابھرتی ہیں۔ ڈاکٹروحیدقریشی لکھتے ہیں کہ:
’’ان(اکبر)کی علامتیں اپنے ماحول کی دریافت ہیں۔ انگریزی تعلیم، عیسائیت اور لادینی اور مجلسی آداب ، طریقۂ بودوباش کے عمومی مظاہر، وہ اندازِ نظر جو برطانوی تصورات کا لازمی حصہ تھا، سائنس ومذہب کی آویزش، مادی اور روحانی اقدار کا تصادم غرض کہ وکٹورین عہد کے بعض مخصوص رجحانات اور اس سے کچھ پہلے کے فلسفیانہ افکار کی پرچھائیاں مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ پاک و ہند پر بھی پڑنے لگی تھیں۔ اس کے مقابلے میں قدیم مذہبی تصورات، قدیم فلسفیانہ اندازِ فکر، مغل کلچر کے مجلسی آداب،اور مرزامنشی، ان سب کا تصادم لازمی تھا۔‘‘(33)
یوں تو اکبر کے ہاں قدیم شاعری کے علائم بھی ہیں۔ مثلاشراب کے تعلقات کے حوالے سے ظاہر ہونے والی علامات کے ذریعے زیادہ تر صوفیانہ مضامین کو بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح بہاروخزاں کے متعلقات کے حوالے سے ظاہرہونے والی علامات بھی ان کی شاعری کے تقریباً ہردورمیں نظرآجاتی ہیں۔ ان علامتوں کے حوالے سے اکبرعصری زندگی کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرخواجہ محمدزکریا لکھتے ہیں:
’’ اکبرہندوستان کی سرزمین کی مفلوک الحالی، انتشار، زوال اور افتراق کے نقشے کھینچتے ہیں۔ علاوہ ازیں انگریزوں کی آمداور ان کی لگائی پابندیوں پر استحصال وغیرہ کے مضامین بھی اسی پردے میں بیان کیے جاتے ہیں۔‘‘(34)
لیکن اکبرکی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ ا نھوں نے خود علامتیں وضع کیں۔ ان علامتوں میں کچھ تو مغربی تہذیب کو ظاہر کرتی ہیں، کچھ مشرقی روایات کی غماز ہیں اور کچھ علامتیں مغربی روایت کو ظاہرکرتی ہیں۔ مثلاً ’’مِس‘‘ مغرب کا وہ سحر ہے جس کے زیراثر مشرقی نوجوان نے اپنا حلیہ بدل ڈالا۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ مغرب کے جذباتی استحصال کی علامت ہے۔ اسی طرح مغربی تہذیب کے حوالے سے اکبر کے یہاں’’کالج‘‘ کی علامت ابھرتی ہے۔ اکبر کے نزدیک کالج کی مادی تعلیم، انسانی روح کو مُردہ کردیتی ہے اور اس کے ذہن کو زنگ لگادیتی ہے۔ اس سے چندمادی فوائد تو حاصل ہوسکتے ہیں لیکن مذہبی اقدار کا مکمل طورپر خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مغرب کے حوالے سے نمایاں ہونے والی مزیدعلامات میں اکبر کے یہاں کلرک، ٹائپ، پائپ، انجن، موٹر، ریل، مشین، ہوٹل وغیرہ جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جو لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ علامتی انداز میں برتے گئے ہیں۔ ان تمام علامتوں کے ذریعے اکبر مغرب پرطنز کرتے ہیں اور مغرب سے بیزاری کا اظہارکرتے ہیں۔
اکبرالٰہ آبادی کی شاعری میں کچھ علامتیں مشرقی تہذیب کے حوالے سے بھی سامنے آتی ہیں۔ مثلاً ’’شیخ‘‘ کی علامت اکبر کے یہاں کلاسیکی غزلوں کی حد تک ریاکاری اور ضمیرفروشی کا اشاریہ ہے۔ لیکن ان کے جدیدرنگ میں یہ مشرقی تہذیب کی علامت ہے۔ اس کے برعکس ’’سید‘‘ اس ثنویت کی علامت ہے جو بیک وقت مادیت اور روحانیت کے قانون میں تقسیم ہوچکا ہے۔ جہاں ذاتی منفعت دیکھتا ہے اس جانب لپکتا ہے۔ ان معروف علائم کے علاوہ ان کے ہاں ’’زاغ‘‘ اور’’اُلّو‘‘ مغربی تہذیب کے نقالوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ’’بدھو‘‘ عام طورپر سادہ لوح مسلمانوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اکبر کی علامات کے مجموعی جائزے سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ وہ ان علامات کے ذریعے مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنا چاہتے تھے۔
اکبرالٰہ آبادی تک پہنچ کر ہم اقبال کے عہدمیں داخل ہوجاتے ہیں۔ یوں تو اس عہد سے منسلک شعراء راشد، فیض، میراجی اور مجیدامجد کی شاعری کا مطالعہ بھی علامتوں کے نئے اورجدید ترمفاہیم کے درکھولتا ہے لیکن یہ سب شعرا ء اقبال کے بعد کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے یہاں ہئیت کے نئے سلسلے اردو شاعری کے ایک مختلف تناظرکو تشکیل دے کر انھیں ایک الگ دائرے میں لے آتے ہیں۔ ان شعراء کے یہاں اکثرعلامات اپنے مخصوص پس منظر سے ہٹ کر اختراعِ معنی کے زمرے میں آتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ذکر کو چھوڑ کر ہم اردو کی کلاسیکی شاعری میں استعمال ہونے والی چند مخصوص علامتوں پر ایک نظرڈالتے ہیں جس سے نہ صرف کلاسیکی اردو شاعری کے علامتی نظام کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ اندازہ بھی ہوسکے گا کہ اقبال تک آتے آتے اردو شاعری کی روایت میں علامتوں کے استعمال کی کیا صورت رہی ہے اور شعراء نے ان علامتوں میں کون سے نئے امکانات دریافت کیے ہیں۔
پانی
پانی کلاسیکی شاعری میں علامتی معنویت میں متعدد مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ کلاسیکی روایت میں انسان حقیقتِ کُل کا ایک جزو ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قطرہ دریا کا حصہ ہے اور جس طرح قطرے کی حیثیت سمندر سے الگ کچھ نہیں۔ اسی طرح انسان حقیقتِ مطلقہ سے فراق کے باعث بے حیثیت ہے۔ چنانچہ انسان(قطرہ) کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقیقت الحقائق(سمندر)میں ضم کردے۔ رواں پانی وقت کے بہائو کو ظاہرکرتا ہے جبکہ ٹھہرا ہوا پانی انجماد اور قوت کی علامت ہے۔ پانی اپنی سیال کیفیت کی بناپر فرد کی بے چینی، بے اطمینانی اور جذباتی توجہ کو بھی ظاہرکرتا ہے۔ پانی کے متعلقات میں کنواں محدودیت اور تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سمندر ہمیشگی، بے کناری اور ابدیت کی رمز ہے۔ دریا زندگی میں روانی، ضبط اور توازن کا اشاریہ ہے۔ حباب زندگی کی ناپائیداری کا نشان ہے اور سراب زندگی کے غیرحقیقی ہونے کو ظاہرکرتا ہے۔
آگ
کلاسیکی شاعری میں آگ کی علامت تقریبا تمام بنیادی مفاہیم کے ساتھ اجاگرہوئی ہے اور اپنی متنوع خصوصیات کے باعث اپنے مفاہیم بدلتی رہتی ہے۔ آگ کی علامت ایک سطح پر تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری سطح پر یہ زندگی میں حرارت کی علامت ہے۔ دل کے سوز و عشق کو دکھانے کے لیے آگ سے بڑھ کر کوئی علامت نہیں کیونکہ وہ کرب اور سوز جو عشقیہ واردات میں ہوتا ہے، آگ میں جلنے سے مشابہ ہے۔ ایک سطح پر آگ شعور کی علامت بھی ہے۔ یہ بغاوت کی رمز بھی ہے۔ صوفیانہ روایت میں آگ کو عشق کی علامت کے طورپرپیش کیاگیا ہے۔ آگ کے ساتھ بہت سے روحانی تصورات بھی وابستہ ہیں۔ کوہِ طور پر خدا کے نور کا جلوہ آگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ آگ میں جل کر راکھ ہوجانا صوفیانہ واردات کی معراج ہے کہ یہ عمل نفیٔ ذات کا ہے۔
ہوا
کلاسیکی اردو شاعری میں ہوا اپنے مختلف النوع خواص کے سبب مختلف ناموں سے موسوم کی جاتی ہے۔ کہیں یہ اپنی سبک روی اور آہستہ خرامی کی وجہ سے صبا کہلاتی ہے، کہیں صحرا میں چلنے والی لُو کی صورت میں سموم اور صَرصَر کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ ہوا کے اندر تعمیری اور تخریبی دونوں قسم کے رویے پائے جاتے ہیں۔ تعمیری نوعیت کے اعتبار سے یہ نمو اور افزائش کی علامت ہے اور تخریبی حوالے سے یہ طوفان، آندھی، بگولوں اور یخ بستہ بادِشمال کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اِن ہر دو صورتوں میں یہ حرکت اور تحریک کی علامت بنتی ہے۔
خاک
کلاسیکی اردو شاعری میں خاک کی علامت متنوّع الْجہات معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ خاک سے مختلف چیزیں نمو حاصل کرتی ہیں۔ اس لیے یہ زرخیزی اور غذائیت کا منبع ہے۔ ہرشے بالآخر خاک کی طرف لوٹتی ہے۔ خودانسان خاک یا مٹی سے بنا ہے اور بالآخر اسی میں مل جانے والا ہے۔ خاک میں پناہ دینے کی صفت بھی موجود ہے۔ اس کی مادرانہ صفات کے باعث زمین کو ماں کا درجہ دیاجاتا ہے۔ کلاسیکی ارد وغزل میں خاک اپنے مختلف رنگوں میں بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔
شجر
کلاسیکی غزل میں شجر کی علامت اپنے متنوّع خصائص کے حوالے سے ظاہر ہوتی ہے لیکن مجموعی طورپر اس علامت کے ذریعے زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کو اجاگرکیاگیا ہے۔ اول الذکر روپ میں شجر مسافر نوازی اور سایہ داری جیسی مہربان صفات کا اظہار ہے۔ درختوں کا خزاں میں ٹنڈمنڈہونااور بہار میں دوبارہ برگ و بار لانا حیاتِ نو اور تعمیرِ جدیدکا اعلامیہ ہے۔ اسی طرح ایک چھوٹے سے بیج سے گہری جڑوں، مضبوط تنے، اَن گنت پتوں، پھولوں، پھلوں سے لدے پھندے عظیم درخت کا ظاہرہونا، علامتی طورپر کائناتی عمل کو ظاہرکرتا ہے۔ کس طرح وحدت سے کثرت جنم لیتی ہے اور پھر بیج کی صورت میں دوبارہ کثرت وحدت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یوں شجر حیات و ممات کے دوہرے عمل کو ظاہرکرتے ہیں۔
پرندہ
اردو کی کلاسیکی شاعری میں متعدد پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہما خوش قسمتی کی علامت ہے۔ عنقاعدم کی اور بلبل عشق کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس سے زندگی کے دوسرے عوامل کی طرف بھی اشارے پھوٹتے ہیں۔ پرندہ بنیادی طورپر روح کی علامت ہے۔ روح کو بلندیوں کی طرف لے جانے والی قوت کی رمز کے ساتھ ساتھ یہ تخیل کی اُڑان کی علامت بھی ہے۔ پرندوں کی بولی (منطق الطّیر) اعلیٰ حقائق کا رمزیہ ہے۔ یہ بھی ہے کہ پرندے آسمان پر زمین کے سفیر ہیں۔ پرندے زیادہ تر زندگی کے مادی پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثلاًفاختہ دنیابھر میں امن اور شرافت کی علامت خیال کی جاتی ہے۔ گدھ کو عموماًتباہی اور ہوس کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔
پھول
کلاسیکی اردو شاعری میں پھول ایک اہم عنصر کے طورپرظاہرہوتا ہے۔ بنیادی طورپر پھول ایک جمالیاتی مظہرکا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنی مختصر زندگی اور عارضی بہار کی بناء پر زندگی کی ناپائیداری اور کم فرصتی کا اعلامیہ بھی بنتا ہے۔ ان بنیادی مفاہیم کے علاوہ پھول اپنے متنوع اوصاف کے باعث مختلف استعاراتی اور تشبیہاتی حوالوں سے بکثرت استعمال میں آئے ہیں۔ مختلف پھولوں کی صفات مختلف ہیں۔ کہیں کوئی پھول اپنے جوہر کی وجہ سے علامت بنتا ہے کبھی شکل کی وجہ سے۔زرد پھول مثلاًسورج مکھی وغیرہ بالعموم شمسی رمزیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ بنفشہ اپنی پوشیدہ خوبصورتی اور خوش کن خوشبوکی وجہ سے حیااور عجزکااستعارہ خیال کیاجاتا ہے۔ گلاب وسیع علامتی مفہوم کا حامل پھول ہے۔ سفید پھول پاکیزگی، تکمیل، معصومیت اور دوشیزگی کی علامت خیال کیاجاتا ہے لیکن سُرخ پھول اس کے برعکس زمینی جذبوں اور زرخیزی کی علامت ہے۔ سفیداور سُرخ گلاب کا اجتماع تفاوت کے اتحاد، پانی اور آگ کے میل کو ظاہرکرتا ہے۔ کنول روحانی کشف کو ظاہرکرتا ہے۔ گیندامشرق میں وفاداری کی علامت سمجھاجاتا ہے جبکہ مغرب میں یہ درازیٔ عمر کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔
سورج
کلاسیکی اردو شاعری میں سورج کی علامت مختلف تلازمات کے ساتھ اُبھرتی ہے۔ کہیں اس کے ساتھ ذرّے کا تلازمہ آتا ہے اور صوفیانہ واردات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح سورج کے ساتھ سایہ کا لفظ متضاد تلازمہ کے طورپر اُبھرتا ہے۔ قدیم شاعری میں کہیں کہیں سورج کو ایک جمالی مظہر کی حیثیت سے بھی پیش کیاگیا ہے۔ سورج عقل اور شعور کی علامت بھی بنتا ہے۔ یہ آگ بھی ہے اور روشنی بھی۔ اس لیے بیک وقت زندگی اور موت دونوں کا اعلامیہ ہے۔ بنیادی طور پر سورج پدر کی علامت ہے لیکن اس علامت کی نوعیت جغرافیائی حوالے سے بدلتی ہے۔ سورج روشنی کا سرچشمہ ہے۔ اس کے ساتھ حرارت کا منبع بھی ہے۔ روشنی زندگی میں خیرکی رمز ہے جبکہ حدت اور حرارت زندگی میں حرکت کو ظاہر کرتی ہیں۔
چاند
کلاسیکی اردو شاعری میں چاند اپنے جمالیاتی روپ میں ظاہر ہوا ہے۔ اسے جمالیاتی مظہراور محبوب کی خوبصورتی، کم نمائی وغیرہ کے اظہار کے لیے استعاراتی انداز میں استعمال کیاگیا ہے۔ چاند جذبے کا رمز بھی ہے۔ اس کی ٹھنڈی روشنی سمندروں کی طرح انسانی شخصیت میں بھی جذباتی مدّوجذر پیدا کرتی ہے۔
ستارہ
کلاسیکی شاعری میں ستارہ بنیادی طورپر مقدر کے رمز کے طورپرسامنے آتا ہے۔ ستارے کے بارے میں یہ تصور قدیم علمِ فلکیات سے ماخوذ ہے کہ مختلف ستاروں کی گردش انسانی نصیب پر اثراندازہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ستارہ رہبری اور رہنمائی کا رمز بھی ہے، رات کے مسافراپنی سمت نمائی کے لیے بالخصوص سمندری سفر میں ستاروں سے کام لیاکرتے تھے۔ ستارہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی روشنی ہے۔ اس لیے امید کا نشان ہے۔ یہ روح کی چمک کی علامت ہے کہ روح اندھیرے میں ہوتی ہے۔ یوں اندھیرے میں امیدورجاکی علامت بھی ہے۔
گزشتہ سطور میں جن علامتوں کا ذکر ہوا ہے یہ تکوین کائنات کے عناصر اور فطرت کے وہ مظاہر ہیں جن کا انسان کے ساتھ بہت گہر اتعلق ہے۔ چنانچہ ہماری کلاسیکی شاعری میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر رہاہو جس نے کسی نہ کسی سطح پر ان علامتوں سے فائدہ اٹھاکر کائنات اورانسان اور فطرت کے باہمی تعلق کو بیان نہ کیا ہو۔ ان علامتوں کے علاوہ ہماری شعری روایت میں تاریخ، معاشرت اور تہذیب کے حوالے سے بھی علامتوں کا طویل سلسلہ ملتا ہے۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تو اردو شاعری میں ہمیں ابتدا ہی سے اپنی تاریخ سے وابستگی کی جھلک نظرآتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شاعروں نے زیادہ تر قرآن پاک میں پیش کیے گئے تاریخی واقعات کو موضو ع بنایا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسٰیؑ کے معجزات اور ان کے مصلوب کیے جانے کے واقعے کو غزل کا شاعر متنوع رنگوں میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح حضرت موسیٰؑ اور کوہِ طور کا واقعہ بھی ایک اہم موضوع کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی بات حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے بے وفائی کے واقعے، حضرت یعقوبؑ کے ان کی جدائی میں رو رو کر آنکھوں سے محروم ہوجانے کے قصے اور حضرت یوسفؑ پر زلیخا کے فدا ہوجانے کے قصے میں ملتی ہے۔ اسی طرح حضرت خضرؑ ایک علامتی کردارکے طورپراُبھرتے ہیں۔ قرآنی واقعات کے علاوہ کچھ اور واقعات بھی ایک اہم علامتی ماخذ کے طورپرسامنے آتے ہیں۔ جن میں حسین بن منصورحلاج کا انا الحق کہنے اوردارپرکھینچے جانے کا واقعہ اپنے اندر بے پناہ علامتی قوت رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کر واقعہ کربلا کی علامتی حیثیت نے تو ہر دور کی اردو شاعری پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔
معاشرتی علامتوں میں شہر، گھر، دیوار، چراغ، آئینہ وغیرہ کی علامتیں کئی جہتوں سے نت نئے معانی کو سامنے لاتی ہیں۔ قدیم شاعری میں شہر کے بارے میں ایک اظہار تو شہرآشوب کی صورت میں ملتا ہے جہاں شاعر شہر میں ہونے والی بدنظمیوں، معاشرتی خرابیوں اور سماجی انتشار کو ہدف تنقید بناتا ہے اور ایک المیاتی لَے میں صورتِ حال کی تبدیلی کی خواہش کرتا ہے۔ کلاسیکی عہد کا شاعر جب شہرآشوب لکھتا ہے تو باہمی ہمدردی اور بھائی چارے کے فقدان کا ماتم کرتا ہے اور شہر کی شکست و ریخت کو زندگی کے قدری زوال سے تعبیرکرتا ہے اور اس صورتِ حال پر احتجاج کرتا ہے۔ اسی طرح گھر کی علامت بھی شہر اور ملک کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ دیوار کلاسیکی شاعری میں مختلف معنوں میں ظاہر ہوتی ہے لیکن بنیادی طورپر یہ ایک پردے اور خصوصاً اس جہان اور جہانِ دیگر کے مابین نقاب کا اشاریہ ہے۔ چراغ اردو شاعری میں ایک معروف علامت ہے۔ چراغ اور شمع کو زیادہ تر زندگی کی علامت سمجھا گیا ہے لیکن اکثر شاعروں نے اس علامت کو وارداتِ عشق اور عشقیہ سوز کے علامتی خدوخال ابھارنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ آئینہ بنیادی طورپر لازمۂ حسن ہے تاہم یہ اپنے اندر بے پناہ علامتی سطحیں رکھتا ہے۔ یہ صفائی اور پاکیزگی کا رمز ہے۔ تمثال یا عکس قبول کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے اکتساب کا اعلامیہ ہے۔ آئینہ کلاسیکی اردو غزل کی کثیرالاستعمال علامت ہے ۔شان الحق حقی کی تحقیق کے مطابق غالب کے یہاں آئینے کا لفظ۲۶۵بار آیا ہے۔
دیگر کلاسیکی شعراء نے بھی اس اہم علامتی مظہر کی رنگا رنگ جہتیں دریافت کیں اور اس سے مختلف نفسی، مادی اور روحانی موضوعات کی طرف اشارے کیے۔
اردو شاعری میں ان علامتوں کے حوالے سے معانی کی ایک وسیع کائنات منکشف ہوتی ہے تاہم اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ شاعر اپنی شاعری میں جذبے کا اظہار کرتا ہے لیکن اس اظہار کا ابلاغ ہونا بھی ضروری ہے۔ ابلاغ کے لیے شاعراور قاری کے درمیان کوئی رشتہ یا تعلق ہونا چاہیے یعنی شاعر ایسی علامتیں استعمال کرے جو پڑھنے والے کو شاعر کی دنیا میں پہنچادیں اور وہ علامتیں ایسی ہوں جوقاری کے ذہن کو روشنی مہیا کریں، اسے اندھیروں میں نہ لے جائیں۔ بقول بلراج کومل:
’’کامیاب شاعروں کے ہاں علامتیں نظم میں آئینوں کی طرح جڑی ہوتی ہیں۔ وہ آئینے جن میں مضمون کا عکس صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہے۔ ناکام شاعروں کے ہاں علامتیں( انھیں وہ خالص ذاتی علامتوں کا نا م دیتے ہیں) اس قلعے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں جن کے اندر قید کیے ہوئے لوگ باہر نہیں آسکتے اور باہر کے لوگ اندر نہیں جاسکتے۔ یہ اور بات ہے کہ قلعے کی دیواریں بظاہر حسین دکھائی دیتی ہیں۔‘‘(35)
اہم علامت نگار
چارلس پیر بودلیئر(Charles Pierr Boudelaire) (1821-1867)ایک شوقیہ مصور کا بیٹاتھا جو کہ سرکاری ملازمت سے روزی کماتا تھا۔ وہ چھ سال کی عمر میں ہی یتیم ہوگیا۔ اس کی ماں نے ایک فوجی افسر سے شادی کرلی۔ وہ اپنے سوتیلے باپ کو قبول نہ کرنے کے سبب گھر سے دور لوین(Lyon) کے ایک سکول میں داخل کروادیاگیا۔ وہ بچپن ہی سے خشک مزاج، اداس اور تنہائی پسند تھا۔1839 ء میں فارغ التحصیل ہوکر اس نے لکھنے کا ارادہ کیا۔ اس کی زندگی میں کوئی با قاعدگی نہ تھی اوروہ طبعاً آوارہ مزاج تھا۔ وہ ہندوستان بھی آیا لیکن ایک سال بعد واپس چلاگیا۔ اب اسے فضول خرچی اور فیشن پرستی کی عادت بھی پڑچکی تھی۔ اس نے فیشن شو کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
اس کا مزاج درشت بھی تھااور وہ سستی کا بھی شکارتھا۔ اس کی علامتی نظموں کی پہلی کتاب Les Fleurs du Malتھی۔ اس کی نظموں کے مرکزی خیال بیمار ذہن کی پیداوار تھے۔ اسے بدہیئتی، غلط اندیشی، تنہائی اور افسردگی میں کشش محسوس ہوتی تھی اور وہ انھیں میں حسن تلاش کرتاتھا۔ اسے اپنا یہ مجموعہ اس کی اپنی آس، امیدوں، پریشانیوں، مصیبتوں اور المیوں کا عکاس لگتاتھا۔
1821 سے1847 کے درمیانی عرصے میں وہ ایڈگر ایلن پو(Edgar Allan Poe) کے بہت قریب رہا۔ اس دوران اس نے یورپ کے ادب پاروں کا ترجمہ کیا۔
وہ جلدہی قرضوں کے جنجال میں پھنس گیااور وہ قرض خواہوں سے بچنے کے لیے فرانس سے بلجیم چلاآیا۔ غموں کا سامنا کرنے کے بجائے اس نے حشیش میں پناہ ڈھونڈی اور بلانوشی کرنے لگا۔ فالج کا شکارہونے کے بعد اس کے آخری دو سال برسلز اور پیرس کے سینی ٹوریم میں بسر ہوئے۔(36)
ولیم بٹلرژیٹس(1865-1939)(William Butler Yeats) کا تعلق آئرلینڈ سے ہے۔ وہ ڈبلن میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عہدساز شاعر، ڈرامہ نویس اور نثرنگار تھا۔ اسے انگریزی زبان کے بیسویں صدی کے اہم ترین لکھنے والوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ اسے 1924 ء میں ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ اس نے آئرلینڈ کے رومن کیتھولک چرچ کی تاریخی روایات سے کوئی واسطہ نہیں رکھاتھا کیونکہ اس کا عقیدہ ان سے مختلف تھا اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے اس کا مزاج اس لیے نہ ملا کہ وہ مادیت پرست ہوچکے تھے۔ وہ عیسائیت سے آزاد آئرلینڈ کی ان زندہ روایات، رسوم اور اعتقادات اور مقدس مقامات سے متاثرہوا جن پر علمائے بشریات کی تحقیق نے روشنی ڈالی تھی۔
محبت میں ناکامی پر دل برداشتہ ہونے کی بجائے اس نے اپنی محبت اپنے وطن آئرلینڈ پرنچھاور کر دی۔ اس نے فنِ خطابت اور فنِ تحریر میں کمال حاصل کیا اوراپنی فصاحت وبلاغت، زورِ بیان اور لفّاظی سے اپنی شاعری ہی نہیں اپنی تقریروں کو بھی ولولہ انگیز اور پرجوش لہجے سے موثر اور دل نشیں بنادیا۔ ایسا اس نے اپنے باغیانہ خیالات، حب الوطنی کے جذبے اورآئرلینڈ کے لیے قوم پرستی کے سچے احساس کے ساتھ کیا لیکن ان رجحانات کی محرّک دراصل اس کی محبوبہ ساد تھی جو انگریزی جبروستبداد کی شدیدمخالف تھی۔جب اس کا ڈرامہ Cathleen ni Haulihan ڈبلن میں کھیلا گیا تو ساد نے اس میں مرکزی کرداراداکیاتھا۔
متنازعہ آئرش رہنما چارلس سٹیورٹ پارنیل(Charles Stewart Pernell) کی مقبولیت میں کمی اور اس کی موت سے ژیٹس کو احساس ہوا کہ آئرلینڈ کی سیاست میں نتیجہ خیز سرگرمی باقی نہیں رہی چناچہ وہ اپنی عملی زندگی کے اس خلا کو پرکرنے کے لیے مکمل طورپرشاعری، ڈرامے اور لوک سورمائوں کی داستانوں پر توجہ دینے لگا۔ژیٹس کو یقین تھا کہ نظموں اور ڈراموں کے ذریعے آئرش قوم میں یکجہتی اور اتحاد پیداکیاجاسکتا ہے۔وہ اپنے عہد کے ایک اور نامور جدیدشاعر ایذراپائونڈ(Ezra Pound) کا معاون بھی رہا جب وہ جاپان کے(No Plays) کے ترجمے میں مصروف تھا۔ژیٹس نے بعدازاں خودبھی ایسے مختصرڈرامے لکھے۔ اس نے اپنی تحریروں سے آئرش قومیت کی آبیاری کی۔1922 ء میں جب آئرش فری سٹیٹ کی بنیاد رکھی گئی تو ژیٹس نے اس ریاست کے ایوانِ بالا کی رکنیت قبول کرلی۔ اس کا انتقال فرانس کے مقام روقیوبرونے (Roquebrune)میں ہوا اور وہیں اس کی امانتاً تدفین ہوئی کیونکہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوچکاتھا۔ 1948 ء میں اس کے جسدِ خاکی کو اس کے آبائی شہر سلیگو(Sligo) لاکرایک چھوٹے سے پروٹسٹنٹ گرجے کے قبرستان میں دفن کیاگیا۔
کہتے ہیں کہ اگر ژیٹس چالیس سال کی عمرمیں شاعری ترک کردیتا تو وہ انگریزوں کا غیرمتنازعہ طورپراہم ترین شاعرقرارنہ پاتا۔ انگریزی شاعری میں کسی اور شاعر کی مثال نہیں ملتی جس نے اپنی بہترین شاعری پچاس سے پچھترسال کی عمرکے درمیان کی ہو۔ اس دور کی شاعری میں اس کا زندگی بھر کا مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ، دانش اور عرق ریزی شامل ہے۔ ژیٹس کی علامت نگاری اس اہم دور کی مقبول اساطیریات اور دیومالائی کرداروں میں سے پھوٹتی ہے اس لیے اسے سمجھنا اتنا آسان نہں۔ خودژیٹس بھی اپنی علامتوں سے نامانوس قاری پر آہستہ آہستہ کھلتا ہے۔تاریخ کے باربار دہرائے جانے کے تصور سے اس نے خیالی پیکروں، استعاروں، تمثالوں اور تشبیہوں کو بھی غیرمحسوس طورپر دہرانے اور ان کے امتزاج اور آمیزش سے اپنا منفرد اسلوب تراشا۔ اس کے اپنے پراسراراورطلسماتی اسلوب کا ارتقاء ناقدین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ژیٹس کی مشہور تمثالوں میں لیڈا (Leda) اور سواں(Swan) ، ھیلن(Helen) اور جلتاہوا ٹرائے(Troy) شامل ہیں۔ منارا (Tower) تو اس کی شاعری کا مرکزی استعارہ ہے جواس نے کئی صورتوں میں بار بار برتا ہے۔ یہ منارا اس پرانے قصر کا ہے جو اس نے کبھی خریداتھا اور اسے پھر سے تعمیرکیاتھا۔ اس کی محبوب علامتوں میں چانداورسورج، جلتاہواگھر، غار، خاردارشجر، کنواں، سمندری بگلا، شاہین، نابیناشخص، معذور آدمی، بھکاری، سگِ تازی، رخش اور جنگلی سور شامل ہیں۔ اس کی ایک اور علامت بے حد معنی آفریں ہے جسے Unicorn کہاجاتا ہے۔ دیکھنے میں یہ ایک سینگ کا گھوڑا لگتا ہے۔ یہ سینگ اس کی پیشانی سے نکلا ہوتا ہے۔ اس دیومالائی حیوان کی پچھلی ٹانگیں بارہ سنگھے جیسی، دم شیرکی اور سر، گردن اور جسم گھوڑے جیساہوتا ہے۔ دیومالااور ادب میں اسے تقدس اور پاک خیالات کے اوصاف کے ساتھ ساتھ تندخوئی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ان روایتی علامات کو ژیٹس اپنی ذاتی واردات اور تجربے سے نئے معانی پہنا تا ہے۔ اس کے لہجے کا جلال، تمکنت، زورِ بیان اور سحرانگیزی کی وجہ سے وہ اپنے عہد کے دوسرے شاعروں میں ممتازاورسربلند ہے۔(37)
ہنرک ابسن(1828-1906)(Henric Ibsen) کا تعلق ناروے سے تھا لیکن وہ مجموعی طورپر مغربی ڈرامہ نگاروں کی صفِ اول میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ رومانی ڈرامہ اور میلو ڈرامہ ناروے میں مقبول تھا اور جرمنی کا ڈرامہ کمزور سی روحانیت میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ فرانس، انگلستان اور یورپ کے دوسرے ممالک میں ڈرامہ محض تفریح کا ذریعہ تھا جس کی حقیقت نگاری میں اتنی گہرائی نہ تھی کہ اسے ادب کا درجہ دیاجاسکتا۔ ابسن نے ان ازکار رفتہ اور فرسودہ رجحانات کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے ان روایات کو نکھارا، سنوارا اور انھیں نئے امکانات سے روشناس کرایا۔ اس نے ایک سنجیدہ حقیقت نگاری کا سنگِ بنیاد رکھا جس میں نہ صرف عصری مسائل سے نبردآزما ہونے کا جذبہ کارفرماتھا بلکہ سماجی شعور کے ساتھ ساتھ ذاتی تجربے کی گہرائی، فلسفیانہ فکر اور اخلاقی مسائل کا امتزاج تھا۔ اس نے ڈرامے کو فنی نظم و ضبط اور تہ داری عطا کی۔ اسے پیچیدہ تجربات کی پیش کش کا اہل بنایا۔ اور حقیقت نگاری اور علامتی طرزِ اظہار کے امتزاج سے اسے وسعت اور شاعرانہ مزاج عطاکیا۔اسے سماجی حقیقت نگاری کا امام سمجھاجاتا ہے۔ابسن کے ابتدائی ڈرامے ان رجحانات سے متاثرتھے جو اس سے پہلے مقبول تھے ۔ اس کے قلم سے جدید ڈرامہ نگاری کا آغاز اس کے نثری ڈراموں سماج کے ستون اور نوجوانوں کی جماعت سے ہوا جن میں سماجی حقیقت نگاری پائی جاتی ہے اگرچہ ان کی تخلیقی سطح اتنی بلندنہیں ہے۔ اس کا رجحان ساز ڈرامہ’گڑیاگھر‘ 1897 ء میں منظرعام پرآیا۔ یہ ترشاترشایانہیں بلکہ نئے انداز کا ڈرامہ تھا جس کی تفہیم اتنی آسان نہ تھی۔ اس نے زندگی کے حقائق اور سماجی مسائل کو ایسے انوکھے اسلوب میں پیش کیا کہ اس سے ڈرامے میں معنی خیزی اور فکرانگیزی پیداہوئی اور وہ محض تفریح کا ذریعہ نہ رہا۔ عہدِ جدید کے فکری مسائل جیسے فرد کی آزادی، روایت اور جدّت کی اخلاقی حوالے سے آمیزش اور انسانی ضمیر کی کشمکش نے اس ڈرامے کو تہ دار اور پیچیدہ لیکن تخلیقی اور بامقصدبنایا۔ حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں کے لیے بھی اس ڈرامے کے ذریعے آوازاٹھائی گئی جس سے پورا یورپ متاثرہوا۔ عیش و نشاط اور اخلاقیات کے تصادم کے حوالے سے اس جائزے نے انسانی المیے کو منفرد زاویے سے دیکھنے کی روش کو عام کیا۔ اس ڈرامے نے فرد میں اخلاقی ذمہ داری کا احساس اجاگر کیااور انسانی رشتوں کی نزاکتوں سے پیداہونے والے مسائل کو منعکس کیا۔ انسانی فطرت کے اسرارورموز اور رشتوں کی الجھنوں اور کشاکش کو پیش کرنے کے لیے ابسن کو علامتوں، اشاروں اور کنایوں کا سہارا لیناپڑا۔ اس طرح نفسیاتی حقیقت نگاری کے خارجی اورباطنی پہلوئوں کو اور طرح کے علائم اور رموز سے آشکار کرتے ہوئے ابسن نے اظہار کا نیااسلوب تراشا۔ اس کا ڈرامہ ’جنگلی بطخ ‘بھی نمائشی اور سطحی احوال پرستی پرکاری ضرب لگاتا ہے۔ ’روزمرشوم‘اس کا ایک اور شاہکار ڈرامہ ہے جو اخلاقی روایات اور اصولوں کی پابندی کو معاشرے کے لیے مثبت قراردیتا ہے۔ اس کے نزدیک وہی اصول تمدنی ارتقاء کے لیے کارآمد ہیں جو سطحیت اور اتھلے پن سے دوچار نہ ہوں اور انھیں محض دکھاوے کے لیے تسلیم نہ کیاجاتا ہو۔ سماجی حقیقت نگاری اور علامات کی جدت نے اس ڈرامے کو اور بھی فکرانگیز بنادیا۔ ’سمندری خاتون‘میں شعریت پائی جاتی ہے اور اس شعریت میں اشاریت اور علامت نگاری سے انسان کے عمیق جذبات کو مہمیز کیاگیا تھا۔ ’معمار اعظم‘ کو ابسن نے تخلیق کار کی علامت کے طورپر پیش کیا ہے جس کی تخلیقی صلاحیتیں امکانات کے نئے نئے در وا کرسکتی ہیں۔ وجدانی، باطنی اور داخلی احساسات اور جذبات کے سحرانگیز بیان سے ابسن نے خارجی اور بیرونی دنیا کو انسانی تعلقات کے حوالے سے رہنے کے قابل بنانے کی سعی کی مگر دوسری طرف حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اصول پسندی اور فکرونظر کی بلندی کے باوجود فنکار کی المناک ناکامی کا بھی اعتراف کیااور اس انجام کو انسان کے مقدر کے طورپر قبول کیا۔
ابسن کا آخری دور کا ڈرامہ ’جب ہم مردے جاگے‘ بھی فنکاری کے داخلی جذبات اور احساسات پرمبنی ہے اور اسی لیے اس میں شعریت بھی زیادہ ہے۔ ’’ننہا یولن‘‘ بھی اسی رجحان کا آئینہ دار ہے جبکہ ’’جون گیبریل بورک مان‘‘ نفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ ابسن نے حقیقت پسندی کے میکانکی اظہار کو انسانی اقدار اور نزاکتوں کو تخلیقی سطح پر برتااور اپنی ذاتی حساسیت کے امتزاج سے علامت نگاری کو اثرپذیری عطاکی۔ اس نے حقائق کو ان کے اصلی روپ میں پیش کرتے ہوئے بھی انھیں اتنا ٹھوس نہیں رہنے دیا کہ وہ محض عقلی اصول و قواعد رہ جائیں۔ اس کی علامتیں بھی کسی قدر مبہم ہونے کے باوجود تفہیم کے قابل ہیں اور ان سے ایک سے زیادہ معانی نکالے جاسکتے ہیں۔ اس نے معروضات اور حسیات کے مابین ایک پراسرار ربط پیداکیا۔ انسانی میلانات، عصری سماجی ماحول، مروّج اخلاقیات، معاشرتی اصول و قواعد، ذاتی تجربات، مشاہدات اور یادداشتوں کے امتزاج کے ساتھ ابسن نے مؤثر حقیقت نگاری اور بامعنی اشاریت کو برتااور جدیدیت کی تحریک کومالامال کیا۔(38)
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (1888-1965)(T.S.Eliot) کو انگریزی ادب کے عظیم نقادوں اور شاعروں میں سے ایک سمجھاجاتا ہے۔وہ پیداتو امریکہ کے ایک مقام سینٹ لوئی میں ہوا تھا لیکن اس نے مستقل سکونت کے لیے برطانیہ کا انتخاب کیا۔ اس نے اپنے شعری آہنگ کی تازگی، استعارات کی انفرادیت اور حسیّت سے نظم کو نئی جہتوں سے روشناس کیا اور اس کے شعری تجربات نے بیسویں صدی کے جدیدشعراء کی شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔تجریدیت بھی اس کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے جس سے اس کی نظموں کی معنی آفرینی دوچندہوجاتی ہے۔ اس کی نظموں میں ڈرامائی عناصرکا رچائو ان کے تاثرمیں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی لافانی نظم 1922,Wastelandمیں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم اس کی نظم نگاری کی ہی نہیں جدیدنظم کے نمایاں رجحانات کی مثال ہے۔ ڈرامائیت کے فطری رجحان نے اسے بعدازاں منظوم ڈرامہ نگاری کی طرف مائل کیا اور اس نے اپنا پہلا اہم ڈرامہ’ کلیسا میں قتل‘1936 ء میں پیش کیا۔ وہ خود کیتھولک تھا اس لیے اس ڈرامے میں مذہبیت اور تجریدیت کے دل نشیں امتزاج سے کام لیاگیا ہے۔ اس ڈرامے کی پیش کش کا مقام اور موقع بھی ایلیٹ کے مخصوص مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ڈرامہ کینٹربری کلب کے جشن کی تقریبات کا حصہ تھا۔ اس کا مرکزی خیال حکومت اور کلیسا کی آویزش تھااور اس کا زمانہ بارھویں صدی عیسوی کاتھا جس کے نتیجے میں آرچ بشپ تھامس بیکیٹ مارا گیاتھا۔ یہ ڈرامہ اعلیٰ نصب العین کے لیے جان ہارنے کے مذہبی نظریے اور رجائی تصور کو اجاگرکرتا ہے۔تاریخیت، یونانی ڈرامے کے المیہ عنصراور ڈرامائی تمثیلوں کے ساتھ ساتھ ہئیت کے حوالے سے کورس (Chorus) یعنی مل کر گائے جانے والے گیت کے مسیحی تعلیمات کے پس منظر نے ڈرامے کو فکرانگیز اور رفعتِ تخیل کے لحاظ سے ثروت مند بنایا ہے۔ جدیددور میں غنائیہ ڈرامے کا احیاء ایلیٹ سے ہوتا ہے۔ کلاسیکیت اور روایت کے گہرے احساس کے ساتھ جدت طرازی ایلیٹ کے منظوم ڈراموں کی پہچان ہے۔ ایلیٹ کا اگلا ڈرامہ’خاندانی اجتماع‘‘بھی اس کے اسی منفرد اسلوب میں گندھا ہوا ہے تاہم اس میں حقیقت اور ماورائیت کویوں باہم آمیز کیاگیا ہے کہ اس سے ڈرامے کی پراسراریت بڑھ گئی ہے۔ پرانی داستانوں اور اساطیر سے ایلیٹ کی دلچسپی اس ڈرامے سے بھی ظاہر ہے کہ اس کا پلاٹ قدیم یونانی دیومالائی داستان اور سٹیز سے مستعار ہے۔ اس کہانی کے ذریعے ایلیٹ نے علامتی انداز میں اس دور کے سماجی مسائل اور مختلف کرداروں کو درپیش نفسیاتی الجھنوں اور ان کی باطنی کیفیات کو پیش کیا ہے۔ ایلیٹ عوامی سطح کے کرداروں کے ذریعے مذہبی و اردات اور روحانی تجربات کو اس طرح اپنی نظموں اور ڈراموں میںبُنتا ہے کہ ان سے آفاقیت کا تاثرپیداہوتا ہے۔’کاک ٹیل پارٹی‘،’ قابلِ اعتبار کلرک‘ اور ’بزرگ سیاست دان‘ اسی رجحان کے ڈرامے ہیں جن میں یونانی دیومالابھی بین السطور جھلکتی ہے۔ مذہبی، روحانی اور مابعدالطبیعاتی عناصر کے باوجود ایلیٹ کے ڈراموں میں عصریت اور حقیقت کا ادراک نمایاں ہے۔ وہ ماضی کی علامتوں کو نئے زمانے کی حسیّت پرمنطبق کرتا ہے۔ ان ڈراموں کے مرکزی کردار عام انسانوں کے مقابلے میں غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں لیکن باقی کردار معاشرے کے عام انسانوں جیسے ہیں اور ان کے مسائل بھی انھی کی سطح کے ہیں۔ آخری دورمیں ایلیٹ نے سیکولر نکتۂ نظر سے بھی روحانی واردات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور اس طرح وہ حقیقت نگاری کے اور قریب آگیا تھا۔ منظوم ڈرامے کو نثری ڈرامے پر ترجیح دینے کے باعث ایلیٹ سے اختلاف بھی کیاگیا اور اس کے نثری ڈرامے کو محض سطحی تجربات کے عکاس ہونے کے نظریے کو قبول نہیں کیاگیا۔
ایلیٹ کے تنقیدی تجربات نے جدید ادب کی دنیا میں اب تک ارتعاش پیداکررکھا ہے۔اور انگریزی شاعری، انگریزی ڈرامے اور انگریزی تنقید کو نئے زاویوں سے آشنا کیا جن میں سے بعض موثر بھی ثابت ہوئے۔(39)
اقبال کی علامت نگاری
اقبال کی شاعری میں موجود علامات کی تفہیم کے لیے فکرِ اقبال تک رسائی ضروری ہے۔ اقبال اپنا پیغام جن علامتوں کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں وہ ہماری اپنی تہذیبی علامتیں ہیں۔ یہ علامتیں محض تاریخی حقائق کا درجہ نہیں رکھتیں بلکہ ہماری جذباتی زندگی کی اساس بھی ہیں۔ فکرِ اقبال میں ان علامتوں کی توضیح کرتے ہوئے سجادباقررضوی لکھتے ہیں:
’’اقبال کے کلام کی روشنی میں جب ہم ان علامتوں کو سمجھتے ہیں تو ایک طرف تو اپنے شعور میں اضافہ کرتے ہیں اور روحانی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں اور یہی علامتیں جن کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے اور جو ہمارے لاشعور کا خارجی انعکاس ہیں ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔‘‘(40)
اقبال اپنے افکار اسلامی تصورات سے اخذ کرتے ہیں اور افکارِ عالم میں جو باتیں انھیں اسلامی تصورات کی تائید کرتی نظر آتی ہیں، ان سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور فکری وحدت کی صورت میں ان کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈاکٹرسلیم اختر اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اقبال میں اگرچہ مشرق و مغرب کے فلسفوں اور جدیدعلوم کی بو قلمونی کا امتزاج ملتا ہے مگر اساس ان کی اسلام اور قرآنِ مجید پر استوار ہے، اور اسی سے علامہ متنوع نظریات میں فکری توازن پیداکرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے جملہ علوم اور فلسفیانہ مباحث کاانفرادی حیثیت میں مطالعہ کرنے کے برعکس ان کا اسلامی تشخص متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالفاظ دیگر انہوں نے علوم کی کثرت میں نظر کی وحدت پیدا کی ہے۔ ‘‘(41)
اقبال نے کہیں تو براہِ راست قرآن حکیم اور سیرت نبویؐ سے استفادہ کیا ہے اور کہیں بالواسطہ طورپران سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ چنانچہ جہاں وہ بالواسطہ طورپراسلامی تصورات سے استفادہ کرتے نظرآتے ہیں وہاں ان کے سامنے رومی کی شخصیت ہے۔ وزیرالحسن عابدی لکھتے ہیں:
’’ فکرِ اقبال کے ماخذ میں رومی کو سنگِ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال رومی کو اپنا ہادی اورپیشوا خیال کرتے ہیں اور بار بار اعلان کرتے ہیں کہ میرے میکدے کی شراب دراصل پیرِ روم کی خمستان کی حاصل کردہ ہے۔ اقبال زندگی کے اسرار کی نقاب کشائی کرتے ہیں مگر اس انکشاف کا سہرا اپنے پیرومرشد کے سرباندھتے ہیں۔‘‘(42)
سیدوزیرالحسن عابدی نے’’اقبال کے شعری ماخذ مثنوی روم میں‘‘کے حوالے سے98 بنیادی موضوعات اور112ذیلی موضوعات کی مماثلت دریافت کی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:ابلیس، ابلیس کی حقیقت، انسان اور کائنات، انسان اور عالم، انسانِ کامل، جہادِ زندگی، دوام و حرکت، حریّت، عمل، خودی، خودنگری، خودشناسی،ضعفِ خودی، عقل و دل، عقل و عشق، فکرِ کافر اور فکرِ مومن وغیرہ۔
اگر دیکھا جائے تو فکرِ اقبال کے ہرگوشے میں قرآن ہی نظرآتا ہے۔ وہ معیشت پر بات کررہے ہوں یا سیاست پر صرف قرآن حکیم ہی کے حکم کے متعین کرنے میں ان کا حوالہ بنتا ہے۔ وہ بلاشبہ قرآنی فکرمیں ڈھلے ہوئے انسان تھے۔ اقبال کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان سنّتِ رسولؐ کی روح سے پوری طرح واقف ہوں اور اسے اپنی عملی زندگی میں جاری و سار ی کریں۔ فکرِ اقبال کے نزدیک مغرب کی سیاسی فتح دراصل مسلمانوں کے اس عمل کا نتیجہ تھی جس میں مسلمان قرآن کی تعلیمات بھول کرآپس میں اُلجھ گئے اور اس طرح ارادی طورپرانھوں نے اپنے لیے تباہی و بربادی کے دروازے کھول لیے۔ مسلمانوں کے یہی وہ تباہ کن اور دل سوز حالات تھے جس میں خوبیٔ سیاست کا کردار نمایاں ہے اور یہی وہ سبب ہے جس نے فکرِ اقبال میں مغربی تہذیب و تمدن اور اندازِ فکر کے خلاف بیزاری کا احساس پیداکیا۔ اقبال فرد کو ایک جماعت، ایک گروہ اور ایک اکائی کی حیثیت سے دیکھنے کے شدیدمتمنی تھے۔ ان کا فلسفۂ خودی خالصتاًفرد کی صلاحیتوں کی جِلا، اس کی ترقی و کامرانی اور اس کے تشکیلِ مناصب کی علامت ہے۔ بیداریٔ خودی کے لیے انھوں نے معاشرے کو نہیں، فرد کو پکارا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ فرد اکائی کی صورت میں نیابتِ الٰہی کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے اور یہی چیز معاشرے کو ایک کامل معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک قوم کے زوال اور پستی کا سبب روحانی اقدار کا فقدان ہے چنانچہ انھوں نے اِس مرض کے علاج کے لیے زندگی کے عقلی رویوں اور مادی رجحانات کے طلسم کو توڑنے کے لیے خودی کا اسم دریافت کیا۔ اقبال کے یہاں خودی وہ قوت ہے جو انسان کو زمین سے اٹھاکر اوجِ ثریاپرمتمکّن کردیتی ہے جس کی بدولت گردوں عالمِ بشریت کی زد میں آجاتے ہیں اور خاک کا پتلا لوح و قلم کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
اقبال کی شاعری کا علامتی نظام
چنانچہ اقبال نے زندگی کے عمومی رُخ پر زور دیتے ہوئے اپنی شاعری میں ایک وسیع علامتی نظام مرتب کیا اور مختلف علامتوں سے اپنے بنیادی نکتے کو واضح کیا۔ اقبال کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
اول: وہ علامتیں جو قدیم شاعری میں مستعمل تھیں اور اقبال کے یہاں آکر انھیں نئی معنویت ملی۔
دوم: وہ علامتیں جو اقبال نے اپنی اجتہادی فکر سے کام لے کر خود وضع کیں۔
پہلی قسم کی علامتوں میں ’’پروانہ‘‘ اقبال کی ایک اہم علامت ہے۔ پروانہ کلاسیکی شاعری میں عاشقِ صادق کی علامت سمجھاجاتا ہے لیکن اقبال کے یہاں اس کا استعمال برعکس ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے نفس میں سوز نہیں۔وہ غیرکی آگ کا محتاج ہے اور خودی کے جوہرسے محروم ہے۔ ’’جگنو‘‘ اقبال کے یہاں پروانے کی متضادعلامتی معنویت کے ساتھ اُجاگرہوتا ہے۔ پروانہ جہاں غیرسے روشنی کا دریوزہ گر ہے وہاں جگنو کے اندر ذاتی تب و تاب موجود ہے اور وہ دوسرے سے مدد طلب کرنے کے بجائے اپنے باطنی امکانات کو ظاہرکرتا ہے۔ جن پرانی علامتوں کو اقبال نے نئی معنویت دی ہے ان میں ’’لالہ‘‘ ایک اہم علامت ہے۔لالہ بھی اقبال کے فکری نظام سے مکمل طورپر مربوط ہے۔ لالۂ صحرا ان کے یہاں عرب ثقافت کی علامت کے طورپر ابھرا ہے۔
پرانی علامتوں میں ’’ساقی‘‘کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ساقی پرانی شاعری میں اکثرتصوف کے حوالے سے ظاہر ہوا ہے۔ اقبال نے اس علامت کے روحانی اور مابعدالطبیعاتی معنی برقراررکھتے ہوئے اسے وسعت دی ہے۔ ’’ابلیس‘‘ کلاسیکی شاعری میں شَر کا نمائندہ خیال کیاجاتا ہے۔ اقبال نے اس علامت میں مثبت مفہوم داخل کرکے اس کی معنویت میں اضافہ کیا ہے۔ ذیل میں اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامتوں کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
آئینہ
’’آئینے‘‘ کی معنوی اور علامتی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹرسعداللہ کلیم لکھتے ہیں:
’’تاریخی اعتبار سے آئینہ اصطلاحی معنوں میں تقریباًدسویں گیارہویں صدی عیسوی سے استعمال ہوتاچلاآرہا ہے۔ صوفیانہ ادب میں آئینہ کائنات اور بالخصوص انسان کا استعارہ ہے جس میں حسنِ مطلق کے جلوے منعکس ہوتے ہیں…ابنِ عربی نے فصوص الحکم کے پہلے اور دوسرے باب میں اس اصطلاحی مفہوم کو اتنا راسخ کردیا کہ اب تک اس کا یہ مفہوم شاعری میں برقرار ہے۔‘‘(43)
نفسیاتی سطح پر آئینے کااستعمال شاعر کی جمال پسندی کا آئینہ دار ہے اور خودپسندی کا غماز بھی۔ اقبال نے بانگ درا میں جتنی بار آئینے کی علامت استعمال کی ہے وہ ان کے باقی تمام اردو اور فارسی کلام سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ قلب آئینہ کے مترادف کے طورپر شاعری میں استعمال ہوتا ہے۔ انسان کے وجود میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسی میں ذاتِ واجب کے چہرے منعکس ہوتے ہیں۔ اقبال نے بھی اس شعری روایت کو برقراررکھتے ہوئے زیادہ تر انھی معنوں میں آئینہ کا لفظ استعمال کیا ہے ؎
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
(کلّیاتِ اقبال،ص۔313 )
غازۂ اُلفت سے یہ خاکِ سیہ آئینہ ہے
اور آئینے میں عکسِ ہمدمِ دیرینہ ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص۔146 )
حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینۂ دل کے لیے گردِ ملال
(کلّیاتِ اقبال،ص۔182 )
جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں
نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں
(کلّیاتِ اقبال،ص۔142 )
شاہدِ قدرت کا آئینہ ہو میرا دل نہ ہو
سر میں جُز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو
(کلّیاتِ اقبال،ص۔81 )
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
(کلّیاتِ اقبال،ص۔198 )
بے خبر تو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص۔320 )
آئینے کی علامت میں آنکھ کا تلازمہ بھی ہوتا ہے جو مقامِ حیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ اقبال کے کلام میں حیرت میں کھوئی ہوئی آنکھ کے لیے بھی آئینہ کا ذکر موجود ہے ؎
آنکھ تیری صفتِ آئینہ حیران ہے کیا
نُورِ آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا
(کلّیاتِ اقبال،ص۔143 )
ایک جگہ شیکسپیئرکو مخاطب کرکے کہتے ہیں ؎
حُسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حُسن
دلِ انساں کو ترا حسنِ کلام، آئینہ
(کلّیاتِ اقبال،ص۔279 )
ابلیس
ابلیس کلاسیکی شاعری میں شَر کا نمائندہ خیال کیاجاتا ہے۔ اقبال نے اس علامت میں مثبت مفہوم داخل کرکے اس کی معنویت کوبدل دیا ہے۔ اقبال کے یہاں ابلیس زندگی کے حرکی اور تخلیقی رویّوں کی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اگرزندگی میں پیکار نہ ہو تو انسان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ ابلیس مردِ مومن کی ارتقائی منازل میں اس کے ساتھ ٹکراتا ہے اور اسی ٹکرائو اور تصادم سے مردِ مومن ارتقا کی منازل طے کرتا ہے۔ اگر ابلیس نہ ہو تو زندگی کی ہنگامہ آرائی، چہل پہل اور حرکت و حرارت ختم ہو کر ر ہ جائے اور زندگی موت میں تبدیل ہوجائے۔ بالِ جبریل میں جبریل اور ابلیس کے مکالمے میں ابلیس اپنی کارگزاری پرفخرکرتا ہے اور جبریل کو محض عبادت گزارہونے کی بناپر لذتِ آرزو سے محروم سمجھتا ہے۔اس کے موقف کے مطابق زندگی میں ہمہ ہمی اور رونق اسی کے دم سے ہے ؎
ہے مری جرأت سے مُشتِ خاک میں ذوقِ نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو!
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے ، میں کہ تُو؟
خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں، یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو
گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو!
(کلّیاتِ اقبال،ص۔274-75 )
’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس زندگی میں اپنے تصرف پرفخرکااظہارکرتا ہے ؎
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بُو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بہ تُو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو
(کلّیاتِ اقبال،ص۔708 )
ابلیس کی ستائش انھی صفات کے باعث ہے جن میں زندگی کا ارتقاء مضمر ہے اور ان علامات کے بغیرزندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقا نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن نفی فی نفسہٖ اعلیٰ قدر تصور نہیں ہوسکتی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کی طرف یا اقبال کی اصطلاح میں استحکامِ خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھانا چاہیے۔ اثبات نفیِ مسلسل کے بغیر نہیں ہوسکتی۔لہٰذا نفی بھی خیرِ مطلق کے لیے لازمی ہے۔
انسانِ کامل ؍مردِ مومن
مردِمومن یاانسانِ کامل اقبال کی معروف علامتوں میں سے ایک ہے جو اس کے فلسفۂ خودی کی عملی شکل اور نمائندہ ہے۔ کلاسیکی شاعری میں انسانی زندگی کی معراج یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقیقتِ کُل میں ضم کردے۔ لیکن اقبال نے اس کے برعکس اثباتِ خودی کا درس دے کر یہ واضح کیا کہ انسان اپنی ہستی کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اپنے اندر اُلوہی صفات پیدا کرسکتا ہے۔ جب انسان خودی کے تمام مراحل طے کرلیتا ہے تو وہ انسانِ کامل کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے۔ تمام عالم اس کے زیرِ نگیں ہوجاتا ہے۔ وہ عناصر پرحکمرانی کرتا ہے اور لوح و قلم کا مالک بن جاتا ہے۔
اقبال کا مردِ مومن خدائی صفات سے متصف نظرآتا ہے۔ وہ آفاق کا مالک ہے جس کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ وہ دنیاوی مسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ کی ذات پر توکل کرتا ہے جو بظاہر آبجو ہے لیکن دریائے بیکراں کی وسعت اپنے اندر رکھتا ہے ؎
تو بے بصر ہو تو یہ مانعِ نگاہ بھی ہے
وگرنہ آگ ہے مومن، جہاں خس و خاشاک
(کلّیاتِ اقبال،ص394- )
صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا اِلٰہ میں ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص395- )
ہوں آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندۂ مومن ہوں ، نہیں دانۂ اسپند
(کلّیاتِ اقبال،ص357- )
مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ ، لا الٰہ
سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ ، لا اِلٰہ
o
نقطۂ پرکارِ حق ، مردِ خدا کا یقین
ورنہ یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
(کلّیاتِ اقبال،ص423-424- )
کافر ہے مسلماں، تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر ِ الٰہی
(کلّیاتِ اقبال،ص370- )
مردِ مومن کی علامت کی مزیدوضاحت درج ذیل اشعار میں ملاحظہ ہو ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
(کلّیاتِ اقبال،ص558- )
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن
گفتار میں ، کردار میں اللہ کی برہان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا ، صفتِ سورۂ رحمن
(کلّیاتِ اقبال،ص573- )
ہے علم فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص369- )
کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سمِ افرنگ کا تریاق
اِک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برّندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
(کلّیاتِ اقبال،ص556- )
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
(کلّیاتِ اقبال،ص308-)
بُت؍ بُت کدہ
کلامِ اقبال میں بُت کا کلمہ محض اینٹ پتھر سے بنائے ہوئے خدائوں یا دیوتائوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ وہ ان رسوم و رواج، عقائد اور رویّوں کو بھی بُت کی علامت کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں جن کی پرستش کی جاتی ہے اور جن سے عقیدت لوگوں میں دینِ حق سے دُوری پیدا کررہی ہے۔ وہ چاہے وطنیت ہو یا رنگ و نسل کا احساس، وہ دولت ہو یا انسانی تعلقات، اقبال انھیں بُت اور انھیں عزیز رکھنے کو بُت پرستی قراردیتے ہیں ؎
بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
(کلّیاتِ اقبال،ص300- )
یہ مال و دولتِ دنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گماں ، لا اِلٰہ اِلّا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا اِلٰہ اِلّا اللہ
(کلّیاتِ اقبال،ص527- )
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص187- )
یہ بُتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراشِ آذرانہ
(کلّیاتِ اقبال،ص383- )
توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستیٔ تسنیمِ عشق
(کلّیاتِ اقبال،ص139- )
حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تنِ حرم میں چھپا دی ہے روحِ بت خانہ
(کلّیاتِ اقبال،ص615- )
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرح و دین بت کدۂ تصورات
(کلّیاتِ اقبال،ص439- )
بُلبل
اقبال کے اردو کلام میں بُلبل کی علامت۳۷بار استعمال ہوئی ہے۔ اقبال بلبل کو چشمِ امتیاز بھی قراردیتے ہیں ؎
تمیز لالہ و گل سے ہے نالٰۂ بُلبل
جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیاز کرے
(کلّیاتِ اقبال،ص132- )
اقبال، سعدی کو شیراز اور داغ کو ہندوستان کی بربادی اور اپنے آپ کو امّتِ مسلمہ کے زوال پر فریاد کناں پاتے ہیں تو تینوں کے لیے بُلبل کی علامت استعمال کرتے ہیں۔ ایک دردمند شاعر کو اپنے ماحول، اپنی سرزمین، اپنی تہذیب اور اپنی قوم سے محبت ہوتی ہے۔ وہ ان کی بربادی پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اقبال بھی اپنے دردمندانہ شعری اظہار کو نالۂ بلبل کے مماثل قراردیتے ہیں۔ بلبل کی علامت کی مختلف صورتیں اقبال کے کلام میں یوں ظاہرہوتی ہیں ؎
نالٰہ کش شیراز کا بُلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر
(کلّیاتِ اقبال،ص159- )
بُلبلِ دلّی نے باندھا اس چمن میں آشیاں
ہمنوا ہیں سب عنادل باغِ ہستی کے جہاں
(کلّیاتِ اقبال،ص166- )
میں بلبلِ نالاں ہوں اس اُجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
(کلّیاتِ اقبال،ص242- )
اور بُلبل ، مطربِ رنگیں نوائے گلستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں
عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے
خامۂ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص178- )
عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن
ایک بُلبل ہے کہ محوِ ترنّم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
(کلّیاتِ اقبال،ص198- )
کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ مجاز
کلی کلی ہے تری گرمئی نوا سے گداز
(کلّیاتِ اقبال،ص225- )
پروانہ
’’پروانہ‘‘ ایک قدیم علامت ہے جسے کلاسیکی شاعری میں عاشقِ صادق کے مفہوم میں استعمال کیاگیا ہے لیکن اقبال کے یہاں اس علامت کا استعمال مختلف انداز میں ہوا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے نفس میں سوز نہیں، وہ غیرکی آگ کا محتاج ہے اور خودی کے جوہر سے محروم ہے۔چنانچہ غیرکی آگ میں جل مرتا ہے اور ایک غیرتخلیقی رویے کاشکارہوجاتا ہے۔ اقبال اپنی نظم ’’شمع وپروانہ‘‘ میں پروانے کو بلندمقام دیتے ہیں اور اسے طورِ شمع کا کلیم کہتے ہیں ؎
کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو، یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی
(کلّیاتِ اقبال،ص72- )
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
(کلّیاتِ اقبال،ص65- )
لیکن رفتہ رفتہ اقبال پروانے پر جگنو کو ترجیح دینے لگتے ہیں کہ جگنو کو پروانے پر اس اعتبار سے فوقیت حاصل ہے کہ اس کی روشنی بے تب و تاب سہی لیکن مانگی ہوئی نہیں۔وہ غیروں سے نور مانگنے کی بجائے خود اپنے وجودِ باطنی کی روشنی پراعتماد رکھتا ہے۔ اگر پروانہ یہ سوال کرتا ہے کہ ؎
پروانے کی منزل سے بہت دُور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو
(کلّیاتِ اقبال،ص442- )
تو جگنویہاں پروانے کی متضادعلامتی معنویت کے ساتھ اجاگرہوتا ہے۔ پروانہ جہاں غیرسے روشنی حاصل کرتا ہے، وہاں جگنو کے اندر ذاتی تب و تاب موجود ہے اور وہ دوسروں سے مدد طلب کرنے کے بجائے اپنے باطنی امکانات کا ظاہرکرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی خودی پہچاننے کی سعی کرتا ہے۔پروانہ ایسے افراد یا قوم کی علامت بنتا ہے جو محکوم قوم یا افراد کی خصوصیات رکھتا ہے۔ جبکہ جگنو اپنی خودی کو محکم رکھتا ہے۔ نظم ’’پروانہ اور جگنو‘‘ میں جگنو کا جواب ملاحظہ فرمائیں ؎
اللہ کا سَو شکر کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گرِ آتشِ بے گانہ نہیں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص442- )
پرویز؍خسرو؍فرہاد
خسروپرویز ،اقبال کے کلام میں ملوکیت،شہنشاہیت اور سرمایہ داری کی ایک ملی جُلی علامت ہے جبکہ فرہاد کی حیثیت ایک عاشق، ایک مشقت کا راور مزدور کی ہے۔ ان تمام مقامات پر جہاں فرہاد کی علامت کوبرتاگیا ہے شعر میں دردمندی کا احساس بہت نمایاں ہے۔ خسروپرویز کے لیے اقبال کے جذبات منفی ہیں جبکہ فرہاد کے لیے مثبت طرزِ فکر نظرآتا ہے۔ ان علامات کے ذریعے اقبال نے حکمت و دانش اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو نمایاں کیا ہے ؎
بہر زمانہ بہ اسلوبِ تازہ می گویند
حکایتِ غمِ فرہاد و عشرتِ پرویز
(کلیات اقبال فارسی،ص339- )
عشق اور ہوس کے فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے ؎
در عشق و ہوسناکی، دانی کہ تفاوت چیست
آں تیشۂ فرہادی ، ایں حیلۂ پرویزی
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص303- )
فرہاد کا ذکر کلام ِ اقبال میں کل دس بارہ بار سے زیادہ نہیں ملتا۔
تلوار؍تیغ ؍دھار
اقبال کے کلام میں تلوار یا تیغ ہتھیار کے معنوں میں نہیں بلکہ خودی کے مترادف کے طورپر استعمال ہوتی ہے ؎
خودی کا سرِّ نہاں ، لا اِلٰہ الّا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں ، لا اِلٰہ اِلّا اللہ
(کلّیاتِ اقبال،ص527- )
یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص455- )
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل
(کلّیاتِ اقبال،ص391- )
اور خودی وہ کیفیت ہے کہ انسان کا کائنات پر تصرف قائم ہوجاتا ہے۔ اقبال صرف خودی ہی کے لیے تیغ کی علامت استعمال نہیں کرتے بلکہ عشق کے لیے بھی اس علامت کو شاعری میں لاتے ہیں ؎
عشق کی تیغِ جگردار اُڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!
(کلّیاتِ اقبال،ص351- )
اور پھر یہ تیغ جدوجہد کی علامت بن کر اپنے لغوی مفہوم کے بھی قریب ہوجاتی ہے ؎
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغِ ہلال کی طرح ، عیشِ نیام سے گزر
(کلّیاتِ اقبال،ص366- )
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اِک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُو
(کلّیاتِ اقبال،ص288- )
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
(کلیاتِ اقبال،ص428- )
گویا اقبال کے نزدیک تلوار یا شمشیر کسی قوم کی وہ حالت یا کیفیت ہے جب اس کی خودی بیدار ہو۔ جب وہ جدوجہد کررہی ہو۔ یعنی عمل کی حالت میں ہو کیونکہ اِسی عمل سے قوموں کو عروج حاصل ہوتا ہے ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طائوس و رباب آخر
(کلّیاتِ اقبال،ص382- )
خودی
ڈاکٹرعابدحسین ،اقبال کے تصورِ خودی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اقبال نے خودی کو ایک فلسفیانہ اصطلاح کے طورپر اس احساس اور عقیدے کے لیے استعمال کیا ہے کہ فرد کا نفس اور انا تو ایک مخلوق اور فانی ہستی ہے لیکن یہ ہستی اپنا ایک الگ وجود رکھتی ہے جو عمل سے پائیدار اور لازوال ہوجاتا ہے اور خودی کے استعمال کی یہی صورت ہے کہ انسان اپنے ماحول سے مسلسل جنگ کرتارہے۔‘‘(44)
’’ساقی نامہ‘‘ میں اقبال خودی کے امتیازات بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں ؎
یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے؟ بیداریٔ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اِک بوند پانی میں بند
ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
(کلّیاتِ اقبال،ص455-57- )
اقبال جب خودی کو تلوار کی دھار قراردیتے ہیں تو افرنگ زدہ مسلمان انھیں خالی میان کی طرح نظرآتا ہے جو خودی کے جوہر سے بے گانہ ہے ؎
مگر یہ پیکرِ خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو زرنگار و بے شمشیر
(کلّیاتِ اقبال،ص456- )
اقبال کے خیال میں خودی ایک بحرِ بیکراں ہے جس میں باہمت انسان ہی غوطہ زن ہوکر موتی چنتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ؎
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص376- )
اقبال خودی کو انسانی زندگی کے صدف کا موتی بھی قراردیتے ہیں۔ جو صدف میں تربیت پاکر درِ شہوار بن جاتا ہے ؎
زندگانی ہے صدف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا ہے جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
(کلّیاتِ اقبال،ص543- )
اقبال خودی کا مسکن دل کو قراردیتے ہیں اور تعمیرِ خودی میں کائنات کو مضمر دیکھتے ہیں:
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص456- )
بے ذوقِ نمود زندگی موت
تعمیرِ خودی میں ہے خدائی
(کلّیاتِ اقبال،ص383- )
اقبال خودی کے عشق سے محکم ہونے کی صورت میں اسے صورِ اسرافیل اور علم سے محکم ہونے کو غیرتِ جبریل قراردیتے ہیں ؎
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل
(کلّیاتِ اقبال،ص391- )
اقبال کے نزدیک خودی میں یہ طاقت ہے کہ وہ رائی کو پہاڑ کے مانند مضبوط بنادیتی ہے اور اس کے برعکس اگر پہاڑ میں خودی کی کمزوری آجائے تو وہ رائی کے دانے کے مانند ہلکا اور بے زورہوجاتا ہے ؎
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بُو کا راز پا جا
برنگِ بحر ، ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا
(کلیاتِ اقبال،ص410- )
خودی کے عارف کو سمندر کے مانند ہوناچاہیے جو ساحل سے اپنا تعلق بھی قائم رکھے اور کفِ ساحل سے اپنا دامن بھی بچائے۔ یعنی دنیا میں رہو اور دنیا کی آلودگیوں سے اپنا دامن بھی بچائے رکھو۔ کیونکہ خودی سوال کرنے سے کمزورہوجاتی ہے۔ جب ہم کسی دوسرے کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے ہیں، کسی دوسرے کا سہارا ڈھونڈتے ہیں تو گویا اپنی خودی کا گلاگھونٹ دیتے ہیں ؎
تو اگر خوددار ہے منّت کشِ ساقی نہ ہو
عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
(کلّیاتِ اقبال،ص218- )
یہ استغنا ہے، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو
تجھے بھی چاہیے مثلِ حبابِ آبجو رہنا
(کلّیاتِ اقبال،ص102- )
استغنا سے خودی مضبوط رہتی ہے۔ خواہشات کا بڑھ جانا، بے یقینی، وسواس اور اندیشہ ہائے گوناگوں کا سبب بنتا ہے جو خودی کی موت ہے ؎
حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں
(کلّیاتِ اقبال،ص364- )
مفلسی و ناداری اور اقتصادی بدحالی بھی خودی کی موت کا باعث ہے ؎
نہ رہے ستارے کی گردش ،نہ بازیٔ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ
(کلّیاتِ اقبال،ص378- )
اقبال کے خیال میں وہ قوم جس کے جوانوں کی خودی فولاد کے مانند ہو سب سے زیادہ ممتازاور بارعب ہوتی ہے۔ ہر قوم اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتی ہے ؎
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
(کلّیاتِ اقبال،ص585- )
اقبال خودی میں کبریائی ومصطفائیؐ، حتیٰ کہ پورا جہاں دیکھتے ہیں ؎
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زَد میں ہے ساری خدائی
(کلّیاتِ اقبال،ص408- )
درویش؍قلندر؍مردِ مسلماں
اقبال کے یہاں انسانِ کامل کے لیے درویش اور قلندر کی علامت بھی استعمال کی گئی ہے۔ اقبال کی شاعری میں درویشی اور قلندری تکمیلِ انسانیت کی دو منزلوں کے نام ہیں۔ درویشی کے مرحلے پر انسانِ کامل خلوت گزیں ہوتا ہے لیکن مقصد یہ ہوتا ہے کہ یک سوئی حاصل کرکے تسخیرِ کائنات کی طرف متوجہ ہوں جبکہ قلندری عمل کا مقام ہے۔ درویش ہونے کی حیثیت سے طالب جو کچھ سوچتا ہے، قلندرہونے کی حیثیت سے اسے ایک خارجی شکل دیتا ہے۔ اقبال کا درویش جوہرِ ملکوتی کا مالک ہے جو مشرق و مغرب کی قید سے آزاد ہے ؎
فطرت نے مجھے بخشے ہیں ، جوہرملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویشِ خدامست ، نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلی ،نہ صفاہاں ،نہ سمرقند
(کلّیاتِ اقبال،ص357- )
قلندر کی علامت کو اقبال تصوف کے دائرے سے نکال کر میدانِ عمل میں لے آئے ہیں۔ مردِقلندر دنیوی جاہ وجلال اور مادی اقتدار سے بے نیازی کا رمز ہے۔ وہ اپنی ذات کے جوہر پر کامل یقین رکھتا ہے اور یقینِ کامل کی یہی صفت اسے مادی سہاروں سے بے نیاز کردیتی ہے ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
(کلّیاتِ اقبال،ص367- )
بہت مدت میں نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا
قلندر جز دو حرفِ لا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے مجازی کا
(کلّیاتِ اقبال،ص368- )
ضربِ کلیم میں اقبال کی نظم ’’قلندر کی پہچان‘‘ ان تمام تصورات کو واضح کرتی ہے جو اس علامت کے ساتھ وابستہ ہیں ؎
کہتا ہے زمانے سے یہ درویشِ جوانمرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق ، تو بھی اُدھر جا
ہنگامے ہیں میرے، تیری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بُنگاہِ قلندر سے گزر جا
میں کشتی و ملّاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تُو، تو اُتر جا
توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا ؟
ہے تجھ میں مکر جانے کی عادت تو مکر جا
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایّام کا مرکب نہیں ، راکب ہے قلندر
(کلّیاتِ اقبال،ص554- )
اقبال کائنات کے محاسبے کا اختیار مردِ قلندر کو دیتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے وقت پر اختیار و حکومت بھی تفویض کرتے ہیں۔ یہی مردِ مومن یا انسانِ کامل کی خصوصیات بھی ہیں۔
ساقی
اقبال کے یہاں شاعری کی قدیم علامتوں میں سے ’’ساقی‘‘ کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ ساقی کلاسیکی شاعری میں اکثر تصوف کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال نے اس علامت کے روحانی اور مابعدالطبیعاتی معنی برقراررکھتے ہوئے اسے وسعت دی ہے اور اسے عظمتِ رفتہ کی بازیابی، زندگی کی اعلیٰ قدروں کے فروغ اور افکارِ تازہ کی نمود کرنے والی طاقت سے مربوط کیا ہے ؎
بیا ساقی نوائے مرغِ زار از شاخسار آمد
بہار آمد، نگار آمد، نگار آمد، قرار آمد
کنار از زاہداں برگیر و بے باکانہ ساغر کش
پس از مدت ازیں شاخِ کہن بانگِ ہزار آمد
(کلّیاتِ اقبال،ص306- )
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے؟
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص346- )
بال جبریل کی ساتویں غزل کی ردیف بھی ساقی ہے۔ ساقی سے شاعر کی کیا مراد ہے؟ اس کو یہ شعر واضح کردیتا ہے ؎
حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں کرتا
کہ پیدائی تری اَب تک حجاب آمیز ہے ساقی
(کلّیاتِ اقبال،ص351- )
بال جبریل کی آٹھویں غزل کی ردیف بھی ساقی ہے۔ جس کا آخری شعر ملاحظہ ہو ؎
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی!
(کلّیاتِ اقبال،ص351- )
اس سے اگلی غزل کا مطلع قابل توجہ ہے۔ ساقی کے علاوہ مَے کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے ؎
مِٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تُو
پلا کے مجھ کو مئے لا اِلٰہ اِلّا ہُو
(کلّیاتِ اقبال،ص352- )
ستارہ؍شرر
اقبال نے اپنے جذبات و افکار کے کئی ایک نازک گوشے ستارے کی علامت کے ذریعے ظاہر کیے ہیں۔ جیسے جسم کا ستارہ،اخترِ صبح ،چاند اور تارے، ستارہ،دوستارے،بزم انجم،شبنم اور ستارے،ستارے کا پیغام وغیرہ نظمیں اس کی آئینہ دار ہیں۔ اقبال کے یہاں آغاز میں ستارے قسمت کا آئینہ ہیں لیکن پھر وہ انھیں آسمان کی فراخی میں خوار و زبوں دیکھتے ہیں، کہیں یہ ناپائیداری کی علامت بن کر آتے ہیں ؎
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب اُبھرا گیا دورِ گراں خوابی
(کلّیاتِ اقبال،ص297- )
لیکن بعد میں یہی ستارہ عروجِ آدم کے حوالے سے بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے ؎
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
(کلّیاتِ اقبال،ص350- )
گرچہ تھا تیرا تنِ خاکی نزار و درد مند
تھی ستاروں کی طرح روشن تری طبعِ بلند
(کلّیاتِ اقبال،ص282- )
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
(کلّیاتِ اقبال،ص431- )
مجموعی طورپر اقبال کے یہاں ستارہ روشنی کی علامت ہے جس کے ساتھ جسم کے اُجالے کا تصور بھی وابستہ ہے اور جسم نئی زندگی اور جدوجہد کا استعارہ ہے۔ ستارے کے ساتھ ساتھ عارضی روشنی کے لیے ’’شرر‘‘ کی علامت بھی استعمال ہوئی ہے۔ اقبال کے یہاں روشنی، حدت و حرارت کے لیے شعلہ و شرر کی علامت جزو اور کُل کے تعلق کو بھی ظاہر کرتی ہے اور فنااور استحکام کے نفاذ کو بھی۔شرر کی چمک عارضی اور لمحاتی ہے جو بعض اعتبارات سے فرد کی خودی کی مماثل ہے جبکہ شمع کی حیثیت نسبتاًمستقل اور مستحکم ہے جو اجتماعی خودی کی یاددلاتی ہے۔ شرر کے جلدفناہوجانے کے باوصف اقبال کے نزدیک اس کی یہ صفت قابلِ غور ہے کہ جو لمحہ زندگی اُسے ملتا ہے اور اس کے باوجود کہ اس کی زندگی شعلے سے مستعار ہے۔ وہ اپنی ہستی کا ثبوت دے کر مٹتا ہے۔ روحِ ارضی، آدم کا استقبال کرتے ہوئے اسے شررقراردیتی ہے اور کہیں سورج کی تب و تاب اس میں دیکھتی ہے ؎
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
(کلیاتِ اقبال،ص461- )
وہ شعلۂ روشن ترا، ظلمت گریزاں جس سے تھی
گھٹ کر ہوا مثلِ شرر تارے سے بھی کم نور تر
(کلّیاتِ اقبال،ص272- )
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض
(کلّیاتِ اقبال،ص400- )
کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں
(کلّیاتِ اقبال،ص431- )
شرر اقبال کے نزدیک زندگی کی علامت بھی ہے کہ شبِ تاریک میں ستاروں کی مدھم روشنی کی اہمیت بھی ہوتی ہے اور شرر تو کیاچنگاری بھی کم اہم نہیں ہوتی ؎
نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود
(کلّیاتِ اقبال،ص582- )
اے کہ ہے زیرِ فلک، مثلِ شرر تیری نمود
کون سمجھائے تجھے، کیا ہیں مقاماتِ وجود
(کلّیاتِ اقبال،ص626- )
سمندر؍بحر
اقبال زندگی کی وسعت کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک انسان کی ذہنی و فکری اور تخلیقی صلاحیتیں بے کراں ہیں تو پھر زندگی بھی بے کراں ہونی چاہیے ؎
ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
(کلّیاتِ اقبال،ص461- )
لیکن اس بے کرانی کے لیے اپنی حقیقت سے آگاہی ضروری ہے جو خودی کے اثبات سے ممکن ہے ؎
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل! کہ تُو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص220- )
بندگی میں گُھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
(کلّیاتِ اقبال،ص288- )
وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ
(کلّیاتِ اقبال،ص600- )
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص595- )
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہ داری مرا ساحل نہ بن جائے
(کلّیاتِ اقبال،ص350- )
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لیے
(کلّیاتِ اقبال،ص380- )
اقبال کے یہاں بحرِ بیکراں کی علامت خودی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے ؎
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جُو اسے سمجھا اگر، تو چارہ نہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص376- )
سورج؍آفتاب
سورج روشنی کاسرچشمہ بھی ہے اورحدت و حرارت کا منبع بھی۔ روشنی استعارہ ہے، ترقی و خوشحالی کا، جبکہ حدت و حرارت زندگی کو ظاہرکرتی ہے۔ اقبال نے ہمیشہ مردِ مسلماں میں شبوں کا گداز اور دنوں کی تپش طلب کی ہے۔ اقبال کے مطابق آفتاب اسی آئینِ حیات کی علامت ہے جس نے مسلمانوں کے لہو میں رچ بس کر دنیا کو رنگینیوں اور توانائیوں سے مالامال کردیا ؎
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
(کلّیاتِ اقبال،ص441- )
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے، نور کی ندیاں رواں
(کلّیاتِ اقبال،ص438- )
سورج کی روشنی اور تحرک اقبال کے نزدیک مردِ مومن کی علامت بھی ہے ؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
(کلّیاتِ اقبال،ص303- )
مثلِ خورشیدِ سحر، فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزاد، معانی میں دقیق
(کلّیاتِ اقبال،ص641- )
اور جب سورج عشق کا متبادل بنتا ہے تو یہ کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اس کی روشنی و حرارت لازوال ہوجاتی ہے ؎
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص183- )
شاہین
شاہین اقبال کی ایک ایسی علامت ہے جس کا استعارہ قدیم شاعری میں کہیں کہیں تشبیہاتی انداز میں ہوا ہے لیکن اقبال نے پہلی بار ’’شاہین‘‘ کو اپنے فکری نظام سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کی علامتی جہتوں کو اُجاگرکیااور اسے ایک لافانی مقام عطاکردیا۔ شاہین دراصل انسانِ کامل کارمز ہے جو خودی کا علمبردار ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانِ کامل کی ایک خصوصیت فقر ہے جو خودی کی تکمیل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ فقر سے مراد رہبانیت نہیں بلکہ دنیوی جاہ و جلال اور مادی علائق سے بلند ہوکر اعلیٰ مقاصد کے لیے سرگرمِ عمل ہونا ہے۔ اقبال خود شاہین کے بارے میں لکھتے ہیں ؎
’’شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خوددار اور غیرت مند ہے، اور کے ہاتھ سے ماراہوا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلندپرواز ہے۔ خلوت پسند ہے۔ تیز نگاہ ہے۔‘‘(45)
اس امر کا سراغ تو نہیں مل پایا کہ اقبال نے ژیٹس کو پڑھا تھایا نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ شاہین کو بیسویں صدی کے اس اہم انگریزی شاعر نے بھی بطور علامت استعمال کیا ہے۔ اسی طرح قازقستان کے شاعر آبائی کنن بائیف کا شاہین بھی قوت، جلال اور جمال کی علامت ہے۔ بلکہ اقبال کا شاہین علامتی ہے اور آبائی کا عقاب علامتی بھی ہے اور حقیقی بھی کہ خود آبائی عقاب پالتاتھا۔ وہ کہتا تھا کہ عقاب سُدھا نے والا جانتا ہے کہ عیار لومڑ کہاں رہتے ہیں اور وہ بھی تفریحِ طبع کے لیے شعرنہیں کہتا تھا، اقبال کی طرح ان نوجوانوں کے لیے لکھتا تھا جن کی حسیات بیدار ہوتی ہیں (46)۔دراصل شاہین کی صفات میں سے خوددار ی اور غیرت تو ایسی صفات ہیں جو تمام زندہ اقوام میں پائی جاتی ہیں مگر بے آشیانی کا تصور صرف امّتِ مسلمہ سے مخصوص ہے۔ مسلم فکر میں زمینی رشتے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے بلکہ اصل اور بنیادی اہمیت عقیدے کو حاصل ہے۔ اقبال کا شاہین اور قلندر دونوں اس صفت سے متصف ہیں۔ بلندپروازی بھی اسلامی فقر کا طرۂ امتیاز ہے۔ فقیر دنیوی مسائل اور مادی وسائل سے بلندہوجاتا ہے اور اعلیٰ ترین مقاصد کواپنا نصب العین بنالیتا ہے۔ اسی طرح سے خلوت پسندی بھی مسلم صوفیہ کا اہم شعار ہے۔ خلوت پسندی سے مراد دنیا سے علیحدگی نہیں بلکہ بے نیازی ہے اور ظاہر ہے کہ زندگی میں اعلیٰ نصب العین کے حصول کے لیے ایک منزل فکروتدبر کی ہے اور فکروتدبر کے لیے تخلیہ اور خلوت نشینی لازمی ہے۔شاہین کی تیز نگاہی بھی فقر ہی کا ایک الگ امتیازی وصف ہے اور یہی خوبی امت مسلمہ سے بھی مخصوص ہے جو اپنی تیزنگاہی اور باریک بینی کی بدولت حقیقت کی تہ تک رسائی حاصل کرتی ہے اور ہر مادی اور طبیعاتی دنیا سے آگے روحانی اور مابعدالطبیعاتی جہانوں کو اپنا مقصود قراردیتی ہے۔ شاہین کی علامت اقبال کے فلسفۂ خودی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اقبال کا مردِ مومن یا انسانِ کامل حرکت کا علمبردار ہے۔ اقبال جمود کو موت قراردیتے ہیں اورزندگی کے ارتقاء کو حرکت پذیری میں مضمر خیال کرتے ہیں۔ نیزان کا خیال ہے کہ اس حرکت پذیری کے لیے زندگی کو بے حداہمیت حاصل ہے جو زندگی کی رفتار کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے۔ اقبال کا شاہین ان تمام صفات کا حامل ہے۔
اسی طرح اقبال زندگی میں کائنات کی مختلف قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے قوت کو ایک لازمی وصف خیال کرتے ہیں۔ اقبال کا شاہین قوت کا رمز بھی ہے، لیکن اس کا مقصد کمزوروں کو دبانانہیں بلکہ باطل قوتوں کے ساتھ ٹکرانا ہے۔
شاہین کے ساتھ اقبال کرگس کا تلازمہ بھی لاتے ہیں۔ اقبال کے یہاں شاہین اور کرگس میں وہی تعلق ہے جو جگنو اور پروانے میں ہے۔ شاہین غیرت مند ہے۔ کسی اور کا مارا شکار نہیں کھاتا جبکہ کرگس مردارخور ہے۔ شاہین خودی کی ارفع صفات سے معمور ہے جبکہ کرگس نفیِ خودی کا رمز ہے۔ شاہین کی مختلف صفات اقبال کے یہاں دیکھئے ؎
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
(کلّیاتِ اقبال،ص448- )
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
(کلّیاتِ اقبال ،ص368- )
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
(کلّیاتِ اقبال،ص355- )
ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل
شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہو گیا
(کلّیاتِ اقبال،ص246- )
نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکارِ مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص372- )
اسی اقبالؔ کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا
(کلّیاتِ اقبال،ص386- )
فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آ گیا کیونکر
میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری
(کلّیاتِ اقبال،ص389- )
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص390- )
ترا جوہر ہے نوری ، پاک ہے تُو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تُو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حُور
کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے تُو
(کلّیاتِ اقبال،ص409- )
گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
(کلّیاتِ اقبال،ص437- )
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ
(کلّیاتِ اقبال،ص443- )
پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار
شکارِ زندہ کی لذّت سے بے نصیب رہا
(کلّیاتِ اقبال،ص494- )
بالِ جبریل کے درج بالا اشعار کے علاوہ اس مجموعے میں’’شاہین‘‘ کے عنوان سے اقبال کی ایک نظم موجود ہے۔ جس میں شاہین کی مختلف صفات، جن میں بلندپروازی،تحرک اور درویشی وغیرہ شامل ہیں ؎
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
نہ بادِ بہاری، نہ گلچیں، نہ بُلبل
نہ بیماریٔ نغمۂ عاشقانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
(کلّیاتِ اقبال،ص495- )
شمع
شمع کا تذکرہ اقبال کے اردو کلام میں کم و بیش بیس مرتبہ ہوا ہے۔ جبکہ چارنظموں میں شمع،شمع اور پروانہ، بچہ اور شمع،شمع اور شاعرمیں شمع موضوع کی حیثیت سے آتی ہے۔ موخّرالذکر نظم میں شمع نے واضح طورپر شاعرکاروپ دھارلیا ہے کہ جلنا ہے اور جلتے رہنا اس کی فطرت ہے۔ اسے پروانوں کو اپنے قریب لانے کا شوق نہیں بلکہ پروانوں کا جلنا شمع کے داخلی، بے ساختہ سوز کا ایک قدرتی حاصل ہے ؎
حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو ملنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
(کلّیاتِ اقبال،ص77- )
ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمعِ مزار تُو
ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو
(کلّیاتِ اقبال،ص75- )
دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن
نہ تری حکایتِ سوز میں نہ مری حدیثِ گداز میں
(کلّیاتِ اقبال،ص313- )
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفس
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
(کلّیاتِ اقبال،ص457- )
شمع کی طرح جیئیں بزم گہِ عالم میں
خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
(کلّیاتِ اقبال،ص158- )
شمعِ محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے
(کلّیاتِ اقبال،ص213- )
شمع تو محفلِ صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص73- )
یہ تلاشِ متّصل شمعِ جہاں افروز ہے
تو سنِ ادراک انساں کو خرام آموز ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص54- )
پھر یہ انساں آں سرِ افلاک ہے جس کی نظر
قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر
جو مثالِ شمع روشن محفلِ قدرت میں ہے
آسماں اِک نقطہ جس کی وسعتِ فطرت میں ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص261- )
صحرا
’’صحرا‘‘اقبال کے نزدیک وہ خوش نصیب خطۂ ارض ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیداہوئے۔ جس کے کشادہ افق سے امّتوں نے طلوع کیا۔ جس زمین کو اقبال کے محبوب کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ہے۔ مسکنِ محبوب ہونے کے علاوہ صحرائی کشادگی یوں بھی اہلِ جنوں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ صحرا کے متعلقات میں کلامِ اقبال میں کارواں،راہی، محمل، ناقۂ لیلی، قیس، آہو، طناب، خیمہ اور اس قبیل کے جملہ الفاظ مجموعی طورپر ۳۲۵بار برتے گئے ہیں۔ کارواں قومی اور ملی زندگی کے اجتماعی تحرک کا ترجمان بھی ہے۔ اقبال نے کارواں، امیرِ کارواں، بانگِ درا، منزلِ راہی، راہی کے کلمات کو مسلمانوں کی حالت بیان کرنے کے لیے اوراپنے پیغام کے اظہار وابلاغ کے لیے زیادہ موزوں پایا۔ چندمثالیں ملاحظ ہوں ؎
پھول بے پروا ہیں تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے آوازِ درا ہو یا نہ ہو
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
(کلّیاتِ اقبال،ص213-214- )
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
تو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی
(کلّیاتِ اقبال،ص355-370- )
پَرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص299- )
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال!ؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل میں ہوں
(کلّیاتِ اقبال،ص132- )
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیرِ یک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
(کلّیاتِ اقبال،ص235- )
اس سفر کا ایک پہلو حرکت و تفسیر ہے جو اقبال کے بنیادی افکار میں شامل ہے ؎
ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی
(کلّیاتِ اقبال،ص382- )
اقبال کے یہاں صحرا کے حوالے سے آہو وغیرہ کے الفاظ بھی اقبال کی صحرا سے دلچسپی کو ظاہرکرتے ہیں۔ اقبال مردِ مسلمان کے لیے آہو کا کلمہ استعمال کرتے ہیں ؎
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
(کلّیاتِ اقبال،ص241- )
اقبال کے نزدیک انسان ذرہ نہیں بلکہ اس میں صحرا سمٹا ہوا ہے۔ یہ صحرا عشق کے ذریعے ہی منکشف ہوسکتا ہے ؎
اس ذرّہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرّہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص206- )
عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے
مشتِ خاک ایسی نہاں زیرِ قبا رکھتا ہوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص149- )
عشق؍عقل؍علم
اقبال کا تصورِ عشق اردو شاعری کی روایت سے بالکل مختلف ہے۔ وہ خود عقل اور عشق کو حریف قراردیتے ہیں۔ عشق قوتِ عمل اور جوشِ انقلاب سے عبارت ہے اور اس کا مقصدِ اولیٰ زمانے کو اپنی آرزو کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اقبال کے خیال میں ماہیتِ وجود کا عرفان محض حسی ادراک یا منطقی عقل سے نہیں ہو سکتا۔ ادراک اور عقل وجود کا طواف تو کرسکتے ہیں لیکن حریمِ ذات میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ عشق ہی کی بصیرت ہے جس میں شاہدومشہود کی وحدت کا ادراک ہوتا ہے۔ عشق ماہیتِ اشیاء کے باطن سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور محض خارج سے اس کا مشاہدہ نہیں کرتا۔
اقبال کے نزدیک عشق انسانی جذبات میں سب سے زیادہ طاقتورجذبہ ہے جس سے کائنات مسخرکی جاسکتی ہے۔ جس کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی۔ عشق ایک ایسی دُھن یا لگن کا نام ہے کہ جس میں انسان کو مقصد کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ یہ ایک تندوتیزسیلاب کے مانند ہے اور ہر قسم کی رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے ؎
ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید، عشق
عقلِ انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید، عشق
(کلّیاتِ اقبال،ص183- )
نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں عشق کی تخلیقی صلاحیتوں کو اقبال بڑی خوبصورتی سے واضح کرتے ہیں ؎
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود ایک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دِل مصطفی
عشق خدا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق ہے نُورِ حیات، عشق ہے نارِ حیات
(کلّیاتِ اقبال،ص420-421- )
اقبال عشق سے سوزِ زندگی کا اثبات کرتے ہیں ؎
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص183- )
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات
(کلّیاتِ اقبال،ص439- )
اقبال عشق میں ایک خاص صفت اثباتِ وجود دیکھتے ہیں۔ ضرب کلیم سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے
اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے
مہ و ستارہ مثالِ شرارہ یک دو نفس
مئے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص578- )
اقبال عشق کے امتیازات کی وضاحت ضربِ کلیم میں موجود نظم’’علم وعشق‘‘ میں بھی کرتے ہیں جہاں عشق اثباتِ ذات، عمل، قوت و اقتدار اور تمام علوم کا ماخذ قرارپاتا ہے ؎
علم نے مجھ سے کہا، عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا، علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام، صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمین
عشق سراپا یقیں اور یقین فتح یاب
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذّتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پر حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے امّ الکتاب
(کلیاتِ اقبال،ص532-533- )
عشق اور عقل کا مقابلہ کرتے ہوئے اقبال عشق کو ہر طرح کی مصلحت سے بالاتراور ہرمنظر سے بے نیاز قراردیتے ہیں ؎
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
(کلّیاتِ اقبال،ص310- )
چنانچہ عشق کی اپنی خصوصیات کی بناپر وہ دیارِ عشق میں نام پیداکرنے کا مشورہ دیتے ہیں ؎
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
(کلّیاتِ اقبال،ص443- )
یہاں یہ واضح رہے کہ دل محلِّ عشق ہے اس لیے عقل اور دل کا مقابلہ بھی دراصل عقل اور عشق کا مقابلہ ہے۔ جب عقل یہ کہتی ہے کہ میں خضرِ خجستہ پا کی مانند ہوں، کتابِ ہستی کی مفسّر ہوں تو جواب میں دل کا موقف ملاحظہ کیجئے ؎
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفلِ صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص72- )
فقر
اقبال کے کلام میں فقر بھی تصوف کی وہ اصطلاح نہیں جو عجز، بے بسی اور افلاس سے متعلق ہے بلکہ یہ مردِ مومن کا مال و دولتِ دنیا سے استغنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زمانہ ستیزی کا معلّم بھی۔ اقبال کا صاحبِ فقر یعنی مردِ قلندر صرف اپنی ذات کو کثافتوں سے محفوظ نہیں کرتا بلکہ ایجاباً اپنے زمانے سے ٹکرلیتا ہے اور اقدارِ مروجہ کی جگہ بزور قوت نئی اقدارقائم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔
اقبال فقر کی تفسیر حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت ابوذرغفاریؓ اور حضرت امام حسینؓ کے ذریعے کرتے ہیں۔ غزوۂ تبوک کاحوالہ دے کر، جب حضرت ابوبکرؓ تمام تر سامان خدا کے راستے پر لٹانے کے لیے آئے تھے، اقبال یہ کہتے ہیں ؎
پروانے کو چراغ تو بُلبل کو پھُول ،بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول ،بس
(کلّیاتِ اقبال،ص252- )
حضرت ابوذرغفاریؓ کی ساری زندگی فقر پرعمل کرتے گزری۔ وہ یہ خصوصیت مسلمانوں میں بھی دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ اقبال کے نزدیک قیصروکسریٰ کے استبداد کو ختم کرنے کے محرکات میں فقر بھی شامل ہے ؎
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورِ حیدر، فقرِ بوذر، صدقِ سلمانی
(کلّیاتِ اقبال،ص301- )
اور حضرت امام حسینؓ جنہوں نے اپنی جان و مال، عزیزواقارب سبھی کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا، آپ کا فقر اقبال مردِ مسلماں کی میراث سمجھتے ہیں ؎
اِک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیری
(کلّیاتِ اقبال،ص490- )
یوں فقر کی علامت سب کچھ قربان کرنے کی صلاحیت کو بھی ظاہرکرتی ہے اور مدّمقابل کو شکست سے دوچارکرنے کی قوت کا اظہار بھی کرتی ہے۔
کلیم
اقبال کے اردو کلام میں طُور اور اس کے متعلقات کا ذکر۸۰بارآیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اقبال کو کوہِ طُور، حضرت موسیٰ ؑ،تجلی وغیرہ سے کس درجہ لگائو تھا۔ وہ گلِ رنگیں کو دیکھتے ہیں تو برگِ ریاض طُور کا احساس ہوتا ہے ؎
میری صورت بھی تو اِک برگِ ریاضِ طُور ہے
میں چمن سے دُور ہوں تو بھی چمن سے دُور ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص54- )
شمع و پروانہ میں پروانے کے بارے میں اقبال کا تصور ملاحظہ ہو ؎
کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو، یہ ذرا سا کلیم ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص72- )
بانگِ درا کے آخر میں صور ت ِحال مختلف نظرآتی ہے ؎
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم
اپنی ہستی میں عیاں شعلۂ سینائی کر
(کلّیاتِ اقبال،ص331- )
کھلتے نہیں اس قلزمِ خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چیرے
(کلّیاتِ اقبال،ص497- )
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
(کلّیاتِ اقبال،ص396- )
اقبال کے یہاں کلیم ایک ایسے کردار کی علامت بن کر ابھرتا ہے جس کی وساطت سے حسنِ گریزپا کی جگہ قوت اور اقتدار کی گرفت اقبال کے ذہن پر بڑھتی نظرآتی ہے۔ جمال کی جگہ جلال لیتا ہے اور انفعالیت، فعالیت میں تبدیل ہوتی نظرآتی ہے۔
لالہ
جن پرانی علامتوں کو اقبال نے نئی معنویت سے ہمکنار کیا ہے۔ ان میں لالہ ایک اہم علامت ہے۔ لالہ اقبال کے فکری نظام سے مکمل طورپر مربوط ہے۔ لالٰۂ صحرااِن کے یہاں عرب کی ثقافت کے طورپرابھرا ہے۔ آگے بڑھ کر یہی علامت امّتِ محمدیہ کا حوالہ بنتی ہے۔ لالہ اقبال کے یہاں رمزِ جمال بھی ہے۔ اسی طرح لالہ کلامِ اقبال میں کبھی کبھی عشق کی علامت بھی بنتا ہے۔ وہ لالہ کے ساتھ جلالی اور جمالی ہر دو طرح کی صفات منسوب کرتے ہیں۔ یہی دو صفات اقبال کے مردِ مومن میں پائی جاتی ہیں۔ کہیں کہیں چراغِ لالہ کی ترکیب استعمال کرکے اقبال لالہ کے حوالے سے نُور کا احساس کرتے ہیں اور یوں لالہ روشنی، خیراور علم کا رمز بھی ہے۔ اقبال کے اردو کلام میں بانگِ درا کے حصہ اول یعنی1905ء تک کی شاعری میں لالہ کا تذکرہ نہیں ملتا۔ بانگِ درا کے دوسرے دور کی شاعری میں ہم لالہ کی علامت سے متعارف ہوتے ہیں ؎
حسنِ ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
(کلّیاتِ اقبال،ص150- )
یہاں لالہ کی علامتی حیثیت ابھی واضح نہیں ہے۔ لالہ کی علامتی حیثیت کی وضاحت ’’بلادِ اسلامیہ‘‘ میں ملتی ہے ؎
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
(کلّیاتِ اقبال،ص171- )
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کو امتِ محمدیہ اور لالہ کے درمیان بہت سے مشابہتیں نظرآتی ہیں ؎
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینہ میں رکھتے ہیں وہ لالے ہی نہیں
(کلّیاتِ اقبال،ص198- )
بالِ جبریل میں لالہ کی علامت مزیدوسعت اختیارکرتی ہے اور اسلام جو کہ دینِ فطرت ہے، کی نمائندگی کرتی نظرآتی ہے ؎
میری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
(کلّیاتِ اقبال،ص353- )
اقبال اپنی نظم’’لالۂ صحرا‘‘ میں امتِ محمدیہ اور لالہ کی مشابہتیں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ؎
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میں شعلۂ سینائی
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اِک جذبۂ پیدائی،اِک لذّتِ یکتائی
اے بادِ بیابانی، مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی
(کلّیاتِ اقبال،ص449- )
امتِ محمدیؐ کے تمدن و ثقافت، افکار وعقائد اس وقت تک صحت مند و توانارہے جب تک عرب کے بیاباں میں رہے۔ عجم، عراق اور ہندوستان میں یہ لالۂ صحرائی نہ پنپ سکا۔ لالہ کا سُرخ رنگ اقبال کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ غالباً اس لیے کہ یہ بیک وقت جذبات کی شدت، زندگی کی حدت و حرارت اور حسن و نکھار کا مظہر ہے۔ پھر لالہ کا سیاہ داغ جو سوزِ دروں کی علامت ہے، اس کا خود رَو ہونا کہ اس طرح وہ اپنی حنا بندی کے لیے کس غیر کی مشاطگی کا محتاج بنے اور لالہ کا صحرا سے متعلق ہونا کہ صحراور صحرائی زندگی سے اقبال کو جو خصوصی لگائو تھا، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ملّتِ اسلامیہ یا ہیئتِ ملتِ اسلامیہ کے علاوہ شاعر نے تہذیبِ حجاز کے لیے لالۂ صحرائی کو برتا ہے۔ لالہ کی جملہ صفات کو سامنے رکھتے ہوئے تہذیبِ حجاز کی وہ خصوصیت سمجھنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے جو عام طور سے اقبال کا مقصودِ نگاہ ہیں اور جن کی خصوصیات کی کمی کی بنا پر عجم کی اصطلاح کا مفہوم کلام اقبال میں متعین ہوتا ہے۔اقبال سمجھتے ہیں کہ لالہ بادِبیابانی میں ہی پنپ سکتا ہے۔ چندمثالیں ملاحظہ ہوں ؎
پنپ سکا نہ خیاباں میں لالہء دل سوز
کہ سازگار نہیں یہ جہانِ گندم و جَو
(کلّیاتِ اقبال،ص399- )
چمن میں رختِ گل شبنم سے تَر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص410- )
چنانچہ اقبال ثقافتِ اسلامی کے سرچشمہ کی طرف پلٹتے ہیں جو ان کے موقف کے مطابق صحرائے عرب ہے ؎
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
(کلّیاتِ اقبال،ص432- )
ضربِ کلیم میں اقبال محسوس کررہے تھے کہ ان کا کلام اسلامیانِ ہند پر اثراندازہورہا ہے چنانچہ وہ فخریہ کہتے ہیں ؎
مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا
نسیمِ صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی
مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن
زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ابھی
(کلّیاتِ اقبال،ص654- )
نَے؍نے نوازی
اقبال نے نَے نوازی کو شعر گوئی کی علامت کے طورپر استعمال کیا ہے ؎
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
(کلّیاتِ اقبال،ص354- )
اقبال اپنے کلام سے سننے والوں کے دل میں گرمی پیداکرناچاہتے ہیں۔ بقول سیدعابدعلی عابد:
’’نَے دراصل فنونِ لطیفہ کی علامت ہے لیکن اس کا تعلق خاص طورپر شعر سے ہے۔ اقبال کے کلام میں نَے نوازی شاعری ہے۔ نے نواز یعنی شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ اپنے ہم قوموں کے دلوں کو گرمادے اور ان سوئے ہوئے ولولوں کو جگائے جن سے زندگی عبارت ہوتی ہے۔‘‘(47)
آیا کہاں سے نالۂ نَے میں سرورِ مے
اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چَوبِ نَے!
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے
(کلّیاتِ اقبال،ص627- )
کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی
نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی
نگہ آلودۂ اندازِ افرنگ
طبیعت غزنوی، قسمت ایازی
(کلّیاتِ اقبال،ص407- )
اقبال کی تمثال نگاری اور پیکرتراشی میں بھی علامتیں کارفرماہیں۔ اقبال نے ایسی تمثالوں کو پھر سے اہمیت دی جو دنیا کے حافظے سے محوہوچکی تھیں۔ ایسے کردار جو تاریخ کے صفحوں میں کہیں گم ہوچکے تھے ،اقبال نے انھیں اپنے شعروں میں یوں برتا کہ وہ زندۂ جاوید ہوگئے۔ اقبال کی پیکرتراشی منفرد ہی نہیں ہمہ جہت اور متحرک بھی تھی۔ جیسے انسان کی خودی کا تصور کہ جس کی رسائی کی کوئی حد نہیں۔ ازل اس کے پیچھے ہے تو ابد سامنے ہے جسے زمان و مکاں کے پیمانوں میں قید نہیں کیاجاسکتا۔ ایسا ہی ایک کردار اس مومن کا ہے جو خودی کی تجسیم ہے ؎
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشمکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
(کلّیاتِ اقبال،ص506- )
اقبال نے عصر یا زمانے کو ’’تارِحریر دورنگ‘‘ کی مثل کہا جو اقبال کی تصوریت یا تمثال نگاری کی شعریت اور معنی خیزی کے کمال کو ظاہر کرتی ہے۔ این۔ میری شمل نے اس علامت سے خالقِ کل کے حوالے سے یہ سمجھا کہ اس نے وقت کو دو مختلف رنگوں میں رنگا ہے جو قدیم ایرانی تصورات کے مطابق وقت کے تصور کے ابہام کو ظاہر کرتی ہے کہ جو انسانی جہدوعمل سے قطع نظر انسان کی جزاورسزا کا فیصلہ کرتا ہے۔(48)
اقبال مانوس تمثالوں کو پرانے خیالات دہرانے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ اقبال کی فطانت اور وہبی صلاحیت ان علامتوں ،تمثالوں اور پیکروں میں نئی گہرائی، گیرائی اور معنوی امکانات کے در وا کرتی ہے۔ اقبال نے اپنی طویل نظموں میںجدید مغربی نظم نگاروں کو محبوب ڈرامائی کیفیات سے مملو کہانی اور وقوعے کی فضا تشکیل دی ہے۔ وہ نئے استعارے دریافت کرتے ہیں اور پرانے کرداروں کو نیا روپ بھی دیتے ہیں جیسا کہ انھوں نے ابلیس کو ایک نئے مگر جاندار کردار کے طورپر پیش کیا ؎
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو!
(کلّیاتِ اقبال،ص۔474-475 )
یہاں تک کہ اقبال کا محبوب بھی روایتی نہیں اور نہ ہی آپ اسے عورت کے روپ میں دیکھتے ہیں کہ وہ اس منزل سے کہیں ارفع منزل پر فائز ہیں جو بیان کے جوش، رمزیت کی رفعت اور بلا کی ایمانی قوت سے ملا کرتی ہے ؎
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
(کلّیاتِ اقبال،ص۔345 )
اقبال کی علامت نگاری اور تمثالیت اس کی ایسی تشبیہوں میں ظاہر ہوتی ہے جو ہمارے سامنے کی ہیں اور ہماری محسوسات سے بہت قریب بھی ہیں جیسے ؎
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
(کلّیاتِ اقبال،ص110- )
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی ، آئینہ دیکھتا ہو
(کلّیاتِ اقبال،ص ۔79)
وہ اپنی ان متحرک تصویروں سے غیر ذی روح چیزوں میں یوں جان پیدا کردیتے ہیں کہ وہ ہمیں چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔
اقبال کی ڈرامائی کیفیات بھی انسانی فطرت کے بہت قریب ہیں، اگرچہ بلندآہنگ ہیں۔ ان کی خودکلامی بھی ایک نوع کی تمثال نگاری ہے جس میں کہانی کا رنگ ہے اور کردار آپس میں عصری موضوعات پر سنجیدہ مکالمہ کرتے ہیں۔
اقبال کی تمام شاعری گواہ ہے کہ عصر، عشق، ایمان اور فن کے امتزاج سے اقبال نے عشقِ ایماں اور فن کو اپنی تمثالوں، علامتوں، استعاروں، تشبیہوں اور رمزوں سمیت اتنی بسیط سطح پر مدغم کیا ہے کہ ان میں کہیں کوئی جوڑ نظرنہیں آتا۔
گزشتہ صفحات میں اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی یہ علامات ان کی فکر سے مربوط ہیں اور کلامِ اقبال کی تفہیم میں بنیادی کردار اداکرتی ہیں۔ جب تک ان علامتوں کا مفہوم قاری پر واضح نہ ہو، کلام اقبال کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اقبال کی علامات کوئی معمہ یا چیستان نہیں جو فہمِ انسانی کے احاطے سے باہرہوبلکہ اقبال کی یہ علامات اسلامی مابعدالطبیعات سے اخذ کی گئی ہیں۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو فلسفۂ اسلام سے آگاہ ہے اس کے لیے کلامِ اقبال میں موجود علامات کو سمجھنا بہت سہل ہے اور ان علامات کی معنویت تک رسائی حاصل کرنا مشکل نہیں۔ یوں اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامات کا دائرہ مکمل ہوتا ہے اور یہ کہاجاسکتا ہے کہ اقبال کے افکار کی مکمل تفہیم کے لیے لازم ہے کہ ان علائم کی تعبیر کی جائے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کلام اقبال کی تفہیم جس قدر وسعت اختیارکررہی ہے اسی اعتبار سے فکرِ اقبال کے گوناگوں اثرات بھی نمایاں ہورہے ہیں۔ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے کلامِ اقبال چراغِ منزل کا کام دے رہا ہے اور اس عمل میں شریک شعرا اپنی اپنی بساط کے مطابق اس سے کسبِ نورکررہے ہیں۔
اقبال کی شاعری کا نظامِ رموز و علائم ان کے یہاں ارتقاء اور وسعت کے امکانات پورے کرتا ہے اور اپنی جامعیت کے باعث بعد کے شعرا کے لیے مینارۂ نور تو ہے لیکن اسے اختیارکرنا کارِ محال بھی ہے۔
حواشی و حوالہ جات
1. The New Encyclopedia of Britannica: London.
15th Edition, Vol 17, 1973-74, P.900.
2. The Encyclopedia of Americana, Grolier
Incorporated, Danbury, Vol.26, 1972, P. 166.
3. Webster’s Encyclopedic Unabridged Dictionary of
the English Language: New York; Gramercy Books,
1989, P.14.
4. J.A. Cuddon: Dictionary of Literary Terms and
Literary Theory; Penguin Books, London. 1975, P.276.
5. Charles Chadwick: Symbolism; W.W; London. 1973,
P.41.
6. William York Tindall: The Literary Symbol: Indiana
University Press: 1960, P.12.
-7 عبدالمتین عارف: امکانات، لاہور، ٹیکنیکل پبلشرز، اردوبازار، 1975 ،ص۔135 ۔
-8 بحوالہ مقالہ ’’نثری نظم اور اس کی تکنیک‘‘ از فخرالحق نوری، مشمولہ مجلہ ’’القلم‘‘
گورنمنٹ کالج ،پتوکی،1966 ، ص۔26 ۔
-9 (ڈاکٹر)وزیرآغا:اردو شاعری کا مزاج، لاہور، مکتبۂ عالیہ،1978 ،ص43- ۔
-10 (ڈاکٹر)ابنِ فرید: میں، ہم اور ادب، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، 1977 ،
ص21,22- ۔
-11 جیلانی کامران: شاعری میں علامتوں کا مسئلہ، مقالہ، مشمولہ ادبی دنیا، لاہور،
شمارہ11،1968 ،ص233- ۔
-12 ایضاً:ص۔238 ۔
-13 (ڈاکٹر)سجادباقررضوی: تہذیب و تخلیق، لاہور، مکتبۂ جدید، 1966 ء ،ص58- ۔
-14 شادامرتسری: شاعری میں علامتوں کا مسئلہ، مقالہ ادبی دنیا، لاہور،
شمارہ11 ،1968 ء ،ص۔231-32 ۔
-15 (ڈاکٹر)وزیرآغا: علامت کیا ہے؟ مقالہ،مشمولہ’’علامت‘‘، لاہور،
جنوری1996 ئ،ص14- ۔
-16 (ڈاکٹر)محمداجمل: مقالاتِ اجمل مرتبہ: شیمامجید،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ،لاہور،
1987،ص۔144 ۔
-17 (ڈاکٹر)سلیم اختر:تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید، سنگِ میل پبلی کیشنز،
لاہور،1989 ء ،ص۔118 ۔
-18 شمیم احمد: طلسم ہوشرباکی علامتی اہمیت، مقالہ،مشمولہ’’نیادور‘‘ کراچی
شمارہ23-34 ،ص۔321 ۔
19. J.A Cuddon: op.cit. P.413.
-20 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان ، محمدسلیم الرحمن( مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات،
شعبہ اردو ،جی۔ سی۔ یونیورسٹی، لاہور، طبع اول ، 2005 ، ص۔113 ۔
-21 ایضاً:ص۔166
-22 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد1- (ادبیات): قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،
نئی دہلی، طبع اول،2003 ،ص۔391 ۔
-23 ایضاً:ص۔117-118
-24 (ڈاکٹر)نورالحسن ہاشمی: دلّی کا دبستانِ شاعری، بک ٹاک، لاہور، 1991،ص35۔
-25 (ڈاکٹر)ابواللیث صدیقی: لکھنؤ کا دبستانِ شاعری، غضنفراکیڈمی،کراچی،
1987،ص74- ۔
-26 (ڈاکٹر)نورالحسن ہاشمی:کتاب مذکور، 1991 ،ص۔113 ۔
-27 انتظارحسین:علامتوں کا زوال، سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،1983 ،ص۔54 ۔
-28 محمدحسین آزاد: نظمِ آزاد، شیخ مبارک علی اینڈ سنز، لاہور، س ۔ن،ص۔27
-29 ایضاً:ص۔-24
-30 ایضاً:ص۔24 ۔
-31 الطاف حسین حالی، مقدمہ شعروشاعری، کشمیرکتاب گھر،لاہور، 1978 ، ص58- ۔
-32 ایضاً:ص۔94 ۔
-33 (ڈاکٹر)وحیدقریشی، صحیفہ، شمارہ نمبر2، س ن،ص۔ 8 ۔9
-34 (ڈاکٹر)خواجہ محمدزکریا: اکبرالٰہ آبادی، سنگ ِمیل پبلی کیشنز، لاہور، 1986 ،
ص۔266 ۔
-35 بلراج کومل: شاعری میں علامتوں کا مسئلہ، مقالہ ادبی دنیا، لاہور، شمارہ11 ،1968 ،
ص۔223 ۔
-36 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا مذکور، ص۔ 18 ،117۔
-37 جامع اردو انسائیکلوپیڈیامذکور، ص۔602 ۔
-38 جامع اردو انسائیکلوپیڈیامذکور، ص۔14 ،13۔
-39 جامع اردو انسائیکلوپیڈیامذکور، ص۔88 ۔
-40 (ڈاکٹر)سجادباقررضوی:علامہ اقبال اور عرضِ حال، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،
1994ء ، ص۔13 ۔
-41 (ڈاکٹر)سلیم اختر: اقبال کی فکری میراث، بزمِ اقبال،لاہور، 1996 ء ، ص۔7 ۔
-42 وزیرالحسن عابدی، اقبال کے شعری ماخذ، مجلس ترقی ادب، لاہور،1977 ء ،
ص۔14 ۔
-43 (ڈاکٹر ) سعداللہ کلیم: اقبال کے مشبہ بہ، مستعار منہ، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،
1985ئ،ص۔30 ۔
-44 بحوالہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ مرتّبہ: اے۔ جی۔ نیازی: عشرت پبلشنگ ہائوس، لاہور،
1965ء ، ص19 ۔
-45 بحوالہ اقبال نامہ( حصہ اوّل) مرتّبہ شیخ عطاء اللہ: شیخ اشرف اینڈ سنز، لاہور،س ن،
ص۔204 ۔
46۔ آبائی کننبائف: محبت روشن رہتی ہے، مترجمہ: خالد اقبال یاسر، اکادمی ادبیات پاکستان
اسلام آباد، 1995 ء ،ص۔85 ،35 ،9 ۔
-47 سیدعابدعلی عابد: شعرِ اقبال، بزمِ اقبال،لاہور، 1977 ئ،ص405 ۔
48- Dr. Anne-marie Schimmel, : Gabriel’s Wings,
E.T.Brill, Leiden, 1963, P.295.