باب سوم :حصہ د وم
فطرت پسندی کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء
فطرت پسندی یوں تو ایک جذبے کا نام ہے جو کائنات اور اس کے مظاہر سے انسان کے ازلی و ابدی تعلّق کی بنیادپر وجود میں آتا ہے۔ تاہم اصطلاحاً اس کا سلسلہ اس رویّے اور رجحان سے جُڑا ہوا ہے جس کا آغاز فرانس سے ہوا اور جسے نظریاتی بنیادوں پر استوارکرنے میں ہیپولٹ طین (HippolyteTaine)،کومٹے(Comte) ایملی زولا(Emile Zola) اور ڈارون(Darwin) نے اہم کرداراداکیا اور نیچرلزم (Naturalism) کی اصطلاح وضع کرکے اسے کائنات کی حیاتیاتی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔
جے اے کڈن(J. A. Cuddon) کے مطابق:
“In literature naturalism developed out of realism. The main influences that went to forming a different point of view were Darwin’s biological theories, Comte’s application of scientific ideas to the study of society, and Taine’s application of deterministic theories to literature.” (1)
فطرت سے وابستگی رکھنے والے ان نظریہ سازوں کے یہاں انسان کی زندگی اور اس کے اعمال سماجی حالات کے آئینے میں ترتیب پاتے ہیں اور فطرت کے مظاہر اور مناظرہرآن اس پراثراندازہوتے اور اس کی داخلی کیفیتوں کو جنم دیتے ہیں۔ ادبی تنقیدمیں نیچرلز م کا لفظ عام طورپر فطری حسن سے والہانہ تعلق کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم اس کے حقیقی مفہوم کو دیکھاجائے تو ہمارا ذہن اس نکتے پر مرکوز ہوتا ہے کہ عالمِ موجود کی تمام اشیاء فطرت کا لازمی حصہ ہیں اور سب اپنے وجود کے فطری اور مادی مقاصد رکھتی ہیں۔ عالمِ وجود کا ایک لازمہ انسان کی ذات بھی ہے جو بجائے خود فطرت کا ایک عظیم الشّان مظہر ہے۔ انسان کی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ خودپرگزرنے والی کیفیتوں کو مختلف سطحوں پر محسوس کرتا ہے۔ اس کے محسوسات فطری طورپرتشکیل پاتے ہیں البتہ ان کے اثرات کی سطحیں مختلف ہیں۔
فطرت پسندی میں فطرت کا لفظ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ فطرت یا Nature کے معانی قدرت، مایا، عالم یا کائنات کے ہیں۔(2) قدرت وہ الوہی قوت ہے جو تخلیقِ کائنات، اس کے ارتقاء اور اسے مربوط و منظم رکھنے پر قادر ہے۔ دوسرے کائنات میں تمام اشیاء اور مظاہر شامل ہیں خاص طورپر وہ مادی اور ظاہری دنیا جس تک انسان کی رسائی نہ ہوئی ہو اور وہ ابھی تک اَن چھوئی حالت میں موجود ہو۔ تیسرے کسی شے کی خاصیتوں اور اوصاف کا مجموعہ جن سے وہ شے مرتب ہوئی ہو اور آخری مفہوم میںوہ جبلّتیں یا خلْقی رجحانات شامل ہیں جن سے ذاتی رویہ اور مزاج بنتا ہو۔ (3)
فطرت پسندی (Naturalism) کو فطریت بھی کہاجاتا ہے۔ اس کے سیدھے سیدھے معانی یہ ہیں کہ ’’فطری جبلتوں اور تمنائوں سے پیدا ہونے والا، فطری باتوں سے وابستگی یا اُنس۔‘‘(4) فلسفیانہ زاویے سے فطرت یا فطرت پسندی’’وہ طریقہ کار ہے جس میں ہر مظہراور ہرقدر کو بیان کرنے کے لیے فطرت یا نیچر کا وسیلہ اختیار کیاجاتا ہے۔‘‘(5) مافوق الفطرت اس کے متضاد ہے اور تصوریت بھی اس کے الٹ معانی دیتی ہے۔ تجربیت اور مادیت کے رجحانات فکری سطح پر فطریت کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اثباتیت کا تصور بھی فطریت کے مترادف ہے۔ فطریت روحانی یا غائیتی دلائل سے نہیں بلکہ عِلل (Causes) سے علاقہ رکھتی ہے۔
جیسا کہ کہاجاچکا ہے، فطرت پسندی یا فطریت حقیقت پسندی کے مدارج میں سے ایک ہے۔ اسے مبالغہ آمیز حقیقت پسندی بھی کہاجاتا ہے۔ وہ شاعر یا فکشن لکھنے والا جو مظاہرِ فطرت کے حسن کا دلدادہ ہو اسے فطرت پسند کہاجائے گا۔
حقیقت پسندی کا آغاز انسانی خصوصیات اور اس کے پس منظر کے سائنسی مطالعے سے ہوتا ہے۔ اسے آپ ایک طرح کی معاشرتی تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ حقیقت پسندی کی یہی تحریک اپنے آخری مدارج میں فطرت پرستی تحریک میں تبدیل ہوجاتی ہے (6) اورمادیت کے فلسفے کو، ڈارون کے حیاتیاتی افکارکو اور طین کے نظریۂ جبریت کو بھی اپنے اندرجذب کرلیتی ہے۔(7) فطرت پسندی کی تعریف میں ذکر آچکا ہے کہ معاشرے کے مطالعے کے لیے کامٹے کے سائنسی طریقۂ کار کا اطلاق بھی فطرت پسندی کا حصہ ہے۔
فطرت نگاروں کے خیال میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ فطرت میں داخل ہے۔’’ایسے مصنفین کا مقصد جدیدزندگی کی معروضی، غیرجانبدارانہ اور تفصیلی تصویر کشی تھا جس میں آزاد ارادے کی بجائے اقتصادی اور معاشرتی عناصر کی اہمیت پر زور دیاجاتا تھا۔ وہ دینی حقائق کا منبع الہام کی بجائے مطالعۂ قدرت قرار دیتے تھے۔(8)
زندگی کی تفسیرفطری حوالے سے کرنے والوں نے معاشرتی حالات کی تصویرکشی کرتے ہوئے انسان کی کمزوریوں اور بدہئیتی ہی کو اجاگرکیا ہے۔ فرد کی کیفیت کے بارے میں فطرت نگاروں کا تصور عام طورپر موضوعی اور ملال انگیز ہوتا تھا۔(9)
فطرت کے بارے میں ابتدائی تصورات ارسطو، برونو، اسپینوزا، کانٹ، روسو، نطشے، مارکس، جیمس، ڈیوس اور وائٹ ہیڈ کے ہاں معمولی سے اختلافات کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ فطرت پسندی کا ایک پہلو دہریت کا بھی ہے لیکن اسے فطرت پسندی کے اثرات میں شمارکیاجاناچاہیے۔ کامٹے اور نطشے نے تو اپنی دہریت کو چھپایابھی نہیں تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ ہرفطرت پسند دہریاہوجاتا۔
بہت سے فطرت پسند خدا کے وجود کے قائل تھے لیکن انھیں خدا مظاہرِفطرت میں ہر طرف جلوہ گر نظرآتاتھا یعنی وہ وحدت الوجود کے صوفی نظریے کے بالواسطہ یا غیرمحسوس طورپرقائل تھے۔ ایسے فطرت پسندوں میں اسپینوزا اور بعض دوسرے فطرت پسند بھی شامل تھے جنھوں نے تصوریت سے بھی کام لیااور مابعدالطبیعات سے بھی اعتنا نہیں برتا۔ بعدمیں آنے والوں نے عقلی اور استدلالی سطح پر ہمہ گیر حقیقت کے ادراک کی کوششیں کی ہیں اور سائنس اور فطرت کے ذریعے کائنات کی تشریح کی ہے۔(10)
فطرت پسندی کی پیش رو کے طورپر بطور ادبی اصطلاح حقیقت پسندی کا یورپ میں استعمال انیسویں صدی کے نصف آخرمیں سامنے آیا جبکہ فلسفیانہ اصطلاح کے طورپر Realism اُس اصول کو کہیں گے کہ تصوراتِ کُلّی اپنے مطابق خارجی حیثیتیں رکھتے ہیں۔ اسی طرح عملیات (Epistemology) میں Realism سے مراد یہ ہے کہ خارجی دنیا ہمارے عملِ ادراک سے آزادموجود ہے اور اُس کی موجودگی ویسی ہی ہے جیسا کہ ہم اُس کا ادراک رکھتے ہیں۔
“Real“کا لفظ لاطینی لفظ”Res” سے مشتق ہے ، جس کے لاطینی میں معنی ہیں ’’شے‘‘یا’’چیز‘‘ جو حقیقی یا واقعی طورپر موجود ہو۔ یوں یورپ کی زبانوں میں Real کے لفظ کے غیرفلسفیانہ معنوں میں حقیقی کے ساتھ اشیاء یا چیزوں سے تعلق رکھنے کا مفہوم برابرموجود رہا ہے اور یہی معاملہ فطرت نگاری میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔
انیسویں صدی میں جبRealism کی ادبی تحریک فرانس میں چلی تو اُس کی بنیاد زیادہ تر اس لفظ کے لغوی معنوں پرہی تھی۔ یعنی ’’حقیقتِ واقعہ‘‘ یا ’’واقعہ نگاری کی تحریک‘‘۔ بعدازاں اسی تحریک کے بطن سے فطرت نگاری نے جنم لیا۔
فرانس میں ادبی تحریک کے طورپرRealism کا آغاز شان فلیوری کی تحریروں سے ہوا۔ یہ الگ بات کہ بطور تخلیق کار شان فلیوری کا مقام و مرتبہ کچھ بلند نہیں۔ یوں شان فلیوری نے ایک ایسے ادبی رجحان کو تحریک کا نام دے دیا جو کم و بیش ہرملک کے ادب میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ حقیقت نگاری کے تحت فطرت نگاری’’ اصول‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’رجحان‘‘ہے یعنی سائنسی سطح پر جس طرح اشیاء اور اجسام کا مطالعہ اور معائنہ کیاجاتا ہے اُسی طرح حقیقت نگار یا فطرت نگار، ادبی سطح پر آرٹ کی دنیا میں وہی کام کرتا ہے۔ اسی لیے جن ناقدین اورادبی مؤرخوں نے1832 ء سے1875 ء تک کے انگریزی ادب کو حقیقت نگاری کا دور کہاتو وہ کچھ غلط نہ تھا۔ یوں کہاجاسکتا ہے کہ برطانیہ میں یہ رجحان شان فلیوری سے بہت پہلے کا ہے۔ورڈزورتھ اور کولرج جنہیں رومانوی تحریک کے نمائندہ شعراء تسلیم کیاجاتا ہے، درحقیقت حقیقت نگاری کے اسی رجحان سے متاثرتھے جسے حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا ملغوبہ کہاجاسکتا ہے۔ اُن میں رومانویت تو خیر تھی ہی مگر اُن کی فطرت نگاری صرف و محض مظاہرِ فطرت یعنی نباتات اور جمادات تک محدود تھی۔ اُس میں سے ورڈزورتھ نے معصوم فطرت کو چُنااور کولرج نے قہار فطرت کو۔ ورڈزورتھ کے ہاں پُرسکون وادیاں، گُپ چُپ پہاڑ اور پھولوں کے لہلہاتے تختے دکھائی دیتے ہیں اور اُسی معصوم فطرت سے متعلق ایک ننھی لڑکی لوسی گرے اپنے آپ میں مگن دکھائی دیتی ہے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ لوسی گرے ورڈزورتھ کی چھوٹی بہن کا ایک روپ تھا۔ دوسری طرف کولرج کے ہاں بپھرے ہوئے سمندر، غضبناک، اُمڈتے ہوئے بادل اور چیختی چنگھاڑتی ہوائیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دونوں شاعر رومانویت پسند ہیں لیکن اُن کے ہاں اک دوجے سے مختلف مظاہرِ فطرت نظرآتے ہیں۔ اس لیے کہ رومانیت میں تخلیق کار کی اپنی منتخب کردہ خاص حقیقتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ رومانیت کی پرواز عقلی نہیں ہوتی ، اُس میں ذاتی وجدان کا عنصر ضرورت سے زیادہ غالب ہوتا ہے۔ لیکن خیریہ تو ہم بات کررہے ہیں حقیقت نگاری میں فطرت نگاری کے ملے جُلے عناصرکی۔
یہ طے ہے کہ حقیقت نگاریا فطرت نگار جتنا باکمال ہوگا اُس کا نقطۂ نظر غیرشخصی ہوگا اور اُس میں رومانی ذاتیت کم سے کم ہوگی۔ اس لیے کہ سب سے پہلے تو وہ ناظر ہے اور اس کا پہلا مقصد مظاہرِ فطرت اور زندگی کی نقاشی کرنا ہے۔ اُس کا اندازِ بیان بہت صاف اور سیدھاسادہ ہوناچاہیے اور اُس بیان میں بھی اُسے اپنی ذاتی رائے سے بچ کر چلناہوگا۔
ادب کے میدان میں اور خاص طورپر ناول اور افسانے میں فطرت پسندی کارجحان ان دنوں پیدا ہوا جب انیسویں صدی میں نظری طبیعیات اور خاص طور پر حیاتیات میں اختلافی نوعیت کے افکار کا پرچار شروع ہوا۔ ان افکار کے اطلاق سے معاشرتی اور انفرادی تجزیے کے امکانات اور زندگی کی نئی تفسیر و تشریح کے زاویے لکھنے والوں کے ہاتھ لگے۔’’انسانیت کو فطرت پسندانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے والوں کا جھکائو داخلیت کی طرف تھا اور ان کی تحریروں میں ایک خاص وضع کی حزن آمیز قناعت پائی جاتی تھی۔‘‘(11)
فکشن میں گان کور برادران(Goncourt Brothers) ،ایڈمنڈجیولسEdmund) (Jules اور الفانسے دادے (Alphonse Daudet) اس طرزِ اظہار کے اوّلیں نمائندوں میں شامل تھے۔
گان کور برادران کواس میدان میں اوّلیت حاصل ہے کہ ان کے ناولGerminie Lacerteuxجو1865 ء میں منظرِ عام پرآیا،میں ایک گھریلو ملازمہ کی المناک زندگی کی عکاسی ہے۔ اس ناول کی ایملی زولانے بھی تعریف کی جو فطرت پسندی کی تحریک کا سب سے بڑا پرچارک سمجھاجاتا ہے۔ فلابیر فطرت پسندی میں ایملی زولا سے کم نہیں لیکن ایملی زولا کا رویہ زیادہ نامیاتی اور طبیعاتی ہے۔ اپنی کتاب Therese Raquin کے دیباچے میں جو 1868 ء میں چھپی، اس نے اپنے آپ ایک ایسے فطرت پسند کے روپ میں پیش کیا جس کا طریقۂ کار امراض اور علم الابدان کے کسی ماہر کی طرح تشخیصی ہو۔ اس کے خیال میں فرد کے اعمال و افعال کا تعین اس کے حالات اور وراثتی اثرات سے ہوتا ہے اور ناول نگار کا کام یہ ہے کہ وہ اس کی زندگی کا پوسٹ مارٹم یا آٹوپسی کرے۔ اس کے ناولوں میں سنسنی خیزی اور میلوڈرامائی عناصرنمایاں ہیں۔ نقادوں نے اس کی تحریروں میں انسانی زندگی کے ناقابلِ بیان پہلوئوں اور کمترطبقوں کی المناک کیفیتوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی پوری شدت کے ساتھ عکاسی کاذکرکیا ہے۔ افلاس کے مارے ہوئے بدصورت کردار اور ناگوارکیفیات اس کے ناولوں میں نمایاں ہیں۔ پہلی کتاب کے بعد اس نے بیس ناولوں کے ایک سلسلے کا منصوبہ بنایا جسے اس نے Rougon Macquart کانام دیا۔ یہ جلدیں اس نے1871 ء سے1893 ء کے دوران لکھیں۔ ان بیس ناولوں میں سب سے زیادہ اہم Germinal ہے جو اس نے 1885 ء میں تصنیف کیاتھا۔
ایملی زولا نے اپنے بعد کے ایک سو سال پوری دنیا کے ادب کو متاثرکیا۔ اس کے اسلوب سے متاثرہونے والوں میں موپساں (Maupassant) ، جے کے ہائزمانز(J.K. Huysmans) ، جارج مور(George Moore) اور جارج گسنگ (George Gissing)شامل ہیں۔ ایملی زولا کے افکار سے جرمنی کے فطرت پسندوں نے زیادہ اثرقبول کیا جہاں برلن اور میونخ کے دبستانوں کا بہت نام تھا۔ یہاں فطرت پسندی کی تحریک کے نمایاں لکھنے والوں میں جی۔ ایم کانرڈ(G.M. Conrad) ،ہولز (Holz) ،شلاف (Schlof)، ہارٹ برادران(Hart Brothers) ، بلائبتریو (Blaibtreu) اور بولشے(Bolsche) شامل تھے ۔جرمن فطرت پسندی کو سب سے زیادہ ڈرامہ نگار ہاپ مان(Haupt mann) نے برتا۔ فرانس سے باہر ابسن (Ibsen) سٹرائنڈبرگ (Strindberg)چیخوف، طالستائی، گورکی اور گوگول اور اوقیانوس کے پار تھیوڈور ڈریزر (Theodore Drieser)،فرینک نورس(Frank Norris) اور سٹیفن کرین(Stephen Crane) کے ناولوں میں فطرت پسندی اپنے تمام تر پہلوئوں سمیت موجود ہے۔(12)
فطرت پسندوں نے زندگی کی اس سفاکیت کی تصویرکشی کی جس کو عہدِوکٹوریہ کے برطانوی ادیبوں نے نظراندازکیے رکھا تھا۔ اس لیے جب ان کے اسلوب کے اثرات گسنگ، موراور ہارڈی کے ناولوں میں ظاہرہوئے تو فطرت پسندوں کی فحاشی اور عریانیت کے خلاف بہت سنگین اعتراضات اٹھائے جانے لگے۔ زولا پر انسانی زندگی کے حیوانی رجحانات کے ضرورت سے زیادہ اظہارکا الزام لگایاگیا۔(13) لیکن غیرجانبداری اور بے تعصب نگاہ سے دیکھا جائے تو دنیامیں رنج و الم کی فراوانی ہے اور خوشی اس کے مقابلے میں کم ہے۔ بدصورتی عام ہے اور حسن نایاب۔ ایسی حالت میں حقیقت پسند فطرت نگاروں کے پاس وہی کچھ دکھانے کے علاوہ جو وہ ہمہ وقت اپنے آس پاس دیکھتے ہیں، کیا چارہ باقی رہ جاتا ہے۔(14)
بہرحال فطرت پسندی کے مخالفین نے اسے ادب و فن میں فطرت کے سامنے اس کے روشن پہلوئوں سے مکمل طورپر پہلوتہی کرتے ہوئے ہتھیارڈالنے کے مترادف قراردیا ہے۔ اسے جمالیات سے خالی، الم انگیزی سے پُراور سفاکیت کے سبب مطعون ٹھہرایاجاتا رہا اور اس لیے بھی کہ اس سے انسان دہریت کی حدتک جاسکتا ہے۔ تھامس ہارڈی نے فطرت پسندی کے اثرات کو اعتدال کے ساتھ قبول کیاتھا اس لیے اس نے فطرت پسندی کے بارے میں متوازن رائے قائم کی ہے:
“The recent school of novel writers target in their insistence on life and nothing but life, in a plain slice that a story must be worth the telling, that a good deal of life is not worth any such thing and that they must not occupy the reader’s time with what he can get at first-hand any where around him.” (15)
یورپ میں فطرت پسندی پر مبنی ڈراموں کے ایک سلسلے کے علاوہ روس میں بھی فطری دبستان کا نام روسی حقیقت پسندی کی تحریک کے ابتدائی دور میں استعمال ہوا۔ گوگول کے شارح بیلنسکی(1811-1848) نے فطرت پسندی کے اس رجحان کی ابتداکی تھی۔ بیلنسکی کا خیال تھا کہ ادیب کو روحانی خیالات کو ایک طرف چھوڑکر اس عہد کے سماجی مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ کسانوں کے ساتھ ناانصافی ان میں سے ایک تھی۔ اس کی فطرت پسندی، مصنوعی پن اور قناعت پسندی کی تکذیب پرمبنی تھی۔(16)
فطرت کے بارے میں ایک تصورقرآن کا بھی ہے۔ قرآن بار بار عالمِ فطرت کی طرف انسان کی توجہ اشاروں، کنایوں سے اور واضح طورپر مبذول کرواتا ہے۔ قرآن انسان کوعالمِ فطرت کے مشاہدے اور تسخیروتصرف کی طرف قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے لیکن ایسی فطرت پرستی سے گریز کی تلقین بھی کرتا ہے جو دہریت، مادہ پرستی، حسیت اور اختیاریت کی انتہاتک لے جائے۔ قرآن کے نزدیک صرف محسوس ہی حقیقی اور فطری نہیں ہے۔ فطرت اور حقیقت محسوسات تک محدود نہیں۔(17) اس سے ماوراء بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی فوق الفطرت اور مافوق الفطرت قرآن کے حوالے سے فطرت میں داخل ہیں۔ قرآن میں انسان کی جبلت اور مزاج کا ذکرباربارآتا ہے۔ قرآن اور اسلام کے فطرت کے بارے میں نظریات ایک تفصیلی تذکرے کے متقاضی ہیں جس کا یہ محل نہیں۔
اہم فطرت نگار
ایملی زولا(1840-1902) کاپورانام ایملی ایڈورڈچارلس انطونی زولاتھا۔ وہ پیرس میں ایک انجینئرکے گھرپیداہوا۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم ایکس(Aix) میں حاصل کی۔ بعدازاں پیرس اور مارسیلز میں زیرتعلیم رہا لیکن ڈگری حاصل نہ کرسکا۔ شروع میں کلرکی کی لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑکر صرف ادب کا ہوگیا۔ فن اور ادب پر تندوتیز مضامین سے اس نے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ اس کا پہلا ناول “Therese Raquin“بھی ہولناک کہانی مگرمؤثر اسلوب کے باعث اہم سمجھاجاتا ہے۔
ایملی زولاکے ہاں فطرت اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ابتدائی رومانیت کے جنوں خیز دور سے گزرکر اس نے’’ روزان ۔ماکارٹ‘‘ (Rougon-Macquart) کے نام سے شاہی خاندان کی ایک تاریخی کہانی بیان کی جس کے افراد کی کردارنگاری اس نے نفسیاتی اور عضویاتی زاویے سے کی۔ کئی جلدوں پرمشتمل ناولوں کے اس سلسلے میں اس نے وراثت، ناگوارماحول، سائنسی اسلوب اور معاشرتی زندگی کی بدہئیتی سے انسانی رشتوں کی نزاکتوں، پیچیدگیوں اور منفی پہلوئوں کی عکاسی کی ہے۔ اس نے اس عہد کے فرانسیسی معاشرے کی تصویرکشی میں انسانی فطرت کی عکاسی میں حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ ناولوں کا یہ سلسلہ زیادہ مقبول نہ ہوا لیکن اس کے اگلے رزمیہ ناول”Le Assomoir” نے اسے اپنے عہد کا سب سے مقبول ناول نگار بنادیا۔ اس کی تحریروں نے ادبی دنیامیں نئی بحثوں کو جنم دیا۔
زولا کے پہلے ناول شہری معاشرت کے بارے میں تھے لیکن اس کا اگلا ناول “Le Reve” دیہاتی زندگی کے متعلق تھا۔ شہری زندگی پر بھی اس نے تین ناولوں کا سلسلہ “Lourdes, Rome, Paris“کے عنوان سے تصنیف کیا۔ زولا کو صحیح معنوں میں فطرت نگار سمجھاجاتا ہے۔ وہ اس دبستان کا سرخیل تھا۔ دوسرے لکھنے والے انسان میں حسن، خیراور شرافت تلاش کرتے تھے لیکن وہ انسان کی نفسانی خواہشات، حرص و ہوس، بیماری اور بسیارخوری پر قلم اٹھاتا تھا۔ حزن، ملال، افسردگی، اضطراب، اداسی، دہشت، وحشت اور کراہت کے بیان میں اس کا ثانی کوئی نہ تھا۔
زولا نےDreyfus کے معاملات میں بھی اپناکرداراداکرنے کی کوشش کی۔ یہ معاملات ایسے تھے جن سے فرانس کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں ارتعاش پیداہواتھا۔ ایک زیرعتاب پروفیسرکی حمایت میں ایک مضمون بعنوانJaccuse لکھنے پراسے بہت مخالفت کا سامناہوا۔اسی مخالفت کے سبب وہ فرانس سے ہجرت کرکے برطانیہ میں پناہ لینے پر مجبورہوا۔ 1899 ء میں وہ ڈریفس کے مقدمے پرنظرثانی کی اطلاع پاکر فرانس واپس آیا لیکن تین سال بعد ہی وہ دھوئیں کی وجہ سے دم گھٹنے پر پیرس میں اپنے گھرمیں مردہ پایاگیا۔ اس کی ساری زندگی افلاس میں کٹی اور وہ کبھی زندگی کے مسائل سے نہ نکل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے زندگی کی اتنی سچی اور فکرانگیز تصویریں اپنے ناولوں میں کھینچی ہیں۔(18)
ولیم ورڈزورتھ(1770-1850)(William Wordsworth) کا شمار انگریزی زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں کیاجاتا ہے۔ وہ ایک رومانی شاعر تھا لیکن اس کا رومان مظاہرِفطرت کی منظرکشی میں اپنے کمال پر دکھائی دیتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا۔ وہ ایک سیلانی شخص تھا۔ فرانس کی سیاحت میں اسے آنت والون سے پیار ہوگیاجس سے اس کی ایک لڑکی پیداہوئی۔ وہ فرانس کے انقلاب کو بہت قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ جمہوریت پسندتھا اور اس کے خیالات پر روسو کی فکرکا غلبہ تھا۔ وہ فرانس بوجوہ خواہش کے واپس نہ جاسکااوربالآخرڈارسٹ شائر میں قیام پذیرہوگیا۔ اس شہر میں اس کی کالرج سے ملاقات ہوئی جو گہری دوستی میں بدل گئی۔
ورڈزورتھ اورکالرج نے مل کرLyrical Ballads لکھیں۔ ان Ballads میں ورڈزورتھ کی نظمTintern Abbey بھی شامل ہے۔ یہ نظم رومانیت پسندوں کا منشورسمجھی جاتی ہے۔ 1799ء میں وہ جھیلوں کے لیے مشہور لیک ڈسٹرکٹ چلاآیااور اپنی بہن کے ساتھ زندگی کے باقی سال وہیں گزار دیے۔
1800ء میں Lyrical Ballads کے نئے ایڈیشن میں اس نے شاعری کے بارے میں اپنے نظریات پر مبنی ایک تنقیدی مقالہ پیش کیا جس پر اسے کڑی تنقید سہنی پڑی۔ اس کی فطرت پرستی کئی نظموں میں منعکس ہوئی۔ ان میںسے ایک نظم The Prelude ایک سوانحی نظم ہے۔ 1842ء میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہوااور اس کے ایک سال بعد وہ دربار سے منسلک ہوگیا۔
ورڈزورتھ کا اسلوبِ بیان بہت سادہ تھا اور وہ اپنی نظموں کے موضوعات روزمرہ کے بظاہربے وقعت مگرحقیقی واقعات اور مناظرمیں سے منتخب کرتاتھا۔ وہ شعر بڑی ریاضت سے کہتا۔ فطرت کے مظاہر سے اس کا لگائو مثالی تھا۔ اس کی فطرت سے لگائو کی مظہربہت سی نظموں میں سے پیٹرکاگھنٹہ، مارگریٹ اور مائیکل کا ذکرزیادہ ہوتا ہے۔(19)
نظیراکبرآبادی(1749-1830) نے طویل عمرپائی۔ پیدادہلی میں ہوالیکن احمدشاہ ابدالی کے حملے کی وجہ سے آگرہ چلاآیا اور وہیں باقی عمربسر کی۔ فارسی، عربی، اردو،ہندی پراسے عبورحاصل تھا۔ درس و تدریس اس کا مشغلہ تھا۔ آخری عمرمیں فالج کا شکارہوگیاتھا۔
نظیراکبرآبادی کو ابتداء میں زیادہ درخورِاعتنا نہیں سمجھاگیا لیکن آخرآخراسے اردونظم کا صاحب اسلوب عوامی شاعرتسلیم کرلیاگیا۔وہ ایک وسیع المشرب، بے نیاز اور لاابالی مگر مجلسی شخص تھا۔ وہ ہر طبقے، ہرعمراور ہرمزاج کے لوگوں میں گھل مل جاتا تھا۔ جوانی بڑی بھرپور گزاری۔ کھیل کود، پتنگ بازی، پیراکی، ورزش، کبوتربازی کا شوقین تھا ۔ ہرمذہب کے تہواروں اور میلوں ٹھیلوں میں شامل ہوتا۔ اس کی شاعری عوامی زندگی کا مرقع ہے۔ غزل میں بھی اپناثانی نہیں رکھتا۔ وسیع ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ عام زندگی کی تمثیلیں، واقعات، معمولات کی تصویرکشی میں بڑے لطیف نفسیاتی نکتے غیرمحسوس طورپر یوں بیان کرتے جانا کہ دل میں اترجائیں کچھ اسی سے خاص تھا۔ کھلی ڈلی آزاد، لاپروازندگی کی تصویروں نے اس کے کلام میں تنوع اور رنگارنگی کا سماں پیدا کیا ہے۔ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے تہواروں، رواجوں، ہرمذہب کی برگزیدہ ہستیوں، عام منظروں، پرندوں، جانوروں، موسموں، پھلوں، کھانوں، کھیلوں اور میلوں ٹھیلوں کی جزئیات کے ساتھ لفظی تصویریں کھینچنے میں کمال رکھتا ہے۔ وہ فطرت پسندی کے رجحان کے اردوتوکجا کسی بھی زبان میں شاید پہلا شاعر ہو گا۔ اس کی نظمیں’’ بنجارہ نامہ‘‘،’’ روٹیاں‘‘ اور ’’آدمی نامہ ‘‘تو لوک شاعری کی طرح زبانوں پر رواں ہوجانے کی خاصیت رکھتی ہیں۔(20)
اقبال کی فطرت پسندی
اقبال ہمیں ایک ایسے فطرت پسند شاعر دکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف1832 ء تا1875 ء کی درمیانی مدت میں جنم لینے والے رومانوی شاعر ولیم ورڈزورتھ سے متاثر رہے بلکہ ان کی ابتدائی تربیت پنجاب کے استعماری حکمراں لیفٹیننٹ گورنر ڈونلڈ میکلوڈ(Donald Mcleod) کی زیرسرپرستی اورکرنل ہالرائیڈ کی تحریک پر قائم کردہ انجمن پنجاب(قیام:8 مئی1874 ئ)کے مشاعروں کے زیراثرہوئی۔
میں نے اقبال کی فطرت نگاری کوزیربحث لانے کے لیے ان کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ : ’’کلیاتِ اقبال’’مرتبہ مولوی محمدعبدالرزاق،مطبوعہ عماد پریس، حیدرآباد(دکن)،طبع اول، ۱۳۴۳ھ بہ مطابق1924 ء کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اس میں اقبال نے’’بانگِ درا‘‘ کی صورت میں اپنی ابتدائی شاعری کا نہ صرف انتخاب پیش کیا بلکہ بہت سی نظمیں اور غزلیں جو اُن کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی تھیں انھیں مستردکردیا۔ یوں خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ پہلی اور سب سے پرانی ’’کلیاتِ اقبال‘‘ شاید اقبال کی شاعری کے پہلے دور کی نمائندہ کتاب ہے یعنی اقبال کی اردو شاعری کا وہ پہلا دور جو1897 ء تا1905 ء پرمحیط ہے۔ شاعری کے آغاز تا سفرِ یورپ تک کا کلام اور یہی وہ زمانہ ہے جو فطرت پسند شاعر اقبال کو ادبی دنیا سے متعارف کرواتا ہے۔ البتہ منتخب کردہ کتاب میں شامل بیشتر کلام ایسا ہے جس کا انتخاب کرتے وقت اقبال نے اپنی شاعری کا نہ صرف ازسرِنو جائزہ لیا بلکہ قطع بُرید کی اور نظموں کے عنوانات تک بدل دیے مثال کے طورپر ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل نظم’’ماں کا خواب‘‘ کا عنوان’’ کلیاتِ اقبال‘‘ میں ’’ماں اور بچہ‘‘ دکھائی دیتا ہے اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس نظم کی تاریک رات کی پُراسرا ریت اور دل گرفتہ کردینے والا موضوع کولرج کی یاددلاتا ہے۔ لیکن اقبال کے ہاں انجمن پنجاب کا اثراور ورڈزورتھ سے قربت زیادہ دکھائی دیتی ہے اور یہ نظم واحداستثنائی مثال ہے۔
تاہم یہ امر تحقیق طلب ہے کہ یہ قطع بُرید یا تبدیلیاں مولوی محمد عبدالرزاق نے کی ہیں یا خود اقبال نے۔ ہو سکتا ہے کہ مولوی عبدالرزاق نے اپنے طور پر رسائل سے اقبال کی شاعری جمع کر کے تصرف اور تحریف سے کام لیا ہو اور اقبال کو اس کا پتا ہی نہ ہو۔ رسائل میں بھی کتابت کی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔
اقبال کی فطرت پسندی یا مُظاہرِ فطرت سے متعلق نظموں پر بات کرنے سے پہلے اُن کی ابتدائی غزلوں میں سے ایک شعر ملاحظہ کیجیے ؎
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے گرے تھے جو عرقِ انفعال کے
مولوی محمدعبدالرزاق کے بقول جب اقبال نے یہ شعرسُنایا تو ہر طرف سے تحسین و آفریں کے نعرے بلندہوئے۔ مرزاارشد بھی موجود تھے۔ بے اختیار داد دی اور مسرت اندوز استعجاب سے کہہ اُٹھے:’ہائیں اقبال! اس عمرمیں اور یہ شعر‘ اُس کے ساتھ ہی سبحان اللہ اور واہ واہ کی صدائوں سے مشاعرے کی فضاگونجنے لگی۔ جتنے سُخن سنج اُس مجلس میں جمع تھے سب کے سب اقبال کی طبعِ سلیم اور جوہرِ قابل کے معترف ہوئے۔ ملک کے طول و ارض میں یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہوگیا۔‘‘(21)
واضح رہے کہ یہاں مرزا ارشد سے ’’مرزاارشد گورگانی‘‘ مراد ہیں۔ جن سے اقبال نے سب سے پہلے شاعری پر اصلاح لینی شروع کی تھی اور بعدازان مرزا داغ دہلوی سے کچھ مدت اصلاح لی۔ اب آئیے 1897 ء تا1923 ء کی درمیانی مدت میں کہی گئی فطرت پسندی سے متعلق اقبال کی نظموں کے عنوانات دیکھتے چلیں:
ہمدردی،ماں اور بچہ(ماں کا خواب)،ایک گائے اور بکری، چانداور تارے، ایک پہاڑاور گلہری،انسان،حُسن و عشق،ستارۂ صبح، شام،کوہستانِ ہمالہ (بانگ درا میں یہ نظم ہمالٰہ کے نام سے ملتی ہے)، کنارِ راوی،چاند،آفتاب،موجِ دریا،ابرِکوہسار،ایک پرندے کی فریاد،صبح،شالا مارباغ،حیدرآباد دکن،شمعِ طور،لامکاں کا مکاں،محبت خُفتگانِ خاک سے استفسار،عشق اور موت،خاموشی،پیامِ صبح،شبنم اور ستارے،انسان اور بزمِ قدرت،جگنو، شعاعِ آفتاب،شب و شاعراورخضرِ راہ۔
اندازہ کیجیے کہ فطرت پسندی کے حوالے سے اقبال نے کتنی بڑی تعداد میں نظمیں تخلیق کیں۔ درج بالا نظموں کے صرف آغاز سے اشعار بطورِ نمونہ دیکھتے چلیے اس لیے کہ اقبال نے فطرت نگاری کے حوالے سے ہرنظم کا آغاز مظاہرِفطرت(نباتات و جمادات) سے مدد لے کرکیا ہے۔ نظم اپنے اختتام تک کبھی تو مظاہرِ فطرت کے حوالے سے پہنچتی ہے یا اُس کا اختتام کسی فلسفیانہ یا اصلاحی نقطے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارے موضوع سے متعلق صرف اقبال کی نظموں کے ابتدائیے ہیں ؎
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں وہاں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
(ایک گائے اور بکری)
ڈرتے ڈرتے، دمِ سحر سے
تارے کہنے لگے ، قمر سے
نظّارے رہے وہی ، فلک پر
ہم تھک بھی گئے، چمک چمک کر
(چانداور تارے)
جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمیں قمر
نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر
جیسے ہو جاتا ہے گم، نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول
(حُسن و عشق)
جب دکھاتی ہے سحر، عارضِ رنگیں اپنا
کھول دیتی ہے کلی سینۂ زرّیں اپنا
جلوہ آشام ہے یہ، صبح کے میخانے میں
زندگی اس کی، ہے خورشید کے پیمانے میں
(غنچۂ ناشگفتہ اورآفتاب)/(کلی)
مصرِ ہستی میں شام آتی ہے
رنگ اپنا جمائے جاتی ہے
اے سبوئے مئے شفق، اے شام!
تومئے بے خودی پلاتی ہے
(شام)
اے ہمالہ! اے فصیلِ کشور ہندوستاں!
چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں
(کوہستانِ ہمالہ)
سکوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مِرے دل کی
(کنارِ راوی)
اے قمر کیا خامشیِ افزا ہے تیری روشنی
رات کے دامن میں ہے گویا سحر سوئی ہوئی
میرے ویرانے سے کوسوں دُور ہے تیرا وطن
ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موج زن
(چاند)
اے آفتاب! روح روانِ جہاں ہے تُو!
شیرازہ بندِ دفترِ کون و مکاں ہے تُو!
باعث ہے تُو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست بُود کا
(آفتاب)
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
سرِ کہسار پہ دیکھے کوئی جوبن میرا
غیرتِ تختۂ گلزار ہے مسکن میرا
کہ گل افشاں ہے سر گوشۂ دامن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
(ابرِ کُہسار)
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانا
وہ ساتھ سب کے اُڑنا، وہ سیر آسماں کی
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا مل کے گانا
پتّوں کا ٹہنیوں پر وہ جھومنا خوشی میں
ٹھنڈی ہوا کے پیچھے وہ تالیاں بجانا
(ایک پرندے کی فریاد)
آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
منزلِ ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر
محفلِ قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت
(صبح)
یہ شالا مار میں اک برگ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسمِ گل جس کا رازداں ہوں میں
(شالامار باغ)
رو لے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوں نابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار
یہ محل ، خیمہ تھا اُن صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
(صقلیہ)
جس کی نمود دیکھی، چشمِ ستارہ بیں میں
خورشید میں، قمر میں، تاروں کی انجمن میں
صوفی نے جس کو دل کے خلوت کدے میں پایا
شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
(لامکاں کا مکاں)
عروسِ شب کی زُلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے
قمر اپنے لباسِ نو میں بے گانہ سا لگتا تھا
ابھی واقف نہ تھا گردش کے آئینِ مسلّم سے
(محبت)
مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھی نقابِ روئے شام
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام
کر رہا ہے آسماں جادو لبِ گفتار پر
ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر
(خُفتگانِ خاک سے استفسار)
سُہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی
کہ خود ناخوشی مست جام خوشی تھی
کہیں مہر کو تاجِ زر مل رہا تھا
عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
(عشق اور موت)
خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا
فطرت ہے مراقبے میں گویا
وادی کے صدا فروش ،خاموش
کہسار کے سبز پوش، خاموش
(خاموشی)
اُجالا جب ہوا رخصت جبینِ شب کی افشاں کا
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبحِ خنداں کا
(پیامِ صبح)
اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے، ستارے
ہر صبح میسر ہیں نئے، تجھ کو نظارے
کیا جانیے، تُو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے
جوبن کے مٹے اُن کے نشاں دیکھ چکی ہے
(شبنم اور ستارے)
صبح سورج کو جو چڑھتے ہوئے دیکھا میں نے
بزمِ معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے
پرتَوِمہر کے دم سے ہے اُجالا تیرا
سیمِ سیّال ہے پانی ترے دریائوں کا
(انسان اور بزمِ قدرت)
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھُولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے، مہتاب کی کرن میں
(جُگنو)
صبح جب میری نگہ، سودائیِ نظّارہ تھی
آسماں پر اک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی
میں نے پوچھا اُس کرن سے، اے سراپا اضطراب!
تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب؟
(شعاعِ آفتاب)
کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تُو پریشاں
خاموش صورتِ گل مانندِ بُو پریشاں
تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تُو
مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تُو
(شب و شاعر)
ساحلِ دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر
گوشۂ دل میں چھُپائے اک جہانِ اضطراب
شب ، سکوت افزا ہُوا ، آسودہ ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِآب
(خضرِ راہ: بنداوّل)
درج بالا تمام اشعار’’ کلیّاتِ اقبال‘‘مرتبہ مولوی عبدالرزاق سے منتخب کردہ ہیں لہٰذا نظموں کے عنوانات اوراقبال کے جاری کردہ متن اور اس ابتدائی متن میں تھوڑا بہت فرق ہوسکتا ہے اور ہے بھی۔ پیش کردہ صورت اُس فطرت نگار اقبال کی تلاش میں مددگارثابت ہوسکتی ہے جو بعدازاں ایک بڑے فلسفی شاعر کے طور پر پہچاناگیا۔
فطرت نگار اقبال کے اس ابتدائی کلام میں فلسفے سے متعلق اشارے ملتے ہیں لہٰذا مولوی محمدعبدالرزاق لکھتے ہیں:
’’…ورڈزورتھ کی طرح اقبال کی بھی یہ خواہش ہے کہ وہ شاعر سے زیادہ معلّم اور فلسفی سمجھے جائیں۔ کیوں کہ کیٹس، شیلی وغیرہ پرستارانِ حُسن کے مسلک ’’حسنِ آئینۂ حق‘‘ کے خلاف اُن کے نزدیک ’’حق آئینۂ حسن‘‘ ہے اور شعر ’’آئینہ دارِ حُسن‘‘ ہونے کے بجائے آئینہ دارِ حق۔‘‘(22)
مولوی عبدالرزاق نے یہ بات اقبال کے درج ذیل شعر کو بنیاد بناکرکہی ہے ؎
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
اقبال کے خود جاری کردہ اردو کے پہلے مجموعۂ کلام’’ بانگِ درا‘‘ سے بہت پہلے، فطرت نگار اقبال سے متعلق مولانااسلم جیراج پوری کی درج ذیل رائے حددرجہ اہم ہے:
’’ذوقِ صحیح جذباتِ عالیہ کی اُن لطیف تحریکات پروجْدکرتا ہے، جن سے دل کے تاربجتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹرصاحب(اقبال) کی شاعری اہلِ فہم کی دماغی راحت اور روحانی لذت کے لیے ایک میوۂ پُرمایہ ہوگئی ہے۔ کیوں کہ وہ علوم دینی و دنیوی و مشرقی و مغربی کے مجمع البحرین ہیں۔ذوقِ صحیح، دلِ دردمنداور طاقتِ لسانی رکھتے ہیں۔ اُن کی چشمِ بصیرت انسانی خیالات کی انتہائی بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہے اور اُن کے دیدۂ تخیل کے سامنے سے زمین سے آسمان تک کے پردے اُٹھے ہوئے ہیں۔ وہ عرش کے پایوں میں جھولتے ہیں، مُرغانِ اولی احنجہ کے ساتھ اُڑتے ہیں۔ ساکنانِ حرمِ قدس سے ملتے ہیں، بزمِ انجم و کواکب کے رموز سُنتے ہیں، شبنم اور آفتاب کے باہمی راز،گُل و بُلبل کے ناز و نیاز اور پروانہ و شمع کے سوز و ساز سے آشنا ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں میں برق کی موجیں، سمندروں کی موجوں میں زندگی کی لہریں، قطرۂ اشک میں سوزِ دل کا تب و تاب اور دانۂ گوہر میں حیاتِ معنوی کی آب دیکھتے ہیں۔ غرض عالمستانِ معنی ہے، جس کے چپے چپے اور گوشے گوشے سے جواہرپارے چُنتے ہیں۔‘‘(23)
فطرت نگار اقبال کے پیرایۂ اظہار اور لفظیات سے متعلق اقبال کے معاصر، ہندوستان کے نامور مصور اُمرائو سنگھ بہادر لکھتے ہیں:
’’…کیا ہی پاکیزہ اور شُستہ خیالات ہیں، جو سطحی نظرمیں محض اس وجہ سے سمجھ میں نہیں آتے کہ ذہن میں الفاظ کے پُرانے معنی جمے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم زندگی زبانوں میں دیکھتے ہیں، اس کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ الفاظ سے نئے نئے معنی اس طرح پیدا کیے گئے ہیں جس طرح کہ ایف۔ڈبلیو۔ بین کے کلام میں پایاجاتا ہے کہ ان سے انگریزی کے الفاظ اور جملوں میں ایسی لچک اور ایسے خیالات کی گنجائش موجود ہے کہ ہندوستان نے ان سے اپنے رنگ کے ایسے مطالب و معانی نکلے جن سے وہ دراصل بالکل عاری تھے۔ بالکل اُسی انداز سے اقبال بھی فارسی اور اردو زبانوں سے کام لے رہا ہے۔‘‘(24)
ماہِ نو کی نسبت سے اقبال کہتے ہیں ؎
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقابِ نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے رُوئے آبِ نیل
ذرا مناسبتیں ملاحظہ ہوں کہ چاند، چونکہ سورج سے کسبِ فیض کرتا ہے اس لیے ’ماہِ نو‘ایک سورج کی قاش ٹھہری۔ پھر اقبال کا’ہلالِ عید‘ سے متعلق یہ کہنا ؎
یہ اُبھرتے ہی آنکھ سے چھُپنا
روشنی کا مگر حباب ہے تُو
نظر سے جلد چھُپ جانے کے حوالے سے ’’روشنی کا حباب‘‘ہونا۔
مولوی محمدعبدالرزاق لکھتے ہیں:
’’جگنو کو انجمنِ گل کی شمع، شفق کو سورج کے پھُول، صبح کو دُخترِ لیل و نہار، حیات کو تسلسلِ فرائض، غم کو رُوح کا نغمۂ خاموش، زندگی کو خسِ آتش سوار، گُل کو پیمانِ رنگ و بُو، ہلال کو حلقۂ پرطائوس کہنے میں کس قدر لطافت ہے۔‘‘(25)
فطرت نگاری اور نیچر سے اُن کی قربت کے حوالے سے اقبال کا یہ مصرع ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے ع
عاشقِ فطرت کو ہے صحنِ گُلستاں، کُوئے یار
ورڈزورتھ کی طرح اقبال فطرت سے کس قدر جُڑے ہوئے ہیں، چندامثال دیکھیے ؎
بادلوں کا اُمڈآنا:
اُٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا
نہاں ہوا جو رُخِ مہر زیرِ دامن ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوارِ توسنِ ابر
غروبِ آفتاب کا منظر:
شرابِ سُرخ سے انگیں ہوا ہے دامنِ شام
لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام
طلوعِ صبح:
پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامنِ آفاق سے دھوتی ہے صبح
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سرمستِ نوا کرتی ہے یہ
رات کا منظر:
ظلمتِ آشفتہ کاکل وسعتِ عالم میں ہے
اشکِ انجم در گریباں روز کے ماتم میں ہے
طِفلکِ شش روزۂ کون و مکاں خاموش ہے
رات کے آغوش میں لپٹا ہوا بے ہوش ہے
آبِ دریا خُفتہ ہے، موجِ ہوا غش کردہ ہے
پست ہر ہستی کے سازِ زندگی کا پردہ ہے
کیسی ہجرت خیز ہے ظلمت فروشی رات کی
دن کے ہنگاموں کا مدفن ہے خموشی رات کی
یوں شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال جس حُسن سے متاثردکھائی دیے اور جو اُن کے قلب و ادراک پراثراندازہوا، وہ فطرت کا حُسن ہے اور اس دورمیں بلاشبہ اقبال پرورڈزورتھ کا اثربہت گہرا ہے۔لیکن اس مطالعۂ فطرت میں اقبال ایک طرف تو فطرت کے ایک مظہر کا تعلق دوسرے مظہر سے جوڑتے ہیں اور دوسری طرف انسان کا موازنہ فطرت سے کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر ورڈزورتھ پیچھے رہ جاتا ہے اور اقبال مولاناروم کے حلقۂ اثر میں چلے جاتے ہیں۔ جن کے نزدیک انسان فطرت کا مظہرِ کامل ہے۔
اقبال کا کہنا ہے کہ:’’فطرت کا علم خُدا کی عادت یا کیریکٹر کا علم ہے۔ اس لیے مشاہدے اور مطالعے میں ہم انائے مُطلق سے ایک قسم کی قربت کے طالب ہوتے ہیں۔‘‘(26) ممتازحسین کے خیال میں اقبال، فطرت کے ارتقاء میں کوئی خاص مقصدپنہاں دیکھتے ہیں۔(27) لیکن اقبال اس بات کو ماننے سے ہمیشہ گریزاں رہے کہ فطرت اپنے ارتقاء میں کسی مقصد کو پنہاں رکھتی ہے۔ شایداس لیے کہ یہ خیال ایک ایسے خطِ تقدیر کو تقویت پہنچاتا ہے، جو ہمیں مُقدر پرستی کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اقبال نے جب بھی فطری مظاہر کی خُنک آسودگی اور بے حس سکون کا مشاہدہ کیا تو اُنھیں ہمیشہ اپنے دل کی تڑپ اور اپنے جذبات کی ناآسودگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔‘‘(28)
یہی سبب ہے کہ بقول فیض احمدفیض:’’ اقبال کی نظر میں اُس کا ہمعصر انسان بھی نباتات اور جمادات کی طرح مُردہ دل اور بے سوز ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو جتنا چاند، تاروں سے دُور محسوس کرتے ہیں، اُتنا ہی انسانوں سے دُور پاتے ہیں۔‘‘(29)
اقبال مظاہرِفطرت اور مناظرِفطرت کے ذریعے حقیقتِ اولیٰ کی تلاش میں ہے اور ان کے اسرار کو حل کرنے کی سعی میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی نظمیں ’پرندے کی فریاد‘ اور’ایک آرزو‘اسی کوشش کی مظہرہیں۔ فطرت کے مختلف پہلو ان کے اندرحیرت پیداکرتے ہیں۔اقبال نے اپنی نظم ’عہدِ طفلی‘ میں جس حیرت کی کارفرمائی کا ذکرکیا اسی حیرت کو وہ افلاطون کے افکار کی روشنی میں اس لیے قابل قدر گردانتے ہیں کہ ’’اس سے فطرت کے بارے میں ہمارے تجسس کو تحریک ہوتی ہے۔‘‘(30) وہ اسے شاعر کی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ روحِ ارضی اپنے جن پہلوئوں کو علامات کے پردوں میں چھپالیتی ہے۔ وہ ان علاقوں کی علامتوں کی توجیہہ کرے اور انسان پر ان کا مفہوم واضح کردے(31) ؎
تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے
روحِ ارضی کا ذکرآیا ہے تو روحیت یا انتسابِ روح(Animism) کا ذکر بھی برمحل ہوگا۔ اقبال کے ہاں آپ کو جابجا ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اقبال نے مظاہرِ فطرت یعنی سورج، چاند، تاروں، درختوں اور دوسرے مظاہر کو زندہ علامتوں کے طورپر انسانی رویوں کے ادراک، توجیہہ اور تفسیر کے لیے برتا ہے۔ ادب میں یوں بھی انتسابِ ارواح کو شاعری اور دیگرفنون کی خوبیوں میں سے ایک شمارکرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ’’اسی کے طفیل ایک شاعر یا ایک فن کار فطرت کے حسین مناظر، سرسبزدرختوں، لہلہاتے ہوئے پھولوں، امڈتے ہوئے بادلوں اور گاتے ہوئے پرندوں کو انسانی احساسات سے متصف کرتا ہے اور اس کے تحت وہ ان سے براہِ راست قلبی رابطہ پیداکرلیتا ہے، جسے علمی اصطلاح میںEmpathy کہتے ہیں اور جو فن کارانہ وجدان کا مرکزی نکتہ ہے۔‘‘(32)
اس کی سیدھی مثالیں دیکھیے :
ع چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرمِ سخن
o
ع آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
o
ع وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
(کلّیاتِ اقبال،ص52-53- )
ع کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
(کلّیاتِ اقبال،ص61- )
ع بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
(کلّیاتِ اقبال،ص58- )
ع چرخ نے بالی چرالی ہے عروسِ شام کی
(کلّیاتِ اقبال،ص:85 )
اقبال مظاہر فطرت سے کیا کچھ کشید کرتے ہیں اس کا ایک نادر نمونہ ان کی نظم’کنارِ راوی‘ ہے۔ ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ ’’راوی کے کنارے غروبِ آفتاب کے ایک پرجلال منظر کے مقابلے میں آپ کے کتب خانے کا سارا حیرت انگیز کتابی علم ودانش ہیچ ہے۔‘‘(33) اور دوسری طرف نظم میں وہ منظر کشی سے گزرکر زندگی کے اسرار ورموز کی گرہیں کھولنے لگتے ہیں ؎
جہادِ زندگیٔ آدمی رواں ہے یونہی
ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے یونہی
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا
(کلّیاتِ اقبال،ص121- )
یہی کیفیت ان کی نظم’جگنو‘ میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اسے ایک ایسا استعارہ بنادیتے ہیں کہ جس سے وہ ایک طلسماتی کرداربن جاتا ہے اور اسی کے حوالے سے وہ وحدت الوجود کی تشریح کرنے لگتے ہیں ؎
حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بُلبل، بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص111- )
ایک مقام پر تو انھوں نے خودشاعر کو شبستانِ وجود میں جگنو کی مثل کہہ دیا ہے ؎
کِرمِ شب تاب است شاعر، در شبستانِ وجود
در پر و بالش فروغے، گاہ ہست و گاہ نیست
(کلّیاتِ اقبال، فارسی، ص۔398 )
بطورشاعراقبال ہمہ وقت غوروفکر کے عادی تھے اور وہ اپنے مشاہدات، مطالعات اورتجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ عالمِ فطرت کو اور عالمِ تاریخ کو علمِ انسانی کے دو بڑے ذریعے قراردیتے تھے۔ ان کی فکر کا نچوڑیہ تھا کہ’’یہ شمس و قمر، یہ سایوں کا امتداد، یہ اختلافِ لیل و نہار، یہ رنگ اور زبان کا فرق اور یہ قوموں کی زندگی میں کامیابی اور ناکامی کے دنوں کی آمدوشد اور حاصلِ کلام یہ کہ یہ سارا عالمِ فطرت جیسا کہ بذریعہ حواس ہمیں اس کا ادراک ہوتا ہے، حقیقتِ مطلقہ کی آیات ہیں اور اس لیے ہرمسلمان کا فرض ہے کہ ان میں غوروفکر سے کام لے۔ یہ نہیں کہ بہروں اور اندھوں کی طرح اعراض کرے کیونکہ جو کوئی اس زندگی میں اندھوں کی طرح ان آیات سے اپنی آنکھیں بندرکھتا ہے وہ آگے چل کر بھی اندھا ہی رہے گا۔‘‘(34)
اقبال کس طرح مناظرِ فطرت کے مشاہدات کے دوران اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتا ہے اس کا صحیح اندازہ اقبال کی پوری شاعری کے مطالعے سے ہوسکتا ہے لیکن ایک سادہ سی نظم ’امتحان‘ بھی اس کی غماز ہے ؎
کہا پہاڑ کی ندی نے سنگریزے سے
فتادگی و سرافگندگی تری معراج
ترا یہ حال کہ پامال و دردمند ہے تو
مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج
جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا
کسے خبر کہ تو سنگِ خار ہے کہ زجاج
(کلّیاتِ اقبال،ص595-596- )
ذرا اس نظم کو غور سے پڑھیں تو فطرت کے بارے میں اقبال کے نظریات اور افکار کی نمائندہ دکھائی دے گی کہ اس میں حرکت و عمل کا سبق بھی فطرت کے تقاضوں کے طورپر مل جاتا ہے۔
فطرت نگاری کی دوسری قسم انسانی فطرت(بطورجاندار)کی حیوانی جبلتوں کے بیان سے مخصوص رہی ہے۔ اس خصوص میں گستاف فلابئیر، گون کوربرادران، ایمائل زولا اور موپساں کے نام نمایاں ہیں اور یہ سارے کے سارے فرانسیسی ہیں۔
اقبال کے ہاں اس نوع کی فطرت نگاری کی کہیں ایک جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی، جس کی سب سے نمایاں مثال گستائوفلابیئرکا ناول’مادام بواری‘ شمارکیا جاتا ہے اور ایمائل زولا کی فطر ت نگاری کی بھی جو ایک زمانے میں’’زولائیت‘‘کہلائی۔
اقبال کی فطرت نگاری ابتدائی طورپر ساکت و جامد، غیرانسانی موجوداتِ عالم سے اتنا متعلق نہیں رہی تھی۔ آگے چل کر اقبال کے ہاں موضوعات کے پھیلائو نے اُن کی شاعری کے اس رجحان کو بالکل ختم نہیں کیا بلکہ اقبال نے فطرت کو وسیع تر مفہوم اور عمیق تر معانی میں الٰہیاتی اور انسانی زاویوں سے عمودی اور افقی طورپر اپنی شاعری میں اس طرح سمودیا کہ فطرت نگاری کو ان کے مجموعی نظام فکر سے الگ کرکے دیکھنا یادکھانااتنا آسان نہیں رہا۔ وہ اپنا پیغام فطرت ہی سے اخذ کردہ علامتوں، استعاروں اور کنایوں میں مسلمانوں کو پہنچاتا ہے ؎
مانندِ صبا خیزد و زیدن دگر آموز
دامانِ گل و لالہ کشیدن دگر آموز
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص393- )
جانم در آویخت با روز گاراں
جوئے است نالان در کوہساراں
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص377- )
حواشی و حوالہ جات
1- J.A. Cuddon: Literary Terms and Literary Theory,
Penguin Books,London,1992, P-537.
-2قومی انگریزی ارد ولغت: مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ،مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،
طبع پنجم ،2002 ئ، ص۔1298 ۔
3- (Professor) Mumtaz Ahmed: Literary Criticism;
Ch. Ghulam Rasool & Sons, Lahore, 1989, P- 581.
-4 قومی انگریزی- اُردو لغت : مذکور ص۔1298 ۔
-5 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا،جلد۔8 (فنون لطیفہ):قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ئ، ص۔332 ۔
-6 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا،جلد۔1(ادبیات):قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ئ، ص۔411۔
7- Professor Mumtaz Ahmed: OP.Cit.p.581.
-8 قومی انگریزی- اردو لغت مذکور،ص۔1298
9- J.A. Cuddon: Op. Cit; P-537.
-10 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا,جلد۔8،)فنون لطیفہ) مذکور: ص۔232۔
-11 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان, محمدسلیم الرحمن،(مؤلفین): منتخب ادبی اصطلاحات:
جی سی یونیورسٹی،لاہور؛طبع اول،2005 ء ص۔143۔
12- J.A. Cuddon: Op. Cit., P-538.
13- Prof. Mumtaz Ahmed: op. cit: P-580.
-14 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان محمدسلیم الرحمن(مؤلّفین):کتاب مذکور،ص۔144
15- Prof. Mumtaz Ahmed: op. cit: P-581
16- J.A. Cuddon: Op. cit., P-539.
-17 اقبال:تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ،مترجمہ:سیدنذیرنیازی،بزم اقبال، لاہور، طبع سوم،1986 ئ،ص۔323 ۔
-18 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد۔۱(ادبیات) مذکور۔ ص۔297 ۔
-19 ایضاً: ص۔569-570 ۔
-20 ایضاً:ص۔555 ۔
-21 مولوی محمد عبدالرزاق:کلیاتِ اقبال،عمادپریس،حیدرآباد دکن ،طبع اول،1924 ئ،
ص۔32-33 ۔
-22 ایضاً: ص۔69 ۔
-23 ایضاً: ص۔70 ۔
-24 ایضاً: ص۔73-74 ۔
-25 ایضاً: ص۔99 ۔
-26 اقبال:تشکیلِ جدیدالٰہیا ت اسلامیہ ،بہ حوالہ ادب و شعوراز ممتازحسین،کراچی:
مکتبۂ اسلوب، طبع اول،س۔ن،ص۔196 ۔
-27 ممتازحسین:کتاب مذکور،ص۔199 ۔
-28 فیض احمدفیض:میزان، ناشرین، لاہورطبع اول،1962 ،ص۔257 ۔
-29 ایضاً:ص۔259 ۔
-30 اقبال:شذراتِ فکرِ اقبال ،مترجمہ ڈکٹر فتخار احمد صدیقی ترجمہ مجلس ترقیٔ ادب،لاہور،
طبع دوم،1983 ،ص۔128
-31 ایضاً: ص۔139 ۔
-32 علی عباس جلالپوری: روحِ عصر،روہتاس بکس، لاہور،طبع سوم،1989 ئ،ص۔19 ۔
-33 اقبال:شذراتِ فکرِ اقبال مذکور،ص۔151 ۔
-34 اقبال:تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ، مذکور،پانچواں خطبہ،ص۔197-198 ۔