باب دوم
اقبال کی شاعری کا علمی و ادبی پس منظر
کسی بھی شاعر یا تخلیقی فنکار کی عظمت کااندازہ لگانے کے لیے اور تاریخِ ادب میں اس کے مقام کے تعین کی خاطر اس خطّے کے ادبی اور ثقافتی ورثے سے آگاہی حاصل کرنا ضروری تصوّر کیا جاتا ہے ۔ تاریخِ ادب کا مطالعہ زنجیر کے مشاہدے کے مماثل ہے ۔ جیسے زنجیر میں بہت سی کڑیاں ایک ترتیب سے پروئی ہوئی ملتی ہیں اور اگر درمیان میں سے کوئی کڑی غائب ہو جائے تو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے ، بالکل اسی طرح تاریخِ ادب بھی ادباء کی کڑیوں کے تسلسل سے مرتّب ہو تی ہے ۔ ہر ادیب کا رشتہ اپنے سے ماقبل اور بعد میں آنے والے ادیبوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ کسی بھی ادیب کے طرزِ اسلوب ، اندازِ بیان اور موضوعات کا جائزہ لینے کے لیے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ اس زیرِ مطالعہ ادیب سے پیشتر آنے والے ادیبوں کے کام سے واقفیت پیدا کی جائے تاکہ صحیح معنوں میں اندازہ ہو سکے کہ زیرِ نظر ادیب یا شاعر نے ادب کے ارتقاء میں کیا کردار ادا کیا ۔
اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اگر ہم اقبال کی شاعرانہ اہمیت کا اندازہ لگانا چاہیں تو ہمیں نہ صرف اردو ادب کی تاریخ اور اقبال سے قبل اردو کے اہم شاعروں کے کلام سے واقف ہونا چاہیے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فارسی شعر کی عظیم روایت ، غیر منقسم ہندوستان کے تمدن ، ہند ۔ اسلامی تہذیب کے عناصرِ ترکیبی اور ہندوستان میں تخلیق ہونے والے شعری ادب کے ورثے کا علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ہم حتمی طور پر یہ اندازہ لگا سکیں کہ اقبال نے اپنے کلام سے اردو شاعری کے دامن کو کس حد تک مالا مال کیا ہے ۔ اس لیے اقبال کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے ہندوستان کے تہذیبی مزاج پر گفتگو ہو گی ۔
برّصغیر کا مادر سری مزاج
ہندوستان ایک قدیم خطۂ ارض ہے جہاں انسانی تہذیب نے زمانۂ قدیم سے اپنے نقوش چھوڑے ہیں ۔ برّصغیر کا شمالی حصہ جس میں وادیٔ سندھ مرکزی اہمیت کا حامل ہے ، از منۂ قدیم سے تہذیب و تمدن کا مرکز رہا ہے ۔ موئنجوداڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں اس سر زمین پر پروان چڑھیں جن کا زمانہ آج سے پانچ ہزار سال قبل بتایا جاتا ہے ۔ اس تہذیب کی پرداخت کرنے والوں کے بارے میں عرصے سے تحقیق جاری ہے جس سے ان کے رسوم و رواج ، طرزِ بودو باش اور مذہبی عقائد پر روشنی پڑتی ہے ۔ ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق یہ علاقہ زمانۂ قدیم سے مختلف تہذیبوں کی باہمی آویزش کے نتیجے میں نشوونما پانے والے نئے تہذیبی سانچوں کی آما جگاہ رہا ہے ۔ اس تہذیب کے بارے میں تحریری معلومات نہیں ملتیں اور اب تک اس کے کھنڈروں سے دریافت ہونے والی مہروںپر رقم تصویری رسم الخط کو پڑھنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس لیے اس تہذیب کے بارے میں تحقیق کا بنیادی ماخذ آثارِ قدیمہ کی کھدائی سے برآمد ہونے والی اشیاء اور سازو سامان ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ یہ پروٹو آسٹرلائیڈ نسل کے لوگ تھے اور یہ قدیم مذہب الارواح کے ماننے والے تھے (1) ۔ دراوڑی تہذیب ایک مستقل ، پرسکون اور آہستہ رو تہذیب تھی ۔ کھیتی باڑی کے لیے سازگار فضا اورموسمی حالات نے ان لوگوں کو ضروریاتِ زندگی کی طرف سے مطمئن کر دیا تھا ۔
برِصغیر کی تاریخ کا آغاز زمانہ ما قبل تاریخ سے ہوتا ہے ۔ اس دور کے حالات کے بارے میں ڈی۔ ڈی۔ کو سمبی نے لکھا ہے کہ :
’’ہندوستان کے زمانہ ما قبل تاریخ کی دو امتیازی خصوصیات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔ عصرِ برفانی کا آخری دور ہندوستان کے برصغیر میں نہ اتنا شدید تھا نہ اتنا وسیع جتنا یورپ میں … اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہندوستان ، خاص کر اس کے مشرقی حصوں میں ما قبل تاریخی لوگ یونان اور برما سے داخل ہوئے ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقل و حرکت تاریخی زمانے میں بھی کافی بعد تک جاری رہی ہو ۔ اس مشرقی علاقے کے حجری اوزان میں ایک قسم کا پتھر لگا ہوا ہے اور ایک ہی قسم کی تکنیک نظر آتی ہے دوئم یہ کہ شکار کرنے او ر مچھلیاں پکڑنے کے علاوہ دیگر اقسام کی غذا جمع کرنا بہت زیادہ آسان تھا اور یورپ یا برّاعظم ایشیاء کے کسی بھی دوسرے مقام کی بہ نسبت کہیں زیادہ وسیع علاقوں میں ممکن تھا ‘‘۔ (2)
کوسمبی کی کتاب سے جو اقتباس نقل کیا گیا ہے اس سے باآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برّصغیر بیرونی حملہ آوروں کے لیے کیوں اس قدر پرکشش رہا ہے ۔چونکہ اسی کشش کی وجہ سے ہندوستان میں حملہ آور ایک تسلسل کے ساتھ وارد ہوتے رہے اور اپنے ساتھ نت نئے عقائد ، مذاہب اور بودوبا ش کے انداز لاتے رہے ، اس لیے یہاں کی تہذیب مسلسل تغیر کے عمل سے دوچار رہی ۔ اس جانب ڈاکٹر انور سدید نے واضح اشارہ کیا ہے ـ :
’’ہندوستان کی قدیم تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک میں پہلے ہر نئی رو کے خلاف ردّ ِعمل پیدا ہوا لیکن جب نئی رو زیادہ طاقت ور ثابت ہوئی تو اس ملک کی مٹّی نے اسے اپنی خوشبو اور ذائقے میں جذب کرنے کی سعی کی اور یوں بالآخر اسے مطیعِ فرمان بنا لیا ۔ برصغیر میں پیوند کاری کا یہ عمل متعدد تاریخی ادوار میں ہوا ۔ چنانچہ فاتحین اور مفتوحین کے اختلاط سے پروان چڑھنے والی تہذیبیں اہمیت اختیار کرتی گئیں ۔ بالفاظ دیگر یہ سرزمین بیرونی اثرات کے بیج کو اپنی زرخیز مٹی میں سینچنے اور اس سے ایک خوبصورت پودا پیدا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس میں لپکنے اور تسخیر کرنے کا جذبہ نسبتاً کمزور ہے ‘‘۔ (3)
ڈاکٹر انور سدید نے بڑی خوبی سے قدیم ہندوستان کے مزاج کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے ۔ آخر میں جو بات انھوں نے کی ، اس کا جواب اور وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہاں کی آبادی کے لیے ضروریاتِ زندگی با افراط دستیاب رہی ہیں ، اس لیے یہاں کے باسیوں کو اپنے خطّے کے بارے میں زیادہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ۔ آریائوں کی آمد سے پہلے برصغیر کے قدیم باشندوں کے عقائد کے بارے میں ول ڈیوراں (Will Durant) نے تحریر کیا ہے کہ :
“The oldest known religion of India, which the invading Aryans found amongst the Nagas, and which still survives in the ethnic nooks and crannies of the great Peninsula, was apparently an animistic and totemic worship of multitudunous spirits, dwelling in stones and animals, in trees and streams, in mountains and stars, snakes and serpents, were divinties-idol sand ideals of virile reproductive powers and the sacred “Bodhi” tree at Budha’s time was a vertige of the mystic but wholesome reverence for the quite majesty of trees. Naga, the dragon-god, Hanuman, the monkey-god, Nandi, the divine-bull and the Yakshas or tree-gods passed down into the religion of Historic India.
Since some of these spirits were good and some evil, only great skill in magic could keep the body from being possessed or tortured, in sickness or mania, by one or the more of the innumerable demons that filled the air.
Hence the medley of incantations in the Atharva-Veda or the “Book of Knowledge” of magic one must recite, spells to obtain children, to avoid abortion, to prolong life, to ward off evil, to sleep, to destroy or harras the enemies.”(4)
ول ڈیوراں کے بیان سے ہمیں قدیم ہندوستان کے لوگوں کے مذہبی عقائد کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔ ا س معاشرے کا بنیادی مرکز عورت یا ماں تھی ۔ خاندان کے معاملات عورت ہی طے کرتی تھی اس لیے اس معاشرے کو سماجی اصطلاح میں مادر سری معاشرے کا نام دیا جاتا ہے ۔ زمین اور عورت کا رشتہ ان قدیم باشندوں کے ذہن میں بالکل واضح تھا کیونکہ دونوں تخلیق کی علامت ہیں اور ان دونوں کی وجہ سے زندگی کا تسلسل قائم ہے ۔ اس لیے عورت کو زندگی کے اہم معاملات میں حتمی فیصلے کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا ۔ اس معاشرے کا مرکزی نقطۂ نگاہ حال اور آج تھا ۔ ماضی اور مستقبل کے تصورات سے ان کا دماغ بالکل خالی تھا یا واضح نہ تھا ۔ وہ لوگ آج زندہ رہو کل دیکھا جا ئے گا، کے اصول پر زندگی بسر کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ جنگل اور بیابان کی زندگی کو خیر باد کہتے جا رہے تھے اور انہوں نے دریائوں اور جھیلوں کے کنارے اپنی باقاعدہ بستیاں آباد کر لی تھیںلیکن زمین سے گہری وابستگی کے سبب ان کے ہاں تحرک کے عوامل کم تھے۔ یہ تمدن ٹھہرائو اور سکون کی علامت تھا ۔ ہر ٹھہرے ہوئے معاشرے کی طرح قدیم ہندوستان کے معاشرے میں بھی سماجی اقدار کو زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔ معاشرتی اقدار پر اپنے پختہ یقین کی وجہ سے ہی وہ ایک مستحکم اور دیرپا تہذیب و تمدن کو استوار کرنے میں کامیاب رہے ۔ ان لوگوں کے رسوم و رواج ، تہواری روایات اور سماجی کردار کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں ایک بار پھر ڈی۔ ڈی۔ کو سمبی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا :
’’تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مذہبی رسوم زیادہ معروف ہیں،ان کے آغاز کے نشانات بھی ابتدائی اور زمانہ ما قبل تاریخ میں موجود ہیں۔ ہولی کا بہاریہ تہوار ایک فحش اور فی زمانہ کچھ بدکارانہ رنگ رلیوں کا جشن ہے۔ایک بڑے سے الاؤ کے گرد ناچنا ا س کی مرکزی خصوصیت ہے۔اس کے بعد کبھی کبھی کچھ منتخب لوگ انگاروں پر چلتے ہیں لیکن اس سے اگلے دن ہمیشہ ہی ایک ہنگامہ پرور اور بلندبانگ عوامی فحاشی کا مظاہرہ ہوتا ہے جس کے دوران الگ تھلگ مقامات پر جنسی بے لگامی اور بلا امتیاز شہوت رانی کے تجربات بھی ہوتے ہیں۔معلوم تاریخ کے عہدمیں خوراک ناقص تھی۔زندگی سخت تھی اور تولیدوافزائش ایسی آسان چیز نہیں تھی ۔اس وقت محرک کے طور پر فحاشی ضروری تھی۔ اس کا بگڑ کر سیاہ کاری کی شکل اختیار کر لینا ایک جدیدتبدیلی ہے۔اس تبدیلی کا سبب بہتر خوراک بھی ہے جو کسانوں کی زیادہ بھاری محنت کی رہین مِنّت ہے اور اس تبدیلی کا نتیجہ ہے ایک یکسر بدلی ہوئی جنسی بھوک اور جنسیات کے معاملات میں ایک قطعی دوسرا انسانی رویہ ۔۔۔ہولی زمانہَ ما قبل تاریخ کی یادگار معلوم ہوتی ہے ،جب عورت قبیلے کی سردار ہوتی تھی۔ بعض جگہ آج بھی ایک مرد کو (جسے ’’کولنا‘‘کہتے ہیں)عورت کے کپڑے پہن کر ہولی کی آگ کے گرد رقص کرنے والوں میں شامل ہونا ضروری ہوتا ہے ۔بنگلور میں عظیم سالانہ تیوہار’’کوگا‘‘ کے موقع پر رسوم میں شریک پیشوا کو اپنے فرائض منصبی اداکرنے سے پہلے زنانہ لباس پہننا پڑتا ہے۔ یہی صورتِ حال مغربی ہندوستان میں بٹیر پکڑنے والے پاردھی لوگوں کے پرو ہت کی ہے جو پاردھی نسل کی افزائش کی خاطر منتر پڑھنے اور گرم کھولتے ہوئے تیل کے ذریعے جسمانی اذیت سہنے کے لیے عورتوں کے کپڑے پہنتا ہے۔یہ رسمیں اور تیوہار اب مردوں نے اپنا لیے ہیں حالانکہ اصلاًان پر عورتوں کی اجارہ داری تھی ۔اسی طرح دیوی ماتا کی نسبت سے متبرک سمجھے جانے والے درختوں کا ذکر برہمنی اساطیر اور حکایات میں آتا ہے۔سڑک سے دور دیہات میں ایسے کنج ابھی تک موجود ہیں لیکن عورتوں کا وہاں جانا ممنوع ہے،بجزان چند مقامات کے جہاں پروہتائی قدیم لوگوں کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی ہے اور باہر سے آنے والے نو آباد کاشتکاروں کے قبضہ میں منتقل ہوئی ہے۔ابتدا میں تو ممانعت مردوں کے جانے پر تھی لیکن جب سماج کا اقتدارِ مادری، اقتدارِ پدری میں تبدیل ہو گیا تو پروہتائی اور رسوم بھی اس کی مناسبت سے تبدیل ہو گئیں ۔‘‘(5)
کوسمبی نے مندرجہ بالا اقتباس میں ہولی کے تہوار کی مذہبی اور سماجی حیثیت پرروشنی ڈالی ہے۔اس سے تاریخی عمل کے دوران اس میں رونما ہو نے والی تبدیلیوں کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ہولی کا تہوار آج بھی ہندوؤں کے اہم ترین تہواروں میں شامل ہوتا ہے اور تمام دنیا میں موجود ہندواس تہوار کو جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ہم محض ایک تہوار کی جزئیات میں آنے والی تبدیلیوں سے ہندوستان کے مادر سری مزاج میں وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ہندوستان کے ماحول ،تہذیب اور رسومات میں پہلی اہم تبدیلی آریاؤں کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی جس نے آہستہ آہستہ اس خطّے میں جڑ پکڑ لی۔
آریاؤں کی آمد اور پدر سری اثرات
’’آریا‘‘کے لغوی معنی’’پیدائشی آزاد‘‘یا تین اعلیٰ ذاتوں کا رکن ہیں۔ آریا افراد کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ وسطی ایشیا کے رہنے والے تھے ۔یہیں سے انھوں نے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کی۔ جن علاقوں کو آریاؤں نے تا راج کیا ان میں برصغیر ہندوستان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ وہ اس سر زمین پر افغانستان کے رستے وارد ہوئے اس لیے ان کا مقابلہ پہلے پہل وادیٔ سندھ کے لوگوں سے ہوا اور اسی خطے پر انہوں نے سب سے پہلے سلطنت قائم کی ۔رفتہ رفتہ وہ برصغیر کے دوسرے علاقوں میں پھیلتے چلے گئے۔
’’آریہ‘‘مختلف قبائل پر مشتمل تھے اور ان سب کے درمیان واحد قدرِ مشترک زبانو ںکا ایک خاندان تھی۔ اس میںسنسکرت ،لاطینی اور یونانی،کلاسیکی آریائی زبانیں تھیں۔برصغیر ہندوستان کی مختلف زبانیں مثلاً پنجابی ،بنگالی،مرہٹی وغیرہ سنسکرت ہی سے نکلی ہیں۔
آریاؤں کی زندگی مسلسل حرکت سے عبارت تھی اس لیے زمین کے ساتھ ان کی وابستگی گہری نہیں تھی۔آریا لوگ جنگجو اور خانہ بدوش تھے۔آثارِ قدیمہ بتاتے ہیں کہ ان لوگو ں کی غذا کا انحصار زیادہ تر مویشیوں پر تھا۔آریائی قبائل کا ڈھانچہ مرد کی حاکمیت پر قائم تھا۔مرد قبیلے کا سربراہ،جائیداد کا مالک اور خاندان کا بڑا ہوتا تھا۔
برصغیر ہندوستان کے قدیم باشندے جنہیں مؤرخوں نے دراوڑ کہا ہے،آریاؤں کی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکے اور جنوب کی طرف پسپا ہوتے چلے گئے۔ آریاؤں نے مفتوحین سے اپنی نفرت اور حقارت کے اظہار کے لیے انہیں داس یعنی غلام کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ۔انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو سماجی سطح پرمقامی لوگوںسے دور رکھا،بلکہ اپنی نسلی برتری کو برقرا ررکھنے کے لیے اپنے اور مقامی آبادی کے درمیان حدّ ِ فاصل کھینچ دی۔یہ ایسی حد تھی جسے عبورکرنا دونوں کے لیے نا ممکن تھا۔اس سلسلے میں جی۔ ٹی۔ گیرٹ نے لکھا ہے :
’’یہ طبقاتی تقسیم دراصل خالی نسلی اثرات کے تحفظ کا نتیجہ تھی اور یہ اس وقت ظہور میں آئی جب سفید فام آریاؤں کوسیاہ فام مقامی باشندوں سے اختلاط کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔‘‘(6)
آریاؤں کے اسی نسلی رویے کے سبب ہندوستان میں نسلی بنیاد پر ذات پات کانظام وجود میں آیا۔ اس نظام کی جڑیںاتنی گہری ہیں کہ تین ہزار سال کے طویل دور میں ماسوائے بدھ مت کے غلبے کے سالوں میں ،اس نظام پر کبھی آنچ نہیں آئی۔آج بھی ہندوستان میں اس نظام پر اتنی سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ نچلی ذات کا ہندو اعلیٰ ذات کے ہندو کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا۔ذات پات کا یہ غیر انسانی نظام ہندوستان کے سیکولر نظریۂ حیات کے منہ پر ایک طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام میں ذاتوں کے ساتھ سماجی نوعیت کے کام بھی وابستہ کردیے گئے تھے۔مذہبی رسومات کی ادائیگی برہمن قوم کے سپرد تھی جو سب سے اونچی ذات تھی۔اس کے بعد کھشتری تھے جن کے ذمے ملک کی حفاظت تھی۔تیسرا نمبر ویش کا تھا جو کاروبار چلاتے تھے اور زمینوں کے لگان کا حساب کتاب رکھتے تھے ۔اس ترتیب میں سب سے نچلے درجے پر شودر تھے جن کی حیثیت غلاموں کی تھی او ر ان کے ذمے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی خدمت تھی۔اس تقسیم میں آریا برہمن اور شودر دراوڑ تھے۔
آریاؤں نے ہندوستان کو زیرِ نگیں لانے کے بعد نہ صرف یہ کہ سماجی سطح پر اپنی برتری قائم رکھی بلکہ تخلیقی سطح پر اپنی تہذیبی فوقیت کو برقرار رکھا ۔ آریاؤں کی تخلیقی جہت کا بیان ڈاکٹر انور سدیدکے ہاںیوں ملتا ہے :
“۹۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ آریاؤں کی داخلی برانگیختی کا تخلیقی اظہار اپنشدوں کی تصنیف میں ہوااور فنا اور بقا کے تصورات کو اہمیت ملی۔۔۔۔اس عہد کی دو کتابیں جنہیں ہندوستانی دیو مالا کی حیثیت حاصل ہے ’’رامائن ‘‘اور ’’مہابھارت‘‘ہیں۔ان کتابوں کی رزمیہ کہانیاں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔‘‘(7)
دراوڑی اور آریائی تہذیبوں میں بنیادی نوعیت کے اختلافات پائے جاتے تھے۔جب فاتح قوم نے حتمی طور پر فوج کے ذریعے برتری حاصل کرلی تو تہذیبی طور پر بھی آریہ برتر قرار پائے ۔ان دونوں تہذیبوں کے ملاپ سے اندرونی کشمکش کا آغاز ہوا۔ڈاکٹر انور سدید نے دراوڑی اور آریائی مزاج کے بارے میں لکھا ہے :
’’دراوڑی تہذیب مزاج کے اعتبار سے کلاسیکی نوعیت کی تھی ،چنانچہ اس تہذیب نے خود کو اونچی پرواز کی طرف مائل کرنے کی بجائے اپنے داخل میں سمٹ جانے کی تلقین کی اور سماجی رسوم وقیود کا پختہ نظام قائم کیا۔برصغیر میں برہمنیت کا فروغ بھی اسی کلاسیکی مزاج کا نتیجہ ہے اور جین مت اور بدھ مت کی افزائش اس سنگلاخ کلاسیکیت کے خلاف ایک واضح ردِّعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘(8)
ہندوستان میں آریاؤں کی آمد کے بعد جو تہذیبی اتار چڑھاؤ ہوا ،اس کا بڑا اورایک اہم موڑ بدھ مت سمجھا جاتا ہے ۔
بدھ مت اور اور جین مت
بدھ مت کا آغاز شہزادہ گوتم نے کیا مگر مرنے کے بعد وہ سدھار تھ کے نام سے مشہور ہوا۔گوتم ساکیہ قبیلے میں پیدا ہوا۔ ساکیہ لوگ اپنے معاملات کا انتظام وانصرام خود کیا کرتے تھے ۔اس قبیلے کے اندر برہمنیت نہیں تھی مگر ذات پات کے طبقات موجودتھے۔نو عمر گوتم نے قبائلی رسوم و رواج کی پیروی میں کھشتریوںکی طرح ہتھیار چلانے،گھوڑا دوڑانے اور رتھ کی سواری کی تربیت حاصل کی۔اس کی شادی ایک کھشتری خاتون کچانا سے کر دی گئی۔جس سے ایک لڑکا راھل پیدا ہوا۔ اپنے عہد کے فلسفیوں کے افکار سے متاثر ہو کر اس کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوا کہ زندگی کے مسائل کو حل کرے اور نسلِ انسانی کے غم واندوہ کو دور کرنے کے طریقے معلوم کرے ۔انیس سال کی عمر میں گوتم نے اپنے گھر اور قبیلے کو خیر باد کہا، اپنے بال منڈوا دیے ،بیراگی کا بھیس اپنا یا اور بنی نوعِ انسان کی نجات کی جستجو شروع کر دی۔(9)
بدھ کے نزدیک یہ دنیامصائب کا گھر ہے ۔خواہشات انسان کو دکھی کر دیتی ہیں ۔اگر انسان اس دنیا میں نروان (سکون)حاصل کرنا چاہتا ہے تواسے چاہیے کہ وہ دنیا اور اس سے وابستہ خواہشات ترک کر دے۔بدھ نے اپنے عہد کے ذات پات کے نظام کے خلاف آواز اٹھائی۔اس نے انسانی مساوات اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔اس کے مطابق انسانی جسم روح کا زندان ہے جس سے رہائی ضروری ہے اس سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ بدھ کا فلسفہ ترکِ دنیا اور فرار کا فلسفہ ہے، زندگی کی حقیقتوں سے منہ موڑ کر جنگلوں کی راہ لینے کا فلسفہ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق بدھ مت اصل میں دراوڑی تہذیب کے دائرے یا عورت کے زندان سے آزاد ہونے کی سعی اور آریائی ردِعمل کی صورت تھی ۔(10)
بدھ کے تصوّرِ مذہب کے بارے میں ول ڈیوراں نے لکھا ہے:
“His conception of religion was purely ethical. He cared everything about conduct, nothing about ritual or worship, metaphysics or theology.When a Brahman proposed to purify himself of his sins by bathing at Gaya, Budha said to him: “Have thy bath here, even here. O’Brahman! Be kind to all beings.If thou killest not life, if thou takest not what is not given to thee, secure in self denial. What wouldst thou gain by going to Gaya? Any water is Gaya to thee.”(11)
مندرجہ بالا اقتباس بدھ مت اور بدھ مت کے تصور ِمذہب کی عکاسی کرتا ہے۔بدھ مت نے برصغیر کی تہذیب پر دیر پا نقوش ثبت کیے۔برِصغیر سے باہر چین،جاپان،سری لنکا،برما،تھائی لینڈ،ملایا ،فلپائن اور بہت سے دوسرے ممالک میں اسے پَذیرائی حاصل ہوئی۔لیکن برصغیر میں چند صدیوں بعد دوبارہ برہمنوں کے قوت پکڑنے سے بدھ مت رفتہ رفتہ سمٹتا چلا گیا تاہم اس خطۂ ارضی کے فنونِ لطیفہ پر اس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
بدھ مت کے مختصر بیان کے بعد ہم جین مت کی طرف آتے ہیں ۔ جین مت کا بانی مہا ویر تھا ۔ اس نے فرد کو جسمانی اور حسیاتی لذتوںسے کنارہ کش ہونے کی تلقین کی ۔ بدھ مت کی طرح جین مت میں بھی ارضی زندگی کے تیاگنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جین مت نے ویدوں کی سند سے انکار کیا ۔ اس کے پیرو کار سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے لیے بھیک مانگا کرتے تھے ۔ ان کا سامان عموماً ایک جوڑا کپڑے ، کمبل ، بھیک مانگنے کے کا سے اور زمین جھاڑنے کے لیے جھاڑو جیسی اشیاء پر مشتمل ہو تا تھا ۔ جینی راہبوں کو بال منڈوانا پڑتے تھے ۔
برِصغیر میں بدھ مت اور جین مت کے عروج کا زمانہ کم و بیش ایک ہی ہے ۔ بدھ مت کے مفکرین کی اکثر کتابوں میں جین مت کا حوالہ حریف فرقے کے طور پر آتا ہے ۔ برِصغیر سے باہر بھی جین مت نے اپنے اثرات ثبت کیے ۔ ان میں جاپان اور ہند چینی کے ممالک خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ جاپان میں بدھ مت اور جین مت کے ملاپ سے زین بدھ ازم کا فلسفہ وجود میں آیا جسے جاپان کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے ۔
بدھ مت اور جین مت در حقیقت بر ہمنیت کے خلاف احتجاج کی علامت ہیں لیکن برِصغیر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی ہندو مذہب کا حصہ بن گئے ۔ بر ہمنیت نے جس طرح آہستہ روی سے بدھ مت اور جین مت پر دوبارہ غلبہ پایا اس کا بیان ڈاکٹر را دھا کر شنن کے ہاں ملتا ہے ۔ بیان اگر چہ بدھ مت کے بارے میں ہے لیکن اس کا اطلاق جین مت پر بھی ہو تا ہے ۔
’’بر ہمن مت نے اپنی نشاۃِ ثانیہ میں بدھ کو وشنو کا اوتار تسلیم کیا ۔۔۔۔ اور بدھ عقیدے کے بہترین اوصاف کو بر ہمنیت میں ضم کر لیا‘‘ ۔(12)
ویدانت
ویدانت سے مراد فلسفے کا وہ نظام ہے جس کی بنیاد ویدوں پر ہو ۔ ویدک ادب میں اپنشد آخری وید ہے اس لیے ما بعد فلسفوں پر اس کے اثرات سب سے زیادہ گہرے ہیں ۔ واسو بندھو نے پانچویں صدی عیسوی میں حقیقت کے پسِ پشت لا زوال حقیقت کا تصور اجا گر کیا ۔ نویں صدی عیسوی میں شنکر ا چاریہ نے ویدانت کے فلسفے کو نئے سرے سے فروغ دیا ۔ (13)
اسی باب میں رائے شوموھن لعل ماتھر نے لکھا ہے :
’’شنکر کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ کسی اصلی نظام کا موجد یا شارح ہے بلکہ وہ تو اپنشدوں اور برہمہ سوتر کی تعبیر اس تر تیب سے کرتا ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ اپنشدوں میں ایک مر بوط اور باقاعدہ فلسفہ موجود ہے ۔‘‘(14)
شنکرا چاریہ نے جس طرح ویدانت کی تشریح کی ہے اس کے مطابق یہ خارجی عالم مایا یا فریب ہے۔ خدا نے اس عالم کو کھیل کے طور پر پیدا کیا ہے ۔ علّت اور معلول میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ آخری علّت یا حقیقت بر ہمہ ہے جس کے سبب سے یہ عالم قائم ہے ۔ شنکر نے اپنے فلسفے کے ذریعے ویدانیت کا پر چار کیا یعنی اس نے ادویت اور ثنویت کے تصورات کو رد کر دیا اور یہ کہا کہ مطلق صداقت واحد آتما ہے ۔ شنکر کے مطابق ہم اس عالم سے اس لیے واقفیت حاصل نہیں کر سکتے کہ جب صحیح علم پیدا ہوجائے تو بو دو نمود دونوں باطل ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمِ خارجی تو ایک التباس ہے اور جب کسی فرد کو صداقت کا علم ہو جائے تو التباس بے معنی ہو جاتا ہے ۔
شنکرا چاریہ نے صرف بتیّس سال کی عمر پائی لیکن اس مختصر عمر کے دوران ہی اس نے ایک صوفی ، ایک عالم اور ایک عاقل شخص کی حیثیت سے شہرت حاصل کر لی ۔ وہ مالا بار کے ایک بر ہمن گھرانے میں پیدا ہوا۔ ابتدا ہی میں اس نے زندگی کا عیش و آرام ترک کر دیا اور گیان دھیان میں مشغول ہو گیا ۔ اس کے مطابق اعلیٰ مذہب اور اعلیٰ ترین فلسفہ ویدوں میں موجود ہے ۔ شنکر عقل کے محدود ہونے کے تصور کا قائل ہے ۔ ول ڈیور اں نے لکھا ہے :
”It is not logic that we need, says Shankara, it is insight, the faculty (akin to art) of grasping at once the essential out of irrelevant, the eternal out of the temporal, the whole out of the part: this is the first pre-requisite to philosophy. The second is willingness to observe, inquire and think for understanding’s sake, not for the sake of invention, wealth or power; it is withdrawal of the spirit from all the excitement, bias and fruits of action. Thirdly, the philosopher must acquire self-restraint, patience and tranquility; he must learn to live above physical temptation or material concerns. Finally, these must burn deep in his soul, the desire for maksha, for liberation from ignorance, for an end to all consciousness of a separate self, for a blessful absorption in the Brahman, of complete understanding and infinite unity. In a word, the student needs not the logic of reason so much as cleansing and deepening discipline of the soul. This perhaps, has been the secret of all profound education.”(15)
شنکرا چاریہ کے حوالے سے جو باتیں ول ڈیوراں نے لکھی ہیں ، ان سے شنکرا چاریہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ خود شنکر کے اپنے افکار کی تعمیر پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ عقل اور منطق کو ضمنی تصور کرنے کے باعث شنکر وجدان کو زیادہ اہمیت دیتا ہے جس سے اس کے ذہن پر ہندو فلسفے کے اثرات کا اندازہ ہو تا ہے ۔
ویدانت کی تعلیمات وحدانیت ، مساوات اور مایا کا پر چار ہیں ۔ شنکر نے نویں صدی میں ہندو مت کے احیاء کے لیے جو کام کیا اس نے آگے چل کر فکری سطح پر ہندو مت کی بنیادوں کو گہرا کیا ۔ اس نے اپنے عہد میں جدید ہندو مت کے فروغ میں دوسرے مفکرین کی نسبت مرکزی کر دار ادا کیا ۔ آج کا ہندو مت زیادہ تر شنکرا چاریہ کی تعلیمات پر مبنی ہے ۔
بھگتی تحریک
بھگتی تحریک کی ابتداء جنوبی ہند سے ہوئی ۔ اس کو شروع کرنے کا سہرا رامانج کے سر ہے ۔ شنکرا چاریہ کے بعد رامانج کی کتاب ’’شری بھاشیہ ‘‘ ویدانیت کی سب سے بہتر کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس کے مطابق اس دنیا کا خالق بر ہما حقیقتِ مطلق ہے ۔ بر ہما کا قرب حاصل کرنے کے لیے صرف عبادت ہی کافی نہیں بلکہ محبت ، پیار اور بھگتی اصل چیز ہے ۔ بھگتی تحریک کے ماننے والے بھگت کہلاتے تھے ۔ ان میں دیو اچاریہ ، ہری نند ، راگھو نند ، راما نند ، بھگت کبیر ، تلسی داس اور میرا بائی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ بعد میں آنے والے لوگوں اور خاص طور پر راما نند نے رامانج کے برعکس عوامی زبان میں اپنے تصورات پیش کیے۔ راما نند کے عہد تک اسلام برِ صغیر میں پوری طرح پھیل چکا تھا ۔ اسلام کے اثرات کے تحت بھگتی تحریک صرف ایک تحریک نہ رہی بلکہ ایک عملی فلسفہ بن گئی ۔ راما نند ہندوستان میں اشاعتِ اسلام کا مخالف تھا ۔ اس نے ہندوؤں کی نچلی ذاتوں کو اپنی تعلیمات سے متاثر کرنے کی بھر پور کو ششیں کیں تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل نہ ہوں ۔
بھگتی تحریک نے برصغیر کی مذہبی اور فکری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ خاص طور پر اس تحریک سے ہندو مذہب کو جِلا ملی ۔ اس تحریک کے زیر اثر بہت کامیا ب اور اثر آفریں شاعری کی گئی ۔ یہ شاعری اپنے اندر محبت ، یگانگت اور مساوات کا پیغام لیے ہوئے ہے ۔ اس مذہبی اور روحانی شاعری نے جو اکثر عام بول چال کی زبان میں تخلیق ہوئی ، نچلی ذات کے عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا اور انھیں اس تحریک کے روپ میں سکون کی ایک صورت سے آشنائی ہوئی ۔ اس تحریک سے وابستہ شاعروں میں دادو چتنیر ، میرا بائی ، بھگت سورداس ، نام دیو ، پریم نند ، تلسی داس، بھگت کبیر ، سنت تکارام ، ودیاپتی اور بہت سے دوسرے نام شامل ہیں ۔ ڈاکٹر انور سدید نے بھگتی تحریک اور اس کے اثرات پر یوں جامع اور پر مغز تبصرہ کیا ہے :
’’بھگتی تحریک نے فرد کو سکون ، اعتدال اور توازن کی فضا میں روحانی رفعت حاصل کرنے کا سبق دیا۔ اس تحریک کا اساسی مقصد اخلاقی اور اصلاحی تھا ۔ بھگتی تحریک نے خدا کے شخصی تصور میں اپنا ئیت پیدا کی اور کبھی آقا اور غلام ، کبھی خاوند اور بیوی اور کبھی عاشق اور معشوق کا تعلق ابھارا۔ اس سے خدا کے تجریدی تصور کو شدید زک پہنچی لیکن تخلیقی اعتبار سے اس تصور نے جذباتی زاویے کو عمدہ کر وٹ دی ۔ ودیاپتی ، میرا بائی اور چندی داس کی شاعری میں اس تصور کی طرف نازک ، لطیف اور گدرائے ہوئے اشارے ملتے ہیں ۔ بھگتی تحریک کی شاعری نے عورت کے جذبات کو سلگتی ہوئی زبان دے دی اور یوں گیت کو بالخصوص فروغ حاصل ہوا۔ ‘‘(16)
اسلامی تصوف:
مسلمانوں میں تصوف کا باقاعدہ آغاز لگ بھگ تیسری صدی ہجری میں ہوا۔ بعض محققین نے اس کی ابتداء کو اصحابِ صُفّہ سے منسوب کیا ہے ۔ تصوف کالفظ صوف سے مشتق خیال کیا جاتا ہے ۔ صوفیہ وہ بر گزیدہ افراد تھے جو خدا سے لَو لگاتے تھے ۔ دنیاوی معا ملات میں کم سے کم شریک ہوا کرتے تھے اور ایک خاص قسم کے سادہ کپڑے پہنتے تھے ۔ صوفیہ کے مختلف سلسلے اپنا رشتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جوڑتے ہیں ۔ صوفیہ شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ روز و شب عبادت اور یادِ لٰہی میں مصروف رہتے تھے ۔ وہ ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مستغرق رہنے کو زندگی کا ماحصل جانتے ۔ باطن کی طہارت کو افضل سمجھتے ، خلق خدا سے محبت کرتے اور لوگوں کے کام آنے کو عبادت کا درجہ دیتے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مسلمانو ں کی سلطنت میں دو دو دربار ہوتے تھے ۔ ایک خلیفۂ وقت کا اور ایک اولیاء اللہ کا ۔ چونکہ صوفی خود کو حکومتی گو رکھ دھندوں سے الگ رکھتے تھے ، اس لیے مسلم حکمران ان کے دربار میں حاضری اور ان کی خوشنودی کے متمنّی رہتے تھے ۔ ایسی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہیں جن میں خلیفۃ الوقت اپنے عہد کے اولیاء کی خدمت میں حاضری دیتا رہا ۔
برِصغیر میں مسلمان فاتحین آٹھویں صدی عیسوی میں داخل ہوئے لیکن ان کی آمد سے بہت پہلے مسلمان صوفیہ اور تجار اس خطے میں اسلام کی شمع روشن کر چکے تھے ۔ مسلمان صوفیہ وسطی ایشیا ء ، ایشیائے کو چک اور عرب کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے ہندوستان آتے رہے ۔ ان کے سامنے پہلا اور آخری مقصد تبلیغ و اشاعتِ اسلام ہوتا تھا لیکن صوفیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نہیں تھی ۔ ان کے ہاں ہر مذہب ، فرقے ، رنگ ، نسل اور مکتبہء خیال کے لوگ حاضری دیا کرتے تھے اور یہ صو فیہ ، ولی ، ابدال ، قطب اپنے حسنِ اخلاق سے لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے۔ تبلیغِ اسلام کے اس ارفع نصب العین کے حصول میں صوفیہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کر نا پڑا۔ انھوں نے اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں ۔علامہ سید سلیمان ندوی نے مسلمان صوفیہ کی ان خدمات کے بارے میں درست کہا ہے :
’’اگر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندوستان کو غزنی اور غور کے بادشاہوں نے فتح کیا تو اس سے زیادہ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی روح کو خانوادئہ چشت کے روحانی سلاطین نے فتح کیا ۔ ‘‘(17)
صوفیہ چونکہ عام لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے دن رات عوام الناس کے ساتھ گزرتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے ارد گرد بسنے والوں کی زبانیں اور بول چال کے لہجے اپنا لیے ۔ صوفیہ جس خطّے میں بھی گئے وہاں کے لوگوں کی زبان میں ان سے کلام کیا جس سے ۔ صوفیاء اور مقامی آبادی میں ایک مضبوط رشتہ قائم ہو گیا ۔ صوفیہ نے نہ صرف یہ کہ مقامی لہجوں پر عبور حاصل کیا بلکہ ان زبانوں میں اپنی تصنیفات اور تخلیقات سے اضافے بھی کیے ۔ صوفیہ نے جو شاعری کی یا نثر لکھی ، اس کا مقصد محض ادب کی تخلیق نہ تھا بلکہ وہ ادب کے وسیلے سے لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل کرتے تھے ۔ چنانچہ بالواسطہ طور پر صوفیہ کی مسلسل سعی سے بہت سی مقامی غیر ادبی زبانوں میں ادب کے انمول اور بیش بہا نمونے تیار ہو گئے ۔ ڈاکٹر انور سدید صوفیہ کی تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’صوفیہ کی تحریک نے اسلامی تصوف کو ہندوستان میں ایک فکری اور عملی لہر کی صورت میں رائج کیا اور اردو زبان کو عوام تک پہنچا کر قابلِ قدر خدمات انجام دیں ۔ ‘‘(18)
شعرو ادب کے ساتھ ساتھ صوفیہ نے دوسرے فنون مثلاً موسیقی وغیرہ کی تر ویج میں بھی گرانقدر حصہ لیا ۔ فکری سطح پر صوفیہ نے خدا کی وحدانیت کا پر چار کیا ۔ مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ صوفیہ نے اردو کے دامن کو بھی مالا مال کیا اور اردو نثر و نظم کے ابتدائی نمونے صوفیہ ہی کے مہیا کردہ ہیں ۔
ہندوستان میں مسلمان صوفیہ کی خدمات اور مقامی تہذیب و ثقافت پر اسلامی تہذیب کے ہمہ گیر اثرات کے بارے میں تفصیلی معلومات اور تجزیے کے لیے شیخ محمد اکرام کی اہم کتابوں آبِ کوثر ، رودِ کوثر اورموجِ کوثر سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
سیرامپور پادری مشن (مذہب کے متعلق ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومتِ بر طانیہ کی پالیسی )
سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں تاجروں کے بھیس میں یورپی حملہ آوروں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میںبرِصغیر بتدریج مغربی طاقتوں کی نو آبادیات کاحصہ بن گیا ۔ ابتداء میں پر تگالی ، ولندیزی ، فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ کئی دوسری قوموں نے بھی برِصغیر میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن حتمی کامیابی انگریزوں نے حاصل کی ۔ 1857 ء تک تقریباً تمام ہندوستان پر انگریزوں کا بلا واسطہ یا بالواسطہ قبضہ ہو چکا تھا ۔ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان کا انتظام براہِ راست حکومتِ بر طانیہ نے سنبھال لیا ۔ انگریزوں نے یہاں کے سماجی ، معاشی اور سیاسی نظام ہی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے منظم کوششیں کیں ۔ علی عباس جلالپوری کا اس سلسلے میں یہ کہنا ہے :
’’ملوکیت پسندوں اور تاجروں نے سترہویں صدی سے مذہبی تبلیغ کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا چنانچہ سینکڑوں مشنری ادارے قائم کیے گئے اور مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جوق درجوق مشرقی ممالک کو جانے لگے ۔ یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ عیسائیت کی تبلیغ سے اہلِ مغرب کا مقصد یہ تھا کہ دیسیوں نے عیسائیت قبول کر لی تو وہ اپنے مغربی آقائوں کو اپنا ہم مذہب سمجھ کر ان کی معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے ۔ اس طرح اہلِ مغرب نے مذہب کے نام پر اپنا اقتصادی تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے کہا تھا ’جب سفید آدمی آیا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی ، اب اس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل !‘ ـ”(19)
جلالپوری کے اس بیان سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بات پرتگالی ، ولندیزی اور فرانسیسی تجارتی کمپنیوں کے بارے میں تو درست ہے اور ان کے ہندوستان میں ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے مقامی لوگوں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کیا جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے ۔ ان کے برعکس ایسٹ انڈیا کمپنی جس کا تعلق انگلستان سے تھا ، کی مذہبی پالیسی بہت مختلف تھی ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے عیسائیت کی تبلیغ کرنے والوں کی مدد کرنے کے بجائے کسی حد تک یا بظاہر ان کی حوصلہ شکنی کی جس سے مقامی آبادی کو یہ تاثر ملا کہ انگریز ان کے مذہبی عقائد کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
جنوبی ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ سب سے پہلے لوتھرن (Luthern) فرقے کے پادریوں نے ۱۷۰۷ء میں کی ۔ یہ مشن جرمن پادریوں پر مشتمل تھا جن کی تبلیغ کے نتیجے میں محدود تعداد میں مقامی آبادی نے عیسائیت کو قبول کر لیا ۔ شمالی ہندوستان میں پہلا اعلیٰ ذات کا ہندو جس نے عیسائیت اختیار کی ، بابو گنیش داس تھا ۔ جن اداروں نے برصغیر میں مسیحیت کی تبلیغ کی کوشش کی ان میں چرچ مشن اور بپٹسٹ مشنری سوسائٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان اداروں نے تواتر کے ساتھ مبلغین برصغیر بھیجے جنہوں نے مقامی آبادی میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی مسلسل کوششیں کی۔
جس علاقے میں سب سے پہلے عیسائی پادری اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئے اس کا نام سیرامپور تھا ۔ سیرامپور کا علاقہ کلکتے کے قریب واقع ہے ۔ یہ قصبہ اس وقت ڈنمارک کی حکومت کے زیر نگیں تھا ۔ یہ ایک گنجان آباد علاقہ تھا جس میں وشنو کی پوجا کی جاتی تھی اور اسے سارے ہندوستان میں ایک اہم تیرتھ شمار کیا جاتا تھا ۔
سیرا مپور میں تبلیغ میں مصروف مشن کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی مذہبی حکمتِ عملی کی وجہ سے مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مذہبی پالیسی میں تبدیلی لارڈو لزلی کے زمانے میں آئی ۔ اس نے دارالامراء میں خود پیش ہو کر ان الفاظ میں قرار داد پیش کی :
’’ بہرگاہ کہ ہندوستان کے برطانوی مقبوضات کے باشندوں کی سو دو بہبود کو ترقی دینا ہمارے ملک کا عین فرض ہے ، یہ ضروری سمجھا گیا کہ ایسے ذرائع و وسائل اختیار کئے جائیں کہ جن سے ان باشندگانِ ہند میں کارآمد علوم کی ترقی اور مذہبی و اخلاقی اصلاح و تحریک کی صورتیں پیدا ہوں۔ پس بایں وجہ لازم آیا کہ ان مقاصد کے حصول کیلیے جو لوگ ہندوستان جانا اور وہاں بودو باش اختیار کرنا چاہیں ، ان کو معقول قانونی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ یہ لوگ اپنے ارادوں کی تکمیل کر سکیں ۔ ‘‘ (20)
دارالامراء کی باقاعدہ منظوری کے بعد برطانیہ کے پادریوں کے لیے ہندوستان کے دروازے کھل گئے اور برِصغیر میں پہلے سے موجود تبلیغی مشنریوں کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا جس نے مناظروں اور مذہبی مباحث کی ایک ایسی دوڑ شروع کی جو آئندہ ڈیڑھ دو صدیوں تک جاری رہی۔
عیسائیت کی تبلیغ کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ہی ہو چکی تھی ۔ جب 1857 ء میں برصغیر تاجِ برطانیہ کے تحت ہوا تو تب بھی ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے مشن اپنا کام کرتے رہے ، لیکن مقامی آبادی کو مذہب میں تبدیلی کے لیے مجبور نہیں کیا گیا اور اس سلسلے میں حکومت کی پالیسی بہت حد تک نرم ہی رہی ۔
سیّد احمد شہید بریلوی کی تحریک
برِ صغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدآہستہ آہستہ مقامی حکمرانوں اور یورپی تجارتی کمپنیوں نے اپنے اپنے طور پر طاقت حاصل کرنے اور اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ اس میں مرہٹّے، جاٹ ، سکھ ، انگریز اور فرانسیسی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ نادر شاہ درّانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے مغل اور مرہٹہ اقتدار کا سورج غروب کر دیا جس کے بعد پنجاب کے وسیع علاقے پر سکھوں کی حکمرانی قائم ہو گئی اور جنوبی ہند میں انگریز اپنے اقتدار کی حدود کو وسیع کرتے چلے گئے ۔ مسلمانوں کی اس زبوں حالی کے دور میں جس شخص نے اسلام کو درپیش خطرات کی طرف پہلے پہل مسلمان حکمرانوں اور عوام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی اس کا نام حضرت شاہ ولی اللہ ؒ تھا ۔
شاہ ولی اللہؒ نے ایک طرف امّتِ مسلمہ کو سیاسی زوال سے نکالنے کی راہیں تلاش کیں اور دوسری طرف مسلمانوں میں عام طور پر راہ پانے والی مذہبی بدعتوں اور عقائد میں در آنے والی کمزوریوں اور ضعف کا علاج کرنے کی پوری دل جمعی اور درد مندی سے جدوجہد جاری رکھی ۔ اس طرح اٹھارویں صدی عیسوی میں شاہ ولی اللہؒ بر صغیر کی واحد مسلم شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمان قوم کی بقا کے لیے ایک سے زیادہ محاذوں پر جنگ کی ۔ ان کی تعلیمات اور افکار نے برصغیر کی مسلم فکر پر دور رس اثرات مرتب کئے ۔ اس سلسلے میں انور سدید کا یہ بیان قابل غور ہے :
’’شاہ ولی اللہؒ نے دین اور دنیا ، مذہب اور سیاست میں کوئی حّدِ فاصل قائم کئے بغیر اجتہاد پر زور دیا ۔ شاہ صاحب کے اس عمل میں تخریب بالکل نہیں تھی اور تعمیر کا عنصر زیادہ تھا ۔ چنانچہ ان کے اثرات صرف ان کے عہد تک محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے حزب اللہ کا جو تصور پیش کیا تھا وہ ان کی اولاد کو منتقل ہو گیا اور برصغیر میں اخلاقی ، سیاسی اور اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے لیے ان کے لائحہ عمل کو ان کے فرزند حضرت شاہ عبدالعزیز نے جاری رکھا۔ ‘‘ (21)
شاہ عبدالعزیز نے اپنی زندگی علومِ اسلامی کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ ان کا مذہبی نقطۂ نظر بے حد کشادہ تھا ۔ اس زمانے کے لوگ مذہبی معاملات میں آپ کی رائے کو فوقیت دیتے تھے ۔ شاہ صاحب نے برصغیر میں مسلم قوم کے دوبارہ غلبے کے لیے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر ایک تحریک چلائی اور اپنے دور کے مسلمان حکمرانوں کو متحد ہو کر انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی۔ ان سب باتوں نے مل کر سیّد احمد شہید کی تحریک کے لیے راستہ ہموار کیا ۔
سید احمد بریلوی کی تربیت میں بھی شاہ عبدالعزیز کا بہت زیادہ حصہ تھا ۔ شیخ محمد اکرام کے مطابق ’’ انھوں نے بائیس سال کی عمر میں شاہ عبدالعزیز سے سلسلہ ء نقشبندی میں بیعت کی اور اس کے کچھ عرصہ بعد دہلی کی ان مبارک ہستیوں سے کوئی چار سال اخذِ فیض کر کے رائے بریلی واپس چلے گئے ۔ ‘‘ (22)
ان دوسری مبارک ہستیوں میں شاہ عبدالعزیز کے بھائی شاہ عبدالقادر بھی شامل تھے جن سے سیّد احمد شہید بریلوی نے قرآن و حدیث اور فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی ۔ محققین کے مطابق سیّد احمدکی فطرت میں شروع ہی سے عسکریت غالب تھی ۔ فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد سیّد احمد نے ٹونک کے حکمران نواب امیر خان کی ملازمت اختیار کرلی ، جہاں انھوں نے لگ بھگ سات برس فنِ سپہ گری کی تحصیل و تکمیل میں صرف کئے۔ جب نواب نے انگریزوں کی بالادستی تسلیم کر لی تو انھوں نے ملازمت چھوڑ دی اور تمام ہندوستان بالخصوص بنگال کا دورہ کر کے اپنے حامی اور کارکن جمع کئے اور اپنی تحریکِ جہاد کا آغاز کیا ۔ جب سیّد احمد نے جہاد کا اعلان کیا تو ان کے ساتھ پانچ سو سپاہی تھے جنہیں لے کر وہ شمالی ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ انھوں نے درۂ بولان کے راستے قندھار اور پھر کابل اور پشاور کا رخ کیا ۔ پشاور پہنچ کر پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے خلاف علمِ جہاد بلند کر دیا ۔ سیّد احمد شہید کا منصوبہ یہ تھا کہ شمالی ہندوستان میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اپنا مرکز قائم کیا جائے اور پھر طاقت پکڑ کر دہلی کی جانب پیش قدمی کی جائے لیکن ان کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ پشاور کا مقامی سردار یار محمدخان سکھ حکمران کے ساتھ مل گیا اور اس نے سید صاحب کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی ۔ (23)
آخر کار سیّدصاحب نے بالاکوٹ کو اپنا مرکز بنایا لیکن کسی غدار نے بالا کوٹ میں داخلے کا خفیہ راستہ دکھانے میں سکھوں کی رہنمائی کی۔ بالاکوٹ میں سیّد صاحب کے دل شکستہ لشکر اور سکھوں کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں سیّد احمد ، شاہ اسمٰعیل اور بے شمار مسلمان مجاہدین شہید ہوئے ۔
بظاہر سیّد احمد کی تحریک ناکام ہو گئی لیکن اس نے جو چراغ مسلمانوں کے دلوں میں روشن کیا وہ مدتوں جگمگاتا رہا۔ اس تحریک نے مسلمانوں کے ایک طبقے کو انفرادی سطح سے بلند ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے غور و فکر کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ کیا ۔ شمالی ہندوستان میں سیّد احمد کی شہادت کے بعد بھی سکھوں اور اس کے بعدانگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھا گیا۔ یہاں تک کہ جنگِ آزادی 1857 ء میں بھی اس تحریک سے وابستہ افراد نے انگریزوں کے خلاف حصہ لیا۔ اس تحریک کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان قوم نے حکمرانوں کی طرح دیکھنے کی بجائے اپنے طور پر جدوجہد کرنے کی عملی کوشش کی ۔ بنگال میں مولوی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک بھی اسی فکر سے متاثر تھی جسے سیّد احمد نے فروغ دیا۔ اسی طرح تیتو میر شہید نے بھی بنگال میں سیّد احمد کے زیر اثر اپنی تحریک چلائی ۔سیّد صاحب کی تعلیمات کا اثر دوسرے اہم افراد پر بھی ہوا اور مومن خان مومن جیسا شاعر بھی آپ کے افکار سے متاثر ہو کر آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گیا ۔
سر سیّد احمد خان اور نیا علم الکلام
1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد ہندوستان کے مسلمان دل برداشتہ ہو چکے تھے اور ازحد مایوسی کا شکارتھے۔ جنگِ آزادی میں فتح پانے کے بعدانگریز حکمرانوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر انتقام کا نشانہ بنایا اور انھیں سیاسی ، سماجی اور معاشی سطحوں پر کچلنے کی منضبط کوششیں کیں ۔ ایسے کٹھن دور میں جب مسلمان ہر جانب سے محصور ہو چلے تھے ، سر سیّد احمد خان نے اپنے افکار اور کارناموں سے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔
سر سید احمد خان اپنے عہد کی نمایاں ترین اور متنازعہ شخصیت تھے ۔ اگرایک طبقہ انھیں مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھتا تھا تو دوسرا طبقہ انھیں سرے سے مسلمان کہنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہندوستان کی فکری تاریخ اور روایت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے سر سیّد احمد خان کے افکار اور ان کی علی گڑھ تحریک کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔ ڈاکٹر شیخ محمد اکرام کہتے ہیں کہ :
’’مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے ، تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا لیکن اس زمانے میں انھیں جو نئے مسائل پیش آ رہے تھے وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے ۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اوروہ اس سے بدکتے تھے ۔ اب تک ان کی ادبی زبان فارسی رہی تھی لیکن اس زبان کا مستقبل تاریک تھا اور اردو میں غزل گو شعراء کے دو اوین کے سوا کوئی قابل ِذکر لٹریچر نہ تھا ۔ نثر میں گنتی کی چند کتابیں تھیں اور ابھی اس میں علمی مسائل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں آئی تھی ۔ اردو شاعری بھی نقائص سے پر تھی اور قوم کی نشوونما میں کسی طرح کارآمد نہ ہو سکتی تھی ۔ قوم کی اصلاح کے لیے ضروری تھا کہ ایک نئی زبان تیار ہو جو فارسی کی جگہ لے ۔ ایک نیا لٹریچر پیدا ہو جو شاندار ماضی اور موجودہ زبوں حالی کی تصویر قوم کے سامنے کھینچ کر رکھ دے ۔ شاعری اور شاعرانہ تنقید کے بالکل نئے اصول مرتب ہوں۔ ایک نئی نثر رائج ہو جو زورِ انشاء دکھانے کے لیے نہیں بلکہ عام روزمرّہ کے واقعات بیان کرنے کے لیے کام آئے ۔ علی گڑھ تحریک نے یہ سب کچھ کیا ۔ ‘‘ (24)
لیکن علی گڑھ کی اس ناقابلِ فراموش دین کے ساتھ ساتھ سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں تضادات کی فراوانی ہے ۔ رسالہ اسباب بغاوتِ ہند میں انھوں نے بہادر شاہ ظفر اور مسلمان مجاہدین کی کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ ایک زمانے میں وہ ہندو مسلم اتحاد کے اس قدر حامی تھے کہ امتناع ِگائو کشی پر تیار ہو گئے تھے اور ہندو اور مسلمان کو ایک قوم تصور کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کے افکار میں پختگی اور تبدیلی آتی چلی گئی ۔
اگر سرسیّد احمد خان کی مذہبی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی ۔ سر سیّد نے مذہبی عقائد کی نئی تفسیر اور تعبیر کرنے کی سعی کی ۔ انھوں نے عقل کو بنیاد قرار دے کر قرآن کی عقلی توجیہات کی طرف توجہ کی ۔ عقلیت پر زور دینے کی وجہ سے انھیں بہت سے ایسے عقائد کا انکار کرنا پڑا جن کی عقلی توجیہہ ان سے ممکن نہ ہو سکی مثلاً روزِ قیامت ، ملائکہ اور جناّت وغیرہ ۔ ان کے علاوہ دوسرے عقائد پر ان کے خیالات کی بناء پر علماء ان کے خلاف کمربستہ ہو گئے ۔ تعلیمی سطح پر انھوں نے مسلمانوں کے لیے انگریزی زبان اور جدید مغربی علوم کو لازمی قرار دیا ۔ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے سوسائٹی بنائی اور علی گڑھ میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی جو بعد میں کالج اور پھر یونیورسٹی کے درجے تک پہنچ گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک عہد ساز اردو رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے جاری کیا جس کامقصد مغربی علوم کو اردو میں منتقل کرنا اور مقامی لوگوں تک بالعموم اور مسلمانوں میں بالخصوص جدید علوم کی روشنی پہنچانا تھا۔ سرسید احمد خان نے اپنے دور کی مذہبی تعلیم اور دینی مدارس کے نصاب پر بھی شدید اعتراضات کیے۔
’’میں نہایت ادب سے پوچھتا ہوں کہ جو کتبِ مذہبی اب تک ہمارے ہاں موجود ہیں ، اور پڑھنے پڑھانے میںآتی ہیں ان میں سے کون سی کتاب ہے جس میں فلسفہ ء مغربیہ اور علوم ِجدیدہ کے مسائل کی تردید یا تطبیق مسائلِ مذہب سے کی گئی ہے ۔ وجود سماوات سبع کی ابطال پر جو دلیلیں ہیں ان کی تردید کس کتاب میں لکھی ہے ۔ اثبات حرکتِ زمین اور ابطال حرکت و دوریٔ آفتاب پر جو دلیلیں ہیں ان کی تردید کس سے جا کر پوچھیں؟ عناصرِ اربعہ کا غلط ہونا جو اب ثابت ہو گیا ہے ، اس کا کیا علاج کریں ؟ پس ایسی حالت میں ان (مذہبی ) کتابوں کا نہ پڑھنا ان کے پڑھنے سے ہزار درجے بہتر ہے ۔ ‘‘ (25)
موجودہ مذہبی فکر کو رد کرنے سے یہ لازم آیا کہ مذہبی عقائد کی نئی توجیہہ کی جائے ۔ چنانچہ سرسید نے قرآنی آیات کی سائنسی اور عقلی تاویلات تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے قرآن کو نیچر کے حوالے سے سمجھنے پر زور دیا جو اس وقت خاص طور پر انگلستان میں ایک غالب تحریک تھی ۔ اسی سبب سے ان کے مخالفین انہیں نیچری کہنے لگے ۔
اس دور میں جن علماء ، مفکرین اور ادباء نے سر سید کی فکر سے اتفاق کیا اور ان کی طرف دستِ تعاون دراز کیا یا اپنے طور پر ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کیں ، ان میں مولانا شبلی نعمانی ، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا الطاف حسین حالی ، مولوی چراغ علی ، مولوی ذکاء اللہ اور محسن الملک خاص طور پر نمایا ں حیثیت کے حامل ہیں ۔
سر سید احمد کے بعد مذہبی فکر کو جس شخص نے اوروں سے زیادہ متاثر کیا وہ شبلی نعمانی تھے۔ وہ ابتداء میں سر سید کی فکر سے متاثر تھے لیکن بعد میں انھوں نے سر سید کی فکر سے کسی قدر انحراف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو جدید مغربی علوم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دینی فکر سے بھی آگاہ ہونا چاہیے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے ندوہ میں ایک ایسے مدرسے کی بنیاد رکھی جہاں دینی علوم کے پہلو بہ پہلو جدید مغربی علوم بھی سکھائے جاتے تھے ۔ ا س ادارے سے فارغ التحصیل افراد ندوی کہلواتے تھے ۔
شبلی نے مسلمانوں کے تابندہ ماضی کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے ذہنوں پر پڑے ہوئے قنوطیت کے پردے کو چاک کرنے کے لیے عظیم مسلمان شخصیتوں پر عالمانہ کتابیں تحریر کیں ۔ ان میں سے حضرت عمر فاروق ؓاور مامون الرشید پر کتابیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ لیکن شبلی کا سب سے بڑا کارنامہ حضرت محمدﷺ کی سیرتِ طیبہ کی تدوین ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے علم الکلام کو بھی نئے سرے سے تازہ فلسفیانہ حوالوں سے مرتب کرنے کی کوشش کی ۔
غرض یہ کہ علی گڑھ تحریک نے اردو زبان و ادب پر گہرے نقوش ثبت کئے ۔ اردو شاعر ی میں جدیدیت کے ابتدائی نقوش علی گڑھ ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوئے ، اگرچہ جدید اردو شاعری کی جنم بھومی لاہور کو سمجھا جاتا ہے ۔ نئے طرزِ بیان کے ساتھ تازہ موضوعات پر نظمیں پہلے پہل علی گڑھ میں یا علی گڑھ تحریک کے زیر اثر ہی تخلیق ہوئیں ۔ یہیں پر اردو کے نامور شاعروں اور ادیبوں کی خفتہ صلاحیتوں کو جِلا ملی اور ان کی شخصیتوں کے نقوش واضح ہوئے ۔
اس تحریک کا مقصد قوم کو اس کی دینی و دنیوی زبوں حالی کا احساس دلا کر خوابِ غفلت سے بیدار کرنا بھی تھا جس میں اس تحریک نے ناقابلِ بیان کامیابی حاصل کی ۔
اقبال کے نسلی و آبائی میلانات
اس سے پہلے جن تحریکات کا ذکر آیا وہ اجتماعی حافظے کا حصہ ہیں۔ یہاں انفرادی سطح پر اقبال کے نسلی و آبائی پس منظر کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ کسی فرد کی شخصیت مختلف عناصرِ ترکیبی سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ اس میں نسلی ورثہ اور ماحول بھی تقریبا برابر حصہ لیتے ہیں۔ والدین اور بزرگوں کی شخصیات اور گھریلو تربیت فرد پر زیادہ گہرے اور دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ نسلی وراثت اور ابتدائی ماحول انھی کی وساطت سے اولاد تک پہنچتا ہے۔
اقبال کے اجداد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے سپرو گھرانے سے تھا۔ اقبال نے محمد دین فوق کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے:
“کشمیری پنڈتوں کی جو گوت سپرو ہے، اس کے اصل کے متعلق میں نے جو کچھ اپنے والد مرحوم سے سنا تھا ٗ عرض کرتا ہوں : جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمۂ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا اور وجوہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے۔ اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کرکے حکومتِ اسلامی کا اعتماد حاصل کیا ٗ وہ سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ ’’س‘‘ تقدم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور ’’پرو‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر پڑھنا کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو ازراہ ِتعریض و تحقیر دیا تھا جنہوں نے قدیمی رسوم و تعلقاتِ قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا ۔ رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیاہے۔”(26)
’’اقبال کے جدّ ِاعلیٰ’بابا لول حج‘ یا’لولی حاجی‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ کی قبر چرار شریف میں احاطہ مزار شیخ نور الدین ولی کے اندر ہے جہاں ان کے مرشد بابا نور الدین بھی مدفون ہیں۔‘‘ (27)
اقبال کی رگوں میں برہمن خون تھا جس میں اعلی فلسفے اور مذہبی تعلیمات کو اپنے اندر سمونے کی بے پناہ سکت موجود تھی۔ بابا لول حج کے قبولِ اسلام کے بعد برہمن رگوں میں اسلام کی تعلیمات گردش کرنے لگیں اور اقبال کے اجداد نے اسلام کی رشد و ہدایت کا وظیفہ شروع کر دیا۔ جاوید اقبال نے سید نذیر نیازی کے حوالے سے علامہ کا یہ بیان نقل کیا ہے:
’’ہمارے والد کے دادا یا پردادا پیر تھے ٗ ان کا نام تھا شیخ اکبر ۔ انھیں پیری اس طرح ملی کہ سنکتھرا میں سادات کا ایک خاندان تھا جسے لوگ سید نہیں مانتے تھے اور اس لیے ان پر ہمیشہ طعن و تشنیع ہوا کرتی تھی۔ اس خاندان کے ایک بزرگ کو ایک روز جو غصہ آیا تو ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ پر بیٹھ گئے جس کے متعلق روایت تھی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یادگار ہے۔ اس کی برکت سے آگ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ مخالفین نے یہ دیکھا تو انھیں یقین ہو گیا کہ فی الواقعہ سید ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا اور ان کے خاندان کی خدمت کرنے لگے۔ ایک مرتبہ اسی خاندان کا ایک فرد والد ماجد کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ دھسّوں کی تجارت کیوں نہیں کرتے؟ اس زمانے میں معمولی دھسّوں کی قیمت دو روپے فی دھسہ سے زیادہ نہیں تھی۔ والد ماجد نے کوئی دو چار سو دھسّے تیار کیے تو قدرت خدا کی ایسی ہوئی کہ سب کے سب اچھے داموں پر بک گئے حالانکہ فی دھسّہ آٹھ آنے سے زیادہ لاگت نہیں آئی تھی۔ دو چار سو دھسّے فروخت ہو گئے تو کافی روپیہ جمع ہو گیا۔ پس یہ ابتدا تھی ہمارے دن پھرنے کی۔ پھر بھائی صاحب بھی ملازم ہو گئے۔‘‘ (28)
اوپر کے اقتباس سے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ روحانی فیض اقبال کی خاندانی میراث رہا اوریہ میراث اقبال کو بھی منتقل ہوئی۔ خود اقبال اللہ کے نیک بندوں سے جو محبت رکھتے تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ٗ جو یقیناً انہیں اپنے اجداد سے ودیعت ہوئی تھی۔ اقبال کے والد ماجد بھی اہل ِباطن میں شمار ہوتے تھے۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ان کے احوال میں رقم طراز ہیں:
’’شیخ نور محمد جو اپنے خاندان میں ’’میاں جی‘‘ اور عرفِ عام میں ’’نتھو‘‘ کہلاتے تھیٗ ایک صاحبِ دل درویش اور صوفی مشرب انسان تھے۔ لیکن اپنی پیری مریدی یا اپنے کمالاتِ باطنی کے اظہار سے محترز رہتے ہوئے دل بیارو دست بکار پر عمل پیرا رہے ۔۔۔ شیخ نور محمد اپنی ذاتی وجاہت ٗ متانت اور پاکیزگیٔ سیرت کی بنا پر شہر میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ علم و عرفان کا ذوق اور دینی جذبہ انہیں علماء و صلحا کی مجالس میں کشاں کشاں لے جاتا تھا اور وہ ان صحبتوں سے برابر استفادہ کیا کرتے تھے ۔‘‘ (29)
اقبال نے اپنے والد کی صحبت سے بہت فیض حاصل کیا۔ وہ ہمیشہ ان کا ذکر احترام اور محبت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اقبال اپنی گفتگو کے دوران میں اکثر اپنے والد کے روحانی احوال بیان کرتے:
’’شیخ نور محمد سلسلۂ قادریہ میں ایک بزرگ سے بیعت تھے اور اقبال بھی کم عمری میں سلسلہ ٔ قادریہ سے وابستہ ہو چکے تھے۔‘‘ (30)
اقبال کے ذہن پر ان کے نسلی اور آبائی میلانات کے اثرات ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی سے اور واضح ہو کر سامنے آتے ہیں اوران سے اقبال کے شعری رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی ایک نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادہ کے نام‘‘ ان کی ذاتی واردات معلوم ہوتی ہے ؎
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے ، لاتی و مناتی
تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد
مری کفِ خاک ، برہمن زاد
ہے فلسفہ ، میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ، ریشہ ہائے دل میں
(کلیاتِ اقبال، ص۔530 )
اقبال کی پرورش ٗ تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں ان کے گھریلو ماحول کا بے پایاں اثر تھا۔ سید نذیر نیازی نے ’’دانائے راز‘‘ میں میر حسن کی زبانی ان کے والد شیخ نور محمد کو ان پڑھ فلسفی قرار دیا ہے(31) ۔ اقبال کے اپنے بیان کے مطابق ابنِ عربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ ان کے گھر میں باقاعدگی سے پڑھی جاتی تھیں۔ اقبال اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کہتے ہیں کہ میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ مجھے تعلیم دلوائیں۔ انھوں نے اول تو مجھے محلے کی مسجد میں بٹھا دیااور پھر شاہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔(32)
مسجد میں عمر شاہ درس دیتے تھے۔ بعد میں انھیں غلام حسن کے مدرسے میں داخل کروایا گیا جہاں سے میر حسن نے انھیں دیکھا اور اپنی شاگردی میں لے لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد ٗ اقبال کی سیرت اور کردار کو شروع ہی سے اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر میں رہتے تھے۔ ایک واقعہ میں انہوں نے اپنے بیٹے کی سرزنش اس بات پر کی کہ اس نے سائل کو چھڑی سے ضرب کیوں پہنچائی ہے کیونکہ یہ رسول اکرم ؐ کے اسوۂ حسنہ کی خلاف ورزی ہے۔ اقبال کو ایک بار ان کے والد قرآن مجید پڑھتے دیکھ کر کہنے لگے کہ ’’قرآن مجید اسی کی سمجھ میں آتا ہے جس پر اس کا نزول ہو ۔۔۔۔۔ اس کی تلاوت اس طرح کیا کرو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔‘‘ (33)
اقبال کا یہ شعر اسی رہنمائی کا حاصل معلوم ہوتا ہے ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشّاف
(کلیاتِ اقبال ، ص ۔402 )
سحر خیزی کی عادت جو ساری عمر اقبال کے ساتھ رہی، اقبال کے گھریلو ماحول کی وجہ سے ہی ان کی طبیعت اور مزاج میں راسخ ہوئی۔
شیخ نور محمد ایک بار اقبال کو ان کے لاہور جانے سے پہلے اوان شریف لے کر گئے تھے اور گمان کیا جاتا ہے کہ اسی سفر کے دوران اقبال کو قاضی سلطان محمود کی خدمت میں پیش کرکے ان سے بیعت کروایا گیا۔ قاضی سلطان محمود سلسلہء قادریہ کے بزرگ تھے۔(34)
اقبال کی نظر میں ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ ِحقیقت ایک طرف تھی۔ (35)
سید میر حسن مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف مائل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک روشن خیال بزرگ تھے۔ انھی کے مشورے پر اقبال کو سکاچ مشن ہائی سکول میں داخل کروایا گیا تھا۔ وہ خود بھی وہیں تعلیم دیتے تھے۔
والدہ کی محبت نے بھی اقبال میں ترقی کی خواہش بیدار رکھی۔ ماں کی خصوصی شفقت اور تربیت کے حوالے سے اقبال نے اپنی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ بہت موثر انداز میں کہی ہے ؎
تربیت سے تیری ، میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
O
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 257 )
والدہ کی وفات پر مہارا جہ سرکشن پرشاد کو ایک خط میں جو صحیفہ کے شمارہ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں شائع بھی ہوا ٗ اقبال نے لکھا تھا کہ ’’میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔‘‘ (36)
خاندانی طور پر تصوف اور دینی علوم سے دلچسپی کے سبب ہی جب اقبال 1905 ء میں یورپ کے لیے روانہ ہوئے تو اس سے پہلے دلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی درگاہ پر حاضری دی اور ان کے مزارِ مبارک پر دلی جذبات سے بھر پور اور مقصدِ سفر پر مبنی ایک اثر آفریں نظم بھی پڑھی۔ (37)
اقبال اور ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی عمروں میں اٹھارہ برس کا فرق تھا۔ انھیں اقبال سے بے پناہ محبت تھی اور وہ ان کی تعلیم کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہے۔ نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ایک شعر انھی کے حوالے سے تخلیق ہوا ہے ؎
کاروبارِ زندگانی میں و ہ ہم پہلو مرا
وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا
(کلّیاتِ اقبال، ص۔258 )
انھی کی ملازمت اور انجینئرنگ کی تعلیم سے اقبال کے خاندان کے مالی حالات بہتر ہوئے۔ اقبال کی تعلیم کے اخراجات کا زیادہ تر بار انھیں نے اٹھایا۔ ’’اقبالِ کامل‘‘ میں عبدالسلام ندوی نے ایک لطیفہ درج کیا ہے جس میں اقبال کی زبانی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ ان کے قیامِ انگلستان اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات زیادہ تر شیخ عطا محمد ہی نے برداشت کیے تھے۔ اقبال نے بھی ساری عمر ان کا ذکر محبت سے کیا اور ان کے احسانات کو یاد کرتے تھے۔ ان کے کلام میں بڑے بھائی کے لیے دعائیہ اشعار ملتے ہیں۔ ان واقعات اور شواہد سے واضح ہے کہ اگر اقبال کے خاندانی حالات ان کی شخصیت کو صحیح رخ پر تعمیر کرنے کے لیے سازگار نہ ہوتے تو وہ اقبال ہر گز نہ بنتے۔
اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں اقبال کا دورانِ تعلیم چودہ پندرہ برس کے لگ بھگ نکلتا ہے۔ یہاں پر انھوں نے علم و حکمت ٗ کلام و الہٰیات ٗ تفسیر و حدیث اور فقہ و تصوف میں درک حاصل کیا اور اس تہذیب و تمدن کے عروج کا بھی جائزہ لیا جو پوری دنیا پر اپنا تسلط جما چکی تھی۔ اس دور میں اقبال انگریزی ادب کا مطالعہ بھی ذوق و شوق سے کرنے لگے تھے جس کا ثبوت شکسپیئر کے ڈرامے کنگ رچرڈ کے متن پرا ن کے تحریر کردہ حواشی سے ملتا ہے۔ (38)
انھوں نے اسی دور میں اپنا تخلص اقبال بھی نام کے علاوہ رقم کرنا شروع کر دیا تھا۔’زبان‘ـ دہلی کے شمارہ نومبر1892 ء میں ان کی شائع شدہ غزل اس امر کی غماز ہے کہ وہ سکول کے زمانے سے شعر کہنے لگے تھے۔ ان کی ایک اور غزل اسی رسالے کے فروری 1894 ء کے شمارے میں چھپی۔ (39)
یہ غزلیں داغ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں اور ان میں کلاسیکی رومانویت پائی جاتی ہے۔ الفاظ کے درو بست پرا ن کی نظرہے اور محسوس ہوتا ہے کہ انھیں شعر کہنے کا سلیقہ ہے۔ سیالکوٹ کے زمانۂ تعلیم میں ان کے ذہن کی تشکیل اس صورت میں ہوئی کہ خیالات میں وسعت اور جامعیت آئی اور حقائق اور مسائل کے شعور اور ان پر خلوصِ نیت سے غورو فکر کی صلاحیت کو جلا ملی۔ عربی زبان پر عبور کی بنیاد بھی یہیں پر پڑی۔ اس زبان کا ان کی شاعری پر گہرا اثر ہے۔ اس کی بلاغت اور فارسی کا حسنِ بیان اور لطافت اقبال کے لیے سیالکوٹ کی دین ہے۔ یہ دور ایک روشن مستقبل کا آغاز اور اس کی اساس تھا۔
حواشی و حوالہ جات
1۔ (ڈاکٹر )وزیر آغا: اردو شاعری کا مزاج، جدید ناشرین ٗ لاہور ٗ 1965 ء ٗ ص۔ 58 ۔
2۔ ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی: قدیم ہندوستان کی تہذیب و ثقافت ٗ فیمس بکس ٗ لاہور ٗ 1989 ئ، ص ۔53 ٗ 54 ۔
3۔ (ڈاکٹر )انور سدید : اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقّیء اردو پاکستان ٗ کراچی، 1985ء ٗ ص ۔146 ۔
4. Will Durant: The Story of Civilization. (Vol: I) Our
Oriental Heritage, Simon and Schuster, New
York, 1954, P.402.
5۔ ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی:کتاب مذکور ٗ ص۔72 ,71 ۔
6. G.T Garret.; Legacy of India, Oxford, 1938,p.97.
7۔ (ڈاکٹر )انور سدید : کتاب مذکور۔ص ۔148 ۔
8۔ ایضاً : ص۔150 ۔
9۔ ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی:کتاب مذکور ٗ ص۔ 148 ۔
10۔ (ڈاکٹر )وزیر آغا : کتاب مذکور ٗ ص ۔77 ۔
11. Wil l Durant: op cit, p.431.
12. (Dr). Radha Krishnan: The Vedanta, London,
1928, p.36.
13۔ (ڈاکٹر )انور سدید: کتاب مذکور ٗ ص۔151 ۔
14۔ ( رائے) شیوموہن لعل ماتھر : قدیم ہندی فلسفہ ٗ ترقئی اردو بیوروٗ نئی دہلی، 1980 ء ، ص۔203 ۔
15. Will Durant: op cit., p. 547.
16۔ )ڈاکٹر (انور سدید : کتاب مذکور ٗ ص۔ 158 ۔
17۔ ( سید) سلیمان ندوی: نقوشِ سلیمانی ٗ دارالمصنفین ٗ اعظم گڑھ ٗ 1939 ئ، ص ۔26 ۔
18۔ )ڈاکٹر (انور سدید : کتاب مذکور ٗ ص۔ 177 ۔
19۔ )سید (علی عباس جلالپوری : روحِ عصر ٗ کتاب نماٗ راولپنڈی ٗ 1989 ء ،ص۔107 ۔
21۔ (ڈاکٹر)انور سدید : کتاب مذکور ٗ ص۔ 282 ۔
22۔ ) شیخ( محمد اکرام: ٗ موج ِکوثر ٗ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ٗ لاہور ٗ 1982 ء ٗ ص۔ 15 ۔
23۔ ایضاً: ص۔ 26 ۔
24۔ ایضاً: ص۔ 77 ۔
25۔ سرسید احمد خان : مقالاتِ سرسید ٗ جلد اول ٗ مجلس ترقیٔ ادب ٗ لاہور ٗ1963 ء ،
ص۔ 97 ۔
26۔ اقبال: کلّیاتِ مکاتیب ِاقبال (جلد سوم ) مرتبہ سید مظفر حسین برنی ، اردو اکادمی ، دہلی ، 1993، ص ۔ 451 ۔
27۔ (ڈاکٹر )جاوید اقبال: زندہ رود، حیاتِ اقبال کا تشکیلی دور ٗ شیخ غلام علی اینڈ سنز ٗ لاہور ٗ 1985ء ٗ ص۔9 ۔
28۔ ایضاً: ص۔9 ۔
29۔ (ڈاکٹر )افتخار احمد صدیقی : عروجِ اقبال ٗ بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1987 ء ٗ
ص۔11 ٗ 12 ۔
30۔ ایضاً: ص۔ 13 ۔
31۔ ( سید )نذیر نیازی:دانائے راز، اقبال اکادمی ٗ لاہور ٗ 1988 ء ،ص۔16 ۔
32۔ ( سید) نذیر نیازی: اقبال کے حضور ،اقبال اکادمی ٗ لاہور ٗ 1981 ء ٗ ص۔ 94 ۔
33۔ ایضاً: ص۔20 ٗ21 ۔
34۔ ( سید) نذیر نیازی : کتاب مذکور، ص ۔19 ۔
35۔ اقبال: مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی مشمولہ اقبال نامہ(حصّہ اوّل) مرتبہ شیخ عطااللہ، شیخ محمد اشرف، لاہور، ص۔ 35 ۔
36۔ (علامہ)اقبال: اقبال بنام شاد،مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1986 ء ٗ ص۔ 109 ۔
37۔ عبدالسلام ندوی : اقبالِ کامل، مطبع معارف ٗ اعظم گڑھ ٗ 1948 ء ٗ ص ۔10 ۔
38۔ خالد نظیر صوفی : اقبال دردنِ خانہ، بزم ِاقبال، لاہور ٗ 1983 ء ،ص۔ 106 ۔
39۔ (ڈاکٹر) جاوید اقبال : کتاب مذکور ٗ ص۔69 ٗ 70 ۔