میں نے اقبال پر ادبی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ لینے کا ارادہ اس لیے کیا تھا کہ کسی روایتی موضوع کی بجائے ایک قدرے تازہ مفروضہ (Hypothesis) قائم کر کے اس کے اثبات کے لیے کام کیا جائے ۔ ارادہ اپنی جگہ اور اس کی بخوبی تکمیل کا مرحلہ اپنی جگہ ، میںاس موضوع سے انصاف کرنے میں کہاں تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ یہ کتاب پڑھنے والے، خاص طور پر اقبال کے سنجیدہ قارئین اور اہلِ دانش ہی کر سکیں گے ۔ بایں ہمہ میری کاوش کا حاصل آپ کے سامنے ہے ۔
دیکھا جائے تو یہ موضوع کچھ ایسا نیا بھی نہیں ہے ، البتہ اسے ایک نئے زاویے سے اقبال کا مطالعہ کہا جا سکتا ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری اور افکار کا تجزیہ عام طور پر بہت سے مفکرین اور شعرا کے افکار سے تقابل کے ذریعے کیا جاتا ہے ، لیکن یہاں آپ کا واسطہ انھی شخصیات سے پڑے گاجو کسی ادبی۔ فکری تحریک یا رجحان کا محور و مرکز رہی ہیں ۔ یہاں شخصیات سے زیادہ تحریکات اہم ہیں ، اور تحریکات بھی وہ جنھوں نے اقبال سے ذرا پہلے یا اقبال کے زمانے میں نشوونما پائی۔ ضروری نہیں کہ اقبال نے انھیں متاثر کیا ہو یا اقبال ان سے متاثر ہوئے ہوں ۔ اس مطالعے کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ اقبال بجائے خود ایک تحریک اور اس تحریک کی روحِ رواں تھے ۔ وہ اپنی وضع کردہ تحریک کا سرِّ آغاز ہی نہیں ، اس کی مرکزی شخصیت ہیں اور یہ تحریک ان کی وفات سے نصف صدی بعد محض فعال ہی نہیں ، وسعت پذیر بھی ہے ۔
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ان ابواب میں ادبی تحریک کو سیاسی – سماجی تحریکوں سے علیحدہ طور پر دیکھنے اور مختصر طور پر اس کی تعریف ، حدود اور خصوصیات متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ اعتقادات ، فلسفیانہ نکات، سیاسی اتار چڑھائو ، معاشرتی عوامل اور علوم ادبی تحریک پر کیونکر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ نیز یہ کہ ادبی تحریک میں کسی عہد کا باطنی مزاج اور ظاہری سمتیں کیسے منعکس ہوتی ہیں ۔ تحریکات کے پس منظر میں کارفرما محرکات اور شخصیتوں کے حوالے سے ادبی تحریکوں کی افزائش اور فروغ پر بھی اجمالی طور پر بحث کی گئی ہے ۔ رجحان کو ہمارے ہاں تحریک کا مترادف خیال کیا جاتا ہے جبکہ رجحان کسی تحریک کا پیش خیمہ تو ہو سکتا ہے ، اسے بذاتہٖ تحریک نہیں کہا جا سکتا ۔ زندگی کی حقیقتوں کے مابین کوئی بھی ادبی یا فکری تحریک کسی مقصد کے بغیر وجود میں نہیں آتی ۔ اس مقصد کے ارفع ہونے میں ہی اس تحریک کی پائندگی مضمر ہے ۔
ہمارے ہاں شعراء اور ادباء کے فن اور شخصیات کے انفرادی مطالعے تو ملتے ہیں ، لیکن ان عوامل کا ذکر نہیں ملتا جن کے تسلسل میں کسی خاص ادبی شخصیت نے ظہور پایا ۔ اقبال جیسے نابغۂ روزگار شاعر کے فن کے ادراک کے لیے از بس ضروری ہے کہ اس کی شاعری کے علمی و ادبی پس منظر سے کماحقہ ، واقفیت حاصل کی جائے ۔ چنانچہ ہند-اسلامی تہذیب کے ارتقاء کے حوالے سے بر صغیر کے مادر سری مزاج ، پدر سری اثرات ، بدھ اور جین مت ، ویدانیت اور بھگتی تحریک سے گزرتے ہوئے ہم اسلامی تصوف تک چلے آتے ہیں ۔ درمیان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومتِ برطانیہ پڑتی ہے اور ہم اقبال کے نسلی و آبائی میلانات کی تخصیص تک آتے آتے سید احمد شہید بریلویؒ کی تحریکِ جہاد اور سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک اور نئے علم الکلام کو چُھو کر گزرتے ہیں ۔
ابتدائی مباحث کی حیثیت الحاقی ہے لیکن موضوع کے حوالے سے ان کی نظری اہمیت اپنی جگہ ہے ۔ ان سے گزرے بغیر ہم جدید ادبی تحریکوں کی روشنی میں اقبال کو نہیں سمجھ سکتے ۔ اقبالؒ محض اردو ادب ہی نہیں بلکہ بین الاسلامی ادب کا وہ مینارۂ نور ہیں جس سے پورا عالمِ اسلام بالواسطہ یا بلا واسطہ طو رپر متاثر ہوا۔ ا ن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے کی سماجی ، سیاسی اور مذہبی تحریکوں کو اپنی لا متناہی تخلیقی فعالیت کے بل پر ادبی تحریکیں بنا دیا اور ان کے امتزاج سے ایک نئی تحریک کی داغ بیل ڈالی ۔ انہوں نے کسی مغربی یا مشرقی فلسفے کو بعینہٖ قبول نہیں کیا بلکہ اپنی حد درجہ تجزیاتی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے امتزاج پر اپنے فن کی بنیادیں استوار کیں ۔ انھی زاویوں سے اقبال کی شاعری کا متعلقہ باب میں جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس حصّے کو مقالے کے قلب کی حیثیت دینی چاہیے ۔ آنے والے ابواب در حقیقت اسی باب کی توسیع ہیں اور ایک بار جب اقبال کو بذاتہٖ ایک تحریک کے طور پر قبول کر لیا جائے تو پھر ان کی اپنی تحریک باقی تمام تحریکوں کا حاصل قرار پاتی ہے ۔ اقبال کی غزلوں ، طویل نظموں اور رباعیات وغیرہ کے تنقیدی مطالعے سے اقبال کا اپنا نظریہ ٔ سخن واضح تر ہوتا ہے ۔ اقبالؒ اپنی تحریک کی مرکزی شخصیت ہیں اور وہی اپنی تحریک کو رجحان کی سطح سے اوپر اٹھا کر تحریک کا درجہ دینے پر قادر تھے۔ وہی اپنی شاعری سے اپنی تحریک کا نصب العین وضع کرتے ہیں اور اپنے زمانے سے اس تحریک کے مقاصد کا تقابل کرتے ہیں ۔ وہ اپنی تحریک کے نتائج دیکھنے کے لیے زندہ نہیں لیکن اس تحریک کی کامیابیاں اقبال کی اپنی پیش گوئیوں کی روشنی میں اور زیادہ معنی خیز ہیں اور اقبال کی تحریک کی زرخیزی اور ہمہ گیر اثرات کے ادراک کے لیے کافی ہیں ۔
اقبال نے اصنافِ ادب پربھی گہرے اثرات مرتب کئے اور اردو کے بعد میں آنے والے شعراء نے ان سے سب سے زیادہ روشنی حاصل کی ۔ آخری باب میں اقبال کی تحریک کے ادبی ثمرات کے ساتھ ساتھ فکری حوالے سے بھی ا ثرات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے افکار کے زاویے دریافت کئے گئے ہیں جو آج بھی اہل فکر و دانش کی روز مرہ بحثوں کا مستقل موضوع ہیں اور جن پر کوئی اور مفکر قابلِ ذکر اضافہ نہیں کر سکا۔
اوپر جن ذیلی موضوعات کا ذکر اجمالاً کیا گیا ہے ، وہ درحقیقت اپنی اپنی جگہ اتنے اہم ہیں کہ ایک ایک مکمل کتاب ہی ان کا علیحدہ طور پر احاطہ کر سکتی ہے ۔ میرا موضوع مختلف الجہات ، وسیع اور متنوع ہے اور اس کے صرف پس منظر کے بیان کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں ۔ تاہم میں نے ان موضوعات کو سمیٹ کر اپنے موضوع کے ساتھ وفادار رہنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کی تسوید کے دوران بے شمار کتابیں نظر سے گزریں لیکن حوالہ صرف انھی کتابوں کا دیا گیا ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس موضوع کے دائرے میں آتی ہیں ۔ میں نے بہرحال گزشتہ مطالعات کی روشنی میں اپنے طور پر غیر جانبدار نتائج تک پہنچنے کی سعی کی ہے ۔
یہ کتاب پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر اردو ادب کے نامور استاد اور محقق ڈاکٹر نجیب جمال کی زیر نگرانی لکھی گئی ہے اور اس علمی مشغلے میں ان کی مشاورت ہر مرحلے پر میرے ساتھ رہی ۔ انھوں نے تحقیق کے امور میںبھی ہر مرحلے پر رہنمائی کی ۔انھوں نے مقالے کے لیے خاکے کی منظوری سے لے کر تکمیل تک قدم قدم پر میرے ذوقِ تحقیق کو مہمیز کیا اور میری ازلی کاہلی کے باوجود میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔
اس موقع پر مجھے ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم بھی یاد آ رہے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کے سب سے پہلے شعبۂ اقبالیات کے صدر تھے اور انھی کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے باعث میں اس قابل ہو اکہ یہ کتاب تحریر کر پایا۔ انھوںنے ہی مجھے اس راستے پر پہلا قدم بڑھانے کا موقع فراہم کیا تھا۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے حالیہ صدر شعبۂ اقبالیات ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے بھی کتابوں کی واپسی کا یقین کئے بغیر مجھے بہت اہم کتب فراہم کیں۔ میں زیر نظر کتاب لکھنے میں تعاون پر ان تمام احباب کا دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
اس کتاب کی تکمیل اور پھر اشاعت سے مجھے ایک گو نہ مسرت حاصل ہو رہی ہے ۔ اگر اہلِ فکر و نظر نے اسے قبولیت سے مشرف کیا تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا ہے ۔
ڈاکٹرخالد اقبال یاسر